ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
قادیانیت یا کادیانیت اورمرزا غلام احمدکی جھوٹی مہدویت
مولانا شاہ عالم گورکھپوری - بشکریہ : بھائی محسن اقبال قادیان ضلع گورداسپور( پنجاب) کا ایک گاؤں ہے جو ترقی کرکے اب قصبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ مرزا غلام احمد اسی گاؤں میں ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا،یہ تاریخ پیدا ئش خود اسی کی لکھی ہوئی ہے ۔( کتاب البریہ خ ج ۱۳ ص ۱۶۴)
رائے کالی رائے صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ ڈپٹی کلکٹر نے ’’سیر پنجاب ‘‘مؤلفہ ۱۸۴۶ء میں سرکاری طور پر پنجاب کے اہم مقامات کی تاریخ مع وجہ تسمیہ لکھی ہے۔ اس میں تفصیل سے لاہور ، بٹالہ ،گورداسپور ،امرتسر وغیرہ کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن ’’ قادیان ‘‘ نامی کسی جگہ کا تذکرہ نہیں ملتا ۔مرزا کادیانی نے ا س گاؤں کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ اس کا اصل نام ’’اسلام پور‘‘ تھا۔ چونکہ اس علاقے میں بھینسیں زیادہ پالی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے اس کا نام ’’ماجھی‘‘ پڑگیا پھر ’’قاضی ماجھی ‘‘ نام پڑا، پھر بگڑتے بگڑتے قادی اور قادیاں بن گیا ( کتاب البریہ خزائن جلد ۱۳ ص ۱۶۴)اس بات کی تصدیق کسی قدیم مستند تاریخی کتاب میں ہمیں نہیں ملی۔ لہٰذا مرزا کی بیان کردہ تحقیق پر اعتمادکرنے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی۔ ہاں، اس کی بیان کردہ دیگر تواریخ میں غلط بیانی اور جھوٹ کی وجہ سے اس پر اعتماد نہ کرنا ہی مناسب فیصلہ ہوگا ۔مرزا نے بھی مرزائیوں کو اسی بات کی نصیحت کی ہے کہ ’’ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔ ‘‘ ( چشمۂ معرفت خزائن جلد ۲۳ ص ۲۳۱)
قادیان نامی گاؤں کی تاریخی اصلیت کیا ہے؟ اور اس کے صحیح حروف کیا ہیں ؟چھوٹی کاف سے ’’ کادیان ‘‘ لکھا پڑھا جائے یا بڑی قاف سے ’’قادیان ‘‘ لکھا جائے۔ اس سے کسی کو غرض ہی کیا ؟ نہ معلوم کتنے گاؤں کے نام بدلتے بگڑتے رہتے ہیں اورجب کسی گاؤں یا شہرکے نام بدلنے یا بگڑنے سے کسی کے مذہب یا عقیدے میں کوئی فرق نہ آتا ہوتو اس تبدیلی کو موضوع بحث بنانے کی لغویت میں ایک درجہ کا اوراضافہ ہوجاتا ہے ۔لیکن اگراس تبدیلی کا تعلق کسی خاص عقیدہ سے ہو اور مذہب سے یہ معاملہ جڑجاتا ہو توپھر اس کی تحقیق کی اہمیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ؟اور اگر کسی خاص دعوے کا مرکز و محور ہو پھر تو اس کی مکمل تحقیق کرکے مدعی کے صدق و کذب کو واضح کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔
یہی معاملہ لفظ ’’قادیان ‘‘اور مرزا کی مذکورہ تحقیق کا ہے ۔ جب تک مرزا نے اس کو دعوئ مہدویت کے ثبوت میں پیش نہیں کیا تھا تو کسی کو اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن سب سے پہلے ۱۸۹۶ء میں اُس نے اپنے دعوئ مہدویت کے ثبوت میں ا س بات کا انکشاف کیا کہ چودہ سوسال پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کادیان نامی گاؤں کا نام لے کر پیشین گوئی فرمائی ہے کہ اس گاؤں میں مہدی پیدا ہوگا اور نہ صرف یہ کہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کیا بلکہ اس پیشین گوئی کو اپنے دعوئ مہدویت کا ایک بڑا ثبوت قرار دیا ۔
مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ مرزا کادیانی نے مہدی ہونے کا دعویٰ ا س سے بہت پہلے ۱۸۹۱ء میں پیش کردیا تھا لیکن اس دلیل کی خبر اُسے دعویٰ کے کئی سال بعد ۱۸۹۶ء میں ہوئی ۔اس طویل مدت کے دوران فرشتوں کے نام پر اس کے پاس آنے والے شیاطین نے نہ کچھ مرزا کو بتایا اور نہ ہی اس کی ملہمیت کام آئی ۔ بیٹھے بٹھائے اچانک ایک دن اسے ایک ایسی کتاب ہاتھ لگی جس کی خبر چودہ سو سال تک میں کسی محدث مفسر کونہ ہوئی تھی ۔ اس کتاب کے حوالے سے مرزا کے مہدی ہونے کی دلیل خود اسی کے قلم سے پڑھئے۔
’’ شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ میں تالیف ہوئی تھی ۔ مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں: ’’ در اربعین آمدہ است کہ خروج مہدی از قریہ کدعہ باشد ۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج المہدی من قریۃ یقال لہا کدعہ ۔۔۔یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ۔ یہ نام در اصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے۔ ‘‘ ( ضمیمہ انجام آتھم، خزائن ج ۱۱ ص ۳۲۵، مؤلفہ ۱۸۹۶ء)
مرزا کادیانی مسلسل اپنے اس خود ساختہ دلیل کو قوی دلیل منوانے کی فکر میں لگا رہا اور کئی صفحات سیاہ کرڈالے ، لیکن علماء اسلام نے اس جانب کوئی خاص توجہ اس لیے نہیں دی کہ ان کے سامنے مرزا کے اس سے زیادہ اہم دعاوی پہلے سے تھے جوقابل گرفت تھے۔چنانچہ میدان خالی سمجھ کرجو بات جواہر الاسرار اور اربعین کے حوالہ سے تھی۔ مرزا نے جنوری ۱۸۹۸ء کی اپنی ایک تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں اس کو براہ راست احادیث صحیحہ کی صف میں شامل کردیا ۔ اس میں لکھتا ہے:
’’ ایسا ہی احادیث صحیحہ میں یہ بھی بیان فرمایاگیا ہے کہ وہ مہدی موعود ایسے قصبے کا رہنے والا ہوگا جس کا نام ’’ کدعہ یا کدیہ ‘‘ ہوگا ۔ اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ لفظ کدعہ در اصل قادیاں کے لفظ کا مخفف ہے۔ ‘‘ ( کتاب البریہ، خزائن ج ۱۳ ص ۲۶۰، مؤلفہ ۱۸۹۸ء )
ناظرین ! آپ نے دونوں عبارتوں کو بغور پڑھ لیا ہوگا کہ انگریزی دلال کن کن حوالہ سازیوں اور حیلہ بازیوں سے مہدی کے منصب پر براجمان ہونے کی فکر میں ہے ۔مرزا کی ان شاطرانہ چالوں کے پیش نظر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کومرزائیت کی گمراہی سے بچانے کے لیے لفظ ’’ کدعہ اور قادیان‘‘ کی تحقیق اب ہر پڑھے لکھے شخص کی مجبوری بن جاتی ہے تاکہ ا س کی حقیقت کے تناظر میں مرزا کے جھوٹے دعویٰ کو طشت از بام کیا جاسکے ۔
اس سلسلہ میں ہمارے قارئین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ’’ جواہر الاسرار‘‘ نامی کتاب حدیث شریف کی نہ کوئی مستند و معتبر کتاب ہے اور نہ ہی شیخ حمزہ کوئی محدث ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ جس کتاب کے حوالے سے یہ خود ساختہ دلیل پیش کی جارہی ہے۔ عوام کے سامنے نہ مرزا نے اس کا کوئی نسخہ پیش کیا،اور نہ ہی کوئی مرزائی پیش کرسکتا ہے ۔اس موقع پر پڑھے لکھے لوگوں کو جو حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس پر نہیں کہ مرزا ہوا میں تیر چلا رہا ہے بلکہ ا س کی دلیری اور بے حیائی پر ہوتی ہے کہ کسی کے سر کچھ کا کچھ منڈھ دینے اور کچھ کا کچھ بنا دینے میں وہ کس قدر بے باک ہے ۔مرزائیوں سے مذکورہ کتاب طلب کی جاسکتی ہے کہ کہاں شیخ حمزہ نے لکھا ہے اور ’’ کدعہ ‘‘ دال کے ساتھ کہاں لکھا ہے جو قادیان کا معرب ہوگیا ۔یہ سب کچھ مرزا کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے اور بس!
ایک ضعیف درجہ کی حدیث میں ’’ یخرج المہدی من قریۃ یقال لہا کرعہ ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں یعنی حرف ’’ را‘‘ کے ساتھ ’’ کرعہ ‘‘ ہے نہ کہ ’’ دال ‘‘ کے ساتھ یا ’’ کدیہ ‘‘ ’’ ی‘‘ کے ساتھ ۔جس کو میزان الاعتدال میں علامہ ذہبی ؒ نے نقل کرکے اسکے ضعیف راویوں پر سخت جرح کی ہے اور اس کو موضوع بتایا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۲ ص ۶۸۰) یعنی موضوع حدیث میں اگر کوئی لفظ ہے بھی تو ’’ کرعہ ‘‘ چھوٹی کاف اور ’’ را‘‘ کے ساتھ ہے اور تمام محدثین نے ا س کی وضاحت کی ہے ۔ اس سے مراد یمن کی ایک بستی ہے نہ کہ ہندوستان کا قادیان نامی گاؤں جس کو مرزا نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ قادیان میں ناپاک فطرت یزیدی الطبع اور پلید لوگ رہتے ہیں ۔( ازالۂ اوہام )
اگر مرزا کی مراد یہی حدیث ہے تو ظاہر ہے کہ مرزا کادیانی نے اس میں بہت بڑی خیانت کی ہے۔
(۱) سب سے پہلے حرف’’ ر ‘‘کو ’’د‘‘ سے بدل دیا ۔ کرعہ کو کدعہ کردیا۔
(۲)دوسرے نمبر پر’’کادیان‘‘ کے حروف سے مشابہت پیدا کرنے کے لیے کدعہ کو بھی ’’ کدیہ ‘‘ بنادیا یعنی حرف ’’ع‘‘ کو ’’ ی ‘‘ سے تبدیل کردیا ۔
(۳) تیسری خیانت یہ کی کہ ’’ کرعہ ‘‘ لفظ کو ’’ کادیان ‘‘ کا ایک جگہ معرب بتایا اور دوسری جگہ ’’ مخفف ‘‘ بتادیا ۔معرب کا مطلب تو یہ ہوگا کہ عجمی لفظ کو عربی میں بدل دیا گیا ہے اور مخفف کا مطلب یہ ہوگا کہ عربی میں تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ اس عجمی لفظ میں بعض حروف کو حذف کیاگیا ہے۔پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ عجمی لفظ کی عربی بنانے یا کسی لفظ میں تخفیف کرنے کے قواعد الگ الگ ہیں اور دونوں قواعد یہاں نہیں پائے جاتے ۔یہ سب کچھ خواہی نہ خواہی قادیان کو حدیث کا مصداق بنانے کے دھن میں اندھے پن کا کرشمہ ہے ۔
(۴) چوتھے نمبر پر آپ غور کریں کہ ان ساری خیانتوں پر جھوٹ کا پشتارا یہ چڑھایا کہ ’’ احادیث صحیحہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے ‘‘ یعنی ایک دو حدیث نہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا بہت سی صحیح احادیث میں مہدی کے ’’کدعہ یا کدیہ‘‘ نامی گاؤں میں آنے کا ذکر ملتا ہے ۔جبکہ ایک جگہ جب خود کو احادیث کا مصداق بنانے سے قاصر رہتا ہے تو اپنی سابقہ تحریروں کے خلاف فروری ۱۸۹۹ء میںیہ بھی لکھ دیتا ہے کہ مہدی کے سلسلے میں جتنی روایات ہیں یا تو سب موضوع اور غلط ہیں۔ ہرگز قابل وثوق و قابل اعتبار نہیں یا پھرضعیف، متناقض اور پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں ۔ اور اگر کچھ صحیح ہیں بھی تو کسی پہلے زمانے میں وہ پوری ہوچکی ہیں اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں ۔ (خلاصہ حقیقت المہدی،مؤلفہ ۱۸۹۹ء)سوال یہ ہے کہ جب نہ کوئی صحیح حدیث ہے نہ حالت منتظرہ باقی ہے تو کادیان کو کرعہ کی مصداق بنانے والی بے شمار صحیح احادیث کہاں سے ٹپک پڑیں ؟
(۵) اور اپنی تحقیق ایسی کتاب کی جانب منسوب کردی جس کا کچھ پتا ہی نہیں ۔اور بفرض محال اگر جواہر الاسرارنامی کوئی کتاب ہو بھی تو ا س میں یہ روایت حرف ’’را‘‘ کے ساتھ درج ہوگی جیسا کہ دیگر محدثین نے لکھا ہے نہ کہ ’’دال ‘‘ کے ساتھ ہوگی جس کو مرزا نے قادیان کا معرب بنا دیا اور اس پر اپنی جھوٹی مہدویت کی عمارت کھڑی کر لی۔
مذکورہ روایت کے سلسلے میں اس مختصراً وضاحت کے بعد قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بقول مرزا ’’ قادیان ‘‘ کی عربی’’ چھوٹی کاف‘‘ سے ’’ کدعہ ‘‘ بنائی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بڑی ’’ قاف ‘‘ کہ جگہ چھوٹی کاف کا حرف ادا ہوا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اہل عرب کے نزدیک ’’ ق اور الف ‘‘ مستعمل نہیں جو عجمی نام کی عربی بنانے کے لیے خواہمخواہ ’’ ک‘‘یا ’’ د‘‘ کے بعد ’’ ع ‘‘ کو مستعار لیاگیا ؟ ا س سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل لفظ ’’قادیان ‘‘بھی نہیں بلکہ ’’ گادیان‘‘ یا ’’ گدہان ‘‘ہوگا ۔ چونکہ اہل عرب ’’ گ ‘‘ اور’’ دھ ‘‘نہیں استعمال کرتے تو ان کی جگہ ’’ ک ‘‘ اور ’’ ع ‘‘کولے لیا گیا ہوگااور مرزا کی تحقیق کے مطابق ’’ماجھی ‘‘ جو بولا جاتا ہو وہ اس وجہ سے ہو گا کہ وہاں گدھے زیادہ پالے جاتے ہوں گے۔ مرزا جی نے جیسے ’’ را‘‘ کو ’’ دال‘‘ سے بدل دیا ویسے ہی گدھوں کو بھینسوں سے بدل دیا ہے ۔
انگریزی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بڑی قاف کی آواز انگریزی میں نہیں ہے۔ اسی لیے’’Q‘‘ کا تلفظ ’’ کیو‘‘ یعنی کاف سے ہوتا ہے۔جہاں Qلکھا جاتا ہے وہاں چھوٹی کاف سے اس کا تلفظ ہوگا۔ مثلاً ایک دوا ساز کمپنی کا نام ہے MAQS REMEDIES اس میں ’’Q‘‘کا اردو ’’ میکس ‘‘ لکھا جاتا ہے۔اسی طرح جہاں QADIYANلکھا گیا ہے۔ وہاں اردو میں یا عربی میں ’’ کادیان ‘‘ لکھا ،پڑھا جائے گا ۔ ہاں جس جگہ اصل اردو اور عربی میں بڑی قاف لکھی ہو تو اس کی انگلش میں Qکا حرف لایا جاتا ہے ۔جیسے ’’قرآن ‘‘کی انگلش QURANلکھی جائے گی ۔اس قاعدے کے اعتبار سے بھی جب اصل عربی میں بقول مرزا ’’ کاف ‘‘ ہے تو اگرچہ اس کی انگلش میں Qلکھا گیا ہے لیکن اردو بناتے اور لکھتے وقت چھوٹی کاف سے کادیان ہی لکھا جائے گا نہ کہ قادیان ،اس لیے کہ جہاں بھی Q ہو اس کو بڑی قاف سے پڑھا جائے ایسا نہیں ہے ۔گویا انگریزی تلفظ کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے( انگریز جس کی خدمت مرزا جی ساٹھ سال تک بقول خود کرتے رہے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے ستارہ قیصریہ و تحفہ قیصریہ )تو بھی قرین انصاف یہی قرار پاتا ہے کہ اردو میں قادیان QADIYAN کو ’’ چھوٹی کاف ‘‘ سے ’’کادیان ‘‘ ہی لکھا جائے جس سے مرزائیوں کی اصلیت معلوم ہوتی ہے اور رسم الخط کے ساتھ ’’ کیو ‘‘ کی صوتی مشابہت بھی باقی رہتی ہے اور مسلمانوں کو تو مرزائیوں کی اصلیت کا لحاظ کرکے کادیان ہی لکھنا پڑھنا زیادہ مناسب ہے ۔کیوں کہ یہی حروف مرزا کی جھوٹی مہدویت کا حقیقی ترجمان ہیں کہ وہاپنے دعوے میں مہا مکار اور جھوٹا ہے ۔ بہر کیف انہی حقائق کے پیش نظر راقم سطور کے مضمون میں قادیانی کی جگہ ’’ کادیان ‘‘ لکھا ملے گا ۔
میڈیا میں اسلامی تعبیرات اور فتنۂ کادیانیت :
مرزا کادیانی نے جب انگریزوں کے اشارے پرفتنۂ کادیانیت (نہ کہ قادیانیت )کو جنم دیا تو اس نے اپنی مکروہ تحریک کو فروغ دینے کے لیے اُن اسلامی اصطلاحات کے استعمال کا سہارا لیا جن سے غیر شعوری طور پر حق و باطل کا امتیاز اٹھ جائے یا کم از کم اتنا تو ضرور ہوجائے کہ عوام الناس شبہ میں پڑ جائیں کہ حق کیا اور باطل کیا ہے ۔چنانچہ اس حقیقت کیاعتراف کے باوجود کہ کادیانیت کا مسلمانوں سے یا دین اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ کادیانی ہمیشہ خود کو مسلمان ہی کہلانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ایک طرف مسلمانوں کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے بغاوت کا جھنڈا بلند کرکے مرزا کادیانی کی’’ خود ساختہ نبوت‘‘ کو مدار نجات مانتے ہیں اور دوسری طرف اپنی نوزائیدہ تحریک کے لیے زبان و اصطلاح و ہ استعمال کرتے ہیں جو مسلمان استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ تاکہ حقیقت سے ناواقف مسلمانوں کا فکر و شعوریک لخت کادیانی تحریک کی نسبت بد ظنی کی طرف مائل نہ ہو۔اسلامی اصطلاحات اور مسلمانوں کی زبان کا استعمال کادیانیوں کا وہ مضبوط اور منصوبہ بند ہتھکنڈہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو بڑی آسانی سے اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔
فتنۂ کادیانیت کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت کوخوب سمجھتے ہیں کہ اگر کادیانیوں کا رابطہ مسلمانوں کی زبان و اصطلاح سے توڑ دیاجائے تو یہ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ کیوں کہ زبان و اصطلاح میں فرق پاکر ایک ناخواندہ مسلمان بھی مسلمانوں کا لبادہ اوڑھنے والے کادیانی بھیڑیے کی آوازکو اپنی فطری قوت سے محسوس کرے گا اور کسی شک و شبہہ میں پڑے بغیر بڑی آسانی سے خود کو محفوظ رکھنے کے سامان فراہم کر لے گا ۔ہر مسلمان کے اندر خداداد ایمانی غیرت و حمیت ہوتی ہے ۔ کادیانیوں کی آواز پہچان لینے کی صورت میں مسلمان خود اپنی اندرونی قوت کی بنیاد پر کادیانی فتنہ سے بچاؤ اور اپنے ایمان کی حمایت و حفاظت کرے گا۔ کسی خارجی قوت و سہارے کی اُسے بہت کم ضرورت ہوگی ۔
کادیانیوں کے منشاء کے مطابق کادیانی فتنہ کے آغاز سے ہی علماء امت کی کوشش رہی ہے کہ کادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین ویساہی خط امتیاز قائم کیاجائے جیساکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ہے ۔تاکہ معاشرت ، عبادات، طرز عبادات، حتی کہ مذہبی اصطلاحات اور زندگی کے ہر ہر معاملے میں دونوں کو ایک دوسرے کی شناخت میں کوئی دشواری نہ ہو۔ چنانچہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان یا عیسائیوں اور مسلمانوں کے در میان یہ خط کھنچ جا نے کے بعد کوئی مسلمان کسی عیسائی کے معبد کو مسجد یا کوئی عیسائی کسی مسلمان کے معبد کو چرچ کبھی نہیں کہتا ۔کیوں کہ جب نبی اور مذہب الگ تومذہبی اصطلاحات و زبان بھی الگ ہوگئیں ۔ عیسائی اپنے معبد کا نام چرچ رکھتا ہے تو مسلمانوں نے بھی اُسی نام سے اُس کو یاد کیا ۔مسلمانوں نے اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھا تو عیسائیوں نے بھی اس کو قبول کیا۔ گویا آپس میں ایک دوسرے سے امتیازی سرحد قائم کرنے میں دونوں کی باہمی کوششو ں کا دخل ہے اورمذہبی معاملات میں دونوں ایک دوسرے سے ممتاز و علیحدہ رہنے میں ہی خوش ہیں اور اسی میں اپنی خوشگوارزندگی تلاش کرتے ہیں۔لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے برعکس کادیانیوں کی ایک دوسری خطرناک پالیسی یہ بھی ہے کہ اگرچہ انھوں سے از خود مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اورطرفہ تماشہ یہ کہ صرف اور صرف ہندستان پر قابض انگریزی حکومت کو استحکا م بخشنے کی خاطر مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی، پھر بھی وہ مسلمانوں میں ہی گھلا ملا رہنا چاہتے ہیں۔ علیحدگی کے باوجود مسلمانوں سے دوری اور امتیازی سرحد گویا اُن کے لیے موت اور مٹ جانے کے مترادف ہے ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۴ء کے مابین سب سے پہلے اسلام مخالف نظریات و خیالات اپنا کرخود مرزا کادیانی نے اسلام اور مسلمانوں سے اپنا راستہ الگ کیا ۔آہستہ آہستہ اس کے کفریہ خیالات اورانگریز نوازی کے حقائق سے آگاہی کے بعد مسلمانوں نے بھی مذہب اسلام سے مرزا کادیانی کی علیحدگی کو تسلیم کرلیا اور اس کو اسلام سے خارج مان لیا۔ کچھ دنوں کے بعددسمبر۱۸۸۸ء میں مرزا نے یہ بھی اعلان کردیا کہ اس کے ماننے والے مرزائی الگ اور اس کے نہ ماننے والے مسلمان الگ ۔ چنانچہ دونوں کے مابین حد فاصل قائم کرنے کے لیے اس نے اپنے ماننے والوں کا نام مسلمانوں سے الگ تجویز کرکے ’’ احمدی ‘‘ رکھا۔
اس دوران ۱۸۹۰ء سے مسلمانوں کو محض علمی مسائل میں الجھائے رکھنے کی خاطرسابقہ مدعیان مہدویت و مسیحیت ، بطور خاص بہاء اﷲ ایرانی اور سید محمد جونپوری کے دعاوی سے سرقہ کرکے کبھی حیات و وفات عیسیٰ کا مسئلہ اور کبھی خود کو مہدی بنانے کا مسئلہ بھی چھیڑتا رہا لیکن یہ دعاوی منزل مقصود یا منزل کا آخری پڑاؤ نہ تھے ۔ اسی لیے اپنی علیحدگی اور اپنی جماعت کی مسلمانوں سے علیحدگی کے اعلان کے بعد تیسرے مرحلے میں اس نے یہ قدم بھی اٹھایا کہ پہلے وہ خود کو ’’مسلمان‘‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ماننے والا’’ امتی ‘‘کہاکرتا تھا ،لیکن جب دیکھا کہ جماعت میں کچھ الّو پھنس گئے ہیں تو اپنا نام بھی الگ تجویز کرلیا اور ۱۹۰۱ء میں واضح لفظوں میں یہ اعلان کردیا کہ اب اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’امتی‘‘ کہنے کی بجائے ’’صاحب شریعت نبی ‘‘کہاجائے اور اس طرح اس نے اُس حد کو عبور کرلیا جس کے بعد اب کسی جہت سے بھی اسلام اور مسلمانوں سے اس کا یا اس کی خود ساختہ جماعت کا واسطہ نہیں رہ جاتا اور یہی وہ آخری منزل تھی جس کے لیے کبھی خادم اسلام، کبھی مجدد ، کبھی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو مردہ ثابت کرکے خود ہی عیسیٰ ابن مریم بن جانے اور کبھی مہدی ہونے کے تانے بانے ۱۸۸۰ء سے ۱۹۰۰ء تک بنے جاتے رہے ۔
انگریزی نبوت کے اعلان کے بعدپھر حیثیت اور مقام و مرتبہ میں تبدیلی آنی ہی تھی ۔ چنانچہ یہاں بھی اس نے خود کو اسلام اور مسلمانوں سے الگ کرلیا اور یہ اعلان کیا جو حیثیت مسلمانوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ جو اُن کو مدار نجات مانے وہی مسلمان کہلائے گا ۔ اب وہی حیثیت کادیانی تحریک میں مرزا کی رہے گی کہ جو اسے مدار نجات مانے صرف وہی کادیانی کہلائے گا اور صرف اسے ہی نجات ملے گی اوراگر کوئی شخص اُن نظریات و خیالات کو مانے جو مرزا نے اختراع کیے ہیں لیکن مرزا کو نہ مانے بہاء اﷲ یا کسی اور کو مانے تو نہ وہ نجات پائے گا نہ وہ ’’ احمدی ، کادیانی ‘‘ کہلائے گا ۔ان حقائق کو مختصراً ذرا مرزا کادیانی کے الفاظ میں ملاحظہ کرتے چلیے تا کہ دعویٰ محض دعویٰ نہ رہ جائے ۔ ایک اشتہار’’ معیارالاخیار ‘‘ میں مرزاکادیانی نے الہام کے نام پر اپنا ایک’’ اشلوک‘‘ اس طرح لکھا ہے:
’’ جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور صرف تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے ۔‘‘ ( اشتہار معیارالاخیار صفحہ ۸ مطبوعہ ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ء مجموعہ اشتہارات ۲۷۵ج ۳ )
اس کے بعد دسمبر ۱۹۰۰ء میں اپنے خود ساختہ نظام کو ’’شریعت ‘‘اور ہذیان کو ’’ وحی ‘‘ اور دام اُفتادہ مرزائیوں کو ’’اُمت‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتا ہے :
’’ ما سوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے، جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند ا مر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قا نون مقرر کیا وہی صاحب الشر یعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کے روسے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میر ی وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قل للمو منین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذالک ازکیٰ لہم برا ہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی اور نہی بھی اور اس پر تئیس بر س کی مدت بھی گزرگئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی ۔‘‘ (اربعین ،خزائن جلد ۱۷ ص ۴۳۵، دسمبر ۱۹۰۰ء)
مذکورہ بالا عربی عبارت بقول مرزا کادیانی ،قرآن کی آیت نہیں بلکہ مرزائی ’’ اشلوک ‘‘ کہاجائے یا ’’منتر‘‘ کہا جائے۔ اُس میں لفظ’’ قُل ‘‘سے امر یعنی حکم کا پتا تو چلتا ہے لیکن ’’ نہی ‘‘ یعنی منع کس لفظ سے معلوم ہوتا ہے یہ معمہ تو مرزائیوں سے حل کیجئے گا ۔ البتہ اس کے بعد ’’ امر و نہی ‘‘ پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے اپنی ہفوات و خرافات کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سے تشبیہ دے کر خود کو کس طرح’’ مدار نجات‘‘ منواتا ہے۔ وہ بھی پڑھتے چلیے :
’’ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے ا س کو مدار نجات ٹھہرایا۔ ‘‘( حاشیہ اربعین ص ۴۳۵)
یہ حقیقت واضح رہے کہ ۱۹۰۰ء سے پہلے مرزا کادیانی موقع پاکر کبھی نبوت کا دعویٰ کرتااور کبھی خطرہ محسوس کرتا تو انکار بھی کردیتا تھا لیکن۱پنے مرنے سے پہلے ۲۳مئی ۱۹۰۸ء میں جو اس نے تحریر لکھی ہے۔ اُس سے دعوئ نبوت یعنی ۱۹۰۱ء کے بعد سے مرنے تک کی جوکیفیت واضح ہوتی ہے ۔ وہ بعینہٖ بلکہ اسی کے رسم الخط میں ملاحظہ کیجئے:
’’جناب ایڈیٹر صاحب اخبار عام (لاہور) پرچہ اخبار عام ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا مینے( میں نے )جلسۂ دعوت میں نبوت سے انکار کیا ۔ اس کے جواب میں واضح ہو کہ ۔۔۔ میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتاہوں میں اسپر( اس پر)قائم ہوں اس وقت( اس وقت ) تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔ ‘‘ ( کادیانی اخبار بدر جلد ۷ مورخہ ۱۱ جون ۱۹۰۸ء ،حقیقۃ النبوۃ ص۲۷۰ تا ۲۷۱
مرزائیوں کے دوسرے نمبر کے گدی نشین مرزا محمود نے اسلام اور مسلمانوں سے مرزائی گروپ کے علیحدہ ہونے اور دونوں کے مابین امتیازی سرحد قائم کرنے کے سلسلے میں یہ جج منٹ دیا ہے :
’’ جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے۔ وہ یقیناحضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے ؟ کیا کوئی غیر احمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی لڑکی دے دے ؟ ان لوگو ں کو تم کافر کہتے ہو مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہوکر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے مگر تم احمدی کہلاکر کافر کو دیتے ہو ؟ کیا اس لیے دیتے ہو کہ وہ تمھاری قوم کا ہوتا ہے ؟ مگر جس دن سے کہ تم احمدی ہوئے تمھاری قوم تو احمدیت ہوگئی۔ شناخت اور امتیاز کے لیے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتا سکتے ہو ۔ ورنہ اب تو تمھاری قوم ، گوت تمھاری ذات احمدی ہی ہے پھر احمدیوں کو چھوڑ کر غیر احمدیوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو، مومن کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جب حق آجائے تو باطل کو چھوڑ دیتا ہے ۔‘‘ ( ملائکۃ اﷲ از مرزا بشیر الدین محمودصفحہ ۴۶،۴۷مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ )
اور مرزا کادیانی کے ایک حوالی مسٹر محمد علی لاہوری نے انگریزی ریویوآف ریلیجنز میں مسلمانوں اور مرزائیوں کے مابین خط امتیا ز کو واضح کرتے ہوئے ا س طرح لکھا ہے کہ :
The Ahmadiyya movement stands in the same relation to islam in
( منقول از مباحثہ راولپنڈی ص ۲۴۰ مطبوعہ قادیان و تبدیلی عقائد مؤلفہ محمد اسماعیل قادیانی ص ۱۲ مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر کراچی)
اس میں محمد علی لاہوری نے ’’ احمدیت‘‘ کو ’’ اسلام‘‘ سے اسی طرح الگ قراردیاہے جس طرح عیسائیت یہودیت سے بالکل الگ مذہب ہے۔
اور مرزا غلام کادیانی کے منجھلے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم، اے ، لکھتے ہیں :
’’ ہرایک ایسا شخص جو موسیٰؑ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد ؐ کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکاکافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔‘‘ ( کلمۃ الفصل صفحہ ۱۱۰ مندرجہ ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۱۴ نمبر ۳ ۔ ۴مارچ واپریل ۱۹۱۵ء)
۱۹۰۱ء سے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء مرزا کے مرنے تک، مرزا کی لکھی ہوئی کتابوں کا آپ مطالعہ کریں تو جا بجا یہ حقائق نظر آئیں گے کہ جب کسی نے مرزا کی دورخی پالیسی پر نکیر کی کہ مرزا پر خالص اسلامی اصطلاح لفظ ’’ نبی ‘‘ کا استعمال کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ جبکہ مرزا جی کا نام ونسب اور شخصیت الگ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس الگ ہے تو کبھی مرزا کادیانی ، سوال کرنے والوں کو ڈانٹ پلاتا ہوا نظر آئے گا اور کبھی طفل تسلیوں میں مبتلا رکھنے کے لیے مضحکہ خیز تاویلات کے طومار کھڑا کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ایک موقع پر جب کوئی جواب بنتا نظر نہیں آتا تو جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر یہاں تک لکھ مارتا ہے کہ لفظ نبی کے استعمال پر مجھ سے کیوں لڑتے ہو جاؤ خدا سے لڑو کہ اُس نے مجھے اس تعبیر سے کیوں یاد کیا ہے ۔
ایک موقع پر یہ جواب دیتا ہے کہ لفظ نبی اگر میں نے اپنے اوپر استعمال کرلیا تو تعجب کی بات کیا ہے ؟ میں تو براہ راست (نعوذ باﷲ )’’ محمد ‘‘ ہی ہوں جو دوبارہ کادیان میں جنم لے کر آیا ہوں ۔اس طرح محمد کی نبوت محمد ہی کو ملی صرف ڈھانچہ اور جگہ بدل گئی تو اب اعتراض کی کیا بات ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے اس ملحدانہ فلسفے کی عبارت خود اسی کے قلم سے :
’’ میں بموجب آیت وآخرین منہم لما یلحقوا بہم بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں صلی اﷲ علیہ وسلم ۔ پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محمدود رہی یعنی بہرحال محمد صلی اﷲعلیہ وسلم ہی نبی رہے نہ اور کوئی ۔ یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمّدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہوئی پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا ۔‘‘ ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۱۰، ۱۱ مطبوعہ ربوہ ، خزائن ص ۲۱۲جلد ۱۸ )
مرزا کے بیٹے سے کسی نے کہا کہ جب نام ، کام ، مقصد، جگہ ،زمانہ سب کچھ مسلمانوں سے الگ ہے تو پھر ’’ کلمہ ‘‘ بھی کیوں نہ بدل لیا جائے ؟ تو اس کے جواب میں وہ لکھتا ہے :
’’ پس مسیح موعود( مرزاکادیانی ) خود محمد رسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کو کسی نئے کلمے کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر محمد رسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورتپیش آتی ۔‘‘( کلمۃ الفصل ۵۸ ۱)
ہمارے قارئین نے اس سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ مسلمان اور کادیانی کسی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ایک ہوسکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان ایسا ہمہ جہت شناختی سرحد قائم ہے کہ جس کا لحاظ نہ کرنا ایک بدیہی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔ پھر سوال یہ ہے کہ ایک زبان اور ایک اصطلاح میں دونوں کیسے جمع ہوسکتے ہیں ۔ اگر مسلمانوں کو مسلمان کہا جائے تو کادیانیوں پر’’ مسلم ‘‘ لفظ کا لاحقہ کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟اگر مسلمانوں کے معبد کو مسجد کہاجائے تو کادیانیوں کے معبد کو ’’ مسجد‘‘کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ چنانچہ مسلمانوں نے مرزا کادیانی کے منشاء کے مطابق اس کے تمام اعلانات کو قبول کرتے ہوئے اور مرزائیوں کے قائم کردہ سرحدوں کا لحاظ کرتے ہوئے اُنھیں اُن ناموں سے یاد کرنا شروع کردیا جس کے وہ مستحق تھے ۔ مثلاًمرزا کواور اس کے ماننے والوں کو مرزائی ، کادیانی ،یا کافر وغیرہ ناموں سے، مرزائیوں کے معبد کو مسجد کی بجائے ’’مرزاڑا‘‘ یا کادیانی مندر وغیرہ الفاظ سے ، اُن کے ہاتھ سے کاٹے ہوئے جانور کو ’’ذبیحہ ‘‘ کی بجائے ’’مردار ‘‘ کے لفظ سے اُن کی عبادتوں کو نماز کی بجائے ’’ پوجا پاٹ ‘‘ کے لفظ سے ،یہاں تک کہ مرزا نے کہا کہ احادیث صحیحہ میں ’’ یخرج المہدی من قریۃ یقال لہا کدعۃ ‘‘ میں کدعہ سے مراد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قادیان کو مراد لیا ہے اور عربی میں چھٹے کاف سے’’ کدعہ ‘‘کہا ہے۔ ( خلاصہ کتاب البریہ خزائن ج ۱۳ ص ۲۶۰)تو مسلمانوں نے اسے بھی قبول کرتے ہوئے ، قادیان نامی گاؤں کواس کی اصلیت کا لحاظ کرتے ہوئے ’’ کادیان ‘‘ یعنی چھوٹے کاف سے لکھنا بولنا شروع کردیا۔ تاکہ مرزائیوں کے منشاء کے مطابق مسلمانوں اور کادیانیوں کے مابین واضح دوری دکھائی دے ۔ لیکن اِن واضح حقائق کے باجود مرزائیوں نے یہ بھی کوشش کی کہ اگر مسلمانوں سے زبان و اصطلاح میں بھی علیحدگی اختیار کی گئی تو پھر اسلام اور کادیانیت کے مابین مشرق و مغرب کا فرق واضح طور پر دکھائی دے گا اور کوئی مسلمان کادیانیت کے دام تزویر میں نہیں پھنسے گا ۔اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو دھوکہ میں مبتلا رکھنے کے لیے اپنی عبادات اور روز مرہ کے معاملات میں انہی تعبیرات و اصطلاحات کو اپنائے رکھا جو مسلمان پہلے سے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔مثلاً نماز ،روزہ ، جج زکوٰۃ ، مسجد ، مدرسہ ، قبرستان ، دفن، کفن، سلام ، وغیرہ تاکہ ایک عام آدمی کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ کادیانیت اور اسلام میں کوئی فرق بھی ہے ۔ بلکہ حدیث شریف میں جن الفاظ سے مرزا کے لیے بقول ان کے پیش گوئی کی تھی اس کو مسترد کرتے ہوئے کادیان کو چھوٹے کاف سے لکھنے کی بجائے قادیان لکھنا لکھانا شروع کردیا ۔یعنی جس دلیل کی بنیاد پر مرزا مہدی بننا چاہتا ہے اس کی جڑہی کاٹ ڈالی ۔
بہر کیف یہ صورت حال بھی کچھ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی۔ وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزا کادیانی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا لیکن اب یہ ا قدام حکومت برطانیہ کے بل بوتے کس قدر جارحانہ ہے ۔ اس پر غور کیجئے کہ اب واضح لفظوں میں خدا کی جانب منسوب کرتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ سچا مسلمان کہلانے کا حق دا ر صرف وہ شخص ہے جو اس کو بلکہ صرف ’’اسی کو نبی‘‘ اور مدار نجات مانے ۔گویا ۱۸۸۰ء سے ۱۹۰۰ء تک بیس سال کے عرصے میں مرحلہ وار آہستہ آہستہ اسلام اور مسلمانوں سے اپنی علیحدگی کے اعلان کے باوجودوہ اس بات پر بھی بضد ہے کہ صرف اسے اور اس کی نوزائیدہ مٹھی بھرجماعت کو ہی مسلمان کہا جائے۔بقیہ اس کے مخالفین جتنے ہیں وہ سب کے سب کافر کہے جائیں گے اورمرزائیوں کا جس جگہ غلبہ ہو، وہاں نام کے اِن مسلمانوں کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو کافروں کے ساتھ ہوتا ہے یعنی رشتہ، ناطہ ، عبادات و معاملات ، روٹی سے لے کرقبرستان کی مٹی تک نام کے مسلمانوں کے ساتھ کفار جیسا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ اب یہ دونوں نہ ایک جگہ دفن کیے جاسکتے ہیں نہ ایک قبرستان میں جمع ہوسکتے ۔نیز مرزاکادیانی اس بات پر بھی بضد ہے کہ وہ جو کچھ کہے اور جو کچھ لکھے بس وہی ’’ اسلام ‘‘ ہے۔ اس کے ماسوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک قرآن و حدیث اور محدثین کی تفاسیر و تشریحات( نعوذ باﷲ) سب ردّی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے لائق ہیں ۔
ابتدا میں بہت سے مسلمانوں نے مرزائیوں کی اس شاطرانہ چال کو سمجھا ہی نہیں اور جب سمجھا تو وقت بہت آگے جاچکا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرزا نے جب مسلمانوں سے اور دین اسلام سے علیحدگی کا اعلان کیا تو پہلے ہی دن سے مسلمانوں اور کادیانیوں کے مابین ہمہ جہت خط امتیاز قائم کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ۔ لیکن ہوا یہ کہ جب علماء اسلام نے خط امتیاز قائم کرنے کے لیے محنت شروع کی تو انتہا یہ ہوچکی تھی کہ مرزا کادیانی کی دو رخی پالیسیوں کے سبب اور اس سے کہیں زیادہ ہماری غفلت کے سبب ہمارا ہی ایک عام مسلمان اس شک وشبہہ کا شکار ہوچکا تھاکہ کادیانی ہمارے گھر کے ہیں یا باہر کے؟ انھوں نے یہ دیکھا کہ مرزائی اپنے اعلان کے مطابق تو اسلام سے باہر کا آدمی دکھائی دیتے ہیں لیکن جب یہ دیکھا کہ مسلمان روز مرہ کے معمولات میں اُن کی نسبت جو تعبیرات وزبان استعمال کرتے ہیں اس حساب سے تو دونوں ایک ہی جیسے معلوم ہوتے ہیں توپھر انھیں شک ہوگیا کہ مرزائیوں کو باہر کا آدمی کیسے مانا جائے ؟جب مسلمان خود اُن کے معبد کو مسجد کہتے ہیں تو اُس میں نماز کیوں نہ پڑھی جائے اور جب مسلمان اُن کے کاٹے ہوئے جانور کو’’ ذبیحہ ‘‘ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں تو اسے کھایا کیوں نہ جائے ؟ جب اُن کے پنڈتوں کو مولانا ، حافظ معلم ، مفتی کہا جاتا ہے تو اُن سے دینی مسائل کیوں نہ پوچھے جائیں؟
ہائے افسوس !بعض مسلمانوں نے ا س منزل میں پہنچ کر بھی کادیانیوں سے اسی زبان میں بات کی جس زبان میں گھر کے آدمی سے بات کی جاتی ہے ۔ ایک طرف تویہ کوشش کی جانے لگی کہ کادیانی باہر کے ہیں گھر کے نہیں ، انہیں کافر کہاجائے ، مرتد کہا جائے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف اپنی اس کوشش کے لیے جو تعبیرات استعمال میں لائی گئیں وہ وہی تھیں جو گھر کی ہوتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزائیوں کی منصوبہ بند کوشش تو تھی ہی کہ زبان و بیان میں یکسانیت رکھی جائے تاکہ کادیانیت اور اسلام کے درمیان واضح دوری نہ دکھائی دے ۔ اب ہماری تعبیر کی غلطیوں سے پبلک ایک بارپھر دھوکے میں مبتلا ہوگئی کہ جب کادیانیوں کی عبادت گاہیں مسجد کہلاتی ہیں اور جب اُن کے پڑھے لکھے لوگ بھی عالم حافظ ہی کہلاتے ہیں ، اور جب اُن کی تعلیم گاہیں مدرسہ و مکتب کہلاتے ہیں اور جب اُن کی عبادتوں کو بھی نماز ،روزہ ،حج ،کہا جاتا ہے ،یعنی اُن کے حق میں تمام تر تعبیرات و اصطلاحات وہی ہیں جو مسلمانوں کے حق میں ہیں تو وہ مسلمان کیوں نہیں ؟
ہائے افسوس !بعض مسلمانوں نے ا س منزل میں پہنچ کر بھی کادیانیوں سے اسی زبان میں بات کی جس زبان میں گھر کے آدمی سے بات کی جاتی ہے ۔ ایک طرف تویہ کوشش کی جانے لگی کہ کادیانی باہر کے ہیں گھر کے نہیں ، انہیں کافر کہاجائے ، مرتد کہا جائے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف اپنی اس کوشش کے لیے جو تعبیرات استعمال میں لائی گئیں وہ وہی تھیں جو گھر کی ہوتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزائیوں کی منصوبہ بند کوشش تو تھی ہی کہ زبان و بیان میں یکسانیت رکھی جائے تاکہ کادیانیت اور اسلام کے درمیان واضح دوری نہ دکھائی دے ۔ اب ہماری تعبیر کی غلطیوں سے پبلک ایک بارپھر دھوکے میں مبتلا ہوگئی کہ جب کادیانیوں کی عبادت گاہیں مسجد کہلاتی ہیں اور جب اُن کے پڑھے لکھے لوگ بھی عالم حافظ ہی کہلاتے ہیں ، اور جب اُن کی تعلیم گاہیں مدرسہ و مکتب کہلاتے ہیں اور جب اُن کی عبادتوں کو بھی نماز ،روزہ ،حج ،کہا جاتا ہے ،یعنی اُن کے حق میں تمام تر تعبیرات و اصطلاحات وہی ہیں جو مسلمانوں کے حق میں ہیں تو وہ مسلمان کیوں نہیں ؟
ناظرین غور کریں کہ ہماری غفلت سے معاملہ نے کیا رخ اپنا لیا ، پہلے ہمارا مسلمان بھائی کادیانیوں سے پوچھتا پھر تا تھا کہ جب تم نے اسلام اور مسلمانوں سے علیحدگی کا اعلان کردیا تو خود کو مسلمان ، اپنے معبد کو مسجد، اپنے پنڈتوں کو عالم، حافظ کیوں کہتے ہو؟ اب وہی مسلمان بھائی ہم سے پوچھتا ہے کہ مسلمان جب ، کادیانیوں کے معبد کو مسجد کہتے ہیں۔ کادیا نیوں کے پنڈتوں کو عالم حافظ کہتے ہیں تو پھر کادیانیوں کو مسلمان کیوں نہیں کہتے ۔گویا ہماری غلط تعبیر اور اسلامی زبان استعمال کرنے سے ایک مسلمان دھوکے میں مبتلا ہوکر جو سوال کادیانیوں سے کرنا تھا وہ ہم سے کرنے لگتا ہے ۔
مسلمانوں کی غفلت سے معاملہ بالکل ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے کہ چار بھائی اپنے والدین کے ترکہ کے سلسلے میں گھر کے اندر بحث کررہے ہوں۔ اسی دوران کوئی شاطر موقع غنیمت سمجھ کر معاملہ سلجھانے کے بہانے سے گھر میں گھسا اور معاملہ گرم پاکر اُس نے خود ہی ترکہ میں حصہ داری کا دعویٰ کردیا ۔ اُس کے دعویٰ کے بعد بھی حقیقی وارثوں کو اپنی غلطی کا احساس نہ ہوا کہ اس شاطر کو پہلے گھر سے نکال باہرکرتے اور اُس زبان میں بات کرتے جس میں کسی چور اُچکے سے بات کی جاتی ہے ۔ بجائے اس کے وہ اِس بحث میں الجھ گئے کہ آپ کا یہ دعویٰ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ۔عالی جناب آپ تو باہر کے آدمی ہیں اور اس کے دعوے پر آپس میں شور مچانے لگے ۔شاطر نے موقع سے ایک اور فائدہ اٹھایا اور نہایت ڈھٹائی سے خود ہی شور مچانے لگا کہ پہلے تم سب گھر سے باہر نکلو ،پھر بات کرو، یہ پوری جائداد ہماری ہے ۔ اس شور و شغب میں راستہ چلتے کچھ راہ گیر جمع ہوئے تو سارے بھائی اپنی اپنی کہانی سنانے لگے ۔ اس ہنگامے سے شاطرنے ایک اورفائدہ اٹھایا اور عوام کو مخاطب کرکے گویا ہوا کہ صاحب چونکہ میں ہی حقیقی وارث ہوں ۔ لہٰذاپہلے میری روئداد سنی جائے، گویا ساری پنچایت گھر میں بیٹھے بیٹھے ہورہی ہے اور اُسی زبان میں ہورہی ہے جس زبان میں گھر کے افراد سے باتیں کی جاتی ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ ان حالات میں باہر سے آنے والے لوگ یہی تأثر قائم کریں گے کہ وہ پانچواں بھی حقیقی وارث ہی لگتا ہے یا کم از کم انہی کا بھائی برادرہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی آم کہہ رہا ہے کوئی املی ، اگر یہ پانچواں، ان کا بھائی نہ ہوتا بلکہ باہر سے گھس پیٹھ کرنے والا کوئی شاطر ہوتا تو گھر میں بیٹھ کر آرام سے یہ پنچائیت نہ ہوتی بلکہ حقیقی وارثوں پر لازم تھا کہ پہلے اُس شاطر کو گھر کے چوکھٹ سے نکال باہرکرتے ، پھر اس سے اُس زبان و انداز میں بات کرتے جس زبان میں کسی چور، ڈکیت اور شاطر سے بات کی جاتی ہے۔ تاکہ حقیقت سے ناواقف ایک راہ گیر بھی از خو د یہ فیصلہ کرتا کہ کون حقیقی وارث ہے اور کون ڈکیت ہے۔ گھر میں بیٹھ کر اہل خانہ جیسی زبان میں باتیں کرنے سے تو یہی تأثر قائم ہوگا کہ وہ ڈکیت بھی اہل خانہ میں سے ہی ایک فردہے ۔ مذکورہ بالا مثال کوئی مثال نہیں بلکہ امر واقعہ ہے ۔اس حقیقت کو ملاحظہ فرمائیے ۔ مرزا کے بیٹے مرزا بشیر ایم اے کی زبان و قلم سے اور دیکھئے کہ خادم اسلام کے بہانے سے گھس پیٹھ کرنے والا مرزا کادیانی کس ڈھٹائی سے اسلامی جائداد پر اپنا قبضہ جماتا ہے ۔اس حقیقت کو کادیانیوں کے آرگن ’’ الحکم ‘‘ میں آپ پڑھ سکتے ہیں ،لکھا ہے :
’’ جو شخص چوروں کی طرح بھیس بدل کر چھپ چھپ کر رک رک کر ہر آہٹ پر کان دھرتے ہوئے اور ہر چیز پر سہمی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے کسی کے مکان میں رات کو گھستا ہے ۔ وہ لاریب مجرم تو ہے اور اپنی سزا پائے گا مگر ڈاکو نہیں کہلائے گا اور نہ ڈاکے کے جرم میں پکڑا جائے گا ۔ اسی طرح نہ وہ شخص ڈاکہ کے جرم کی سزا پاسکتا ہے جو مکان اور اثاث�ۂ مکان کا مدعی بن بیٹھتا ہے ۔ فافہم۔‘‘( الحکم ۲۱ تا ۲۸ مئی ۱۹۲۴ء )
جو کیفیت ایک چور کی بیان کی گئی ہے وہ کیفیت کسی اور کی نہیں بلکہ مرزا کادیانی کی ہے ۔ آپ کادیانی کتب میں غور فرمائیں تو یہ حقیقت کھل کر واضح ہوتی ہے کہ مرزا کادیانی نے ۱۸۸۰ء سے ۱۹۰۰ء تک پورے بیس برس میں کبھی چھپ چھپ کر کبھی رک رک کر لوگوں کی آہٹوں پر پوری نظر رکھتے ہوئے کبھی خادم اسلام کا ،کبھی مجدد ہونے کا کبھی محدث ہونے کا بھیس بدل کر اسلامی قلعے میں داخل ہوا اور ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یکا یک ’’ مکان اور اثاث�ۂ مکان ‘‘کا مدعی بن بیٹھا کہ اب مکان اور مکان کا مکمل اثاثہ ہمارا ہے۔ اس کے بعد تمام مسلمانوں کو اسلامی قلعے سے باہر کا راستہ دکھانے لگا کہ سارے مسلمان کافر اور صرف مرزا کے ماننے والے مٹھی بھر مرزائی مسلمان ۔
مگر ہائے رے غفلت ! کہ آج بھی مسلمان، گھر کی اُسی زبان میں مرزائیوں سے بات کرنے پر تلا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ مرزائیوں نے فلاں مقام پر اپنی ’’مسجد ‘‘بنا لی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مذہب تبدیل ہونے کے بعد کبھی عیسائیوں کے معبد کو’’ مسجد ‘‘ کہا گیا ؟ یہودی بھی ایک خدا اور خدا کے ایک نبی کو مانتے ہیں تو کیا ان کے معبد کو کبھی ’’مسجد ‘‘ کہا گیا ؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینانفی میں ہے تو مرزائیت تو مذہب بھی نہیں۔ یہ تو خالص انگریزوں کا بویا ہوا ایک فتنہ ہے جو ملک اور ملتِ مسلمہ دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرناک ہے ، پھر اُن کے معبد کو’’ مسجد ‘‘کس طرح کہنا درست ہوگا ۔ اسی طرح ہندو مذہب کے جانکار کسی ’’پنڈت جی‘‘ کو یا عیسائی مذہب کے جانکار کسی ’’ پوپ ، پادر ی ‘‘ کو کبھی ’’عالم حافظ ،مولانا ‘‘کے لفظ سے یاد کیاگیا ؟ اگر نہیں تو پھر کادیانی پنڈتوں کو’’ عالم، حافظ یا مبلغ کے لفظ سے یا اور کسی اسلامی اصطلاح و زبان سے انہیں کیوں یاد کیا جاتا ہے ؟ کادیانی تو چاہتے ہی ہیں کہ انھیں اسلامی اصطلاحوں سے یاد کیا جائے تاکہ وہ آسانی سے مسلمانوں میں گھلے ملے رہیں ۔ افسوس کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس معاملہ میں نادانستہ یا دانستہ طور پر اُن کا معاون بن رہا ہے۔
قارئین کرام ! اگر ہمارا دعوی درست ہے اور دلائل آپ کے سمجھ میں آگئے تو میں گزارش کروں گا کہ کسی کادیانی کو اسلامی زبان و اصطلاح سے نہ یاد کیاجائے بلکہ اُن کے لیے وہ زبان استعمال کی جائے جس کے وہ مستحق ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کن اصطلاحات کے مستحق ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا کے ملحدانہ دعاوی میں سے سب سے پہلا دعویٰ ۱۸۹۰ء میں مسیح عیسیٰ ابن مریم ہونے کا ہے اور سب سے آخر میں اس نے۱۹۰۲ء میں ’’کرشن رودّر گوپال ‘‘ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ نبوت کا دعویٰ تو ۱۹۰۰ء میں اِن دونوں دعووں کے درمیان کا ہے۔ لہٰذا سب سے بہتر اور منصفانہ صورت یہ ہے کہ مرزا کے پہلے دعویٰ یعنی دعوئ مسیحیت کی جانب نسبت کرتے ہوئے یا تو اُن اصطلاحات و تعبیرات سے مرزائیوں یاد کیا جائے۔ جن سے مسیحیوں، عیسائیوں کو یاد کیا جاتا ہے یا سب سے اخیر دعوی یعنی دعوئ کرشن اوتار کا اعتبار کرتے ہوئے اُن اصطلاحات سے یاد کیا جائے جن سے’’ کرشن جی ‘‘کے ماننے والوں کو یاد کیاجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر مضمون کے اخیر میں کچھ اصطلاحات ذکر کی جاتی ہیں۔ بقیہ جہاں ضرورت ہو مذکورہ اصول کو سامنے رکھ کر آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ بوقت ضرورت کونسی زبان استعمال کی جائے ۔
رہایہ سوال کہ اگر ہندو برادران وطن ہمارے اوپر اعتراض کریں کہ ہمارے دھرم کی زبان مرزا ئیوں پر کیوں استعمال کی جاتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندو برادران وطن کو چاہئے کہ بجائے ہمارے اوپر اعتراض کرنے کے مرزائیوں کی ناک میں نکیل ڈالیں کہ جوشخص اس لائق بھی نہیں کہ اسے ہندو مذہب کی اصطلاحوں سے یاد کیا جاسکے پھر وہ ’’کرشن اوتار ، یا رودّر گوپال ، یا جے سنگھ بہادر‘‘ ہونے کا دعوی کیسے کرتا ہے ؟ اور ہندو دھرم کو بگاڑنے پر کیوں تلا ہوا ہے ؟ اگر وہ مرزائیوں پر لگام لگائیں گے تو یہ اعتراض جڑ سے ہی ختم ہوجائے گا کہ نہ مرزا ’’ کرشن اوتار ‘‘ہونے کا دعویٰ کرے گا نہ کوئی شخص ہندو مذہب کی تعبیرات سے مرزائیوں کویاد کرے گا ۔ اس کے برعکس مرزائیوں کو تو کھلی چھوٹ دی جائے کہ مرزا کادیانی ’’کرشن اوتار‘‘ ہونے کا دعوی کرتا پھرے اور اُسے کرشن اوتار کے ماننے والوں کی زبان و اصطلاح سے یادبھی نہ کیا جائے تو یہ اعتراض بجائے خود باطل و بے سود ہوگا ۔
یہی معاملہ عیسائیوں کے ساتھ بھی ہے کہ اگر وہ مرزاکادیانی کے دعوئ مسیحیت پر لگام نہیں کستے تو عیسیٰ مسیح کے ماننے والوں کی زبان و اصطلاح کے استعمال سے کسی کو روک بھی نہیں سکتے ۔کیوں کہ ’’کتّے کو چھوڑنا اور ڈھیلے کو باندھنا ‘‘ انصاف نہیں ہے۔انصاف یہ ہے کہ جس طرح مسلمان کسی قیمت پر یہ برداشت کرنے کوتیار نہیں کہ مرزا جیسے بد طینت شخص کو لفظ ’’ نبی ، مسیح ، مہدی ‘‘سے یاد کیا جائے۔ اسی طرح ہندو ، اور عیسائی برادران وطن کو مسلمانوں کے دوش بدوش ہوکر مرزائیوں کی تخریبی ذہنیت اور کسی بھی دہرم کو بگاڑنے کی فتنہ پردازی کے خلاف میدان میں آنا ہوگا تاکہ مذہبی فتنہ و فساد سے بچاکر اپنے ملک کو امن کا گہوارا بنایا جاسکے ۔
ممکن ہے کہ کوئی مرزائی ایک بار پھر مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرے کہ مسلمانوں کے بزرگوں نے تو آج تک انھیں اسلامی تعبیرات سے یا د کیا پھر کیا وہ لوگ غلطی پر تھے ؟ تو اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ نرا مغالطہ ہے یا پھر کادیانیوں کے خلاف دور اوّل میں تصنیف کی جانے والی کتابوں سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بالکل ابتدائی مرحلے میں تو مرزا کادیانی کی دورخی پالیسیوں کے سبب بہت سے مسلمان اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ مرزا کادیانی نے خود کو اسلام سے علیحدہ کرنے کا جو اعلان کیا ہے۔ اس کی صحیح پوزیشن کیا ہے ۔ چنانچہ اس معاملے میں علماء احناف اور بعض دیگر علماء کے مابین اختلاف ہوگیا ۔ لدھیانہ اور امرتسر وغیرہ کے حنفی علماء چونکہ حقائق سے واقف تھے۔ اس لیے مرزا کادیانی کے کفریہ اقوال و خیالات کی روشنی میں مرزا کے اسلام سے نکل جانے کی تصدیق کرکے اوائل میں ہی اس کو کافر کہنے لگے تھے ۔لیکن بعض علماء جو مرزا کی دورخی پالیسی کو بھانپ نہیں سکے ۔ مرزا کے کفریہ اقوال کی بھی تاویل کرکے اس کو مسلمان کہلوانے پر تلے ہوئے تھے ۔اکثر علماء یہ کہتے تھے کہ مرزا نے جو الہام کا یا خادم دین یا مجدد ہونے کا یا مصلح ہونے کا بورڈ لگایا ہے۔ اُسے الہام نہ کہا جائے بلکہ اسے ’’ہفوات ‘‘ کہا جائے ۔ اُسے مجدد یا خادم دین کے لفظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ’’ جھوٹا ‘‘ کہا جائے ۔ مسلمان کی جگہ اسے ’’کافر ‘‘کہا جائے ۔لیکن کچھ لوگ مرزا کی حمایت میں کھڑے ہوکر علماء کی مخالفت پر آمادہ ہوجاتے تھے جس کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو سکا کہ مرزا کے لیے کون سی زبان استعمال کی جائے ۔ ۱۸۹۰ء میں جب اُن لوگوں پر بھی حقیقت آشکارہ ہوگئی تو انھوں نے بھی مرزا کے ’’ الہام ‘‘ کو ’’ہفوات ‘‘اور خوداس کو ’’ مسلمان ‘‘ کہنے کی بجائے اس کے اسلام سے نکل جانے کی تصدیق کرکے ’’ کافر ‘‘ کے نام سے ہی یاد کرنا شروع کردیا ۔
کچھ لوگ وہ بھی تھے جومرزاکی گہری دوغلی پالیسی کے سبب ۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۰ء تک اس کے دام فریب میں مبتلا رہے ۔ کیوں کہ مرزا چوروں کی طرح چھپ چھپ کر کبھی نبوت کا دعویٰ کرتا اور کبھی فضا، ناہموار دیکھ کر انکار بھی کردیتا تھا ۔ چنانچہ بہت سے مسلمان جنھیں اِن حقائق کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہ تھی۔ وہ اب بھی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھے اور وہ اُس وقت مرزا سے الگ ہوئے جب اُس نے ۱۹۰۰ء میں کھل کر ’’ نبوت ‘‘ کا دعوی کردیا ۔آپ اس دور کی تصنیفات کا مطالعہ کریں اورعلماء اسلام کی تحریروں کو دیکھیں تو یہ غلط فہمی خود بہ خود دور ہوجائے گی کہ عمومی طورپرحقائق سے واقف کار مسلمانوں اور علماء نے تعبیرات بدل دی ہیں ۔ مرزا کوکوئی ’’دجال ‘‘ لکھتا ہے کوئی ’’ کذاب ‘‘ لکھتا ہے ، کوئی ’’منشی غلام احمد‘‘ لکھتا ہے اور عمومی طور پر لوگ مرزائیت کو ’’ مذہب ‘‘ کی بجائے ’’ فتنہ ‘‘ لکھتے ہوئے ملیں گے ۔کچھ مصنفین نے مرزا کو ’’کرشن مہاراج ‘‘ہی لکھنا شروع کردیا تھا ۔ ہمارے سمجھ دار علماء نے ابتدا ہی سے اس کی کوشش کی کہ مرزائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہمہ جہت خط امتیاز قائم کیا جائے تا کہ دونوں کے درمیان کی دوری واضح طور پرہر کس و ناکس کو دکھائی دے۔ اب یہ ذمہ داری بعد والوں کی ہے کہ دین و دنیا کے تمام مراحل میں کادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین امتیاز قائم رکھنے کی کوشش جاری رکھیں۔ حتیٰ کہ روز مرّہ کے معمولات میں بھی وہی زبان و تعبیرات اپنائی جائیں جس سے دونوں کے درمیان فرق واضح رہے۔
لیکن کچھ تو ہماری غفلت نے دوری بنائے رکھنے کی محنت کو جاری رہنے نہ دیا اور کچھ مرزائیوں کی دو رخی پالیسی نے ایسے حالات بنادیئے کہ مرزائیوں کی تحریروں میں اسلامی تعبیرات و اصطلاحات پڑھ کرحقائق سے ناواقف بعض مسلمان اہل قلم کچھ اس طرح متأثر ہوئے کہ انھوں نے بھی اُسی زبان میں قلم چلانا شروع کیا جو زبان ،منصوبہ بندی کے تحت مرزائی چاہتے تھے اور تقسیم ہند کے بعد تو حالات یہاں تک تبدیل ہوئے کہ صحافت کی دنیا میں ایڈیٹران وقت مرزائیوں کو لفظ ’’قادیانی ، کادیانی ‘‘ سے تعبیر کرنے کو سیکولر ازم کی خلاف ورزی گرداننے لگے۔ اُنھیں سیکولر ازم کی ترقی اس میں نظر آنے لگی کہ ملک و ملت کے غدار، انگریزوں کے ان دلالوں کو ’’ احمدیہ مسلم ‘‘ لکھا جائے اور نھیں دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث جیسے مسلمانوں کا فرقہ تصور کیا جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ حالات اب تبدیل ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ کادیانیوں کے بعض زرخریدصحافی و ایڈیٹران کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی اردو وہندی اخبارات میں اب کادیانیوں کو چھوٹے کاف سے نہ سہی لیکن بڑے قاف سے ’’ قادیانی ‘‘ لکھا جانے لگا ہے ۔ ورنہ کچھ دنوں قبل دہلی میں ایک اخبار کے ایڈیٹر صاحب نے خود راقم سطور سے ایک موقع پر سوال کرلیا کہ جب کادیانی خود کو ’’ احمدی مسلم ‘‘ لکھتے پڑھتے ہیں تو اُنہیں ’’کادیانی‘‘لفظ سے کیوں تعبیرکیا جاتا ہے۔ یہ تو ان کے منشاء کے خلاف ہے ۔ راقم نے جواب دیا کہ ’’ احمدیت ‘‘ کا لفظ وجود پذیرہی اس پس منظر میں ہوا تھاکہ ہندستان انگریزوں کے ہاتھ میں ہمیشہ کیلیے غلام رہے۔ صرف اور صرف اسی مقصد کی تکمیل کے لیے مرزا کادیانی نے مسلمانوں سے الگ ’’ احمدیہ جماعت ‘‘ بنائی تھی۔ پھر تو آپ کو چاہئے کہ اُن کی خواہش کے احترام میں ہندستان انگریزوں کے حوالے کرکے اُن لوگوں کو غدار لکھیں جنھوں نے ہندستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی اور نام کے ’’احمدیوں ‘‘ کی خواہش کے خلاف کیا ۔ اگر یہاں ان کی خواہش کو ملحوظ رکھاجاتا ہے تو پھردوسرے مواقع پر اس کی خلاف ورزی صحافت کی دنیا میں کیوں کی جاتی ہے ؟۔اور اگر صحافتی دنیا کو حقائق سے واقفیت نہیں تو بتائے جانے کے بعد بھی ’’احمدیہ مسلم ‘‘ کا لاحقہ مرزائیوں کے ساتھ لگانے پر بے جا اصرار کیوں کیاجاتا ہے ؟ اسی طرح مسلمانوں کے معبد کے لیے خاص لفظ ’’ مسجد ‘‘ کو مرزائیوں کے معبد پر استعمال کیوں کیاجاتا ہے ؟یا مرزائیوں کے پادریوں اور پنڈتوں کو ’’ مبلغ ، عالم ، حافظ ‘‘ وغیرہ اسلامی اصطلاحات سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے ۔کیا یہ مٹھی بھر کادیانیوں کی خواہش کے احترام میں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو قلبی اذیت دینے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی بات نہیں؟
مولانا شاہ عالم گورکھپوری -