• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی ( اٹھارواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری جہانگیر علی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
چوہدری جہانگیر علی: جناب ڈپٹی چیئرمین صاحبہ! موجودہ مسئلہ جو اس خصوصی کمیٹی کے سامنے درپیش ہے۔ یہ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہے اور سیاسی نتائج بھی اس سے منسلک ہیں۔ اس مسئلے نے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کے بعد اس ملک میں جو صورتحال پیدا کی اس کے متعلق ۱۳؍جون ۱۹۷۴ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب وزیراعظم اپنے نقطۂ نظر کا اظہار فرماچکے ہیں اور انہوں نے ملک وقوم کے مفاد کے پیش نظر اس مسئلے کو اس ملک کے سب سے بڑے ادارے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا اور قومی اسمبلی نے خود فیصلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سپیشل کمیٹی میں تبدیل کیا اور تقریباً دو ماہ ہوئے کہ اس مسئلہ کے اوپر اس ہاؤس کے اندر شہادتیں بھی پیش ہوئیں۔ بیان بھی ہوئے اور جرح بھی ہوئی۔ میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ جو شہادت ریکارڈ پر آئی ہے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ کیا فریقین اپنے اپنے کیس کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا احمدی جماعت کے لیڈر اپنے کیس اس ایوان کے سامنے ثابت کر چکے ہیں؟ انہوں نے حزب اختلاف یعنی غیراحمدی مسلمانوں کا کیس ناکام کر دیا ہے؟ یا غیراحمدی مسلمانوں کے دعوے کو وہ رد نہیں کر سکے؟ اور اپنے دعوے کی بھی صحیح طرح پر تصدیق نہیں کر سکے؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! مجھے ۱۹۷۰ء کا وہ ماحول یاد ہے جب جناب ذوالفقار علی شہرشہر اور قریہ قریہ اپنی پارٹی کا منشور بیان کرنے کے لئے، اور غریب عوام کو سیاست سے روشناس کرانے کے لئے، ان میں سیاسی تدبر پیدا کرنے کے لئے دورے کیا کرتے تھے۔ میں نے اکثر مقامات پر دیکھا کہ جناب بھٹو سے مذہب کے متعلق اکثر سوال کئے جاتے تھے اور ختم نبوت کے متعلق آپ 2853سے استفسار کیاجاتا تھا۔ خود میرے شہر سرگودھا میں لوگوں نے جناب بھٹو کے سر پر قرآن رکھ کر یہ پوچھا تھا کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ جو آدمی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا میں اسے مسلمان نہیں سمجھتا اور میں خود ایسا مسلمان ہوں جس کا ختم نبوت کے اوپر اعتقاد ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(صدارت، وزارت عظمیٰ اور ختم نبوت)
جناب ڈپٹی چیئرمین! جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ اس ملک کے اندر آئینی بحران ہے اور سالہا سال سے ملک بغیر کسی آئین کے چل رہا ہے۔ جناب بھٹو نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ان کو عوامی دستور دیں گے بلکہ ان کو اسلامی دستور دیں گے۔ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ اسلامی دستور بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ ممبران قومی اسمبلی اگر مسلمان ہوں اور صحیح عقیدے کے مسلمان ہوں تو پھر ہم اتفاق رائے سے غیرمتنازعہ قسم کا اسلامی دستور اس ملک کو دے سکیں گے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! شاید یہی وجہ تھی کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے لئے اپنی پارٹی کا ٹکٹ کسی احمدی یا قادیانی کو نہیں دیا اور آج ہم یہ بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ہاؤس کے سو فیصد ممبران کا عقیدہ ختم نبوت پر ہے اور وہ اس کے اوپر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتفاق رائے سے اس ملک کو ایک عوامی اور اسلامی دستور دے چکے ہیں اور اس اسلامی دستور میں ہم نے نظریہ ختم نبوت کو بھی تحفظ دیا ہے اور اگرمیں آپ کے سامنے دستور کے تھرڈ شیڈول کی عبارت پڑھ کر سناؤں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے اندر واشگاف الفاظ میں ختم نبوت کو تحفظ دیا گیا ہے اور جو آدمی ختم نبوت کے اوپر ایمان کا اور اعتقاد کا حلف نہیں اٹھاتا وہ اپنے آپ کو نہ مسلمان کہلوا سکتا ہے نہ کرسی صدارت پر بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوسکتا ہے۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! جہاں تک مذہبی عقیدے کا تعلق ہے اس پر بہت سارا لٹریچر اس کارروائی کے دوران مختلف اسلامی اور احمدی عقیدہ رکھنے والوں کی جانب سے ممبران قومی اسمبلی 2854کے پاس آیا اور ہم نے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ فاضل ممبران قومی اسمبلی مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب اور مولانا عبدالحکیم صاحب نے جو اسلامی عقیدے کا بیان اس کمیٹی کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے میں ان دونوں کے بیانات سے سوفیصد متفق ہوں۔ لیکن اگر ہم نے صرف اپنے علمائے کرام کے بیانات پر اور ان کے وعظ ونصیحت پر ہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر اسمبلی کے سامنے لاہوری جماعت اور ربوہ جماعت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی اجازت دینے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ وعظ ونصیحت سن کر ہی ہم اسی وقت فیصلہ دے سکتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں یا غیرمسلم ہیں؟ مگر چونکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دینے سے پہلے آپ اس کو ضرور سماعت کر لیں اور اس کے عذرات سن لیں۔ یہی نیچرل جسٹس اور Good Conscience (روشن ضمیری) کا تقاضا ہے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! یہی وجہ ہے کہ قادیانی لیڈروں کو اپنا نقطۂ نظر اس اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ بلکہ انہوں نے خود اس کا مطالبہ کیا تھا کہ فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں اسمبلی کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن اور اپنا عقیدہ واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کے بیانات پر جرح کے دوران میں نے کوشش کی کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کارروائی کے دوران حاضر رہوں اور میں نے یہ کوشش بھی کی کہ اگر وہ کوئی اس قسم کے دلائل پیش کر سکیں یا ثبوت دے سکیں کہ ان کا عقیدہ سچا ہے اور وہ مجھے قائل کر سکیں تو شاید میں ان کے عقیدے پر ایمان لے آؤں۔ اسی نظریہ سے میں نے ان کے تمام دلائل سنے۔ وہ شہادت جو اس اسمبلی کے ریکارڈ پر آئی ہے اگر میں اس کا آپ کے سامنے اور فاضل ممبران اسمبلی کے سامنے جائزہ لوں تو ہم یہ دیکھ لیں گے کہ کیا ان کا نظریہ اس قابل ہے کہ میں اس پر ایمان لے آتا،یا ان کا نظریہ اس قسم کا ہے کہ میں اس کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر کا بیان تضادات کا مجموعہ)
2855جناب ڈپٹی چیئرمین! ان تحریری بیانات کا جو انہوں نے داخل کئے ہیں اور اس مؤقف کا جو جرح میں ان سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں ایک صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے یہ نکات زیرغور لانے ہوں گے کہ گواہ کا Status (منصب) کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ وہ فارسی دان ہے۔ وہ عربی میں مولوی فاضل ہے۔ اس نے آکسفورڈ سے گریجوایشن کی اور وہیں سے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان اور ہندوستان میں ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۶۵ء تک ایک کالج کا پرنسپل رہا۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! یہی نہیں بلکہ جس شخص کو یہ کہتے ہیں کہ وہ امتی یا تشریعی یا آخری نبی ہے۔ اس کا یہ پوتا ہے اور خلیفہ ثانی کا لڑکا ہے۔ یہ اس گواہ کا Status (منصب) ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس گواہ نے اپنے Status (منصب) کے مطابق صحیح بیان دیا یا ہیرا پھیری کی ہے؟ اس نے جھوٹ بولا ہے یا اس نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے؟ اس نے سوالات سے کترانے کی کوشش کی ہے، اس کا رویہ اس ہاؤس میں Hostile (جارحانہ) رہا ہے یا نہیں؟ اس نے عدم تعاون کا ثبوت تو نہیں دیا یا حقائق کو چھپانے کی کوشش تو نہیں کی؟ کیا وہ اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لئے اپنے مخالف دلائل کو رد کر سکا ہے؟ یا وہ اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے کے کیس کو جھوٹا ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! میں چند نکات لے کر بیانات کی روشنی میں ان نکات پر اس گواہ کے کردار اور اس کے کریکٹر اور اس کے عقیدے کا آپ کے سامنے تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں یہ پوائنٹ لوں گا کہ اس نے اپنے خلیفہ ثالث منتخب ہونے کے متعلق اس ہاؤس میں کیا کہا؟ کیا یہ ایسے دلائل ہیں جن سے ہم تسلیم کر لیں کہ جس شخص کا (نبی کا) یہ تیسرا خلیفہ ہے وہ بھی برحق تھا یا اور یہ اس کا تیسرا خلیفہ بھی برحق ہے یا نہیں؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! اگر ہم کسی غیرمسلم کو اسلام کی دعوت دیں تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ، آپ ﷺ کی تعلیمات اس کے سامنے بیان کریں اور ان کو سپورٹ 2856کرنے کے لئے آپ ﷺ کے خلفاء راشدین کے کردار کا، ان کی قربانیوں کا، ان کی راست بازی کا بھی ہم جائزہ لیں۔جس شخص کے خلیفہ کا کردار شک وشبہ سے بالا تر ہوگا یقینا اس کی نبوت بھی سچی اور واجب القبول ہوگی۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ خلفاء راشدین کے کردار نے آنحضرت ﷺ کی سیرت کو، آپ کی نبوت کو اور آپ کے کردار کو اپنے عمل سے، اپنے قول وفعل سے کس حد تک برحق اور سچا ثابت کرنے کی کوشش کی، کس حد تک بلند رکھا، کس حد تک سپورٹ کیا۔ اسی طرح ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس تیسرے خلیفہ نے اپنے نبی کے کردار کو کس حد تک سپورٹ کیا ہے۔ کیا اس کا کردار ایسا ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ واقعی ایک نبی کا تیسرا خلیفہ ہے۔ اگر اس کا کردار ایک خلیفہ کے کردار کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ نبی بھی اس قابل نہیں ہے کہ ہم اس کو نبی تسلیم کریں؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ممبران کی لسٹ موجود نہیں؟)
اپنے انتخاب کے متعلق اس نے کہا ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ نے انتخاب کے ذریعے اپنا امام بنایا ہے۔ مجھے الیکٹورل کالج کے ذریعے منتخب کیاگیا۔ اس کالج کے ممبران کی تعداد تقریباً پانچ سو ہے۔ اس میں تبلیغی مشن کے کچھ لوگ جماعت کے اندرونی مبلغین، ذمہ دار وعہدیداران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ممبروں کوضلع کی تنظیم نے نامزد کیا ہے اور جب ہم نے اس سے یہ پوچھا کہ کیا آپ کے الیکٹورل کالج کے ممبران کی کوئی آخری لسٹ آپ کے پاس ہے؟ تو اس نے کہا ہمارے پاس کوئی آخری لسٹ موجود نہیں ہے۔ اس نے کہا انتخاب بلا مقابلہ ہوتا ہے۔ اسے Contest نہیں کیا جاتا۔ کوئی دیگر شخص اپنا نام پیش نہیں کر سکتا۔ الیکشن کے قواعد ہمارے پاس نہیں ہیں۔ صرف روایات ہیں۔ خلیفہ کو سبکدوش کرنے کا کوئی طریقہ کار باقاعدہ نہیں ہے۔ اسے اﷲتعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ الیکٹورل کالج کے ممبران کے ذہن پر اﷲتعالیٰ کا اثر ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی ان کا خلیفہ بھی چاہے تو وہ بھی نبوت کا دعویٰ کر سکتا 2857ہے) خلیفہ کو کوئی ذہنی یا جسمانی مرض لاحق نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ یہ عقیدہ کس حد تک صحیح ہے۔ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ یہ ہمارا ایمان ہے اور ان کا خلیفہ ایسا ہے کہ شاید موت کا ذائقہ بھی ان کے عقیدہ کے مطابق نہ چکھتا ہو، تاوقتیکہ وہ خود ہی مرنا نہ چاہے۔ خلیفہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ ایسی کوئی باڈی نہیں جو خلیفہ کے فیصلے کو Over-rule (رد) کر سکے۔ خلیفہ مجلس شوریٰ کے فیصلے میں ردوبدل نہیں کرتا۔ خلافت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اس سے استعفاء نہیں لیا جاسکتا۔ مرزاناصر احمد کے اس بیان میں تضاد ہے۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ خلافت اﷲتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ الیکٹورل کالج خلیفہ کو منتخب کرتا ہے۔ جس کی کوئی حتمی فہرست یا کوئی ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کی فیملی؟)
جناب ڈپٹی چیئرمین! ان کے نبی کی یعنی مرزاغلام احمد صاحب کی فیملی کے متعلق جب اس سے پوچھتے ہیں کہ مرزاصاحب کی فیملی کن اصحاب پر مشتمل ہے تو دیکھئے کہ وہ سچ کہتا ہے یا جھوٹ۔ اس کا استدلال قدرتی ہے یا بناوٹی ہے یا اس میں کسی دجل سے کام لیا جارہا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ مرزاصاحب کی فیملی سے مراد ان کے صرف تین بیٹے ہیں۔ ان کی دیگر اولاد فیملی میں شامل نہیں۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! عام عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص کے نطفے سے جتنے بھی افراد ہوں گے وہ اس کے افراد کنبہ ہوں گے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ کیا اس کی اولاد میں سے صرف تین ہی افراد ان کے نطفے سے تھے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر امیرالمؤمنین؟)
اس کے بعد مرزاناصر احمد گواہ، امیر المؤمنین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور امیرالمؤمنین کا جو وہ مطلب بیان کرتا ہے اب آپ یہ دیکھئے کہ کیا وہ ہمارا بھی امیر ہوسکتا ہے۔ کیا اس کی نظر میں کیا اس کے عقیدہ کے لحاظ سے ہم بھی مؤمنین کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں کا امیر جو ہمارے نظرئیے سے متفق ہوں امیر المؤمنین کہلاتا ہے۔ اسکا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ ان 2858کے نظرئیے سے متفق نہیں ہیں وہ مؤمنین نہیں ہیں۔ مؤمن صرف وہ لوگ ہیں جو ان کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ گواہ نے وضاحت کی کہ میں تمام مسلمانوں کا امیریا خلیفہ نہیں ہوں۔ اگر وہ اپنے آپ کو تمام مسلمانوں کا خلیفہ ثابت کرتا تویقینا ہم اس کو مان لیتے۔ بشرطیکہ اس کا ثبوت ناقابل تردید معیار کا ہوتا۔
اس نے مزید کہا ہے کہ ہماری جماعت کے اغراض ومقاصد حقیقی اسلام قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ سیاسی مفادات حاصل کرنا، سیاست میں حصہ لینا، سیاست سے فائدہ اٹھانا ہمارا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ سیاست ہمارے اغراض ومقاصد میں شامل ہی نہیں ہے۔ آگے چل کر جناب ڈپٹی چیئرمین! میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ جب یہ مسلمان اور غیرمسلمان کی تعریف کرتے ہیں وہاں بھی سیاسی مسلمان اور غیرسیاسی مسلمان کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جب یہ کافر کی تعبیر کرتے ہیں تو اس میں بھی سیاسی کافر اور غیرسیاسی کافر کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی جماعت کی تعداد؟)
جماعت احمدیہ کی نفری یا تعداد کے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو آپ دیکھئے کہ ان کا کیا سٹینڈ ہے اور انہوں نے اپنا مؤقف کیا اختیار کیا ہوا ہے؟ جواب میں مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے کہ پاکستان میں گزشتہ بیس سال سے کتنے احمدی Convert (تبدیل) ہوئے ہیں یا جماعت میں کتنے لوگ شامل ہوئے ہیں؟ ہم کوئی ایسا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ جب پوچھا گیا کہ بیعت کے رجسٹر کی گنتی کی جاتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ گواہ امیرجماعت احمدیہ ہے۔ خلیفہ (ثالث) ہے اور امیرالمؤمنین ہے اور اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی جماعت کی کل نفری کتنی ہے۔ نہ اس نے ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ریکارڈ موجود ہے یا نہیں ہے؟ پھر آگے چل کر پلٹتا ہے اور کہتا ہے 2859کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں پینتیس، چالیس لاکھ احمدی ہیں۔ دنیا میں ایک کروڑ ہیں۔ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے وقت چار لاکھ احمدی تھے۔ ۱۹۵۴ء کی مردم شماری میں اگر تعداد چند ہزار درج ہے تو وہ غلط ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار کبھی درست نہیں ہوتے۔ مجھے علم نہیں کہ منیر کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ میں سے کس نے جماعت کی تعداد دو لاکھ بتائی تھی؟ یہ تعداد غلط ہے۔ ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ میں بھی ہماری تعداد غلط تحریر ہے۔ اگر آپ کہیں کہ احمدیوں کی تعداد دولاکھ ہے تو میں کسی دستاویز سے اس کی تردید نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر آپ کسی ریکارڈ یا سرکاری دستاویز سے ثابت کر دیں تو میں تردید نہیں کروں گا۔ کوئی حتمی مردم شماری نہیں کی گئی۔ اس لئے تعداد اندازے سے بتائی گئی ہے۔ اب تعداد پینتیس، چالیس لاکھ ہے۔ بوقت تقسیم ملک چار لاکھ تھی۔ اس وقت تیس پینتیس ہزار ہندوستان میں رہ گئے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج)
اس کے بعد گواہ اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسمبلی کو کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ میں اس کے بیان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تعین کرنے کا حق حاصل ہے کہ یہ اسمبلی جس نے اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا ہے کسی فرقے کے متعلق یہ بھی فیصلہ دے سکتی ہے اور قانون اور دستور میں یہ ترمیم کر سکتی ہے کہ کون صحیح عقیدے کا مسلمان ہے اور کون نہیں ہے۔ اس نے اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی جرح میں کہا ہے کہ مذہبی آزادی ہر شخص کو ہونی چاہئے۔ میرا کہنا ہے کہ کوئی بے وقوف ہی اس کی تردید کرے گا۔ میں نے دستور کی دفعہ آٹھ اور بیس کے تحت اسمبلی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسمبلی جو کہ سپریم باڈی ہے ان دفعات کی ترمیم کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے تحریری بیان یعنی محضرنامے میں یہ بات کہی ہے کہ صرف مسٹر بھٹو، مفتی محمود اور مولانا مودودی کو ہی نہیں بلکہ دستور ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ جب 2860کوئی اپنے مذہب کا اعلان یا اقرار کرے تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں اعتراض یا مخالفت کرے۔ اگر کوئی دنیاوی فائدے اور لالچ کے لئے مذہب کا اعلان کرے تو قرآن پاک کہتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ البتہ اگر کوئی دھوکہ دہی کے لئے مذہب کی آڑ لے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ جو مسلمان نہیں، اسے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ یہ غیرمسلم ہیں اس لئے ان کو مسلمانی کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ جب آپ ایک غیراحمدی کو کافر کہتے ہیں، اگر اسمبلی یہ قرارداد پاس کر دے کہ آپ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اس کا وہ جواب دیتے ہیں کہ پھر جملہ غیر احمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تو اختیار ہے کہ جملہ غیراحمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دے، مگر اس اسمبلی کو یہ اختیار نہیں کہ ایک احمدی فرقے کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ آگے چل کر پھر اس سوال کے جواب میں کہ مسلمان کون ہیں۔ اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جسے مسلمان کہا ہے وہ مسلمان ہے اور اس میں وہ چار حدیثوں کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے اپنے محضرنامے میں بیان کی ہیں۔ اس پر مفتی محمود صاحب کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔
اب ان کو اقلیت قرار دئیے جانے یا نہ دئیے جانے کے موضوع پر اس کے بیانات کا آپ کے سامنے جائزہ لیتا ہوں۔ گواہ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اپنے فرقے کو اقلیت قرار دینے سے ہم مرزاصاحب کو روحانی پیشوا تصور کرنے میں اس طور پر پابندی محسوس کریں گے کہ اس سے ان لوگوں کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالا جائے گا جو ہماری جماعت میں شامل ہوں گے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اقلیت قرار دینے سے مداخلت نہیں بلکہ ہمارا تحفظ ہوگا تو ہمیں ایسے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔
2861جناب ڈپٹی چیئرمین! ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد ان کو غیرمسلم کہے تو ان کے حقوق میں مداخلت نہیں ہوتی۔ البتہ اگر حکومت ان کو غیرمسلم کہے تو مداخلت ہوتی ہے۔ گواہ کا مؤقف یہ ہے کہ ان تین احادیث کی رو سے جو محضرنامے میں درج ہیں کسی حکومت کو حق نہیں کہ کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ جب میں یہ کہوں کہ مفتی محمود کو کوئی حق نہیں کہ ہمیں غیرمسلم کہے تو ہمیں بھی حق نہیں کہ ہم کہیں کہ مفتی محمود مسلمان نہیں ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! امتی نبی کے متعلق مختصر سا جائزہ لیتے ہوئے اس گواہ کے خیالات اور بیانات کے میں آپ کے سامنے مختصر حوالے پیش کرتا ہوں۔ اپنے اس اعتقاد پر کہ مرزاصاحب امتی نبی ہیں۔ ان کی ربوہ والی جماعت کا اور نہ لاہوری جماعت کا موقف غیرمتزلزل نہیں ہے۔ ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ کبھی ایک پوزیشن اختیار کرتے ہیں کبھی دوسری اور کبھی تیسری پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔ بیانات اور جرح کے دوران ان کا سارا استدلال یہ رہا کہ وہ مرزاغلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔ اگر آپ اس پر اعتراض کرتے ہیں، چلئے ہم ان کو مسیح موعود مان لیتے ہیں۔ اگر آپ مسیح موعود بھی نہیں مانتے تو ہم ان کو مہدی موعود مان لیتے ہیں اور اگر آپ ان کو مہدی موعود بھی نہیں تسلیم کرتے تو چلئے ان کو آنحضرت ﷺ کا ظل، ان کا سایہ کہہ لیں اور اس طرح وہ امتی نبی ہیں، بروزی نبی ہیں۔ ان کا یہ مؤقف بھی ان کے اپنے بیان سے منتشر ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتی نبی وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے عشق اور محبت میں اپنی زندگی گزارے اور تسلیم کیا کہ یہ درست ہے کہ دوسرے فرقوں کے لوگ مرزاصاحب کوامتی نبی نہیں سمجھتے۔ ایک جگہ جاکر وہ یہ بھی تسلیم کر گئے ہیں، درست ہے کہ ان کی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ (ص۱۸۳) میں درج ہے کہ مرزاصاحب امتی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! آپ دیکھئے اگر وہ شخص آنحضرت ﷺ 2862کے بعد حقیقی نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے خلیفہ اس بات کا پرچار کریں تو یہ یقینا اسلام کو نہ صرف مسخ کرنے والی بات ہے بلکہ وہ لوگ اس ملک کے اندر ایک نیا اسلام، ایک نیا نبی اور ایک نئی امت قائم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! سب سے بڑا پوائنٹ جو اس ہاؤس میں زیربحث آیا۔ جس پراٹارنی جنرل صاحب نے ان پر بہت زیادہ سوالات کئے۔ یہی ہے کہ کیا مرزاصاحب کو نبی نہ ماننے والا کافر ہے اور کیا غیراحمدی مسلمان ہے یا نہیں؟ اپنے بیانات میں مرزاناصر احمد گواہ نے جو باتیں کہی ہیں وہ یہ ہیں: ’’کفر کے لغوی معنی انکارکرنے والے کے ہیں۔ جو لوگ بانی سلسلہ احمدیہ کے منکر ہیں وہ کافر ہیں۔ لغوی معنوں میں اور اصلی معنوں میں کیا فرق ہے، وہ آپ یہاں دیکھیں کہ انہوں نے کیا حیرت انگیز فرق ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ منکر خداتعالیٰ کے سامنے قابل مواخذہ ہے۔ کفر کے دو معنی ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔ دوسرے سیاسی کافر ہیں۔ ویسے یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی یہ سب کے سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ مسلمان نہیں، بلکہ سیاسی مسلمان ہیں۔ پھر ان سے سوال کیاگیا کافر کے معنی تمام لوگوں میں…‘‘
Madam Acting Chairman: May I request the honourable members to keep their tone low please. Thank you.
(قائمقام چیئرمین صاحبہ: میں معزز اراکین سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنی آواز کو مدہم رکھیں۔ شکریہ!)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر کا شرارتی جواب)
چوہدری جہانگیر علی: جناب ڈپٹی چیئرمین! جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ کیا کافر کے معنی عام لوگوں کے نزدیک یہ نہیں کہ وہ غیرمسلم ہے تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہ کس قسم کا کترانے والا اور کس قسم کا شرارتی جواب دیتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہ تو عام آدمی ہی بتاسکتا ہے کہ عام آدمی 2863کے نزدیک اس کے کیا معنی ہیں۔ میں اس کے متعلق کیا جواب دے سکتا ہوں۔ گواہ نے مزید کہا کہ جسے ہم کافر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اﷲ کے سامنے قابل مواخذہ ہے۔ ایک Sense میں وہ مسلمان ہے ایک Sense میں وہ کافر ہے جو قرآن کے مطابق تمام نبیوں پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں اور میرے نزدیک اس حد تک خارج از دائرہ اسلام ہے کہ آخرت میں قابل مواخذہ ہے جو مرزاصاحب کو نہیں مانتا وہ گنہگار اور کافر ہے۔ کلمہ طیبہ سے انکار ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ مرزاصاحب سے انکار ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔ دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ جسٹس منیر نے ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ کیونکہ وہ ہمارا مؤقف تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ کسی عدالت یاکسی ٹربیونل کے فیصلے سے بچ نکلنے کا اور کتراجانے کا انہوں نے عجیب بہانہ تراشا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں اتھارٹی، فلاں جج، فلاں عدالت چونکہ ہمارا مؤقف تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس لئے اس نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مرزابشیرصاحب نے کہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو مانے اور عیسیٰ علیہ السلام کو نہ مانے یا جو عیسیٰ علیہ السلام کو مانے، نبی کریم ﷺ کو نہ مانے وہ کافر، پکا کافر ہے تو اس کا جواب دیا کہ وہ سیاسی طور پر ایمان سے خارج ہے۔ وہ شخص جو عدم علم کی بناء پر مرزاصاحب کو نبی تسلیم نہ کرے ملت اسلامیہ سے خارج نہیں، گو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اگر ان کے نبی ہونے کا علم رکھتا ہو اور پھر نہ مانے، وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ گواہ نے کہا کہ ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو رشتہ نہیں دیتے۔ قرآن پاک میں دائرہ اسلام کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ملت اسلامیہ کا ذکر ہے۔ ہر وہ شخص جو ملت اسلامیہ کا فرد ہے وہ دائرہ اسلامیہ میں بھی ہے جو دائرہ اسلام میں نہیں ہے وہ ملت اسلامیہ کا بھی فرد نہیں ہے اس نے مزید بیان کیا کہ میرے نزدیک مرتد وہ ہے جو کہے کہ اسلام سے میرا تعلق نہیں رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اگر کوئی احمدی احمدیت ترک کر دے تو وہ لغوی معنوں میں مرتد ہوگیا۔ قرآنی معنوں میں نہیں۔
2864محترمہ قائمقام چیئرمین: آپ کتنا وقت لیں گے؟
چوہدری جہانگیر علی: جتنا وقت لے چکا ہوں اتنا اور لوں گا۔ میں ان کے بیانات کا جائزہ لے رہا ہوں اور یہ ایسی بات ہے جو اس سے پہلے اس ہاؤ س میں زیربحث نہیں آئی۔
اس نے یہ کہا کہ اگر کوئی مسلمان نیک نیتی سے غور کرے اور پھر مرزاصاحب کو نبی نہ مانے تو وہ گنہگار بمنزلہ کافر ہے۔ ’’جوشخص مرزاصاحب کے دعاوی کو اتمام حجت کے بعد بھی نبی نہیں مانتا آپ کے خیال میں وہ کس قسم کا کافر ہے؟‘‘ اٹارنی جنرل صاحب کے اس سوال کا اس نے جواب دیا کہ ایسا شخص بالکل کافر ہے اور جب اٹارنی جنرل صاحب نے یہ پوچھا کہ یہ تمام اسمبلی ان کے تمام دعاوی کو آپ کی تمام دلیلوں کے سننے سے باوجود اگر یہ کہے کہ وہ نبی نہیں ہے تو ان ممبران اسمبلی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہوگا؟ تو اس کا جواب دینے سے وہ کترا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر احمد کا چکر)
غیراحمدیوں کو رشتہ نہ دینے کے متعلق آپ اس کے استدلال سنیں۔ اس نے کہا مسلمان ایک وہ ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم دونوں قسم کے مسلمانوں کو اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں دیتے۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ عقیدے اور دین میں اور اپنے دعاوی کو ثابت کرنے میں اور ہمارے دعاوی کی تردید کرنے میں اس نے چکر ڈالنے کی کوشش کی۔ کہیں ایک چکر ڈالا، کہیں دوسرا چکر ڈالا، کہیں سیاسی چکر ڈالا، کہیں مومن کاچکر ڈالا ہے۔ کہیں مذہبی چکر ڈالا ہے، کہیں کافر کا چکر ڈالا ہے۔ وہ کہتا ہے ہم دونوں قسم کے مسلمانوں کو اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں دیتے۔ پھر اس کی وجہ جواز دیکھئے! ایک مذہبی پیشوا ہے اور اپنے آپ کو ایک نبی کا تیسرا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ یہ شرعی فتویٰ تو نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ ہمیں توقع نہیں ہے کہ غیراحمدی مسلمان احمدی بیوی کے حقوق پورے کرے گا۔ احمدی سے اگر غیراحمدی لڑکی کی شادی ہو تو ہمیں امید ہے کہ احمدی نوجوان 2865ہماری توقع کے مطابق اپنی بیوی کے حقوق پورا کرے گا۔ یہ کتنی بودی دلیل ہے اور کتنا کمزور استدلال ہے۔ گواہ نے مزید کہا کہ مرزابشیرالدین صاحب نے مسلمانوں سے رشتے ناتے کرنے کو اسی لئے ناجائز اور حرام کیا ہے کہ جو چیز فساد پیدا کرتی ہو وہ ناجائز اور حرام ہے۔ اس لئے وہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم غیراحمدیوں میں اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں کرتے۔ یہاں بالکل جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غیراحمدی کو کافر تصور کرتے ہیں۔ اس لئے اپنی لڑکیوں کے رشتے نہیں دیتے اور غیراحمدیوں کی لڑکیوں کے رشتے وہ اس لئے لے لیتے ہیں تاکہ اپنے عقیدہ کے مطابق انہیں اپنے فرقے میں شامل کر سکیں۔
غیراحمدیوں کی نماز جنازہ یہ لوگ کیوں نہیں پڑھتے؟ ان کی کتابوں میں جو کچھ تحریر ہے اس گواہ نے اس ہاؤس میں پیش ہوکر اس کا جواب پیش کرنے کی کوشس کی ہے اور ہم لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ تمام عالم اسلام کو اور ان بیانات کو اور اس شہادت کو پڑھنے والوں کوقائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم غیراحمدیوں کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے۔ آپ دیکھئے اگر ایک عام فہم وفراست کا آدمی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور جھوٹا ہے۔ اس نے کہا کہ تمام غیراحمدی فرقوں نے ہم کو کافر کہا ہے۔ اس لئے ہم غیراحمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ ہم نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ گو انہوں نے ہماری تکفیر نہیں کی تھی۔ مگر وہ شیعہ تھے اور شیعہ حضرات کے ہمارے خلاف کفر کے فتوے سن چکے تھے۔ مگر اپنی زندگی میں ان فتوؤں کو رد نہیں کیا تھا۔ ہم غیراحمدی بچوں کا جنازہ بھی اسی لئے نہیں پڑھتے کہ ان کے والدین نے ہمارے خلاف کفر کے فتوے دئیے یا سنے اور انہیں رد نہیں کیا۔ البتہ وہ بچہ جو جوان ہوکر اپنے والدین کے مذہب کو رد کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب سے منحرف ہوکر مرتد ہو جائے۔ پھر اس کا جنازہ پڑھ لیں گے۔ ویسے جنازہ نہ پڑھنا کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ تو فرض کفایہ ہے۔ اگر 2866ملت میں سے بیس افراد یہ فرض ادا کردیں تو سب کی جانب سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔
 
Top