زمین سے لے کر آسمان تک کی طویل مسافت کا چند لمحوں میں طے کرلینا کیسے ممکن ہے؟
جواب…۱… سوجواب یہ ہے کہ حکمائے جدید لکھتے ہیں کہ روشنی ایک منٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ میل کی مسافت طے کرتی ہے۔ بجلی ایک منٹ میں پانچ سو مرتبہ زمین کے گرد گھوم سکتی ہے اور بعض ستارے ایک ساعت میں آٹھ لاکھ اسی ہزار میل حرکت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انسان جس وقت نظر اٹھاکر دیکھتا ہے تو حرکت شعاعی اس قدر سریع ہوتی ہے کہ ایک ہی آن میں آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ آسمان حائل نہ ہوتا تو اور دور تک وصول ممکن تھا۔
۲… جس وقت آفتاب طلوع کرتا ہے تو نورشمس ایک ہی آن میں تمام کرئہ ارضی پر پھیل جاتا ہے۔ حالانکہ سطح ارضی ۲۰۳۶۳۶۳۶ فرسخ ہے۔ جیسا کہ سبع شداد ص ۴۰ پر مذکور ہے اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ مجموعہ ۶۱۰۹۰۹۰۸کروڑ میل ہوا۔ حکمائے قدیم کہتے ہیں کہ: جتنی دیر میں جرم شمس بتمامہ طلوع کرتا ہے۔ اتنی دیر میں فلک اعظم کی حرکت ۵۱۹۶۰۰ لاکھ فرسخ ہوتی ہے اور ہر فرسخ چونکہ تین میل کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجموعہ مسافت ۱۵۵۸۸۰۰ لاکھ میل ہوئی۔
اور جنات کا شرق سے لے کر غرب تک آن واحد میں اس قدر طویل مسافت کا طے کرلینا ممکن ہے۔ تو کیا خداوند عالم اور قادر مطلق کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی خاص بندے کو چند لمحوں میں اس قدر طویل مسافت طے کرادے؟
کما قال تعالیٰ: قال الذی عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فلما راہ مستقرا عندہ قال ھذا من فضل ربی (النمل:۴۰)
۵… اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا کا مسخر ہونا بھی قرآن کریم میں مذکور ہے کہ وہ ہوا سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جہاں چاہے اڑا کر لے جاتی اور مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرتی۔ ’’ کما قال تعالی وسخرنا لہ الریح تجری بامرہ ‘‘
۶… آج کل کے ملحدین فی گھنٹہ ہزار میل کی مسافت طے کرنے والے ہوائی جہاز پر تو ایمان لے آئے ہیں۔ مگر نہ معلوم سلیمان علیہ السلام کے تخت پر بھی ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟ ہوائی جہاز بندہ کی بنائی ہوئی مشین سے اڑتا ہے اور سلیمان علیہ السلام کے تخت کو ہوا بحکم خداوندی اڑاکر لے جاتی تھی۔ کسی بندہ کے عمل اور صنعت کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لئے وہ معجزہ تھا اور ہوائی جہاز معجزہ نہیں۔