جہالت کی کوئی حد ہوتی ہے اس جملے (
كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر
) کو حدیث نبوی کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے نہ کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
پھر کہا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 13 سال مکہ میں یروشلم کو قبلہ بنا کر نماز ادا کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت اللہ کی طرف ہی ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بعد از ہجرت مدینہ ہوا اور بیت المقدس صرف سولہ یا سترہ ماہ مسلمانوں کا قبلہ رہا پھر اسے تبدیل کر مسجد الحرام کو قبلہ مقرر کر دیا گیا
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ ـ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ ـ شَهْرًا، ثُمَّ صَرَفَهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ .(حوالہ: صحیح البخاری ، کتاب التفسیر، باب { وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ، فَاسْتَبِقُوا ۔. )
۔صحیح البخاری، کتاب التفسیر ، باب { وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ، ، حدیث نمبر ۴۴۹۲، صحیح مسلم، کتاب المساجد، ومواقع الصلوتہ: باب تحویل القبلتہ من القدس الی الکعبتہ: حدیث نمبر ۵۲۵)۔
ترجمہ: ہم نے نبی کریم (ص) کے ساتھ سولہ(۱۶) مہینے یا سترہ(۱۷) مہینے تک بیت المقدس (مسجد اقصی) کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس قبلہ (کی سمت) کو پھیر دیا اور ہمارا قبلہ بیت اللہ (یعنی کعبتہ اللہ) متعین کر دیا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کو قبلہ بنانا بھی اللہ کے حکم سے تھا نہ کہ موافقت اہل کتاب کے نتیجے میں بغیر حکم الہیٰ کے ۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کا بحکم الہیٰ قبلہ بنانے کا ثبوت یہ آیت ہے ۔۔۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.
اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔ البقرة، 2۔143
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کے لیے ان کو وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا جس کا تذکرہ بہت ساری روایات میں ملتا ہے۔ اس حکم خداوندی کی رو سے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اللہ تعالی کی طرف سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم آپ ؐ پر نازل ہوا تھا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی مسلمان امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی آزمائش تھی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّہـ هُ ۗ (البقرۃ : ۱۴۳)
اس کے بعداللہ تعالی نے اس عارضی قبلے کو منسوخ قرار دے کر اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کاحکم جاری فرمایا۔ اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ (البقرۃ:۱۴۵)
اور اے نبی ﷺ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ۔
قرآن مجید کی یہ نص اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی بیت المقدس کی طرف رخ کے نماز پڑھنے کی وجہ یہودیوں کی اتباع نہیں تھی بلکہ آپ کو اللہ کی طرف سے یہ ایک حکم تھا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و انہ لا یتبع أھوائھم فی جمیع أحوالہ و لا کونہ متوجھا الی بیت المقدس لکونھا قبلۃ الیھود و انما ذلک عن أمر اللہ
آپ کسی بھی معاملے میں یہودیوں کی اتباع نہیں کرتے تھے اسی طرح آپ کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو حکم تھا۔ یہودیوں نے حضرت موسی کی وفات کے بعدقبہ الصخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں میں قسطنطنیندی گریٹ (۲۷۲ء تا۳۳۷ء) و ہ پہلا عیسائی بادشاہ گزرا ہے جس نے بیت المقدس کی مشرقی جانب نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز کیا۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ احکامات میں نسخ ہو سکتا ہے خبر میں نہیں ۔
اگر خبر میں نسخ ہو گا تو ناسخ و منسوخ میں سے ایک خبر یقینا غلط ہو گی
مثلا اگر پہلے کہا جائے کہ زید لاہور گیا تھا ۔۔۔۔۔ اور پھر کہا جائے کہ زید لاہور نہیں ملتان گیا تھا
تو ان میں سے ایک خبر غلط ہو گی ۔
مرزا غلام احمد قادیانی پہلے اپنے الہام سے ہی حضرت عیسیؑ کی دوبارہ آمد کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اور وفات مسیحؑ کا عقیدہ بھی اپنے الہام سے بیان کرتے ہیں لہذا ان دونوں الہامات میں ایک یقینا غلط ہے ۔
پھر کہا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 13 سال مکہ میں یروشلم کو قبلہ بنا کر نماز ادا کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت اللہ کی طرف ہی ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بعد از ہجرت مدینہ ہوا اور بیت المقدس صرف سولہ یا سترہ ماہ مسلمانوں کا قبلہ رہا پھر اسے تبدیل کر مسجد الحرام کو قبلہ مقرر کر دیا گیا
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ ـ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ ـ شَهْرًا، ثُمَّ صَرَفَهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ .(حوالہ: صحیح البخاری ، کتاب التفسیر، باب { وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ، فَاسْتَبِقُوا ۔. )
۔صحیح البخاری، کتاب التفسیر ، باب { وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ، ، حدیث نمبر ۴۴۹۲، صحیح مسلم، کتاب المساجد، ومواقع الصلوتہ: باب تحویل القبلتہ من القدس الی الکعبتہ: حدیث نمبر ۵۲۵)۔
ترجمہ: ہم نے نبی کریم (ص) کے ساتھ سولہ(۱۶) مہینے یا سترہ(۱۷) مہینے تک بیت المقدس (مسجد اقصی) کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس قبلہ (کی سمت) کو پھیر دیا اور ہمارا قبلہ بیت اللہ (یعنی کعبتہ اللہ) متعین کر دیا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کو قبلہ بنانا بھی اللہ کے حکم سے تھا نہ کہ موافقت اہل کتاب کے نتیجے میں بغیر حکم الہیٰ کے ۔۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس کا بحکم الہیٰ قبلہ بنانے کا ثبوت یہ آیت ہے ۔۔۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.
اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔ البقرة، 2۔143
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کے لیے ان کو وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا جس کا تذکرہ بہت ساری روایات میں ملتا ہے۔ اس حکم خداوندی کی رو سے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اللہ تعالی کی طرف سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم آپ ؐ پر نازل ہوا تھا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی مسلمان امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی آزمائش تھی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّہـ هُ ۗ (البقرۃ : ۱۴۳)
اس کے بعداللہ تعالی نے اس عارضی قبلے کو منسوخ قرار دے کر اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کاحکم جاری فرمایا۔ اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ (البقرۃ:۱۴۵)
اور اے نبی ﷺ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ۔
قرآن مجید کی یہ نص اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی بیت المقدس کی طرف رخ کے نماز پڑھنے کی وجہ یہودیوں کی اتباع نہیں تھی بلکہ آپ کو اللہ کی طرف سے یہ ایک حکم تھا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و انہ لا یتبع أھوائھم فی جمیع أحوالہ و لا کونہ متوجھا الی بیت المقدس لکونھا قبلۃ الیھود و انما ذلک عن أمر اللہ
آپ کسی بھی معاملے میں یہودیوں کی اتباع نہیں کرتے تھے اسی طرح آپ کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو حکم تھا۔ یہودیوں نے حضرت موسی کی وفات کے بعدقبہ الصخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں میں قسطنطنیندی گریٹ (۲۷۲ء تا۳۳۷ء) و ہ پہلا عیسائی بادشاہ گزرا ہے جس نے بیت المقدس کی مشرقی جانب نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز کیا۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ احکامات میں نسخ ہو سکتا ہے خبر میں نہیں ۔
اگر خبر میں نسخ ہو گا تو ناسخ و منسوخ میں سے ایک خبر یقینا غلط ہو گی
مثلا اگر پہلے کہا جائے کہ زید لاہور گیا تھا ۔۔۔۔۔ اور پھر کہا جائے کہ زید لاہور نہیں ملتان گیا تھا
تو ان میں سے ایک خبر غلط ہو گی ۔
مرزا غلام احمد قادیانی پہلے اپنے الہام سے ہی حضرت عیسیؑ کی دوبارہ آمد کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اور وفات مسیحؑ کا عقیدہ بھی اپنے الہام سے بیان کرتے ہیں لہذا ان دونوں الہامات میں ایک یقینا غلط ہے ۔
مدیر کی آخری تدوین
: