قرآن پاک کا اعجاز
چونکہ ان جگہوں میں ایک دوسرے کا سامنا ہوا یا مقابلہ کی شکل بنی تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایک کے ہاتھ دوسرے تک پہنچنے سے روکے رکھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں یہود اور پولیس سے مقابلے اور آمنے سامنے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس لئے ایدی نہیں فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو آپ سے روکے رکھا۔ نہ تو وہ آپ تک پہنچنے پائے اور نہ ہی مقابلے کی صورت پیدا ہوئی۔ ایک صورت اعجاز کی یہ بھی ہے۔ اب آپ مجددین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
۱… مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر جلالین زیربحث آیت میں فرماتے ہیں۔
’’ وکھلاً یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ، رفع قبل الکہولۃ کما سبق فی (آل عمران)‘‘ {وکہلاً سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے اس لئے کہ وہ کہولت سے پہلے ہی اٹھالئے گئے تھے۔}
۲… 2540مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ (تفسیر کبیر ج۸ ج۴ ص۵۵) میں فرماتے ہیں: ’’ نقل ان عمر عیسیٰ علیہ السلام الیٰ ان رفع کان ثلاثاً وثلاثین سنۃ وستۃ اشہر وعلیٰ ہذا التقدیر فہو مابلغ الکھولۃ والجواب من وجہین… والثانی قول الحسین بن الفضل ان المراد بقولہ وکہلاً ان یکون کہلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص علیٰ انہ علیہ السلام سینزل الی الارض ‘‘ {نقل ہے جب عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے ان کی عمر ساڑھے تینتیس برس تھی۔ (گویا انہوں نے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں نہیں کیں) حضرت حسین بن الفضل فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ نزول کے بعد کہولت کے زمانہ میں وہ باتیںکریں گے۔ ہزارہا سال کے بعد بوڑھا نہ ہونا پھر ادھیڑ ہوکر باتیں کرنا یہ وہ نعمت ہے جس کو قیامت کے دن اﷲتعالیٰ جتائیں گے۔ حضرت حسین بن فضل فرماتے ہیں کہ آیت میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عنقریب زمین پر اتریں گے۔}
باقی دوسرا احسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پنگھوڑے میں باتیں کرنا یہ کیا مشکل ہے۔ جب جبرائیل علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے کی مٹی سے سامری کا بچھڑا جو دھات سے بنا تھا بول اٹھا، تو جو بزرگ پیدا ہی جبرائیل علیہ السلام کی پھونک سے ہوئے تھے۔ ان کا بچپن میں باتیں کرنا کیوں تعجب خیز ہے؟ مرزاغلام احمد قادیانی نے تو لکھا ہے کہ ’’میرے اس لڑکے نے دوبارہ ماں کے پیٹ میں باتیں کیں۔‘‘ خدا جانے کہاں کان رکھ کر یہ باتیں سنی گئیں؟ بہرحال یہ اس سے زیادہ مشکل ہے۔