قادیانی پاکٹ بک والے کا مرزا غلام قادیانی کی تحریروں میں سے تضاد دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش
دوستوں قادیانی پاکٹ کے مصنف نے انتہا دھوکے بازی سے کام لیتے ہوۓ احادیث پیش کی مَثَلاً کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو موسیٰ علیہ اسلام سے اچھا نہ کہو اور ایک جگہ فرمایا کہ جو یہ کہے میں صلی اللہ علیہ وسلم یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے اور اس کے بعد ایک حدیث پیش کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمام انبیاء کا سردار ہوں اور اس سے ثابت یہ کرنے کی کوشش کی کہ ان احادیث میں تضاد ہے وغیرہ وغیرہ
جواب
مرزائی معترض کا یہ کہنا کے حدیث میں ہے مجھہ کو موسیٰ علیہ اسلام سے اچھا نہ کہو، اور جو یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے ، پہلے فرمایا اور بعد میں اپنے یہ فرمایا کے میں تمام انبیاء کا سردار ہوں قدیانی ثبوت پیش کرے اور بتائے کے کہاں لکھا ہے کے پہلی دو حدیثیں پہلے بیان فرمائی اور تیسری حدیث بعد میں بیان فرمائی .
ہم کہتے ہیں کے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیھما اسلام کا سردار پہلے فرمایا پھر خاص واقعات کی بنا پر چند افراد کے دلوں سے گزشتہ انبیاء علیھما اسلام کے خلاف جذبات نفرت دور کرنے کی خاطر فرمایا کے موسیٰ علیہ اسلام سے مجھے اچھا نہ کہو ، اس کا مقصد صرف اس قدر کے انبیاء سابقہ کے متعلق بھی لوگ نیک جذبات رکھیں اور کہیں مقابلے میں ان کے متعلق گھستاخانہ کلمہ نہ نکالیں ورنہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے لے کر وصال تک اسی عقیدے پر قائم رہے کے اپ تم انبیاء کے سردار ہیں جیسا کے قرآن مجید کی اکثر آیات شاہد ہیں. حضرت موسیٰ کی خصوصیت نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر انبیاء کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کے ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضلت نہ دو " و من قال انا خیر من یونس بن متی فقد کذب" (بخاری کتاب التفسیر سورہ نساء )....
لاریب ایک نبی کا نام لے کر اس پر فضیلت دینا ممنوع ہے لیکن بصورت تعبیر، کیونکہ اس طرح باہمی انبیاء میں منافرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام آیا ہے تمام کے احترام قائم کرنے کے لئے " لنفراق بین احد من رسلہ" بات یہ ہے کے اظہر فضیلت بصورت تعبیر اور شے ہے اور بطور حقیقت کی شا دیگر. ممنوع پہلے حصہ ہے نہ کے دوسرا . مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء اکرام آپس میں فی الحقیقت بھی ایک درجے کے ہیں قرآن پاک شاہد ہے کہ " تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض " جماعت انبیاء سے بعض کو بعض پر فضلت دے چکے ہیں ...
خاص طور پر نبی کریم کی تو وہ شان ہے کے تمام انبیاء سے اپ پر ایمان لانے اپ کی مدد پر کمر بستہ کا وعدہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے (حقیقت الوحی خزائن جلد 22 صفحہ 133 )..........
بڑے کو گھر تک پہنچانے کے لئے ہم اسی جواب پر اکتفا نہیں کرتے بلکے مرزے کے ہاتھوں مرزائیوں کے کذب پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں سنو اور غور سے سنو ... لا شریک لاہو وبز لک امرت وانا اول مرسلین کی تفسیر ہیں مرزا کہتا ہے اس آیات میں ان نادان موحدوں کا رد ہے جو یہ اعتقادر رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے مجھ کو یونس بن متی سے زیادہ فضیلت نہ دی جائے یہ نادان نہیں سمجھتے کے اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تو وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمرے سید و مولی صلم کی عادت تھی ، ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط کے نیچے " احقر عباد اللہ " لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص دار حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کسی قدر نادانی اور شرارت نفس ہے (آآئینہ کمالات اسلام )