قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۴…’’
وبالآخرۃ ھم یوقنون
‘‘
قادیانی اجرائے نبوت کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ:
’’ و الذين يؤمنون بما انزل اليک و ما انزل من قبلک و بالاخرة هم يوقنون (بقرہ:۴) ‘‘
آیت اعراب کے ساتھ:
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۴ۭ
(بقرہ:۴)
(یعنی وہ پچھلی وحی پر ایمان لاتے ہیں)
جواب ۱… اس جگہ آخرت سے مراد قیامت ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ صراحتاً فرمایا گیا: ’’ وان الدار الآخرۃ لھیی الحیوان (عنکبوت:۶۴) ‘‘ آخری زندگی ہی اصل زندگی ہے: ’’ خسرالدنیا والآخرۃ(حج:۱۱) ‘‘ دنیا و آخرت میں خائب و خاسر: ’’ و لاجر الآخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون (النحل:۴۱) ‘‘ا لحاصل قرآن مجید میں لفظ آخرت پچاس سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ مراد جزا اور سزا کا دن ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے تفسیر ابن جریر ص ۱۰۶ جلد۱، درمنثور جلد اول ص ۲۷ پر ہے:
’’ عن ابن عباس (وبالآخرۃ )ای بالبعث والقیامۃ والجنۃ والنار والحساب والمیزان ‘‘
غرض جہاں کہیں قرآن مجید میں آخرت کا لفظ آیا ہے۔ اس سے قیامت کا دن مراد ہے۔ نہ کہ پچھلی وحی۔
جواب۲… مرزا قادیانی کہتا ہے:
’’طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزماں پر جو کچھ اتارا گیا ہے ایمان لائے … ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی۔ یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا مانتا ہو۔‘‘
(الحکم نمبر ۳۴،۳۵ ج۸، ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۴ء دیکھو خزینۃ العرفان ص ۷۸ ج۱ ،از مرزا قادیانی)
اسی طرح دیکھو الحکم نمبر۲ ج۱۰، ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ء ص ۵ کالم نمبر۲،۳۔ اس میں مرزا قادیانی نے: ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘کا ترجمہ:
’’اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔کیا ہے۔ اور پھر لکھتا ہے: ’’قیامت پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
تفسیر از حکیم نورالدین خلیفہ قادیان:’’اور آخرت کی گھڑی پر یقین کرتے ہیں۔ ‘‘
(ضمیمہ بدر ج۸ نمبر ۱۵ ‘ص۳‘ مورخہ ۴؍فروری ۱۹۰۹ئ)
لہٰذا مرزائیوں کا: ’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ کا معنی آخری وحی کرنا جہاں تحریف وزندقہ ہے۔ وہاں قادیانی اکابر کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔
جواب۳… قادیانی علم و معرفت سے معریٰ ہوتے ہیں۔ کیونکہ خود مرزا قادیانی بھی محض جاہل تھا۔ اسے بھی تذکیر و تانیث واحد و جمع کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ایسے ہی یہاں بھی ہے کہ الآخرۃ تو مؤنث ہے۔ جبکہ لفظ وحی مذکر ہے۔ اس کی صفت مونث کیسے ہوگی؟ دیکھئے قرآن مجید میں ہے: ’’ ان الدارالآخرۃ لھی الحیوان ‘‘ دیکھئے دارالآخرۃ مونث واقع ہوا ہے۔ اس لئے ’’ لھیی ‘‘ کی مونث ضمیر آئی ہے اور لفظ وحی کے لئے مذکر کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے۔ تو پھر کوئی سرپھرا ہی الآخرۃ کو آخری وحی قرار دے سکتا ہے؟۔