• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیوں کا جھوٹ سے پناہ گزین بننا ایک حربہ

محمد یونس عزیز

ہم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان ہوں
رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
news-05.gif
 

محمد یونس عزیز

ہم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان ہوں
رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
’سری لنکا پاکستانی اقلیتوں کو ملک بدر نہ کرے

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین القوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے سری لنکا سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی شہریت کے حامل اقلیتی برادری کے افراد کو ملک بدر نہ کرے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا میں اس سال 142 پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا اور خدشہ یہ ہے کہ انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی شہری اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد احمدی فرقے سے ہیں جبکہ ان میں شیعہ مسلم اور عیسائی مذہب کے پیروکار بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے مہاجرین بل فرلیک کہتے ہیں کہ سری لنکن امیگریشن کے امور کے سربراہ کو پاکستان کے اقلیتی گروہ تک اقوام متحدہ کی رسائی تک انھیں ملک بدر نہیں کرنا چاہیے۔
صورتحال یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان افراد میں سے 6 کو اقوام متحدہ مہاجرین قرار دے چکا ہے یو این ایچ سی آر کو ’بو سہ‘ میں قید ان پاکستانیوں تک رسائی حاصل نہیں۔
دوسری جانب سری لنکن میڈیا رپورٹس کے مطابق امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ حکومت ان زیرحراست پاکستانیوں کو ملک سے نکال سکتی ہے کیونکہ انھیں بطور پناہ گزین رجسٹر کروانے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے مہاجرین کہتے ہیں کہ سری لنکا میں موجود پاکستانی اقلیتی گروہ کے ساتھ ایک ایسے وقت میں یہ سب ہو رہا ہے جب پاکستان میں ان گروہوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے بین القوامی قانون کے مطابق کسی حکومت کو اجازت نہیں کہ وہ زبردستی مہاجرین کو اس جگہ واپس بھجوائے جہاں انھیں شدید خطرہ ہو ۔وہ کہتے ہیں کہ یہی اصول ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو پناہ مانگتے ہوں۔


یو این ایچ سی آر کے مطابق سری لنکا کا مغربی ساحلی علاقہ، نیگومبو پاکستان کے اقلیتی مہاجرین کی جنت کہلاتا ہے۔ 2013 میں یو این ایچ سی آر نے 1500 کے قریب مہاجرین کو رجسٹرڈ کیا تھا۔ وہاں جون کی نو تاریخ سے پاکستانیوں کی آمد میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے سری لنکن حکام اسے سکیورٹی کے لیے تشویش ناک قرار دینے لگے۔
چند روز قبل ہی پاکستان کے وزارت خارجہ نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی تھی کہ سری لنکن حکومت نے پاکستان کی خواہش پر سری لنکا جانے والے پاکستانیوں کے لیے ائیرپورٹ آمد پر ویزہ دینے کی سہولت ختم کی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق اس وقت کم وبیش 1400 کے قریب ایسے پاکستانی ہیں جنھوں نے سری لنکا میں پناہ لینے کی درخواست دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک جتنے بھی پاکستانی سری لنکاگئے ہیں ان میں سے کوئی بھی غیرقانونی طور پرسری لنکا میں داخل نہیں ہوا ہے انھیں وہاں آئیرپورٹ پر باقاعدہ ویزے جاری ہوچکےہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا موقف ہے کہ حکومت پاکستان نسلی اور مذہبی سطح پر اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ انتہا پسند گروہوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد اس کمیونٹی کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں اور انھیں سماجی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں بالخصوص ہزارہ برادری کے قتل پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے یہ بات 62 صفحوں پر مشتمل اپنی رپورٹ ’ہم زندہ لاشیں ہیں: پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ہلاکتیں‘ میں کہی ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ اموات کے حوالے سے سب سے زیادہ خونریزی جنوری اور فروری سنہ 2013 میں ہوئی جب شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا۔
’اس وجہ سے ان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے کافی تعداد میں ہزارہ برادری کے افراد پاکستان سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘

بی بی سی اردو
 
Top