ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(۱)…’’ والذین آمنوا بااﷲ ورسلہ اولیئک ھم الصدیقون والشہداء عندربھم۰ الحدید ۱۹‘‘
{اور جو لوگ یقین لائے اﷲ پر اور اس کے سب رسولوں پر وہی ہیں سچے ایمان والے اور لوگوں کا احوال بتلانے والے اپنے رب کے پاس۔} (۲)… ’’ والذین آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنھم فی الصالحین ۰ عنکبوت ۹‘‘
{اور جو لوگ یقین لائے اور بھلے کام کئے ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔} (۳)…
’’ سورۃ حجرات کے آخر میں
’’محاربین فی سبیل اﷲ‘‘ کو فرمایا’’ اولیئک ھم الصادقون۰‘‘
جواب۳ : من یطع اﷲ میں من عام ہے۔ جس میں عورتیں‘ بچے‘ ہیجڑے سب شامل ہیں۔ کیا یہ سب نبی ہوسکتے ہیں۔ اگر نبوت اطاعت کاملہ کا نتیجہ ہے تو عورت کو بھی نبوت ملنی چاہئے۔ کیونکہ اعمال صالحہ کے نتائج میں مرد وعورت کویکساں حیثیت حاصل ہے۔ جیسے فرمایا: ’’ من عمل صالحا من ذکر اوانثی وھو مومن فلنحیینہ حیوٰۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعلمون۰ النحل ۹۷‘‘
{کہ کوئی اچھا عمل کرتا ہے مرد یا عورت اور وہ مومن ہے تو ہم یقینا اسے ایک پاک زندگی میں زندہ رکھیں گے۔ اور ہم یقینا انہیں ان کے بہترین اعمال جو وہ کرتے تھے اجردیں گے۔}
کیا اس میں آنحضرت ﷺ کا کمال فیضان ثابت نہ ہوگا کہ عورت جسے کبھی نبوت حاصل نہ ہوئی وہ بھی آپ ﷺ کے طفیل نبوت حاصل کرتی ہے؟۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت ورسالت اطاعت کاملہ کا نتیجہ نہیں۔
جواب ۴: کیاتیرہ سو سال میں کسی نے حضور ﷺ کی پیروی کی ہے یا نہ؟ اگر اطاعت اور پیروی کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی اطاعت وپیروی نہیں کی تو آپ ﷺ کی امت خیر امت نہ ہوئی بلکہ شرامت ہوگی۔ (نعوذ باﷲ) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل پیروی نہ کی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے سورت توبہ میں صحابہ کرام ؓ کے متعلق خود شہادت دے دی ہے کہ
’’یطیعون اﷲ ورسولہ۰ توبہ ۷۱‘‘
یعنی رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ بتائو وہ نبی کیوں نہ ہوئے؟۔ اس لئے کہ اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابرصحابہ کرام ؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا جنہیں
’’ رضی اﷲ عنھم ورضواعنہ ‘‘
کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا :
’’ ورضوان من اﷲ اکبر۰توبہ ۷۲‘‘
(۱)…مرزا قادیانی تحریر کرتا ہے: ’’ حضرت عمر ؓ کا وجود ظلی طور پر گویا حضور ﷺ کا وجود تھا۔ ‘‘ (ایام الصلح ص ۳۹ خزائن ص ۲۶۵ ج ۱۴)
(۲)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ:’’ صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺکے دست وبازو تھے۔‘‘ (سرالخلافتہ ص ۲۷ خزائن ص ۳۴۱ ج ۸)
(۳)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ :’’ صدیق اکبر ؓ من بقیۃ طینۃ النبی ﷺ تھے۔‘‘ (سرالخلافۃ ص ۴۱ خزائن ص ۳۵۵ج۸)
(۴)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ:’’ صدیق اکبر ؓ آیت استخلاف کا مصداق تھے۔‘‘ ( سرالخلافتہ ص ۳۸ خزائن ص ۳۵۲ ج ۸)
(۵)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ: صحابہ کرام ؓ آنحضرتﷺ کی عکسی تصویر یںتھیں۔(فتح اسلام ص ۳۶ خزائن ص ۲۱ج۳)
جب مرزا قادیانی کے نزدیک حضرات صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ کے رنگ میں رنگے ہوئے اور کامل اتباع کا نمونہ تھے تو وہ نبی کیوں نہ بنے؟۔
جواب۵ :اگر بفرض محال پانچ منٹ کے لئے تسلیم کرلیں کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں نبوت ملتی ہے تو اس آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تم غیر تشریعی کی کوئی تخصیص کیوں کرتے ہو؟۔اگر اس آیت میںنبوت ملنے کا ذکر ہے تو آیت میں النبیین ہے المرسلین نہیں۔ اور نبی تشریعی ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی ورسول کے فرق سے واضح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تشریعی نبی آنے چاہئیں۔ یہ تو تمہارے عقیدہ کے بھی خلاف ہوا۔ مرزا کہتا ہے :
’’ اب میں بموجب آیت کریمہ :
’’ واما بنعمت ربک فحدث۰‘‘
اپنی نسبت بیان کرتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ۔‘‘( حقیقت الوحی ص ۶۷ خزائن ص ۷۰ ج ۲۲)
اس حوالہ سے تو ثابت ہوا کہ مرزا کو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے نہیں بلکہ وہبی طورپرنبوت ملی ہے۔ تو پھر اس آیت سے مرزائیوں کا استدلال باطل ہوا۔
جواب۶ : اگر اطاعت کرنے سے نبوت ملتی ہے تو نبوت کسبی چیز ہوئی حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالۃ ‘‘ نبوت وہبی چیز ہے جو اسے کسبی مانے وہ کافر ہے۔
نبوت وہبی چیز ہے
نمبر۱ … علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ اوموھوبۃ فاالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا باالنسک والریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء ۔۔۔۔۔۔ وقد افتی المالکیۃ وغیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ۰الیواقیت والجواہر ص ۱۶۴ ‘۱۶۵ ج ۱‘‘
{کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی ؟ تو اس کا جواب ہے۔ کہ نبوت کسبی نہیں ہے۔ کہ محنت وکاوش سے اس تک پہنچا جائے جیسا کہ بعض احمقوں (مثلا قادیانی فرقہ از مترجم) کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔}
نمبر۲ … قاضی عیاض ؒشفاء میں لکھتے ہیں: ’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبینا ﷺ اوبعدہ ۔۔۔۔۔۔ اومن ادعی النبوۃ لنفسہ اوجوزا کتسابھا۰ والبلوغ بصفاء القلب الیٰ مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ ۔۔۔۔۔۔ فھؤ لاء کلھم کفار مکذبون للنبی ﷺ لانہ اخبر ﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ۰ شفاء للقاضی عیاض ؒ ص ۲۴۶‘۲۴۷ج۲‘‘
{ہمارے نبی ﷺ کی موجودگی یا آپ ﷺ کے بعد جو کوئی کسی اور کی نبوت کا قائل ہو یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بنا پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کا قائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبی ﷺ کے دعویٰ ۔۔۔۔
’’ انا خاتم النبیین ‘‘
۔۔۔۔ کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔}
ان دونوں روشن حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبوت کے کسبی ہونے کا عقیدہ رکھنا اپنے اندر تکذیب خدا اور رسول کا عنصر رکھتا ہے۔ اور ایسا عقیدہ کا رکھنے والا مالکیہ ودیگر علماء کے نزدیک قابل گردن زدنی اور کافر ہے۔
مرزا قادیانی خود اقراری ہے کہ نبوت وہبی چیز ہے کسبی نہیں :
نمبر۱ … اس نے لکھا :’’اس میں شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی چیز ہے۔ کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ ص ۱۳۵ خزائن ص ۳۰۱ ج ۷)
نمبر۲ … صراط الذین انعمت علیھم :اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پرملا۔ یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر۔(چشمہ مسیحی ص ۴۲ خزائن ص ۳۶۵ ج ۲۰)
’’وہبی چیز میں بھی انسان کا دخل ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
’’ یھب لمن یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور۰ شوریٰ۴۹‘‘
{بخشتا ہے جس کو چاہے بیٹیاں اور بخشتا ہے جس کو چاہے بیٹے۔}
اس میں اگر مرد عورت اکٹھے نہ ہوں تو کچھ نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ وہبی چیز میں بھی کسب کو دخل ہے۔
الجواب :
ہاں ٹھیک ہے کہ انسان کا اس عمل میں دخل ہے مگر لڑکا یا لڑکی عطا کرنے میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہے۔ چنانچہ بسا اوقات اس اختلاط سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ پڑھئے:
’’ ویجعل من یشاء عقیما۰‘‘
جواب۷ :اگر نبوت ملنے کے لئے اطاعت وتابعداری شرط ہے تو غلام احمد قادیانی پھر بھی نبی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے نبی کریم ﷺ کی کامل تابعداری نہیں کی جیسے (۱)… مرزا نے حج نہیں کیا۔ (۲)… مرزا نے ہجرت نہیں کی۔ (۳)… مرزا نے جہاد باالسیف نہیں کیا بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔(۴)… مرزا نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔ (۵)… ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا مگر غلام احمد نے کسی زانیہ یا زانی کو سنگسار نہیں کرایا۔(۶) ہندوستان میں چوریاں ہوا کرتی تھیں مگر مرزا جی نے کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔
جواب۸ : مرزا نے لکھا کہ : ’’تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو:
’’ اھدنا الصراط المستقیم‘‘
۔۔۔۔۔یعنی اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں نبی اور صدیق اور شہداء اور صلحائ۔ اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پائواس کے سایہ صحبت میں آجائو۔‘‘ (آئینہ کمالات ص ۶۱۲ رسالہ ملحقہ قیامت کی نشانی ص ۷ خزائن ص ۶۱۲ ج ۵)
نیز مرزا قادیانی خود تحریر کرتا ہے: ’’ الا تریٰ الی قول رسول اﷲ ﷺ اذقال ان فی الجنۃ مکان لاینالہ الا رجل واحد وار جوان اکون انا ھو فبکی رجل من سماع ھذا لکلام وقال یا رسول اﷲ ﷺ لا اصبر علی فراقک ولا استطیع ان تکون فی مکان وانا فی مکان بعید عنک محجوبا عن رویۃ وجھک وقال لہ رسول اﷲ ﷺ انت تکون معی فی مکانی ۰ حمامۃ البشریٰ ص ۹۴ طبع لاہور ‘ خزائن ص ۲۹۴ ج ۷‘‘
اب صراحت مرزا کے کلام سے ثابت ہوا کہ معیت سے مراد معیت فی الجنت ہے اور معیت فی المرتبہ مراد نہیں تاکہ اجرائے نبوت کا سوال پیدا ہو۔
جواب۹ : یہ کہ مرزا قادیانی نے اہل مکہ کے لئے دعا کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم کو انبیاء ورسل وصدیقین اور شہداء اور صالحین کی معیت نصیب کرے۔ جیسے حمامۃ البشریٰ ص ۹۶ خزائن ص ۳۲۵ ج ۷ میں لکھا ہے :’’ نسئلہ ان یدخلکم فی ملکوتہ مع الانبیاء والرسل والصدیقین والشہداء والصالحین ۰‘‘تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرزا دعا مانگ رہا ہے کہ اہل مکہ تمام کے تمام انبیاء اور رسول بن جاویں اگر یہی مراد سمجھی جاوے تو مرزا نے گویا اہل مکہ کے لئے نبوت حاصل کرنے کی دعاکی ہے ۔اور یقینا اس کی دعا منظور ہوئی ہوگی۔ کیونکہ مرزا کو خدا نے الہام میں وعدہ کیا ہوا ہے کہ :’’اجیب کل دعائک الا فی شرکائک ‘‘ تیری ہر دعا قبول کروں گا۔ (تذکرہ ص ۲۶ طبع سوم )
تو پھر یقینا مکہ والے لوگ نبی ہوگئے ہوں گے؟۔
ضر وری نوٹ :
کیونکہ گذشتہ حوالہ سے ثابت ہوا کہ مرزائیوں کے خیال میںمکہ کے سب علماء نبی بن چکے ہیں اور علماء مکہ نے مرزا پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ لہذا بااعتراف طائفہ قادیانیہ مرزا قادیانی پر مکہ مکرمہ کے سب انبیاء کا فتویٰ کفر لگے گا تو وہ پرلے درجے کا کافر ہوگا۔ کیونکہ یہ فتویٰ انبیاء کا فتویٰ ہوگا کسی عام آدمی یا مولوی کا فتویٰ نہیں ہے۔ دیکھیں اس فتویٰ کی امت مرزائیہ تعمیل کرتی ہے یا نہیں۔
عسل مصفی ص ۲۷۰ ج ۱ میں خدا بخش قادیانی نے کتاب ماثبت بالسنۃ ص ۴۶ شیخ عبدالحق دہلوی سے یہ عبارت نقل کی ہے : ’’ ماوقع فی مرضہ انہ ﷺ خیر عندموتہ یقول فی آخرمر ضہ مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین۔۔۔۔۔۔ الخ۰‘‘
{جب حضور ﷺ مریض ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو موت کے وقت حیات دنیا وآخرت میں اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے آخری مرض میں یہ آیت پڑھی۔}
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کو کامل نبوت کے حاصل ہونے کے بعد بھی اپنی مرض موت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اختیار دے گیا تھا کہ دنیا کے ساتھیوں کی رفاقت پسند کرتے ہیں یا جنت والے ساتھیوں کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر دو مقام سے رفاقت مکانی مقصود ہے نہ کہ رفاقت مرتبی۔کیونکہ یہ تو آپ ﷺ کو پہلے ہی سے حاصل تھی۔
جواب۱۰ :نیز مع کا معنی ساتھ کے ہیں۔ جیسے :
’’ ان اﷲ معنا ۰ ان اﷲ مع المتقین۰‘‘ ’’ ان اﷲ مع الذین اتقوا۰‘‘ ’’ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰‘‘ ’’ ان اﷲ مع الصابرین۰‘‘
نیز اگر نبی کی معیت سے نبی ہوسکتا تو خدا کی معیت سے خدا بھی ہوسکتا ہے؟۔(العیاذباﷲ)
جواب۱۱ :یہ دلیل قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس لئے مرزائی اپنے استدلال کی تائید میں کسی مفسر یا مجدد کا قول پیش کریں۔ بغیر اس تائید کے ان کا استدلال مردو اور من گھڑت ہے۔ اس لئے کہ مرزا نے لکھا ہے :
’’ جو شخص ان (مجددین) کا منکر ہے وہ فاسقوں میں سے ہے۔‘‘ (شہادت القرآن ص ۴۸ خزائن ص ۳۴۴ ج ۶)
جواب۱۲ : اگر مرزائیوں کے بقول اطاعت سے نبوت وغیرہ درجات حاصل ہوتے ہیں تو ہمارا یہ سوال ہوگا کہ یہ درجے حقیقی ہیں یا ظلی وبروزی ؟۔ اگر نبوت کا ظلی بروزی درجہ حاصل ہوتا ہے جیسا کہ مرزائیوں کا عقیدہ ہے تو صدیق ‘ شہید اور صالح بھی ظلی وبروزی ہونے چاہیئں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی ظلی وبروزی ہونے کا قائل نہیں۔ اور اگر صدیق وغیرہ میں حقیقی درجہ ہے تو پھر نبوت بھی حقیقی ہی ماننا چاہئیے۔ حالانکہ تشریعی اور مستقل نبوت کا ملنا خود مرزائیوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے یہ دلیل مرزائیوں کے دعویٰ کے مطابق نہ ہوگی۔
جواب۱۳ :اس آیت سے چار آیات پہلے انبیاء ورسل کے متعلق فرمایا ہے :
’’ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ ۰ النساء ۳۴‘‘
یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ وہ کسی دوسرے رسول کا مطیع اور تابع ہواور آیت
’’ ومن یطع اﷲ والرسول‘‘
میں مطیعون کا ذکر ہے۔ اور مطیع کسی بھی صورت میں نبی اور رسول نہیں ہوتا۔خلاصہ یہ کہ نبی ورسول مطاع ہوتا ہے مطیع نہیں (فافہم)
جواب۱۴ : مرزائی ایک طرف تو دلیل بالا سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اطاعت رسول کے ذریعہ سے آدمی درجہ نبوت تک پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف خود ان کے ’’ حضرت صاحب‘‘ نے اس بات کا اقرار واعتراف کیا ہے کہ اطاعت کرنے حتیٰ کہ فنافی الرسول ہوجانے سے بھی نبوت نہیں مل سکتی۔ بس زیادہ سے زیادہ محدثیت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس اعتراف کے ثبوت میں چند حوالے پیش ہیں:
حوالہ نمبر ۱: ’’ جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے (جو اس سے قبل ذکر کی گئی ) تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء لوراء ہوجاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے۔ جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے۔ اور انبیاء ورسل کا نائب اور وارث ہوجاتا ہے۔ وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے ۔ وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اورو ہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے ۔ اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے۔ اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے۔ حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے ان کے نام مختلف رکھے جاتے ہیں۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبارکہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ محدث ‘ نبی بالقوۃ ہوتا ہے اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہونے کی رکھتا ہے۔ اور اس قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں:
’’ العنب خمر نظرا علی القوۃ والا ستعداد ومثل ھذا المحمل شائع متعارف۰‘‘
(ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ بماہ اپریل ۱۹۰۴ء بعنوان اسلام کی برکات)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ ظلی نبوت بھی درحقیقت محدثیت ہی ہے۔ اور کامل اتباع سے جو ظلی نبی بنتا ہے وہ دراصل محدث ہوتا ہے۔ اور یہاں جو محدث پر حمل نبی کا کیا گیا ہے وہ محض استعدادکی بنا پر ہے۔ یعنی اگر دروازہ نبوت بند نہ ہوتا تو وہ نبی بن جاتا۔ جیسا کہ عنب پر خمر کا اطلاق قوت واستعداد کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو خمر کا حکم ہے وہ عنب کا بھی حکم ہو۔بلکہ دونوں کے احکام اپنی جگہ الگ الگ ہیں۔ اسی طرح اگر محدث پر نبی کا اطلاق بلحاظ استعداد کیا جائے گا تو دونوں کے احکام الگ الگ ہوں گے۔ نبی کا انکار کفر ہوگا اور محدث کی نبوت کا انکار کفر نہ ہوگا۔ حالانکہ مرزائی اپنے حضرت صاحب (ظلی نبی) کے منکرین کو پکا کافر گردانتے ہیں۔ یہ تو عجیب تضاد ہوا مرزا غلام احمد کچھ کہے ۔ مرزائی کچھ کہیں اور آج کل کے جاہل کچھ کہیں۔ اسی سے اس لچر عقیدہ کے بطلان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حوالہ نمبر۲:’’ حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے ظلی طورپر گویا آنجناب ﷺ کاوجود ہی تھا۔‘‘(ایام الصلح ص ۳۹ خزائن ص ۲۶۵ ج ۱۴)
مرزا کو خود تسلیم ہے کہ حضرت عمر ؓ آنحضرت ﷺ کے ظلی وجود تھے۔ پھر بھی وہ نبی نہ ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ اتباع نبی سے زیادہ سے زیادہ ظلی وجود تو مرزا کے نزدیک ہوسکتا ہے مگر نبوت نہیں مل سکتی۔ ورنہ قادیانی لوگ حضرت عمر ؓ کو بھی ظلی نبی تسلیم کریں:
’’ لوکان بعدی نبیا لکان عمرؓ‘‘
کی حدیث نے عمر ؓ کی نبی نہ ہونے کی صراحت کردی ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : ’’قال علیؓ الا وانی لست نبی ولا یوحی الی۰ ازالۃ الخفاء ص۱۳۳‘‘
{حضرت علی ؓفرماتے ہیں۔ خبردار ! نہ میں نبی ہوں اور نہ میری طرف وحی آتی ہے۔}
حوالہ نمبر۳: صد ہا لوگ ایسے گزرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداﷲ ظلی طور پران کا نام محمد یا احمد تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام خزائن ص ۳۴۶ج ۵)
اس عبارت سے بھی پتہ چلا کہ اگرچہ صد ہا لوگ ایسے گزرچکے ہیں جن کا نام ظلی طور پر احمد یا محمد تھا۔ مگر پھر بھی ان میں سے نہ کوئی نبی بنا‘ اور نہ کسی نے دعویٰ نبوت کیا‘ نہ اپنی الگ جماعت بنائی‘ اور نہ اپنے منکرین کو کافر اور خارج از اسلام قراردیا۔ تو عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے بڑے متبعین خدا اور رسول تو اس نعمت سے محروم ہی دنیا سے رخصت ہوگئے اور مرزا قادیانی ظلی نبی کے ساتھ ساتھ حقیقی نبی بھی بن گیا۔
مرزائی عذر
’’ من یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘
مع ‘ من کے معنی میں ہے۔اور مطلب یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم انبیاء وغیرہ میں سے ہوگا۔ نہ کہ محض ان کے ساتھ ہوگا اور اس کی مثال قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ دیکھئے فرمایا گیا :
’’ وتوفنا مع الابرار۰ ای من الابرار‘‘
یعنی نیکوں میں سے بناکر ہمیں وفات دیجئے۔مرزائی عذر بوجوہ ذیل باطل ہے
الجواب
(الف)… پورے عرب میں کہیں بھی مع ‘ من کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ اگر یہ من کے معنی میں آتا تومع پر من کا دخول ممتنع ہوتا ۔ حالانکہ عربی محاروں میں من کا مع پر داخل ہونا ثابت ہے۔ لغت کی مشہور کتاب المصباح المنیر میں لکھا ہے :’’ ودخول من نحوجئت من معہ۰ مع القوم ‘‘لہذا معلوم ہوا کہ من کبھی مع کے معنی میں نہیں ہوسکتا ۔ ورنہ ایک ہی لفظ کا تکرار لازم آئے گا۔
(ب)… جب کوئی لفظ مشترک ہو اور دو معنی میں مستعل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ کون سے معنی حقیقت ہیں اور کون سے مجاز ۔ جب تک حقیقت پر عمل ممکن ہو مجاز اختیار کرنا درست نہیں ہوتا۔ یہاں پر بہرحال مع رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے۔ اور اس پر عمل کرنا یہاں ممکن بھی ہے۔ کیونکہ اگلے جملہ وحسن اولئک رفیقا سے صاف طور پر رفاقت کے معنی کی تائید ہورہی ہے۔ لہذا مع کو من کے مجازی معنی میں لے جانا ہرگز جائز نہ ہوگا۔
(ج)… اگر مع کا معنی من لیا جائے تو حسب ذیل آیت کے معنی کیا ہوں گے۔
(۱)……
’’ ان اﷲ مع الصابرین‘‘
کیا خدا اور فرشتے ایک ہوگئے۔ (۲)……
’’ لاتحزن ان اﷲ معنا‘‘
کیا حضور ﷺ حضرت ابوبکر ؓ اور خدا ایک ہوگئے۔ (۳)……
’’ ان اﷲ مع الصابرین‘‘
(۴)……
’’ محمد رسول اﷲ والذین معہ‘‘
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نعوذ باﷲ‘ اﷲ تعالیٰ صابروں کے جز ہیں یا یہ کہ حضرات صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ میں سے ہیں۔ دیکھئے کس طرح قادیانی تنکوں کا پل بناتے ہیںاور پھر اس پر زندہ ہاتھی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(د)… اگر باالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مع بھی کبھی من کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا ہوتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ آیت مبحوث عنہا میں بھی مع ‘من کے معنی میں ہے۔ کیا کسی مفسر یا مجدد نے یہاں پر مع کے بجائے من کے معنی مراد لیے ہیں؟۔
(ہ)… مع کے من کے معنی میں ہونے پر مرزائی جو آیات قرآنیہ تلبیس ومغالطہ کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی مع من کے معنی میں نہیں ہے۔ ہمارے اور مرزائیوں کے معتبر مفسر امام رازی (جو مرزائیوں کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں( عسل مصفی ص ۱۶۴ ج ۱) نے آیت وتوفنا مع الابرار کی تفسیر فرماتے ہوئے مرزائیوں کے سارے کھروندے کو زمین بوس کردیا ہے۔ اور ان کی رکیک تاویل کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ وفاتھم معھم ھی ان یموتوا علیٰ مثل اعمالھم حتی یکونوا فی درجاتھم یوم القیامۃ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذہ المسئلۃ ویریدبہ کونہ مساویالہ فی ذلک الا عتقاد۰ تفسیر کبیر ص ۱۸۱ ج ۳‘‘
{ان کا ان (ابرار) کے ساتھ وفات پانا اس طرح ہوگا کہ وہ ان نیکوں جیسے اعمال کرتے ہوئے انتقال کریں تاکہ قیامت کے دن ان کا درجہ پالیں جیسے کبھی کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں اس مسئلہ میں شافعی کے ساتھ ہوںاور مطلب یہ ہوتا کہ اس کا اعتقاد رکھنے میں وہ اور امام شافعی ؒ برابر ہیں۔ (نہ یہ کہ وہ درجہ میں امام شافعی ؒ تک پہنچ گیا۔)}
مرزائی عذر
مرزائیوں نے اپنے باطل استدلال کی تائید کے لئے جھوٹ کا پلندہ تیار کیا ہے اور مشہور امام لغت راغب اصفہانی ؒ کے کندھے پر بندوق چلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امام راغب کی ایک عبارت سے ان کے بیان کردہ معنی کی واضح تائید ہوتی ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
’’ قال الراغب : ممن انعم علیھم من الفرق الا ربع فی المنزلۃ والثواب النبی باالنبی والصدیق باالصدیق والشہید باالشہید والصالح باالصالح واجاز الراغب ان یتعلق’’من النبی ‘‘ بقولہ ومن یطع اﷲ والرسول ای من النبیین ومن بعدھم ۰ منقول از البحرالمحیط للعلامۃ اندلسی ص ۲۸۷ ج ۳ بیروت‘‘
{امام راغب ؒ نے ان چاروں قسم کے ۔۔۔۔۔ لوگوں کے بارے میں کہا جن پر انعام کیا گیا ہے درجہ میں اور ثواب میں کہ نبی ‘ نبی کے ساتھ صدیق ‘ صدیق کے ساتھ اور شہید ‘ شہید کے ساتھ اور صالح ‘ صالح کے ساتھ اورامام راغب ؒ نے اس بات کو درست قرار دیا ہے کہ ’’ من النبیین ‘‘ کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ’’ومن یطع اﷲ والرسول‘‘ سے ہو یعنی جو بھی اﷲ اور رسول اﷲ کی اطاعت کرے نبیوں میں سے یا ان کے بعد کے درجہ والوں میں سے۔}
اس تحقیق سے معلوم ہوا من النبیین انعم اﷲ علیھم سے نہیں بلکہ ومن یطع اﷲ ۔۔۔۔ الخ سے متعلق ہے۔ لہذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نبیوں وغیرہ میں سے جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم کے ساتھ ہوگا۔اور یہاں یطع مضارع کا صیغہ ہے جو حال ومستقبل دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ لہذا ضروری ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہئیں جو رسولوں کی اطاعت کرنے والے ہوں اگر نبوت کا دروازہ بند ہو تو اس آیت کے مطابق وہ کون سا نبی ہوگا جو رسول اﷲ کی اطاعت کرے گا؟۔
ڈھول کا پول
مرزائیوں نے مذکورہ عبارت پیش کرکے انتہائی دجل وفریب کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ حوالہ علامہ اندلسی کی تفسیر البحرالمحیط سے ماخوذ ہے۔مگر انہوں نے اس قول کو نقل کرکے اپنی رائے اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’ وھذ الوجہ الذی ھو عندہ ظاھر فاسد من جھۃ المعنی ومن جھۃ النحو ۰ تفسیر البحر المحیط ص ۲۸۷ج۳ بیروت‘‘
معنی اور نحو کے لحاظ سے یہ بات فاسد ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ یہ قول بالکل مردود اور ساقط الا ستدلال ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں اس طرح کی عبارت نہیں ملتی۔ ان کی طرف یہ قول منسوب کرنا صحیح نہیں ہے۔ ان کی طرف قول بالا کی غلط نسبت ہونے پر ہمارے پاس دو قرینے موجود ہیں۔ دیکھئے:
پہلا قرینہ
امام راغب اصفہانی ؒ نے صدیقین کی تفسیر میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ جس کا نام الذریعۃ الیٰ مکارم الشریعۃ ہے۔ آیت :
’’ ومن یطع اﷲ والرسول ۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘
کاتعلق بھی اسی مضمون سے ہے اگر بالفرض امام راغب ؒ کا وہ مسلک ہوتا جو بحر محیط میں نقل کیا ہے تو اس کتاب میں ضرور تحریر کرتے۔ لیکن اس پوری کتاب میں کہیں اشارۃ وکنایۃ بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔
دوسراقرینہ
اگر اس طرح کی کوئی عبارت امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں ہوتی تو مرزائی مناظر ین امام راغبؒ کی اسی کتاب سے حوالہ دیتے اور وہیں سے نقل کرتے کہ دلیل پختہ ہوتی لیکن وہ لوگ تو بحر محیط کی ایک عبارت لے کر لکیر پیٹے رہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا اصل ماخذ کہیں ہے ہی نہیں۔
جواب۱۵ :اگر درجے ملنے کا ذکر ہے تو بترتیب حاصل ہونے چاہئیں پہلے نبی پھر صدیق پھر شہید پھر صالح۔
مرزائی عذر
مع بمعنیمن ہے ابلیس کے متعلق ایک جگہ فرمایا :
’’ ان یکون مع الساجدین۰الحج
‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ’’
لم یکن من الساجدین۰ اعراف
‘‘
جواب :ابلیس نے تین گناہ کئے تھے۔ (۱)… تکبر کیا تھا۔ اس کا ذکر سورۃ ص کے آخری رکوع میں ہے:’’ کنت من العالمین۰‘‘ (۲)… سجدہ نہ کرکے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اس کا بیان سورۃ اعراف کے دوسرے رکوع میں ہے:’’ لم یکن من الساجدین۰‘‘(۳)… اس نے جماعت ملائکہ سے مفارقت کی تھی۔ اس کا بیان سورۃ حجر کے تیسرے رکوع میں ہے:’’ ان یکون مع الساجدین۰‘‘
پس مع ہر گز من کے معنوں میں نہیں بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور جدا گانہ ہیں۔
مرزائی عذر ’’ الا الذین تابوا واصلحوا واعتصموا بااﷲ واخلصوا دینھم ﷲ فااولئک مع المومنین وسوف یوت اﷲ المومنین اجرا عظیما۰ نساء ۱۴۶‘‘
کیا توبہ کرنے والے مومن نہیں ‘مومنوں کے ساتھ ہوں گے۔ کیا ان کو اجر عظیم عطا نہ ہوگا؟۔
جواب :حقیقت یہ ہے کہ مومنین پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مرادوہ لوگ ہیں جوشروع سے خالص مومن ہیں ان سے کبھی نفاق سرزد نہیں ہوا۔ ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میںہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کرکے مخلص مومن بن گئے۔ پس ثابت ہوا کہ مع اپنے اصل معنی مصاحبت کے لئے آیا ہے نہ بمعنی من ۔
قادیانی :
’’ یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا۰ مومنون ۵۱‘‘
یہ آیت آپ ﷺ پر نازل ہوئی ۔ حضور ﷺ واحد ہیں مگر رسل جمع کا صیغہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد آنے والے رسول مراد ہیں۔ جن کو یہ حکم ہے کہ میرے رسولو ! پاک چیزیں کھائو اور نیک عمل کرو۔ ورنہ کیا خدا تعالیٰ وفات شدہ رسولوں کو حکم دے رہا ہے؟ کہ اٹھو پاک کھانے کھائو اور نیک کام کرو۔ (احمدیہ پاکٹ ص ۴۶۷)
تبلیغی پاکٹ کے مصنف سے زیادہ ایک مرزائی سردار عبدالرحمن مہر سنگھ نے کمال کیا ہے۔ اس نے بھلوال ضلع سرگودھا سے ایک اشتہار نکالا ہے۔ جس کے جواب کے لئے بیس ہزار انعامی چیلنج کا اعلان ہے۔ اشتہار کا عنوان ہے :’’ پاک محمد نبیوں کا بادشاہ‘‘ اس میں اجرائے نبوت کے دلائل دیتے ہوئے مندرجہ بالا آیت بھی پیش کی ہے۔ جس کی تمہید اس نے اس طرح ذکر کی ہے کہ:
’’ آنحضرت ﷺ سے بیشتر کے انبیاء کی طرز زندگی خوراک ‘ پوشاک وغیرہ سادہ ہوا کرتی تھی۔ اکثر نبی جو اور کھجور پر گزارہ کیا کرتے تھے۔ مگر زمانہ مستقبل میں آنے والے رسولوں کوفرمایا:
’’ یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات۰‘‘
اے آنے والے رسولو! تمہارے زمانہ میں بے شمار پیسٹری اور مٹھائیاں اور نفیس اکل وشرب کی چیزیں طیار ہوں گی۔ پر تم ان میں سے پاک اور ستھری چیزیں کھایا کرنا جو کچھ تم کرو گے میںخوب جانتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ زمانہ مستقبل میں گونا گوں مٹھائیاں اور ٹوسٹ تیار ہوں گے۔ یہ حکم حضور کو حضرت آدم ‘ نوح ابراھیم ‘ یوسف ‘ ادریس علیہم السلام کے لئے نہیں دیا گیا تھا کہ قبروں سے اٹھو اور نہا دھوکر پاک اور طیب چیزیں کھایا کرو ۔ کیونکہ وہ ہزاروں سال سے بہشت میں مزے کررہے ہیں۔ پس یہ حکم آنے والے امتی نبیوں کے متعلق آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا۔‘‘(اشتہار مذکورہ ص ۲)
جواب ۱:سورۃ مومنون کے دوسرے رکوع سے اس آیت کریمہ تک انبیاء سابقین کا ذکر ہے۔ سب سے آخر میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: ’’ وجعلنا ابن مریم وامہ واٰوینھما الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین۰ مومنون ۵۰‘‘
اس سے اگلی آیت نمبر ۵۱ میں فرمایا :
’’ یا ایھا الرسل کلوامن الطیبات واعملو ا صالحا۰ مومنون ۵۱‘‘
{ہم نے مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بڑی نشانی بنایا۔ اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جاکر پناہ دی جو بوجہ غلات میوہ جات ہونے کے ٹھہرنے کے قابل اور شاداب تھی۔ اے میرے پیغمبرو ! تم اور تمہاری امتیں نفیس چیزیں کھائو اور نیک کام کرو۔ اور میں تم سب کے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں۔}
اگلی آیت نمبر ۵۲ میں فرمایا :
’’ وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاتقون۰ مومنون ۵۲‘‘
{اور ہم نے ان سب سے یہی کہا کہ یہ ہے تمہارا طریقہ وہ ایک ہی طریقہ ہے۔(اور حاصل اس طریقہ کا یہ ہے )میں تمہارا رب ہوں۔ سو تم مجھ سے ڈرتے رہو۔}
ان آیات میں حکایت ماضیہ کے ضمن میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ پاک چیزیں ‘ نفیس اشیاء کا استعمال کرو
: ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ‘‘
یعنی اصول دین کا طریق کسی شریعت میں مختلف نہیں ہوا۔ گو یاانبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی امتوں کے لئے نمونہ بننے کے لئے رزق حلال وطیب اور اپنا کردار صالح اپنانے کا ارشاد ہورہا ہے۔ تو اصل حکم امتوں کو دینا مقصود ہے۔ قرینہ آیت نمبر ۵۴ ہے۔ جس میں فرقہ بازی کے ارتکاب پر تنبیہ کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ تفرقہ کا شکار امت ہوتی ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام : ’’فافہم وکن من الشاکرین‘‘
جواب۲ :
’’ عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ ان اﷲ طیب لایقبل الا طیبا وان اﷲ امرالمؤمنین بما امربہ المرسلین ۰ فقال یا ایھا الرسل کلوامن الطیبات واعملوا صالحا وقال اﷲ تعالیٰ یا ایھا الذین آمنوا کلوامن الطیبات مارزقناکم ۰ مسلم شریف کتاب البیوع باب الکسب وطلب الحلال‘ مسند احمد ص ۳۲۸ ج ۲‘ ابن کثیر ص ۲۴۷ ج ۳‘‘
{حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ پاک ہے۔ اور سوائے پاکیزگی کے کچھ قبول نہیں کرتا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ مومنین کو وہی حکم دیاہے ۔ جو اس نے انبیاء کرام کو دیا تھا ۔ کہ اے رسولو! کھائو پاک چیزیں اور عمل صالح کرو۔ اور ایسا ہی مسلمانوں کو فرمایا اﷲ تعالیٰ نے کہ اے ایمان والو! کھائو پاک رزق سے جومیں نے تمہیںعطا کیا ہے۔}
اب نفس آیت کے مفہوم کو سمجھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مریم اور ان کے صاحبزادے کو ایک اونچے محفوظ مقام ‘ شاداب جگہ پر جگہ دی ۔ اس واقعہ کے بیان کے بعد اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (حضرت مسیح ہوں یااور رسول ) ہم نے ان سب کوحکم دیا تھا کہ پاک چیزیں کھائو۔ اور اچھے عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اس کو جانتا ہوں۔ یہ سب لوگ امت واحدہ تھے۔ اورمیں تم سب کارب ہوں اور مجھ سے ڈرو۔ مگر اس تاکید کے باوجود انبیاء کے متبعین نے دین الٰہی میں پھوٹ ڈال دی اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور ہر فرقہ اپنی جگہ خوش خرم کہ ہم حق پر ہیں:
’’ فتقطعوا امرھم بینھم زبرا کل حزب بمالدیہم فرحون۰ مومنون ۵۳‘‘
آگے آپ ﷺ کو حکم ہے کہ :
’’ فذرھم فی غمرتھم۰ مومنون ۵۴‘‘
ان کو اس مدہوشی میں چھوڑدیں وقت معین تک۔ یعنی موت تک یا قیامت تک کہ بالآ خر میرے پاس آئیں گے ۔ اپنے کئے کی پائیں گے۔ (معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک نبوت نہیں) اس لئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ انا والساعۃ کھاتین‘‘
غرض یہ کہ آیات اپنے مطلب کو صاف صاف ظاہر کررہی ہیں۔ کہ یہ امر ہر ایک رسول کو اپنے اپنے وقت پر ہوتا رہا ہے ۔ فتقطعوا کی آیت نے تو بالکل بات واضح کردی کہ ان امتوں کا ذکر ہے جن پہلی امتوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔گذشتہ واقعہ کی خبر وحکایت بیان کی گئی ہے نہ کہ آنے والے رسولوں کا ذکر ہے؟۔
جواب۳ : مرزا صاحب آنحضرت ﷺ کے بعد صرف ایک ہی رسول یعنی اپنے آپ کوہی صحیح مانتے ہیں۔ اسی طرح مرزا محمود اور بشیر احمد بھی آپ ﷺ کے بعد صرف ایک ہی نبی یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے قائل ہیں۔ تو پھر ایک کے لئے :’’ یا ایھا الرسل ‘‘ جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا؟علاوہ ازیں اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں آنحضرت ﷺ اور بعد والا مرزا بھی معاذاﷲ مراد ہے تو پھر بھی تشنیہ کا صیغہ چاہئیے تھا نہ کہ جمع کا۔ الغرض کسی بھی احتمال پر قادیانی مفہوم صحیح ثابت نہیں ہوسکتا۔
نوٹ:حضرت ابویسار سلمی کی روایت:
’’ یا بنی آدم‘‘
کی بحث میں گذر چکی ہے۔وہ اس مسئلہ پر ضرور دیکھ لی جائے۔
اعتراض نمبر۱۲:
ان لن یبعث اﷲ
قادیانی:
’’ وانھم ظنوا کما ظنتم ان لن یبعث اﷲ احدا۰ جن ۷‘‘
پہلے بھی کہتے تھے کہ اﷲ کسی کو مبعوث نہ کرے گا۔ اب بھی کہتے ہیں یہ پرانی بات ہے نئی بات نہیں۔
جواب۱:اس میں بعثت انبیاء کا ذکر نہیں بلکہ کفار کے بقول قیامت کے دن دوبارہ پیدا ہونے کا انکار ہے۔ کہ اﷲ تعالیٰ کسی کو کھڑا نہ کرے گا۔ اس آیت کی وضاحت دوسری جگہ موجود ہے:
’’ زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا۰ قل بلیٰ وربی لتبعثن ۰تغابن ۷‘‘
تو ان کا انکار بعث بعدالموت سے ہے۔
جواب۲ :قادیانی تحریف بھی فرض محال تسلیم کرلی جائے تو بھی ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ قول کفار ہے یہ کافر جنوں کا ظن تھا۔ جو غلط ہے۔ یہ خدائی فیصلہ نہیں۔ خدائی فیصلہ اب ختم نبوت کا ہے۔ کافر جنات کے قول غلط سے استدلال کرکے قادیانی کافر کی جھوٹی اور غلط نبوت کو ثابت کرنا ۔ خدا تعالیٰ مرزائیوں کو مبارک کرے۔
جواب۳ : جس وقت ان لوگوں نے کہا کہ اب کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ اس وقت نبوت جاری تھی۔ اب نبوت ختم ہے۔ جب جاری تھی تو اس کو بند کہنے والے کافر تھے۔ اب جب بند ہے تو اس کو جاری کہنے والے کافر ہوں گے۔
اعتراض نمبر۱۳:
وآخرین منھم لما یلحقوابھم
قادیانی:’’ طائفہ قادیانیہ چونکہ ختم نبوت کا منکر ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تحریف کرتے ہوئے آیت :
’’ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین وآخرین منھم لما یلحقوا بھم ۰ جمعہ ۲‘۳‘‘
کو بھی ختم نبوت کی نفی کے لئے پیش کردیا کرتے ہیں۔ طریق استدلال یہ بیان کرتے ہیں کہ جیسے امیین میں ایک رسول عربی ﷺ مبعوث ہوئے تھے اس طرح بعدکے لوگوں میں بھی ایک نبی قادیان میں پیدا ہوگا۔(معاذاﷲ)
جواب۱:مرزا قادیانی تحریر کرتا ہے :’’خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آئتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ۔ ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوجاویں گے۔۔۔۔۔۔‘‘
گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے :
’’ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویعلم آخرین منھم۔۔۔۔۔۔‘‘
یعنی ہمارے خالص اور قابل بندے بجز صحابہ ؓ کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا۔ اور جیسی نبی کریم ﷺ نے صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی۔ ایسا ہی آنحضرت ﷺ اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔(آئینہ کمالات اسلام ص ۲۰۸ ‘ ۲۰۹ خزائن ص ۲۰۸‘۲۰۹ ج ۵)
ماحصل عبارت کا یہ ہے کہ بہ اقرار مرزا قایانی اس آیت سے یہ ثابت نہیںہوتا کہ آخرین منھم میں بھی کوئی نبی مبعوث ہوگا۔ بلکہ وہ آیت کا مطلب یہ بتاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جیسے پہلے لوگوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام اپنے ذمہ رکھا تھا ویسے ہی بعد کے لوگوں کی تعلیم وتربیت بھی آنحضرت ﷺ ہی فرمائیں گے۔ نہ یہ کہ کوئی اور نبی آئے گا جو قادیان سے پیدا ہوکر ان کا ذمہ دار ہو اور وہ ان کا نبی بنے گا۔
جواب۲: بیضاوی شریف میں ہے :
’’ وآخرین منھم عطف علی الامیین اوالمنصوب فی یعلمہم وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین فان دعوتہ وتعلیمہ یعم الجمیع‘‘
{آخرین کا عطف امیین یا یعلمہم کی ضمیر پر ہے۔اور اس لفظ کا زیادہ کرنے سے آنحضرت ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر کیا گیا۔ کہ آپ ﷺ کی تعلیم ودعوت صحابہ ؓاور ان کے بعد قیامت کی صبح تک کے لئے عام ہے۔}
خود آنحضرت ﷺ بھی فرماتے ہیں :
’’انا نبی من ادرک حیا ومن یولد بعدی‘‘
صرف موجودین کے لئے نہیں بلکہ ساری انسانیت اور ہمیشہ کے لئے ھادی ﷺ برحق ہوں۔
جواب۳:القرآن یفسر بعضہ بعضا کے تحت دیکھیں تو یہ آیت کریمہ دعائے خلیل کا جواب ہے۔سیدناابراھیم علیہ السلام نے بیت اﷲ کی تعمیر کی تکمیل پر دعا فرمائی تھی :
’’ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم آیتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکیھم۰بقرہ ۱۲۹‘‘
اب زیر بحث آیت :
’’ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین وآخرین منھم لما یلحقوابھم۰‘‘
میں اس دعا کی اجابت کا ذکر ہے۔ کہ دعائے خلیل کے نتیجہ میں وہ رسول معظم ان امییوںمیں مبعوث فرمایا لیکن صرف انہیں کے لئے نہیں بلکہ جمیع انسانیت کے لئے جو موجود ہیں ان کے لئے بھی جو ابھی موجود نہیں لیکن آئیں گے قیامت تک‘ سبھی کے لئے آپ ﷺ ہادی برحق ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘
یا آپ ﷺ کا فرمانا :
’’ انی ارسلت الی الخلق کافۃ‘‘
لہذا مرزا قادیانی دجال قایان اور اس کے چیلوں کا اس کو حضور ﷺ کی دو بعثتیں قرار دینا ۔ یا نئے رسول کے مبعوث ہونے کی دلیل بنانا سراسر دجالیت ہے۔ پس آیت کریمہ کی رو سے مبعوث واحد ہے اور مبعوث الیھم موجود وغائب سب کے لئے بعثت عامہ ہے۔
جواب۴: رسولا پر عطف کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو قید معطوف علیہ میں مقدم ہوتی ہے اس کی رعایت معطوف میں بھی ضروری ہے۔ چونکہ رسولا معطوف علیہ ہے فی الامیین مقدم ہے۔ اس لئے فی الامیین کی رعایت وآخرین منھم میں بھی کرنی پڑے گی۔ پھر اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ امیین میں اور رسول بھی آئیں گے۔ کیونکہ امیین سے مراد عرب ہیں۔ جیسا کہ صاحب بیضاوی نے لکھا ہے :
’’فی الامیین ای فی العرب لان اکثرھم لایکتبون ولا یقرون‘‘
اور لفظ منھم کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ جب کہ مرزا عرب نہیں تو مرزائیوں کے لئے سوائے دجل وکذب میں اضافہ کے استدلال باطل سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
جواب۵:قرآن مجید کی اس آیت میں بعث کا لفظ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر رسولا پر عطف کریں تو پھر بعث مضارع کے معنوں میں لینا پڑے گا۔ ایک ہی وقت میں ماضی اور مضارع دونوں کا ارادہ کرنا ممتنع ہے۔
جواب۶: اب آئیے دیکھئے کہ مفسرین حضرات جو قادیانی دجال سے قبل کے زمانہ کے ہیں ۔ وہ اس آیت کی تفسیر میں کیا ارشاد فرماتے ہیں: