• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی سوالات کے جوابات

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 1 قادیانیوں کا کلمہ پڑھنا کیسے؟)
سوال نمبر:۱… مرزائی کہتے ہیں کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں، نماز تمہارے جیسی پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قبلہ کی طرف رخ بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور مسلمانوں کی طرح جانور ذبح کرتے ہیں، تو پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب نمبر:۱… مسلمان ہونے کے لئے پورے اسلام کو ماننا ضروری ہے۔ جب کہ کافر ہونے کے لئے پورے اسلام کا انکار کرنا ضروری نہیں۔ دین کے کسی بھی ایک مسئلہ اور ایک جزء کے انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی نے دین کے ایک ضروری مسئلہ کا انکار کر دیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ چاہے کروڑ دفعہ وہ کلمہ کیوں نہ پڑھتا ہو۔ یا نمازی، حاجی اور زکوٰۃ دینے والا کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال یوں ہے: جیسے ایک دیگ میں چار من دودھ ہو، اس کے پاک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پورے کا پورا پاک ہو۔ ناپاک ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ چارمن شراب اس میں ڈالی جائے تب وہ ناپاک اور پلید ہو۔ بلکہ ایک تولہ شراب سے بھی چارمن دودھ ناپاک ہو جائے گا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دین کے کسی ایک امر اور کسی ایک مسئلہ کا انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
مرزائی صرف کسی ایک مسئلہ کا نہیں۔ کئی ضروریات دین کا انکار کرتے ہیں۔ اس لئے وہ کافر ہیں۔ مسلمانوں کو دھوکہ اور فریب دینے کے لئے چاہے وہ کروڑ دفعہ ہی کلمہ کیوں نہ پڑھیں تب بھی کافر ہیں۔
جواب نمبر:۲… مسیلمہ کذاب اور اس کی پارٹی کے لوگ نماز پڑھتے تھے، اور اذان دیتے تھے۔ کلمہ بھی پڑھتے تھے، اور مسلمانوں کے قبلہ کی طرف رخ بھی کرتے تھے۔ مسلمانوں کا ذبیحہ بھی کھاتے تھے۔ غرض یہ کہ تمام مسلمانوں کا اور مسیلمہ کذاب کا دین کے دیگر مسائل میں اختلاف نہ تھا۔ صرف ایک مسئلہ میں اختلاف تھا، وہ یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کہتے تھے کہ حضور علیہ السلام ہی نبی ہیں اور آخری نبی ہیں۔ جب کہ مسیلمہ کہتا تھا حضور علیہ السلام بھی نبی ہیں اور حضور علیہ السلام کے بعد میں بھی نبی ہوں، تو صحابہ کرامرضی اللہ عنہم اجمعین نے ارشاد فرمایا: مسیلمہ! تو نے حضور علیہ السلام کے بعد جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر کے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ اب تیری کوئی نیکی نیکی نہیں رہی۔ جھوٹی نبوت کے دعویٰ کے بعد تو کافر ہے۔ اب نہ تیرے کلمہ کا اعتبار نہ نماز وغیرہ کا! اس لئے صحابہ کرامرضی اللہ عنہم اجمعین نے اس کے ساتھ جنگ کی اسے اور اس کی پارٹی کو جہنم رسید کیا۔
بعینہ اسی طرح مرزاقادیانی ملعون کا دعویٰ نبوت کاذبہ، اور مرزائیوں کا اسے نبی مان لینا یہ وہ جرم عظیم ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے مرزاقادیانی ملعون کی اور مرزائیوں کی کوئی نیکی نیکی نہیں رہی۔ جس طرح مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والے باوجود کلمہ پڑھنے کے کافر ہوئے۔ اسی طرح مرزائی بھی کلمہ پڑھنے کے باوجود کافر ہیں۔
جواب نمبر:۳… مرزائیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم مسلمانوں والا کلمہ پڑھتے ہیں، غلط ہے! اس لئے کہ کلمہ کا مفہوم مسلمانوں کے نزدیک اور ہے، اور قادیانیوں کے نزدیک اور۔ وہ اس طرح کہ کلمہ طیبہ کے دوسرے جز ’’محمد رسول اﷲ‘‘( علیہ السلام ) سے مسلمانوں کے نزدیک صرف اور صرف حضور سرورکائنات، خاتم النبیین علیہ السلام کی ذات اقدس ہی ہے۔ اس مفہوم میں کسی اور کی شراکت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب کہ قادیانیوں کے نزدیک کلمہ طیبہ کے اس دوسرے جز ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد مرزاقادیانی ملعون ہوتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی کا بیٹا ’’مرزابشیر احمد‘‘ اپنی کتاب ’’کلمتہ الفصل‘‘ میں لکھتا ہے: ’’مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی۔ ناقل) کی بعثت کے بعد ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی۔ لہٰذا مسیح موعود کے آنے سے نعوذ باﷲ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اور بھی زیادہ شان سے چمکنے لگ جاتا ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۵۸)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ کا مفہوم قادیانیوں کے نزدیک اور ہے اور مسلمانوں کے نزدیک اس عبارت والا مفہوم نہیں ہے۔
نیز اسی کتاب کے مذکورہ بالا صفحہ پر آگے لکھتا ہے: ’’پس مسیح موعود (مرزاقادیانی) خود ’’محمد رسول اﷲ‘‘ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمد رسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۵۸)
یہ عبارت بھی پکارپکار کر ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ مرزائیوں کے نزدیک ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد مرزاقادیانی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کلمہ طیبہ میں مسلمان ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد رحمت عالم حضور خاتم النبیین علیہ السلام ہی کی ذات اقدس کو لیتے ہیں اور مرزائی مرزاقادیانی کو۔
معلوم ہوا مسلمانوں کا کلمہ اور اس کا مفہوم اور ہے اور مرزائیوں کا کلمہ اور اس کا مفہوم اور ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ امام بخاریرحمۃُ اللہ علیہ کا نام محمد تھا۔ امام ابوحنیفہرحمۃُ اللہ علیہ کے ایک شاگرد کا نام بھی محمد تھا۔ سید محمد یوسف بنوریرحمۃُ اللہ علیہ کے صاحبزادے کا نام بھی محمد ہے۔ اب فرض کیجئے۔ یہ تینوں ایک مجلس میں موجود ہوں اور امام بخاریرحمۃُ اللہ علیہ کے والد آکر کہیں: محمد! تو اس سے مراد ان کا اپنا بیٹا ’’امام بخاریرحمۃُ اللہ علیہ ‘‘ ہوگا اور اگر بالفرض! اسی مجلس میں امام ابوحنیفہرحمۃُ اللہ علیہ آکر کہیں: محمد! تو اس سے ان کا اپنا شاگرد ’’امام محمدرحمۃُ اللہ علیہ ‘‘ مراد ہوگا، اور اگر اسی مجلس میں حضرت سید محمد یوسف بنوریرحمۃُ اللہ علیہ آکر کہیں: محمد! تو اس سے مراد ان کا اپنا بیٹا ’’محمد بنوری‘‘ ہوگا۔
دیکھیں! تینوں شخصیتوں نے لفظ ایک ہی بولا: محمد! لیکن ہر ایک کی مراد اس لفظ سے علیحدہ علیحدہ اشخاص تھے۔ اسی طرح سمجھیں! مسلمان جب ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بولتے ہیں تو اس سے مراد رحمتہ للعالمین، حضور خاتم النبیین علیہ السلام کو لیتے ہیں اور جب مرزائی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بولتے ہیں تو اس سے مراد مرزاقادیانی ملعون کو لیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کلمہ طیبہ اور اس کا مفہوم مسلمانوں کے نزدیک اور ہے اور مرزائیوں کے نزدیک جدا۔
جواب نمبر:۴… مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں۔ پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے۔ بعینہ یہی سوال مرزائیوں سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب مسلمان کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو مرزائی مسلمانوں کو کافر کیوں کہتے ہیں؟ جیسا کہ مرزاقادیانی کا ایک مکتوب (جو ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے نام مارچ ۱۹۰۶ء میں لکھا تھا) ’’تذکرہ‘‘ میں درج ہے اس میں لکھا ہے: ’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۰۷، مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
اسی طرح مرزاقادیانی کا بیٹا اور قادیانی جماعت کا دوسرا سربراہ ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ اپنی کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ میں لکھتا ہے: ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
اور ایسے ہی مرزاقادیانی کا بیٹا مرزابشیراحمد ایم۔اے اپنی کتاب ’’کلمتہ الفصل‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰعلیہ السلام کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا، یا عیسیٰعلیہ السلام کو مانتا ہے مگر محمد علیہ السلام کو نہیں مانتا اور یا محمد علیہ السلام کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (مرزامردود۔ ناقل) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۰)
قادیانیوں کی مذکورہ بالا تینوں عبارتوں سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک مسلمان ہزاردفعہ ہی کیوں نہ کلمہ پڑھتے ہوں۔ لیکن مرزاقادیانی کو نہیں مانتے۔ (اگرچہ اس کا نام بھی نہیں سنا) تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایک شخص یا کئی افراد باوجود اس کے کہ کلمہ پڑھتے ہیں کافر ہوسکتے ہیں اور یہ امر قادیانیوں کے ہاں بھی مسلم ہے تو اسی مسلمہ ضابطہ کے تحت مرزائی ہزاربار کلمہ پڑھتے ہوں۔ مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کو ماننے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کا کلمہ پڑھنا، کلمہ کا بورڈ لگانا انہیں کفر سے نہیں بچا سکتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 2 حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ)
سوال نمبر:۲… ایک موقع پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو قتل کرنا چاہا۔ اس نے فوراً کلمہ پڑھا۔ لیکن حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ پھر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا۔ جس کے جواب میں نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اس کے کلمہ پڑھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا تھا۔ نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’ہل شققت قلبہ‘‘ (کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟) کہ وہ ڈر کے مارے پڑھ رہا ہے؟ پھر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اگر کل قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھ ہوئی تو میں اسامہرضی اللہ عنہ کے اس فعل سے بری ہوں گا۔
مرزائی استدلال
مرزائی اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو ہمارے کلمہ پڑھنے کا بھی اعتبار ہونا چاہئے۔ کیا مسلمانوں نے ہمارے دل چیر کر دیکھ لئے ہیں؟ کہ ہم اوپر سے کلمہ پڑھتے ہیں؟ اور ہمارے دل میں کچھ اور ہوتا ہے؟
جواب نمبر:۱… ایک شخص جب کلمہ پڑھتا ہے تو اسے موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے ثابت کر دکھائے کہ اس نے یہ کلمہ دل سے پڑھا ہے یا صرف زبان سے۔ نیز یہ ثابت کر دے کہ میں خلاف اسلام کاموں سے بری ہوں۔ چونکہ زبان دل کی ترجمان ہے۔ اب اس کا طرز عمل بتلائے گا کہ اس کا دل اور زبان ایک ہے یا نہیں؟ رہا واقعہ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ کے قتل کا؟ تو چونکہ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو موقع ہی نہیں دیا تھا کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے ثابت کر دے کہ میں نے یہ کلمہ دل سے پڑھا ہے یا زبان سے؟ اس لئے حضور علیہ السلام نے اس پر نکیر (ناپسندیدگی) فرمائی۔
مرزائی فریب
قادیانی حدیث پاک کے مذکورہ واقعہ سے ہرگز یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ ہم تو کلمہ پڑھتے ہیں یہ محض ان کا دھوکہ اور فریب ہے کہ غلط استدلال کی آڑ میں ہم اپنے آپ کو اور مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کو بچالیں گے۔

ایں خیال است ومحال است وجنوں
عرصہ ٔ دراز سے مسلمانوں نے مرزائیوں کو موقع فراہم کیا اور آج بھی مرزائیوں کو موقع دیا ہوا ہے کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے یہ ثبوت پیش کرتے اور کریں کہ ہمارا دل اور زبان ایک ہے۔ مگر قیامت یہ ہے کہ مرزائیوں کا ’’لٹریچر‘‘ اور ان کا طرز معاشرت، اور بودوباش یہ بتارہی ہے کہ زبانی حد تک کلمہ پڑھنے کے باوجود ان کے دل میں عقیدۂ ختم نبوت نہیں۔ بلکہ انکار ختم نبوت اور اجراء نبوت ہے۔ انبیائo کی تنقیص وتوہین ان کے دلوں میں موجود ہے۔ جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ وہ ایک جھوٹے مدعی نبوت مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ، مسیح موعود، اور مہدی معہود اور پتہ نہیں کیا کیا مانتے ہیں۔ تو مرزائی اپنے طرز عمل سے تو یہ بتلا رہے ہیں کہ ہمارا دل اور زبان ایک نہیں۔ لہٰذا کروڑوں بار بھی کلمہ پڑھیں، نمازیں پڑھیں، تب بھی کافر ہیں۔ ان کے اس کلمہ پڑھنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کا حدیث حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کرنا باطل اور اپنے آپ کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے مقتول پر قیاس کرنا ’’قیاس مع الفادق‘‘ ہے۔
ببیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا
جواب نمبر:۲… مشہور واقعہ زبان زد خاص وعام ہے کہ رحمت عالم علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک یہودی اور دوسرا منافق (بشرنامی جو بظاہر کلمہ گو ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا) ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ بشرنامی منافق (جو بظاہر اسلام اور کلمہ گو ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا) نے یہودی سے کہا کہ حضور علیہ السلام کا فیصلہ تو آپ کے حق میں ہوا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کرائیں۔ بشر منافق کی اندرونی سازش تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہودی کو قتل کر دیں گے، یا میرے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ کیونکہ میں کلمہ گو جو ہوں۔ یہودی نے کہا ٹھیک!
چنانچہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کیس عرض کیا، یہودی نے حضور علیہ السلام کا فیصلہ بھی سنایا کہ آپ علیہ السلام نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ منافق نہیں مانتا۔ اس کے کہنے پر فیصلہ آپ کے پاس لے آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا حضور علیہ السلام نے فیصلہ اس طرح فرمادیا ہے؟ کہا: جی ہاں! یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے، تلوار ہاتھ میں لی اور یہ فرماتے ہوئے کہ جو حضور علیہ السلام کے مبارک فیصلہ کو نہ مانے اس کا فیصلہ عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار کرے گی۔ تشریف لائے اور بشر منافق کا سر گردن سے الگ کر دیا۔ اس پر نہ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ: عمر رضی اللہ عنہ ! تم نے کیوں قتل کیا؟ اور نہ ہی اﷲ رب العزت نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے غلط کیا ہے۔ بلکہ وحی الٰہی نازل ہوئی: ’’فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلّموا تسلیما (نسائ:۶۵)‘‘ {سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مؤمن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں۔ اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔}
اسی واقعہ کے تحت ’’روح المعانی‘‘ اور (معارف القرآن ج۲ ص۴۶۱) میں ہے کہ بشر نامی منافق کے ورثاء نے حضور علیہ السلام کی عدالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی دائر کیا، تو وحی الٰہی نے نہ صرف یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بری کر دیا۔ بلکہ تاقیامت مسلمانوں کے لئے یہ دستور العمل قرار پایا کہ جو شخص حضور علیہ السلام کے فیصلہ کو نہ مانتا ہو چاہے وہ کلمہ بھی کیوں نہ پڑھتا ہو وہ مؤمن نہیں۔ لہٰذا اس کی گردن ماری جائے۔ اس کے کلمہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس واقعہ کے تناظر میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو باوجود کلمہ پڑھنے کے موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے طرز عمل سے ثابت کرتا کہ میرے دل میں کیا ہے؟۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھنے والے بشر منافق کو اسی وجہ سے قتل کر دیا کہ اس کے طرز عمل نے بتادیا تھا کہ کلمہ صرف اس کی زبان کی حد تک ہے۔ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ظاہری طور پر کلمہ پڑھتا ہے۔ اس کے دل میں کفر ہی کفر ہے۔
یہی حال مرزائیوں کا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لینے کے لئے لسانی اور زبانی طور پر کلمہ کی رٹ لگاتے ہیں۔ اندر مرزاقادیانی کو ماننے کی وجہ سے کفر ہی کفر رکھتے ہیں ؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 3 حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان، اور قبول اسلام!)
سوال نمبر:۳… ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے رہے تھے۔ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جو ابھی چھوٹے بچے تھے۔ اسلام بھی ابھی تک قبول نہیں کیا تھا۔ انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ (نقل اتارتے ہوئے) اذان دینی شروع کی۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان مکمل کر لی، تو حضور علیہ السلام نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو بلاکر اذان کے کلمات کہلوائے۔ آپ علیہ السلام کی محبت اور کمال دیکھئے۔ جونہی کلمات اذان ختم ہوئے تو حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ مسلمان ہوئے بلکہ شرف صحابیت بھی حاصل کر لیا۔
مرزائی استدلال
اس واقعہ سے مرزائی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ابتدائً بحالت کفر اذان کہی تھی۔ چلو! ہم آئین کے اعتبار سے کافر ہی سہی! تو ہمیں بھی کفر کی حالت میں اذان کہنے کی اجازت ہونی چاہئے؟
جواب… قرآن وسنت کی روشنی میں پوری کائنات کے قادیانی زندہ اور مردہ سبھی مل کر ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی کافر کو نماز کے لئے اذان کہنے کی اجازت دی ہو؟ یا کسی کافر نے نماز کے لئے اذان دی ہو؟ جس دن حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کی نقل اتاری تھی۔ اس دن بھی نماز کے لئے اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی۔ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے تو صرف نقل اتاری تھی۔
ہاں! اس حدیث شریف کی رو سے اگر مرزائی استدلال کرنا چاہتے ہیں تو آئیں! ایک دفعہ تعلیم کی غرض سے اذان کے کلمات کہہ لیں اور مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت پر لعنت بھیج کر مسلمان ہو جائیں۔ لیکن وہ اذان فقط تعلیم کے لئے ہوگی! نماز کے لئے نہیں! ہاں! مسلمان ہو جانے کے بعد زندگی بھر اذان دینے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں ؎

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
مگر! کسی بھی کافر کو نماز کے لئے اذان کہنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 4 بزرگوں کے ’’خلاف شرع‘‘ اقوال حجت نہیں)
سوال نمبر:۴… ’’تذکرۃ الاولیائ‘‘ وغیرہ کتب میں لکھا ہے کہ بعض بزرگوں سے یہ اقوال صادر ہوئے کہ میں نبی ہوں، میں محمد ہوں۔ میں خدا ہوں وغیرہ وغیرہ! اگر مرزاقادیانی نے بھی کہہ دیا ہے تو اس پر فتویٔ کفر کیوں؟
جواب… بزرگان دین اور حضرات صوفیاء کرام کے ہاں ایک خاص اصطلاح ہے۔ جسے ’’شطحیات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بزرگان دین وصوفیاء کرام پر کچھ باطنی حالات گذرتے ہیں۔ جو ایک بے خودی اور مدہوشی کی حالت ہوتی ہے۔ اس حالت میں ان سے بعض ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو کتاب وسنت اور قواعد شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو ایسے کلمات سے توبہ واستغفار کر لیتے ہیں۔ نیز ان بزرگان وصوفیاء کرام نے اپنی اپنی کتب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہماری ان بے اختیارانہ باتوں پر کوئی شخص ہرگز عمل پیرا نہ ہو۔ بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جو ہمارے طریق سے واقف نہیں اس کے لئے ہماری ان کتب کا مطالعہ کرنا بھی جائز نہیں۔ اسی طرح ہمارا کشف والہام بھی کسی پر حجت نہیں۔
خلاصہ یہ کہ بزرگان دین کی اس طرح کی باتیں خلاف شرع ہوتی ہیں۔ جو کسی کے لئے بھی حجت نہیں ہوتیں۔ جب کہ نبی کی ہر بات شریعت ہوتی ہے اور قابل حجت! جس کے مانے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ جو نہیں مانے گا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور خود نبی بھی اپنی اطاعت واتباع کی تعلیم وتلقین کرتا ہے۔ دیکھئے! قرآن پاک نے بھی رسولوں اور نبیوں سے متعلق اصول سمجھایا: ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ (نسائ:۶۴)‘‘ {اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر اسی واسطے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے۔}
رہے مرزاقادیانی کے اقوال؟ تو وہ مرزائیوں کے لئے تو حجت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے نبی مانتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے مرزاقادیانی کے اقوال حجت شرعیہ نہیں! اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک مرزاقادیانی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور کافر کا قول مسلمانوں کے لئے کسی طرح بھی حجت شرعیہ نہیں بن سکتا۔ خلاصۂ جواب یہ ہے کہ اگر کسی بزرگ نے معذوری یا مدہوشی کی حالت میں کہہ دیا ہے کہ میں نبی ہوں۔ میں محمد ہوں وغیرہ تو اس کا یہ قول حجت شرعیہ نہیں ہے تو جن کتابوں میں اس طرح کے اقوال ہیں۔ ان کتابوں میں ان بزرگوں کی تعلیمات وتلقینات اپنے مریدین کے لئے یہ موجود ہیں کہ تم نے مجھے قتل کیوں نہ کیا؟ کیا نبی اس طرح کہتا ہے؟
ہم مرزائیوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرزاقادیانی نے اپنی پوری زندگی میں یا اپنی کتابوں میں کہیں اشارۃً یا کنایتہ یا صریحاً کوئی ایک جملہ لکھا ہے؟ کہ مجھے ان دعاوی (میں نبی ہوں، میں محمد ہوں، میں آدم ہوں، میں عیسیٰ ہوں۔ وغیرہ) کی وجہ سے قتل کر دیا جائے؟ بلکہ اپنی بات نہ ماننے والوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج، کتیوں، خنزیروں کی اولاد، کنجریوں کی اولاد کہتا رہا۔ کیا ولی اس طرح کہا کرتا ہے؟ یا مرزاقادیانی نے یہ باتیں معذوری اور مدہوشی میں کہی ہیں؟ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی بزرگ نے یا کسی ولی نے اپنی زندگی میں اس طرح کہا ہو تو مرزائیوں پر لازم ہے دکھائیں؟ لہٰذا تذکرۃ الاولیاء وغیرہ کتب میں موجود ان بزرگوں کے اقوال ہمارے لئے حجت شرعیہ نہیں ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو معذور، اور مرزاقادیانی اور اس کے پیروکاروں کو کافر سمجھا جائے گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 5 قادیانی جماعت برابر بڑھ رہی ہے کیا یہ مرزاقادیانی کے سچا ہونے کی علامت ہے؟)
سوال نمبر:۵… اﷲتعالیٰ جھوٹے مدعی نبوت کو مہلت نہیں دیتا۔ جب کہ مرزاقادیانی کی جماعت مرزائیہ برابر بڑھ رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی سچا تھا۔
جواب… یہ اصول سراسر غلط ہے کہ اﷲتعالیٰ جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ دیکھئے! شیطان سے بڑھ کر اور کون جھوٹا ہوگا؟ وہ کب سے مہلت پر ہے اور تاقیامت مہلت پر رہے گا۔ کیا یہ شیطان کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ رہا جھوٹا مدعی نبوت؟ تو دنیا میں مرزاقادیانی سے قبل ایک نہیں بے شمار جھوٹے مدعی نبوت گذرے ہیں۔ جنہوں نے طویل زندگی پائی ہے۔ مثلاً ایران میں ایک شخص صالح بن طریف ہوا۔ وہ دعویٔ نبوت کے بعد سنتالیس (۴۷) سال تک زندہ رہا۔ اور اس کی اولاد نے تین سو سال تک حکومت کی۔ کیا یہ اس کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ ان جھوٹے مدعیان نبوت کے مہلت پانے کی تفصیل دیکھنی ہو تو مولانا ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب ’’ائمہ تلبیس‘‘ دیکھ لیں۔ جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ان مدعیان نبوت نے دعویٰ نبوت کے بعد عرصہ تک مہلت پائی ہے۔ کیا یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ یہ یاد رکھیں کہ صادق کے صدق اور کاذب کے کذب میں کسی مدت دعویٰ کو قطعاً دخل نہیں۔ جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا؟۔
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے تقریبا 950 سال تک تبلیغ کی مگر ایک سو لوگ بھی ان پر ایمان نہ لائے اور فرعون کا لشکر حضرت موسی علیہ السلام کے لشکر سے کئی گناء بڑا تھا ۔ اب قادیانی خود فیصلہ کرنے کہ سچا کون تھا ؟؟ کم تعداد والے یا زیادہ تعداد والے؟؟
اسی طرح مزید آگے آتے ہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کے امتی جن کا سورۃ الکھف میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان کی تعداد صرف 6 یا 7 تھی جب کہ ان کے مقابلے میں ایڈریم (خدائی کا دعوی کرنے والا) کا لشکر لاکھوں میں تھا ۔ اب قادیانی خود فیصلہ کریں کہ جن کی تعداد اس میں زیادہ تھی وہ سچے ہیں یا جن کی کم تھی وہ سچے ہیں؟؟
یہ ضرور ہے کہ جھوٹ ایک دن ختم ہو جاتا ہے اور جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والے ہزار ترقیوں کے باوجود آخر ختم ہوگئے۔ آج ان کا کوئی نام لیوا موجود نہیں۔ قادیانیت بھی ’’انشاء اﷲ‘‘ اسی طرح اپنے انجام کو پہنچے گی۔ ایک وقت آئے گا کہ پوری دنیا میں ان کا نام ونشان تک نہ ہوگا۔ انشاء اﷲ!
ذرا توجہ تو کریں! ایک وہ وقت بھی تھا کہ پاکستان میں مرزاقادیانی کو کافر کہنے پر مقدمے بنتے تھے۔ آج ’’الحمدﷲ‘‘ وہ وقت ہے کہ کوئی مرزاقادیانی ملعون کو مسلمان کہے تو جیل جانا پڑتا ہے۔ اتنا بڑا انقلاب آیا کہ مرزائیوں کا نام چوڑھوں کے ساتھ لکھا گیا۔ جو پاکستان میں اپنے اقتدار کے خواب دیکھتے تھے۔ مرزائی سازشیں کرتے اور دن گنا کرتے تھے۔ آج ان کے چیف گرو مرزا مسرورکو پاکستان میں قدم رکھنے کی سکت نہیں۔ وہ آج بھی صلیب پرست عیسائیوں کے زیرسایہ ’’لندن‘‘ میں زندگی گذار رہے ہیں۔ جس طرح ان کا جھوٹا مدعی مسیحیت (مرزاقادیانی) عیسائیوں کا آلہ کار بنا تھا۔ اسی جھوٹے مدعی مسیحیت کے جھوٹے پیروکار آج انہی صلیب پرستوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ ان کے سرپرست، فیصلہ قادیانی عدالت کرے کہ یہ مرزاقادیانی کے سچا ہونے کی علامت ہے یا جھوٹا ہونے کی؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 6 دیوبندی، بریلوی وغیرہ کے ایک دوسرے پر فتوے اور قادیانی)
سوال نمبر:۶… دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں۔ اگر ہم پر فتویٰ لگا دیا تو ہم کیسے کافر ہوگئے؟ یہ تو ان کی عادت ہے۔
جواب نمبر:۱… دیوبندی، بریلوی وغیرہ پر قادیانیت کو قیاس کرنا ’’قیاس مع الفارق‘‘ ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے فرقے ہیں اور قادیانی کفر کے داعی ہیں۔ دیوبندی، بریلوی کے بعض لوگوں نے اگر ایک دوسرے پر فتویٰ لگایا تو غلط فہمی یا بدنیتی کی بناء پر۔ جب کہ دوسرا فریق اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے بریلوی حضرات نے کہا کہ دیوبندی گستاخ رسول ہیں۔ دیوبندیوں نے کہا کہ ہم گستاخ رسول نہیں۔ بلکہ ہم تو گستاخ رسول کو کافر سمجھتے ہیں۔ گستاخ رسول واجب القتل ہے۔ تو دیوبندیوں نے ان کے اس فتویٰ کو قبول نہیں کیا۔ سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ بلکہ اسے اپنے اوپر بہت بڑا الزام قرار دیا۔ دیوبندی اگر الزام کو قبول کرتے کہ واقعی ہم گستاخ رسول ہیں تو واقع میں کافر ہو جاتے۔ غرضیکہ ایک دوسرے کے فتویٰ کو الزام قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ بخلاف مرزائیوں کے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جو کفر ہے قادیانیوں نے اس کافرانہ دعویٰ کو قبول کر کے کفر کے فتویٰ کو اپنے اوپر تسلیم اور لاگو کیا۔
مرزاقادیانی نے حضرات انبیائo کی توہین کی جو کفر ہے۔ مرزائیوں نے اس کفر کو شریعت سمجھ کر اپنے اوپر چسپاں کر لیا۔ مرزاقادیانی نے نصوص قطعیہ کا انکار کیا جو کہ کفر ہے۔ مرزائیوں نے اسے اپنے ایمان کا حصہ بنا کر اپنے کفر کو اور پختہ کر لیا۔
غرضیکہ دیگر فرقوں کا اختلاف ایسا ہے۔ جیسے ایک مقدمہ میں مختلف وکلاء اپنے اپنے دلائل دیتے ہیں۔ جو قانون کو مانتے ہیں تو ان کا یہ اختلاف وکیلوں جیسا اختلاف ہے۔ جیسے ایک وکیل کہے کہ میں قانون کو یوں سمجھا ہوں۔ دوسرا کہے کہ میری نظر میں قانون یہ کہتا ہے تو ان کا یہ اختلاف سمجھ اور فہم کا اختلاف ہے۔ قانون کو سب مانتے ہیں۔ جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃُ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ اسلام کے وکیل ہیں۔ اسی طرح دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، قادری، نقشبندی، چشتی، سہروردی، بھی اسلام کے وکیل ہیں۔ ان سب کا راستہ ختم نبوت کے تاجدار، گنبد خضراء کے مکین حضرت محمد عربی علیہ السلام کی طرف جاتا ہے۔ یہ سب حضور علیہ السلام کے قدمین شریفین کی وابستگی کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
اب ایک دوسرا گروہ یا فریق (یعنی جماعت مرزائیہ) جو سرے سے قانون کو ہی نہیں مانتا۔ بلکہ قانون سے بغاوت کرتا ہے۔ ان کا اختلاف اصول اور قانون سے بغاوت کا اختلاف ہے۔ جیسے بینا اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح قانون کو ماننے والا اور قانون سے بغاوت کرنے والا بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قانون کا باغی اور قانون کا منکر لائق تعزیر وواجب القتل ہے۔
جواب نمبر:۲… نبی کے بدلنے سے امت بدل جاتی ہے۔ مثلاً چار آدمی ہوں۔ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ ان پر ایمان لائے۔ تو یہودی کہلائے۔ اب ان چار میں سے تین نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام کا زمانہ پایا۔ ان پر ایمان لائے تو یہ حضرت موسیٰعلیہ السلام کی امت سے نکل کر عیسائیت میں داخل ہوگئے۔ پھر ان تین میں سے دو آدمیوں نے حضور اقدس علیہ السلام کا زمانہ پایا اور حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے بعد رحمت عالم علیہ السلام کو اپنا نبی تسلیم کر لیا تو یہ دونوں عیسائیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہو گئے اور مسلمان کہلائے۔ ان میں سے کسی نے پہلے نبی کا انکار نہیں کیا۔ مگر ایک سچے نبی کے بعد دوسرے سچے نبی کو مانتے ہی پہلے سچے نبی کی امت سے نکل کر نئے سچے نبی کی امت میں داخل ہوگئے۔ خدانہ کرے اب ایک شخص حضور علیہ السلام کے بعد کسی اور نبی کو مان لیتا ہے تو حضور علیہ السلام کے بعد نئے شخص کو نبی مانتے ہی حضور علیہ السلام کی امت میں نہیں رہے گا۔ یہی حال مرزائیوں کا ہے کہ انہوں نے حضور علیہ السلام کو چھوڑ کر مرزاقادیانی کو اپنا (جھوٹا) نبی تسلیم کیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ’’دافع البلائ‘‘ میں دعویٰ کیا ہے اور لکھا ہے: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
اس دعویٔ مذکور کی وجہ سے مرزاقادیانی کافر ہے۔ جب قادیانیوں نے اسے اپنا نبی تسلیم کر لیا تو اب یہ بھی مسلمان نہ رہے۔ حضور علیہ السلام کی امت سے نکل گئے۔ قادیانی اور مرزائی یا غلام احمدی، غلامی،اور غلمدی ہوگئے۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھیں۔ دیوبندی، بریلوی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی وغیرہ ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد۔ ہزاراختلاف سہی لیکن باپ تو ایک ہے۔ رشتہ تو ایک ہے۔ آپس میں رشتے کے اعتبار سے بھائی بھائی ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جس نے اپنا باپ ہی علیحدہ بنالیا ہو تو یہ ان کا کچھ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس کا باپ ہی الگ ہے۔ دیوبندی، بریلوی، وغیرہ اختلاف چاہے کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو جائے یا بعض اغراض پرست قوتیں انہیں آپس میں کیوں نہ لڑادیں اور یا دین دشمن حکومتیں ان میں اختلاف کو ہوادیں اور ان میں سے ایک کو دوسرے کے مقابل لاکھڑا کر دیں تو اعلیٰ فہم رکھنے والے حضرات اسے عارضی یاوقتی حالات کا سانحہ سمجھ کر صرف نظر کر لیتے ہیں۔ تو تکار اور غلط فہمی کا شکار نہیں ہو جاتے۔ کیونکہ ہیں جو ایک دوسرے کے بھائی اور ایک باپ کی اولاد۔
بخلاف اس شخص کے جس کا باپ الگ ہو۔ ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہ ہو۔ بلکہ وہ شخص جوان بھائیوں کے باپ کا بھی دشمن ہو۔ اب یہ دشمن شخص جب ان کے باپ کی عزت پر حملہ کرے گا تو تمام بھائی اپنے اپنے اختلافات کو بھول کر جمیع قسم کے تنازعات چھوڑ کر باپ کے دشمن کے مقابلہ میں ایک ہو جائیں گے۔ تو یہ روزمرہ کے واقعات میں دیوبندی، بریلوی اختلافات لاکھ سہی۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی دجال وکذاب جیسے دشمن شخص نے ان کے روحانی والد حضرت محمد عربی علیہ السلام کے منصب ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا، اور آپ علیہ السلام کی عزت وناموس پر حملہ کر کے مذاق اڑایا تو دیوبندی، بریلوی وغیرہم حلالی بھائیوں کی طرح ایک ہوکر اپنے عظیم روحانی والد کے دشمن اور منکرین ومخالفین کے خلاف صف آراء ہوگئے، اور مار مار کر ان کا منہ بگاڑ دیا اور انہیں اپنی صفوں سے نکال کر دنیا کو بتا دیا، کہ دیوبندی، بریلوی اختلافات سے قادیانیت ومرزائیت، غلام احمدیت وغلمدیت کو ہرگز ہرگز فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
جواب نمبر:۳… قادیانیوں کو اگر دیوبندی، بریلوی اختلاف نظر آتا ہے، تو یہ اپنے اختلافات اور فتویٰ جات کو کیوں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اپنے اختلافات سے استدلال کیوں نہیں کرتے۔ لاہوری مرزائیوں نے کہا، کہ مرزاقادیانی نبی نہیں تھا۔ قادیانی مرزائیوں نے ان کے خلاف غیرنبی کو نبی مان کر کفر کا ارتکاب کیا۔ قادیانی مرزائیوں نے کہا، کہ مرزاقادیانی نبی تھا تو ان (قادیانیوں) کے بقول لاہوری مرزائیوں نے ایک نبی کو نہ مان کر کفر کیا۔ تو اس لحاظ سے لاہوری مرزائیوں کے نزدیک قادیانی مرزائی کافر، اور قادیانی مرزائیوں کے نزدیک لاہوری مرزائی کافر۔

خس کم جہاں پاک شد
خلاصہ یہ کہ قادیانی ذریت امت مسلمہ کے اختلاف کو نظیر بناتے وقت، اور ان سے استدلال کرتے وقت اپنے کفریہ عقائد اور فتویٰ جات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟
الزام ہم ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
سچ ہے کہ لینے کا پیمانہ اور، دینے کا پیمانہ اور!بددیانتی کی سب سے بڑی علامت یہی ہے۔ فافہم!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 7 جھوٹے نبی کا جھوٹا فرشتہ)
سوال نمبر:۷… مرزاقادیانی کے فرشتے کا نام کیا تھا؟
جواب… مرزاقادیانی کے فرشتے کا نام ٹیچی تھا۔ مرزاقادیانی نے خود اپنی کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا ہے: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا اس نے کہا نام کچھ نہیں۔ میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا۔ میرا نام ہے ٹیچی! ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں۔ یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۶)
اس سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ مرزاقادیانی مرزائیوں کے نزدیک نبی تھا، تو نبی کا خواب بھی شریعت میں حجت ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب اور بیدار ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا قرآن مجید میں مذکور ہے۔ امتی کا خواب غلط ہوسکتا ہے۔ نبی کا خواب غلط نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ نبی اور امتی کی نیند میں فرق ہے۔ امتی کی نیند ناقض وضو ہوتی ہے۔ نبی کی نیند ناقض وضو نہیں ہوتی۔ امتی جب سوتا ہے تو اس کی آنکھیں بھی سو جاتی ہیں اور دل بھی سو جاتا ہے۔ بخلاف نبی کے کہ نبی جب سوتا ہے تو اس کی آنکھیں تو سو جاتی ہیں مگر اس کا دل یاد الٰہی میں مشغول ہو جاتا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ان عینی تنا مان ولا ینام قلبی (بخاری ج۱ ص۱۵۴)‘‘ {کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔}
مرزائیوں کے نزدیک جب مرزاقادیانی نبی تھا، تو مرزاقادیانی کا مذکورہ بالا خواب بھی مرزائیوں کے لئے حجت ہے۔ مرزاقادیانی نے فرشتہ سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟۔ اس نے کہا میرا نام کچھ نہیں ہے۔ جب دوبارہ مرزاقادیانی نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ تب اس پر فرشتہ نے کہا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پہلی بار سوال کرنے پر کہا کہ کچھ نام نہیں۔ دوبارہ پوچھنے پر کہا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ اگر اس کا کچھ نام نہیں تھا تو یہ کیوں کہا؟ کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ اگر نام ٹیچی تھا تو یہ کیوں کہا؟ کہ میرا نام کچھ نہیں۔ دونوں باتوں میں سے ایک سچی ہے دوسری جھوٹی۔ دونوں باتیں سچی نہیں ہوسکتیں۔ اب مرزائی بتائیں کہ وہ نبی کتنا مقدس ہوگا؟ جس کا فرشتہ بھی جھوٹ بولتا تھا۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رحمت عالم علیہ السلام تک کبھی کسی نبی پر آنے والے فرشتے نے جھوٹ بولا؟ اور پھر وہ بھی نبی کے سامنے؟ نیز یہاں پر ’’توریہ‘‘ کی تاویل بھی نہیں چل سکتی۔ کیونکہ ’’توریہ‘‘ کے لئے فتنہ وفساد یا جان کا خطرہ لاحق ہونا ضروری ہے، اور یہاں فرشتہ کے لئے وہ ’’توریہ‘‘ کا مقام نہیں تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 8 کیا مرزاقادیانی مجدد تھا؟)
سوال نمبر:۸… بعض مرزائی کہتے ہیں کہ ہم مرزاقادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ وہ مجدد تھا۔
جواب… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ’’دافع البلائ‘‘ میں لکھا ہے: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
اسی طرح مرزاقادیانی نے اپنی دوسری کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا ہے: ’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
مرزاقادیانی کی بے شمار عبارتوں میں سے دو عبارتیں آپ کے سامنے ہیں۔ جن میں مرزاقادیانی نے کہا، کہ میں نبی اور رسول ہوں۔ مرزائی کہتے ہیں کہ وہ نبی نہیں تھا۔ اب مرزائی بتائیں؟ کہ تم سچے ہو یا مرزاقادیانی؟ نیز مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد اس کو کافر نہ کہنے والا شخص بھی کافر ہوگا۔ چہ جائیکہ کوئی اسے مجدد مانتا ہو۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 9 کیا حضور علیہ السلام کے دشمنوں سے نرمی کرنا سنت نبوی ہے؟)
سوال نمبر:۹… مرزائی، اور مرزائی نواز طبقہ عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزائیوں کے ساتھ شدت والا معاملہ نہیں کرنا چاہئے۔ حضور علیہ السلام نے ہمیشہ اپنے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا۔ تو اب حضور علیہ السلام کی سنت کا تقاضا یہ ہے، کہ آپ علیہ السلام کے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا جائے، نہ کہ ان کے ساتھ شدت برتی جائے۔
جواب… ایک ہے ذات، اور ایک ہے دین۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے تو اپنی ذات کے لئے شدت کے بجائے درگذر والا معاملہ کرنا چاہئے۔ مگر دین کے لئے بعض اوقات شدت لازمی ہو جاتی ہے۔ حضور علیہ السلام اگر اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیتے تھے، تو یہ آپ علیہ السلام کی ذات کا مسئلہ تھا۔ چونکہ حضور علیہ السلام کی ذات پاک ہمارے لئے صرف دین کا حصہ ہی نہیں، بلکہ سراپا دین ہے، اور دین کے معاملہ میں درگذر کرنا مداہنت ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک حضور علیہ السلام کے دشمنوں کے ساتھ نرمی یا رعایت کرنا قطعاً جائز نہیں، بلکہ حضور علیہ السلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں ’’اشداء علی الکفار‘‘ کا نمونہ بننا چاہئے۔ مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃُ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: جس طرح حضور علیہ السلام کے ساتھ محبت رکھنا ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کے دشمن کے ساتھ بغض رکھنا یہ بھی ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ حضور علیہ السلام کا صحابہ کرامe کے متعلق ارشاد ہے: ’’من ابہم فبحبی اححبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم (مشکوٰۃ ص۵۵۴)‘‘ {جو شخص صحابہe سے محبت رکھتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔}
نیز ’’الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔
اب آئیے! اس طرف کہ آیا کبھی صحابی رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی بدبخت نے حضور علیہ السلام کی توہین کی ہو؟۔ (نعوذ باﷲ) اور اس صحابی رضی اللہ عنہ نے اسے برداشت کر لیا ہو؟۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف یہ تو ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے سامنے حضور علیہ السلام کی کسی شخص نے توہین کی تو صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حضور علیہ السلام کی عزت کا تحفظ کیا۔
واقعہ نمبر:۱
۱… اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ بھی بڑا سنہری ہے، کہ ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا، تو کفار نے اس سے کہا کہ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے؟ کہ تجھے چھوڑ دیا جائے؟ اور تیری جگہ تیرے نبی( علیہ السلام ) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے؟ (نعوذ باﷲ) تو جواب میں صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھانسی پر لٹکایا جانا درکنار، اگر مجھے یہ کہہ دیا جائے کہ ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں، اور تیری جگہ تیرے نبی( علیہ السلام ) کو کانٹا چبھودیتے ہیں تو میں پھانسی پر لٹکنا گوارا کر لوں گا۔ لیکن اپنے نبی( علیہ السلام ) کو کانٹا چبھانا گوارا نہیں کر سکتا۔
نیز اس کے علاوہ (تبلیغی نصاب ص۱۷۰) پر ہے: ’’کہ جب عروہ بن مسعود ثقفی نے حضور علیہ السلام سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اشراف کی جماعت نہیں دیکھتا۔ یہ اطراف کے کم ظرف لوگ تمہارے ساتھ ہیں۔ مصیبت پڑنے پر سب بھاگ جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پاس کھڑے ہوئے تھے۔ یہ جملہ سن کر غصے میں بھر گئے اور ارشاد فرمایا۔ تو اپنے معبود ’’لات‘‘ کی پیشاب گاہ کو چاٹ۔ کیا ہم حضور علیہ السلام سے بھاگ جائیں گے؟ اور آپ علیہ السلام کو چھوڑ دیں گے؟‘‘
واقعہ نمبر:۲
نیز اس کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃُ اللہ علیہ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ’’بخاری شریف‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’مکہ مکرمہ کی ایک مغنیہ عورت ’’سارہ نامی‘‘ مدینہ منورہ میں آئی ہوئی تھی۔ جب وہ مدینہ سے جانے لگی تو ’’حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ‘‘ نے اسے کفار کے نام ایک خط دیا۔ جو حضور علیہ السلام کے مکہ مکرمہ پر خفیہ حملہ کرنے کے ارادہ پر مشتمل تھا۔ حضور علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابومرثد رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تینوں حضرات کو حکم دیا کہ سارہ کے پاس ایک خفیہ خط ہے جو وہ مکہ مکرمہ لے جارہی ہے۔ وہ تمہیں روضۂ خاخ پر ملے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے گھوڑوں پر بیٹھ کر اس کا تعاقب کیا۔ ٹھیک وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جس مقام کا حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ خط دے دو۔ اس نے انکار کیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم نے دل میں سوچا کہ حضور علیہ السلام کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا۔ خط ضرور اس کے پاس ہے۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی لی۔ مگر خط نہ ملا۔ ہم نے اسے کہا کہ خط دے دو۔ ورنہ تیرے کپڑے پھاڑ کر خط لے لیں گے۔ اس پر گھبرا کر اس نے خط دے دیا۔‘‘ (معارف القرآن ج۸ ص۳۹۹، ۴۰۰، بخاری ج۲ ص۶۱۲)
غرضیکہ نبی علیہ السلام کی ہر بات کو سچا ماننا، آپ کی عزت وناموس کا تحفظ کرنا، حتیٰ کہ ماں باپ، آل اولاد، عزیزواقارب، جان ومال سب سے زیادہ آپ علیہ السلام کی ذات سے محبت کرنا مؤمن ہونے کے لئے ضروری ہے۔ حدیث پاک: ’’لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (بخاری ج۱ ص۷)‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان مرمٹے۔ مگر آپ علیہ السلام کی توہین کو برداشت نہ کرے۔ غرضیکہ آپ علیہ السلام کا دشمنوں کو معاف فرمانا یہ آپ علیہ السلام کا ذاتی معاملہ تھا۔ حضور علیہ السلام کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا یہ ہمارے لئے اہم دینی امر ہے۔ ذاتی دشمن کو معاف کرنے کا ہمیں حق ہے۔ نبی علیہ السلام کے دشمنوں کو معاف کرنا شریعت اس کی امت کو اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو شخص معاذ اﷲ! توہین رسالت کا ارتکاب کرے اس کی توبہ قبول نہیں۔ اس پر قاضی سزا نافذ کرے گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 10 مرزاقادیانی کی موت ہیضہ سے)
سوال نمبر:۱۰… کیا مرزاقادیانی ہیضہ سے مرا تھا؟
جواب… مرزاقادیانی نے اپنے خسر ’’میر ناصر‘‘ کو آخری بات یہ کہی تھی کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے کوئی بات نہیں کہی۔ اگر افتراء ہے تو مرزاقادیانی کا۔ سرور ولطف یہ ہے کہ جب پیدا ہوا تو بہن کی ٹانگوں سے سر ملایا ہوا تھا۔ جب مرا تو آخری جھوٹ بول کر مرا۔ اب اگر جھوٹ ہے تو حوالہ طلب کریں۔ میں دکھانے کو تیار ہوں۔
(حیات ناصر ص۱۴) پر مرزاقادیانی کے خسر، نام نہاد صحابی اپنے خودنوشت حالات میں تحریر کرتے ہیں: ’’آپ (مرزاقادیانی) کا حال دیکھا، تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میرصاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ اور (سیرت المہدی ج۱ ص۱۱) پر مرزاقادیانی کی بیوی کی روایت ہے کہ: ’’حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ (اوپر سے ڈال رہے تھے نیچے سے نکل رہا تھا) مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے، اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا کہ نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام (پاخانہ کا) کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا، اور پھر ایک اور قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا۔ (پاؤں کہاں تھے اور نیچے کیا تھا) اور حالت دگرگوں ہوگئی۔‘‘
اب دست اور قے، قے اور دست کا باربار حملہ یہ ہیضہ نہیں تو کیا تھا؟۔
پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی روایت ہے کہ: ’’مورخہ ۲۶؍مئی کو مرزاقادیانی کو ہیضہ نے آن گھیرا۔ ڈاکٹر نے ایسی دوائی دے دی کہ نجاست کا رخ جو نیچے کی طرف تھا اوپر کو ہوگیا اور بیت الخلاء (جو چارپائی کے پاس بنایا تھا) میں جان نکل گئی۔‘‘
(ضیائے حرم دسمبر ۱۹۷۴ئ، ایمان پرور یادیں ص۳۸)
مرزائی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر مرض ہیضہ ہوتا تو ڈاکٹر آپ کے لئے سرٹیفکیٹ نہ دیتے۔ حالانکہ انہوں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ ہیضہ نہیں اور پھر ریل پر بک کراکر ان کو لاہور سے قادیان لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں کے سرٹیفکیٹ کو تو مرزائی مانتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی کا اپنا حکم، قول مبارک، مقدس فرمان جو آخری تھا جو اپنے صحابی کو ارشاد فرمایا کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کو نہیں مانتے۔ پھر یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح مرزاقادیانی کی پنجابی نبوت کا کاروبار چل گیا اسی طرح ڈاکٹر سے سرٹیفکیٹ بھی لے لیا ہوگا۔ باقی رہا کہ ریل میں بک ہوگئے۔ بک تو ہوئے پیسے دے کر۔ پیسے دے کر کیوں ہوئے اس میں حکمت ہے۔
وہ یہ کہ مرزاقادیانی نے کہا کہ میں مسیح ہوں، دجال انگریز ہیں۔ یاجوج ماجوج امریکہ اور روس ہیں اور دجال کا گدھا ریل گاڑی ہے۔ مرزاقادیانی ریل گاڑی کو دجال کا گدھا کہتا تھا۔ مگر مسیح صاحب دجال کے گدھے پر عمر بھر سواری کرتے رہے، اور آخری سفر بھی دجال کے گدھے پر کیا۔ اچھا مسیح ہے۔ جو دجال کے گدھے پر عمر بھر سواری کی، اور آخری سفر بھی لاش کا اس سے کرایا گیا۔ کیا مرزاقادیانی کی کذب کے لئے یہ بات کافی نہیں؟۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top