قادیانیوں سے سوالات ( ۵۸ مرزاقادیانی کی تحقیق عجیب اور اس کا مبلغ علم)
سوال نمبر:۵۸… حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رحم کے سامنے ایک انڈا جسے ادوم کہتے ہیں موجود ہوتا ہے۔ مخالطت کے وقت ماء الحیات کا کوئی ذرہ جسے سپرم کہتے ہیں۔ اس انڈے سے مل جائے تو وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لے لیتے ہیں اور سرک کر رحم میں چلے جاتے ہیں۔ پھر رحم کا منہ بند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ولادت تک کوئی سپرم اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ لیکن مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’اﷲتعالیٰ فرماتا ہے’’اولات الاحمال جلہن ان یضعن حملہن‘‘ یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع (حمل) تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ ٹھہر جائے۔ اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔‘‘
(آریہ دھرم ص۲۱، خزائن ج۱۰ ص۲۱)
اس پر سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ایک ایسی بات کہی جو سراسر خلاف عقل اور کذب محض ہے۔ کیا بالفرض حمل کی حالت میں ’’دوسرے کا نطفہ ٹھہر جائے‘‘ پہلے حمل کے چار ماہ بعد دوسرا حمل ہو جائے۔ دو ماہ کے بعد تیسرا حمل ہو جائے اور پھر ایک ماہ کے بعد چوتھا اور ہر بچہ نو ماہ کے بعد پیدا ہو تو غریب بیوی سارا سال بچے جنتی رہی۔ یہ ہے مرزاقادیانی کے علوم وفنون کا شاہکار۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’میں زمین کی باتیں نہیں کہتا… بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔‘‘
(پیغام صلح ص۴۷، خزائن ج۲۳ ص۴۸۵)
کیا حالت حمل میں حمل ٹھہر جاتا ہے؟ اگر ٹھہر جاتا ہے تو مذکورہ عبارت کی تحقیق کا کیا بنے گا؟ نیز بالفرض حمل ٹھہر جائے تو کیا ضروری ہے؟ ایک حمل ہو تو سابقہ کی وضع ہو جائے؟ ساتھ حمل، ساتھ وضع؟ شاید قادیانی ذریت کو۔ ہو تو ہو کسی اور کو تو اس کا دعویٰ نہیں؟