• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی آرٹیکل " امت محمدیہ میں آنے والے مہدی و مسیح کی علامات " کا جواب اور منہ توڑ جواب

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی دلیل
لا المھدی الا عیسی بن مریم (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)
یعنی عیسیٰ ہی مہدی ہوں گے۔ اس آنے والے موعود کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر اس کی علامات و نشانات، ظہور کا مقام اور ملک تک بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا اجمالی تذکرہ پیش ہے۔
................................
دوستوں جیسا کہ اپ جانتے ہیں مرزا غلام قادیانی نے کس طرح بے سروپا تاویلات کرکے اپنے اپ کو عیسیٰ ابن مریم اور امام مہدی ثابت کرنے کی کوشش کی ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشمار صحیح احادیث عیسیٰ ابن مریم کے نزول کے بارے میں بیان کیں ، بلکل اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اپنی امت میں ہونے والی اس شخصیت کا نام ونسب تک بیان فرما دیا ، جنھیں دنیا امام مہدی کے نام سے یاد کرتی ہے . چناچہ صحیح احادیث میں وارد ہے ان کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام جیسا اور ان کے والد کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد جیسا ہو گا یعنی " محمد بن عبداللہ " اسی طرح صحیح روایت سے ثابت ہے کا وہ سید ہونگے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہونگے اور دنیا کا عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور یہ بھی مذکور ہے کے وہ عرب پر حکمرانی کریں گے ..
دوستوں پہلے مرزا غلام قادیانی نے لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ کسی مہدی نے نہیں آنا اور اس نے بے شرمی کے ساتھہ یہ جھوٹ لکھ دیا کہ " وہ تمام احادیث جن میں مہدی کے آنے کا ذکر ہے وہ سب کی سب ضعیف ، مجروح اور قابل بھروسہ نہیں" ( خزائن جلد 7 ص 314،315 ) اور اس سے بھی بڑا جھوٹ یہ لکھا کہ " جیسا کے تمام محدثین یہ کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی ماعود کے آنے کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ایک بھی صحیح نہیں " ( خزائن جلد 21 ص 356 )
دوستوں اپ نے دیکھا کہ کیسے اور کس طرح مرزا نے امام مہدی کا تصور لوگوں کے دلوں سے مٹانے کے لئے یہ دو واضح جھوٹ بولے ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک نہیں کئی صحیح احادیث ہیں جو اس بارے میں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن اس سے بڑھ کر بھی مرزا جی کا فریب ملاخط کریں کہ جب مہدی کا انکار کرنا تھا تو لکھ دیا کہ " مہدی کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور سب کی سب ضعیف ہیں ایک بھی قابل بھروسہ نہیں "
لیکن جب خود مرزا جی کا دل مہدی بن جانے کو للچایا تو ایک تیسرا جھوٹ یہ بولا کہ " اور ان حدیثوں کے مقابل پر یہ حدیث بہت صحیح ہے جو ابن ماجہ نے لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ " لا مہدی الا عیسیٰ " یعنی کوئی اور مہدی نہیں صرف عیسیٰ ہی مہدی ہے " ( خزائن جلد 21 ص 356 )
دوستوں اس بات سے قطع نظر کہ اس روایت سے بھی ( اگر اسے ایک منٹ کے لئے صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو ) حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا مہدی ہونا ثابت ہوتا ہے مرزا غلام قادیانی ابن چراغ بی بی تو پھر بھی مہدی ثابت نہیں ہوتا ،
لیکن آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سنن ابن ماجہ کی جس روایت کو مرزا جی بہت صحیح قرار دے رہے ہیں اس کا حال کیا ہے ؟
حدیث " لا مہدی الا عیسیٰ "
یہ روایت سنن ابن ماجہ میں لکھی ہے آئیے دیکھتے ہیں محدثین اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
اس روایت میں ایک راوی ہے جسکا نام " محمد بن خالد الجندی "
شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر عسقلانی نے " تقریب التہذیب " میں لکھا ہے کہ " یہ راوی مجہول ہے ( یعنی اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کون صاحب ہیں ) "
یہی حافظ ابن حجر اپنی کتاب " تہذیب التہذیب " میں امام بہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " محمد بن خالد مجہول ہے "، وہ روایت کرتا ہے ابان بن ابی عیاش سے جو کہ متروک ہے (جسے محدثین نے ترک کر دیا ) اور مہدی کے خروج کے بارے میں باقی احادیث بہت زیادہ صحیح ہیں ( اس لئے اس ضعیف حدیث کی انکے مقابلے میں کوئی حثیت نہیں )
انہی حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی ایک اور کتاب " فتح الباری " میں بھی اس کی اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث کو رد کر دیا جائے گا
کیونکہ یہ ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جن میں امام مہدی کے خروج کا بیان ہے
امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " میزان الااعتدال " میں اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ " یہ روایت منکر ہے "
امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " الاحدیث الموضوعہ " میں امام صغانی کا قول نقل کیا ہے کہ " یہ روایت موضوع ہے "
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " العرف الوردی فی اخبار المہدی " میں امام قرطبی کا انکی کتاب " التذکرہ " سے یہ قول نقل کیا ہے کہ " اس روایت کی سند ضعیف ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھہ احادیث ثابت ہیں جو اس بات پر نص ہیں کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہونگے "
امام ابن تمیمہ نے اپنی کتاب " منہاج السنتہ " میں اس روایت کو "ضعیف "لکھا ہے
امام ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ نے " المنارہ المنیف " میں اسے" ضعیف "بتلایا ہے
ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے " مرقات شرح مشکوة " میں لکھا ہے کہ " تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے"

تو دوستوں یہ حال ہے اس روایت کا جس کو مرزا نے بہت صحیح قرار دیا ہے
قادیانیوں :
پکڑ لایا ہوں میں شیرِ تحقیق
تم اپنے فیل معنی کو نکالو

................................................................
قادیانی کی دوسری دلیل
احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود فارسی الاصل ہو گا۔ چنانچہ جب آیت و اخرین منھم لما یلحقوا بھم (الجمعہ:62:4) نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخرین کون لوگ ہیں۔ اس پر آپ نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:۔
”اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو ضرور اہل فارس میں سے کچھ اشخاص یا ایک شخص اسے واپس لے آئے گا“(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت و آخرین منھم)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا خاندان اس پیشگوئی کے عین مطابق فارسی الاصل ہے اور آپ کے شدید مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی آپ کا فارسی الاصل ہونا تسلیم کیا ۔(اشاعۃ السنہ نمبر۷ صفحہ۱۹۳)
................................................................
کہتے ہیں چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے میں سورۂ الجمعہ کی آیات لکھتا ہوں
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ان آیات میں صرف ایک بار لفظ " بَعَثَ " آیا ہے جو کہ ماضی ہے جسکا ترجمہ ہے " بیجھا " یعنی ان آیات کے نزول کے وقت وہ رسول بیجھا جا چکا تھا ، اسکے بعد ان آیات میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جسکا ترجمہ ہو " دوسری قوم میں بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیجھے گا " لیکن مرزائی مربی نے اپنی طرف سے یہ الفاظ قران میں ڈالے ، ان آیات کا صاف مفہوم یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم صحابہ اور قیامت تک کی صبح کے لئے عام ہے خود اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا " قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا " کہہ دیں کہ اے لوگوں ، میں تو سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں (سورہ الاعراف آیت 158 )
یہی بات مرزا غلام قادیانی کو بھی مسلم ہے لکھتا ہے کہ
" خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بیجھا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھلاتا ہے ، اگرچہ وہ پہلے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کر رہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہو جاویں گے اور انہیں کے کمالات پیدا کر لیں گے ، مگر وہ ابھی ان سے ملے نہیں اور خدا غالب ہے اور حکمت والا ، اس جگہ یہ نکتہ یاد رہے کہ آیت " وآخرین منھم " میں " آخرین " کا لفظ معفول کے محل پر واقعہ ہے گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے " هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ " یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کے اور بھی ہیں جن کا گروہ آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی تربیت فرمائی ، ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے " ( خزائن جلد 5 صفحہ 208،209 ) ماحصل عبارت کا یہ ہے کہ بہ اقرار مرزا قادیانی اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آخرین منھم میں کوئی نبی معبوث ہوگا ،
قطع نظر اس کے کہ حدیث کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ مرزا صاحب تو مغل زادے تھے جیسا کہ وہ خود راقم ہیں:
'' خاتم الخلفاء عینی الاصل ہوگا یعنی مغلوں میں سے۔'' (روحانی ص35، ج20)
پس وہ فارسی الاصل کیسے بن گئے؟
ناظرین کرام! حدیث میں آیا ہے کہ نسب بدلنے والے کی نماز چالیس دن قبول نہیں ہوتی۔ اور قرآن پاک میں بھی سخت وعید ہے۔ مگر ہمارے مرزا صاحب کچھ ایسے نڈر تھے کہ جہاں شیخ ابن عربی کی پیشگوئی کا مصداق اپنے آپ کو بنانا تھا وہاں مغل بن گئے۔(روحانی ص 81 ج 22) اور جہاں حدیث رِجالُ فارس(مسلم ص312، ج2 فی الفضائل باب فضل فارس الحدیث من روایت ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ) پر قبضہ جمانا تھا وہاں فارسی الاصل بن گئے اور جہاں احادیث مہدی کا مصداق بننا تھا وہاں کہہ دیا کہ:
'' میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔'' (روحانی ص216، ج18 )
ہم بھی قائلی تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
اور زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے

....................................................................
قادیانی کی تیسری دلیل
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔
”اللہ تعالیٰ اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرا نام اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا“ (ابو داؤد کتاب المہدی)
اس حدیث میں آنے والے موعود کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کامل موافقت کا ذکر کیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ مہدی کی صفات آنحضرت ﷺ جیسی ہوں گی اور وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطابق لوگوں کو ہدایت دے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن جلد۹ حدیث ۵۴۵۲)
علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مہدی کی ظاہری نام کے لحاظ سے بھی آنحضرت ﷺ سے موافقت ہوگی۔ چنانچہ احادیث میں مہدی کا نام ”احمد“ بھی لکھا ہے۔
(کتاب الفتن باب فی سیرۃ المہدی صفحہ ۹۸ از حافظ ابو عبداللہ نعیم بن حماد)
قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک نام احمد بھی تھا۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی کا اصل نام احمد ہی ہے جیسا کہ الہامات میں بھی بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمد کے نام سے خطاب فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا یَا اَحمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیکَ(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر۵ صفحہ۵۵۰)
....................................................................
قادیانی جی میں اپ کی پہلی تحریر ویسی ویسی لکھ رہا ہوں اور اپ نے جو کمال دھوکے بازی کی ہے اس کی بینڈ بجاتا ہوں
”اللہ تعالیٰ اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرا نام اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا“ (ابو داؤد کتاب المہدی)
اس حدیث میں آنے والے موعود کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کامل موافقت کا ذکر کیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ مہدی کی صفات آنحضرت ﷺ جیسی ہوں گی اور وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطابق لوگوں کو ہدایت دے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن جلد۹ حدیث ۵۴۵۲)
اس میں اپ نے " ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ " کا حوالہ دیا لیکن مرزائی خصلت سے باز نہیں آئے اور ادھورا حوالہ پیش کر دیا چلیں میں پورا حوالہ جو اس کے آگے لکھا ہے وہ پیش کرتا ہوں
اس سے اگلے الفاظ ہیں
" فانه محمد المھدی "
انکا نام محمد مہدی ہوگا
ایک اور جگہ پر اسی روایت کے آگے لکھتے ہیں " فیکون محمد بن عبد اللہ " انکا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا
کیوں مربی جی یہودی خصلت دیکھا کر اپ کو کیا ملا ؟؟؟
اس کے بعد اپ نے ایک اور جھوٹ بولا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا نام " احمد " تھا
جھوٹ بولنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں شائد
مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا نہ کہ احمد، مرزا جی لکھتے ہیں کہ '' میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ'' (روحانی ص162 ج 13) اس چیز کی تصدیق مندرجہ ذیل کتاب سے ہوتی ہے۔(تحفہ شہزادہ ویلز ص29 مؤلفہ مرزا محمود ، وکشف الغطاء ص2 و روحانی ص 79، ج4 اور دافع البلاء ص13 و روحانی ص233، ج18 ، و تاریخ احمدیت ص67، ج1 و حیات طیبہ ص11 و مجدد اعظم ص1،ج1 و سلسلہ احمدیہ ص9 و حیات احمدص 102، ج4 و ذکر حبیب ص340 و تذکرۃ المھدی ص287، ج1 و گلزار احمد ص21، ج1 و سیرۃ المھدی ص1، ج1 وغیرہ )
کیوں مربی جی مزید حوالوں کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا شرم تمیں مگر نہیں آتی
....................................................................................
قادیانی کی چوتھی دلیل
آنے والے موعود کا حلیہ

آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے مسیح کا حلیہ یہ بیان فرمایا کہ:۔
”وہ سرخ رنگ کے گھنگریالے بال اور چوڑے سینے والے تھے“(بخاری کتاب الانبیاءباب واذکر فی الکتاب مریم)
لیکن آپ نے امت محمدیہ میں دجال کے بالمقابل ظاہر ہونے والے مسیح کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔

”اس کے بال لمبے اور رنگ گندمی ہوگا“ (بخاری کتاب اللباس باب الجعد)
دونوں مسیحوں کے الگ الگ حلیے بیان کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح اور مسیح ناصری علیہ السلام جدا جدا وجود ہیں۔ آنے والے موعود کے حلیہ کے متعلق یہ بھی ذکر ہے کہ :۔
”مہدی کی پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی“(ابو داؤد کتاب المہدی حدیث نمبر۷)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا حلیہ بعینہ اس کے مطابق ہے۔
...................................................................................
اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے ملاحظہ ہو بَدْئُ الْخَلْقَ میں ہے مُوْسٰی رَجُلاً اٰدَمَ طِوَالاً جَعْدًا کَانَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَأَیْتُ عِیْسٰی رَجُلاً مَوْفُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ سَبَطَ الرَّأس ۔ (اخرجہ البخاری فی الصحیح ص459، ج1کتاب بدالخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء) حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ قد لمبا، گھونگھرالے بال والے تھے جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ، اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سُرخ و سفید رنگ، سیدھے بال والے اور کتاب الانبیاء میں ہے:
رأیت موسی واذا رجل ضرب رجل کانہ من رجال شنوء ۃ ورأیت عیسی فاذا ھو رجل ربعۃ احمر (وفی الحدیث الذی بعدہ ) جعد مربوع ( ایضاً ص471، ج1کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ عزوجل وھل اتک حدیث موسٰی) یعنی موسیٰ علیہ السلام دُبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھونگھرالے بال والے۔ پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے (اور سنیے) وَاَمَّا عِیْسٰی وَاَحْمَرُجَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدُرِ وَاَمَّا مُوْسٰی فَاٰدَمُ جَسِیْمٌ بَسَطٌ کَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ الزُّطِ ۔ ( ایضاً ص489، ج1باب واذکر فی الکتاب مریم ) یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھونگھرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلا اور ایک اور کوئی۔
ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ علیہ السلام کے حلئے میں اختلاف ہے نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ و حلیہ میں جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں لفظ جَعْد کے معنے گھونگھرالے بال کے نہیں۔ بلکہ گٹھیلے بدن کے ہیں۔ نہایہ ابن اثیر میں ہے مَ عْنَاہُ شَدِیْدُ الْاَسْرِ وَالْخَلْقِ نَاقَۃٌ جُعْدَۃ اَی مُجْتَمِعَۃُ الْخَلْقِ شَدِیْدَۃ ۔ (نھایہ ابن اثیر ) یعنی جعد کے معنی جوڑو بند کا سخت ہونا جعدہ اونٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔ مجمع البحار میں ہے اَمَّا مُوْسٰی فَجعُدٌ اَرَادَ جُعُوْدَۃَ الْجِسْمِ وَھُوَ اجْتَمَاعُہٗ وَاکتنازہ لا ضد سُبُوطَۃُ الشَّعْر لِاَنَّہٗ رُوِیَ اَنَّہٗ رَجِلُ الشَّعْرِ وَکَذَا فِیْ وَصْفِ عِیْسٰی ۔( مجمع البحار ص196، ج1وفتح الباری ص375، ج6باب واذکر فی الکتاب مریم، و نووی شرح مسلم ص94، ج1) یعنی حدیث میں موسیٰ و عیسیٰ کے لیے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنے بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نہ بالوں کا گھونگھر ہونا کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضربٌ اور جسم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنی نحیف البدن اور جیم بمعنی طویل البدن۔ قال القاضی عیاض المراد باالجسم فی صفۃ موسی الزیادہ فی الطول ۔ (فتح الباری ص375، ج6باب واذکر فی الکتاب مریم)یعنی صفت موسیٰ میں لفظ جیم کے معنے لمبائی میں زیادتی ہے۔ اسی طور سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ لفظ احمر کا صحابی راوی نے سخت انکار کیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں موجود ہے عَنِ ابْنِ عُمُر قَالَ لَا وَاللّٰہِ مَا قَالَ النَّبِیُّ ﷺ بِعِیْسٰی اَحْمَرَ ۔ (اخرجہ البخاری فی الصحیح ص479ج 1کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں احمر یعنی سرخ رنگ کبھی نہیں فرمایا۔ پس پہلا رنگ برقرار رہا یعنی سفید رنگ سرخی مائل لہٰذا رنگ و حلیہ کا اختلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام سے مدفوع ہے اور حقیقت میں جیسے موسیٰ علیہ السلام ایک تھے عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک ہی ہیں۔
اب رہی اپ کے مرزا غلام قادیانی کی تو سچ تو یہ ہے
بھینگی آنکھیں ، جن میں سے ایک چھوٹی اور ایک بڑی جو کوشش کے باوجود بھی پوری نہیں کھلتی تھی
چوہے اور خرگوش سے ملتی جلتی ناک
بال نہ ہی لمبے اور نہ ہی گھنگریالے سر پر پگڑی سیکھوں کی طرح جو کہ کسی علامت میں نہیں
.........................................................................
مرزائی مربی کی پانچویں دلیل
شادی اور اولاد
مسیح موعود کی ایک علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ :۔
”وہ شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی“(مشکوٰة کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ)
جہاں تک حضرت مسیح موعود کی اس علامت کا تعلق ہے کہ وہ شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود مجرد نہیں رہیں گے بلکہ شادی کریں گے اور مبشر اولاد پائیں گے جو ان کا مشن اور کام جاری رکھنے والی ہوگی۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود کی شادی بھی ہوئی اور آپ کو خدا نے دین کی عظیم الشان خدمات بجا لانے والی اولاد بھی عطا فرمائی۔
.............................................................................
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بہ تخریج ابن الجوزی اور کتاب الوفا اور مشکوٰۃ کے باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ہیں مرقوم و مسطور ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم طرف زمین کے۔ نکاح کریں گے اولاد ہوگی۔ زمین میں 45 سال رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرہ میں دفن ہوں گے۔
حدیث مرقومہ بالا سے صاف واضح ہے کہ حضرت ابن مریم زمین پر اُتر کر نکاح کریں گے چونکہ مرزا صاحب دعویٰ مسیحیت سے پہلے نکاح کرچکے (مرزا نے دو شادیاں کی تھیں پہلی شادی پندرہ سولہ سال کی عمر میں (غالباً 1855ء ، 1856ء) کی تھی '' حیات طیبہ ص76 '' جبکہ دوسری شادی 1884ء میں (ایضاً 76) لیکن دعویٰ مسیحیت کے بعد مرزا نے کوئی شادی نہیں کی تھی۔) تھے اس سے اولاد بھی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ہذا کا یہ مطلب ظاہر کیا کہ اس نکاح سے جو مسیح موعود کی علامت ہے محمدی بیگم کا میرے ساتھ نکاح ہونا ہے چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
'' اس (محمدی بیگم کے نکاح والی) پیشگوئی کی تصدیق کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرما لی ہے کہ ''یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ '' یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا نیز صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی ہے اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سیاہ دل منکروں کو اس کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہونگی۔ (روحانی ص337، ج11)
چونکہ یہ علامت جو مسیح موعود کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''ضروری'' بتائی ہے مرزا صاحب میں پائی نہیں گئی اس لیے وہ مسیح موعود نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزائی مربی کی چھٹی دلیل
آنیوالے موعود کی عمر
زیادہ تر ثقہ روایات میں مسیح موعود کی مدت قیام چالیس سال بیان کی گئی ہے اور حضرت مرزا صاحب نے قمری لحاظ سے 76 سال عمر پائی ہے۔ 40 سال کی عمر میں آپ پر الہام کا آغاز ہوا اور الہام کے بعد بھی اسی کے لگ بھگ آپ نے زمانہ پایا۔
.................................................................................
ایک علامت حدیث مذکورہ میں مسیح موعود کی یہ ہے کہ وہ بعد نزول کے ۴۵ سال زمین پر رہیں گے۔ مرزا صاحب نزول سے مراد پیدائش بتاتے ہیں:
۱: میرا یہ دعویٰ تو نہیں کہ کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہوگا بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانے میں خاص کرو مشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے۔ (روحانی 138، ج3)
۲: ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ شاید پیشگوئی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے کوئی اور مسیح موعود بھی آئندہ کسی وقت پیدا ہو۔'' (روحانی ص231، ج3)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ مسیح دمشق میں نازل ہوگا۔ مرزا صاحب اس کا مطلب پیدائش بتاتے ہیں۔ پس بموجب حدیث کے مرزا صاحب کی عمر 45 سال ہونی چاہیے تھی اگر وہ مسیح موعود ہوتے۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب بقول خود 75 اور 85 کے اندر عمر پا کر مرتے ہیں لہٰذا مسیح موعود نہیں۔ پھر اگر نزول سے مراد سن دعویٰ مسیحیت لیا جائے جیسا کہ ایک جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔ اس کی یہ معقول تعبیر ہوگی کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت کہ جب وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کریں گے بیمار ہوں گے۔''
اس عبارت میں نزول مسیح سے مراد سن دعویٰ لیا ہے اور مرزا صاحب نے دعویٰ مسیحیت ازالہ اوہام میں کیا ہے جو 1891ء مطابق 1308ھ میں تصنیف ہوا۔ (مرزا نے دعوٰی مسیحیت 'فتح اسلام' میں سب سے اول کیا تھا جو مطبع ریاض ہذا پریس میں جمادی الاول ھ میں شائع ہوئی تھی۔ چنانچہ مرزا نے لکھا کہ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو، فتح اسلام ص15 و روحانی ص10،ج3 بعد ازا اس کی تفصیل اپنی تالیف، توضیح مرام میں بیان کی اور کتاب ازالہ اوہام (جو کہ ذی الحجہ 1308ھ کو شائع ہوئی) میں دلائل بیان کیے اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات لکھے ہیں۔)
اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب کو 1308 + 45= 1353ھ تک دنیا میں رہنا چاہیے تھا حالانکہ امرزا 1336ھ میں مر گیا پس وہ اپنے اقوال کی رو سے بھی کاذب مسیح ثابت ہوتے ہیں۔
................................................................................................

بقیہ انشاء اللہ اگلے حصے میں
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بہت عمدہ کاوش ہے ماشااللہ
 
Top