• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

جلد 1

عقیدہ ختم نبوت اور قران مجید کا اسلوب بیان نمبر۱


نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ اما بعد!


قرآن مجید نے جہاں خدا تعالیٰ کی توحید اور قیامت کے عقیدہ کو ہمارے ایمان کی جزو لازم ٹھہرایا ۔ وہاں انبیاء ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت کا اقرار کرنا بھی ایک اہم جزو قرار دیا ہے۔ اور انبیاء کرام کی نبوتوں کو ماننا اور ان پرعقیدہ رکھنا ویسے ہی اہم اور لازمی ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی توحیدپر۔لیکن قرآن مجید کو اول سے آخر تک دیکھ لیجئے۔ جہاں کہیں ہم انسانوں سے نبوت کا اقرار کرایا گیا ہو اور جس جگہ کسی وحی کو ہمارے لئے ماننا لازمی قرار دیا گیا ہو۔ وہاں صرف پہلے انبیاء کی نبوت ووحی کا ہی ذکر ملتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو نبوت حاصل ہو اور پھر اس پر خدا کی وحی نازل ہو کہیں کسی جگہ پر اس کا ذکر تک نہیں ۔ نہ اشارۃً نہ کنایۃً‘ حالانکہ پہلے انبیاء کی نسبت آنحضرت ﷺ کے بعد کسی فرد بشر کو نبوت عطا کرنا مقصود ہوتا تو اس کا ذکرزیادہ لازمی تھا اور اس پر تنبیہ کرنا از حد ضروری تھا۔ کیونکہ پہلے انبیاء کرام اور ان کی وحی تو گزر چکی۔ امت مرحومہ کو تو سابقہ پڑنا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کی نبوتوں سے۔ مگر ان کا نام ونشان تک نہ ہوتا۔ بلکہ ختم نبوت کو قرآن مجید میں کھلے لفظوں میں بیان فرمانا صاف اور روشن دلیل ہے۔ اس بات کی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی شخصیت کو نبوت یا رسالت عطا نہ کی جائے گی۔ مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیے۔

  1. ’’ یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ھم یؤقنون۰(بقرہ ۴)‘‘ {ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہو تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔}
  2. ’’ یا اھل الکتاب ھل تنقمون منا الا ان آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل من قبلک۰(مائدہ ۵۹)‘‘ {اے کتاب والو! کیا ضدہے کہ تم کو ہم سے مگر یہی کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور جو نازل ہوا ہم پر اور جو نازل ہوچکا پہلے۔}
  3. ’’ لکن الراسخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک۰(نساء ۱۶۲) ‘‘{ لیکن جو پختہ ہیں علم میں ان میں اور ایمان والے ‘ سو مانتے ہیں اس کو جو نازل ہوا تجھ پر اور جو نازل ہوا تجھ سے پہلے۔}
  4. ’’ یا ایھا الذین آمنوا آمنوا باﷲ ورسولہ والکتاب الذی نزل علیٰ رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل ۰(نساء ۱۳۶) ‘‘{اے ایمان والو! یقین لائو اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے۔}
  5. ’’ الم ترالی الذین یزعمون انھم آمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک۰( نساء ۶۰) ‘‘{کیا تونے نہ دیکھا ان کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو اترا تیری طرف اور جو اترا تجھ سے پہلے۔}
  6. ’’ ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین(۰ زمر۶۵) ‘‘{ اور حکم ہوچکا ہے تجھ کو اور تجھ سے اگلوں کو کہ اگر تونے شریک مان لیا تو اکارت جائیں گے تیرے عمل اور تو ہوگا ٹوٹے میں پڑا۔}
  7. ’’ کذالک یوحی الیک والی الذین من قبلک اﷲ العزیز الحکیم۰( شوریٰ ۳ )‘‘ {اسی طرح وحی بھیجتا ہے تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف اﷲ زبر دست حکمتوں والا۔}
مندرجہ بالا تمام آیات خدا تعالیٰ نے ہمیں صرف ان کتابوں ‘ الہاموں اور وحیوں کی اطلاع دی ہے اور ہم سے صرف انہی انبیاء کو ماننے کا تقاضا کیا ہے جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور بعد میں کسی نبی کا ذکر نہیں فرمایا۔
 
آخری تدوین :

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
یہ چند آیات لکھی گئی ہیں۔ ورنہ قرآن پاک میں اس نوعیت کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ مندرجہ بالا آیات میں ’’ من قبل یا من قبلک۰ ‘‘کا صریح طور پر ذکر تھا۔

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان نمبر۲​


اب چند وہ آیات بھی ملاحظہ فرمائیے جن میں خدا تعالیٰ نے ماضی کے صیغہ میں انبیاء کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کا منصب جن لوگوں کو حاصل ہونا تھا وہ ماضی میں حاصل ہوچکا ہے اور انہی کا ماننا داخل ایمان ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کو نبوت بخشی جائے اور اس کا ماننا ایمان کی جزولازمی قرار دی گئی ہو۔
(۱)… ’’ قولوا آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم ۰ بقرہ ۱۳۶ ‘‘ { تم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور جو اتراہم پر اور جو اترا ابراھیم پر۔}
(۲)… ’’ قل آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم ۰ آل عمران ۸۴‘‘ { تو کہہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور جو کچھ اترا ہم پر اور جو کچھ اترا ابراھیم پر۔}
(۳)… ’’ انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبین من بعدہ و او حینا الی ابراھیم واسماعیل ۰ نساء ۱۶۳‘‘ { ہم نے وحی بھیجی تیری طرف جیسے وحیبھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوئے۔ اور وحیبھیجی ابراھیم پر اور اسماعیل پر۔}
ان تینوں آیتوں میں اور ان جیسی اور آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں گذشتہ انبیاء اور ماضی کی وحی کو منوانے کا اہتمام کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کی نبوت ورسالت کو کہیں صراحۃ وکنایۃ ذکر نہیں فرمایا۔ جس سے صاف ثابت ہوگیا کہ جن جن حضرات کو خلعت نبوت ورسالت سے نوازنا مقدر تھا۔ پس وہ ہوچکے اور گزرگئے۔ اب آئندہ نبوت پر مہر لگ گئی ہے اور بعد میں نبوت کی راہ کو ابدالآ باد تک کے لئے مسدود کردیا گیا ہے اور اب انبیاء کے شمار میں اضافہ نہ ہوسکے گا۔

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان نمبر۳​


قرآن مجید کا نقشہ ٔ نبوت حضرات ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
کہ جب دنیا پیدا ہوئی تو اس وقت حکم خدا وندی حضرت آدم صفی اﷲ کو بدیں الفاط پہنچایا گیا۔
’’ قلنا اھبطوا منہا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون۰ بقرہ ۳۸‘‘ { ہم نے حکم دیا نیچے جائو یہاں سے تم سب ۔ پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر‘ نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}
’’ قال اھبطا منہا جمیعا بعضکم لبعض عدو فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدٰیی فلا یضل ولا یشقی۰ طہ ۱۲۳‘‘ { فرمایا اترو یہاں سے دونوں اکٹھے رہو ایک دوسرے کے دشمن ۔ پھر اگر پہنچے تم کو میری طرف سے ہدایت پھر جو چلا میری بتلائی راہ پر سو نہ وہ بہکے گا اور نہ وہ تکلیف میں پڑے گا۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اسی مضمون کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری جگہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس کو آج کل مرزائی آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کو جاری ثابت کرنے کے لئے بالکل بے محل پیش کردیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
’’ یا بنی آدم امایأتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون۰ اعراف ۳۵‘‘ { اے اولاد آدم کی اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے۔ کہ سنائیں تم کو آیتیں میری۔ تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}
ان دونوں آیتوں میں ابتداء آفرینش کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور نوع انسان کو حکم دیاکہ میں حضرت آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہوں اور حضرت آدم کے بعد انبیاء ورسل بکثرت ہوں گے اور لوگوں کے لئے ان کی اتباع کرنا ضروری ہوگا۔ اس جگہ رسل جمع کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے اور انبیاء کی تحدیدو تعین نہیںکی۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم صفی اﷲ کے بعد کافی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوں گے۔
بعد ازاں حضرت نوح وابراھیم علیہما الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تو اس میں بھی یہی اعلان ہوا کہ ان کے بعد بھی بکثرت انبیاء ہوں گے۔
’’ ولقد ارسلنا نوحا وابراھیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب منہم مھتد وکثیر منہم فاسقون ثم قفینا علیٰ آثارھم رسلنا۰ حدید ۲۶‘۲۷‘‘ {اور ہم نے بھیجانوح کو اور ابراھیم کو اور ٹھہرادی دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب پھر کوئی ان میں راہ پر ہے اور بہت ان میں نافرمان ہیں۔ پھر پیچھے بھیجیان کے قدموں پر اپنے رسول۔ }
اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا کہ حضرت نوح اور حضرت ابراھیم علیہم السلام پر نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوگیا تھا ۔ بلکہ ان کے بعد بھی کافی تعداد میں انبیاء کرام تشریف لائے اور یہاںبھی ’’ رسل‘‘ کا لفظ فرمایا کوئی تحدیدو تعین نہیں فرمائی۔ علی ہذاالقیاس یہی سنت اﷲ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی رہی اور بعینہ یہی مضمون ذیل کی آیت میں صادر ہوا۔
’’ ولقد آتینا موسیٰ الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل ۰ بقرہ ۸۷‘‘ {اور بیشک دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول۔}
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی باب نبوت بند نہیں ہوا تھا اور ان کے بعد انبیاء کرام بکثرت آتے رہے۔ جس کو اﷲ تعالیٰ نے بالرسل کہہ کر ارشاد فرمایا۔
صرف یہ تین آیتیں اس لئے ذکر کی گئیں کہ معلوم ہوجائے کہ اولوالعزم انبیاء کرام کے بعد سنت خدا وندی کیا کچھ چلتی رہی؟۔
لیکن جب حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی باری آئی تو اس مبشر’’ احمد‘‘ نے آکر دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے بعد سلسلہ نبوت اس کثرت سے اور غیر محدود نہیں جیسے پہلے انبیاء کرام کے بعد ہوتا چلا آیا ہے۔ بلکہ میرے زمانہ میں نبوت میں ایک نوع کا انقلاب ہوگیا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ الرسل کے لفظ سے انبیاء کرام کی آمد کو بیان کیا جاتا تھا اب واحد کا لفظ ’’ برسول‘‘ کہہ کر ارشاد کیا اور بجائے اس کے کہ حسب سابق غیر محدود اور غیر معین رسولوں کے آنے کا ذکر کیا جاتا ۔ طریق بیان کو بدل کر صرف ایک رسول کے آنے کی اطلاع دی اور اس کے اسم مبارک (احمد) کی بھی تعین فرمادی کہ کوئی شقی ازلی یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ اس کا مصداق میں ہوں۔(جیسے آج کل مرزا قادیانی کی امت یہ ہانک دیا کرتی ہے کہ بشارت احمد کا مصداق مرزا قادیانی ہے۔)
ارشاد ہوا ہے:
’’ اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ ومبشرا برسول یاء تی من بعدہ اسمہ احمد۰ صف ۶‘‘ { اور جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا ہوا آیا ہوں اﷲ کا تمہارے پاس۔ یقین کرنے والا اس پر جو مجھ سے آگے ہے توریت ‘ اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد اس کا نام ہے احمد۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
آنے والے نبی کریم ﷺ کا نام بتاکر تعین بھی کردی اور کہا کہ اب میرے بعد ایک ا ور صرف ایک رسول آئے گا۔ جس کا نام گرامی احمد ہوگا۔ انبیاء وسابقین نے تو اپنے بعد کے زمانہ میں بصیغہ جمع کئی رسولوں کی آمد کی خوشخبری دی تھی ۔ مگر حضرت مسیح نے صرف ایک رسول احمد کی ہی بشارت وخوشخبری دی اورجب وہ رسول خاتم الانبیاء والمرسلین ‘ آخر آمدبودفخر الاولین‘ تشریف فرماہوئے ۔تو خدا نے ساری دنیا کے سامنے اعلان فرمادیا کہ اب وہ رسول کریمﷺ جس کی طرف نگاہیں تاک رہی تھیں۔ وہ تشریف فرماہوگیا ہے۔ وہ خاتم النبیین ہے اور اس کے بعد کوئی نیا شخص نبوت کے اعزاز سے نہیں نوازا جائے گا۔ بلکہ وہ نبوت کی ایسی اینٹ ہے جس کے بعد نبوت کے دروازہ کو بند فرمادیا گیا ہے۔ ارشاد ملاحظہ ہو:
’’ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰ احزاب ۴۰‘‘ {محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔}
یعنی آنحضرت ﷺ جن کی آمد کی اطلاع حضرت مسیح نے دی تھی وہ آچکے اور آکر نبوت پر مہر کردی ۔ اب آپ ﷺ کے بعد دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہوگی ۔ جس کو نبوت کے خطاب سے نوازا جائے اور انبیاء کرام کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ قرآن کا یہ طریق بیان نبوت کے سلسلہ کی ان کڑیوں کا اجمالی نقشہ تھا کہ جو حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوکر حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوگیا۔

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان نمبر۴​


اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء کرام کے بعد تشریف فرماہوئے ہیں۔ جتنے نبی ہوچکے ہیں وہ سب کے سب آپ ﷺ سے پہلے ہی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔
’’ واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ۔ آل عمران ۸۱‘‘ {اور جب لیا اﷲ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کروگے۔}
اس جگہ یہ متعین کردیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء کے بعد آئیں گے۔اوراسی آیت کو مرزا قادیانی نے بھی حقیقت الوحی صفحہ ۱۳۰’۱۳۱’ روحانی خزائن صفحہ ۱۳۴’۱۳۳‘ جلد ۲۲ میں نقل کرکے اس کے بعد تحریر کیا ہے کہ:’’ اس آیت میں ’’ثم جاء کم رسول‘‘ سے مراد آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔‘‘
قرآن مجید کو اول سے آخر تک پڑھئے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع کیا اور آنحضرت ﷺ پر ختم کردیا ۔ خود مرزا قادیانی بھی اس کا اقراری ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کافر وکاذب جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ محمد مصطفیﷺ پرختم ہوگئی۔ ‘‘ (مجموعہ اشتہارات ص ۲۳۱’۲۳۰ ج ۱‘ حقیقت النبوۃ ص ۸۹)
آیات مندرجہ بالا کے علاوہ ایک ایسی آیت بھی ملاحظہ ہو جو کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کی ضرورت ہی کو اٹھا دے اور وہ ایسی فلاسفی بتادے کہ جس پر یقین کرکے ہر مومن اطمینان حاصل کرے کہ اب آئندہ کسی کو نبوت حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔
’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دینا۰ مائدہ ۳‘‘ {آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا اورپورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کودین۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس ارشاد خدا وندی نے بتادیا کہ دین کے تمام محاسن مکمل اور پورے ہوچکے ہیں۔ اب کسی پورا کرنے یا مکمل کرنے والے کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے جب کسی کے پورا کرنے یا مکمل کرنے کی ضرورت نہیں رہی تو یقینا آج کے بعد کسی کو نبی بنانے کی بھی کوئی حاجت نہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے عربی میں کتاب تحریر فرمائی تھی۔ اس کا نام ہدیۃ المہدین فی تفسیر آیۃ خاتم النبیین ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’ ختم نبوت کامل‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ اس میں آپ نے قرآن مجید کی ننانوے آیات مبارکہ سے مسئلہ ختم نبوت پر استدلال فرمایا ہے۔

آیت خاتم النبیین کی تفسیر​


’ ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲبکل شیٔ علیما۰ احزاب ۴۰‘‘ {محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اﷲ سب چیزوں کو جاننے والا۔}

شان نزول( نازل ہونے کا سبب)​

اس آیت شریفہ کا شان نزول یہ ہے کہ آفتاب نبوت ﷺ کے طلوع ہونے سے پہلے تمام عرب جن تباہ کن اور مضحکہ خیز رسومات قبیحہ میںمبتلا تھے ان میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ متبنٰی یعنی لے پالک بیٹے کو تمام احکام واحوال میں حقیقی اور نسبی بیٹا سمجھتے ۔ اسی کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور مرنے کے بعد شریک وراثت ہونے میں اور رشتہ ناتے اور حلت وحرمت کے تمام احکام میں حقیقی بیٹا قرار دیتے تھے۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ اسی طرح وہ لے پالک کی بیوی سے بھی اس کے مرنے اور طلاق دینے کے بعد نکاح کو حرام سمجھتے تھے۔
یہ رسم بہت سے مفاسد پر مشتمل تھی۔ اختلاط نسب ‘ غیر وراث شرعی کو اپنی طرف سے وارث بنانا‘ ایک شرعی حلال کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا وغیر وغیرہ۔
اسلام جوکہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ کفر وضلالت کی بیہودہ رسوم سے عالم کو پاک کردے۔ اس کا فرض تھا کہ وہ اس رسم کے استیصال (جڑ سے اکھاڑنے ) کی فکر کرتا۔ چنانچہ اس نے اس کے لئے دو طریق اختیار کئے۔ ایک قولی اور دوسرا عملی۔ ایک طرف تو یہ اعلان فرمادیا:
’’وما جعل ادعیاء کم ابناء کم ذٰلکم قولکم باافوٰھکم واﷲ یقول الحق وھو یھدی السبیل ادعوھم لاباء ھم ھو اقسط عنداﷲ۰ احزاب ۴‘۵‘‘{ اور نہیں کیا تمہارے لئے پالکوں کو تمہارے بیٹے۔ یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی ‘ اور اﷲ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ۔ پکار ولے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کرکے‘ یہی پورا انصاف ہے اﷲ کے یہاں۔}
اصل مدعا تو یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت وحرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس خیال کو بالکل باطل کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ متبنٰی یعنی لے پالک بنانے کی رسم ہی توڑ دی جائے۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد ہوگیا کہ لے پالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔
نزول وحی سے پہلے آنحضرت ﷺ نے حضرت زید بن حارث ؓ کو (جوکہ آپ ﷺ کے غلام تھے) آزاد فرماکر متبنٰی(لے پالک بیٹا) بنالیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرام ؓ بھی عرب کی قدیم رسم کے مطابق ان کو’’ زید بن محمدؐ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حضرت عبداﷲ ؓبن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی اس وقت سے ہم نے اس طریق کو چھوڑکر ان کو’’ زیدؓ بن حارثہ‘‘ کہنا شروع کیا۔
صحابہ کرام ؓ اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قدیم کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ لیکن چونکہ کسی رائج شدہ رسم کے خلاف کرنے میں اعزاء واقارب اور اپنی قوم وقبیلہ کے ہزاروں طعن وتشنیع کا نشانہ بننا پڑتا ہے جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے۔اس لئے خدا وند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے ہاتھوں عملا توڑا جائے۔ چنانچہ جب حضرت زید ؓ نے اپنی بی بی زینب ؓ کو باہمی ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے دی تو خدا وند عالم نے اپنے رسول ﷺ کو حکم فرمایا کہ ان سے نکاح کرلیں۔ تاکہ اس رسم وعقیدہ کا کلیۃ استیصال ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
’’ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکیلا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم ۰ الا حزاب ۳۷‘‘ { پس جبکہ زید ؓ زینب ؓ سے طلاق دے کر فارغ ہوگئے تو ہم نے ان کانکاح آپ ﷺ سے کردیا۔ تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بییوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو۔}
آپ ﷺ نے بامر خدا وندی نکاح کیا۔ ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا۔ تمام کفار عرب میں شور مچا کہ لو‘ اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کربیٹھے۔
ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی:
’’ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰ احزاب ۴۰‘‘ { محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔}
جس میں یہ بتلادیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں تو حضرت زید ؓ کے نسبی باپ بھی نہ ہوئے۔ لہذا آپ ﷺ کا ان کی سابقہ بی بی سے نکاح کرلینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے۔ اور اس بارے میں آپ ﷺ کو مطعون کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔
ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ آپ ﷺ حضرت زید ؓ کے باپ نہیں۔ لیکن خدا وند عالم نے ان کے مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ رد کرنے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا کہ یہی نہیں کہ آپ ﷺ زید ؓکے باپ نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ تو کسی مرد کے بھی باپ نہیں۔ پس ایک ایسی ذات پر جس کا کوئی بیٹا ہی موجود نہیں یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کرلیا کس قدر ظلم اور کجروی ہے۔
اور اگر کہو کہ آنحضرت ﷺ کے چار فرزند ہوئے ہیں۔ قاسم اور طیب اور طاہر حضرت خدیجہ ؓ سے اور ابراھیم ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے۔ پھر یہ ارشاد کیسے صحیح ہوگا کہ آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں؟۔
تو اس کا جواب خود قرآن کریم کے الفاظ میں موجود ہے۔ کیونکہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں اور آپ ﷺ کے چاروں فرزند بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کو مرد کہے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ آیت میں ’’ رجالکم‘‘ کی قید اسی لئے بڑھائی گئی ہے۔ بالجملہ اس آیت کے نزول کی غرض آنحضرت ﷺسے کفار ومنافقین کے اعتراضات کا اٹھانا اور آپﷺ کی برا ت اور عظمت شان بیان فرمانا ہے اور یہی آیت کا شان نزول ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰‘‘ { لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

خاتم النبیین کی قرآنی تفسیر​

اب سب سے پہلے دیکھیںکہ قرآن مجید کی رو سے اس کاکیا ترجمہ وتفسیر کیا جانا چاہئیے؟۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے۔
۱… ’’ ختم اﷲ علیٰ قلوبھم۰ بقرہ ۷‘‘ {مہر کردی اﷲ نے ان کے دلوں پر۔}
۲… ’’ ختم علیٰ قلوبکم۰ انعام ۴۶‘‘ {اور مہرکردی تمہارے دلوں پر۔}
۳… ’’ ختم علیٰ سمعہ وقلبہ۰ الجاثیہ ۲۳‘‘ { مہر کردی اس کے کان پراور دل پر۔}
۴… ’’ الیوم نختم علیٰ افواھم۰ یٰسین ۶۵‘‘ {آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر۔}
۵… ’’ فان یشاء اﷲ یختم علیٰ قلبک ۰ الشوریٰ ۲۴‘‘ {سو اگر اﷲ چاہے مہر کردے تیرے دل پر۔}
۶… ’’ رحیق مختوم۰ مطففین ۲۵‘‘ {مہر لگی ہوئی۔}
۷… ’’ ختامہ مسک ۰ مطففین ۲۶‘‘ {جس کی مہر جمتی ہے مشک پر۔}
ان ساتوں مقامات کے اول وآخر‘ سیاق وسباق کو دیکھ لیں ’’ ختم‘‘ کے مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا ۔ اس کی ایسی بندش کرنی کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے۔ اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے۔ وہاں پر ’’ ختم ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلا پہلی آیت کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی۔ کیا معنی؟ کہ کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اور باہرسے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا:’’ ختم اﷲ علیٰ قلوبھم۰‘‘اب زیر بحث آیت خاتم النبیین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دو عالم ﷺ کی آمدپر حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کردی‘ بند کردیا‘ مہر لگادی‘ کہ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ فھوالمقصود ۔ لیکن قادیانی اس ترجمہ کو نہیں مانتے۔

خاتم النبیین کی نبویؐ تفسیر​


آنحضرت ﷺ نے خاتم النبیین کی تفسیر لانبی بعدی کے ساتھ وضاحت سے فرمادی۔ آپ ﷺ کی معروف حدیث شریف جس کا آخری جملہ ہے ’’ انا خاتم النبیین لانبی بعدی‘‘ اس کاحوالہ و توضیح آگے آرہی ہے۔ سردست یہاں پر اپنے فریق مخالف کے سامنے مرزا قادیانی کے ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے:
’’ قال اﷲ عزوجل ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبینا ﷺ خاتم النبیین خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبینافی قولہ لانبی بعدی ۰ ببیان واضح للطالبین ۰ حمامۃ البشری ص ۲۰روحانی خزائن ص ۲۰۰ ج۷‘‘
دیکھئے کس صراحت سے مرزا قادیانی تسلیم کررہا ہے کہ خاتم النبیین کی تفسیر حضور ﷺ نے واضح بیان کے ساتھ لانبی بعدیسے کردی ہے۔ لیکن قادیانی گروہ رحمت دو عالم ﷺ کے ترجمہ وتفسیر کو ماننے کے لئے آمادہ نہیں۔

خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام ؓ سے​

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حضرات صحابہ کرام ؓ وتابعین ؒ کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا موقف تھا۔خاتم النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟ اس کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کی کتاب ھدیۃ المہدین کے تیسرے حصہ کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں پر صرف دو صحابہ کرام ؓ کی آراء مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔
امام ابو جعفر ابن جریر طبری ؒ اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہ ؓ سے خاتم النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:
’’ عن قتادۃؓ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم۰ ابن جریر ص ۱۱ ج ۲۲‘‘ { حضرت قتادۃ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیرمیں فرمایا۔ اور لیکن آپ ﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔}
حضرت قتاددہ ؓ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطی ؓ نے تفسیر درمنشور میں عبدالرزاق اور عبدابن حمید اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے۔( در منشور ص ۲۰۴ج ۵)
اس قول نے بھی صاف وہی بتلادیاجو ہم اوپر قرآن عزیز اور احادیث سے نقل کرچکے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہیں۔ کیا اس میں کہیں تشریعی غیر تشریعی اور بروزی وظلی وغیرہ کی کوئی تفصیل ہے؟ ۔
نیز حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کی قرات ہی آیت مذکور میں :’’ ولکن نبینا خاتم النبیین۰ ‘‘ ہے۔ جو خود اسی معنی کی طرف ہدایت کرتی ہے جو بیان کئے گئے ۔ اور سیوطی ؒ نے درمنشور میں بحوالہ عبدابن حمید حضرت حسن ؓ سے نقل کیا ہے:
’’ عن الحسن فی قولہ وخاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمد ﷺ وکان آخرمن بعث۰ درمنشور ص ۲۰۴ ج ۵ ‘‘{حضرت حسن ؓ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمد ﷺ پر ختم کردیا اور آپ ﷺ ان رسولوں میں سے جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔}
کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟۔

خاتم النبیین اور اصحاب لغت​


خاتم النبیین ’’ت‘‘کی زبر یا زیرسے ہو قرآن وحدیث کی تصریحات اور صحابہ وتابعین کی تفاسیر اور آئمہ سلف کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتا ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرات پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے اور دوسری قرات پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔
لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے۔ اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قراتوں پر آیت کے معنی لغۃ یہی ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں تبصریح موجود ہے۔
’’ والخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کا لطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبییون بہ ومآ لہ آخر النبیین ۰ روح المعانی ص ۵۹ ج ۷‘‘ { اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے ۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے :’’ وہ شخص جس پر انبیاء ختم کئے گئے ‘‘ اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اور علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحب نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ والمآ ل علیٰ کل توجیہ ھو المعنی الآ خر ولذلک فسر صاحب المدارک قراء ۃ عاصم بالاٰ خرو صاحب البیضاوی کل القراء تین بالاٰ خر۰‘‘ { اور نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرات عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاوی ؒنے دونوں قراتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔}
روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی ۔ کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں۔ ان کا بھی خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔یعنی آخر النبیین اور اسی بناء پر بیضاوی ؒ نے دونوں قراتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخر النبیین تفسیر کی ہے۔
خدا وند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحا اس آیت شریفہ کے متعلق جس پر اس وقت ہماری بحث ہے صاف طور پربتلادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغۃ محتمل ہیں اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیاء کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔
خدائے علیم وخبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیرمعتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں ’’ مشتے نمونہ از خروارے ‘‘ ہدیہ ناظرین کرکے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی میں سے ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحریر کئے ہیں۔

مفردات القرآن​

یہ کتاب امام راغب اصفہانی ؒ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطی ؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ۰۔ مفردات راغب ص ۱۴۲‘‘ {آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا یعنی آپ ﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا}

المحکم لابن السیدہ​

لغت عرب کی وہ متعمد علیہ کتاب ہے جس کو علامہ سیوطی ؒ نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جا سکے۔
’’ وخاتم کل شیء وخاتمتہ عاقبتہ وآخرہ از لسان العرب‘‘ { اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔}

تہذیب الا زھری​

اس کو بھی سیوطی ؒ نے معتبرات لغت میں شمار کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے:
’’ والخاتم والخاتم من اسماء النبی ﷺ وفی التنزیل العزیز ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم۰ از لسان العرب ‘‘ { اور خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح نبی کریم ﷺ کے ناموں میں سے ہیں اور قرآن عزیز میں ہے کہ نہیں ہیں آنحضرت ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول اور سب نبیوں میں آخری نبی ہیں۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس میں کس قدر صراحت کے ساتھ بتلادیا گیا کہ خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح دونون آنحضرت ﷺ کے نام ہیں۔ اور قرآن مجید میں خاتم النبیین سے آخر النبیین مراد ہے۔
کیا آئمہ لغت کی اتنی تصریحات کے بعد بھی کوئی منصف اس معنی کے سوا اور کوئی معنی تجویز کرسکتا ہے؟۔

لسان العرب​

لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب وعجم میں مستندمانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے :
’’ خاتمھم وخاتمھم وآخرھم عن اللحیانی ومحمد ﷺ خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوٰۃ والسلام ۰ ‘‘ {خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخر القوم ہیں اور انہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے‘ محمد ﷺ خاتم الانبیاء (یعنی آخر الانبیائ) }
اس میں بھی بوضاحت بتلایا گیا کہ بالکسر کی قرات پڑھی جائے یا بالفتح کی ہر صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے۔
لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالبا اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم کو تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
لغت عرب کے تتبع (تلاش) کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ’’ نبیین ‘‘ کی طرف ہے۔ اس لئے اس کے معنی آخر النبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وہوہذا:

تاج العروس​

شرح قاموس للعلامتہ الزبیدی میں لحیانی سے نقل کیا ہے:
’’ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھو الذی ختم النبوۃ بمجیئہ ۰‘‘ {اور آنحضرت ﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے خاتم بالکسر اور خاتم الفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کردیا ہو۔}

مجمع البحار​

جس میں لغات حدیث کو معتمد طریق سے جمع کیا گیا ہے۔ اس کی عبارت درج ذیل ہے :
’’ الخاتم والخاتم من اسمائہ ﷺ ’’ ش ‘‘ بالفتح اسم ای آخرھم ووبالکسر اسم فاعل۰مجمع البحارص۱۵ ج۲ طبع۳‘‘ { خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح نبی کریم ﷺ کے ناموں میں سے ہے۔ بالفتح اسم ہے جس کے معنی آخر کے ہیں۔ اور بالکسر اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی تمام کرنے والے کے ہیں۔}
’’خاتم النبوۃ بکسر التاء ای فاعل الختم وھوالا تمام وبفتحھا بمعنی الطابع ایی شیء یدل علیٰ انہ لانبی بعدہ ۰ مجمع البحار ص ۱۵ ج ۳ طبع ۳‘‘ { خاتم النبوۃ بکسر تایعنی تمام کرنے والا اور بالفتح تا بمعنی مہر یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔}

قاموس میں ہے​

 
Top