• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی پاکٹ بک والے کا مرزا غلام قادیانی کی تحریروں میں سے تضاد دور کرنے کی ناکام کوشش

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی پاکٹ بک والے کا مرزا غلام قادیانی کی تحریروں میں سے تضاد دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش


دوستوں قادیانی پاکٹ کے مصنف نے انتہا دھوکے بازی سے کام لیتے ہوۓ احادیث پیش کی مَثَلاً کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو موسیٰ علیہ اسلام سے اچھا نہ کہو اور ایک جگہ فرمایا کہ جو یہ کہے میں صلی اللہ علیہ وسلم یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے اور اس کے بعد ایک حدیث پیش کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمام انبیاء کا سردار ہوں اور اس سے ثابت یہ کرنے کی کوشش کی کہ ان احادیث میں تضاد ہے وغیرہ وغیرہ

جواب


مرزائی معترض کا یہ کہنا کے حدیث میں ہے مجھہ کو موسیٰ علیہ اسلام سے اچھا نہ کہو، اور جو یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے ، پہلے فرمایا اور بعد میں اپنے یہ فرمایا کے میں تمام انبیاء کا سردار ہوں قدیانی ثبوت پیش کرے اور بتائے کے کہاں لکھا ہے کے پہلی دو حدیثیں پہلے بیان فرمائی اور تیسری حدیث بعد میں بیان فرمائی .
ہم کہتے ہیں کے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیھما اسلام کا سردار پہلے فرمایا پھر خاص واقعات کی بنا پر چند افراد کے دلوں سے گزشتہ انبیاء علیھما اسلام کے خلاف جذبات نفرت دور کرنے کی خاطر فرمایا کے موسیٰ علیہ اسلام سے مجھے اچھا نہ کہو ، اس کا مقصد صرف اس قدر کے انبیاء سابقہ کے متعلق بھی لوگ نیک جذبات رکھیں اور کہیں مقابلے میں ان کے متعلق گھستاخانہ کلمہ نہ نکالیں ورنہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے لے کر وصال تک اسی عقیدے پر قائم رہے کے اپ تم انبیاء کے سردار ہیں جیسا کے قرآن مجید کی اکثر آیات شاہد ہیں. حضرت موسیٰ کی خصوصیت نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر انبیاء کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کے ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضلت نہ دو " و من قال انا خیر من یونس بن متی فقد کذب" (بخاری کتاب التفسیر سورہ نساء )....
لاریب ایک نبی کا نام لے کر اس پر فضیلت دینا ممنوع ہے لیکن بصورت تعبیر، کیونکہ اس طرح باہمی انبیاء میں منافرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام آیا ہے تمام کے احترام قائم کرنے کے لئے " لنفراق بین احد من رسلہ" بات یہ ہے کے اظہر فضیلت بصورت تعبیر اور شے ہے اور بطور حقیقت کی شا دیگر. ممنوع پہلے حصہ ہے نہ کے دوسرا . مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء اکرام آپس میں فی الحقیقت بھی ایک درجے کے ہیں قرآن پاک شاہد ہے کہ " تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض " جماعت انبیاء سے بعض کو بعض پر فضلت دے چکے ہیں ...
خاص طور پر نبی کریم کی تو وہ شان ہے کے تمام انبیاء سے اپ پر ایمان لانے اپ کی مدد پر کمر بستہ کا وعدہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے (حقیقت الوحی خزائن جلد 22 صفحہ 133 )..........
بڑے کو گھر تک پہنچانے کے لئے ہم اسی جواب پر اکتفا نہیں کرتے بلکے مرزے کے ہاتھوں مرزائیوں کے کذب پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں سنو اور غور سے سنو ... لا شریک لاہو وبز لک امرت وانا اول مرسلین کی تفسیر ہیں مرزا کہتا ہے اس آیات میں ان نادان موحدوں کا رد ہے جو یہ اعتقادر رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے مجھ کو یونس بن متی سے زیادہ فضیلت نہ دی جائے یہ نادان نہیں سمجھتے کے اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تو وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمرے سید و مولی صلم کی عادت تھی ، ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط کے نیچے " احقر عباد اللہ " لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص دار حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کسی قدر نادانی اور شرارت نفس ہے (آآئینہ کمالات اسلام )
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اعتراض
بخاری شریف میں ایک حدیث ہے وَاَتَی النَّبِیُ ﷺ بَنی حارثۃ فَقَالَ یَا بنی حَارِثَۃَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَم ثم التفت فقال بل اَنْتُمْ فِیْہِ (بخاری کتاب الحج باب حرم المدینہ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی حارثہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور فرمایا، اے بنی حارثہ تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر ادھر دیکھ کر فرمایا: نہیں تم حرم کے اندر ہو '' اب قَدْ خَرَجْتم من الحرم اور بل اَنتم فیہ میں تناقض ہے یا نہیں؟''
پاکٹ بک ص492
جواب
اس حدیث میں تو مرزائی معترض مصنف مرزائی پاکٹ بک کی یہودیانہ تحریف نے یہودیوں کے بھی خصائص مروجہ کو مات کردیا ہے۔ جو لفظ اس کی تحریف کا اظہار کرنے والا تھا، اسے ہضم ہی کر گیا۔ حدیث میں اُرَاکُمْ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ ( صحیح بخاری ص251، ج1 فی الفضائل باب حرم المدینۃ) یعنی میں گمان کرتا ہوں کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ اُرَاکُمْ مجہول کا ایسا صیغہ ہے جو ظن و گمان کے معنی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو کتب لغت حدیث مثل نہایہ ابن اثیر وغیرہ( لغات الحدیث ص8، ج2 کتاب الراء المہملۃ ولسان العرب 304، ج12 وتاج العروس ص143، ج10)۔ اسی لیے بخاری شریف کے حاشیہ پر اس کے تحت میں لکھا ہے:
جَزَمَ بِمَا غَلَبَ عَلٰی ظَنِّہٖ۔
پس ابتداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظن و گمان کے تحت فرمایا کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ مگر بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے '' ادھر ادھر'' دیکھا اور معلوم کیا کہ وہ حرم سے نہیں نکلے تو فرمایا نہیں تم اندر ہی ہو۔ یہ تناقض کہاں ہوا۔ فَبَطَلَ مَاکَانُوْا یَاْفِکُوْنَ آہ :
الٹی سمجھ کسی کو بھی ہرگز خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پر یہ بد ادا نہ دے
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اعتراض:
بعض دفعہ ناسمجھی سے معترض تناقض سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل تناقض نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیت { وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدٰی } اور {ما ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی} میں۔ (پاکٹ بک ص939)

جواب
یہ سیاہ باطن انسان کیسی چالیں چل رہا ہے۔ کفر باطنی تو جوش مارتا ہے کہ لگے ہاتھوں قرآن پر بھی ہاتھ صاف کرکے مرزائی نبوت کے ساتھ اُسے بھی دنیا میں ذلیل کردوں۔مگر قرآنی آہنی دیوار سے سر ٹکرانا باعث ہلاکت سمجھ کر نادانی اور ناسمجھی کے قلعہ میں پناہ گزین ہوتا ہے۔
جس طرح یہ صحیح ہے کہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ایک مراقی انسان کے پیروؤں میں بھی مراق کا اثر ہو۔ احمدیہ پاکٹ بک کا مصنف مرزا صاحب کے ہفوات کی مدافعت کرتا کرتا خود ہی تخالف و تہافت کے اندھے کنوئیں میں اوندھے بل گرا ہے۔
اب مرزا صاحب کے قلم سے اس کا مطلب سنیے اور اپنے ملحدانہ عقائد سے توبہ کیجیے:
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی اب ظاہر ہے کہ ضَال کے معنی مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں۔ گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو کافر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہئیں جو آیت کے سیاق و سباق سے ملتے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوی وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی یعنی خدا نے تجھے یتیم اور بے کس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال (یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کردیا۔'' (روحانی ص170 تا 171، ج5 )
 
Top