قادیانیوں سے سوالات ( ۶۱ کیا مرزاقادیانی خودغرض تھا؟)
سوال نمبر:۶۱… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’میری رائے یہ ہے کہ استخارہ تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ کیونکہ وارث مفقود الخبر ہے اور ہمیں یقین نہیں کہ وہ مر چکا ہے یا زندہ ہے۔ پس اس کی جائیداد کو میت کے ترکہ کی طرح تقسیم کرنے میں عجلت روا نہیں۔ پس بہتر یہ ہے کہ اس معاملہ پر بحث ختم کی جائے۔ تاکہ عالم الغیب اور ذوالجلال آپ سے مشورہ کر لوں اور یقینی راہ پالوں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
مرزاقادیانی کی یہ عبارت پکارپکار کر نہیں چیخ وچلّا کر اعلان کر رہی ہے کہ مرزااحمد بیگ نے جب ہبہ نامہ پر دستخطوں کے لئے مرزاقادیانی سے درخواست کی۔ چونکہ ہبہ نامہ غلام حسین مفقود الخبر کی زمین کی بابت تھا۔ اس لئے استخارہ کیا گیا کہ وہ غلام حسین زندہ ہے یا مردہ۔ اگر زندہ ہے تو ہبہ نامہ پر دستخط کر کے اس کی زمین کسی اور کو منتقل کرنا روا نہیں ہے۔ اگر مردہ ہے تو ہبہ نامہ پر دستخط نہ کر کے جائز وارث کو محروم کرنا روا نہیں۔ جب ’’عالم الغیب رب ذوالجلال سے مشورہ‘‘ کیا تو رب نے جواب دیا کہ محمدی بیگم کے رشتہ کی بابت بات کر۔ اگر رشتہ کر دیں تو ہبہ نامہ پر دستخط کر دو۔ گویا غلام حسین مفقود الخبر مرگیا ہے۔ اگر رشتہ نہ کریں تو ہبہ نامہ پر دستخط نہ کریں۔ گویا غلام حسین مفقود الخبر زندہ ہے۔ ہمارا قادیانیوں سے درد بھرے دکھے دل سے سوال ہے کہ کیا واقعی آپ اس جواب کو خدائی جواب سمجھتے ہیں یا کافر، ناہنجار، مرزاقادیانی کی زناری اور خود غرضی فراڈ ودھوکہ کی انوکھی مثال؟ اب آپ کی مرضی کہ خداتعالیٰ پر غلط جواب کا الزام لگا کر جہنم کا راستہ اختیار کریں یا مرزاقادیانی کے فراڈ پر محمول کر کے مرزاقادیانی کو جہنم روانہ کریں؟