قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۱… ’’
یٰبنی آدم امّا یأتینکم
‘‘
قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’ یٰبنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون (اعراف :۳۵) ‘‘
یہ آیت آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی۔ لہٰذا اس میں حضورﷺ کے بعد آنے والے رسولوں کا ذکر ہے۔ آپﷺ کے بعد بنی آدم کو خطاب ہے۔ لہٰذا جب تک بنی آدم دنیا میں موجود ہیں۔ اس وقت تک نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔
جواب۱ … اس آیت کریمہ سے قبل اسی رکوع میں تین بار ’’ یا بنی آدم ‘‘ آیا ہے۔ اور اول ’’ یا بنی آدم ‘‘ کا تعلق ’’ اھبطوا بعضکم لبعض عدو ‘‘ سے ہے۔ ’’ اھبطو ا‘‘ کے مخاطب سیدنا آدم علیہ السلام و سیدہ حوا علیہا السلام ہیں۔ لہٰذا اس آیت میں بھی آدم علیہ السلام کے وقت کی اولاد آدم کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ پھر زیر بحث آیت نمبر ۳۵ ہے۔
آیت نمبر ۱۰ سے سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر شروع ہے۔ اس تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ خطاب اولین اولاد آدم علیہ السلام کو ہے۔ اس پر قرینہ اس کا سباق ہے۔ تسلسل اور سباق آیات کی صراحتاً دلالت موجود ہے کہ یہاں پر حکایت حال ماضیہ کے طور پر اس کو ذکر کیا گیا ہے۔
جواب۲… قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپﷺ کی امت اجابت کو ’’ یا ایھا الذین آمنوا ‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے، اور آپﷺ کی امت دعوت کو ’’ یا ایھا الناس ‘‘ سے خطاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی آپﷺ کی امت کو ’’ یا بنی آدم ‘‘ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے۔ حال ماضیہ کی۔
ضروری وضاحت
ہاں البتہ ’’ یا بنی آدم ‘‘ کی عمومیت کے حکم میں آپﷺ کی امت کے لئے وہی سابقہ احکام ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ منسوخ نہ ہوگئے ہوں۔ اگر وہ منسوخ ہوگئے یا کوئی ایسا حکم جو آپﷺ کی امت کو اس عمومیت میں شمول سے مانع ہو۔ تو پھر آپﷺ کی امت کا اس عموم سے سابقہ نہ ہوگا۔
جواب۳ … کبھی قادیانی کرم فرمائوں نے یہ بھی سوچا کہ بنی آدم میں تو ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ سبھی شامل ہیں۔ کیا ان میں سے نبی پیدا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کو اس آیت کے عموم سے کیوں خارج کیا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ خطاب عام ہونے کے باوجود حالات و واقعات وقرائن کے باعث اس عموم سے کئی چیزیں خارج ہیں۔ پھر بنی آدم میں تو عورتیں، ہیجڑے بھی شامل ہیں۔ تو کیا اس عموم سے ان کو خارج نہ کیا جائے گا؟ اگر یہ کہا جائے کہ عورتیں وغیرہ تو پہلے نبی نہ تھیں۔ اس لئے وہ اب نہیں بن سکتیں۔ تو پھر ہم عرض کریں گے کہ پہلے رسول مستقل آتے تھے۔ اب تم نے رسالت کو اطاعت سے وابستہ کردیا ہے تو اس میں ہیجڑے و عورتیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کے نزدیک عورتیں و ہیجڑے بھی نبی ہونے چاہئیں۔ْ
جواب۴… اگر ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل ‘‘ سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو ’’ اما یاتینکم منی ھدی ‘‘ میں وہی ’’ یاتینکم ‘‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت بھی آسکتی ہے۔ تو مرزائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہوا۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔
جواب۵ …
۱… ’’ اما ‘‘ حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں۔’’ یا تینکم ‘‘ مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں۔ جیسا کہ فرمایا: ’’ فاما ترین من البشر احدا(مریم: ۲۶) ‘‘ کیا حضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟
مضارع اگرچہ بعض اوقات استمرار کے لئے آتا ہے۔ مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں۔ جو فعل دوچار دفعہ پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے۔ اس کی ایک مثال یہی آیت ’’ اما ترین من البشر ‘‘ ہے جو اوپر گزر چکی ۔
۲… ’’ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نوریحکم بھا النبیون (مائدہ:۴۴) ‘‘ ظاہر ہے کہ تورات کے موافق حکم کرنے والے گزرچکے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی کو حتیٰ کہ صاحب تورات کو بھی حق حاصل نہیں اس کی تبلیغ کا۔
۳… ’’ واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (انعام:۱۹) ‘‘ چنانچہ حضورﷺ ایک زمانہ تک ڈراتے رہے۔ مگر اب بلاواسطہ آپﷺ کی انذاروتبشیر مسدود ہے۔
۴… ’’ و سخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر (الانبیا ئ:۷۹) ‘‘ تسبیح دائود کی زندگی تک ہی رہی پھر مسدود ہوگئی۔ مگر ہر جگہ صیغہ مضارع کا ہے۔
جواب۶…
- اما یاتینکم منی ھدی (بقرہ۳۸)
- واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعدالذکریٰ مع القوم الظالمین (انعام:۶۸)
- فاما تثقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم لعلھم یذکرون (انفال: ۵۷)
- واما نرینک بعض الذی نعدھم اونتوفینک فالینا مرجعھم (یونس: ۴۶)
- اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما (بنی اسرائیل:۲۳)
- فاما ترین من البشر احدا فقولی انی نذرت للرحمن صوما (مریم:۲۶)
- اما ترینی مایوعدون رب فلا تجعلنی فی القوم الظالمین (مومنون:۹۳)
- و اما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باﷲ (اعراف:۲۰۰)
- فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون (زخرف:۴۱)
جواب۷ … درمنثور ج ۳ ص ۸۲ میں زیر بحث آیت ہذا لکھا ہے:
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم الآیۃ اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلمی فقال ان اﷲ تبارک و تعالی جعل آدم و ذریتہ فی کفہ فقال یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی۰ ثم نظر الی الرسل فقال یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا ‘‘
’’ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی جملہ اولاد کو (اپنی قدرت و رحمت کی) مٹھی میں لیا اور فرمایا: ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم … الخ ‘‘ پھر نظر (رحمت) رسولوں پر ڈالی تو ان کو فرمایا کہ: ’’ یا ایھا الرسل … الخ ‘‘ غرض یہ کہ عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔‘‘
جواب۸… بالفرض والتقدیر اگر اس آیت کو اجرائے نبوت کا مستدل مان بھی لیا جائے۔ تب بھی مرزا غلام احمد قادیانی قیامت کی صبح تک نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بقول خود آدم کی اولاد ہی نہیں، اور یہ آیت تو صرف بنی آدم سے متعلق ہے۔ مرزانے خود اپنا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے ، ملاحظہ فرمایئے:
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،خزائن ص ۱۲۷ ج۲۱)