علمائے حق کی کتب سے تحریف کرکے قادیانیوں کی دھوکا دہی
س… مکرمی و محترمی مولانا صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ!
ملتان سے آپ کا ایڈریس منگوایا، اس سے قبل بھی میں نے آپ کو خط لکھے تھے شاید آپ کو یاد ہو، مگر اب آپ کا ایڈریس بھول جانے کی وجہ سے ملتان سے منگوانا پڑا۔ عرض ہے کہ میں ایف ایس سی (میڈیکل) کرلینے کے بعد آج کل فارغ ہوں، میڈیکل کالج میں ایڈمیشن میں ابھی کافی دیر ہے، اس لئے جی بھر کر مطالعہ کر رہا ہوں، مجھے شروع ہی سے مذہب سے لگاوٴ ہے، ایک دوست (جو کہ احمدی ہے) نے مجھے اپنے لٹریچر سے چند رسائل دئیے میں نے پڑھے۔ مولانا مودودی مرحوم کے رسائل “ختم نبوت” اور “قادیانی مسئلہ” بھی پڑھے اور احمدیوں کی طرف سے ان کے جوابات بھی۔ مولانا کے دلائل و شواہد کمزور دیکھ کر بڑی پریشانی ہوئی۔ آپ کا پمفلٹ “شناخت” بھی پڑھا مگر اس کا جواب نہیں ملا۔ البتہ آج کل قاضی محمد نذیر صاحب کی کتاب “تفسیر خاتم النبیین” پڑھ رہا ہوں جو آپ کی شائع کردہ آیت خاتم النبیین کی تفسیر کا جواب ہے۔ جس میں آپ نے مولانا محمد انور شاہ صاحب کے فارسی مضمون کا ترجمہ و تشریح کی ہے۔ اصل کتاب نہیں پڑھ سکا اس لئے جواب کے استحکام کو محسوس کرنا قدرتی امر ہے۔ بہرحال احمدی لٹریچر پڑھ کر میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ہمارے علماء کوئی ایسی بات پیش نہیں کرتے جس سے احمدی لاجواب ہوجائیں، وہ ہر ایک بات کا مدلل جواب دیتے ہیں، وہ مشائخ کی عبارت دے کر ثابت کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ وہی ہے جو ان مشائخ عظام کا تھا، اس بات سے بڑی الجھن ہوتی ہے، کیا ہم ان شواہد کو جھٹلاسکتے ہیں، آخر ایسی باتیں لکھنے کا کیا فائدہ جن کا مدلل جواب دیا جاسکتا ہے۔ آخر ایسی باتیں کیوں نہیں لکھی جاتیں جن سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ پھر کسی کو دودھ میں پانی ڈالنے کی جسارت نہ ہو۔ اگر ہم سچے ہیں تو ہماری سچائی مشکوک کیوں ہوجاتی ہے؟
جواب کا انتظار رہے گا۔ احقر عبدالقدوس ہاشمی
ج… اس ناکارہ نے قادیانیوں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور قادیانیوں سے زبانی اور تحریری گفتگو کا موقع بھی بہت آتا رہا ہے، قادینی غلط بیانی اور خلط مبحث کرکے ناواقفوں کو دھوکا دیتے ہیں، ہمارے اور ان کے بنیادی مسائل دو ہیں: ایک ختم نبوت۔ دوسرا نزولِ عیسیٰ علیہ السلام۔ یہ دونوں مسئلے ایسے قطعی ہیں کہ بزرگانِ سلف میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہوا، بلکہ ان کے منکر کو قطعی کافر اور خارج از اسلام قرار دیا گیا ہے۔ قادیانی صاحبان اپنا کام چلانے کے لئے اکابر کے کلام میں سے ایک آدھ جملہ جو کسی اور سیاق میں ہوتا ہے، نقل کرلیتے ہیں، کبھی کسی نے غلطی سے کسی بزرگ کا قول غلط نقل کردیا اسی کو اڑالیتے ہیں، ان کے ناواقف قاری یہ سمجھ کر کہ جن بزرگوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی قادیانیوں کے ہم عقیدہ ہوں گے، دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہاں اس کی صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں، آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ قادیانی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “تحذیر الناس” کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور یہ کہ یہ امر خاتم النبیین کے منافی نہیں، حالانکہ حضرت کی تحریر اسی کتاب میں موجود ہے کہ جو شخص خاتمیت زمانی کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:
“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
(تحذیر الناس طبع جدید ص:۱۸، طبع قدیم ص:۱۰)
اس عبارت میں صراحت فرمائی گئی ہے کہ:
الف…خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
ب:…اس پر تصریحاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
ج:…اس پر امت کا اجماع ہے۔
د:…اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اور پھر اسی تحذیر الناس میں ہے:
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․” (طبع قدیم ص:۹، طبع جدید ص:۱۵)
اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
(ص:۹ طبع جدید)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“البتہ وجوہ معروضہ مکتوب تحذیر الناس تولد جسمانی کی تاخیر زمانی کے خواستگار ہیں، اس لئے کہ ظہور تاخر زمانی کے سوا تاخر تولد جسمانی اور کوئی صورت نہیں۔” (ص:۱۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اور اگر مخالف جمہور اس کا نام ہے کہ مسلّمات جمہور باطل اور غلط اور غیرصحیح اور خلاف سمجھی جائیں، تو آپ ہی فرمائیں کہ تاخر زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا؟ اور کہاں باطل کیا؟
مولانا! میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں اور اہل زبان میں مشہور، کیونکہ تقدم و تاخر مثل حیوان، انواع مختلفہ پر بطور حقیقت بولا جاتا ہے، ہاں تقدم و تاخر فقط تقدم و تاخر زمانی ہی میں منحصر ہوتا تو پھر درصورت ارادہٴ خاتمیت ذاتی و مرتبی البتہ تحریف معنوی ہوجاتے۔ پھر اس کو آپ تفسیر بالرائے کہتے تو بجا تھا۔” (ص:۵۲)
“مولانا! خاتمیت زمانی کی میں نے تو توجیہ کی ہے تغلیط نہیں کی، مگر ہاں آپ گوشہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں۔ اخبار بالعلة مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مصداق اور موٴید ہوتا ہے، اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی کو ذکر اور شروع تحذیر ہی میں ابتدائے مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کردیا۔” (ص:۵۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
“مولانا! معنی مقبول خدام والا مقام․․․․․․․
مختار احقر سے باطل نہیں ہوتے، ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بمقابلہ “قضایا قیاساتھا معھا” اگر من جملہ “قیاسات قضایاھا معھا” معنی مختار احقر کو کہئے تو بجا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر لیجئے، صفحہ نہم کی سطر دہم سے لے کر صفحہ یازدہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں، اور اسی تقریر کو اپنا مختار قرار دیا ہے، چنانچہ شروع تقریر سے واضح ہے۔
سو پہلی صورت میں تو تاخر زمانی بدلالت التزامی ثابت ہوتا ہے اور دلالت التزامی اگر دربارہٴ توجہ الی المطلوب، مطابقی سے کمتر ہو مگر دلالت ثبوت اور دل نشینی میں مدلول التزامی مدلول مطابقی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ کسی چیز کی خبر تحقق اس کے برابر نہیں ہوسکتی کہ اس کی وجہ اور علت بھی بیان کی جائے ․․․․․․․”
“حاصل مطلب یہ کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں، بلکہ یوں کہئے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاوٴں جمادئیے ․․․․․․․” (ص:۷۱)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔” (ص:۱۴۴)
حضرت نانوتوی کی یہ تمام تصریحات اسی تحذیر الناس اور اس کے تتمہ میں موجود ہیں، لیکن قادیانیوں کی عقل و انصاف اور دیانت و امانت کی داد دیجئے کہ وہ حضرت نانوتوی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔ جبکہ حضرت نانوتوی اس احتمال کو بھی کفر قرار دیتے ہیں اور جو شخص ختم نبوت میں ذرا بھی تامل کرے اسے کافر سمجھتے ہیں۔
اس ناکارہ نے جب مرزا صاحب کی کتابوں مطالعہ شروع کیا تو شروع شروع میں خیال تھا کہ ان کے عقائد خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر کسی کا حوالہ دیں گے تو وہ تو صحیح ہی دیں گے، لیکن یہ حسن ظن زیادہ دیر قائم نہیں رہا، حوالوں میں غلط بیانی اور کتربیونت سے کام لینا مرزا صاحب کی خاص عادت تھی، اور یہی وراثت ان کی اُمت کو پہنچی ہے۔ اس عریضہ میں، میں نے صرف حضرت نانوتوی کے بارے میں ان کی غلط بیانی ذکر کی ہے، ورنہ وہ جتنے اکابر کے حوالے دیتے ہیں سب میں ان کا یہی حال ہے، اور ہونا بھی چاہئے، جھوٹی نبوت جھوٹ ہی کے سہارے چل سکتی ہے، حق تعالیٰ شانہ عقل و ایمان سے کسی کو محروم نہ فرمائیں۔