• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں بارھواں دن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جومخالف نہیں اس سے کیا مراد ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: ’’جو مخالف نہیں‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں، ’’مخالف نہیں ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس کو دنگاوفساد بھی نہیں کرتا، وہ گالی گلوچ بھی نہیں کرتا، وہ بُرا بھلا نہیں کہتا، اور وہ اس قسم کے رویہ اِختیار نہیں کرتا کہ مذہبی اِختلاف کی وجہ سے ان اِختلافات کو سوشل معاملات میں بڑھادے اور مشکلات پیدا کردے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو مرزا صاحب کی مخالفت یا اُن کو بُرا بھلا کہنے والے تو وہی لوگ تھے جو اُس کو نبی نہیں مانتے تھے، یا اُن کے دعوے نہیں مانتے تھے۔
1615جناب عبدالمنان عمر: یہ ضروری نہیں ہے۔ بہت سے لوگ، بڑی تعداد ہے، مجھے آپ موقع دیں تو میں آپ کو عرض کروں گاکہ مسلمانوں کے بہت بڑے بڑے چوٹی کے لوگ مرزا صاحب کی تعریف کرتے تھے اور یہ کہنا کہ جی، جو مرزا صاحب کے عقیدے کو نہیں مانتا وہ مرزا صاحب ہی کا مخالف ہے، بُرا بولتا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ میں اس کے لئے جنابِ والا! اگر آپ اِجازت دیجئے تو میں عرض کروں گا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، بہت کچھ کہا آپ نے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! ڈاکٹر سر محمد اقبال بہت بڑے چوٹی کے انسان تھے۔ اُن کو بعد میں ہم سے اِختلاف بھی پیدا ہوگیا تھا۔ مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کا بیان اور یہ تحقیق جو ہے، منیر انکوائری میں پیش ہوچکی ہے۔ اُن کا یہ بیان ہوچکا ہے کہ اُنہوں نے مرزا صاحب کے دعوے کے پانچ سال بعد ۱۸۹۷ء میں مرزا صاحب کی بیعت کرلی تھی اور یہ چیز اخبار ’’نوائے وقت‘‘ ۱۵؍نومبر ۱۹۵۳ء میں بھی چھپ چکی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کس نے بیعت کرلی؟)
جناب یحییٰ بختیار: یہ کس نے بیعت کرلی تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: سر محمد اقبال۔
جناب یحییٰ بختیار: سر اقبال نے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ اچھا جی، پھر۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ایک بات آپ سے پوچھ سکتا ہوں میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا!
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ آپ بات مجھے کرنے نہیں دیتے۔ اگر آپ ذرا میری…
جناب عبدالمنان عمر: معاف کیجئے گا، ابھی میری ذرا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر تھوڑی سی میری عرض سن لیں آپ، کہ آپ نے یہاں جو حوالے دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔
1616Madam Acting Chairman: (To the witness) Please speak slowly.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: (گواہوں سے) براہِ کرم آہستہ بولیں)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ آپ نے مرزا صاحب کی نبوّت کے اِنکار کے حوالے دئیے ہیں کافی، ۱۹۰۱ء کے بعد، اُن کے بعد بھی۔ تو جب آپ یہ حوالے دیتے ہیں یا وہاں سے کچھ حوالے پڑھتے ہیں، صرف آپ وہی حوالے پڑھتے ہیں جو آپ کے حق میں ہوں یا آپ کی Stand کی جو Support کرتے ہوں۔ جو مخالف ہوں وہ تو آپ نہیں دیتے۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جنابِ والا! میرا موقف، میں نے شروع میں عرض کیا تھا…
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ آپ سے پوچھتا ہوں کہ علامہ اقبال کا آپ ذِکر کرتے ہیں کہ ان کی وفات پر انہوں نے یہ کہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علامہ اقبال نے تیس سال کے بعد کیا کہا…
جناب عبدالمنان عمر: میں وہ عرض کروں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ کے اپنے جواب میں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جی، میں ضرور عرض کروں گا کہ علامہ صاحب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا مودودی نے پوری کتاب لکھ دی، آپ اُس کا ذِکر نہیں کررہے۔
جناب عبدالمنان عمر: ضرور کروں گا جناب!
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے ایک فقرہ لے لیا کہیں سے کہ مولانا مودودی نے یہ کہا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جناب! میں اُن کا ضرور یہ موقف بیان کروں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے یہ پوچھا کہ آپ نے۔۔۔۔۔۔
1617جناب عبدالمنان عمر: اگر وہ مجھے۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(علامہ اقبالؒ کا ایک فقرہ لے لیا)
جناب یحییٰ بختیار: آپ بات نہیں کرنے دیتے۔ آپ نے جو جواب داخل کیا ہے، میں اس کا پوچھ رہا ہوں کہ اس میں آپ نے ذِ کر کیا کہ علامہ اقبال نے یہ کہا، ایک فقرہ اُن کا لے لیا۔ مولانا مودودی نے یہ کہا، ایک فقرہ اُن کا لے لیا۔ بعد میں یہ ذِکر نہیں کرتے کہ انہوں نے بعد میں کیا کہا۔ علامہ اقبال نے ۱۸۹۵ء میں بیعت کی، علامہ اقبال نے ۱۹۱۱ء میں تعریف کی کہ بہت بڑے مفکر تھے اسلام کے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں جاکے پڑھی تھی کیا ظلم ہوا، اِس آدمی نے کہا کیا ہے۔ پھر ۱۹۳۴ء میں جاکے ان کو اور خبر پڑی۔ پھر انہوں نے کہا کہ نہیں، یہ تو معاملہ ہی اور ہے۔ تو آپ ایسا نہیں کہہ رہے کہ پہلے یہ کہا۔ میں وکیل ہوں، عدالت میں جاتا ہوں۔ میرا ایک کیس ہوتا ہے۔ تین نظیریں میرے خلاف ہیں۔ چار نظیریں میرے حق میں ہیں۔ اگر میں اپنے پیشے کو تھوڑا سا بھی جانتا ہوں گا اور جو بھی وکیل تھوڑا بھی اپنا پیشہ جانتا ہے تو جو نظیر خلاف ہووہ بھی سامنے لاکے رکھ دیتا ہے، جو حق میں ہو وہ بھی سامنے رکھ دیتا ہے… یہ ایک عدالت ہے… اور پھر کہتا ہے کہ جی! اس کا مطلب یہ ہے، یہ میرے کیس میں نہیں Apply کرتا، وہ اس سے یہ شک پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ میرے کیس پر Apply کرتا ہے۔ تو آپ جو ہیں، علامہ اقبال کا ذِکر کردیتے ہیں کہ وہ بیعت لے آئے تھے، اور اس کا ذِکر نہیں کرتے کہ جب پنڈت نہرو حکومت اور اِقتدار میں آنے لگے تھے ۳۶-۱۹۳۵ء میں کتنے بڑے قادیان والوں نے اُس کے جلوس نکالے، جلسے نکالے۔ انہوں نے کہا کہ بھئی! یہ دیسی پیغمبر بن رہا ہے، بڑی اچھی بات ہے یہ۔ پھر علامہ اقبال کود پڑے، ان کی مخالفت کی۔ اِس کا آپ ذِکر نہیں کرتے۔ تو اِس لئے ایسے آدمی کا ذِکر نہ کریں کہ جنہوں نے آپ کی بہت زیادہ مخالفت کی ہے، اور آپ کہیں گے کہ ایک فقرہ میرے حق میں جا1618رہا ہے یا علامہ اقبال نے بیعت کیا، کیونکہ اس کا فائدہ نہیں۔ نہ ہی وہ حوالے ہمیں پیش کریں جو کہ آپ کے حق میں ہوں، وہ حوالے جو خلاف ہیں، آپ کہتے ہیں کہ جی ’’یہ ہم نہیں پیش کررہے۔‘‘ کیونکہ آپ نے ہماری مدد کرنی ہے یہاں کہ ہم صحیح فیصلے پر پہنچیں، اور یہی مطلب ہے کہ آپ کو Reques (درخواست) کی کہ آپ آئیے اور کچھ بتائیے، اس پہ آپ۔ اب جو میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں، آپ اس پر ایک تقریر شروع کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوال وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔
میں نے آپ سے معمولی سوال پوچھا کہ سوشل تعلقات کیا ہیں؟ آپ نے کہا کہ ہم شادی کی اِجازت دیتے ہیں کہ اگر احمدی لڑکی ہے تو وہ غیراحمدی مسلمان سے شادی کرسکتی ہے۔ ویسے تو یہ ٹھیک ہے۔ کوئی مسلمان بھی دیکھے کہ اچھے گھر میں شادی ہو، وہ تو اور Consideration (مقصد) ہے۔ آپ کو اس پر کوئی اِعتراض نہیں، یہ بات ہم نے نوٹ کرلی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش۔۔۔۔۔۔ موقع مجھے نہیں ملا عرض کرنے کا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، آپ کو پورا موقع ملے گا۔ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دے دیں۔
جناب عبدالمنان عمر: میں اس کی کوشش کروں گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(غیراحمدی کو لڑکی دینے پر خلیفہ وقت نے اسے امامت سے ہٹادیا)
جناب یحییٰ بختیار: تو ابھی آپ نے جو شادی کی بات کی ناں آپ نے، تو میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا پہلے خلیفہ کے وقت اور مرزا صاحب کی وفات کے بعد ایک احمدی نے غیراحمدی کو لڑکی دی تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس کو احمدیوں کی اِمامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا، اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اُس کی توبہ قبول نہ کی، باوجود اس کے کہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔ یہ ایک ’’انوارِخلافت‘‘ میں حوالہ آیا ہوا ہے۔ آپ نہیں مانتے ہوں گے اُسے، مگر یہ Fact ہوا ہے کہ نہیں، حقیقت ہے کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ جنابِ والا! کہ یہ ’’انوارِخلافت‘‘ بھی مرزا محمود احمد صاحب…
1619جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، وہ ٹھیک ہے، میں کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جی، وہ واقعہ میرے سامنے آئے کہ کون شخص ہے جس کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ کون شخص ہے جس کا کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ چھ سال اُس کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ چھ سال کے بعد پھر کیا ہوا؟ وہ کون شخص ہے؟ کیا واقعہ ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: چھ سال تک تو وہ صرف خلیفہ تھے وہ۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، وہ واقعہ کس شخص کا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ایک شخص تھے، مسلمان تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: اُس شخص کا پتا لگنا چاہئے ناںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: مطلب یہ کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا؟ آپ کا یہ خیال ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، نہیں، جب میرے سامنے آئے گی نہیں بات۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، آپ کے علم میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا جناب! کہ میرے سامنے جب تک کوئی واقعہ نہ پیش کیا جائے…
جناب یحییٰ بختیار: یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کے علم میں نہیں ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں۔۔۔۔۔۔
Madam Acting Chairman: The honourable member should......
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناںجی، اگر آپ تو یہ دیکھیں، ایک تو ہوتے ہیں کہ وکیلوں والی بحث، وہ تو ہم کرتے نہیں ہیں، کیس کا ثبوت پہلے میں یا پھر ہم بات کریں گے۔ میں ویسی بات…
Madam Acting Chairman: Mr. Attorney- General, don't you have the name of that person?
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب! کیا آپ کے پاس اس آدمی کا نام نہیں ہے؟)
1620Mr. Yahya Bakhtiar: Whatever I have got is given in "Anwar-i-Khilafat". They have not mentioned the name of the person. But may be given there in that. We can find it out.
(جناب یحییٰ بختیار: میرے پاس جو کچھ ہے، ’’انوارِ خلافت‘‘ میں دیا ہوا ہے، انہوں نے اس آدمی کا نام نہیں لکھا)
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میرے علم میں ایسا کوئی نام نہیں آیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ایسا کوئی واقعہ نہیں آیا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، میرے علم میں یہ نام کبھی آیا نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، یہ آپ بتائیے، یہ تو سوشل۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سوشل تعلقات کے سوال پر بے مقصد طویل گفتگو)
جناب عبدالمنان عمر: جی، میں سوشل کی ۔۔۔۔۔۔۔ ذرا اِجازت دیجئے تو میں گفتگو کروں۔ میں نے علامہ اقبال کا نام اس لئے نہیں لیا تھا کہ وہ اُن کا کوئی فقرہ ایک آدھ میری نظر کے سامنے سے گزرگیا تھا۔ میں آپ کے سوشل تعلقات کے ذِکر میں اُس کو لایا کہ یہ علامہ اقبال صاحب، اتنی شدید مخالفت بعد میں اُنہوں نے کی ہے۔ اگر مرزا صاحب کی وجہ سے ان کی مخالفت ہوتی، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے ہوتی تو وہ اتنا حکیم شخص تھا، اُس نے اتنا عرصہ… معتقدات اُن کے سامنے ہیں، بیعت وہ شخص کرتا ہے… معلوم ہوا وہ اُن معتقدات کے باوجود وہ بیعت کر رہا تھا۔ اُس کو اِختلاف پیدا ہوا۔ میں اُن اِختلافات کا ضرور ذِکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اِختلافات پیدا ہوئے اور اتنے شدید پیدا ہوئے کہ اس پر کتابیں اُنہوں نے لکھیں۔ یہی میرا موقف ہے جناب! کہ لوگوں کو اِختلاف جو ہے مرزا صاحب کے وجود میں، مرزا صاحب کے زمانے میں، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا، بلکہ بعد میں ایسے حالات پید ا ہوگئے اور ایسے نئے Factors جمع ہوگئے جن کی وجہ سے وہ لوگ جو پہلے مرزا صاحب کو مانتے تھے، اُنہوں نے بھی آپ کو چھوڑا۔ یہ تھا میرا موقف۔
اور دُوسری گزارش اس سلسلے میں جو کرنا چاہتا تھا کہ علامہ اقبال وہ ہیں، وہ خود جماعت کے بڑے سخت مخالف، مگر اُن کے بھتیجے جماعت میںشامل، اُن کے بھائی 1621جماعت میں شامل، اُن کے والد جماعت میں شامل۔ کوئی تعلق خراب نہیں تھے، وہی علامہ اقبال جن کے بھائی جماعت میں شامل تھے، وہ اُن کو باپ کی طرح سمجھتے تھے۔ تو محض یہ کہنا کہ اِختلافِ عقائد کی وجہ سے سوشل تعلقات خراب ہوگئے تھے، یہ صورت نہیں ہے۔ جو بُرے لوگ تھے وہ بُرے تعلقات رکھتے تھے۔ جو اچھے لوگ، فہمیدہ لوگ تھے، سلجھے ہوئے لوگ تھے، اُنہوں نے تعلقات خراب نہیں کئے۔ میں نے علامہ اقبال کی مثال اس لئے عرض کی ہے کہ اُسی ایک گھر کے اندر بھائی اور دُوسرا بھائی، اُن کے بھیجتے، اُن کے بیٹے کوئی تعلقات خراب نہیں، اُن کے تعلقات بڑے اچھے تھے۔ یہ تھی وجہ اس نام کے پیش کرنے کی۔
دُوسرا میں عرض یہ کر رہا تھا کہ اگر اُن کے تعلقات اُن کے معتقدات اتنے خراب تھے تو چاہئے یہ تھا کہ وہ شخص جب دعویٰ کرتا تھا، میں نے بتایا ہے کہ اُس وقت بھی اُس کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ درمیان میں ایک دور آیا مخالفت کا اور وہ اِنفرادی طور پر جگہ بہ جگہ اُس مخالفت کا ظہور ہوتا رہا۔ جس بات کا میں نے اِنکار کیا تھا وہ یہ تھی کہ اس طرح ملک گیر پیمانے پر سوائے ۱۹۵۳ء کے اور سوائے موجودہ حالات کے، یہ اِختلافات نے اتنی شدید اور بھیانک صورت اِختیار نہیں کی تھی۔ یہ میں نے تقابل کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ میرا موقف بالکل نہیں تھا کہ بالکل جماعت کی مخالفت ہوئی نہیں۔ میں نے تو خود عرض کیا تھا کہ ان لوگوں کے بعض حصے ایسے تھے، بعض لوگ ایسے تھے، بعض محلے ایسے تھے کہ وہاں اُن کو مسجدوں میں نہیں جانے دیتے تھے، اُن کے جنازے خراب ہوجاتے تھے، تو یہ میں تسلیم کرتا ہوں، یہ حالات پیدا ہوئے، اور اس کی وجہ سے دقتیں بھی پیدا ہوئی تھیں۔ مگر میں عرض یہ کررہا تھا کہ معتقدات اپنی جگہ یا وہ دعوے ایسے نہیں تھے جن کی وجہ سے اتنا عالمگیر قسم کا اور اتنا ہمہ گیر قسم کا کوئی اِختلاف ہوتا۔ یہ میرے علم میں صرف دو مثالیں ہیں۔ پھر یہ کہ مرزا صاحب جب فوت ہوئے تو جماعت کا ذِکر میں نہیں کررہا، مسلمانوں کا ذِکر 1622کر رہا ہوں جو اُن کے ہم عقیدہ نہیں تھے، اُن میں سے یہ دیکھئے مولانا ابوالکلام آزاد، وہ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص، بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا، زبان جادو، وہ شخص دماغی عجائبات کا مجموعہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی اُنگلیوں سے اِنقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے، جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا، خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا۔ یہ تلخ موت، یہ زہر کا پیالہ جس نے مرنے والی کی ہستی تہِ خاک پنہاں کردی، ہزاروں لاکھوں زبانوں پر تلخ کامیاں بن کے رہیں گے اور قضاء کے حملے نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتلِ عام کیا ہے، صدائے ماتم مدّت تک اس کی یاد تازہ رکھے گی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور ایسے لوگ جن سے مذہبی یا اپنی دُنیا میں اِنقلاب پیدا ہوتا ہے، ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظرِعالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں اِنقلاب پیدا کرکے دِکھادیتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اِختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو اُن تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیا کہ اُن کا ایک بہت بڑا شخص اُن سے جدا ہوگیا۔‘‘
یہ مولانا ابوالکلام آزاد، جو اِن کے ماننے والے نہیں تھے، یہ اُن کا تأثر ہے۔ اسی طرح۱؎…
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(یہ کس سوال کا جواب ہے)
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کس سوال کا جواب دے رہے ہیں؟
1623جناب عبدالمنان عمر: یہ میں اس کا دے رہا ہوں جی کہ ان کے معتقدات ایسے نہیں تھے جس کے نتیجے میں ملک کی سوشل حالت خراب ہو یا جس سے پڑھا لکھا طبقہ جو ہے وہ یہ محسوس کرے کہ ہمارے اندر بڑا خطرناک اِشتعال پیدا ہوتا ہے اِس شخص کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ سوال ختم ہوچکا ہے، صاحبزادہ صاحب! میں اس کے بعد آپ سے پوچھ رہا ہوں Details (تفصیلات) میں نے عرض کیا کہ سوشل تعلقات کیسے تھے؟ آپ نے کہا: شادی کی اجازت دیتے تھے وہ۔ اب یہاں میں آپ کو پھر وہ بشیرالدین صاحب کا ایک حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں، یہ اُسی کتاب سے ہے "Ahmad....." جو ان کی کتاب ہے۔ وہ ایک چیز کہہ رہے ہیں، وہ چیز غلط ہے تو آپ بتادیں گے کہ آپ نے اُس چیز کی تردید کی ہے اور یہ ۱۶-۱۹۱۵ء کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہ تحریر مولانا ابوالکلام آزاد کی نہیں ہے۔ ان سے منسوب کی گئی۔ لیکن انہوں نے بہت واضح انداز میں اس کی تردید کر دی تھی۔ (مرتب)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"The same year 1898......"
اٹھارہ سو اٹھانوے میں:
"The same year with a view to strengthen the bonds of the Community and to preserve its distinctive features he promulgated rules regarding marriage and social relations and forbade Ahmadis to give their daughters in marriage to non-Ahmadis."
(اسی سال یعنی ۱۸۹۸ء میں جماعت کے رشتوں کو اُستوار کرنے کے لئے اور جماعت کی نمایاں حیثیت کی خاطر اس سے شادی بیاہ اور معاشرتی اُمور کے بارے میں حکم جاری کیا اور احمدیوں کو اپنی بیٹیوں کی شادیاں غیراحمدیوں کے ساتھ کرنے سے روک دیا)
یہ ۱۸۹۸ء میں مرزا صاحب نے اپنے فرقے کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ احمدی لڑکیوں کی شادی غیراحمدیوں سے نہیں ہوگی۔ یہ کیا آپ اپنے لٹریچر میں بتاسکتے ہیں کہ اس بات کی آپ نے کبھی بھی تردید کی؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں گزارش کرتا ہوں کہ مرزا محمود احمد صاحب کی تحریرات، ان کی کتابیں، ان کے بیانات، ان کی بیان کردہ تاریخ، کسی قسم کی نہ صرف یہ کہ حجت نہیں ہے، بلکہ مجھے معاف کیجئے گا جب میں یہ کہوں کہ وہ خطرناک حد تک Misleading ہیں۔
1624جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے صرف ایک عرض کیا آپ سے کہ ایک آدمی مرزا صاحب کے بارے میں، جو اُن کا بیٹا ہے، خلیفہ وقت بیٹھا ہوا ہے، اور آپ اُن کے زہد ’’الفضل‘‘ اور آپ کے اخباروں میں Controversy چل رہی ہے، اور یہ پورے ۱۹۱۴ء سے آج تک ہم دیکھ رہے ہیں، یہ Controversy جاری ہے: مرزا صاحب نے یہ نہیں کہا، اُس نے کہا، یہ نہیں کہا۔ جب اتنی بڑی بات کہتے ہیں کہ غیراحمدی مسلمان سے لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی۔ یہ ۱۹۱۵ء میں یہ کہتے ہیں، ۱۹۱۶ء میں، اور اُس سے آج تک آپ کے کسی لٹریچر میں یہ ہے کہ یہ چیز غلط ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں شاید پورا صحیح بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے عرض کیا تھا اسی مرزا بشیرالدین کی سالی کی شادی جو ہے، انہی بشیرالدین کی۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(غیر احمدی کو لڑکی نہ دو، یہ آرڈر مرزا صاحب کا تھا یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں سمجھ گیا ہوں، نہیں، میں یہ سمجھ گیا ہوں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ یہ مرزا صاحب کا آرڈر تھا یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: ظاہر ہے کہ Statement (بیان) غلط ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ غلط ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: بالکل غلط ہے۔ عمل بتا رہا ہے، اُن کے اپنے گھر کا واقعہ بتا رہا ہے کہ غلط ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(آپ کسی مسلمان امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا جی، یہ آپ بتائیے یہ جو نماز ہوتی ہے، باقی مسلمانوں سے مل کر پڑھتے ہیں آپ؟ نماز باقی مسلمانوں سے مل کر پڑھتے ہیں؟ کوئی مسلمان اِمام آپ کی جماعت کا اِمام نہ ہو تو آپ اُس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں نے گزارش کی تھی کہ ہم لوگ، مرزا صاحب کی ہمیں جو تلقین ہے، یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک خود کافر نہیں بن جاتا وہ مسلمان ہے، اور اُس کے پیچھے ہمیں نماز پڑھنی چاہئے۔ لیکن نبی اکرمa کا یہ فرمان ہے 1625کہ جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے، وہ کفر اُلٹ کر اُس پر پڑجاتا ہے اور آدمی کو چاہئے کہ اپنے اِمام مقتدیوں میں سے بنائے۔ جب وہ شخص ایک، ہماری رائے میں، وہ ایک ایسے شخص کو جو ہمارے نزدیک مؤمن مسلمان ہے، کافر قرار دیتا ہے تو نبی کریم کا فرمان یہ ہے کہ وہ کفر اُلٹ کر اُس پر پڑا۔ اگر علماء آج یہ فتوے واپس لے لیں کہ مرزا صاحب کافر نہیں ہیں تو ہم آج بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کسی اپنے امام کے پیچھے قائداعظم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی)
جناب یحییٰ بختیار: جزاک اللہ، بڑی اچھی بات آپ نے کی۔ میں آپ سے ایک اور سوال پوچھتا ہوں۔ یہ قائداعظم کی جب بات تھی کہ چودھری ظفراللہ خان نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کی، یہ اس سے بڑی Controversy ہوگئی ہے، حالانکہ آپ کا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے، چودھری صاحب اور دُوسرے جو ہیں۔ کیا آپ لوگوں نے کوئی قائداعظم کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی کسی اپنے کسی اِمام کے پیچھے؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! پڑھی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: پڑھی ہے، ٹھیک ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: اور نہ صرف اُن کی بلکہ اور بھی بہت مثلاً سرآغاخان مرحوم کی اور بھی بہت سارے۔
جناب یحییٰ بختیار: مگر ربوہ والے نہیں کرتے وہ؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! اُن کے متعلق میں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے کہا کہ… اچھا وہ یہ بتائیے کہ اگر اِمام نے یہ فتویٰ نہ دیا ہو تب تو آپ اُس کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟
1626جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ ہمارے اِمام مولانا نورالدین کا یہ شائع شدہ فتویٰ موجود ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب آپ مکے وغیرہ میں جاتے ہیں یا دُوسری جگہ میں جاتے ہیں، یورپ میں جاتے ہیں، تو وہاں تو فتویٰ ہمارے خلاف نہیں تھا، وہ کہتے ہیں نماز پڑھو، اور پڑھتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(آپ کسی مسلمان کا جنازہ پڑھتے ہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: اور یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ہو جس نے کوئی فتویٰ نہ دیا ہو، یا اُس فرقے سے جس سے اُس کا تعلق ہو اُس فرقے نے فتویٰ نہ دیا ہو، وہ مرجائے تو جنازہ بھی پڑھتے ہیں آپ کے ہاں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: اور اگر فتویٰ دیا ہو تو پھر نہیں پڑھتے؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کے فرمان کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اُس میں ہم نہیں کوئی فتویٰ دیتے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top