• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیوں کو مرتد کیوں کہا جاتا ہے اس کی وجہ؟اور یہ مرتد کیوں ہیں؟

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں کو مرتد کیوں کہا جاتا ہے اس کی وجہ؟اور یہ مرتد کیوں ہیں؟ (حصہ اول)

سوال





قادیانیوں کو مرتد کیوں کہا جاتا ہے اس کی وجہ؟اور یہ مرتد کیوں ہیں؟





جواب





عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی ساشبہ بھی قابل برداشت نہیں‘ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ: ”جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔ کیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اجرائے نبوت (نبوت جاری ہے) کے امکان کا عقیدہ رکھا (اور یہی کفر ہے)


اسلام کی بنیاد


اسلام کی بنیاد توحید‘ رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ‘ وہ ہے ”عقیدہ ختم نبوت“ حضرت محمد ا پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا‘ آپ ا سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں‘ آپ اکے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔


ختم نبوت اسلام کی جان ہے


یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے ‘ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت اکی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں‘ تمام صحابہ کرام‘ تابعین عظام‘ تبع تابعین‘ ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین‘ محدثین‘ متکلمین‘ علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:


”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین“ ۔ (الاحزاب:۴۰)


ترجمہ:․․․”حضرت محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں“۔ تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ا آخری نبی ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور علیہ السلام کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔چند احادیث ملاحظہ ہوں: ۱- میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:۲‘ ص:۲۲۸) ۲- مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة:۵۱۲) ۳- رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی‘ج:۲‘ص:۵۱) ۴- میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:۲۹۷) ۵- میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد‘ج:۳ ص:۲۷۳) ان ارشادات ِ نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ آخری نبی اور رسول ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا‘ آپ ا سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے‘ ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ ا نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔بلکہ فرمایا: ۱- قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں‘ جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ ۲- قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں‘ ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ان دو ارشادات میں حضرت محمد ا نے ایسے ”مدعیان نبوت“ (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا‘ جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ چھوٹ بولنے والے ہوں گے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے‘ لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار ومکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ ا کی اس پیشنگوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“ (مرزا غلام احمد قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ خدانے اس کو ذلیل کیا۔ اس لئے یہ ”ختم نبوت“ امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔





مسلمان اور قادیانی کے کلمہ اور ایمان میں بنیادی فرق





س… انگریزی دان طبقہ اور وہ حضرات جو دین کا زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن مسلمانوں کے آپس کے افتراق سے بیزار ہیں، قادیانیوں کے سلسلہ میں بڑے گومگو میں ہیں، ایک طرف وہ جانتے ہیں کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہنا چاہئے، جبکہ قادیانیوں کو کلمہ کا بیج لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے، دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹا دعویٴ نبوت کیا تھا، برائے مہربانی آپ بتائیے کہ قادیانی جو مسلمانوں کا کلمہ پڑھتے ہیں کیونکر کافر ہیں؟


ج… قادیانیوں سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہیں، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، تو پھر آپ لوگ مرزا صاحب کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے؟ مرزا صاحب کے صاحب زادے مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اپنے رسالہ “کلمة الفصل” میں اس سوال کے دو جواب دئیے ہیں۔ ان دونوں جوابوں سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں کیا فرق ہے؟ اور یہ کہ قادیانی صاحبان “محمد رسول اللہ” کا مفہوم کیا لیتے ہیں؟


مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلا جواب یہ ہے کہ:


“محمد رسول اللہ کا نام کلمہ میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبیین ہیں، اور آپ کا نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں، ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔


ہاں! حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت سے پہلے تو محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے، مگر مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت کے بعد “محمد رسول اللہ” کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی۔


غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہی کلمہ ہے صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی آمد نے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کردی ہے اور بس۔”


یہ تو ہوا مسلمانوں اور قادیانی غیرمسلم اقلیت کے کلمے میں پہلا فرق! جس کا حاصل یہ ہے کہ قادیانیوں کے کلمہ کے مفہوم میں مرزا قادیانی بھی شامل ہے، اور مسلمانوں کا کلمہ اس نئے نبی کی “زیادتی” سے پاک ہے، اب دوسرا فرق سنئے! مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے لکھتے ہیں:


“علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ مسیح موعود (مرزا صاحب) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ (یعنی مرزا صاحب) خود فرماتا ہے: “صار وجودی وجودہ” (یعنی میرا وجود محمد رسول اللہ ہی کا وجود بن گیا ہے۔ از ناقل) نیز “من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی وما رأیٰ” (یعنی جس نے مجھ کو اور مصطفی کو الگ الگ سمجھا، اس نے مجھے نہ پہچانا، نہ دیکھا۔ ناقل) اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا (نعوذ باللہ! ناقل) جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔


پس مسیح موعود (مرزا صاحب) خود محمد رسول اللہ ہے، جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں! اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی․․․․․ فتدبروا۔”


(کلمة الفصل ص:۱۵۸، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز جلد:۱۴، نمبر:۳، ۴ بابت ماہ مارچ و اپریل ۱۹۱۵ء)


یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں دوسرا فرق ہوا کہ مسلمانوں کے کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب “محمد رسول اللہ” کہتے ہیں تو اس سے مرزا غلام احمد قادیانی مراد ہوتے ہیں۔


مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے جو لکھا ہے کہ: “مرزا صاحب خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دنیا میں دوبارہ تشریف لائے ہیں” یہ قادیانیوں کا بروزی فلسفہ ہے، جس کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں دو بار آنا تھا، چنانچہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دوسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا غلام احمد کی بروزی شکل میں ․․․ معاذ اللہ!․․․ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر میں جنم لیا۔ مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ، خطبہ الہامیہ اور دیگر بہت سی کتابوں میں اس مضمون کو بار بار دہرایا ہے۔


(دیکھئے خطبہ الہامیہ ص:۱۷۱، ۱۸۰)


اس نظریہ کے مطابق قادیانی امت مرزا صاحب کو “عین محمد” سمجھتی ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ نام، کام، مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مرزا صاحب اور محمد رسول اللہ کے درمیان کوئی دوئی اور مغائرت نہیں ہے، نہ وہ دونوں علیحدہ وجود ہیں، بلکہ دونوں ایک ہی شان، ایک ہی مرتبہ، ایک ہی منصب اور ایک ہی نام رکھتے ہیں۔ چنانچہ قادیانی․․․ غیرمسلم اقلیت․․․ مرزا غلام احمد کو وہ تمام اوصاف و القاب اور مرتبہ و مقام دیتی ہے جو اہل اسلام کے نزدیک صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔ قادیانیوں کے نزدیک مرزا صاحب بعینہ محمد رسول اللہ، محمد مصطفی ہیں، احمد مجتبیٰ ہیں، خاتم الانبیاء ہیں، امام الرسل ہیں، رحمة للعالمین ہیں، صاحبِ کوثر ہیں، صاحبِ معراج ہیں، صاحبِ مقامِ محمود ہیں، صاحبِ فتح مبین ہیں، زمین و زمان اور کون و مکان صرف مرزا صاحب کی خاطر پیدا کئے گئے، وغیرہ وغیرہ۔


اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بقول ان کے مرزا صاحب کی “بروزی بعثت” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت سے روحانیت میں اعلیٰ و اکمل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ روحانی ترقیات کی ابتداء کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ ان ترقیات کی انتہا کا، وہ صرف تائیدات اور دفع بلیات کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ برکات کا زمانہ ہے، اس وقت اسلام پہلی رات کے چاند کی مانند تھا (جس کی کوئی روشنی نہیں ہوتی) اور مرزا صاحب کا زمانہ چودہویں رات کے بدرِ کامل کے مشابہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین ہزار معجزات دئیے گئے تھے اور مرزا صاحب کو دس لاکھ، بلکہ دس کروڑ، بلکہ بے شمار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہنی ارتقاء وہاں تک نہیں پہنچا جہاں تک مرزا صاحب نے ذہنی ترقی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے وہ رموز و اسرار نہیں کھلے جو مرزا صاحب پر کھلے۔


مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت و برتری کو دیکھ کر ․․․ قادیانیوں کے بقول ․․․ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام نبیوں سے عہد لیا کہ وہ مرزا صاحب پر ایمان لائیں اور ان کی بیعت و نصرت کریں۔ خلاصہ یہ کہ قادیانیوں کے نزدیک نہ صرف مرزا صاحب کی شکل میں محمد رسول اللہ خود دوبارہ تشریف لائے ہیں، بلکہ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر پیدا ہونے والا قادیانی “محمد رسول اللہ” اصلی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اپنی شان میں بڑھ کر ہے، نعوذ باللہ! استغفر اللہ!
 
Top