• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی آرٹیکل " مسیح اور مہدی کب آئیں گے " کا منہ توڑ جواب

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسلام علیکم دوستوں


میں ابھی ایک قادیانی صاحب کا ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا " مسیح اور مہدی کب آئیں گے " کے نام سے ، میں تو ان صاحب سے حیران ہوں کہ طرف تو ان صاحب کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی اور مسیح ایک ہی ہیں اور دوسری طرف ان کا الگ الگ اور علیحدہ علیحدہ آنا ثابت کر رہے ہیں لیکن بہرحال میں چلتا ہوں اصل موضوع کی طرف تو قادیانی صاحب نے تو سب سے پہلا لکھا کہ
...........
" قرآن کریم‘ احادیث نبویہ اور بزرگان امت کے رؤیا و کشوف و بیانات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ محمدیہ میں جس مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی وہ تیرھویں صدی ہجری کے آخر یا چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہوگا۔"
...................
حالانکہ پورے مجموعہ احادیث میں سے کوئی قادیانی ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں پیش کر سکتا جس میں چودھویں صدی کا ذکر ہو یا تیرھویں صدی کا ذکر ہو اور نہ ہی قران مجید میں کوئی ایسی بات ہے یہ قادیان کی فیکٹری میں تیار کردہ من گھڑت تفسیریں اور دجل ہیں لیکن پھر بھی قادیانی صاحب کی پیش کردہ دلیلوں کو دیکھتے ہیں
................

مزید برآں قرآن شریف میں سورہ نور کی آیت استخلاف نمبر۵۶ میں اُمتِ محمدیہ سے وعدہ کیا گیا کہ ان میں اللہ تعالیٰ اسی طرح خلیفے بنائے گا جس طرح اس سے پہلے خلیفے بنائے جو دین کی مضبوطی کا باعث ہونگے۔ اس وعدہ کے مطابق لازم تھاکہ جس طرح موسوی سلسلہ میں تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح آیا تھا۔ اسی طرح محمدی سلسلہ میں بھی تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح اور مہدی ظاہر ہو
......................

دوستوں اس بات سے قطع نظر میں کہ پیچھلے چودہ سو سال کے مجددین ، مفسرین ، اور محدثین کی تفسیریں اس آیت کی پیش کرو جس سے قادیانی صاحب کا سارے دجل کا اور من گھڑت تفسیر کا ستیاناس ہوجائے میں ضروری سمجھو گا کہ قران سے ہی جواب دیا جائے اس آیت میں نہ تو چودھویں صدی کا ذکر نہ ہی کسی مسیح کا ذکر نہ ہی مہدی کا لیکن قادیانی صاحب کے دجل کی کیا بات ہے .
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبَلْھِمْ۔
مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سلطنت عطا کرے گا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نبی خلیفہ ہوں گے ، ورنہ دوسری آیت میں کیا مطلب ہوگا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یھلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض (الاعراف : 129 )
قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے اور تمہیں زمین کا بادشاہ بنا دے۔

وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِی الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتِ لَیَبْلُوَکُمْ فِیْمَا اٰتَاکُمْ
الانعام : 165
ہ ذات پاک جس نے تم کو دنیا میں جانشین بنایا اور بعض کے بعض پر مراتب بلند کیے تاکہ اس نے تمہیں جو کچھ دیا ہے، اس میں آزمائش کرے،

تفسیر معالم التنزیل میں لَیَسْتَخْلِفَنَّکُمْ کا معنی لکھتے ہیں ای لیورثھم ارض الکفار من العرب والعجم فیجعلھم ملوکا وساستھا وسکانھا
نوٹ: مذکورہ تفسیر مرزا کو بھی مسلم ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس (اسلام) کو معدوم ہونے نہیں دے گا ( روحانی ص290، ج6 )
یہی معنیٰ حکیم نور الدین مرزائی جانشین اول مرزا قادیانی نے تصدیق براہین احمدیہ ص15 بحوالہ حقائق الفرقان ص224،ج3، میں بیان کیے ہیں۔

یعنی مسلمانوں کو کافروں (عربی ہوں یا عجمی) کی زمین کا وارث بنا دے گا، اور ان کو بادشاہ اور فرماں روا اور وہاں کا باشندہ بنا دے گا۔ تو دوستوں اس میں نہ کسی مسیح کا ذکر نہ ہی کسی مہدی کا ، ثابت ہوا کہ آیت میں قادیانی کی من گھڑت تفسیر ہے
.................................
اس کے بعد قادیانی نے سورۂ جمعہ کی آیت پیش کی اور اس سے اپنا من گھڑت مطلب ثابت کرنے کی کوشش کی قادیانی لکھتا ہے کہ
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ (الجمعہ:۴)

اور اللہ تعالیٰ ان کے سوا ایک دوسری قوم میں حضرت محمد ﷺ کو بھیجے گا جو ابھی تک ان (صحابہ) سے نہیں ملی۔

...........................................
کہتے ہیں چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے میں سورۂ الجمعہ کی آیات لکھتا ہوں
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ان آیات میں صرف ایک بار لفظ " بَعَثَ " آیا ہے جو کہ ماضی ہے جسکا ترجمہ ہے " بیجھا " یعنی ان آیات کے نزول کے وقت وہ رسول بیجھا جا چکا تھا ، اسکے بعد ان آیات میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جسکا ترجمہ ہو " دوسری قوم میں بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیجھے گا " لیکن مرزائی مربی نے اپنی طرف سے یہ الفاظ قران میں ڈالے ، ان آیات کا صاف مفہوم یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم صحابہ اور قیامت تک کی صبح کے لئے عام ہے خود اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا " قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا " کہہ دیں کہ اے لوگوں ، میں تو سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں (سورہ الاعراف آیت 158 )
یہی بات مرزا غلام قادیانی کو بھی مسلم ہے لکھتا ہے کہ
" خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بیجھا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھلاتا ہے ، اگرچہ وہ پہلے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کر رہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہو جاویں گے اور انہیں کے کمالات پیدا کر لیں گے ، مگر وہ ابھی ان سے ملے نہیں اور خدا غالب ہے اور حکمت والا ، اس جگہ یہ نکتہ یاد رہے کہ آیت " وآخرین منھم " میں " آخرین " کا لفظ معفول کے محل پر واقعہ ہے گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے " هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ " یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کے اور بھی ہیں جن کا گروہ آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی تربیت فرمائی ، ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے " ( خزائن جلد 5 صفحہ 208،209 ) ماحصل عبارت کا یہ ہے کہ بہ اقرار مرزا قادیانی اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آخرین منھم میں کوئی نبی معبوث ہوگا ،
.....................................
اس کے بعد قادیانی صاحب نے ایک حدیث جو کہ اس آیت کی تفسیر ہے پیش کی
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ کے اس سوال پر کہ وہ کون لوگ ہونگے جن میں آپ دوبارہ تشریف لائیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ

’’جب ایمان ثریا ستارے پر اٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا فرمایا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)

...........................................

قطع نظر اس کے کہ حدیث کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ مرزا صاحب تو مغل زادے تھے جیسا کہ وہ خود راقم ہیں:
'' خاتم الخلفاء عینی الاصل ہوگا یعنی مغلوں میں سے۔'' (روحانی ص35، ج20)
پس وہ فارسی الاصل کیسے بن گئے؟
ناظرین کرام! حدیث میں آیا ہے کہ نسب بدلنے والے کی نماز چالیس دن قبول نہیں ہوتی۔ اور قرآن پاک میں بھی سخت وعید ہے۔ مگر ہمارے مرزا صاحب کچھ ایسے نڈر تھے کہ جہاں شیخ ابن عربی کی پیشگوئی کا مصداق اپنے آپ کو بنانا تھا وہاں مغل بن گئے۔(روحانی ص 81 ج 22) اور جہاں حدیث رِجالُ فارس (مسلم ص312، ج2 فی الفضائل باب فضل فارس الحدیث من روایت ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ) پر قبضہ جمانا تھا وہاں فارسی الاصل بن گئے اور جہاں احادیث مہدی کا مصداق بننا تھا وہاں کہہ دیا کہ:
'' میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔'' (روحانی ص216، ج18 )
ہم بھی قائلی تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
اور زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے

.......................................

اس کے بعد قادیانی صاحب احادیث کی طرف آتے ہیں اور ایک حدیث پیش کرتے ہیں
(۱) اَ لْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِاَئتَیْن (ابن ماجہ کتاب الفتن باب الایات)

نشانات دو سوسال بعد رونما ہونگے۔
اس حدیث کی تشریح میں برصغیر کے نامور محدث حضرت مُلاَّ امام علی القاری لکھتے ہیں۔


’’وَیَحْتَمِلُ اَنْ یّکُوْنَ اللَّامُ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِاَیْ بَعْدَ الِمائَتَیْنِ بَعْدَ الأَلْفِ وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدِی‘‘۔ (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۱۰ صفحہ۸۲ ا ۱ز علی بن سلطان القاری مکتبہ امدادیہ ملتان)
.................................

اول تو یہ حدیث ہی ضعیف اور موضوع ہے۔ جیسا کہ ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ (موضوعات ابن جوزی ص198، ج3 والعلل المتناھیۃ ص371، ج2)
دوم اس میں مسیح و مہدی کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ الفاظ ہیں کہ نشانیاں دو سو سال بعد ہونگی۔ پس دو سو سال سے مراد تیرہ سو سال بعد لینا غلط در غلط ہے۔ جن بزرگوں نے دو سال سے مطلب ہزار سال سے دو سو سال بعد لیا ہے ان کی ذاتی رائے ہے جو حدیث کے الفاظ کے صریح خلاف ہے۔ پھر انہوں نے بھی محض ظن اور احتمال کے لفظ استعمال کئے ہیں۔ جو تحریرات ان کی پیش کی گئی ہیں ان میں ویَحْتَمِلُ کا لفظ موجود ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے تو بارہ سو برس بعد لکھا ہے مگر مرزائی محرف تیرہ سو سال بعد لکھتا ہے؟ پھر مزا یہ کہ مرزائی صاحب تیرہ سو سال کے بعد ظہور مسیح و مہدی نہیں لکھتا بلکہ یہ لکھتا ہے کہ '' مسیح موعود و مہدی کے ظہور کی نشانیاں تیرھویں صدی کے گزرنے پر ظاہر ہونگی اور کون نہیں جانتا کہ نشانیاں صدہا برس پہلے شروع ہو جاتی ہیں۔ دیکھئے صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی نشانیوں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت پھیل جائے گی زنا اور شراب کی کثرت ہوگی (بخاری)( صحیح بخاری ص18، ج1 کتاب العلم باب رفع العلم وظھر الجھل) جھوٹے اشخاص پیدا ہوں گے (مسلم)( صحیح مسلم ص120، ج2 ) امانت میں خیانت کی جائے گی۔ نا اہل لوگ حاکم ہوں گے (بخاری) ( صحیح بخاری ص961، ج2 کتاب الرقاق باب رفع الامانۃ)کیا ان علامتوں سے اکثر اس زمانہ میں پائی جاتی ہیں؟ پھر کیا تمہارے قاعدے کی رو سے ابھی قیامت کو آجانا چاہیے تھا حالانکہ خود تمہارے نبی کے اقوال کی رو سے ابھی ہزار سال کے قریب باقی ہے۔ (روحانی ص208 ج 20)
اور سنو! حدیث میں ہے کہ آخری زمانہ میں ایک خلیفہ ہوگا جو بکثرت مال بانٹے گا اور پھر اس بے پرواہی سے کہ شمار بھی نہ کرے گا (مسلم در مشکوٰۃ باب مذکورہ بالا) اور تم مانتے ہو کہ یہ آخری خلیفہ مرزا ہے۔ اب باوجودیکہ مرزا صاحب بقول شما قیامت کی نشانی میں پھر بھی بموجب تحریرات مرزا کئی سو سال قیامت میں باقی ہیں۔ مزید برآں مرزائی دوست مانتے ہیں ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن قیامت کی نشانی ہے۔'' (احمدیہ پاکٹ بک ص338 طبعہ 1932ء )حالانکہ حضور کے زمانہ پر ساڑھے تیرہ سو سال گزر چکا مگر قیامت نہیں آئی۔

الغرض اول تو یہ حدیث جھوٹی ہے جس سے سند نہیں لی جاسکتی اس کے جھوٹی ہونے پر واقعات نے بھی شہادت دیدی وہ یوں کہ بقول مرزا صاحب اس میں ظہور مسیح کی خبر ہے۔( ازالہ اوہام) اور ظہور مسیح دو سو سال بعد نبی کے ہیں۔ پس یہ جھوٹی نکلی۔ بفرض محال صحیح بھی ہو ۔اس میں مسیح و مہدی کا کوئی ذکر نہیں صرف نشانیوں کا ذکر ہے چنانچہ مطابق اس کے صدہا نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔
۱۔ دو سو سال کے بعد مسئلہ خلق قرآن کا رائج ہونا جس کی وجہ سے صدہا علمائے حقانی بے دریغ قتل کئے گئے۔
۲۔ زلزلے آئے۔
۳۔ طاعون پھوٹا۔
۴۔ اکثر ظالم فرمانرواؤں کے ظلم سے کئی لاکھ فرزندانِ اسلام کے خون بہائے گئے۔
۵۔ حج کعبۃ اللہ تک باطنیوں نے بند کردیا۔
۶۔ حجر اسود اکھاڑا گیا۔
۷۔ فرقہ قرامطہ و باطنیہ کے نجس ہاتھوں سے جو اہل مکہ پر مصائب آئے وہ اربابِ بصیرت سے مخفی نہیں۔
۸۔ معتزلہ نے جو جو گل کھلائے وہ اصحاب تاریخ پر نمایاں ہیں۔
۹۔ خسف ہوئے مسخ ہوئے۔
۱۰۔ قحط اس طرح کے پڑے کہ قحط یوسفی کو مات کرگئے۔
۱۱۔ کئی دفعہ آسمانوں سے پتھر برسے۔
۱۲۔ خلیفہ مستعصم باللہ کے عہد خلافت میں مرزا کے آباؤ اجداد تاتاری مغلوں نے جو جو مظالم ڈھائے وہ اہل علم کے سامنے ہیں۔
غرض صدہا نشانیاں دو سو سال کے بعد ہوئیں اور صدہا آئندہ ہونگی پس یہ دلیل بشرط صحیح ہونے حدیث کے بھی مرزائیوں کو مفید اور ہمارے خلاف نہیں۔

انشاء اللہ دوسرا حصہ جلد پوسٹ کر دیا جائے گا
واسلام

 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوسرا حصہ

قادیانی آرٹیکل " مسیح اور مہدی کب آئیں گے " کا جواب


دوستوں اس کے بعد قادیانی نے ایک اور حدیث پیش کی جس کا جواب میں پہلے آج سے دو تین دن پہلے دے چکا ہوں لیکن اتمام حجت کے لئے دوبارہ پیش کروں گا
قادیانی کی پیش کردہ حدیث
(۲) اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الُامَّةِ عَلَی رَاسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھا دِیْنَھَا (ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ)

یعنی یقیناًاللہ تعالیٰ اس اُمت کیلئے ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث کرتا رہے گا۔
.........................................

یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مرزا صاحب کا ایمان تھا کہ :
'' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غبی تھا، درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔'' (روحانی ص127، ج19)
'' ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فہم قرآن میں ناقص ہے۔ اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔''
'' درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔''
(روحانی ص401، ج21 ملخصًا)
لہٰذا وہ شخص '' غبی'' ہو اور ''فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا ہو'' وہ اس قابل نہیں کہ تم اس کی روایت پیش کرو کیونکہ وہ شخص جو ''غبی'' ہو وہ روایت کرنے میں بھی ضرور غلطی کرے گا۔
یہ روایت موقوف ہے لہٰذا حجت نہیں (دیکھو ابوداؤد کتاب الملاحم جلد دوم ص32)(روایت مذکورہ موقوف ھی نہیں بلکہ مرفوع ہے دیکھئے ابو داؤد ص233، ج2 کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ ومستدرک حاکم ص522، ج4 فی الفتن والملاحم باب ذکر بعض المجد دین فی ھذہ الامۃ و صححہ والطبرانی فی الاوسط بسند رجالہ ثقات علی ما ذکر العجلونی فی کشف الخفاء ص282، ج1)
مرزا صاحب اس دمشقی منارہ والی حدیث کے غلط ہونے کی وجہ لکھتے ہیں:
'' ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دمشق میں کوئی منارہ تھا۔ اس سے پایا گیا کہ آنحضرت کے بعد اگر کوئی منارہ بنا تو وہ سند نہیں ہے۔'' (روحانی ص458، ج5 ملخصاً مترجمًا)
اسی طرح آنحضرت کے وقت میں سن ہجری نہ تھا۔ یہ سن خلافت دوم میں بنا ہے تو اس حدیث سے صدی سے سن ہجری کی صدی کیونکر مراد لی جاسکتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سن ''فیل'' مروج تھا اور اس سن کا سن ہجری سے 53 سال کا فرق ہے لہٰذا یہ حدیث ''سند "نہیں ہے''۔
مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منارہ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں :
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب ہے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدیثن امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (روحانی ص209،210، ج3)
لہٰذا یہ حدیث (مجدد) صحیح بخاری میں نہیں لہٰذا قابل حجت نہیں۔
نوٹ: اس حدیث کا وجود صحاح ستہ کی پانچ کتابوں (بخاری مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی) میں بھی نہیں ہے۔
مرزا صاحب خود گمراہ میں بموجب حدیث بخاری مسلم کے بوجہ مدعی نبوت ہونے کے کذاب و دجال ہیں خود مرزا صاحب کا اقرار ہے کہ:
'' مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے۔'' (روحانی ص28، ج11)
لہٰذا مرزا صاحب اس کے مصداق نہیں ہوسکتے اگرچہ حدیث پر سے سارے اعتراضات بھی اٹھ جائیں۔
بفرض محال یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صدی کا مجدد شخص واحد ہی نہیں بلکہ جماعت ہے۔ آج اسلامی دنیا کا اندازہ کیا جائے تو یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ممالک اسلامیہ اتنی وسعت میں اتنی دور دور ہیں کہ باوجود ریل اور تار وغیرہ کے ایک ہی مجدد تمام ممالک میں کام نہیں کرسکتا۔ کیا کوئی ہندوستان کا مجدد چین میں اصلاح کرسکتا ہے؟ یا چین کا مجدد افغانستان میں کام کرسکتا ہے؟ امکان کو جانے دیجئے واقعات اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہرگز نہیں۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مَنْ یجدِدُ میں صیغہ مفرد مضارع کا ہے پھر جمع کیسے ہوگا؟
جواب:
اس کا یہ ہے کہ مَنْ بصیغہ مفرد قرآن مجید میں بکثرت آتے ہیں جہاں جمع مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرَ وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنین اس آیت میں مَنْ کا صلہ یَقُوْلُ صیغہ مفرد فعل مضارع ہے مگر اس کو ماھُمَ میں جمع دکھایا ہے اس طرح مَنْ یُجدِدُ کا صیغہ بظاہر مفرد ہے مگر معنی میں جمع ہے۔
نتیجہ:
یہ حدیث ضعیف ہے بفرضِ محال صحیح بھی ہو تو مجدد ہر وہ شخص ہے جو خدمت دین کرے اور توحید و سنت کا درس دے اور خود بھی عامل ہو۔ نہ کہ مرزا صاحب جو خود 52 برس مشرک رہے پھر مراق وغیرہ میں مبتلا رہے اور دعویٰ نبوت کی وجہ سے مسیلمہ کذاب کے بھائی ٹھہرے۔

ایک اور طرز سے

مرزا غلام قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میں چودھویں صدی کا مجدد ہوں ، چونکہ جس زمانہ میں آخری مجدد کو آنا تھا یہی صدی ہے اور اس لئے میں مسیح موعود بھی ہوں لیکن اب چودھویں صدی ختم ہو کر پندرھویں صدی شروع ہو گئی ہے ، اس لئے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس صدی میں بھی کسی مجدد کا آنا لازمی ہے اور مرزا غلام قادیانی کا یہ دعویٰ کہ وہ چودھویں صدی کا مجدد ہے اس لئے مسیح موعود بھی ہے . تو اس کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ مسیح موعود تو آخری صدی کا مجدد ہوگا ، اور وہ آخری زمانہ میں ظاهر ہوگا .
اب میری قادیانی مرزائی مربیوں سے درخواست ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں غور کریں کہ آیا نئی صدی کے لئے کوئی مجدد آئے گا کہ نہیں ؟؟ اگر آئے گا اور ضرور آئے گا تو مرزا غلام قادیانی آخری مجدد نہ ہوا ؟ اور جب زمانے نے ثابت کر دیا کہ وہ آخری مجدد نہیں تو مسیح موعود بھی نہیں کیونکہ مرزا غلام قادیانی خود لکھتا ہے کہ " یہ بھی اہل سنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اس امت کا مسیح موعود ہے جو آخری زمانہ میں ظاهر ہوگا " ( خزائن جلد 22 صفحہ 201 ) اب ظاهر ہے جب مسیح موعود نہ ہوا تو قادیانیوں کے بقول کہ وہ مسیح ہے اس لئے نبی ہے تو جب مسیح نہیں تو نبی بھی نہ ہوا .
کیا مرزائیوں میں کوئی ایسا رجل رشید ہے جو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرمان پر غور کرکے اپنے عقیدے کی اصلاح کے لئے تیار ہو ؟؟


.................................................

اس کے بعد قادیانی صاحب نے نواب صدیق حسن خان صاحب کا ایک حوالہ دیا
چنانچہ اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست دینے کے بعد لکھتے ہیں۔


’چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں اگر اس صدی میں مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجدد و مجتہد ہونگے‘‘۔ (ترجمہ از فارسی حجج الکرامہ صفحہ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ھ)

............................
قادیانی صاحب سے درخواست ہے کہ اس کتاب کا اصل صفحہ پیش کریں تاکہ دیکھا جائے وہاں کیا لکھا ہے کیونکہ اسی کتاب میں نواب صدیق حسن خان خود لکھتے ہیں کہ
" میں کہتا ہوں کہ ظہور مہدی ، نزول عیسیٰ علیہ اسلام ، خروج دجال یا انکے علاوہ وہ واقعات وفتن جن کے آخری زمانہ میں وقوع کے بارے میں اخبار واثار بالا جمال ورد ہیں ان کی تاریخ کی تعیین اپنی طرف سے کرنا خواہ کشف سے ہو ، یا حساب نجوم سے ، وہمی تخیلات سے ، یا مفہوم لغت سے ، نصوص کے سرقہ سے ہو یا دلائل کی تاویل سے بہرحال کلام نبوی کی تحریف ہے . یہ ساری چیزیں بلا شبہ ہونگی لیکن انکا وقت خدائے عالم الغیب والشادة کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں ، نہ آئندہ معلوم ہونے کی امید ہے اور جو شخص اس کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور جو شخص اس کی تائید وتصدیق کرے وہ خطا کار ہے " ( حجج الکرامہ صفحہ 430 ) اصل سکین پیش کیا جاسکتا ہے

لیں جی مربی جی جن کا حوالہ اپ اپنے حق میں دے رہے ہیں وہ تو کہتے ہیں ایسے اندازے لگانا کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریف ہے تو پھر خود کیسے اس کی تعیین کر سکتے ہیں کیا وہ خود کو جھوٹے کہہ سکتے ہیں اور اپر سے اپ کے لئے ان کا فتویٰ بھی آگیا کہ " خطا کار " ہیں

ختم شد

 
Top