قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
ہر طرف سے لعنتیں ہیں سوئے قادیاں رواں
ہر ایک طفل و مرد و زن منافقت میں عالیشاں
سو سو بار موتر اور ٹٹیاں رواں دواں
اسی کے جیسے ہیں سب قادیانی کے نشاں
ڈھونڈتے ہیں حیض زدہ شلوار میں یہ برکتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
مسیلمہ کا قافلہ کذابوں کا یہ سلسلہ
نصرانیوں یہودیوں کے فنڈ سے ہے یہ پلا
براہین احمدیہ کے دھوکے سے ملا تھا آئیڈیا
پچاس و پانچ میں فقط ہے نقطے کا ہی فاصلہ
ویزوں اور بچیوں کی دیتے ہیں یہ لالچیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
محمدی بیگم کی لا کے سونگھتا شلوار تھا
الہام خود ہی گھڑتا تھا بڑا ہی یہ عیار تھا
رجولیت کروانے کو دن رات بے قرار تھا
سینمے میں بھی جاتا تھا کنجریوں کا یار تھا
اسی لیے ہیں پڑ رہی آج تک بھی لعنتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
خلیفوں کے کمال بھی اس سے کچھ کم نہیں
اب زانیوں شرابیوں کے سلسلے میں دم نہیں
خود مرزا تو کرتا تھا کبھی کبھی زنا مگر
خلیفوں کا اس کے ہے ہر ایک دن ہی رنگیں
رہی بیٹیاں بھی ان کے بستروں کی زینتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
پھر گندے گارے کے لیپ اور جوتے الٹے سیدھے ہوں
جب گڑ کی جگہ ٹٹی کے ڈھیلے کھائے ہوں
مسیح ان کا خارشوں کے مزے بھی لیتا تھا
پی کے پورٹ وائن ساتھ لڑکیوں کے سوتا تھا
قمیض کے بٹن لگاتا کوٹ کے کاج میں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
ہر طرف سے لعنتیں ہیں سوئے قادیاں رواں
ہر ایک طفل و مرد و زن منافقت میں عالیشاں
سو سو بار موتر اور ٹٹیاں رواں دواں
اسی کے جیسے ہیں سب قادیانی کے نشاں
ڈھونڈتے ہیں حیض زدہ شلوار میں یہ برکتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
مسیلمہ کا قافلہ کذابوں کا یہ سلسلہ
نصرانیوں یہودیوں کے فنڈ سے ہے یہ پلا
براہین احمدیہ کے دھوکے سے ملا تھا آئیڈیا
پچاس و پانچ میں فقط ہے نقطے کا ہی فاصلہ
ویزوں اور بچیوں کی دیتے ہیں یہ لالچیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
محمدی بیگم کی لا کے سونگھتا شلوار تھا
الہام خود ہی گھڑتا تھا بڑا ہی یہ عیار تھا
رجولیت کروانے کو دن رات بے قرار تھا
سینمے میں بھی جاتا تھا کنجریوں کا یار تھا
اسی لیے ہیں پڑ رہی آج تک بھی لعنتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
خلیفوں کے کمال بھی اس سے کچھ کم نہیں
اب زانیوں شرابیوں کے سلسلے میں دم نہیں
خود مرزا تو کرتا تھا کبھی کبھی زنا مگر
خلیفوں کا اس کے ہے ہر ایک دن ہی رنگیں
رہی بیٹیاں بھی ان کے بستروں کی زینتیں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں
پھر گندے گارے کے لیپ اور جوتے الٹے سیدھے ہوں
جب گڑ کی جگہ ٹٹی کے ڈھیلے کھائے ہوں
مسیح ان کا خارشوں کے مزے بھی لیتا تھا
پی کے پورٹ وائن ساتھ لڑکیوں کے سوتا تھا
قمیض کے بٹن لگاتا کوٹ کے کاج میں
قادیاں کی وہ غلاظتیں وہ چندے کی سیاستیں
خدا کرے سدا رہیں منہ پہ یہ نحوستیں