دوستو ! مرزا نے نہ صرف قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریفات لفظیہ و معنویہ کیں بلکہ اس نے تورات و انجیل ( بائبل ) کو بھی معاف نہ کیا اور اپنے جھوٹے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے موجودہ بائبل پر بھی جھوٹ بولے جن کے چند نمونے ہم یہاں پیش کریں گے ۔
مرزا غلام قادیانی نے اپنے مشہور زمانہ جھوٹوں میں ایک جھوٹ یہ بھی لکھا تھا کہ :۔
" قرآن شریف بلکہ توریت کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے اور ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں " ( روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5 )
قرآن کریم پر تو مرزا نے یہ صریح جھوٹ بولا ہے
اور یہ بھی ایک دھوکہ اور فراڈ ہے کہ قرآن کریم یا احادیث نبویہ میں " مسیح موعود " کے الفاظ آئے ہیں بلکہ احادیث میں جہاں بھی مسیح علیہ السلام کے آنے کی خبر دی گئی ہے وہاں واضح اور صریح نام " عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام " ذکر ہے ۔لیکن آئیں اس قادیانی فراڈ کو دیکھیں جو وہ قرآن مجید کا نام لیکر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، تو دوستو جب بھی مرزا غلام قادیانی کی یہ تحریر مرزائی مربیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو وہ قرآن مجید کی سورہ النمل کی آیت 82 کا حوالہ دیتے ہیں آئیں دیکھیں اس میں کیا ہے :۔
" وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ" ( سورہ النمل آیت 82 )
قادیانی ترجمہ : اور جب ان پر فرمان صادق آ جائے گا تو ہم ان کے لئے سطح زمین میں سے ایک جاندار نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا (اس وجہ سے) کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں لاتے تھے۔
اور اس سے دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ " دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ " سے مراد " طاعون کا کیڑا " ہے اور " تُكَلِّمُهُمْ " کا معنی ہے " کاٹنا " ۔
تو دوستو! اس سے پہلے کہ میں اس قادیانی دھوکے کا جواب دوں پہلے اس کے میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ " دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ " مسیح موعود کی نشانیوں میں سے ہے یا قیامت کی نشانیوں میں سے تو اس کے لئے ہمارے پاس صحیح مسلم سے ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں انہوں نے قیامت کی نشانیاں بتائیں آئیں دیکھیں وہ کیا ہیں :۔
" حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غُرْفَةٍ وَنَحْنُ أَسْفَلَ مِنْهُ فَاطَّلَعَ إِلَيْنَا فَقَالَ مَا تَذْكُرُونَ قُلْنَا السَّاعَةَ قَالَ إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَكُونُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَالدُّخَانُ وَالدَّجَّالُ وَدَابَّةُ الْأَرْضِ وَيَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قُعْرَةِ عَدَنٍ تَرْحَلُ النَّاسَ" ( صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابٌ فِي الْآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ، حدیث نمبر 7286 )
عبیداللہ بن معاذ عنبری نے ہمیں حدیث بیان کی ،کہا:ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی ،کہا:ہمیں شعبہ نےفرات قزاز سے حدیث بیان کی،انھوں نے ابو طفیل سے،انھوں نے حضرت ابو سریحہ حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے میں تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیچے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا:"تم کس بات کا ذکر کررہے ہو؟"ہم نے عرض کی قیامت کا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب تک دس نشانیاں ظاہر نہیں ہوں گی،قیامت نہیں آئے گی:مشرق میں زمین کا دھنسنا،مغرب میں زمین کا دھنسنا اور جزیرہ عرب میں زمین کا دھنسنا،دھواں،دجال،زمین کا چوپایہ،یاجوج ماجوج،مغرب سے سورج کا طلوع ہونا اورایک آگ جو عدن کے آخری کنارے سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکے گی۔
دوستو ! یہاں واضح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو دس بڑی نشانیاں فرمائیں ان میں اس " دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ " کا ذکر فرمایا اس کوہرگز مسیح موعود یا جہاں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے نزول من السماء کی خبر دی وہاں اس کو ان کی نشانی نہیں بتایا ۔
اب چلتے ہیں مرزائی مربیوں کے اس دھوکے کی طرف کے " دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ " سے مراد طاعون کا کیڑا ہے ، تو اس کے لئے ہمارے پاس "جامع ترمذی " سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے جس سے واضح ہوجائے گا کہ " دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ " کیا ہے :۔
"حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ وَعَصَا مُوسَى فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ وَتَخْتِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتَمِ حَتَّى إِنَّ أَهْلَ الْخُوَانِ لَيَجْتَمِعُونَ فَيَقُولُ هَاهَا يَا مُؤْمِنُ وَيُقَالُ هَاهَا يَا كَافِرُ وَيَقُولُ هَذَا يَا مُؤْمِنُ وَيَقُولُ هَذَا يَا كَافِرُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ" ( جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النَّمْلِ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' (قیامت کے قریب زمین سے) ایک جانورنکلے گا جس کے پاس سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی (مہر) اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہوگا، وہ اس عصاسے (لکیر کھینچ کر) مومن کے چہرے کو روشن ونمایاں کردے گا، اور انگوٹھی کے ذریعہ کافر کی ناک پر مہر لگادے گا یہاں تک کہ دسترخوان والے جب دسترخوان پر اکٹھے ہوں گے تو یہ کہے گا : اے مومن اور وہ کہے گا : اے کافر! ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن ہے۔
تو دوستو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا وہ زمین کا جانور کیا ہوگا اور کون ہوگا اس لئے مرزائی مربیوںکا فراڈ کھول کر سامنے آگیا کہ اس سے مراد طاعون کا کیڑا ہے ۔اب چلتے ہیں کچھ تفاسیر کی طرف کہ اس آیت کی تفسیر مفسرین کیا کرتے ہیں ، ہمارے پاس سب سے پہلے " تفسیر طبری " ہے آئیں دیکھیں اس میں کیا لکھا ہے لیکن اس سے پہلے میں بتانا چاہوں گا مرزا غلام قادیانی نے مصنف تفسیر طبری " امام ابن جریر طبری " کے بارے میں کیا لکھا ہے کہتا ہے کہ :۔
" ابن جریربھی جو رئیس المفسرین ہے " (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 168)
" ابن جریرجو نہایت معتبر اورائمہ حدیث میں سے ہے " (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ261)
اب آئیں دیکھیں امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں کیا لکھتے ہیں :۔
"حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، عن مجاهد: (وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ) قال: حقّ العذاب.
قال ابن جُرَيج: القول: العذاب" حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب ان پر عذاب پکا ہوجائے گا اور ابن جریج نے بھی یہی کہا ۔
"وقال جماعة من أهل العلم: خروج هذه الدابة التي ذكرها حين لا يأمر الناس بمعروف ولا ينهون عن منكر."
اہل علم کی ایک جماعت نےکہا کہ یہ جانور اس وقت نکلے گا جب لوگ نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیں گے اور برائی سے نہیں روکیں گے ۔
"وذُكر أن الأرض التي تخرج منها الدابة مكة."
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس زمین سے اس جانور نے نکلنا ہے وہ مکہ کی زمین ہے ۔
"حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثني الأشجعي، عن فضيل بن مرزوق، عن عطية، عن ابن عمر، قال: تخرج الدابة من صَدع في الصفا"
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جانور صفاء کی پہاڑی کے پاس سے نکلے گا۔
" واختلفت القرّاء في قراءة قوله: (تُكَلِّمُهُمْ) فقرأ ذلك عامة قرّاء الأمصار: (تُكَلِّمُهُمْ) بضم التاء وتشديد اللام، بمعنى تخبرهم وتحدثهم، وقرأه أبو زرعة بن عمرو: "تَكْلِمُهُمْ" بفتح التاء وتخفيف اللام بمعنى: تسمهم."
اس لفظ " تُكَلِّمُهُمْ" کی قراءمیں قاریوں میں اختلاف ہے ،جو عام قراء ہیں انہوں نے یہ لفظ " تُكَلِّمُهُمْ " تا پر پیش اور لام پر شداور اس کا معنی ہے وہ انہیں خبر دے گا ان سے بات کرے گا ۔اور دوسرے قراء نے اس کو " تَكْلِمُهُمْ " پڑھا ہے اس کا معنی ہے وہ ان کو نشان لگائے گا ۔
اور نشان سے مراد وہی ہے جو حدیث رسول سے ہم نے پیش کیا ۔
حدثنا عليّ، قال: ثنا أبو صالح، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله: (أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الأرْضِ تُكَلِّمُهُمْ) قال: تحدثهم.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ان سے بات کرے گا محادثہ کرے گا ۔
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قَتادة، قوله: (أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الأرْضِ تُكَلِّمُهُمْ) وهي في بعض القراءة "تحدثهم"تقول لهم: (أن الناس كَانُوا بِآيَاتِنَا لا يُوقِنُونَ)
حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ ان سے باتیں کرے گا اور وہ یہ کہ لوگوں نے اللہ کی باتوںپر ایمان نہیں لایا۔(تفسير الطبري جلد 19 صفحہ 500 زیر سورہ النمل )
آئیں اب ہم آپ کو تفسیر ابن کثیرسے آیت کی تفسیر دکھاتے ہیں ،امام ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔
"قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَالْحَسَنُ، وقَتَادَةُ -ورُوي عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: تُكَلِّمُهُمْ كَلَامًا أَيْ: تُخَاطِبُهُمْ مُخَاطَبَةً." ( تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 210 )
حضرت ابن عباس ، حضرت حسن ،حضرت قتادہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ وہ ان سے کلام کرے گاان سے بات چیت کرے گا ۔
آئیں اب ہم آپ کو تفسیر ابن ابی حاتم سے اس آیت کی تفسیر دکھاتے ہیں ، امام ابن ابی حاتم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔
"حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ كَاتِبُ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: دَابَّةً مِنَ الأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ يَقُولُ: تُحَدِّثُهُمْ- وَرُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ مِثْلُ ذَلِكَ." ( تفسیر ابن ابی حاتم جلد 9 صفہ 2926 )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی کہ وہ ان سے باتیں کرے گا اور حضرت قتادہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے ۔
اور اسی صفحے کے حاشیے میں مرزا نے توریت وا نجیل کے حوالے بھی ذکر کیے ہیں جہاں اس کے بقول یہ ذکر ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی چنانچہ لکھا کہ :۔
" مسیح موعود کے وقت طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے ۔ ذکریا 12:14 ، انجیل متی 8:24 م، مکاشفات 8:22 " ( کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5 )
یعنی مرزا کے دعوے کے مطابق عہد نامہ قدیم کی کتاب زکریا کے باب 14 کی آیت 12 ، عہد نامہ جدید کی کتاب متی کی انجیل کے باب 24 کی آیت 8 اور اسی عہد نامہ جدید کی آخری کتاب مکاشفہ کے باب 22 کی آیت 8 میں یہ مذکور ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی ۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا کتابوں میں کیا لکھا ہے ؟
عہد نامہ قدیم کی کتاب " زکریا " باب 14 کا حوالہ ۔
ہمارے سامنے اس وقت بائبل کا اردو ترجمہ ہے جو کہ " کتاب مقدس " کے نام سے پاکستان بائبل سوسائٹی کا شائع کردہ ہے ، یاد رہے کہ بائبل کے نام سے جو کتاب آج کے زمانے میں موجود ہے وہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے کو عہد نامہ قدیم کہتے ہیں اس میں توریت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے انبیاء کی طرف منسوب کتابیں وغیرہ ہیں اور دوسرا حصہ عہد نامہ جدید اس میں چار مختلف انجیلیں اور پولس کے خطوط ہیں ۔ سب سے پہلے عہد نامہ قدیم کی کتاب زکریا باب 14 آیت 12 پیش ہے ۔
آیت 12 : خدا سب قوموں پر جنہوں نے یروشلم سے جنگ کی یہ عذاب نازل کرے گا کہ کھڑے کھڑے ان کا گوشت سوکھ جائے گا ، ان کی آنکھیں چشم خانوں میں گل جائیں گی اور ان کی زبان ان کے منہ میں سڑ جائے گی " اس کے بعد آیت 13 اور 14 اور 15 بھی پڑھ لیں تاکہ بات واضح ہوجائے ۔
" آیت 13 : اس خدا لوگوں کو بڑے عذاب سے مارے گا وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں گے اور ایک دوسرے پر حملے کریں گے ،
آیت 14 : یہود ا بھی یروشلم میں لڑے گا اردگرد کی سب قوموں کا مال اکٹھا کیا جائے گا کثرت سے سونا چاندی اور لباس جمع ہوگا ،
آیت 15 : اور گھوڑوں ، خچروں،اونٹوں ،گدھوں اور سب حیوانوں پر جو ان لشکر گاہوں میں ہوں گے وہی عذاب نازل ہوگا۔
قارئین محترم ! کیا ان آیات میں کہیں بھی ایسی کوئی بات ہے کہ " مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی " ؟ پھر یہاں تو یروشلم یعنی بیت المقدس کا ذکر ہے اور مرزا قادیانی تو موت کے ڈر سے انگریز ی حکومت کے صوبہ پنجاب سے بھی باہر نہ نکلا بلکہ اسے لاہور آتے ہوئے بھی قتل ہوجانے کا خوف رہتا تھا اس نے تو یروشلم کا منہ تک نہ دیکھا ۔
عہد نامہ جدید کی کتاب " انجیل متی باب 24 آیت 8 کا حوالہ ۔
مرزا غلام قادیانی نے دوسرا حوالہ انجیل متی کا دیا تھا اور یہ ایسا حوالہ ہے کہ خود صیاد اپنے دام میں آگیا اس حوالے کے اندر دور دور تک نہ کسی مسیح موعود کا ذکر اور نہ ہی طاعون کا کوئی نام ونشان ، لیکن بائبل کے اس مقام کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بڑی دلچسپ بات ہماری نظر سے گزری جس مرزا غلام قادیانی خود نقلی اور جعلی مسیح ثابت ہوگیا، آئیے اب پڑھتے ہیں انجیل متی کے اس باب 4 تا 11 کی آیات :۔
" 4 : یسوع نے جواب میں ان سے کہا: خبردار ! کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے
5: کیونکہ بہت سے میرے نام سے آئیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے
6: لڑائیاں ہونگی اور تم لڑائیوں کی خبریں اور افواہیں سنو گے خبردار گھبرانا مت کیونکہ ان باتوں کا ہونا ضروری ہے لیکن ابھی خاتمہ نہ ہوگا ،
7 : کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی ، جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور زلزلے آئیں گے ۔
8: مصبتوں کا آغاز انہی باتوں سے ہوگا ۔
9: اس وقت لوگ تمہیں پکڑ کر سخت ایذا دیں گےاور قتل کریں گے اور ساری قومیں میرے نام کی وجہ سے تم سے دشمنی رکھیں گی ۔
10: اس وقت بہت سے لوگ ایمان سے برگشتہ ہوکر ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور آپس میں عدوات رکھیں گے
11: بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے ۔
دوستو ! آپ نے دیکھا کہ ان آیات میں مسیح موعود کا ذکر نہیں بلکہ نقلی اور جعلی جھوٹے مسیحوں کااور جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر ہے ، نیز آیت نمبر 8 میں جس کا مرزا غلام قادیانی نے حوالہ دیاہے دور دور تک اس میں طاعون کا ذکر اور نہ مسیح موعود کا کوئی حوالہ ، لیکن مرزا نے اپنا جھوٹ ثابت کرنے کے لئے انتہائی فریب اور کذب بیانی سے کام لیا ۔
مرزائی عذر نمبر1 ۔
مرزائی کہتے ہیں کہ بائبل کے پرانے نسخوں میں ان آیات میں طاعون کا بھی ذکر تھا جو بعد میں نکال دیا گیا اور اس کی دلیل پیش کرتے ہیں بائبل کے ایک انگریزی ترجمہ جسے " کنگ جیمس ورژن " کہا جاتا ہے ، یہاں یہ یاد رہے کہ توریت اور انجیل کی اصل زبان عبرانی ہے جس کا اقرار مرزا غلام قادیانی نے بھی کیا " خزائن جلد 15 صفحہ 141،142 " اور کہتے ہیں کہ بائبل کے ا س انگریزی ترجمے میں اس باب کی آیت7 میں ایک لفظ " Pestilences " تھا اور اس کا مطلب ہے طاعون یہ لفظ بعد میں بائبل کے انگریزی اور اردو نسخوں سے نکال دیا گیا ہے۔
جواب :
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ بائبل سے کیا کیا نکال دیا گیا اور کیا کیا نیا داخل کیا گیا ، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اس لفظ کا ترجمہ طاعون ہے ، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مرزا نے آیت 8 کا حوالہ دیا تھا نہ کے 7 کا ، اس کے بعد بھی بائبل کے اس مقام کا مطالعہ کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات میں جن چیزوں کی خبر دی گئی ہے وہ اس وقت ہوں گی جب نقلی اور جعلی مسیح ظاہر ہوں گے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے ، اور آیت 11 کے مطابق جھوٹے نبی بھی اٹھ کھڑے ہوں گے ، لہذا ثابت ہوا مرزا غلام قادیانی نقلی اور جعلی مسیح تھا اور جھوٹا نبی تھا کیونکہ اس کے اپنے دعوے کے مطابق یہ سب باتیں اس کے زمانے میں پوری ہوئیں اور طاعون بھی اس کے مطابق اس کے زمانے میں ہی پڑی ۔
مرزائی عذر نمبر 2 ۔
کہتے ہیں اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو وہ نشانیاں بتائی ہیں جن کے پورے ہونے کے بعد اصلی مسیح موعود نے آنا ہے اور وہ مسیح مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی ہے اور اس پیش گوئی کے مطابق مرزا سے پہلے بہت سے لوگوں نے مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور ان جھوٹوں کے بعد سچا مسیح آگیا ۔
جواب
دوستو ! انجیل متی کے اسی باب کی آیت 30 میں اصلی مسیح علیہ السلام کے نزول کی منظر کشی بھی کی گئی آئیے وہ دیکھتے ہیں :۔
" پھر آدم کے بیٹے کا نشان آسمان میں دکھائی دے گا اور دنیا کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو آسمان سے بادلوں پر عظیم قدرت اور جلال کے ساتھ آتا دیکھیں گی اور وہ اپنے فرشتوں کو نرسنگے کی آواز کے ساتھ بھییجے گا "
تو بائبل میں تو یہ لکھا ہے کہ ان سب جھوٹے نقلی اور جعلی مسیحوں کے بعد جب اصلی مسیح آئے گا تو لوگ اسے بادلوں کے اوپر سے نیچے آتا ہوا دیکھیں گے یعنی وہ آسمان سے نازل ہوگا جیسا کہ احادیث مبارکہ میں بھی موجود ہے ، یہاں بھی مرزا غلام قادیانی مراد نہیں ہوسکتا نیز اس سچے اور مسیح کے زمانے میں نہ زلزلوں کی کوئی خبر دی گئی اور نہ ہی قحط یا طاعون کی ۔
عہد نامہ جدید کی کتاب مکاشفہ باب 22 آیت 8 کا حوالہ۔
مرزا غلام قادیانی نے تیسرا حوالہ دیا مکاشفات باب 22 آیت 8 کا م ہمیں بائبل میں مکاشفات کے نام کی تو کوئی کتاب نہیں ملی البتہ عہد نامہ جدید کے آخر پر " یوحنا عارف کا مکاشفہ " نام کی ایک کتاب موجود ہے شاید مرزا غلام قادیانی نے بھی اسی کا حوالہ دیا ہے آئیے اس میں مرزا کا ذکر کردہ مقام دیکھتے ہیں ، کہ وہاں کسی مسیح موعود یا طاعون کا ذکر ہے ؟
آیت 7: دیکھ میں جلد آنے والا ہوں ، مبارک ہے وج اس کتاب کی نبوت کی باتوں پر عمل کرتا ہے
آیت 8 : میں یوحنا وہ شخص ہوں جس نے ان باتوں کو سنا اور دیکھا اور جب میں یہ باتٰیں سن چکا اور دیکھ چکا تو میں اس فرشتے کے قدموں پر سجدے میں گر پڑا ۔
یہا ں بھی دور دور تک نہ کسی مسیح موعود کا ذکر اور نہ ہی طاعون کا ذکر ۔
محترم قارئین ! آٌپ نے دیکھا کہ مرزا غلام قادیانی نے بائبل کو بھی نہیں بخشا اور اپنے صریح جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے اس نے کیسے کیسے جھوٹے حوالے دیئے ، اور اپنے پیش کردہ حوالے سے وہ نقلی اور جعلی مسیح ثابت ہوگیا ، اس نے خود ہی ایک جگہ لکھا تھا کہ :۔
" ممکن نہیں نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں " ( خزائن جلد 19 صفحہ 5 )
نیز اس نے لکھا تھا :۔
" پیشگوئی تو انجیل اور تورات کی بھی ماننی پڑے گی اگر وہ صفائی سے پوری ہوجاوے " (خزائن جلد 18 صفحہ 507 )
اور حضرت مسیح علیہ السلام کی انجیل متی میں مذکور پیشگوئی سو فیصد پوری ہوئی کہ " خبردار کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے کیونکہ بہت سے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے ۔۔۔۔ بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے " ۔۔۔۔
آخری تدوین
: