ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
WRITTEN ANSWERS TO ORAL QUESTIONS IN THE CROSS- EXAMINATION
مولانا محمدظفر احمد انصاری: بہر حال، اس میں تو جیسا کہ اٹارنی جنرل صاحب فرمائیں گے۔ میں سمجھتاہوں وہی صورت ٹھیک رہے گی۔ لیکن ایک چیز کل بھی میں نے عرض کی تھی کہ انہیں لکھی ہوئی چیز زیادہ پڑھنے کا موقع نہ دیا جائے…
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مولانا محمدظفر احمد انصاری: …اس کو،جب تک بہت ہی ناگزیر نہ ہو جائے، اس لئے کہ پھر کراس ایگزامینیشن کا کوئی فائدہ نہیں رہتا کہ جب وہ آدمی کتاب اوررسالے لکھ کر کے لے آئے۔
----------
QUESTIONS BASED ON DOCUMENTS NOT READILY AVAILABLE
مولانا محمدظفر احمدانصاری: دوسری چیز ایک اورعرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے سوالات ’’الفضل‘‘ یا دوسرے اخبارات کے حوالے سے دیئے گئے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہے لوگ چیک کر رہے ہیں۔ لیکن عام طور پر’’الفضل‘‘ نہیں ہے۔ تو وہ سوالات کچھ اسی طرح بھی ہو سکتے ہیں کہ:’’آپ یہ بتائیں کہ یہ ’’الفضل‘‘ میں ہے یا نہیں ہے؟‘‘ اگر وہ یہی کہہ دیں کہ:’’ہم اس کے بارے میں نہ تصدیق کر سکتے ہیں، نہ اس550 کو جھٹلا سکتے ہیں‘‘ تو یہ ہمارے ریکارڈ پر آ جائے۔ لیکن وہ سوال آجائے۔ ممکن ہے کہ ہم دوسرے روز، تیسرے روز وہ پرچہ فراہم بھی کر سکیں۔ نہیں بھی فراہم کر سکیں تو وہ سوال ریکارڈ پر ہوگا کہ یہ پوچھاگیا ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے۔
’’الفضل‘‘ ہم نے شروع سے برابر کوشش کی کہ وہ بھیج دیں ہمیں۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے یہ کہا کہ معین کاپیاں بتائیے، کون کون سے نمبر، تو وہ بھی لکھ کے بھیجا۔ لیکن یہ انہوں نے نہیں بھیجا۔ اب ظاہر ہے کہ ’’الفضل‘‘ کی اتنی دیر کی فائلیں تو کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔ لہٰذا جو اس پر مبنی سوالات ہیں، وہ ریکارڈ میں ضرور آجائیں۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: ایک سیکنڈ جی۔
----------
ADMITTANCE OF VISITORS DURING SITTINGS OF THE SPECIAL COMMITTEE
Mr. Chairman: I would request only one thing to the Members. While coming to attend this secret session, they should not bring their friends, their relatives inside the Assembly buildings. It has caused us a lot of inconvenience. And the responsibility is of all of us collectively. There have been certain cases- reported- where people have even quarrelled with the security people while coming inside the gate. I think it should be discouraged and it should be stopped altogether for two or three days. Then we can have it. Yes Maulana Ghulam Ghaus Hazarvi.
(جناب چیئرمین: میں اراکین سے صرف ایک گزارش کروں گا۔ جب وہ اس خفیہ اجلاس کے لئے آئیں تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اسمبلی کی عمارت کے اندر نہ لائیں۔ یہ ہمارے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کئی بار نوٹس میں آیا ہے کہ لوگ سیکورٹی والوں سے جھگڑا کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کی حوصلہ شکنی ہونا چاہئے اور یہ سلسلہ دو تین دن کے لئے بند کیا جانا چاہئے۔ تب ہی ہم اطمینان سے کام کر سکتے ہیں۔ جی مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب!)
----------
551METHOD OF ASKING QUESTIONS DURING CROSS- EXAMINATION
مولانا غلام غوث ہزاروی: سوالات کے سلسلے میں یہ عرض ہے کہ جو سوال بڑا اہم ہو، جس کا ریکارڈ پرآنا ضروری ہے۔ اس میں اتنا ہی پوچھا جائے کہ ’’یہ مرزا صاحب نے یا مرزا محمود نے کہا ہے یا نہیں؟‘‘اتناان کو تقریر کے لئے خواہ مخواہ موقع دینا اور تبلیغ کا، آدھ آدھ گھنٹے تک وہ سنائیں ہم کو، ہم ان کی تقریر سننے یہاں نہیں بیٹھے رہتے۔ اس لئے سوال کی طرز یہ ہونی چاہئے کہ ’’یہ لکھا ہے یا نہیں،اوریہ آپ مانتے ہیں، درست ہے کہ نہیں؟‘‘بس اس کی ضرورت ابھی نہیں…
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے جی۔
----------
PRODUCTION OF BOOKS/DOCUMENTS FOR QUESTIONS CITED IN THE QUESTIONS
مولانا غلام غوث ہزاروی: اوردوسری بات یہ ہے کہ جن حضرات نے سوالات دیئے ہیں۔ کوئی سوال نہ پوچھا جائے جب تک اس کا حوالہ پاس موجود نہ ہو۔ میں نے جتنے سوالات دیئے ہیں۔ میرے پاس کتابیں ہیں، ان کے حوالے اور مجھے پوری طرح معلوم ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جو سوال کل پوچھا تھا، قطعی میں نے خود لکھا ’’البدر ‘‘میں کہ:
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کودیکھے قادیان میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑ ھ کر اپنی شان میں
میں نے خود دیکھا’’البدر‘‘ میں۔ میں،مرزاصاحب کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے ’’جزاک اﷲ‘‘ کہا تحسین کرتے ہوئے اندر لے گئے زنانہ میں۔ یہ میں نے خود دیکھا۔میرے پاس پرچہ نہیں552 تھا اس لئے میں نے اس کے لئے نوٹس نہیں دیا۔ جب تک کہ موجود نہ ہو کوئی پرچہ یا کوئی پمفلٹ یا کوئی کتاب…
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے جی۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: …اس وقت تک اس کا نوٹس سوال کا نہیں دینا چاہئے۔
جناب چیئرمین: بالکل ٹھیک ہے جی۔ میں اب ان کو بلانے لگاہوں۔
مسٹر احمدرضا خان قصوری!
----------
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Mr. Chairman, for the last two, three days, what I am noticing is that the witness is repreating his statement again and again, and not only repeating his oral statement, but sometimes he quotes same books again and again. We are not have to be taught what Ahmadi faction is; and he is not have to preach to us. So I think, being the Chairman of this Committee, you should see to it that the repetition does not take place.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین! گذشتہ دو تین دنوں سے میں یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ گواہ اپنے بیان کا تکرار باربار کر رہا ہے۔ گواہ نہ صرف اپنے زبانی جوابات کو باربار دہراتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات کتابوں کے حوالے بھی تکرار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ہم یہاں کوئی سبق پڑھنے نہیں آئے اور نہ ہی گواہ کو یہاں کسی درس کے لئے بلایا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت چیئرمین خصوصی کمیٹی آپ کو دیکھنا چاہئے کہ باربار کی تکرار نہ ہو)
(گواہ گول مول جواب اور حیلہ بازی کرتا ہے، وزیرقانون)
Abdul Hafeez Pirzada: Sir, it has disadvantages; it has also got some advantages because, from the point of view of the prosecutor also, you have to repeat the question sometimes; and the more they repeat an answer, the more contradictions are established. So, now that we have displayed so much paitence, for about a days and a half, I think we should bear with this, because you would appreciate that the witness is trying to be evasive and therefore the Attorney- General has had to ask a question time and again. So, let us bear with it for about a day or a day and a half. We are now coming to a close.
(عبدالحفیظ پیرزادہ: جناب والا! اس کے کچھ تو نقصانات ہیں۔ مگر چند ایک فوائد بھی ہیں۔ استغاثہ کے نقطہ نظر سے بعض اوقات سوال کو دہرایا جاتا ہے۔ اس طرح گواہ جس قدر اپنے جواب کو دہرائے گا۔ اس قدر تضادات سامنے آئیں گے۔ جہاں ہم نے اتنا بردباری سے کام لیا ہے۔ ایک آدھ دن اور سہی۔ آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ گواہ حیلہ بازی سے کام لیتا ہے۔ یا جواب کو گول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے اٹارنی جنرل کو سوال پھر سے سوال کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اب جب کہ کاروائی اختتام کے قریب ہے ہمیں ایک آدھ دن اور صبر سے کام لینا چاہئے)
553Mr. Chairman: Mr. Ahmad Raza Qasuri, as we usually do after everyday's proceedings, today after 1:30 and after 9:30, then again we will survey that day's position, and then we can have suggestions. I have discussed the matter with the Attorney- General and he says that now, for this hour, he will adopt his own method of putting the questions. Yes, they may be called.
(جناب چیئرمین: مسٹر احمد رضا قصوری! جیسا کہ ہمارا معمول ہے۔ آج کی کارروائی کے بعد ڈیڑھ بجے دن اور ساڑھے نو بجے رات کے بعد ہم تمام پوزیشن کا جائزہ لیں گے اور تجاویز پر غور کریں گے۔ میں نے اٹارنی جنرل سے بات کی ہے۔ وہ اپنے انداز اور طریقے کے مطابق سوالات کریں گے۔ ہاں! اب انہیں (یعنی وفد کو) بلالیں)
(The Delegation entered the chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی ہاں! اٹارنی جنرل صاحب)
----------
CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب!میں آپ سے ایک سوال پوچھ رہا تھا کہ جب حضرت مریم کا ذکر کرتے ہیں مرزاصاحب، تویہ ایک ہی شخصیت ہے یا دو شخصیتیں ہیں۔ آپ نے کہا کہ شخصیتوں کا توکل فیصلہ ہوگیا تھا۔
مرزاناصر احمد: ہاں، کل ہوگیاتھافیصلہ۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس سلسلے میں میں Clarification (وضاحت) چاہتا ہوں کہ جب وہ ذکر کرتے ہیں تو وہ مریم ہیں۔ جن کا ذکر انجیلوں میں آیا ہے یا وہ مریم ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں؟
مرزاناصر احمد: بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتب اورتقریر و تحریر میں اس مقدس عورت کا بھی ذکر کیا جو قرآن کریم میں مریم کے نام سے یاد کی جاتی ہے اوربعض جگہ آپ نے اس مریم کا بھی ذکر کیا جس کو عیسائی لوگ خداوند یسوع سے نسبت دیتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی دو شخصیتیں ہیں ان کی نظر میں پھر، جیسے…
مرزاناصر احمد: میں نے تو اپنا جواب دے دیا ہے…
554جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں وہی جواب…
مرزاناصر احمد: … نتیجہ آپ نکال لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کا جواب ہے، وہ یہاں بھی وہی ہے؟
مرزاناصر احمد: ہاں! وہی یہاں ہے۔
(سیدۂ مریم علیہا السلام کی اہانت کے حوالہ جات،معاذاﷲ)
جناب یحییٰ بختیار: یہاں جو ایک جگہ ذکر آجاتا ہے:’’اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل… بوجہ حمل… کے نکاح کر لیا۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)
مرزاناصر احمد: یہ کیا؟ کہاں ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: یہ ہے جی (کشتی نوح ص۳۷) شروع کی تین چار لائنیں چھوڑ کر جی، میرے ایڈیشن میں۔
مرزاناصر احمد: بانی سلسلہ احمدیہ نے یہاں یہ لکھا ہے: ’’کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا، پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کرلیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیوں کر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازدواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی، باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
555جناب یحییٰ بختیار: تو یہ جو ہے…
مرزاناصر احمد: یہ ’’کشتی نوح‘‘ کا حوالہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ اشارہ جو ہے۔ یہ اس حضرت مریم کی طرف ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے؟ یا ان کی طرف ہے جن کا عیسائی ذکر کرتے ہیں؟
مرزاناصر احمد: اس کی یہ پہلی سطر ہے۔ اس کے صفحے کی پہلی سطر:’’وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا، بلکہ مسیح تو مسیح، میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں یہ پوچھ رہا ہوں ناں جی، یہ اشارہ جو ہے۔ یہ تحریر جو ہے…
مرزاناصر احمد: اس تحریر میں ذکر ہے ان حضرت مریم کا جن کاذکر قرآن کریم میں آیاہے۔لیکن حوالے بعض اعتراضات کے جواب میں قرآن کریم سے دیئے گئے۔ نہ قرآن کریم سے۔ نہیں بائبل سے دیئے گئے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ جو حضرت مریم کا ذکر ہے، یہ وہ حضرت مریم ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اوران کے متعلق جو کہا ہے…
مرزاناصر احمد: جو اعتراضات ہیں۔ ان کے جواب بائیبل سے دیئے گئے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: حمل سے مجبور ہوکے نکاح کیابزرگوں کے کہنے پر؟
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ،یہ…
مرزاناصر احمد: بائیبل سے لیاہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ انجیل سے لیا ہے اور اس کو Justify (جائز) کر رہے ہیں: 556’’مگر میں یہ کہتاہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے۔‘‘
مرزاناصر احمد: ’’وہ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
بائبل میں جو ہے ان کے بارے میں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: He is justifying or explaining?
(جناب یحییٰ بختیار: وہ اس کو صحیح قرار دے رہیں یا وضاحت کر رہے ہیں)
Mirza Nasir Ahmad: Explaining the situation, justifying the act.
(مرزاناصر احمد: صورتحال کی وضاحت کر رہے ہیں۔ معاملے کو جائز قرار دے رہے ہیں)