قادیانی مذہب میں کثیر تعداد ایسے بھولے اور سیدھے لوگوں کی بھی ہے جن میں مرد، عورتیں اور جوان سبھی شامل ہیں جن کو اپنے مذہب کے بنیادی عقائد کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ نہ انھوں نے اپنے مقتدا مرزا صاحب کی کتب پڑھیں جس میں انھوں نے مسیح موعود اور ظلی نبی ہونے کا دعوی کیا ہے اور نہ وہ کتب پڑھی جو علمائے اسلام نے مرزا صاحب کے عقائد کے رد میں لکھی ہیں۔
نہ ان لوگوں کو اس کا صحیح علم ہے کہ اگست 1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانی خلیفہ مرزا ناصر نے دس دن کی بحث میں وہ کیا انکشافات اور اعترافات کیے تھے جسکے سبب قادیانی جماعت کو خارج از اسلام قرار دیکر غیر مسلم اقلیت کا قانونی درجہ دیا گیا۔
وہ شاید یہ بھی نہ جانتے ہوں گے کہ اسلامی تنظیموں کی عالمی کانفرنس جو اپریل 1974 میں مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی تھی جس میں دنیا بھر کے مختلف اسلامی تنظیموں اور مسلم ممالک کے ایک سو چالیس(140) نمائندے شریک تھے نے قادیانی جماعت کے خلاف ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی جسمیں اور پابندیوں کے علاوہ یہ طے کیا تھا کہ اس مذہب کے ماننے والوں کو خارج از اسلام قرار دے کر مقدس مقامات میں انکا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔
یہ حقیقت بھی شاید ان لوگوں کو نہیں معلوم ہو کہ 1974 میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد قادیانیوں کو شعار اسلام مثلاً اذان دینے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے اور کلمہ طیبہ اپنے سینوں پر لگانے سے کیوں روک دیا گیا تھا اور جب انھوں نے اس قانون کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کیا تو ہر عدالت نے پوری چھان بین اور بحث و مباحثہ کے بعد انکے ہر چیلنج کو مسترد کر دیا۔ چنانچہ
لاہور ہائیکورٹ نے 1981، 1982، 1987، 1991 اور 1992 میں
کوئٹہ ہائیکورٹ نے 1987 میں
سپریم کورٹ نے 1993 میں
وفاقی شرعی عدالت نے 1984 اور 1984 میں
اور سپریم کورٹ شریعت اپیل بینچ نے 1988 میں ایسی تمام اپیلیں مسترد کر دیں جو قادیانی شعار اسلام استعمال کرنے کی پابندی کے خلاف دائر کی تھیں۔
اور یہ بات تو غالباً بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر سب سے پہلا تنسیخ نکاح کا مقدمہ ڈسٹرکٹ جج بہاولپور کی عدالت میں آج سے کوئی 88 سال پہلے ایک مسلمان بی بی عائشہ نامی نے اپنی قادیانی شوہر عبدالرزاق کے خلاف دائر کیا تھا جو 9 سال تک چلتا رہا اور آخر کار 1935 میں محمد اکبر خاں جج نے فیصلہ دیا کہ دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قادیانی اپنے عقائد کے اعتبار سے مسلمان نہیں اور کسی غیر مسلم سے مسلمان عورت کا نکاح اسلام میں جائز نہیں اس لیے میں نکاح کو نسخ کرتا ہوں۔
محترم قادیانی حضرات یہ سارے حقائق اور چشم کشا واقعات پڑھ کر آپ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ کیا بات ہے کہ مرزا صاحب اور انکے خلفا تو ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں مگر جب چھان بین ہوتی ہے، بحث و مباحثہ ہوتا ہے، خود ان سے پوچھا جاتا ہے، انکے عقائد انکی کتابوں سے نکالے جاتے ہیں تو ہر عدالت ہر ملک انکو اسلام سے خارج ایک الگ فرقہ قرار دیتا ہے اور صورت حال یہ کہنے لگتی ہے۔
بجا کہیں جسے دو چار اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
دوستوں آپ میں سے جو شخص بھی ایسا سوچتا ہے وہ یقیناً قابل تحسین ہے اور یہ سوچ ا سکا ثبوت ہے کہ اس کے دل میں تلاش حق کی تڑپ ابھی باقی ہے۔ اس سوچ کا تسلی بخش جواب ہم خود نہیں دینگے کیونکہ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ اسلئے ہر قادیانی دوست جو حق کا متلاشی ہے صرف اتنی درخواست کرے گے کہ وہ خود اپنے مقتدا مرزا صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں۔
اگر اتنی زائر کتب کا مطالعہ آسان نہیں تو متین خالد صاحب کی کتاب ”ثبوت حاضر ہیں“ کا مطالعہ کریں جسمیں انھوں نے انتہائی دیانت داری اور عرق ریزی سے تمام قابل اعتراض اقتباسات کو یکجا کیا ہے اور اسکی تصاویر بھی دے دی ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین
نہ ان لوگوں کو اس کا صحیح علم ہے کہ اگست 1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانی خلیفہ مرزا ناصر نے دس دن کی بحث میں وہ کیا انکشافات اور اعترافات کیے تھے جسکے سبب قادیانی جماعت کو خارج از اسلام قرار دیکر غیر مسلم اقلیت کا قانونی درجہ دیا گیا۔
وہ شاید یہ بھی نہ جانتے ہوں گے کہ اسلامی تنظیموں کی عالمی کانفرنس جو اپریل 1974 میں مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی تھی جس میں دنیا بھر کے مختلف اسلامی تنظیموں اور مسلم ممالک کے ایک سو چالیس(140) نمائندے شریک تھے نے قادیانی جماعت کے خلاف ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی جسمیں اور پابندیوں کے علاوہ یہ طے کیا تھا کہ اس مذہب کے ماننے والوں کو خارج از اسلام قرار دے کر مقدس مقامات میں انکا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔
یہ حقیقت بھی شاید ان لوگوں کو نہیں معلوم ہو کہ 1974 میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد قادیانیوں کو شعار اسلام مثلاً اذان دینے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے اور کلمہ طیبہ اپنے سینوں پر لگانے سے کیوں روک دیا گیا تھا اور جب انھوں نے اس قانون کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کیا تو ہر عدالت نے پوری چھان بین اور بحث و مباحثہ کے بعد انکے ہر چیلنج کو مسترد کر دیا۔ چنانچہ
لاہور ہائیکورٹ نے 1981، 1982، 1987، 1991 اور 1992 میں
کوئٹہ ہائیکورٹ نے 1987 میں
سپریم کورٹ نے 1993 میں
وفاقی شرعی عدالت نے 1984 اور 1984 میں
اور سپریم کورٹ شریعت اپیل بینچ نے 1988 میں ایسی تمام اپیلیں مسترد کر دیں جو قادیانی شعار اسلام استعمال کرنے کی پابندی کے خلاف دائر کی تھیں۔
اور یہ بات تو غالباً بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر سب سے پہلا تنسیخ نکاح کا مقدمہ ڈسٹرکٹ جج بہاولپور کی عدالت میں آج سے کوئی 88 سال پہلے ایک مسلمان بی بی عائشہ نامی نے اپنی قادیانی شوہر عبدالرزاق کے خلاف دائر کیا تھا جو 9 سال تک چلتا رہا اور آخر کار 1935 میں محمد اکبر خاں جج نے فیصلہ دیا کہ دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قادیانی اپنے عقائد کے اعتبار سے مسلمان نہیں اور کسی غیر مسلم سے مسلمان عورت کا نکاح اسلام میں جائز نہیں اس لیے میں نکاح کو نسخ کرتا ہوں۔
محترم قادیانی حضرات یہ سارے حقائق اور چشم کشا واقعات پڑھ کر آپ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ کیا بات ہے کہ مرزا صاحب اور انکے خلفا تو ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں مگر جب چھان بین ہوتی ہے، بحث و مباحثہ ہوتا ہے، خود ان سے پوچھا جاتا ہے، انکے عقائد انکی کتابوں سے نکالے جاتے ہیں تو ہر عدالت ہر ملک انکو اسلام سے خارج ایک الگ فرقہ قرار دیتا ہے اور صورت حال یہ کہنے لگتی ہے۔
بجا کہیں جسے دو چار اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
دوستوں آپ میں سے جو شخص بھی ایسا سوچتا ہے وہ یقیناً قابل تحسین ہے اور یہ سوچ ا سکا ثبوت ہے کہ اس کے دل میں تلاش حق کی تڑپ ابھی باقی ہے۔ اس سوچ کا تسلی بخش جواب ہم خود نہیں دینگے کیونکہ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ اسلئے ہر قادیانی دوست جو حق کا متلاشی ہے صرف اتنی درخواست کرے گے کہ وہ خود اپنے مقتدا مرزا صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں۔
اگر اتنی زائر کتب کا مطالعہ آسان نہیں تو متین خالد صاحب کی کتاب ”ثبوت حاضر ہیں“ کا مطالعہ کریں جسمیں انھوں نے انتہائی دیانت داری اور عرق ریزی سے تمام قابل اعتراض اقتباسات کو یکجا کیا ہے اور اسکی تصاویر بھی دے دی ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین