ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
نوٹ: بعد میں حسب ذیل ارکان نے بھی قرارداد پر دستخط کئے۔
؍؍ نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی
؍؍ جناب غلام حسن خاں دھاندلا
؍؍ جناب کرم بخش اعوان
؍؍ صاحبزادہ محمد نذیر سلطان
؍؍ مہر غلام حیدر بھروانہ
؍؍ میاں محمد ابراہیم برق
؍؍ صاحبزادہ صفی اﷲ
؍؍ صاحبزادہ نعمت اﷲ خان شنواری
؍؍ ملک جہانگیر خان
؍؍ جناب عبدالسبحان خان
؍؍ جناب اکبر خاں مہمند
؍؍ میجر جنرل جمالدار
؍؍ حاجی صالح خاں
؍؍ جناب عبدالمالک خان
؍؍ خواجہ جمال محمد کوریجہ
!M1886 الحمدﷲ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ خاتم النّبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین وعلیٰ من تبعہم باحسان الیٰ یوم الدین
اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی اور آپﷺ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپﷺ کے بعد کسی پر وحی آسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے معروف ہے اور سرکار دوعالمﷺ کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن کریم کی بلامبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرتﷺ کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مفصل کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
یہاں ان تمام آیات اور احادیث کو نقل کرنا غیرضروری بھی ہے اور موجب تطویل بھی۔ البتہ یہاں جس چیز کی طرف بطور خاص توجہ دلانا ہے وہ یہ ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے عقیدہ ختم نبوت کی سینکڑوں مرتبہ توضیح کے ساتھ یہ پیشگی خبر بھی دی تھی کہ: لا تقوم الساعۃ حتیٰ یبعث دجالون کذابون قریباً من ثلاثین کلہم یزعم انہ رسول اﷲ۰ (صحیح بخاری ج۲ ص۱۰۵۴، کتاب الفتن، صحیح مسلم ج۲ ص۳۹۷، کتاب الفتن)
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں۔ جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲکا رسول ہے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا تھا کہ: انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی، وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی۰ (ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷، باب الفتن، ترمذی ج۲ ص۴۵، ابواب الفتن)
1887’’قریب ہے میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے بعد پیدا ہونے والے مدعیان نبوت کے لئے ’’دجال‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس کے لفظی معنی ہیں، ’’شدید دھوکہ باز‘‘ اس لفظ کے ذریعہ سرکار دوعالمﷺ نے پوری امت کو خبردار فرمایا ہے کہ آپﷺ کے بعد جو مدعیان نبوت پیدا ہوں گے وہ کھلے لفظوں میں اسلام سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بجائے دجل وفریب سے کام لیں گے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نبوت کا دعویٰ کریں گے اور اس مقصد کے لئے امت کے مسلمہ عقائد میں ایسی کتربیونت کی کوشش کریں گے جو بعض ناواقفوں کو دھوکے میں ڈال سکے۔ اس دھوکے سے بچنے کے لئے امت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ میں خاتم النّبیین ہوں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
چنانچہ آپﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق تاریخ میں آپﷺ کے بعد جتنے مدعیان نبوت پیدا ہوئے انہوں نے ہمیشہ اسی دجل وتلبیس سے کام لیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اپنے دعوائے نبوۃ کو چمکانے کی کوشش کی۔ لیکن چونکہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام قرآن کریم اور سرکار دوعالمﷺ کی طرف سے اس بارے میں مکمل روشنی پاچکی تھی۔ اس لئے تاریخ میں جب کبھی کسی شخص نے اس عقیدے میں رخنہ اندازی کر کے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے باجماع امت ہمیشہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ قرون اولیٰ کے وقت سے جس کسی اسلامی حکومت یا اسلامی عدالت کے سامنے کسی مذہبی نبوت کا مسئلہ پیش ہوا تو حکومت یا عدالت نے کبھی اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ اپنی نبوت پر کیا دلائل وشواہد پیش کرتا ہے؟ اس کے بجائے صرف اس کے دعوائے نبوت کی بناء پر اسے کافر قرار دے کر اس کے ساتھ کافروں ہی کا سا معاملہ کیا۔ وہ مسیلمہ کذاب ہو یا اسود عنسی یا سجاح یا طلیحہ یا حارث یا دوسرے مدعیان نبوت، صحابہ کرامؓ نے ان کے کفر کا فیصلہ کرنے سے پہلے کبھی یہ تحقیق نہیں فرمائی کہ وہ عقیدہ ختم نبوت میں کیا تاویلات کرتے ہیں۔ بلکہ جب ان کا دعوائے نبوت ثابت ہوگیا تو 1888انہیں باتفاق کافر قرار دیا اور ان کے ساتھ کافروں ہی کا معاملہ کیا۔ اس لئے کہ ختم نبوت کا عقیدہ اس قدر واضح، غیرمبہم ناقابل تاویل اور اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے کہ اس کے خلاف ہر تاویل اسی دجل وفریب میں داخل ہے جس سے آنحضرتa نے خبردار کیا تھا۔ کیونکہ اگر اس قسم کی تاویلات کو کسی بھی درجے میں گوارا کر لیا جائے تو اس سے نہ عقیدۂ توحید سلامت رہ سکتا ہے نہ عقیدۂ آخرت اور نہ کوئی دوسرا بنیادی عقیدہ۔ اگر کوئی شخص عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ بتانا شروع کر دے کہ تشریعی نبوت تو ختم ہوچکی لیکن غیرتشریعی نبوت باقی ہے تو اس کی یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ عقیدۂ توحید کے مطابق بڑا خدا تو صرف ایک ہی ہے۔ لیکن چھوٹے چھوٹے معبود اور دیوتا بہت سے ہوسکتے ہیں، اور وہ سب قابل عبادت ہیں۔ اگر اس قسم کی تاویلات کو دائرہ اسلام میں گوارا کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کا اپنا کوئی عقیدہ، کوئی فکر، کوئی حکم اور کوئی اخلاقی قدر متعین نہیں ہے۔ بلکہ (معاذ اﷲ) یہ ایک ایسا جامہ ہے جسے دنیاکا بدتر سے بدتر عقیدہ رکھنے والا شخص بھی اپنے اوپر فٹ کر سکتا ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ قرآن وسنت کے متواتر ارشادات کے مطابق اپنے سرکاری احکام، عدالتی فیصلوں اور اجتماعی فتاویٰ میں اسی اصول پر عمل کرتی آئی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد جس کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا، خواہ وہ مسیلمہ کذاب کی طرح کلمہ گو ہو، اسے اور اس کے متبعین کو بلاتامل کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ چاہے وہ عقیدہ ختم نبوت کا کھلم کھلا منکر ہو، یامسیلمہ کی طرح یہ کہتا ہو کہ آپﷺ کے بعد چھوٹے چھوٹے نبی آسکتے ہیں۔ یا سجاح کی طرح یہ کہتا ہو کہ مردوں کی نبوت ختم ہوگئی اور عورتیں اب بھی نبی بن سکتی ہیں، یا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا مدعی ہوکہ غیرتشریعی ظلی اور بروزی اور امتی نبی ہوسکتے ہیں۔
امت مسلمہ کے اس اصول کی روشنی میں جو قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے قطعی طے شدہ اور ناقابل بحث وتاویل ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے مندرجہ ذیل دعوؤں کو ملاحظہ فرمائیے:
’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
1889’’میں رسول اور نبی ہوں، یعنی باعتبار ظلّیت کاملہ کے، میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱ حاشیہ)
’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
’’میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے، کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جب کہ خود خداتعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کردوں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں عیسیٰ ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں اور آنحضرتﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۳، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
’’چند روز ہوئے ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیاگیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں سے ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا بار، پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
1890انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بہ عرفان نہ کمترم زکسے (نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
یعنی ’’انبیاء اگرچہ بہت سے ہوئے ہیں مگر میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
یہ صرف ایک انتہائی مختصر نمونہ ہے۔ ورنہ مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابیں اس قسم کے دعووؤں سے بھری پڑی ہیں۔
بعض مرتبہ مرزائی صاحبان مسلمانوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کے ابتدائی دور کی عبارتیں پیش کرتے ہیں۔ جن میں انہوں نے علی الاطلاق دعوائے نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔ لیکن خود مرزاقادیانی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مجدد، محدث، مسیح موعود اور مہدی کے مراتب سے ’’ترقی‘‘ کرتے ہوئے درجہ بدرجہ نبوت کے منصب تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوؤں کی جو تاریخ بیان کی ہے، اسے ہم پوری تفصیل کے ساتھ انہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی عبارت کو پورے سباق میں دیکھ کر ان کا پورا مفہوم واضح ہو سکے۔ کسی نے مرزاصاحب سے سوال کیا تھا کہ آپ کی عبارتوں میں یہ تناقض نظر آتا ہے کہ کہیں آپ اپنے آپ کو ’’غیرنبی‘‘ لکھتے ہیں اور کہیں اپنے آپ کو ’’مسیح سے تمام شان میں بڑھ کر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مرزاصاحب (حقیقت الوحی) میں لکھتے ہیں: ’’اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہوں، اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسولﷺنے دی تھی۔ مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا 1891اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے، اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا۔ بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارے میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین وآسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہوگئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔ ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا… جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے؟ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا، مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدے پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی… میں اس کی پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں… میں تو خداتعالیٰ کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں، جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
مرزاصاحب کی یہ عبارت اپنے مدعا پر اس قدر صریح ہے کہ کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں، اس عبارت کے بعد اگر کوئی شخص ان کی اس زمانے کی عبارتیں پیش کرتا ہے۔ جب وہ 1892دعوائے نبوت کی نفی کرتے تھے۔ (بزعم خویش) انہیں اپنے نبی ہونے کا علم نہیں ہوا تھا تو اسے دجل وفریب کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مرزاصاحب کا آخری عقیدہ جس پر ان کا خاتمہ ہوا یہی تھاکہ وہ نبی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آخری خط میں جو ٹھیک ان کے انتقال کے دن اخبار عام میں شائع ہوا واضح الفاظ میں لکھا کہ:
’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں، میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘ (اخبار عام مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷، منقول از حقیقت النبوۃ مرزامحمود ص۲۷۱، مباحثہ راولپنڈی ص۱۳۶)
یہ خط ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا گیا اور ۲۶؍مئی کو اخبار عام میں شائع ہوا اور ٹھیک اسی دن مرزاصاحب کا انتقال ہوگیا۔
----------
(At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی اور ڈاکٹر مسز اشرف خاتوں عباسی نے کرسی سنبھال لی)
مولوی مفتی محمود: بعض مرتبہ مرزائی صاحبان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے غیرتشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیرتشریعی نبوت، عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔ لیکن دوسری مرزائی تاویلات کی طرح اس تاویل کے بھی صغریٰ کبریٰ دونوں غلط ہیں۔ اوّل تو یہ بات ہی سرے سے درست نہیں کہ مرزاصاحب کا دعویٰ صرف غیرتشریعی نبوت کا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مرزاصاحب کے روزافزوں دعاوی کے دور میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا ہے جب انہوں نے غیرتشریعی نبوت سے بھی آگے قدم بڑھا کر واضح الفاظ میں اپنی وحی اور نبوت کو تشریعی قرار دیا ہے اور اسی بناء پر ان کے متبعین میں سے ظہیرالدین اروپی کا فرقہ انہیں کھلم کھلا تشریعی نبی مانتا تھا۔ اس سلسلہ میں مرزاصاحب کی چند عبارتیں یہ ہیں۔ اربعین نمبر۴ میں لکھتے ہیں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذلک ازکیٰ لہم
یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ان ہذا لفی الصحف الاولیٰ صحف ابراہیم وموسیٰ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
مذکورہ بالا عبارت میں مرزاصاحب نے واضح الفاظ میں اپنی وحی کو تشریعی وحی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ دافع البلاء میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
1894ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تشریعی نبی تھے اور جو شخص آپ سے تمام شان میں یعنی ہر اعتبار سے بڑھ کر ہو تو وہ تشریعی نبی کیوں نہیں ہوگا؟ اس لئے یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ مرزاغلام احمد صاحب نے کبھی اپنی تشریعی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔
اس کے علاوہ مرزائی صاحبان عملاً مرزاصاحب، کو تشریعی نبی ہی قرار دیتے ہیں۔ یعنی ان کی ہر تعلیم اور ان کے ہر حکم کو واجب الاتباع مانتے ہیں۔ خواہ وہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام کے خلاف ہو، چنانچہ مرزاصاحب نے اربعین نمبر۴ پر لکھا ہے: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے بچانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
حالانکہ نبی کریمﷺ کا واضح اور صریح ارشاد موجود ہے کہ الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ یعنی جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ مرزائی صاحبان شریعت محمدیہؐ کے اس صریح اور واضح حکم کو چھوڑ کر مرزاصاحب کے حکم کی اتباع کرتے ہیں۔ اس طرح شریعت محمدیہ میں جہاں خمس، فی ٔ، جزیہ اور غنائم کے تمام احکام جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں سینکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سب میں مرزاصاحب کے مذکورہ بالا قول کے مطابق تبدیلی کے قائل ہیں۔ اس کے بعد تشریعی نبوت میں کون سی کسر باقی رہ جاتی ہے؟
اور اگر بالفرض یہ درست ہو کہ مرزاصاحب ہمیشہ غیرتشریعی نبوت ہی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، تب بھی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت میں یہ تفریق کرنا کہ فلاں قسم کی نبوت ختم 1895ہوگئی ہے اور فلاں قسم کی باقی ہے۔ اسی ’’دجل وتلبیس‘‘ کا ایک جزو ہے جس سے سرکار دوعالمﷺ نے خبردار فرمایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کون سی آیت یا سرکار دوعالمﷺ کے کون سے ارشاد میں یہ بات مذکور ہے کہ ختم نبوت کے جس عقیدے کو اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے سینکڑوں بار دہرایا جارہا ہے وہ صرف تشریعی نبوت کے لئے ہے اور غیرتشریعی نبوت اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر غیرتشریعی انبیاء کا سلسلہ آپﷺ کے بعد بھی جاری تھا تو قرآن کریم کی ابدی آیات نے، سرکار دوعالمﷺ کی لاکھوں احادیث میں سے کسی ایک حدیث نے، یاصحابہ کرامؓ کے بے شمار اقوال میں سے کسی ایک قول ہی نے یہ بات کیوں بیان نہیں کی؟ بلکہ کھلے لفظوں میں ہمیشہ یہی واضح کیا جاتا رہا کہ ہر قسم کی نبوت بالکل منقطع ہوچکی اور اب کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ختم نبوت کی سینکڑوں احادیث میں سے خاص طور پر مندرجہ ذیل احادیث دیکھئے۔
۱…
ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (رواہ الترمذی قال صحیح ج۲ ص۵۳، ابواب الرؤیا) ’’
بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی۔ پس نہ میرے بعد کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی۔‘‘ یہاں اوّل تو نبی اور رسول کے ساتھ نبوت اور رسالت کے وصف ہی کو بالکلیہ منقطع قرار دیا گیا۔ دوسرے رسول اور نبی دو لفظ استعمال کر کے دونوں کی علیحدہ علیحدہ نفی کی گئی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جہاں یہ دونوں لفظ ساتھ ہوں۔ وہاں رسول سے مراد نئی شریعت لانے والا اور نبی سے مراد پرانی شریعت ہی کا متبع ہونا ہے۔ لہٰذا اس حدیث نے ’’تشریعی اور غیرتشریعی دونوں قسم کی نبوت کو صراحۃً ہمیشہ کے لئے منقطع قرار دے دیا۔‘‘
۲… آنحضرتﷺ نے اپنے آخری اوقات حیات میں جو بات بطور وصیت ارشاد فرمائی۔ اس میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق یہ الفاظ بھی تھے: یا ایہا الناس لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤیا الصالحۃ (رواہ مسلم ج۱ ص۱۹۱، باب النہی عن قرأۃ القرآن فی الرکوع والسجود)
اے لوگو! مبشرات نبوت میں سے سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں رہا۔
1896۳… حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون قالوا افماتامرنا قال فوابیعت الاول فالاول اعطوہم حقّہم (صحیح بخاری ج۱ ص۴۹۱، کتاب الانبیائ، مسلم ج۲ ص۱۲۶، کتاب الامارۃ)
’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، خلفاء کے بارے میں آپﷺ کا کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کا حق ادا کرو۔‘‘
اس حدیث میں جن انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر ہے وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے۔ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی شریعت کا اتباع کرتے تھے۔ لہٰذا غیرتشریعی نبی تھے۔ حدیث میں آنحضرتﷺ نے بتادیا کہ میری امت میں ایسے غیرتشریعی نبی بھی نہیں ہوں گے۔ نیز لا نبی بعدی کہنے کے ساتھ آپﷺ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء تک کا ذکر کر دیا۔ لیکن کسی غیرتشریعی یا ظلی بروزی نبی کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مرزائی اعتقاد کے مطابق دنیا میں ایک ایسا عظیم نبی آنے والا تھا۔ جو تمام انبیائے بنی اسرائیل سے افضل تھا۔ اس میں (معاذ اﷲ) تمام کمالات محمدیہ دوبارہ جمع ہونے والے تھے اور اس کے تمام انکار کرنے والے کافر، گمراہ، شقی اور عذاب الٰہی کا نشانہ بننے والے تھے۔ اس کے باوجود اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے نہ صرف یہ کہا کہ آپﷺ کے بعد تمام نبوت کا دعویٰ کرنے والے دجال ہوں گے اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اپنے بعد کے خلفاء تک کا ذکر کیاگیا۔ لیکن ایسے عظیم الشان نبی کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیاگیا۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا نکلتا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولa نے (معاذ اﷲ) اپنے بندوں کو جان بوجھ کر ہمیشہ کے لئے ایک گمراہ کن دھوکے میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی نبوت کو ختم 1897سمجھیں اور آنے والے غیرتشریعی نبی کو جھٹلا کر کافر، گمراہ اور مستحق عذاب بنتے رہیں؟ کیا کوئی شخص دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اس بات کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
عربی صرف ونحو کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ عربی زبان کے قواعد کی رو سے لا نبی بعدی(میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا) کا جملہ ایسا ہی ہے جیسے لا الہ الا اﷲ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں) لہٰذا اگر اوّل الذکر جملے میں کسی چھوٹے درجے کے غیرتشریعی یا طفیلی نبی کی گنجائش نکل سکتی ہے تو کوئی شخص یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ مؤخر الذکر جملے میں ایسے چھوٹے خداؤں کی گنجائش ہے۔ جن کی معبودیت (معاذ اﷲ) اﷲتعالیٰ کا ظل، بروز ہونے کی وجہ سے ہے اور جو مستقل بالذات خدا نہیں۔ ہر باخبر انسان کو معلوم ہے کہ دنیا کی بیشتر مشرک قومیں ایسی ہیں جو مستقل بالذات خدا صرف اﷲتعالیٰ کو قرار دیتی ہیں اور ان کا شرک صرف اس بناء پر ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے ساتھ کچھ ایسے دیوتاؤں اور معبودوں کی بھی قائل ہیں۔ جن کی خدائی مستقل بالذات نہیں۔ کیا ان کے بارہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لا الہ الا اﷲ کی قائل ہیں؟ اگر بالواسطہ خداؤں کے اعتقاد کے ساتھ اسلام کا پہلا عقیدہ یعنی عقیدۂ توحید سلامت نہیں رہ سکتا تو آپﷺ کے بعد بالواسطہ یا غیرتشریعی انبیاء کے اعتقاد کے ساتھ اسلام کا دوسرا عقیدہ یعنی ختم نبوت اور نزول کیسے کھپ سکتا ہے؟
یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول ثانی کے عقیدے کو عقیدہ ختم نبوت سے متضاد قرار دینا اسی غلط بحث کا شاہکار ہے۔ جسے احادیث میں مدعیان نبوت کے دجل سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ختم نبوت کی آیات اور احادیث کو پڑھ کر ایک معمولی سمجھ کا انسان بھی وہی مطلب سمجھے گا۔ جو پوری امت نے اجماعی طور پر سمجھے ہیں۔ یعنی یہ کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس سے یہ نرالا نتیجہ کوئی ذی ہوش نہیں نکال سکتا کہ آپa کے بعد پچھلے انبیاء علیہم السلام کی نبوت چھن گئی ہے یا پچھلے انبیاء میں سے کوئی باقی نہیں رہا۔ 1898اگر کسی شخص کو آخر الاولا دیا یا خاتم الاولاد یعنی فلاں شخص کا آخری لڑکا قرار دیا جائے تو کیا کوئی شخص بقائمی حواس اس کا یہ مطلب سمجھ سکتا ہے کہ اس لڑکے سے پہلے جتنی اولاد ہوئی تھی وہ سب مرچکی؟ پھر آخر خاتم الانبیاء یا آخر الانبیاء کے لفظ کا یہ مطلب کون سی لغت، کون سی عقل اور کون سی شریعت کی روشنی میں لیا جاسکتا کہ آپﷺ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے تھے وہ سب وفات پاچکے؟ خود مرزاصاحب خاتم الاولاد کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سو ضرور ہوا کہ وہ شخص جس پر یہ کمال وتمام دورۂ حقیقت آدمیہ ختم ہو وہ خاتم الاولاد ہو، یعنی اس کی موت کے بعد کوئی کامل انسان کسی عورت کے پیٹ سے نہ نکلے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
(مداخلت)
ملک محمد اختر: جناب والا! یہ مذہبی بات ہورہی ہے۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اس میں کوئی اور بات ہو۔
(اس کے بعد مولوی مفتی محمود صاحب نے پھر پڑھنا شروع کیا)
محترم قائمقام چیئرمین: ذرا ٹھہر جائیں۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ اگر کوئی ڈسکشن کرنی ہے تو باہر لابی میں جاکر کریں۔
مولوی عبدالحق: جناب والا! یہ یہاں باتیں کیوں ہورہی ہیں؟
سردار عبدالعلیم: یہ خواہ مخواہ مولوی صاحب کو غصہ آرہا ہے۔
مولوی عبدالحق: یہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟
محترم قائمقام چیئرمین: سردار صاحب! اگر ڈسکشن کرنی ہے تو باہر جاکر کریں۔
سردار عبدالعلیم: مولانا کو غصہ زیادہ آتا ہے۔
1899محترم قائمقام چیئرمین: آرڈر، آرڈر۔
مولوی مفتی محمود: آگے لکھتے ہیں: ’’میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
خود مرزاصاحب کی اس تشریح کے مطابق بھی خاتم النّبیین کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی ماں کے پیٹ سے نہیں نکلے گا۔ لہٰذا حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول کا عقیدہ عقل وخرد کی آخر کون سی منطق سے آیت خاتم النّبیین کے منافی ہوسکتا ہے؟
اس طرح مرزائی صاحبان بعض اوقات یہ بہانہ تراشتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت ظلی اور بروزی نبوت تھی جو آنحضرتﷺ کی نبوت کا پرتو ہونے کی وجہ سے عقیدہ ختم نبوت میں رخنہ انداز نہیں ہے۔ لیکن درحقیقت اسلامی نقطہ نظر سے ظلی اور بروزی نبوت کا عقیدہ مستقل بالذات نبوت سے بھی کہیں زیادہ سنگین خطرناک اور کافرانہ ہے۔ جس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱… تقابل ادیان کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ ’’ظل اور بروز‘‘ کا تصور خالصتاً ہندوانہ تصور ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ادنیٰ جھلک بھی کہیں نہیں پائی جاتی۔
۲… ظلی اور بروزی نبوت کا جو مفہوم خود مرزاغلام احمد صاحب نے بیان کیا ہے۔ اس کی رو سے ایسا نبی پچھلے تمام انبیاء سے زیادہ افضل اور بلند مرتبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ (معاذ اﷲ) افضل الانبیائa کا بروز یعنی (معاذ اﷲ) آپﷺ ہی کا دوسرا جنم یا دوسرا روپ ہے۔ اسی بناء پر مرزاغلام احمد نے متعدد مرتبہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آپ کو براہ راست سرکار دوعالمﷺ قرار دیا ہے۔ چند عبارتیں ملاحظہ ہوں: (عبارتیں اگلی پوسٹ میں دیکھیں)
’’اور آنحضرتﷺ کے نام کا مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۳، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
’’میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱ حاشیہ)
’’میں بموجب آیت
واخرین منہم لما یلحقوا بہم
بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النّبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمدﷺ ہی نبی رہا نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرتﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
ان الفاظ کو نقل کرتے ہوئے ہر مسلمان کا کلیجہ تھرائے گا۔ لیکن انہیں اس لئے نقل کیاگیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ ہے خود مرزاصاحب کے الفاظ ’’ظلی‘‘ اور ’’بروزی‘‘ نبوت کی تشریح، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے مستقل بالذات نبوت کا دعویٰ لازم نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ جب اس ظل اور بروز کے گورکھ دھندے کی آڑ میں مرزاصاحب نے (معاذ اﷲ) ’’تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدی کے‘‘ اپنے دامن میں سمیٹ لئے تو اب کون سا نبی ایسا رہ گیا جس سے اپنی افضیلت ثابت کرنے کی ضرورت رہ گئی ہو؟ اس کے بعد بھی اگر ظلی بروزی نبوت کوئی 1901ہلکے درجے کی نبوت رہتی ہے اور اس کے بعد بھی عقیدہ ختم نبوت نہیں ٹوٹتا تو پھر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ عقیدہ ختم نبوت (معاذ اﷲ) ایسا بے معنی عقیدہ ہے جو کسی بڑے سے بڑے دعویٰ نبوت سے بھی نہیں ٹوٹ سکتا۔
خود مرزائی صاحبان اپنی تحریروں میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مرزاصاحب کی ظلی نبوت بہت سے ان انبیاء علیہم السلام کی نبوت سے افضل ہے۔ جنہیں بلاواسطہ نبوت ملی ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب کے منجھلے بیٹے مرزابشیراحمد ایم۔اے قادیانی لکھتے ہیں:
’’اور یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ظلی یا بروزی نبوت گھٹیا قسم کی نبوت ہے۔ یہ محض ایک نفس کا دھوکہ ہے۔ جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کیونکہ ظلی نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان نبی کریمﷺ کی اتباع میں اس قدر غرق ہو جائے کہ ’’من توشدم تومن شدی‘‘ کے درجہ کو پالے۔ ایسی صورت میں وہ نبی کریمﷺ کے جمیع کمالات کو عکس کے رنگ میں اپنے اندر اترتا پائے گا۔ حتیٰ کہ ان دونوں میں قرب اتنا بڑھے گا کہ نبی کریمﷺ کی نبوت کی چادر بھی اس پر چڑھائی جائے گی۔ تب جاکر ظلی نبی کہلائے گا۔ پس جب ظل کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے اصل کی پوری تصویر ہو اور اس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے تو وہ نادان جو مسیح موعود کی ظلی نبوت کو ایک گھٹیا قسم کی نبوت سمجھتا یا اس کے معنی ناقص نبوت کے کرتا ہے۔ وہ ہوش میں آوے اور اپنے اسلام کی فکر کرے۔ کیونکہ اس نے اس نبو ت کی شان پر حملہ کیا ہے جو تمام نبوتوں کی سرتاج ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ لوگوں کو کیوں حضرت مسیح موعود کی نبوت پر ٹھوکر لگتی ہے اور کیوں بعض لوگ آپ کی نبوت کو ناقص نبوت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ آپ آنحضرت ﷺ کے بروز ہونے کی وجہ سے ظلی نبی تھے اور اس ظلی نبوت کا پایہ بہت بلند ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ پہلے زمانوں میں جو نبی ہوتے تھے ان کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ ان میں وہ تمام کمالات رکھے جاویں جو نبی کریمﷺ میں رکھے گئے۔ بلکہ ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطاء ہوتے 1902تھے کسی کو بہت، کسی کو کم۔ مگر مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے، پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا۔ بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۳، ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ نمبر۳، مارچ واپریل ۱۹۱۵ئ)
آگے مرزاصاحب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی افضل قرار دے کر لکھتے ہیں: ’’پس مسیح موعود کی ظلی نبوت کوئی گھٹیا نبوت نہیں۔ بلکہ خدا کی قسم اس نبوت نے جہاں آقا کے درجے کو بلند کیا ہے وہاں غلام کو بھی اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے جس تک انبیائے بنی اسرائیل کی پہنچ نہیں۔ مبارک وہ جو اس نکتہ کو سمجھے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے اپنے آپ کو بچالے۔‘‘ (حوالہ بالا ص۱۱۴)
اور مرزاصاحب کے دوسرے صاحبزادے اور ان کے خلیفہ، دوئم مرزابشیرالدین محمود لکھتے ہیں: ’’پس ظلی اور بروزی نبوت کوئی گھٹیا قسم کی نبوت نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا مسیح موعود کس طرح ایک اسرائیل نبی کے مقابلہ میں یوں فرماتا کہ:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے (القول الفصل ص۱۶)