قادیانیوں کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے کا قبول اسلام
قادیانی ، مرزائی اور احمدی یہ وہ نام ہیں جن کی نسبت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف ہوتی ہے ، جس نے انگریز کے دورحکومت میں اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ،پھر مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو کبھی امام مہدی ہونے کا ، غرض امت کو گمراہ کرنے کا ہرایک طریقہ اپنایا بالآخر انجام اس کا یہ ہوا کہ اپنی زندگی کے آخری دور میں بیت الخلا میں قضائے حاجت کرتا ہوا اس دنیا سے ہلاک ہوگیا ۔ قادیانیت کے کفریہ عقائد کی بنیاد پرعلمائے امت نے اسے ملت اسلامےہ سے خارج قرار دیا ہے، آج یہ فتنہ دشمنان اسلام کی پشت پناہی سے عالمی شکل اختیار کرگیا ہے اور ہرجگہ اس کی ارتدادی سرگرمیاں جاری ہیں ،اس فتنے کے تدارک اور اس سے منسلک افراد کو تباہی اور بے دینی کی لعنت سے بچانے کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ الحمداللہ اسلام کی روشنی اب مرزا قادیانی کے گھرانے تک پہنچ چکی ہے۔ قادیانی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے اور خلیفہ سوئم مرزا ناصر کے بیٹے مرزا احمد بلال نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ جسے قادیانی مبلغ بنانے کے لےے روسی اور اطالوی زبانیں سکھائی گئی تھیں۔ ذیل کے سطور میں مرزا احمد بلال کے قبول اسلام کی داستان پیش کی جا رہی ہے
۔
سوال : آپ نے بتایاکہ آپ کا تعلق مرزا خاندان سے ہے اور آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے ہیں۔ قادیانیت سے اسلام تک کا سفر اور قادیانوں کے ہاتھوں اغوا اور تشدد کی کہانی کیا ہے ؟
جواب : جی ہاں ! میں مرزا ناصر الدین کا بیٹا ہوں، ہم کل تین بھائی او رایک بہن ہیں۔ ایک بھائی جو مجھ سے بڑا ہے اس کا نام مرزا فرید، میرا پرانا نام مرزا احمد بلال اور مجھ سے چھوٹے بھائی کا نام مرزا انس ہے۔ لیکن میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنا نام بدل کر عبد الرحمن رکھ لیاہے بلکہ اب مرزا کا لفظ بھی نام کے ساتھ نہیں لکھتا۔ اسلام کی طرف آنے کی تفصیل یہ ہے کہ گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ سے میٹرک اور گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج سے بی اے کرنے کے بعد مجھے بھی ربوہ کی روایت کے مطابق مشنری مقاصد کے لےے تیار کرنے کی غرض سے اطالوی اور روسی زبانیں سکھائی گئیں۔ اسی دوران میں ربوہ میں قائم قادیانی خلافت لائبریری کا ناظم مقرر ہواتو مجھے حقیقی اسلام کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملا۔
یہ1998ءکی بات ہے جب مجھے لائبریری میں علامہ احسان الہی ظہیر کی دو کتب ”قادیانیت “ اور ” مرزائیت اور اسلام “ پڑھنے کا موقع ملا۔ ابتدا ئًً میرا خیال یہی تھا کہ یہ کتب بھی روایتی تعصب پر مبنی ہوں گی جو ہمارا تصور تھا کہ مسلمان علماءغلام احمد قادیانی کے بارے میں خواہ مخواہ تعصب اور بغض رکھتے ہیں لیکن میں نے ان کتابوں کے چند صفحات پڑھے تو مجھے دلچسپ اور حقیقت افروز محسوس ہوئیں ۔ان کتب میں جو حوالے دئےے گئے تھے وہ سو فیصد درست تھے۔ یوں میرا دل قادیانیت سے اچاٹ ہونے لگا۔ میں نے قادیانیت کے مربین سے سوال وجواب کرنا چاہا، وہ مجھے روایتی جوابات تو دے سکے لیکن مطمئن نہ کر سکے۔ ان کتب کے پڑھنے کے بعدمجھے سمجھ آئی کہ مرزا قادیانی نے کس طرح اللہ پر بہتان باندھے اور انبیاءاور ان کی امہات کے بارے میں نازیباپیرائے میںمن گھڑت قصے اپنی کتب میں شامل کئے۔ مجھے مرزا قادیانی کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی شبہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے مرزا بشیرالدین کی تحریروںمیںپڑھ رکھا تھا کہ:
” مرزا غلام احمد قادیانی “ کو اندازہ نہ تھا کہ پاؤںمیں ایک جوتا پہننا ہے یا دو جوتے پہننے ہیں “۔
پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ 1883 ءمیں مرزا قادیانی نے خود کو محض مجدد قرار دیا۔ 1891 ءمیں امام مہدی قرار دینے لگا اور 1895ءمیں نبوت کا دعوی کرنے لگا کہ :
” اللہ نے مجھے خواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر دکھائی ہے جو کشمیر کے علاقے ” خانیار “ میں ہے، چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام انتقال کر گئے ہیں، اس لیے اللہ نے ایک رات میری جنس تبدیل کی اور میرے ساتھ رجولیت کا اظہار کیاجس کے نتیجہ میں مجھے حمل ٹھہرگیا “ ۔
یہ سب باتیں اب میرے ليے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوگئیں کہ غلام احمد نے اللہ پر کس طرح بہتان باندھ دیا ۔ میں نے مربین جن میں حافظ مظفر اور عزیز بھامری شامل تھے ان سے دریافت کیا کہ اللہ نے قوم لوط کو تو اس عمل پر سزادی اور خود ”معاذ اللہ“ وہی کام کرنے لگا ۔ یہ بہتان نہیں تواور کیا ہے ؟ اب میں نے اپنے آپ کو عملاً قادیانیت سے دور کرلیا لیکن اسلام قبول کرنے کا اعلان نہ کیا کہ ربوہ جو ریاست کے اندر ایک ریاست کا درجہ رکھتاہے وہاں یہ اعلان ممکن نہ تھا ۔
سوال : یہ صورت حال کب تک رہی ؟
جواب: میں تقریباً ایک سال تک اسی کشمکش میں رہا، گھر والوں سے بھی بات ہوتی رہی ۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ربوہ سے باہر جانے دیں گے نہ قادیانیت سے ۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ وہ مجھے زنجیروںسے باندھ دیں گے اور اگر مرگیا تو میرا جنازہ قادیانیت کے مطابق ہوگا ۔
سوال : کیا واقعی زنجیروں سے باندھا گیا ؟
جواب : جی ہاں! مجھے ایوان محمود میں قائم قادیانیوں کی نجی جیل میں تین ماہ تک زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تاکہ میں قادیانیت کے بارے میں اپنے تبدیل شدہ خیالات سے رجوع کرلوں ۔
سوال : کیا آپ کے علاوہ بھی کچھ لوگ اس نجی عقوبت خانے میں تھے ؟
جواب: میرے علاوہ بھی چار پانچ افراد تھے تا ہم انہیں مجھ سے الگ رکھا گیا تھا ۔ ربوہ میں پولیس قادیانیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ۔ قادیانی انتظامیہ نے اپنی عدالت خود بنا رکھی ہیں اور یہ خود ہی لوگوں کو سزا دیتے ہیں، خود ہی گرفتار کرتے ہیں اور اپنے نجی طور پر بنائے گیے قید خانوں میں رکھتے ہیں ۔
سوال : آپ کیسے بچ کے نکل آئے ؟
جواب : تین ماہ تک رہنے کے بعد ایک دن میں نے سوچا کہ ساری عمر اس قید خانے میں گزاردینے سے بہتر ہے کوشش کی جائے ،لہذا میں نے اپنی زنجیر کو فرش پر مسلسل رگڑتے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ خدا کاکرنا یہ ہوا کہ پانچ دن تک رگڑتے رہنے سے میری زنجیر ٹوٹ گئی۔ لیکن یہ شام کا وقت تھا جو قید خانہ سے فرار کے لےے مناسب وقت نہ تھا ۔ اس لےے میں نے اگلی صبح تک فرار ملتوی کردیا ۔ اگلی صبح دوسرے فلور سے نیچے چھلانگ لگا کر ربوہ کی حدود سے باہر آگیا۔ میرے پاؤں پر سخت چوٹیں آئیں تاہم تازہ چوٹ کا درد کم تھا ، میں کسی طرح لاہور پہنچ گیا جب یہاں پہنچا تو میرے پاؤں میں زنجیر کا ایک حصہ موجود تھا اور پاؤں زخمی تھے ۔
سوال :آپ نے بتایا کہ ربوہ سے فرار اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ 1999 ءکا ہے ۔اب آپ قادیانیوں کے ہتھے کیسے چڑھ گیے ؟
جواب : اس میں شک نہیں کہ میں نے ربوہ سے فرار کے بعد لاہور میں پناہ لی لیکن میں اپنے ضروری علاج و معالجے کے بعدگوادر چلاگیا جہاں میں نے ایک چینی کمپنی میں بطور مترجم ملازمت اختیار کرلی ۔ اس دوران گاہے بگاہے میں لاہور آتا رہا رواں سال کے دوران میں نے فریضہ حج کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو حج کے لےے درخواست دی لیکن میرا ایڈریس ربوہ کا ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت نے اعتراض لگا دیا ۔ اپنا ایڈریس تبدیل کرنے کے لےے میں لاہور میں مقیم تھا کہ شادمان کی رہائشی ایک خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کناڈامیں قیام کے دوران قادیانیت سے متاثر ہوگئی ہے ۔ اس کے اہل خانہ نے مجھے کہا کہ میں اس سے ملوں اور اسے قادیانیت کی حقیقت سے آگاہ کروں ۔ میں اس خاتون سے ملا اور اس سے اگلے ہی روز جب میں گنگارام کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑا تھا تو ایک ویگن میرے پاس آکر رکی اور ویگن سے اتر نے والے ایک فرد نے کہا:”تم ربوہ کے رہنے والے ہو“ ۔ میں نے کہا پہلے رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے مجھے اٹھاکر وین میں ڈالااور گڑھی شا ہوکے دار الذکر کے عقب میں ایک گھر میں لے گئے ۔ راستے میں بھی مجھ پر تشدد کرتے رہے اورا س گھر میں جہاں کئی مزید افراد تھے، انہوںنے مجھ پر تشدد شروع کردیا۔ ڈنڈوںسے میری ٹانگوں کی پنڈلیوں اور رانوں پر ضربیں لگاتے رہے ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس کے بعد تین بجے سہ پہر نیلا گنبد چوک پر پھینک کر چلے گئے۔
سوال : آپ نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرائی ؟
جواب : اس سلسلے میں ایف آئی آر تو درج کرادی تھی لیکن ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ ایف آئی آر کی کاپی بھی ہمیں تھانے کی طرف سے فراہم نہیں کی ، جب تھانے والوںسے پوچھتے ہیں کہ کاروائی کیوں نہیں کر رہے تو کہا جاتا ہے کہ اوپر سے حکم ہے ۔
سوال : ربوہ میں پولیس کاروائی کی صورت کیا ہوتی ہے ؟
جواب : ربوہ کا معاملہ تو بہت مختلف ہے وہ تو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے ۔ 1973ءمیں ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا تھا ۔ لیکن آج تک ربوہ کھلا شہر نہیں بن سکا ۔ حد یہ ہے کہ کوئی غیر قادیانی ربوہ میں رہائش اختیار نہیں کر سکتا ۔ پولیس صرف ربوہ سے باہر کی چیزوں پر نظر رکھتی ہے ۔ ربوہ میں قادیانی انتظامیہ نے نجی سیکورٹی قائم کر رکھی ہے ۔
سوال :قادیانیت کے عمومی زندگیوں پر ربوہ میں کیا اثرات نظر آتے ہیں ؟
جواب : ربوہ میں کوئی بندہ آپ کو مطمئن نظر نہیں آتا ۔ ہر کوئی بے چینی کا شکار ہے ، مضطرب اور پریشان ہے ، حتی کہ مرزا خاندان کے اندرونی حالات بھی سخت اضطراب اور خرابی کی زد میں ہیں ۔ ڈکیتیاں ہوں تو بھی پولیس مداخلت نہیں کر سکتی ۔ قتل کے واردات ہوں پھر بھی پولیس دخل نہیں دے سکتی ۔
سوال : آپ کب کی بات کر رہے ہیں ؟
جواب : میں قصر خلافت میں ڈکیتی کیس کی بات کر رہاہوں جو 1998ءمیں ہوئی ۔ اس میں مرزا داﺅ د کے کزن کی گردن میں گولی بھی لگی تھی، اسی طرح بریگیڈیئر اصغر کی پراپرٹی کے معاملہ پر کئی افراد قتل ہوگئے لیکن پولیس ریکارڈ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
سوال : کیا وجہ ہے لوگ کیوں بولتے نہیں ؟
جواب : مرزا نے 1952ءمیں ربوہ کے لےے حکومت سے لیز پر زمین لی تھی ۔ اس لےے ربوہ میں رہنے والوں کی زمین ان کی ذاتی ملکیت نہیں بن سکی ۔ اگر ربوہ میں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق دے دےے جائیں تو وہ بآسانی قادیانیت کے چنگل سے نکل آئیں گے ۔ ایسے ایک دو افراد نہیں ہزاروں میں ہیں جو اپنے مالی مستقبل سے خوف زدہ ہیں، اس لےے ربوہ میں چپ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اگرا نہیں مالکانہ حقوق مل گئے تو ربوہ کھلا شہر بن جائے گا ۔
سوال : مرزا خاندان کے اندر کا کلچر آپ کو کیسا لگتا تھا ؟
جواب : مرزا خاندان کی زندگی تو شہزادوں جیسی ہے ۔ صرف ربوہ میں ہی نہیں راجن پور، میر پور ہاص ( سندھ ) احمد نگر اور لاریاں میں ان کی زرعی زمینوں نے انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کردیا ہے، اسی طرح لندن میں Tilfordمیں حال ہی میں قادیانی مرکز بنانے کے لےے حاصل کی گئی زمین کا بڑا حصہ بھی مرزا خاندان کے ذاتی استعمال میں ہے۔ ربوہ میں قصر خلافت کے اصطبل میں مختلف ملکوں سے لائے گئے گھوڑوں کی شاہانہ دیکھ بھال کا ماحول ہے ۔ ربوہ میں مرزا فیملی کے دو ڈھائی سو افراد ہیں جس علاقے میں مرزا خاندان کے لوگ رہتے ہیں وہاں عام قادیانی بھی رہائش نہیں رکھ سکتا ۔ ایک شاہانہ اندازِ زندگی ہے جس کی زد میں قریبی دیہات سے کام اور مزدوری کے لےے آنے والے مرد اور خواتین بھی آتے رہتے ہیں ۔ مرزا خاندانوں کے گھرانوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جو ظلم ہوتاہے اس پر زبان کھولنا ممکن نہیں ۔ یہ کہانیاں وہاں کے دروبام میں ہی دب جاتی ہیں ۔
سوال : جو منظر نامہ آپ نے ربوہ کا بیان کیا ہے یہ تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے ؟
جواب : میڈیا وہاں تک رسائی نہیں کر سکتا ۔ میڈیا والوں نے بھی شاید کوشش ہی نہیں کی ہے کیونکہ میڈیاکو اندازہ ہے کہ یہ اس کے لےے آسان ہدف نہیں ہے ۔
سوال : قادیانیوں کے ترجمان الفضل میں آپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ مرزا ناصر الدین کے بیٹے نہیں اور آپ کا دعوی غلط ہے ؟
جواب: میں اس کو ہر طریقے سے ثابت کرنے کو تیار ہوں ، اگر ڈی ین اے ٹیسٹ کی ضرورت ہے، میں وہ بھی کروانے کو تیار ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے پہلے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن اب انہوںنے جس طرح پر تشدد کاروائی کی ہے میں ان کے خلاف پوری کوشش کرکے انہیں بے نقاب کروںگا اب میں نہ صرف مسلمانوں کوان کے کرتوتوں سے باخبر کروں گا بلکہ قادیانیوں کو بھی پیغام دوں گا کہ وہ اپنا ایمان مکمل کریں اور خود کو جہنم سے بچائیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان کے ساتھ قادیان کا تعلق ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں قادیانیوں کو اور بھی بہت ساری مراعات حاصل ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان نے انہیں غیر مسلم قرار نہیں دیا ۔ ہندوستان میں ان کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے ۔ اسی طرح اسرائیل، تل ابیب میں قادیانی مرکز ہے۔ اسرائیلی فوج میں بھی قادیانی شامل ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی کار وائیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔
سوال : بر صغیر ہند وپاک میں قادیانیوں کے تبلیغی اہداف اور طریقے کیا ہے ؟
جواب: ہر سال ربوہ سے تقریبا چار سو مبلغ تیار ہوکر نکلتے ہیں کچھ ملک کے اندر اور کچھ بیرون ملک بھجوائے جاتے ہیں پاکستان کے اندر اور باہر ان کے آسان ٹارگٹ غربت زدہ علاقوں کے مسلمان ہوتے ہیں ۔ پنجاب کا اسرائیلی بیلٹ، سندھ کے پسماندہ علاقے ملک کے اندر ان کا خصوصی ہدف ہیں جب کہ افریقی ممالک کے غریب مسلمانوں پر بھی یہ کام کر رہے ہیں ۔