قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر ۲…ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین۔۔۔(نساء :۶۹)
’’ ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا (نساء :۶۹) ‘‘
قادیانی کہتے ہیں کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ نبی ہوں گے۔ صدیق ہوں گے۔ شہید ہوں گے۔ صالح ہوں گے۔ اس آیت میں چار درجات کے ملنے کا ذکر ہے۔ اگر انسان صدیق، شہید، صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟ تین درجوں کو جاری ماننا۔ ایک کو بند ماننا۔ تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر صرف معیت مراد ہو تو کیا حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت فاروق اعظمؒ صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ خود صدیق اور شہید نہ تھے؟
جواب۱… آیت مبارکہ میں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی اطاعت کرے۔ وہ آخرت میں انبیاء ، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ ’’ حسن اولئک رفیقا ‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔
جواب۲… یہاں معیت ہے۔ عینیت نہیں ہے۔ معیت فی الدنیا ہر مومن کو حاصل نہیں۔ اس لئے اس سے مراد معیت فی ا لآخرۃ ہی ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے مسلمہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدینؒ نے اپنی تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کا شان نزول لکھا ہے:
’’ قال بعض الصحابۃ للنبیﷺ کیف نرٰک فی الجنۃ وانت فی الدرجات العلیٰ۰ ونحن اسفل منک فنزل ومن یطع اﷲ والرسول … وحسن اؤلئک رفیقا۰ رفقاء فی الجنۃ بان یستمتع فیھا برؤیتھم وزیارتھم والحضور معھم وان کان مقرھم فی درجات عالیۃ بالنسبۃ الی غیرھم
(جلالین ص ۸۰)
’’بعض صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات پر ہوں گے۔ تو آپﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟۔
پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ من یطع اﷲ والرسول … الخ ‘‘ (آگے فرماتے ہیں) یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ صحابہ کرامؓ انبیاء علیہم السلام کی زیارت و حاضری سے فیضیاب ہوں گے۔ اگرچہ ان (انبیائ) کا ٹھکانہ دوسروں کی نسبت بلند مقام پر ہوگا۔‘‘
اسی طرح تفسیر کبیر ص ۱۷۰ ج ۱۰ میں ہے:
’’ من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۔ الا ول روی جمع من المفسرین ان ثوبان مولی رسول اﷲﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہ ونحل جسمہ وعرف الحزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲﷺ عن حالہ فقال یارسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارک اشتقت الیک واستو حشت وحشۃً شدیدۃ ً حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی درجات النبیین وانا فی درجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینئذ لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ ‘‘
ترجمہ: ’’ من یطع اﷲ … الخ ‘ ‘(اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبانؓ جو آنحضرتﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپﷺ کے بہت زیادہ شیدائی تھے (جدائی پر) صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے آنحضرتﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن و ملال کے اثرات تھے۔ آپﷺ نے وجہ دریافت فرمائی۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں۔ بس اتنا ہے کہ آپﷺ کو نہ دیکھوں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ کی زیارت ہو تو مجھے آخرت کا خیال آکر یہ خوف لاحق ہے کہ وہاں میں آپﷺ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ چونکہ مجھے جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے، اور ہم آپﷺ کے غلاموں کے درجہ میں، اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ ابن کثیر، تنویر المقیاس، روح البیان میں بھی تقریباً یہی مضمون ہے:
حدیث: ’’ قال رسول اﷲﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہدائ ‘‘
(منتخب کنزالعمال ج۴ ص۷ حدیث ۹۲۱۷ ؍ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱ طبع مصر)
ترجمہ: ’’آپﷺ نے فرمایا کہ سچا تاجر امانت دار (قیامت کے دن) نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘
اگر معیت سے درجہ ملنا ثابت ہے تو مرزائی بتائیں کہ اس زمانہ میں کتنے امین و صادق تاجر نبی ہوئے ہیں؟۔
’’ عن عائشۃ قالت سمعت رسول اﷲﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ بحۃ شدیدۃٌ فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین… فعلمت انہ خیر ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۴۷ ج۲، ابن کثیر ص ۵۲۲ ج۱)
ترجمہ: ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی، مرض (وفات) میں اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپﷺ کی وفات ہوئی۔ آپﷺ کو شدید کھانسی ہوئی۔ آپﷺ اس مرض میں فرماتے تھے: ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘ا س سے میں سمجھ گئی کہ آپﷺ کو بھی دنیا و آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں۔ کیونکہ نبی تو پہلے بن چکے تھے۔ آپﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔
درجات کے ملنے کا تذکرہ
قرآن کریم میں جہاں دنیا میں ایمان والوں کو درجات ملنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ باقی تمام درجات کا ملنا مذکور ہے، مثلاً:
۱… ’’ والذین آمنوا باﷲ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عندربھم (الحدید:۱۹) ‘‘
ترجمہ:’’اور جو لوگ یقین لائے اﷲ پر اور اس کے سب رسولوں پر۔ وہی ہیں سچے ایمان والے اور لوگوں کا احوال بتلانے والے اپنے رب کے پاس۔‘‘
۲… ’’ والذین آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنھم فی الصالحین (عنکبوت: ۹) ‘‘
ترجمہ: ’’اور جو لوگ یقین لائے اور بھلے کام کئے۔ ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔‘‘
۳… سورۃ حجرات کے آخر میں :’’ مجاہدین فی سبیل اﷲ‘‘ کو فرمایا ’’اولئک ھم الصادقون ‘‘
ان آیات میں صدیق، صالح وغیرہ درجات ملنے کا ذکر ہے۔ مگر نبوت کا ذکر نہیں۔ غرض جہاں درجات حاصل کرنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا ذکر نہیں۔ جہاں نبوت کا ذکر ہے۔ وہاں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ صرف معیت مراد ہے۔
جواب۳… کیا تیرہ سو سال میں کسی نے حضورﷺ کی پیروی کی ہے یا نہ؟ اگر اطاعت اور پیروی کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی اطاعت وپیروی نہیں کی تو آپﷺ کی امت خیرامت نہ ہوئی۔ بلکہ شرامت ہوگی۔( نعوذباﷲ) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل پیروی نہ کی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں صحابہ کرامؓ کے متعلق خود شہادت دے دی ہے کہ :’’ یطیعون اﷲ و رسولہ(توبہ: ۷۱) ‘‘ یعنی رسول اﷲﷺ کے صحابہ کرامؓ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ بتاؤ! وہ نبی کیوں نہ ہوئے؟ اس لئے کہ اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابر صحابہ کرامؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا۔ جنہیں ’’ رضی اﷲ عنھم ورضوا عنہ ‘‘ کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ: ’’ رضوان من اﷲ اکبر(توبہ:۷۲) ‘‘
جواب۴… اگر بفرض محال پانچ منٹ کے لئے تسلیم کرلیں کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں نبوت ملتی ہے۔ تو اس آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تم غیر تشریعی کی تخصیص کیوں کرتے ہو؟ اگر اس آیت میں نبوت ملنے کا ذکر ہے تو آیت میں النبیین ہے۔ المرسلین نہیں، اور نبی غیر تشریعی اور رسول تشریعی کو کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی و رسول کے فرق سے واضح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تشریعی نبی آنے چاہئیں۔ یہ تو تمہارے عقیدہ کے بھی خلاف ہوا۔ مرزا کہتا ہے:
’’اب میں بموجب آیت کریمہ: ’’ و اما بنعمت ربک فحدث ‘‘ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں۔ بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۶۷، خزائن ص ۷۰ ج ۲۲)
اس حوالہ سے تو ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو آنحضرتﷺ کی ابتاع سے نہیں۔ بلکہ وہبی طور پر نبوت ملی۔ تو پھر اس آیت سے مرزائیوں کا استدلال باطل ہوا۔
جواب۵… اگر اطاعت کرنے سے نبوت ملتی ہے تو نبوت کسبی چیز ہوئی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ ‘‘ نبوت وہبی چیز ہے ۔جو اسے کسبی مانے وہ کافر ہے۔
نبوت وہبی چیز ہے
۱… علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک و الریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء … و قد افتی المالکیۃ و غیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ص ۱۶۴،۱۶۵ ج ۱)
ترجمہ: ’’کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی؟ تو اس کا جواب ہے کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ درویشی اختیار کرنے یا محنت و کاوش سے اس تک پہنچا جائے۔ جیسا کہ بعض احمقوں (مثلاً قادیانی فرقہ …از مترجم) کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘
۲… قاضی عیاضؒ شفاء میں لکھتے ہیں:
’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبیناﷺ اوبعدہ … اومن ادعی النبوۃ لنفسہ او جوأز اکتسابھا۰ و البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ… فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبیﷺ لانہ اخبرﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ‘‘
(شفاء ص ۲۴۶‘ ۲۴۷ ج ۲)
ترجمہ: ’’ہمارے نبیﷺ کی موجودگی یا آپﷺ کے بعد جو کوئی کسبی نبوت کا قائل ہو۔ یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بناء پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کاقائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبیﷺ کے دعویٰ… ’’ انا خاتم النبیین ‘‘… کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔‘‘
ان دونوں روشن حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبوت کے کسبی ہونے کا عقیدئہ رکھنا اپنے اندر تکذیب خدا اور رسول کا عنصر رکھتا ہے، اور ایسے عقیدہ کا رکھنے والا مالکیہ و دیگر علماء کے نزدیک قابل گردن زدنی اور کافر ہے۔
جواب۶… اگر نبوت ملنے کے لئے اطاعت و تابعداری شرط ہے تو غلام احمد قادیانی پھر بھی نبی نہیں ہے، کیونکہ اس نے نبی کریمﷺ کی کامل تابعداری نہیں کی جیسے:
(۱) مرزا نے حج نہیں کیا۔
(۲) مرزا نے ہجرت نہیں کی۔
(۳)مرزا نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔
(۴)مرزا نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔
(۵)ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا۔ مگر مرزا غلام احمد نے کسی زانیہ یا زانی کو سنگسار نہیں کرایا۔
(۶) ہندوستان میں چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر مرزا قادیانی نے کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔
جواب۷… نیز مع کا معنی ساتھ کے ہیں۔ جیسے: ’’ ان اﷲ معنا۰ ان اﷲ مع المتقین۰ ان اﷲ مع الذین اتقوا۰ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰ ان اﷲ مع الصابرین ‘‘ نیز اگر نبی کی معیت سے نبی ہوسکتا ہے تو خدا کی معیت سے خدا بھی ہوسکتا ہے؟۔ العیاذباﷲ ۔
جواب۸… یہ دلیل قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس لئے مرزائی اپنے استدلال کی تائید میں کسی مفسر یا مجدد کا قول پیش کریں۔ بغیر اس تائید کے ان کا استدلال مردود اور من گھڑت ہے۔ اس لئے کہ مرزا نے لکھا ہے:
’’جو شخص ان (مجددین) کا منکر ہے۔ وہ فاسقوں میں سے ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص ۴۸، خزائن ص ۳۴۴ ج۶)
جواب۹… اگر مرزائیوں کے بقول اطاعت سے نبوت وغیرہ درجات حاصل ہوتے ہیں۔ تو ہمارا یہ سوال ہوگا کہ یہ درجے حقیقی ہیں یا ظلی وبروزی؟ اگر نبوت کا ظلی بروزی درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرزائیوں کا عقیدہ ہے تو صدیق، شہید اور صالح بھی ظلی وبروزی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی ظلی و بروزی ہونے کا قائل نہیں، اور اگر صدیق وغیرہ میں حقیقی درجہ ہے تو پھر نبوت بھی حقیقی ہی ماننا چاہئے۔ حالانکہ تشریعی اور مستقل نبوت کا ملنا خود مرزائیوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے یہ دلیل مرزائیوں کے دعویٰ کے مطابق نہ ہوگی۔