• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں پندرواں دن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت کریمہ سے غلط مطلب براری
مندرجہ آیت کریمہ سے قتل مرتد کے اسلامی مسئلہ کے خلاف بھی کام لیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی غلط ہے۔ جب ایک شخص پاکستان کی رعیت نہیں، اس پر کوئی پاکستانی قانون لاگو نہیں۔ مگر جب وہ خود پاکستانی بن جائے اور یہاں کے سارے قوانین کی پابندی کو مان لے۔ پھر اس کی 2357خلاف ورزی پر اس کو سزا دی جائے گی۔ اسی اصول پر زنا، چوری، ڈاکہ، قتل، بغاوت اور ارتداد وغیرہ کی سزاؤں کا دارومدار ہے۔ یہ اسلام کے اندررہنے والوں کے لئے ہے۔ لیکن کسی باہر والے شخص کو اسلام لانے کے لئے مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ یہی آیت کریمہ کامفہوم ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سلام کرنے والے کو مومن نہ کہنے کا حکم
قرآن کی اس آیت سے بھی مرزا ناصر احمد صاحب نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر ہم یہ بحث مسلمان کی تعریف میں کریں گے(انشاء اﷲ تعالیٰ) حضرت اسامہؓ کی حدیث بھی ناصر احمد صاحب نے نقل کی ہے کہ جنگ میں ایک شخص نے کلمہ پڑھا۔ انہوں نے پھر اس کو قتل کر دیا۔ اس پر سرور عالم ﷺ نے خفگی کااظہار فرمایا۔ اس پر بھی مسلمان کی تعریف کے وقت روشنی ڈالی جائے گی۔(انشاء اﷲ تعالیٰ)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تہتر فرقوں والی حدیث
مرزا ناصر احمد نے نکتہ استحقاق پیش کیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ ستفرق ہذا الامۃ علی ثلاث وسبعین فرقۃ کلھا فی النار الا واحدۃ (مشکوٰۃ ص۳۰ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘
{یہ امت عنقریب تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ سب فرقے آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔}
یہاں مرزا جی نے اگلے لفظ کھا لئے ہیں۔ مگر آگے چل کر مودودی صاحب کے ترجمان القرآن جنوری ۱۹۴۵ء سے نقل کیا ہے۔ اس کے آخر میں باقی الفاظ نقل کر دیئے ہیں۔
’’ قالوا من ھی یارسول اﷲ قال مااناعلیہ واصحابی ‘‘
{صحابہؓ نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون ساہے۔آپ ﷺ نے فرمایا جو میرے اورمیرے صحابہؓ کے طریقے پرہو۔}
(صفحہ ۱۰)پرمرزا صاحب نے مودودی صاحب کی تحریر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ مودودی صاحب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:’’اس حدیث میں جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور 2358پر بیان کر دی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ اورآپ ﷺ کے صحابہ ؓ کے طریق پرہو گی۔ دوسرے یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی۔‘‘
مرزاناصر احمد صاحب کا نکتہ استحقاق یہ ہے کہ حضور ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان کے بالکل برعکس اپوزیشن کے علماء کی طرف سے پیش کردہ ریزولیشن یہ ظاہر کررہا ہے کہ امت مسلمہ کے بہتر فرقے تو جنتی ہیں اورصرف ایک دوزخی ہے جو قطعی طور پرحضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی حدیث مبارک کے خلاف اورآپ ﷺ کی صریح گستاخی ہے۔
یہاں گویا مرزا جی گھبرارہے ہیں کہ صرف وہی جہنم کے ایندھن ہوںگے۔ باقی سب جنتی ہیں۔ یہ تمام تقریر بناء فاسد علی الفاسد ہے۔اس حدیث میں بہتر فرقوں کے ناری اور ایک کی نجات کاذکر ہے۔ یہ جنتی اور دوزخی ہونے کے بارہ میں ہے اورظاہر ہے کہ بعض گناہ گار مسلمان بھی ایک بار جہنم میں داخل ہوںگے۔ بہرحال اس حدیث میں کافر اورمسلم کے الفاظ نہیں بلکہ دوزخی اورجنتی کے ہیں۔ اب ان دونوں نے اس حدیث سے غلط فائدہ اٹھایا اور خواہ مخواہ عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بہتر اورتہتر فرقے
نہ یہ تہترواں فرقہ تمام بہتر فرقوں کو کافرکہتا ہے۔ نہ بہتر فرقے اس تہترویں فرقے کو کافر کہتے ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ ان فرقوں میں سے کوئی آدمی حد سے گزر کر صاف کفریہ عقیدے رکھے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا مگر یہ ان بہتر فرقوں کے ساتھ خاص نہیں۔ تہترویں فرقہ اہل سنت و الجماعت کا کوئی فرد بھی اگر کسی بدیہی اور قطعی عقیدے کا انکار کرے تو وہ بھی مسلمان نہیں رہ سکتا۔
مثلاً ختم نبوت کا انکار کردے یا زنا اور شراب کو حلال کہے۔ بہرحال اس حدیث کا کفر و اسلام کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں اورمرزائیوں کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ وہ غیر مسلم اقلیت ہیں۔ وہ قطعی کافر ہیں۔ انہو ں نے مرزا جی کو نبی مان رکھا ہے۔ یہ حیات مسیح علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں۔ معراج جسمانی کے منکر ہیں۔ مرزا جی کی وحی کو قطعی کہتے اور اس پر قرآن کی طرح ایمان 2359رکھتے ہیں اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورتمام پیغمبروں کی توہین کرنے والے کو مجدد اور مسیح کہتے ہیں۔ ان کو کون ان بہتر فرقوں میں داخل کرتا ہے؟ بلکہ یہ ان سب سے خارج اور قطعی کافر ہیں۔ ہم نے یہ جو لکھا ہے کہ مرزا جی نے مودودی صاحب کی تحریر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے کہ مودودی صاحب نے بقول مرزا ناصر احمد کے یہ لکھا ہے کہ ناجی فرقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ نہایت اقلیت میں ہوگا۔ حالانکہ سرور عالم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اتبعو السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار (مشکوٰۃ ص۳۰ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘
{بڑی جماعت کے ساتھ رہو۔اس لئے کہ جو علیحدہ ہوا وہ جہنم میں گیا۔}(او کما قال)
پھراپنے اس فریب کو ان الفاظ میں چھپایا اور ’’اس معمورۂ دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اوربیگانہ لوگوںکی ہوگی۔‘‘
معمورئہ دنیا میں تو کافر بھی ہیں جو زیادہ ہیں اور حدیث جو بڑے گروہ کے ساتھ رہنے کا حکم دیتی ہے۔ تو کیا وہ کفار کیساتھ بھی رہنے کا یہی حکم دیتی ہے؟ یہ ہیں چودھویں صدی کے مجتہد، مجدد اور خود ساختہ خلفائ۔ درحقیقت مسلمانوں کاذکر ہے او رمسلمانوں ہی میں بڑی جماعت اور سواد اعظم کے اتباع کاحکم ہے۔
تو معلوم ہوا کہ بڑی جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میںصحابہ کرامؓ کا اتباع کرنے والوں کی کثرت ہے۔ یہی اہل سنت والجماعت ہیں۔ مگر اس حدیث میں باقی بہتر فرقوں کو کافر نہیں کہاگیا۔
مرزائیوں سے نزاع کفر و اسلام کا ہے۔ اس لئے ناصراحمد صاحب کا یہ نکتۂ استحقاق بالکل غلط ہے۔ انہوں نے صرف مودودی صاحب کی عبارت سے اپنی اقلیت کو اشارۃً حق پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا غلط امید رکھی ہے۔ مرزا ناصرا حمد کو معلوم ہوناچاہئے کہ مودودی صاحب نے بھی صحابہؓ کو معیار حق نہ مان کر اس حدیث کے معنی سے بغاوت کی ہے اور اقلیت کی بات اپنی طرف سے گھسیڑ کر اپنی مٹھی بھر جماعت کو مرزائیوں کی طرح بر حق ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔
2360کہ غیر جانبدار دنیا میں پاکستان جو ہے یہ ہوجائے گا۔ وہ ہو جائے گا۔وہاں جدوجہد کی عبارت ان کے محضر نامے میں نہیں ہے۱؎۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ۱۱ ؍فضول ہے
جناب چیئرمین: یہ اس میں نہیں لکھا ہوا جو لکھا ہوا ہے، وہ پڑھیں یا زبانی بحث کریں۔
مولانا عبدالحکیم: اصل میں…
جناب چیئرمین: اصل میں نہیں، جو لکھا ہوا ہے وہ پڑھیں۔
چوہدری جہانگیر علی: اس میںیہ وضاحت کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔
مولانا عبدالحکیم: بہت اچھا جی۔
مرزا ناصر احمد صاحب نے محضر نامے میں صفحہ ۱۱ پراپنی گذشتہ تحریروں کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ صرف احتیاط کا وعظ ہے اورغیر جانبدار دنیا میں تضحیک کا واویلا کرکے ڈرانے کی کوشش کی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا ناصراحمد صاحب سے
ہم بھی مرزا صاحب کو وعظ کرتے ہیں کہ لنڈن کی جمہوریت دنیا بھر کی جمہوریتوں میں مشہو ر ہے۔ لیکن وہاں کی پارلیمنٹ نے لواطت کو جائز قرار دیا ہے۔ کیا ہم ان لوگوں کے ہنسنے سے ڈریں یا ان پرہنسیں یا امریکہ سے شرمائیں جو کسی کمیونسٹ کو کلیدی آسامی پرمقرر نہیںکرسکتا۔ یا روس کاخیال کریں جوکسی امریکی جمہوریت پسند کو ذمہ دارانہ عہدہ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ اصولی حکومتیں ہیں۔ جوشخص ان کے اصول نہ مانے اس کو وہ نہ رکھیں۔پھر ہمارا مملکتی مذہب اسلام ہے۔ ہمارا دین اسلام ہے تو جو شخص اس اسلام کے اصول کے خلاف ہو۔ اس کو ہم کیوں برداشت کر کے اپنے اوپر مسلط کریں۔ اگر آپ(مرزا ناصراحمد) واقعی حق پسند ہیں تو مرزائیت ترک کردیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہاں مداخلت کے باعث میں خلط ہو گیا ہے۔ لیکن ہم نے اصل جوں کا توں رہنے دیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ کو اپنا اجربھی ملے گا اور ان دوسرے مرزائیوں کا بھی جو مسلمان ہوں گے۔
2361مرزا صاحب!مغربی دنیا میں ابھی تو کالے،گورے کی تفریق موجود ہے۔ انہوں نے سیاست کو مذہب سے علیحدہ رکھا ہے۔ وہ سرقہ اور زنا کی اسلامی سزاؤں کے خلاف ہیں اور اسی لئے وہاں ان جرائم کی بھرمار ہے۔ وہ عورتوں کو وراثت دینے کے خلاف ہیں۔ وہ اسلامی طلاق او ر متعدد ازدواج کوغلط کہتے ہیں۔ شرعی پردہ پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت تباہ ہو چکی ہے۔ وہ کبھی شراب کو قانوناً بند کردیتے ہیں او ر کبھی اجازت دے دیتے ہیں۔ کیا ہم ان کی خاطر اسلام کے کسی حصے کوترک کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہم ان ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے؟

اے تماشا گاہے عالم روئے تو
تو کجا بہر تماشامی روی
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2362مسلمان کی تعریف
2363’’مسلمان‘‘کی تعریف کے لئے پاکستانی مسلمان عرصہ دراز سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ بغیر تعریف کے مسلمان کے نام سے پاکستان میں غیر مسلم مرزائی عہدوں پرقبضہ کر لیتے ہیں اور یہ اسکیم انگریز کی تھی۔ جو اس وقت تو کامیاب نہ ہوئی۔ لیکن اس نے مسلمانوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ بہر حال جب پہلے دستور میں صدر مملکت کے لئے مسلمان ہونا شرط کیاگیا۔ ہم نے اسی وقت سے مسلمان کی تعریف کا مطالبہ کرناشروع کر دیا تھا اور یہ بالکل قانونی اور فطری بات تھی۔ جب صدر کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے تو مسلمان کی تعریف خود آئین میں ہونی لازمی ہوگئی۔ ورنہ ہر ایرا غیرا اپنے کو مسلمان کہہ کر صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے اور اب نئی حکومت نے تو صدر اور وزیراعظم دونوں کے لئے مسلمان ہوناشرط قرار دے دیاہے اور اگرچہ صاف طو ر پر مسلمان کی تعریف سے گریز کیا گیاہے۔
مگر صدر اور وزیراعظم کے حلف کے لئے جو الفاظ تجویز کئے گئے ہیں۔ ان میںختم نبوت پر ایمان اور سرور عالم ﷺ کے بعد کسی کے نبی نہ بننے، قرآن وحدیث کے تمام مقتضیات پر ایمان لانے کا بھی ذکر شامل ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے کفر کی دلدادہ طاقتیں بوکھلاگئی ہیں۔ اس سے مرزائی بھی خاص طور پرگھبرا گئے ہیں۔ انہوں نے پہلے پہل عہدوں اورممبریوں پر قبضہ کرنے کی غرض سے پیپلزپارٹی کی حمایت کی تھی اور اب یکدم اصغر خان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ (بحوالہ لولاک لائلپور)
At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسزاشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولاناعبدالحکیم: پھر مرزائی ظفر چوہدری( سابق ایئرمارشل) نے جو کردار ادا کیا۔ جس کی اس کو سزا بھی مل گئی،وہ سب کے سامنے ہے۔ بعد ازاں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا اور چند ہی دن کے بعد ربوہ اسٹیشن پر مرزائیوں نے فساد اور ظلم کا ارتکاب کیا۔ مرزائی لوگ کبھی ملک کے وفادار نہیں ہو سکتے۔یہ حکومت کے پابند نہیں،اپنے خلیفہ کے پابند ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2364مسلمان کی تعریف
اب جبکہ ملک میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ میں بیس سال کے بعد پھر طاقت آئی ہے۔ تو مرزائیوں کو بھی مسلمان کی تعریف کا شوق چرایا تاکہ ہم کسی نہ کسی طرح مسلمانوںمیں شمار ہو جائیں۔ اس عنوان کے تحت (ص۱۵)پر مرزائی محضر نامے کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی تعریف کو جائز نہیں سمجھتے جو کتاب اﷲ اور خود سرور کائنات ﷺ کی فرمائی ہوئی تعریف کے بعد کسی زمانہ میں کی جائے۔
اس کی تائید (ص۱۹سطر نمبر۷)سے ہوتی ہے، جہاں لکھا ہے کہ :’’پس جماعت احمدیہ! کا ایک مؤقف یہ ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اورآئینی تعریف اختیار کی جائے جو حضرت ختم الانبیاء ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی۔‘‘ اس سلسلہ میں تین حدیثیں پیش کیں۔ گویا زبان نبوی کی تعریفیںہیں۔ مگرآپ حیران ہوں گے کہ مرزا ناصر احمد نے (ص۲۳ سطر نمبر۱۵) میں قرآن پاک سے اسلام کا ایک اوراصطلاحی معنی بیان کردیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دروغ گوراحافظہ نہ باشد
حالانکہ یہ تعریف پرانی تعریفوں کے زمانہ مرزائیت کی ہے۔سچ ہے ’’دروغ گورا حافظہ نہ باشد۔‘‘ مرزا ناصر صاحب نے یہ اصطلاحی معنی مرزا غلام احمدقادیانی ہی کے الفاظ(آئینہ کمالات اسلام ص۵۷ تا۶۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)سے نقل کیا ہے۔ ان چار صفحات میں مرزا قادیانی نے اپنے تصوف کا سکہ جمانا چاہا ہے اور اپنی تقریر سے یہ تصور دینے کی کوشش کی کہ گویا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ اورمتبتل الی اﷲ ہے۔ مگر مرزا جی کا مقصد بھی دھوکہ دینا تھا اور یہی مقصد مرزا ناصر احمد کا بھی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ حدیث کی تین تعریفوں کے بعد مرزا جی کی اس چوتھی تعریف اور اس تقریر کے نقل کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔مگر باور یہ کرانا تھا کہ مرزا جی اتنے فنا فی اﷲ ہیں کہ ان کی کوئی حرکت حکم الٰہی کے سوا نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلہ میں ہم مجبور ہیں کہ مرزا قادیانی کی معاشرتی زندگی قوم کے سامنے پیش کریں۔ کیا اس قماش کے آدمی کو اس تقریر سے ایک فی لاکھ بھی نسبت ہے۔ مگر پہلے ہم مسلمان کی تعریف کی بحث ختم کرنا چاہتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2365مسلمان کی تعریف میں منقولہ احادیث
پہلی تعریف: حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی بھیس میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر یوں گویاہوئے: ’’ یامحمد! اخبرنی عن الاسلام قال الاسلام ان تشھدان لاالہ الا اﷲ وان محمدرسول اﷲ، وتقیم الصلوٰۃ، وتؤتی الزکوٰۃ وتصوم رمضان، وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلاً قال صدقت فعجبنا لہ یسئلہ ویصدقہ قال فاخبرنی عن الایمان قال ان تؤمن باﷲ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ قال صدقت (مسلم شریف ج۱ص۲۷، کتاب الایمان)‘‘
{اے محمد( ﷺ ) مجھے اسلام بتائیے، آپ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں اور تم نماز قائم رکھو اورزکوٰۃ دیتے رہو اور رمضان کے روزے رکھو اور حج بیت اﷲ کرو، اگر وہاں جانے کی طاقت ہو۔ اس شخص نے کہا آپ نے سچ کہا۔ ہم متعجب ہوئے کہ پوچھا بھی ہے، پھر تصدیق بھی کرتا ہے۔پھر اس نے کہا مجھے ایمان بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اوراس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور قیامت کے دن پر اور تقدیر پر،چاہے اچھی ہویابری،اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔}
2366دوسری حدیث: ’’ جاء رجل الی رسول اﷲ ﷺ من اھل نجد ثائرالراس نسمع دوی صوتہ لا نفقہ ما یقول حتی دنا فاذاھویسئل عن الاسلام فقال رسول اﷲ ﷺ خمس صلوٰۃ فی الیوم واللیلۃ فقال ھل علی غیر ھاقال لا الا ان تطوع قال رسول اﷲ ﷺ و صیام رمضان قال ھل علی غیرھا قال لاالا ان تطوع وقال وذکر لہ رسول اﷲ ﷺ الزکوٰۃ قال ھل علّی غیرھا قال لاالاّ ان تطوع قال فادبر الرجل وھویقول واﷲ لا ازید علی ہذا و لاانقص قال رسول اﷲ ﷺ افلح ان صدق (صحیح بخاری ج۱ص۱۱،۱۲،باب الزکوٰۃ من الاسلام)‘‘
{نجد کا ایک آدمی سرور دو عالم ﷺ کے پاس آیا سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی گنگناہٹ، ہم سنتے تھے۔ مگر اس کامفہوم نہیں سمجھ رہے تھے۔یہاں تک کہ وہ قریب آگیا۔ دیکھا تو اس نے اسلام کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ رات،دن میں پانچ نمازیں۔ اس نے کہا کیا اس کے سوا کوئی اوربھی میرے ذمہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا، نہیں،ہاں نفل ہو سکتے ہیں۔ پھرآپؐ نے رمضان کے روزوں کا فرمایا۔ اس نے کہا کیا اس کے سوا کوئی چیز تو ضروری نہیں؟ آپؐنے فرمایا نہیں، ہاں نفل کرو۔(تو تمہارا اختیار ہے) پھر آپ ؐنے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے پھر وہی سوال کیا کہ کیا اس کے سواکچھ اور بھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ،نہیں ہاں اگر نفل کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ آدمی یہ کہتے ہوئے واپس چلاگیا۔ خدا کی قسم! میں اس پر نہ زیادہ کروں گا، نہ کم کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے توکامیاب ہوکر فلاح پا گیا۔}
2367تیسری حدیث: ’’ من صلی صلوٰتنا و استقبل قبلتنا و اکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اﷲ وذمۃ رسولہ فلا تخفرو اﷲ فی ذمتہ (بخاری ج۱ص۵۶، باب فضل استقبال القبلۃ) ‘‘{جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور کھایا۔ تو یہ وہ مسلمان ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری میں ہے۔ تو اﷲتعالیٰ کی ذمہ داری میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو۔}(یہ ترجمہ مرزا ناصرا حمد صاحب کا کیا ہواہے۔جو اس نے مودودی صاحب سے نقل کیاہے)
۴… ان تین حدیثی تعریفوں کے ساتھ اب مرزا قادیانی کی چوتھی تعریف بھی شامل کر دیں۔ جو مرزا ناصر احمد نے محضر نامے میں (ص۲۳تا ۲۶)نقل کی ہے۔
اب ہم چاہتے ہیں کہ جن امور کو مرزاناصراحمد نے مسلمان کی تعریف سے جدا کرکے ضمنی طور پر بیان کر دیا ہے۔ ان کا ذکر بھی کر دیں تاکہ پھر اکٹھی سب پربحث ہو سکے۔
۵… خود مرزاناصراحمد نے (ص۷) پرقرآن پاک کی آیت لکھی ہے:’’ ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلام لست مؤمنا (نسائ:۹۴)‘‘{اور جو شخص تمہیں سلام کہے۔ اس کو (آگے سے) یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں۔ }اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ سلام کہنے والے کو بھی آپ کافر یا غیر مسلم نہیں کہہ سکتے۔
2368۶… مرزاناصر احمد نے ایک اور روایت (ص۷)پرنقل کی ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں جہنیہ قبیلہ کے نخلستان کی طرف بھیجا۔ہم نے صبح صبح ان کے چشموں پر ہی ان کو جا لیا۔ میں نے اورایک انصاری نے ان کے ایک آدمی کا تعاقب کیا۔ جب ہم نے اس کو جالیا اور اسے مغلوب کرلیا۔ تو وہ بول اٹھا۔ ’’لاالہ الااﷲ‘‘{خدا کے سوا کوئی معبود نہیں}اس بات سے میرا انصاری ساتھی اس سے رک گیا۔ لیکن میں نے اس پر نیزے کا وار کر کے اس کو قتل کر دیا۔ جب ہم مدینہ واپس آئے اور آنحضرت ﷺ کو اس بات کا علم ہوا۔ تو آپؐ نے فرمایاکہ اسامہ! کیا ’’لاالہ الااﷲ‘‘پڑھ لینے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! وہ صرف بچاؤ کے لئے یہ الفاظ کہہ رہا تھا۔ آپ ﷺ بار بار یہ دہرا ئے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش آج سے پہلے میں مسلمان ہی نہ ہوتا۔
اور ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب اس نے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کااقرار کر لیا۔پھر بھی تو نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عر ض کیا، اے اﷲ کے رسول ! اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کیاتھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں؟ حضور ﷺ نے یہ بات اتنی بار دہرائی کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش آج میں مسلمان ہوا ہوتا۔
(بخاری کتاب المغازی)
اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ پڑھ لینااسلام ہے۔ دل چیر کر دیکھنا تو مشکل ہے۔
اب ہم چند اور روایات اسی قسم کی نقل کرتے ہیں۔
2369۷… ’’ عن ابی ہریرۃؓ قال قال لی رسول اﷲ ﷺ واعطانی نعلیہ وقال اذھب فمن لقیت من رواء ہذا الحائط یشھد ان لاالہ الا اﷲ مستیقنًا بھا قلبہ فبشرہ بالجنۃ (مسلم ج۱ص۴۵، باب الدلیل علی من مات علی التوحید) ‘‘{حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے اپنے نعلین(چپل مبارک) عطاء فرمائے اورفرمایاکہ جاؤ جو ملے اور وہ لا الہ الا اﷲ سچے دل سے پڑھتا ہواس کو جنت کی بشارت دے دو۔}
’’ عن ابی ذرؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ ما من عبدقال لا الہ الا اﷲ ثم مات علی ذلک الا دخل الجنۃ قال وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق (بخاری ج۲ص۸۶۷، باب الثیاب البیض)‘‘{حضرت ابوذرؓ کو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ بھی لا الہ الااﷲ کہے پھر اسی عقیدہ پر مر جائے تو وہ جنتی ہے۔ابوذرؓ نے پوچھا چاہے وہ زنا اور چوری بھی کرتا ہو؟ حضور ﷺ نے تین بار فرمایا ،اگرچہ وہ زنا اور چوری بھی کرتاہو۔ }(متفق علیہ دونوں روایتیں اختصار سے بیان ہوئی ہیں)
(مشکوٰۃ ص۱۴،کتاب الایمان)
۸… ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ جب کسی شہر پر صبح کے وقت حملہ کرتے تو دیکھتے ،اگر وہاں سے آذان کی آواز آتی،توحملہ نہ کرتے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آذان کہنے سے وہ مسلمان ثابت ہو رہے تھے۔
۹… حضرت صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ کے ساتھ جہاد کیا۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ زکوٰۃ نہ دینا یا اس کاانکار کفر ہے۔
۱۰… حضرت صدیقؓ نے منکرین ختم نبوت اور مدعیان نبوت سے جہاد کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا مسئلہ بھی جزو ایمان ہے اوراس کا منکر اسلام سے خارج ہو جاتاہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top