ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جہاں تک پہلے متنازعہ امر کا تعلق ہے۔ یعنی کیا مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں۔ اس سلسلے میں مرزاغلام احمد کی زندگی، تصانیف اور احمدیہ تحریک کے بارے میں اختصار کے ساتھ ذکر کرنا سود مند ہوگا۔ اس طرح حقیقت میں میں دراصل پہلے متنازعہ امر کا احاطہ ہی کروں گا۔ مرزاناصر احمد نے مرزاغلام احمد کے زندگی کے مختصراً حالات اس طرح بیان کئے: ’’آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۱؎۔ آپ کے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ صاحب تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چند استادوں کے ذریعے سے گھرپر ہی ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کے نام فضل الٰہی، فضل احمد اور گل محمد تھے۔ جن سے آپ نے فارسی، عربی اور دینیات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم طب اپنے والد صاحب سے پڑھا۔
آپ شروع سے ہی اسلام کا درد رکھتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎ دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ
آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ۱۸۷۶ء کے قریب اسلام کی طرف سے مناظرے اور مباحثے بھی کئے اور ۱۸۸۴ء میں اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کی۔ جو قرآن کریم آنحضرت ﷺ اور اسلام کی تائید میں ایک بے نظیر کتاب مانی گئی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں آپ نے باذن الٰہی سلسلہ بیعت کا آغاز کیا اور ۱۸۹۱ء میں خداتعالیٰ سے الہام پاکر ’’مسیح موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔
آپ کی تمام عمر اسلام کی خدمت میں گذری اور آپ نے ۸۰ کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں جو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہیں اور ان تینوں زبانوں میں آپ کا منظوم کلام بھی ملتا ہے۔ آپ کا اور آپ کی جماعت کا واحد مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت وتبلیغ تھا اور ہے۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کی وفات ہوئی اور ملک کے اخباروں، رسالوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا پرزور الفاظ میں اعتراف کیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مرزاناصر احمد کا کذب محض اور خالص دجل ہے۔ مرزاقادیانی ۱۹۳۵ء میں نہیں بلکہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی اپنی تحریرات اس پر گواہ ہیں۔ تفصیل گذر چکی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ کی وفات کے وقت آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور اس وقت آپ کے خاندان کے افراد کی تعداد دوسو کے قریب ہے۔‘‘
محترم! مرزاغلام احمد کی زندگی کے بارے میں میں کچھ مزید تفصیلات بیان کروں گا جو کہ مجھے ان دستاویزات سے حاصل ہوئی ہیں جو مجھے دیکھنے کا موقع ملا۔
مرزاغلام احمد کا تعلق پنجاب کے معروف اور معزز ’’مغل خاندان‘‘ سے تھا جو کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں سمرقند سے ہندوستان نقل مکانی کر کے آیا تھا۔ مرزاغلام احمد کے اجداد میں سے ہندوستان آنے والے پہلے شخص کا نام مرزا ہادی بیگ تھا۔ Laquel Griffin ’’لیکل گرفن‘‘ نے اپنی کتاب ’’پنجاب چیف‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’مرزاہادی بیگ کو قادیان کے گردوپیش ستر(۷۰) دیہاتوں پر قاضی یا مجسٹریٹ تعینات کیاگیا تھا۔ قادیان جسے مرزاہادی بیگ نے آباد کیا، کا پہلا نام ’’اسلام پور قاضی‘‘ تھا۔ جو بعد میں بدلتے بدلتے قادیان بن گیا۔ کئی نسلوں تک یہ خاندان سرکاری عہدوں پر فائز رہا۔ جب سکھ اقتدار میں آئے تو یہ خاندان کسمپرسی اور غربت کا شکار ہوگیا۔‘‘
اس کے بعد میں جسٹس منیر احمد (مرحوم) کی انکوائری کمیٹی ۵۴۔۱۹۵۳ء کی رپورٹ سے اقتباس عرض کروں گا۔ مرزاغلام احمد کے متعلق کورٹ آف انکوائری رپورٹ میں درج ذیل ہے: ’’مرزاغلام مرتضیٰ جو کہ سکھ دربار کا جرنیل تھا، کا پوتا۔ اس نے فارسی اور عربی زبان کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ مگر کوئی مغربی تعلیم حاصل نہ کی۔ ۱۸۶۴ء میں اس نے ضلع کچہری سیالکوٹ میں کوئی ملازمت حاصل کی اور چارسال ملازمت میں گذارے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ دل وجان سے مذہبی ادب کی طرف متوجہ ہوا اور ۸۴۔۱۸۸۰ء کے درمیان مشہور زمانہ کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ چار جلدوں میں تصنیف کی۔ اس کے بعد اور کتابیں تصنیف کیں۔ اس زمانے میں شدید مذہبی تکرار اور مناظرے ہورہے تھے۔ اسلام پر نہ صرف عیسائیوں بلکہ آریہ سماج کی طرف سے باربار حملے ہورہے تھے۔ آریہ سماج ایک ہندو تحریک تھی جو کہ ان دنوں ہردلعزیز بنتی جارہی تھی۔‘‘
میرے خیال میں جسٹس منیر احمدکا یہ کہنا درست نہیں کہ مرزاغلام احمد، مرزاغلام مرتضیٰ کا پوتا تھا۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ مرزاغلام مرتضیٰ، مرزاغلام احمد کے والد کا نام ہے۔ (نہ کہ دادا کا) ایوان میں مرزاناصر احمد کے بیان کے مطابق ۸۰۔۱۸۶۰ء کے درمیان انگریز اپنے ساتھ پادریوں کی ایک فوج ظفرموج لائے تھے۔ جن کی تعداد کوئی ستر کے لگ بھگ تھی۔ جس کے باعث شدید قسم کے مذہبی مناظرے شروع ہوگئے۔ ان پادریوں نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنادیں گے۔ ان پادریوں کے اسلام اور حضرت محمد ﷺ پر حملوں کے بارے میں مرزاناصر احمد نے کہا: ’’حکومت کے بل بوتے پر انہوں نے یہ کیا اور کر رہے تھے۔‘‘
مرزاناصر احمد کے مطابق چند علماء اور اسلام کا درد رکھنے والے رہنما عیسائیوں کے حملوں کو روکنے کے لئے آگے بڑھے ایسے لوگوں میں نواب صادق (صدیق) حسن خان، مولوی آل حسن، مولوی رحمت اﷲ مہاجر دہلوی، احمد رضا صاحب اور مرزاغلام احمد شامل تھے۔ مرزاناصر احمد نے کہا کہ میں ان سب کو تو نہیں جانتا تاہم میرا ایمان صرف مرزاغلام احمد پر ہی نہیں ان سب پر ہے۔ ’’اﷲ نے فراست دی تھی، اسلام کا پیار دیا تھا۔‘‘
اور یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے وہ عیسائیوں کے اسلام اور حضرت محمد ﷺ پر حملوں کو پسپا کرنے کے لئے میدان میں آئے۔ یہی مباحثے اور مناظرے مرزاغلام احمد سمیت ان تمام مسلمانوں کی ہردلعزیزی کا باعث بنے۔ وہ مسلمانوں کے ہیرو بن گئے اور ایسا معلوم ہوتا ہے۔ اسلام کے خلاف حملوں کی پسپائی میں مرزاغلام احمد ہردلعزیزی میں سرفہرست تھا۔ گویہ بات شہادت سے بالکل عیاں ہوتی ہے کہ ان حملوں کی پسپائی کے لئے جو طریقے اختیار کئے گئے۔ ان میں سے چند ایک نامناسب بلکہ قابل اعتراض تھے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جس طرح توہین کی گئی۔ یہ نہ صرف آج بھی قابل اعتراض ہے۔ بلکہ اس دور میں مسلمانوں نے اس پر اعتراضات کئے تھے۔ اس دور میں بھی مرزاغلام احمد کو باربار وضاحتیں کرنا پڑتی تھیں۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ غالباً اس ہردلعزیزی کا ہی نتیجہ تھا کہ ۱۸۸۹ء میں مرزاغلام احمد نے ۵۴سال کی عمر میں اپنے پیروکاروں اور معتقدین سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا۔ پتہ چلتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں پہلے ہی ذکر کر دیا ہوا تھا کہ اس کا اﷲتعالیٰ سے رابطہ قائم ہے اور اسے الہامی پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم تھا۔ دسمبر ۱۸۸۹ء میں مرزاغلام احمد کے بیٹے یعنی خلیفہ دوئم جماعت احمدیہ ربوہ یا قادیان کے مطابق۔ مرزاغلام احمد نے اس تحریک کی بنیاد رکھی۔ مارچ ۱۸۸۹ء میں حقیقتاً اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک کی ابتداء میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے نبی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ تاہم یہ ذکر ملتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروکاروں سے بیعت لینا شروع کر دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو پیروکار ملتے رہے۔ وجہ یہ تھی کہ مرزاغلام احمد ایک قابل انسان تھا۔ جس کی تحریروں میں بلا کی روانی اور طاقت تھی۔ وہ روانی کے ساتھ عربی، فارسی اور اردو میں لکھتا تھا۔ ہاں! ایک حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ۱۸۸۹ء میں اس بارے میں کچھ شبہ ہے۔ ایک جگہ دسمبر ۱۸۸۹ء کا ذکر ہے۔ مرزاغلام احمد کو الہام ہوا کہ وہ مسیح موعود ہے۔ کہیں اس نے اس کا اظہار یا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ وہ قادیان سے لدھیانہ گیا اور اپنے پیروکاروں سے بیعت لی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس نے اس کا اعلان قادیان میں کیوں نہ کر دیا۔ اس کا فیصلہ آپ پر منحصر ہے۔ مرزابشیرالدین محمود احمد کی کتاب ’’احمدیت اور سچا اسلام‘‘ (ص۱۰) سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ وہاں بیعت لینے گیا تھا۔ دوسری جگہ کسی اور اسلامی ادب میں میں نے پڑھا ہے کہ مسیح موعود اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان ’’لد‘‘ نامی جگہ پر کرے گا۔غالباً اس کے پیش نظر مرزاغلام احمد نے ’’لدھیانہ‘‘ جانا مناسب خیال کیا کہ وہاں جاکر ہی بیعت لینا چاہئے۔ اس نے اس کا آغاز قادیان سے نہیں کیا۔ یہ بات میں آپ کو خصوصی طور پر گذارش کرنا چاہتا ہوں۔ عیسائیوں کے ساتھ مناظروں کے بارے میں میں مزید تفصیلات بعد میں عرض کروں گا۔
ایوان کے نوٹس میں یہ بات لانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ایک سنگین اعتراض یہ عائد کیاگیا ہے کہ مرزاغلام احمد کی نبوت اور احمدیہ تحریک انگریز کی ایماء اور مشورے کی مرہون منت ہے۔ اس بات کا ذکر صرف ریزولیوشن میں ہی نہیں کیاگیا۔ بلکہ بہت سے علمی ادب پاروں میں بھی ذکر ملتا ہے کہ (مرزاغلام احمد کی نبوت اور احمدیہ تحریک) کا شوشہ اس وقت پیدا کیاگیا جب سوڈان سے لے کر سماٹرا تک بیرونی سامراجیت کے خلاف اعلان جہاد ہوا۔ یہ سب انگریزوں نے جہاد کو روکنے کے لئے کیا اور مرزاغلام احمد کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ بھی کیاگیا ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکاروں کے لئے انگریزوں سے مکمل وفاداری جزو ایمان ہے۔ اس کا عہد وہ بیعت کے وقت کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی اہم بات ہے۔ کیونکہ انگریزوں سے وفاداری کی شرط کی مسلمان بہت مخالفت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ بیرونی سامراجیت جس نے ان کی حکومت اور اختیارات کو غصب کر رکھا تھا، سے نجات حاصل کی جائے۔ انگریزوں سے وفاداری کی شرط ایمان ہونے کی وجہ سے احمدی یا مرزاغلام احمد کے پیروکاروں کی شکل میں انگریزوں کو بہت ہی اعلیٰ قسم کے جاسوس مل گئے تھے۔
ہمیں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں افغانستان میں دو مرزائیوں/ احمدیوں کو قتل کر دیا گیا نہ محض اس وجہ سے کہ وہ مرتد ہوگئے تھے۔ بلکہ ان کے قبضہ سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئی تھیں جن سے پتہ چلا کہ وہ انگریز حکومت کے جاسوس تھے اور وہ افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ ایوان کے نوٹس میں میں یہ حقائق لانا چاہتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ درست یا سچ ہیں۔
جہاں تک مرزاصاحب کی قرآن کے فہم یا سوچ کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ کم وبیش سرسید احمد خان جیسی ہی ہے۔ ماسوائے چند آیات کے جن کا تعلق حضرت مسیح علیہ السلام سے ہے یا جن کا تعلق مرزاصاحب کی اپنی نبوت کے بارے میں ہے۔ وہ قرآن کے فہم کا ادراک رکھتا تھا۔ اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اس کا نمایاں ہتھیار اس کی وہ پیش گوئیاں تھیں جن کے ذریعہ وہ محدود مدت کے اندر اندر مخالفین کی موت یا تذلیل کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔
محترم! ۱۸۹۱ء میں مرزاصاحب نے پہلے مسیح موعود ہونے کا اعلان اور بعد میں نبی ہونے کا اعلان کیا۔ اس نے کس قسم کی نبوت کا اعلان کیا۔ اس کا ذکر میں بعد میں کروں گا۔ مرزاغلام احمد کے بیٹے مرزابشیرالدین محمود احمد اپنی کتاب ’’احمدی یا سچا اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس کا کام ان غلطیوں اور غلط توجیہات کا ازالہ کرنا تھا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین کے اندر سرایت کر گئی تھیں۔ بلکہ اس کو اس سے بھی اعلیٰ مقصد کی تکمیل کرنا تھی۔ اس ضمن میں اس کو لامحدود خزانے، اٹل سچائیاں اور پوشیدہ قوتیں تلاش کرنا تھیں۔ قرآن کے اس معجزے کا اعلان کرتے ہوئے مسیح موعود نے ایک روحانی انقلاب برپا کر دیا۔ مسلمانوں کا یہ تو پختہ ایمان تھا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے۔ لیکن گذشتہ پندرہ سو سالوں میں کسی نے یہ خیال نہیں کیا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف مکمل کتاب ہے۔ بلکہ اس میں مستقبل کی ضروریات کے لئے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ موجود ہے جس کی تفتیش اور تحقیق سے روحانیت کے انمول خزانے رونما ہوں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن کے اس اعجاز کو نمایاں کر کے بانی سلسلہ احمدیہ نے روحانیت کی تفتیش اور تحقیق کے راستے کھول دئیے۔ یہ دنیاوی سائنس کے مقابلہ میں بہت ہی اعلیٰ اقدام ہے۔ مرزاغلام احمد نے نہ صرف اسلام کو تمام غلطیوں سے پاک کر دیا۔ بلکہ قرآن کریم پر ایسی روشنی ڈالی جس سے دنیا اور انسانیت کے سامنے عقل ودانش کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا۔ گویا مستقبل کی تمام مشکلات کو حل کرنے کی کلید پیش کر دی۔‘‘
محترم! اس بارے میں صرف ایک دو باتیں کروں گا۔ یعنی یہ کہ مرزاغلام احمد نے ان پوشیدہ خزانوں کا پتہ لگا لیا۔ جن تک گذشتہ تیرہ سو سالوں میں کوئی مسلمان نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس میں کسی شک وشبہ یا تردید کی گنجائش نہیں کہ قرآن کریم خزائن کا مجموعہ ہے۔ یہ عقل وحکمت کا منبع ہے۔ جوں جوں انسان ترقی کرے گا اور قرآن کے اندر گہرا تدبر کرے گا۔ عقل ودانش کے اسرار ورموز اس پر عیاں ہوتے چلے جائیں گے۔ میں نے مرزاناصر احمد سے خصوصی طور پر سوال کیا کہ وہ کون سے انکشافات تھے جو مرزاغلام احمد سے قبل کسی اور مسلمان پر ظاہر نہ ہوئے۔ ماسوائے ختم نبوت کے مطلب کے بارے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں کہ آیا وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میرے اس سوال کے جواب میں مرزاناصر احمد نے کہا کہ مرزاغلام احمد کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر اس تفسیر کا ستر فیصد حصہ نیا ہے۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا یا کوئی رائے دینا اس ایوان کے فاضل علماء کا کام ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ مجھے تو صرف علامہ اقبالؒ کا وہ قول یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ؎
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آن کہ در قرآن بجز از خود ندید
یعنی ہمارے دور میں ایک ایسا نبی پیدا ہوا جس کو قرآن میں اپنے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ میرا خیال ہے یہ ایک نہایت ہی مناسب تبصرہ ہے۔ جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں۔ مرزاصاحب نے قرآن مجید کی صرف انہی حصوں کی تفسیر کی جس میں ان کو ذاتی دلچسپی تھی۔
محترم! اب میں مرزاغلام احمد کی زندگی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے تین مراحل کا ذکر کروں گا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے۔ شروع میں مرزاغلام احمد بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک دینی رہنما تھا اور انہی جیسے عقائد رکھتاتھا۔ اس نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا مقابلہ کیا۔ یہ ۷۶۔۱۸۷۵ء تا ۸۹۔۱۸۸۸ء کا دور تھا۔ مرزاغلام احمد کے اس دور کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے میں اس کی اپنی کتاب ’’حمامتہ البشریٰ روحانی خزائن‘‘ جلد۷ ص۲۰۰ کا ترجمہ پیش کروں گا۔
’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم وصاحب فضل نے ہمارے نبی ﷺ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النّبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول لانبی بعدی میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کے بغیر کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم باب وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کیونکر آسکتا ہے۔ درآں حالیکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اﷲتعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا۔‘‘
یہ بالکل واضح بات تھی۔ اس (مرزاغلام احمد) نے خاتم النّبیین کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا۔ اس کے بعد اس نے مزید کہا: ’’آنحضرت ﷺ نے باربار فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت پر کلام نہ تھا اور قرآن شریف کا ہر لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیات ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘
یہ اقتباس ’’کتاب البریہ‘‘ جلد:۱۳، ’’روحانی خزائن‘‘ حاشیہ ص۲۱۷،۲۱۸ سے تھا۔ پھر وہ اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ جو کہ ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۳ ص۴۱۲ میں شائع ہوئی۔ کہتا ہے: ’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ کیاگیا ہے جو جو حدیثوں میں بہ تصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ ﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور سچ ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
اس کے بعد یہ مرزاصاحب کے ایک اشتہار کی عبارت کا حوالہ ہے۔ جو ۲۰؍شعبان کو رسالہ ’’تبلیغ‘‘ میں شائع ہوا: ’’ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے قائل ہیں اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
یہ اس کی (مرزاغلام احمد کی) ذہنی زندگی کا پہلا دور تھا۔ دوسرے دور کا آغاز ۱۸۸۸ء کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ جب اس نے اپنے پیروکاروں سے بیعت لینا شروع کی۔ میں حلف بیعت کے متعلق مرزابشیرالدین محمود کی کتاب کے ص۳۰ کو پڑھتا ہوں: ’’المختصر کتاب کا اثر (براہین احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے) آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور مسیح موعود کو کئی لوگوں نے تحریری خطوط لکھے کہ وہ ان سے بیعت لیں۔ لیکن مرزاغلام احمد نے نہ مانا اور جواب دیا کہ اس کے تمام اعمال الہامی ہدایت کے تابع ہیں۔ دسمبر ۱۸۸۸ء میں مرزاغلام احمد کو الہام ہوا کہ وہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لیں۔ سب سے پہلی بیعت لدھیانہ میں ۱۸۸۹ء میں لی گئی (جس کا ذکر میں نے پہلے کیا) یہ بیعت میاں احمد جان کے گھر میں لی گئی اور سب سے اوّل بیعت کرنے والا مولوی نوردین تھا۔ اس روز کل چالیس آدمیوں نے بیعت کی۔ اس وقت تک اس نے مسیح موعود یا نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک وہ یہی کہتا تھا کہ اس کا خدا سے رابطہ ہے اور اسے الہامی پیغامات وصول ہوتے ہیں۔‘‘
محترم! اب ہم اس کی زندگی کے دوسرے دور کی طرف جاتے ہیں کہ اس کا آغاز اس نے کیسے کیا۔ میں غلطی کر سکتا ہوں۔ مگر جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ مرزاغلام احمد نے پہلے جو پوزیشن اختیار کی تھی اس کو تبدیل کرتے ہوئے اس نے بڑی احتیاط سے کام لیا۔ سیالکوٹ کے لیکچر اور راولپنڈی کے مباحثے میں مرزاغلام احمد نے چند ایک دلچسپ انکشافات کئے۔ اس نے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس نے کہا: ’’تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعے وہ نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً فوقتاً آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ۔ اب کیا تم خداتعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور ان کے قدیم قانون کو توڑ دو گے۔‘‘
یہ اگلا قدم ہے جو کہ میں نے ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۲۲۷ سے پڑھا ہے۔ پھر ’’تجلیات الٰہیہ‘‘، ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۴۱۲ پر مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
چنانچہ اب اس نے نبی یا ایک ذیلی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ وہ مکمل نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی امت میں سے ہے اور ان( ﷺ ) کے وسیلہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’تجلیات الٰہیہ‘‘ ص۲۰، ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘ اور ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۴۱۲ پر رقمطراز ہے: ’’میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی اور قطعی بکثرت نازل ہو جو غائب پر مشتمل ہو۔ اس لئے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘
اگلا قدم یا دلیل مرزاغلام احمد نے ’’حقیقت الوحی‘‘ جو کہ ’’روحانی خزائن‘‘ کی جلد۲۲ کے صفحہ۹۹،۱۰۰ پر شائع ہوئی ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے: ’’خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ پر پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی ہے۔‘‘
پھر وہ ’’نزول مسیح‘‘ حاشیہ از ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘، ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۱۸ ص۳۸۱ پر کہتا ہے: ’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی بااعتبار ظلیت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
میں معزز ایوان کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ صرف ایک یا دو اقتباسات پڑھوں گا۔ ’’حقیقت الوحی‘‘ روحانی خزائن جلد۲۲ ص۱۰۰ پر کہتا ہے: ’’اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرایا۔ یعنی آپ کی پیروی ’’کمالات نبوت‘‘ بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی ’’نبی تراش‘‘ ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی ہے۔‘‘
----------
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین کرسی صدارت پر تشریف لائے)
----------
(جناب یحییٰ بختیار: اس کے بعد ہم اس (مرزاغلام احمد) کی زندگی کے تیسرے دور کی طرف آتے ہیں۔ لیکن اس کا ذکر کرنے سے بیشتر میں ایوان کی توجہ ایک دو حوالہ جات کی طرف مبذول کراؤں گا۔ یہ ان کے مطابق لفظ ’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی کے بارے میں ہیں۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ قادیانیوں یا مرزاغلام احمد یا اس کے پیروکاروں کے عقیدے کی رو سے نبی کی ضرورت کیوں تھی۔ اس دلیل کا ذکر ’’کلمتہ الفصل‘‘ جو ریویو آف ریلجن (Review of Religin) کی جلد۱۴ کے شمارے نمبر۳،۴، مارچ،اپریل ۱۹۱۵ء میں ملتا ہے۔ یہ دلچسپ ہونے کے ساتھ جگر سوز بھی ہے۔ ایسا کیوں ہے میں نہیں جانتا۔ مگر مرزاغلام احمد کے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کا پس منظر ص۱۰۱ پر اس طرح درج ہے: ’’دجال نے پورے زور کے ساتھ خروج کیا تھا یاجوج ماجوج کی فوجیں ہر ایک اونچی جگہ سے امڈی چلی آتی تھیں۔ اسلام عیسائیت کے پاؤں پر جان کنی کی حالت میں پڑا تھا اور دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی تھی۔ مگر اس پر بھی مسلمانوں کے کانوں پر جوں تلک نہ رینگی اور وہ خواب غفلت میں سویا کیے۔ حتیٰ کہ وقت آیا جب محمد ﷺ کی روح اپنی امت کی حالت زار کو دیکھ کر تڑپتی ہوئی آستانہ الٰہی پر گری اور عرض کیا کہ اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے غریبوں کی مدد کرنے والے! میری کشتی ایک خطرناک طوفان میں گھر گئی ہے۔ میری بھیڑوں پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ میری امت شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے تو خود میری مدد فرما اور میری بھیڑوں کے لئے کسی چرواہے کو بھیج۔ تب یکا یک آسمان پر سے ظلمت کا پردہ پھٹا اور خدا کا ایک نبی فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر اترا تاکہ دنیا کو اس طوفان عظیم سے بچائے اور امت محمدیہ کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لے۔‘‘
مزید وہ کہتا ہے: ’’وہ جو دنیا کا آخری نجات دینے والا بن کر آسمان پر سے دنیا کی مصیبت کے وقت زمین پر اترا وہ جو امت محمدیہ کی بھیڑوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کو ہلاک کرنے کے لئے آیا وہ جو اسلام کی کشتی کو طوفان میں گھرے ہوئے دیکھ کر اٹھاتا اسے کنارہ پر لگائے۔ وہ جو خیرالامم کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار پاکر شیطان پر حملہ آور ہوا وہ جو دجال کو زوروں پر دیکھ کر اس کے طلسم کو پاش پاش کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ جو یاجوج ماجوج کی فوجوں کے سامنے اکیلا سینہ سپر ہوا وہ جو مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے امن کا شہزادہ بن کر زمین پر آیا وہ جو دنیا پر اندھیرا چھایا ہوا پاکر آسمان پر سے نور کو لایا ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا تھا۔ جب وہ زمین پر اترا تو امت محمدیہ کی بھیڑیں اس کے لئے بھیڑیے بن گئیں۔ اس پر پتھر برسائے گئے۔ اس کو مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ اس کے قتل کے منصوبے کئے گئے۔ اس پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کو اسلام کا دشمن قرار دیا۔ اس کے پاس جانے سے لوگوں کو روکا گیا اس کے متبعین کو طرح طرح سے تکلیفیں دی گئی…‘‘
جناب والا! مجھے اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف تو احمدیوں یا قادیانیوں کی طرف سے بڑے طمطراق سے کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آسمان سے نہیں ہوگا۔ (جب کہ دوسرے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے) لیکن اس اقتباس میں پرزور طریقے سے ایسی تصویر پیش کی گئی ہے۔ گویا وہ جسمانی طور پر آسمان سے اتر رہے ہیں۔ اس سارے قصہ کا جگرسوز پہلو یہ ہے کہ ایک طرف بتایا جارہا ہے کہ اس (مرزاغلام احمد) کی کس قدر شدید ضرورت تھی۔ اس نے کیا کیا۔ کارنامے انجام دینا تھے او رمسلمانوں کی مدد کے لئے اس کے کیا کیا مقاصد تھے۔ لیکن پھر وہ کہتا ہے کہ: ’’بھیڑیں بھیڑیے بن گئیں۔‘‘
یہ ردعمل کیوں ہوا۔ ایک اپنے آدمی کے خلاف جو ایک دوست تھا۔ ہیرو تھا۔ امداد کر رہا تھا۔ اس قدر شدید مخالفت کیوں ہوئی۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہے اور اس کا جواب بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ اس نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ایمان پر حملہ کیا تھا۔ میرا مطلب مسلمانوں کے ’’خاتم النّبیین‘‘ کے ایمانی تصور سے ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس کی اس قدر شدید مخالفت کرتے۔
جناب والا! مرزاغلام احمد نبی اور مسیح موعود کیوں بنا۔ اس کی ضرورت کیا تھی۔ مرزاغلام احمد کے اور اس کے پیروکاروں کے ختم نبوت کے متعلق کیا تصورات ہیں۔ ان سب سوالوں کا جواب مرزابشیرالدین محمود احمد کی کتاب ’’احمدیت یا سچا اسلام‘‘ ۱۹۳۷ء ایڈیشن ص۱۰،۱۱ پر ملتا ہے۔ جسے میں پیش کرتا ہوں: ’’ہمارا ایمان ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی بنیاد کی جانشینی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کیونکہ عقل اس سلسلہ کے دائمی طور پر موقوف ہونے کو تسلیم نہیں کرتی۔ جب تک دنیا میں نفسیاتی تاریکیوں کے دور آتے رہیں گے جب تک انسان اپنے خالق سے دور ہوتا رہے گا۔ جب تک لوگ صراط مستقیم سے بھٹکتے رہیں گے اور یاس وناامیدی کے اندھیروں میں گم ہوتے رہیں گے… اور جب تک حسن کے متلاشی سچائی کی تلاش کے لئے کوشاں رہیں گے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ حق کا راستہ دکھانے والے نورانی رہبروں کا ظہور موقوف ہو جائے۔ کیونکہ یہ بات اﷲتعالیٰ کی صفت ’’رحمانیت‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اﷲتعالیٰ علاج کی اجازت تو دے مگر اس کا علاج پیدا نہ کرے۔ وہ دلوں میں حق کی جستجو کی خواہش تو پیدا کرے مگر اس خواہش کی تکمیل کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ بند کر دے۔ ایسا خیال کرنا بھی اﷲتعالیٰ کی صفت ’’رحمانیت‘‘ کی توہین ہے اور ایسا خیال روحانی اندھا پن ہے۔ اگر دنیا میں کبھی بھی کسی نبی کی ضرورت تھی تو آج یہ ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ مذہب اور سچائی کھوکھلے ہو چکے ہیں۔‘‘
جناب والا! یہ ایک مدلل بات معلوم ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہ دنیا کا سلسلہ ہے کہ اس میں ہر قسم کے لوگ پیدا ہوں گے اور جس طرح اﷲتعالیٰ پہلے انبیاء بھیجتا رہا ہے۔ آئندہ بھی نبی آتے رہیں گے۔ بظاہر یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔ انسانیت کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے وحی کی ضرورت رہے گی اور اسی طرح کسی ایسی ہستی کی بھی جو ’’وحی‘‘ کی ترجمانی کر سکے۔ یہ ان کی طرف سے ایک عقلی سی بات ہے۔ انہوں نے یہ کتاب انگلینڈ میں انگریزوں کے لئے شائع کی ہے۔ جب میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ کیا حضرت محمد ﷺ کے بعد اور مرزاغلام احمد سے پہلے کوئی نبی آیا۔ تو مرزا ناصر احمد نے نفی میں جواب دیا۔ پھر میں نے پوچھا کیا مرزاغلام احمد کے بعد کوئی نبی آیا یا کسی اور نبی کے آنے کا امکان ہے۔ تو پھر بھی مرزاناصر احمد نے نفی میں جواب دیا۔ چنانچہ یہ تمام دلائل دھند اور دھوئیں کی طرح مٹ گئے تو اس کا پھر آخر مطلب کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کو نعوذ باﷲ خاتم النّبیین مانتے ہیں۔ یہی ان کا مقصد ہے۔
(جناب چیئرمین: میرا خیال ہے کہ باقی کل کر لیں گے۔ کل ساڑھے نو بجے صبح اجلاس ہوگا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!)
----------
(پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس ۶؍ستمبر ۱۹۷۴ء صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی ہوا)
----------