• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی ( سترہواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قومی اسمبلی میں سترہواں دن

Monday, the 2nd September. 1974.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۲؍ستمبر ۱۹۷۴ئ، بروز سوموار)
----------

The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at ten of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد بند کمرے میں صبح دس بجے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
----------
(Recitation from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
Mr. Chairman: I would like to know as to who would like to speak. You wanted some time.
(جناب چیئرمین: میں جاننا چاہتا ہوں کہ اب کون بات کرے گا۔ آپ کچھ وقت چاہتے تھے)
آپ کی طرف سے آچکا ہے۔ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو مختصر طور پر کہہ لیں۔ کیونکہ مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد نے ۳۷ممبروں کے نام لکھ کر دے دئیے ہیں۔
Sardar Moula Bakhsh Soomro: I wanted to say a few words. (سردار مولا بخش سومرو: میں مختصر سی بات کرنا چاہتا ہوں)

Mr. Chairman: Yes, Mr. Soomro.
(جناب چیئرمین: جی! مسٹر سومرو)
2700Sardar Moula Bakhsh Soomro: Sir, every point in connection with Ahmediat has been fully expressed in its entirety and I only associate myself with sanctity and piety of the proposal and I would only express a few words.
Sir, it is now crystal clear that this was a plot and the plot with all its ramifications has been discussed here and after that there can be no two opinions that according to Muslim conception they are nothing but "Kafir". That being quite clear, then the conclusion or the step that would be taken after clarification is to have them declared not only as non- Muslims but even their publications and literature should be banned if it is meant that hereafter such religious flare ups should be ended for ever.
Sir, their expressions are clear; their only target is the 'Shaan' of Hazrat Muhammad (peace be upon him) and they want that 'Shaan' and they feel this the only object to be achieved. So, Sir, their publications should be banned. Sir, sometimes he speaks that "I am Ghulam-i-Ahmad, I am the slave, a humle slave" and in the same breath he again says that he is Muhammad (peace be upon him) personified and speaks so disparagingly even of As'hab Sidikah, calling himself sometimes personified Hazrat (peace be upon him), and sometimes he puts himself even above all Nabis in the past. About the status of As'hab Sidikah and the Panjtan and Hussain (peace be upon him) he calls them as below himself and call them non- entities. He calls Hazrat Ali (peace be upon him) "murda, mara howa tera Ali". All these things really, Sir, agitate the minds of Muslims. Even during the discussion that went on there in this August House, one had to control and exercise restraint over one- self to see them being spoken so disparagingly and in such a humiliating manner, over whom, our families, our children be "qurban". Therefore, in future such literature should be banned if it is meant really that hereafter there be no religious feuds in this country.
According to their own faith they did not offer prayers of Janaza, even of Quaid-i-Azam, and with open mind said that "he is 'Kafir' or we are 'Kafir', according to their way of faith. Therefore, Sir, just to have the end and termination of this propaganda, the only thing lies that they should be drclared as non- Muslim. Government should now declare their Rabwa to be an open city 2701and their propaganda should be banned hereafter. Not only that. Sir, but as per information received, land surrounding Rabwa in their name should not be given to Ahmadias. I think restriction should be imposed hereafter. Any land surrounding Rabwa should not be given to Ahmadis; it should also be banned. If such steps are taken, I feel that as provided in the Constitution that the religion of this country is Islam, then it will be a proof and they will believe that Islam is the religion of this country.
With these few words I just expressed, I thank you very much.
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب سردار مولابخش سومرو کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
(سردار مولا بخش سومرو: جناب عالیٰ! احمدیت سے متعلقہ ہر نقطہ مکمل طور سے بیان کر دیا گیا ہے اور میں صرف اس تجویز کے احترام اور تقدس کے پیش نظر اس میں حصہ لے رہا ہوں اور میں صرف چند الفاظ میں اظہار خیال کروں گا۔
جناب عالیٰ! اب یہ بات مکمل طور پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور یہ سازش اپنی تمام منفی نتائج کے ساتھ یہاں زیربحث آچکی ہے۔ بعدازاں اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ مسلمانوں کے تصورات کے مطابق وہ یقینا کافر ہیں۔ یہ بات بہت واضح ہوچکی ہے۔ اب نتیجہ یا اگلا قدم یہ ہونا چاہئے۔ اس وضاحت کے بعد انہیں صرف غیرمسلم قرار نہ دیا جائے۔ بلکہ ان کی مطبوعات اور کتابوں پر بھی پابندی لگا دی جائے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے بعد اس قسم کے مذہبی تصادم ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے چاہئیں۔
جناب عالیٰ! ان کے خیالات واضح ہیں اور ان کا ہدف صرف حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس ہے اور یہ شان وہ خود حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ اس شان اور مقام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جناب عالیٰ! ان کی مطبوعات پر پابندی لگادینی چاہئے۔ جناب عالیٰ! کبھی وہ کہتا ہے کہ میں غلام احمد ہوں۔ میں تو غلام ہوں۔ ایک عاجز غلام اور اسی سانس میں وہ دوبارہ کہتا ہے کہ وہ محمد ہے۔ یعنی ان کا عکس ہے اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں مضحکہ خیز باتیں کرتا ہے۔ کبھی وہ اپنے آپ کو حضور ﷺ کا ظل قرار دیتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو گزشتہ تمام پیغمبروں سے افضل قرار دیتا ہے۔ صحابہ کرامؓ، پنجتن پاک کو وہ اپنے آپ سے کمتر قرار دیتا ہے۔ وہ حضرت علیؓ کو مردہ ’’مرا ہوا تیرا علی‘‘ سے خطاب کرتا ہے۔ جناب والا! یہ سب چیزیں مسلمانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتی ہیں۔ اس معزز ایوان میںبحث کے دوران سب کو اپنے آپ کو قابو میں رکھنا پڑا۔ جب ہم نے ان ہستیوں کے بارے میں ان کی توہین آمیز گفتگو سنی۔ جن پر ہمارے خاندان اور اولاد قربان ہو۔ لہٰذا مستقبل میں ایسے لٹریچر پر پابندی لگائی جائے اور مستقبل میں اس قسم کی مذہبی عداوتوں کی اس ملک میں گنجائش نہیں ہونی چاہئیں۔
اپنے عقیدہ کے مطابق وہ مسلمانوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے۔ حتیٰ کہ قائداعظم کا جنازہ بھی نہیں پڑھا اور واضح طورکہا کہ یا وہ کافر ہیں یا ہم کافر ہیں۔ لہٰذا جناب والا، ان کے پروپیگنڈا کو ختم کرنے کے لئے یہی قدم اٹھانا چاہئے کہ انہیں غیرمسلم قرار دیا جائے۔ حکومت ربوہ شہر کو کھلا شہر قرار دے اور آئندہ ان کے پروپیگنڈے پر پابندی لگائی جائے۔ جناب والا! صرف اس قدر ہی نہیں بلکہ موصولہ اطلاعات کے مطابق ربوہ کے نواحی علاقوں میں ان کو موجود اراضی بھی انہیں نہ دی جائے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ پابندی لگا دی جائے اور ربوہ کے گردونواح کی کوئی زمین احمدیوں کو نہ دی جائے۔ اس پر پابندی ہونی چاہئے۔ اگر ایسے اقدامات اٹھا لئے جائیں اور جیسا کہ آئین میں درج ہے کہ اس ملک کا مذہب اسلام ہے تو یہ اس کا ایک ثبوت ہوگا اور یہ لوگ بھی مان لیں گے کہ اس ملک کا مذہب اسلام ہے۔ انہی مختصر الفاظ کے ساتھ میں نے اپنا مدعا بیان کر دیا ہے۔، آپ کا بہت بہت شکریہ!
جناب چیئرمین: شہزادہ سعید الرشید عباسی!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب شہزادہ سعید الرشید عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
شہزادہ سعید الرشید عباسی: جناب والا! میں اس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ جسے پاکستان بننے سے پہلے اور ون یونٹ کے وقت ’’ریاست بہاولپور‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور پنجاب کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔ یہاں اسلام کا بول بالا تھا اور اسلامی قانون نافذ تھے۔ چنانچہ اس سرزمین پر نواب الحاج صادق محمد خان عباسی کے دور میں ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ ایک مقدمہ تھا۔ جو ۱۹۲۶ء میں دائر ہوا اور جو بعد میں ’’فیصلہ بہاولپور‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ مفتی محمود صاحب نے اس فیصلے کا ایک کتابچہ سب ممبر صاحبان کو دیا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ سب صاحبان نے اس کو دیکھ لیا ہوگا۔ جناب والا! فیصلہ بڑا اہم تھا اور یہ فیصلہ اس وقت ہوا جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت نہیں تھی۔ بلکہ انگریزوں کی حکومت تھی اور اس وقت یہ فیصلہ ایک مسلمان ریاست میں ہوا اور یہ مقدمہ کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ آخر سات فروری ۱۹۳۵ء کو منشی اکبر خان نے جو اس وقت ڈسٹرکٹ جج تھے، اس کا فیصلہ سنایا۔ فیصلہ کیونکہ بڑا طویل ہے میں اس میں جانا نہیں چاہتا۔ میں صرف یہ گزارش کروں گا کہ ون یونٹ بننے کے بعد ریاست بہاولپور ختم ہوگئی اور ہمارے ساتھ نا انصافی محض اس لئے ہوئی کیونکہ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ بہاولپور کے عوام نے یہ فیصلہ کیا تھا اور اس دن سے 2702ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وہاں ترقی بند ہوگئی۔ ہم پر ظلم ڈھائے گئے۔ جن صاحبان نے یہ سب کچھ کیا میں ان کے نام یہاں لینا مناسب نہیں سمجھتا۔ بہرحال بہاولپور کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا۔ جب یحییٰ خان کی حکومت تھی تو یہ افسران جو اس وقت یہاں موجود تھے انہوں نے فرید گیٹ کے پرامن جلوس کے اوپر گولی چلائی۔ وہ صاحبان بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا مقصد کیا تھا؟ یہ فیصلہ بہاولپور کے مسلمانوں نے قادیانیوں کے خلاف کیا اور اس کی سزا آج تک ہمیں مل رہی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ حکومت اس بات کو مدنظر رکھے گی۔ ہمارے ساتھ جو کچھ زیادتیاں ہوئیں اور اس فیصلے کے بعد جو سلوک ہوا اور ہمیں جو سزا ملی اور اب میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ بہتر سلوک ہوگا۔ ہماری سزا ختم ہوگی۔ پاکستان بننے کے ۲۷سال بعد آج اس ہاؤس میں یہ فیصلہ ہورہا ہے اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اور جہاں تک بہاولپور کے عوام کا تعلق ہے۔ ہمارے لئے یہ فیصلہ آج سے ۴۰سال پہلے ہوچکا ہے اور میرا ایمان ہے کہ جو فیصلہ ہوا ہے وہ صحیح ہوا ہے اور میں آج بھی اس پر قائم ہوں اور میں اس کی پوری حمایت کرتا ہوں۔ اس کی پوری تائید کرتا ہوں اور حضور ﷺ کا ایک ادنیٰ خادم ہوتے ہوئے آج تک اس پر قائم ہوں اور تادم مرگ قائم رہوں گا۔
جناب چیئرمین: عباسی صاحب! ایک گزارش کردوں، اس دن بھی عرض کیا تھا کہ ہم Close door (بند کمرے میں) سیشن کر رہے ہیں اس میں ایک چیز لازمی ہے کہ ہر چیز کا Solution (حل) بتائیے کہ اقلیت قرار دینے سے کیا فائدہ ہوگا، کیا نقصان ہوگا۔ اگر نہ دیں تو کیا نقصان ہوگا، کیا فائدہ ہوگا، کیونکہ ہم یہاں With realistic approach (حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر) سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ نے دونوں سائیڈ پر کہ کون ساریزولیوشن Adopt (اختیار) کریں جو کہ کافی ہو، ملک جعفر کا کریں یا کوئی اور یا کوئی نئی Proposal (تجویز) دیں۔
2703Now the discussion should be in the form of some proposals, suggestions and solutions---- We have heard much about everything---- in order to lessen the burden on the Steering Committee, which will meet on 4th or 5th to finalise the recommendations in the light of the debate that has taken place. So, I will request the honourable members to come forward with concrete proposals, and they must look towards all the aspects that in case they are declared as a minority, what would be the consequences, and in case they are not declared as a minority, what would be the result and consequences. This should be kept in view.
(اب ہماری اس بحث کو تجاویز مشوروں اور حل کی شکل اختیار کرنی چاہئے۔ ہم نے ہر چیز کے متعلق تفصیل سے سنا ہے۔ لہٰذا سٹیرنگ کمیٹی کے ۴یا۵؍ستمبر کو ہونے والے اجلاس کے دوران اس کے اوپر بوجھ کم کرنے کی غرض سے یہاں ہونے والی بحث کی روشنی میں، میں معزز ممبران سے گزارش کروں گا کہ وہ ذرا آگے کی طرف قدم بڑھائیں اور انہیں (احمدیوں) کو اقلیت قرار دینے سے متعلق تمام پہلوؤں پر نظر رکھیں کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اور انہیں اقلیت قرار نہ دینے کی صورت میں کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اب اس معاملے پر نظر رکھنی چاہئے)
Sardar Moula Bakhsh Soomro: Point of information. As you just said that those who speak should suggest remedial measures or consequential result after such steps, if this is the object which I have been able to understand, in that case you will allow me a few minutes more to express my views on that line. I will just, in my humble way, suggest a few things as desired by you, Sir.
(سردار مولا بخش سومرو: پوائنٹ آف انفارمیشن! جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ جو لوگ گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ اصلاحی اقدامات یا ان اقدامات کے مسلسل نتائج پر بھی گفتگو کریں اگر آپ کا یہی مقصد ہے تو میں اس ضمن میں اظہار خیال کرنے کے لئے کچھ وقت چاہتا ہوں اور آپ کی خواہش کے مطابق چند عاجزانہ مشورے دینا چاہوں گا)
Mr. Chairman: Sahibzada Safiullah.
(جناب چیئرمین: صاحبزادہ صفی اﷲ!)
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Point of information. (ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: پوائنٹ آف انفارمیشن)
Mr. Chairman: Just a minute, I have given the floor to Sahibzada Safiullah.
(جناب چیئرمین: صرف ایک منٹ، میں نے فلور صاحبزادہ صفی اﷲ کو دے دیا ہے)
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اگر اس پر ممبران صاحبان تحریری طور پر تجاویز دیں تو یہ زیادہ موزوں ہوگا۔ کیونکہ زبانی طور پر کئی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کہ انسان کے ذہن سے نکل جاتی ہیں۔
جناب چیئرمین: لازماً تحریری طور پر… کیونکہ یہ ایک نیشنل پرابلم ہے۔ لیکن ایسی باتیں جو کہ ان کتابوں کا حصہ نہ ہوں ان کو یہاں زبانی طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور اگر ممبر صاحبان لکھ کر دینا چاہیں تو وہ لکھ کر بھی دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب سپیکر! میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کتاب وسنت کی رو سے بعض چیزیں رہ گئی ہیں جو کہ بحث میں شامل نہ ہوسکیں، بالخصوص 2704مقام نبوت ہے کہ نبی کی Qualification (قابلیت) کیا ہوتی ہے۔ کتاب الہدیٰ میں نبی کا مقام کیا ہے؟ آیا کوئی آدمی اس مقام کو پاسکتا ہے یا نہیں پاسکتا؟ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے جو اس بحث میں نہیں آیا۔ جناب والا! کیامیں اس موضوع پر چند ایک باتیں عرض کر سکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: کس نے آپ کو روکا ہے؟ اڑھائی مہینے سے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام لوگوں کو پوری آزادی ہوگی، وہ اپنی رائے کا اظہار تحریری طور پر یا زبانی طور پر کسی بھی طریقے سے کر سکتے ہیں۔ میں نے تو صرف Suggestion (تجویز)پیش کی ہے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: شکریہ۔
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: صدرگرامی!میں آپ کا بڑا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اس اہم مسئلہ پربولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ اگر اس ضمن میں میں اپنے خیالات جو اتنی لمبی کارروائی سننے کے بعد میں نے جمع کئے ہیں، میں انہیں ظاہر نہ کروں…جناب والا! مناسب تو یہ تھا کہ میں اس ضمن میں ایک طویل کتاب…
جناب چیئرمین: اس گھڑی کا کچھ کریں۔ اسے Table (میز) سے اٹھا لیں۔
It always creats disturbance in the House.
(یہ ہمیشہ ایوان میں خلل ڈالتی ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سردار عنایت الرحمن خان عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: …آپ کے سامنے پڑھ کر اس ہاؤس میں پیش کرتا۔ لیکن جناب والا! میں وہی معروضات پیش کروں گا جو کہ میں نے اس ہاؤس کی طویل کارروائی سننے کے بعد اپنی رائے قائم کی ہے۔ حالانکہ جناب مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب جو کہ ختم نبوت کے سلسلے میں بڑے پرانے مجاہد ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں تحریری اور زبانی طور پر جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ان کے ارشادات اس ضمن میں، میں آخری اور کافی سمجھتاہوں۔ لیکن میں اپنے طور پر یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب والا! اب یہ کوئی جھگڑا ہی نہیں رہا کہ احمدی نبی کریم ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں یا 2705نہیں؟ کیونکہ ان کے ان طویل بیانات میں جو فاضل جرح اٹارنی جنرل صاحب نے ان پر فرمائی ہے۔ ان کے جوابات میں انہوں نے کسی جگہ بھی یہ نہیں کہا کہ مرزا صاحب نبی نہیں ہیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ لاہوری جماعت جو ان کا ایک حصاری فرقہ ہے۔ جن کے متعلق میرا اپنا ذاتی خیال تھا کہ وہ مرزا صاحب کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ مجددمانتے ہیں۔ یا جو کچھ سمجھ لیجئے یا نبی سے کم درجہ والے۔ لیکن جرح کے دوران میں حیران ہوا کہ کیسی صفائی اور کیسے عجیب و غریب انداز سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ مرزا صاحب یقینا(معاذ اﷲ) نبی ہیں۔
دراصل ان دونوں کا آپس میں جھگڑا یا مخالفت کہ لاہوری اورربوہ گروپ یا فرقہ، ان کا آپس میں جھگڑا نہیں ہے کہ مرزا صاحب نبی یا محدث ہیں۔ مولانا محمد علی صاحب (لاہوری) جو کہ مرزاصاحب کے بڑے قریبی دوست اور ساتھی تھے اور وہ صرف اپنے آپ کو ہی صحیح جانشین سمجھتے تھے۔ جب جانشین کا سوال پیدا ہوا تو بشیر الدین صاحب کہ جو اس وقت سولہ، سترہ یا اٹھارہ برس کے تھے۔ انہیں صرف اس بناء پر کہ وہ مرزاصاحب کے لڑکے ہیں۔ جانشین کر دیا تو مولانا محمدعلی صاحب (لاہوری) نے اپنے ہم خیال لوگوں کو علیحدہ کر دیا کیونکہ یہ ان کی طبیعت کے خلاف تھا۔
جناب! مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ قرآن کہتا ہے، خدا کہتا ہے اور خود نبی کریم ﷺ کا اپنا ارشاد ہے کہ وہ ہر طریقے سے آخری نبی ہیں۔ جناب والا! کسی کا باپ ہوتا ہے۔ یہ عجوبہ بات ہے کہ باپ کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک دوسرا باپ اور ایک تیسری قسم کا باپ؟ اور اگر نبی کے متعلق یہ تاویل لی جا سکتی ہے کہ نبوت کی کئی قسمیں ہیں اور کئی درجے ہیں( معاذ اﷲ) خدا کے بھی کئی روپ ہوں۔ ان کے عقیدہ کے مطابق، تو پھر ہم کس طرح اس بات کو تسلیم کر یں کہ خدا وحدہ لا شریک ہے۔ اس کی کوئی قسم تو نہیں ہوسکتی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیںآتی کہ وہ کون سی نبوت کی قسمیں ہیں۔ مجازی نبی، حقیقی نبی، شرعی نبی اور غیر شرعی نبی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ کسی جانور کو کھانا چاہیں 2706تو اس کے لئے ایک تاویل پیدا کر کے اسے حلال کر کے کھا جائیں۔ تو جناب والا! میں اپنے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں کوئی جھگڑا نہیں ہے کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا (ان کے عقائد کے مطابق) جو کچھ میں سمجھتاہوں وہ توروز روشن کی طرح واضح ہے اوراس بات میں کوئی تضاد ہے ہی نہیں۔ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ وہ خدا جاکے فیصلہ کرے گا کہ وہ نبوت صحیح تھی۔ معیار کے مطابق تھی یا نہیں تھی۔ لیکن ہم اپنے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت اور کسی بھی طریقہ سے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے کہ میں نبی ہوں۔ وحی ان پر نازل ہوتی ہے، عجیب بات ہے۔کتاب میں وہ ترمیم کرتے ہیں بلکہ ایک قرآن کریم کی آیت جس میں ارشاد ہے…غالباً حدیث شریف یا قرآن کریم کی آیت تھی جو دوران جرح واضح کی گئی تھی۔ جس میں ’’میرے پہلے اور میرے بعد‘‘ کے الفاظ ہیں۔ مجھے پتہ نہیں ہے کہ یہ الفاظ حدیث شریف کے ہیں یا قرآن مجید کی آیت ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے’’نہ میرے پہلے اور نہ میرے بعد۔ نبوت کا جو سلسلہ ہے وہ ختم ہے۔‘‘ بعد والی چیز حذف کر دی گئی ہے۔ وہ کتاب میں ذکر کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح جناب والا! ایک اور طریقہ بھی دکھیں۔ایک مسجد ان لوگوں نے تعمیر کی ہے اوراس پر لکھ دیا ہے لاالہ الااﷲ احمد رسول اﷲ ۔ ہم خوش تھے کہ ہم نے ان کی کمزوری پکڑ لی۔ جب ان پر جرح کی گئی تو غالباً وہ فرمانے لگے کہ یہ کوفی رسم الخط ہے۔ میں حیران ہوں جب تمام دنیا میں کلمے کا ایک ہی رسم الخط جاری ہے اور وہ یہ ہے لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ تو کیوں خصوصیت کے ساتھ انہوں نے ایک کوفی رسم الخط استعمال کیا؟ تو یہ تمام باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان نیت میں فتور یقینا موجود ہے۔ آپ بتائیں اگر وہی مسجد قائم رہے اور جو دین میں آج کل ترقی ہو رہی ہے۔ وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ لوگ خدا سے مذاق کرتے ہیں۔ لوگ 2707رسول سے مذاق کرتے ہیں۔ لوگ اپنے طریقہ عبادت میں اس دور میں بھی میں سمجھتاہوں اتنے مکمل اور کامل نہیں ہیں جتنا انہیں ہونا چاہئے۔ پچاس ساٹھ سال کے بعد وہی ایک مسجد ایک عظیم فتنے کی بنیاد بن جائے گی۔
اسی طریقے سے جناب والا! مجھے اس امر کا کامل یقین ہے۔ میں اس خطرے سے بھی اس معزز ہاؤس کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس آنر یبل کمیٹی کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیلیوں کی طرح احمدیت بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ جس وقت انگریز نے اس فتنہ کی ابتداء کی۔ ہم نہیں کہتے کہ مرزا صاحب یا ناصر صاحب کی علمیت کسی طریقے سے کم ہے۔ عالم لوگ ہی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جن لوگوں کو کتاب کا علم اور عبور ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہی اس قسم کی ہیرا پھیری کر سکتے ہیں۔ مرزا صاحب نے یہ جو طریقہ کار جس کی ابتداء جس وقت جن ذہنوں کی کاوش کے نتیجہ کے طور پر ہوئی۔ ان کا اس میں بنیادی مقصد صرف ایک تھا کہ مسلمانوں میں ایک فتنہ پیدا کیا جائے۔ ایک فتنہ کھڑا کیا جائے۔ انہوں نے جو آج اسرائیل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں، یہ یاد رکھیں، یہ غور طلب بات ہے اور سوچنے کا مقام ہے۔ آج آپ اسرائیل کو تاریخ سے نہیں مٹا سکتے۔ تمام عالم اسلام ایک طرف ہے۔ آپ دیکھئے تمام عرب ایک طرف ہے۔ اسرائیل کے خلاف صف آراء ہیں۔ لیکن آج وہ اسرائیل کو نہیں مٹا سکتے۔ جب اسرائیل کا فتنہ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت بھی یہی نوعیت تھی۔ اس کا بھی یہ یہی مقام تھا۔ ان کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہی حیثیت آج ربوہ اختیار کر چکا ہے۔ آپ جگہ دیکھیں کہ کسی وقت اسرائیلیوں نے اپنی ریاست کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کی ابتدائی شکل، ابتداء کی صورت صرف یہی تھی او ر صرف یہی تھی۔
وہ اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے بڑے طویل بیانات اور بڑی طویل جرح کر چکے ہیں۔ میں اس میںاور اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں آپ کی وساطت سے اتنی گزارش ضرور کروں گا کہ ان کو علیحدہ کرنے کے لئے، ان کو نمایاں کرنے کے لئے، ہمارے پاس 2708صرف ایک طریقہ کار ہے کہ ہم آئین میں ترمیم کریں۔ ترمیم صرف اور صرف ان الفاظ میں کریں کہ احمدی فرقہ کے متعلق جتنے بھی لوگ ہیں یا وہ لوگ جو مرزا غلام احمدکو نبی کسی بھی رنگ میں مانتے ہیں۔ کسی بھی رنگ میں وہ لوگ مرزا کو نبی کی حیثیت دیتے ہیں۔ وہ غیر مسلم ہیں۔ وہ مسلمان نہیں۔ ان کو مسلمانوں کا مقام دینا نہیں چاہئے۔
جناب والا! میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح آپ نے ارشاد فرمایا، اس میں شک نہیں ہے اس کے مضر اثرات بھی ہوںگے۔ ایک اتنا بڑا منظم آرگنائزڈ فرقہ جس کو ہم علیحدہ کر کے ایک ٹولے کا رنگ دیں گے۔ وہ کھلم کھلا ہمارے ملک کے خلاف کام کریں گے۔ یہ ٹھیک بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ اس بات پر غور کریں کہ کس تیزی سے یہ مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں۔ دنیا میں جا کر دیکھیں جتنے بھی اسلام کے نام پر مشن موجود ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر دیکھیں۔ اسلام کے نام پر جتنے بھی مشن موجود ہیں۔ وہ احمدیوں اور مرزائیوں کے ہیں۔ یہ لوگ وہاں پر کام کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر، ملک کے باہر، آپ اگر یہی رفتار ان کی جاری رہی ّ(خدا وند عالم اس بات کو جھوٹ کرے) تو مجھے یہ خدشہ ہے کہ بہت ہی قریب مستقبل میں میری قسم کے ضعیف الاعتقاد مسلمان جو اپنے دین سے پوری طرح با خبر اور واقف نہیں،ہو سکتا ہے کہ ان کے دین سے ہٹنے سے ایک وقت ایسا آئے اور آج جتنی بڑی اکثریت ہماری ہے۔ اس سے دو چند،سہ چند اکثریت ان لوگوں کی ہو جائے تو جناب والا! اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے آئین میں اس قسم کی ترمیم انتہائی ضروری ہے۔ میں یہ سمجھتاہوں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۱؎۔
ایک اور بات بھی آپ کی خدمت میں عرض کر دوں۔ میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا مفتی محمود صاحب یہاں پر تشریف رکھتے تو میں ان کے سامنے یہ گزارش کرتا اور ان 2709سے پوچھتا۔ خدا کے لئے مرزائیوں کا مسئلہ جو ہے،وہ بالکل واضح طور پر سامنے ہے۔ اس کے لئے خود اس امر کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے بحث کرنا یا یہ کہنا کہ اب اس کی گنجائش ہے یا نہیں، اس کو چھوڑیے۔ لیکن جو مواد انہوں نے اس ہاؤس کے سامنے رکھا۔ ہمارے علماء پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ ایک اتنا بڑاچارج ہے۔ میں یہ سمجھتاہوں اس چارج سے اس دھبہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ آپ کے یعنی مفتی صاحب کے جوابات میں نے پڑھے۔ طویل ڈکشنری جس میں انہوں نے ایک اپنے تمام علم کا ذخیرہ اکٹھا کر دیا تھا،سب میں نے دیکھا،میں نے پڑھا۔ لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجز کی، ان کے حقائق کی، جو انہوںنے یہاں پیش کئے۔ خدا جانے وہ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ اگر وہ جھوٹے بھی ہوں تو عقلی طور پر میں تسلیم کرتا ہوں۔ اب آپ نے اس کی تردید نہیں کی۔ تو میرے پاس کیا جواب ہے۔ میں یہ کہوں کہ ان کے جو دلائل ہیں، غلط ہیں۔ جو کہ آپ کے اندرونی فرقوں کے متعلق ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ کاش! سردار عنایت الرحمن عباسی آج قادیانیت کی زبوں حالی دیکھتے کہ دنیا میں منہ چھپانے کے لئے انہیں جگہ نہیں مل رہی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتنی بڑی بات ہے کہ ۶۶۰ علماء کرام، جو دیوبندیوں کے متعلق مرزائیوں نے یہ اپنے بیانات او رجرح میں کہا ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کے برگزیدہ امتی جن میں حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ،جن میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اﷲ علیہ، جن میں حضرت جنید بغداری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں، نبوت کے بعد اگر اس ملک میں۱؎…
صاحبزادہ صفی اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر۔ جناب والا! میں یہ عرض کروں کہ اس کی ضرور ت نہیں ہے کہ یہ ایسی باتیں کریں۔ کمیٹی کے سامنے وہ قرار دادیں ہیں او ر مرزا ناصر احمد کا محضر نامہ یہ ہے۔ گفتگو اسی پر ہونی چاہئے نہ کہ ہماری طرف سے جو بیان مولانا مفتی محمود صاحب نے پڑھا ہے، اس پر گفتگو شروع ہو۔ اگر ایسا ہوا تو ان بیانات کا مقصد فوت ہو جائے گا اور یہ سلسلہ ختم نہیںہوگا۔
2710سردار عنایت الرحمن خان عباسی: نہیں، نہیں۔ دھراتا نہیں۔ میں اپنے فرائض کی ادائیگی کر رہا ہوں۔ اصل بات میں نے کہہ دی ہے،مجھے کہنے دیں۔ یہ ریکارڈ پر آئے۔ میں یہ سمجھتاہوں…
صاحبزادہ صفی اﷲ: اس میں فائدہ نہیں ہے، نہ یہ موضوع زیر بحث ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ ایک ممبر اٹھ کھڑا ہو کہ تمہارے بیان میں یہ خامی ہے، وہ خامی ہے۔ یہ غیر متعلقہ بحث ہے۔
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: اس میں بہت فائدہ ہے۔
جناب چیئرمین: یہاں آپ کا مناظرہ نہیں شروع ہو جاتا۔ یہ کہ ان کا جواب وہ دیں گے۔ ان کا جواب آپ دیں گے۔ ان کا جواب یہ دیں گے۔
Our discussion should be confined to the Resolution before us, not that one is Sunni and one as Shia. We should not talk against any sect. That is not relevant.
(ہماری بحث ہماری سامنے موجود قرارداد تک محدود رہنی چاہئے۔ اس پر نہیں کہ فلاں سنی ہے اور فلاں شیعہ۔ ہمیں کسی فرقے کے خلاف بات نہیں کرنی چاہئے۔ یہ متعلقہ گفتگو نہیں ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ عنایت الرحمن عباسی سردار صاحب نے قادیانی محضرنامہ میں ان باہمی فتویٰ جات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کا جواب مولانا مفتی محمود صاحب کے پیش کردہ جواب محضر نامہ میں موجود ہے جو ج۱۵،۱۶ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! اس کا مطلب ہے کہ مسلمان صف آراء ہوں…
جناب چیئرمین: آپ تشریف رکھیں۔ میں نے یہی بات کی ہے۔
I am sorry This is not relevant.
(میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ متعلقہ بات نہیں ہے)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: مسٹر چیئرمین!جناب والا! میری بات تو سن لیں۔
جناب چیئرمین: میں بات نہیں سنتا۔ We are not here to throw mud at each other. the only thing to debate is to declare them a minority. (ہم یہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لئے نہیں بیٹھے ہیں۔ صرف انہیں اقلیت قرار دینے کے لئے گفتگو کرنا چاہتے ہیں)
Ch.Jahangir Ali: Sir, this is not throwing of mud.
(چوہدری جہانگیر علی: یہ کوئی کیچڑ نہیں اچھال رہا)
Mr. Chirman: This is not relevant.
(مسٹر چیئرمین: یہ متعلقہ بات نہیں ہے)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔
Mr. Chirman: I cannot agree…
(مسٹر چیئرمین: میں اتفاق نہیں کرسکتا)
2711سردار عنایت الرحمن خان عباسی: میںیہ چھوڑ دیتاہوں۔
Mr. Chirman: I cannot agree to this principle.
(مسٹر چیئرمین: میںاس اصول سے اتفاق نہیں کرسکتا)
چوہدری جہانگیر علی: جناب چیئرمین! اس کمیٹی کے سامنے جو کچھ شہادت پیش ہوئی ہے۔ دراصل بحث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس شہادت پر جو اس ہاؤس کے سامنے آئی ہے۔ زیر بحث قراردادوں کی روشنی میں ممبر صاحبان اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ لیکن جو چیز ریکارڈ پر آ چکی ہے۔ اگر کوئی فاضل ممبر اس پر اظہار خیال کرنا چاہے تو میرے خیال میں دوسرے ممبر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس پر اعتراض کرے۔
Mr.Chairman: I cannot agree to this principle.
(مسٹر چیئرمین: میں اس اصول سے اتفاق نہیں کر سکتا)
چوہدری جہانگیر علی: صاحبزادہ صفی اﷲ صاحب کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔ جس وقت اسی قسم کے الزامات مرزاناصر احمد لگا رہے تھے۔ کیا اس وقت انہوں نے اس قسم کا پوائنٹ آف آرڈراٹھایاتھا؟
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: میں نہیں کہتاہوں۔
چوہدری جہانگیر علی: جناب! ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کا میٹریل ریکارڈ پر آئے۔ ہم بہت صبر کے ساتھ اور جذبات کے ساتھ قابو پا کر یہاں بیٹھے رہے اور مرزا ناصر احمد اور عبدالمنان عمر کی یہ باتیں سنتے رہے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ اس ہاؤس میں اس قسم کی بات ہو جو انتشار کا موجب بنے۔بہرحال اگر کوئی فاضل ممبران گواہان کے بیانات کا اپنی تقریر کے اندر حوالہ دینا چاہیں تومیرا خیال ہے اس پر اس قسم کی پابندی نہیں لگنی چاہئے۔
Mr.Chairman: I am not in position to agree.
(مسٹر چیئرمین: میںاتفاق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں)
2712سردار عنایت الرحمن خان عباسی: چلو، رولنگ ہے،سپیکر صاحب کی ہے۔ میں صرف اس ضمن میںکہوںگا۔ تفصیل میں جانا نہیں چاہتاہوں۔ ہم جو مسلمان ہیں۔ ہم دین سے واقف ہیں۔ جو مناسب جواب ہے۔ اس ہاؤس کے سامنے ہمارے علماء ایک پمفلٹ کی شکل میں لائیں اور ہماری رہنمائی فرمائیں۔
کرنل حبیب احمد: پوائنٹ آف آرڈر۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو تقریریں ہوئی ہیں اور جو حضرات اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں۔ وہ اب تمام کی تمام کتابوں کی شکل میں باہر آ جائیں گی اور اس کا زبردست تمام دنیا میں پراپیگنڈہ ہو گا اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس کو پڑھیں گی۔ یہ ایک مثبت ریکارڈ ہے اور تا قیامت رہے گا اور اس کو تاریخ اور دنیا کی کوئی چیز مٹا نہیں سکے گی اور ہم بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ چوہدری صاحب اور دوسرے کئی دوستوں نے یہاں پوائنٹ آؤٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے علماء کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ مولانا صاحبان جو ہم سے بہت زیادہ اسلامی تعلیم رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کو Admit (تسلیم) کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن کسی نے یہاں کوئی پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا۔ یا دوسری صورت میں پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا۔ میں نے اپنی کم عقلی کے باوجود پوائنٹ آؤٹ کیاتھا کہ انہوں نے یہاں فرمایا تھا کہ اگر یہاں کوئی عالم بیٹھا ہے جو عربی جانتاہے۔ وہ یہ سمجھے گا کہ عربی میں زیر، زبر، پیش سے کیا مطلب ہوتا ہے اور کیسے مفہوم تبدیل ہو سکتا ہے؟ ہمارے یہ علماء کے لئے اتنا بڑا چیلنج تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا۔ میں یہ عرض کرناچاہتا ہوں کہ ان کے جواب میں…
جناب چیئرمین: پوائنٹ آف آرڈر پیش کرلیا ہے۔ تشریف رکھیں۔
کرنل حبیب احمد: عباسی صاحب جو تقریر فرمارہے ہیں۔ وہ نہایت مدلل اور Convincing (معقول) ہے۔ اب میں یہ کہتاہوں کہ وہ ریکارڈ پر بھی آئے گی۔ یہ تاریخ ہے اور 2713ایک اسلامی تاریخ ہے۔تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے جو جواب یہاں دیئے۔ ان دلائل کو زیربحث نہ لایاگیا۔ ان کے مؤقف کو جونہایت خطرناک تھا۔ ان کے جوابات کتاب کی شکل میں کیوں نہیں آئے۔ چونکہ میرابیٹا اوراس کا بیٹا،ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی۔ ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے۔ تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصور پیش کریں گے۔مثلاً میں یہ کہتاہوں کہ جو عباسی صاحب نے فرمایا وہ درست فرمایاہے۔ ہمارے کئی دوست اس طرف بیٹھے ہیں۔ اس وقت یہ پوائنٹ آؤٹ کیا۔ لیکن کوئی بات نہیں بنی اور ہمارے ایڈووکیٹ جنرل صاحب نے ایک ایسی معیاری ایڈووکیسی کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ بھی مجھ سے زیادہ عالم ہوں گے۔ لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے علماء میں اس قسم کا کوئی مذاکرہ ہوتا تاکہ ہم کو بھی پتہ ہوتا۔ میں سنی ہوں۔ لیکن خدا گواہ ہے اگر ہم سنی ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں۔ یہ میری اپنی بات ہے۱؎۔
جناب چیئرمین: کرنل صاحب!ذرا مجھے عرض کرنے دیں۔ میری بات بھی سن لیں۔ یہ بات اس وقت ریلیونٹ ہوگی کہ مولانا مفتی محمود صاحب اورکسی اورآنریبل ممبر کے دو عقائد ہوں۔ ایک ا ن کا سیاسی عقیدہ ہے اور ایک ان کامذہبی عقیدہ ہے۔ جب مذہبی عقائد کے متعلق ریزرویشن لائیں گے کہ مولانا مفتی محمود کے مذہبی عقائد ٹھیک نہیں ہیں۔ تب یہ ٹھیک تھا اور اس وقت یہ بحث ریلیونٹ ہوگی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپس میں یہ لڑتے ہیں کہ شیعہ نے سنی کے متعلق یہ لکھا اورسنی نے شیعہ کے متعلق یہ لکھا۔
It appears that discussion is not relevant. They should not try to prove Shia and Sunni. They just want to prove their case.That is the evidence which they adduce in
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہ تمام بحث جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ شیعہ، سنی تناظر میں کی گئی جو مرزاناصر احمد کا عین مدعا تھا۔ تاہم بالغ نظری سے سپیکر نے اس کو ختم کرادیا۔ تفصیل محضر نامے پیش کردہ مولانا مفتی محمود میں پڑھ لیں جو گذر چکا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
respect of their claim. All the sects are unanimous so far as the Qadianies are concerned. This is on record. All the schools of thought are unanimous. We are sitting here to determine the status of Qadianies, not to talk either against the Shia or any other sect..
(یہ بحث غیرمتعلق دکھائی دیتی ہے۔ انہیں شیعہ اور سنی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ وہ صرف اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے دعوے کے ثبوت میں وہ یہ شہادت پیش کر رہے ہیں۔ قادیانیوں سے متعلق تمام فرقے متفق ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ ہم یہاں قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔ شیعہ ،سنی یا کسی اورفرقہ کے خلا ف گفتگو کرنے کے لئے نہیں)
2714صاحبزادہ صفی اﷲ: میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کرنل صاحب نے جو فرمائی کہ اس کا کسی نے جواب نہیں دیا۔ اصل میں کرنل صاحب کو شاید یاد نہیں ہے کہ چیئرمین صاحب نے فیصلہ سنا ٰیاتھا کہ گواہوں پر جرح کے دوران سوائے اٹارنی جنرل صاحب کے، کوئی جواب یا تقریر نہ کرے۔
جناب چیئرمین: میں جواب دے رہا ہوں کہ وہ ختم ہو گئی۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: جناب والا! میں عرض کروں گا کہ…
جناب چیئرمین: وہ ختم ہوگئی۔ عباسی صاحب!شروع کریں۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: جناب والا! یہ ریکارڈ میں آئے گا کہ علماء نے ناصر احمد کا جواب نہیں دیا۔ ناصر احمد نے قطعیات کا انکار کیا۔ ناصراحمد نے ہر بات کوٹالا اور یہاں یہ طے شدہ تھا کہ صرف سوالات اے جی صاحب کریں گے اور یہ بھی طے شدہ تھا کہ اے جی صاحب کے سوا کوئی سوالات نہیں کرے گا۔ لیکن ناصر نے جو کچھ کہا، وہ سب غلط کہا ہے۔
جناب چیئرمین: آپ کی تردید ۲۶۰ صفحات کی آگئی ہے۔ عباسی صاحب! آپ تقریر کریں۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: آپ نے تو خود علماء کو پابند کیا۔ سب ممبران کو پابند کیا ہے کہ اے جی صاحب کے سوا کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔ (مداخلت)
اب یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں ریکارڈ جائے گا اور وہاں یہ ہوگا کہ علماء جواب نہیں دے سکے۔ ناصراحمد سب غلط ہے اور ناصر احمد نے سب باتوں سے انکارکیاہے۔
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! تشریف رکھیں۔
Maulana Sahib, I do not want to make it a controversy. We are sitting here as a special Committee. Nobody will be allowed to make political profit out of it. We are not here. کچھ تو آپ سوچیں۔ This is not relevant. بہتر فرقے ہیں وہ 2715To debate Brelvi and Wahabi. We should not take the debate on that side that Maulana Mufti being hit or Dr. Bokhari. Certain members do not like it.
(مولانا صاحب!میں اس معاملہ کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتا۔ ہم یہاں سپیشل کمیٹی کی حیثیت سے بیٹھے ہیں۔ کسی کو اس معاملہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ غیر متعلقہ بات ہے۔ ہم یہاں بریلوی اور وہابی پر بحث کرنے کے لئے بیٹھے؟ ہمیں مفتی صاحب یا بخاری صاحب کو ہٹ کرنے کے لئے اس پر گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ ارکان ممبر اسے پسند نہیں کرتا)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: وہ ختم ہو گیا ہے اور آپ نے رولنگ دے دی ہے۔ رولنگ میں اب بات ختم ہو گئی ہے۔ بار بار نہ دھرائیں۔
Mr.Chairman: This is not relevnt. Please continue.
(مسٹر چیئرمین: یہ متعلقہ گفتگو نہیں ہے۔ برائے مہربانی جاری رکھیں)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: جناب والا! یہ بات اب ختم ہو گئی۔ میں گزارش کر رہا تھا کہ میں یہ بات زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ دونوں فرقے ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں اور ان کے تسلیم کرنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس فتنہ کے لئے ریزولیشن ڈرافٹ کرنا چاہئے جس میں احمدیوں کو چاہے وہ کسی فرقہ میں ہو۔ جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی صورت میں نبی آ سکتا ہے۔ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: راؤ خورشید علی خان صاحب! راؤ صاحب کے بھی دستخط ۳۷ ممبران میں ہیں۔ میں چیک نہیں کر رہاہوں۔ اب وقت کم ملے گا۔
راؤ خورشید علی خان: جناب چیئرمین صاحب!میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے باوجود ۳۷ ممبران کی طر ف سے جو جواب دیاگیاہے…
Miangul Aurangzeb: On a point of order Sir. The honourable member has the ear-phones on. He cannot hear. He should take it off.
(میاں گل اورنگزیب: جناب عالی! پوائنٹ آف آرڈر۔ معزز ممبر نے اپنا ایئر فون آن کر دیا ہے۔ وہ نہیں سن سکتے۔ انہیں ایئر فون بند کردینا چاہئے)
Rao Khurshid Ali Khan: All right.
(راؤ خورشید علی خان: بہت اچھا)
Mr.Chairman: The point of order is upheld. It is a valid Point of Order. You may take it off.
(مسٹر چیئرمین: پوائنٹ آف آرڈر درست ہے۔ آپ کو اسے بند کر دینا چاہئے)
Rao Khurshid: Yes. (راؤ خورشید: ٹھیک ہے)
2716راؤ خورشید علی خان: بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں اپنی کہتا رہوں اور دوسروںکی نہ سنوں۔
جناب چیئرمین: ان کا یہ پوائنٹ ٹھیک ہے۔ آپ اپنی تقریر سن نہیں سکتے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب راؤ خورشید علی خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
راؤ خورشید علی خان: آپ جو حکم دیں گے وہ مجھے سنائی نہیں دے گا۔ بہرحال حکم حاکم مرگ مفاجات۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا اس مسئلہ پر جو قادیانی حضرات نے اور لاہوری پارٹی نے اور اس کے علاوہ ہمارے محترم علماء حضرات کی طرف سے مولانا ہزاروی کی طرف سے مولوی مفتی محمود کی طرف سے پیش کیاگیا۔ اس کو پورے غور سے سنا ہے۔ جو باتیں ہوئی ہیں ہم نے بڑے غور سے سنی ہیں۔ میں یہ تونہیں کہتا کہ میں ہر روز بالکل وقت پر آتا رہا ہوں۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ میں نے مکمل ناغہ کوئی نہیں کیا۔ بعض دن تاخیر سے آتا رہا ہوں۔ لیکن میں نے ہر روز بلاناغہ ایک ایک بات کو سنا اور پہلے سے جو معلومات ہیں۔ ان کی روشنی میں جو کچھ عرض کروں گا۔ وہ بھی اس میں شامل ہوں گی۔
یہ مسئلہ بہت ہی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ اس کا تعلق ہمارے دین سے ہے۔ ہمارے ملک کی سلامتی سے ہے۔ بلکہ میں اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس ملک کی بقاء سے بھی اس کا تعلق ہے۔ اس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اگر ہم نے اس معاملے میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ تو نہ صرف یہ کہ اﷲ میاں ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں بڑی سوجھ بوجھ کا ثبوت دینا چاہئے۔ پورے غور و خوض کے ساتھ، کسی ڈر اورلالچ کے بغیر،خدا کو حاضر ناظر جان کر خالصتاً اسلامی نقطہ نظر سے اور ملک کی سلامتی اور بقاء کے نقطہ نظر سے اس پر غور کرنا چاہئے۔ ورنہ مجھے ڈر ہے جناب چیئرمین! کہ آخرت کی بات 2717میں تو شاید کچھ عرصہ لگے۔ گو اس کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ اگلے لمحے ہمارے ساتھ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے۔ ابھی میں پچھلے دنوں اپنے حلقہ نیابت کا مختصر سا دورہ لگا کر آیا ہوں۔ میری ان معروضات میں وہ اطلاع بھی شامل ہے۔ جومیں نے برائہ راست اپنے حلقے میں ایک چھوٹا سا دورہ لگا کر حاصل کی ہے۔
جناب والا! اس سلسلے میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان قادیانی حضرات اور لاہوری پارٹی نے ختم نبوت کے سلسلے میںجو رویہ اختیار کیا ہے اور ایک جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے امت کے اندر اتنی بڑی خلیج اور انتا بڑا انتشار پیدا کر دیا ہے کہ اگر اس قسم کا انتشار پیدا نہ کیا جاتا تو بہت ممکن ہے کہ امت میں آج جو جو ایک انتشار نظر آتا ہے۔ اس میں بہت حد تک کمی ہوتی اور ساری دنیا کا مقابلہ ہم احسن طریقے پر کر سکتے تھے اور اس ملک کی جہاں تک بات ہے۔ یہ تو اب بحرانوں کی سرزمین بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے ہی بحرانوں سے دوچار تھا۔ اب مزید یہ بحران پیدا کیاگیا ہے اور اس وقت Immediate cause (فوری مسئلہ) جو ہے۔ وہ بھی ان فتنہ گروں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ غضب خدا کا، ایک اتنی قلیل اقلیت اور اس کو یہ حوصلہ ہوا کہ اس نے ہمارے طلباء کے اوپر حملہ کیا۔ ظاہر بات ہے کہ اتنی قلیل اقلیت کو از خود یہ حوصلہ اور ہمت نہیں ہو سکتی۔ یہ کسی کی شہ پر کیاگیا ہے۔ یہ ملک کے خلاف سازش ہے اور جناب بھٹو نے میرے خیال میں یہ بات صحیح کہی کہ یہ بین الاقوامی سازش کا کوئی حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی بڑی اہمیت ہے اور ہمیں پورے غور وخوض کے ساتھ اس کا جائزہ لینا چاہئے۔
جناب والا! اس سلسلے میں اس کا تھوڑاسا پس منظر میں بیان کرنا چاہتاہوں۔ جس سے مجھے پورا یقین آیا اور باتوںکے علاوہ کہ یہ کیوں غلط کار لوگ ہیں اور ان کا نبوت کا دعویٰ کیوں جھوٹا ہے اور ختم نبوت کے انہوں نے جو معنی پہنائے ہیں، یہ کیوں غلط ہے؟
2718جناب چیئرمین! آپ کومعلوم ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں جب مغلوں کی حکومت ختم ہوئی۔ اس میں جب زوال آیا۔ انگریزوں نے قبضہ کیا تو اس وقت یہ جو ایک مرحلہ تھا۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا۔ جو علماء حق ہیں۔ انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی ہے۔ ایک کافروں کی حکومت برسراقتدار آگئی ہے۔ اسلام چونکہ مکمل دین اور ہر چیز کا اس میں انتظام ہے اور اس میں جذبہ جہاد پر اتنا بڑا زور دیا گیا ہے کہ اگر ہم اس کومضبوطی سے تھامے رکھیں تو مسلمان غلام نہیں ہو سکتا۔
اس وقت اس تحریک کے جو بانی مبانی تھے۔ سید احمد شہید بریلویؒ اور دیگر حضرات، جنہوں نے اس تحریک کی رہنمائی کی۔ انہوں نے اس تحریک کو اس قدر منظم کیا کہ بنگال سے لے کر سرحد تک اور باقی قبائلی علاقے تک اس تحریک کو چلایا اور بنگال کے اور پٹنہ اوربہار کے لوگ جا کر وہاں لڑے ہیں۔ یہاں سکھوں کے ساتھ پشاور میں، اور دوسرے علاقوں میں اور اس طریقے سے انہوں نے اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مسلمان محکوم نہیں ہو سکتا۔ مسلمان غلام نہیں ہو سکتا، اور اگر مسلمان غلامی سے دوچار ہو تو اسے جذبہ جہاد کے تحت تن، من، دھن سب کچھ قربان کر دینا چاہئے اور اس کو ایک آزاد منش آدمی کی سی زندگی بسر کرنی چاہئے۔ غلامی اس کے لئے لعنت ہے۔ غلام کی حیثیت میں مسلمان، مسلمان نہیں رہتا اور وہ اسلام کے فرائض کو پورا نہیں کرسکتا۔
یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ انگریز کے لئے یہ ایک بڑا معّمہ بن گیا۔ انگریز اپنی حکومت کو مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس قسم کے، میں کہوں گا، نہتے لوگ، جن کے پاس کوئی جائیدادیں نہ تھیں۔ کوئی ذرائع نہ تھے،مخصوص قسم کے۔ بلکہ جو متمول لوگ تھے۔ وہ تاریخ میں آیاہے کہ ان کے لئے باطل پرست، خود پرست، مفاد پرست قسم کے علماء سے مکے، مدینے تک سے فتوے منگوائے گئے۔ یہاں سے بھی غلط قسم کے علماء سؤ سے انہوں نے فتوے لے لئے جہاد کے خلاف، اوراس بات کے حق میں کہ اس حکومت کے دوران امن قائم ہو گیا۔ اس 2719کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود تحریک چلانے والے لوگ ان فتوؤں سے متأثر نہ ہوئے۔ لیکن کچھ متمول لوگ ان غلط فتاویٰ کے بھرے میں آ گئے اور انہوں نے ایک حد تک انگریزی حکومت کو قبول کر لیا۔ لیکن عام لوگ،بھوکے ننگے قسم کے لوگ جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اس تحریک کی آبیاری کی اور اس کو روپیہ فراہم کیا اور اس کو ٹوٹے پھوٹے ہتھیار فراہم کئے اور اس طریقے سے انگریز کا ناطقہ بند کردیا۔
میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مرحلہ وہ تھا کہ جس وقت انگریز کو اس بات کی ضرور ت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسا شخص ہاتھ لگے کہ جو یہ جہاد والی بات کو منسوخ قرار دے دے۔ کیونکہ اس نے ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہے اور یہ ہماری حکومت کے اندر استحکام پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اس وقت ایسی شخصیت کی ضرورت پڑی کہ جو اس جہاد کو حرام قرار دے دے اور جہاد جب حرام قرار دے دے تو بس، مسلمان پھر عیاشی کے اندر پڑ جائے گا۔ وہ نہ اسلام کے لئے لڑے گا اور نہ ملک و ملت کے لئے قربانی دے گا۔ پھر کوئی کافر، بے دین جو بھی چاہے اگر اس پر حکمرانی کرے۔ جائیدادیں دے۔ بس وہ حکمرانی کرتا رہے۔ تو گویا یہ شکل جب پیدا ہوئی تو اس وقت پھر مرزا قادیان پر ان کی نظر پڑی۔
ہنڑ بڑی مشہور شخصیت سول سروس کی ہے۔سب حضرات کوعلم ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ’’انڈین مسلمان۔‘‘ اس کے اندر ان تمام چیزوں کی تفاصیل آئی ہیں۔ اس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوئی تو ہنڑ صاحب نے خود اس بات کوتسلیم کیا کہ یہ جو ہم نے علماء سے فیصلے لئے تھے، یہ سب ناکام ہو گئے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب یا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، جنہوں نے اس جہاد میں حصہ لیا اور اس طرح سے تحریک کو آگے بڑھایا، تو ان کو ہنٹر صاحب نے خود ’’نبی‘‘ کے لفظ سے یاد کیا2720ہے تاکہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے کہ بڑا قسم کا عالم جو ہے وہ نبی بھی بن سکتا ہے۔ اس طریقے سے مرزا قادیان نے رفتہ رفتہ ّجس کی تمام تفاصیل آپ کے سامنے آ چکی ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے چھوٹی اسٹیج سے آخر نبوت کا اس نے دعویٰ کردیا اور سب سے بڑی دو باتیں اس نے کیں۔ ایک جہاد کی منسوخی اور ایک یہ آیت کہ ’’ اولیٰ الامرمنکم ‘‘اس کی غلط تعبیر کہ اطاعت کرو خدا کی اور رسول ﷺ کی اور ’’ اولیٰ الامرمنکم ‘‘کی، جو تم میں سے ہو۔ تو یہ قادیانی لوگ جو تحریف کے استاد ہیں۔ (جیسا کہ مولانا ہزاروی صاحب نے بھی اس کا ثبوت بہم پہنچایا ہے) تو وہ ’’ منکم ‘‘ کو تو ہڑپ کر گئے اور اس آیت کے غلط معنی کئے کہ بس جو بھی حاکم ہو، چاہے کافر ہو، اس کی اطاعت کرو۔
ان دو چیزوں پر انہوں نے سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ اب اس معاملے کے اندر ظاہر بات ہے کہ مسلمان کے پاس ایک ایسی کتاب ہے قرآن کریم کی شکل میں کہ اس میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا۔ جو تحریف کرتا ہے وہ پکڑا جاتا ہے۔ مارا جاتا ہے اور قرآن کریم قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اور اﷲ میاں نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کی موجودگی میں اور احادیث صحیحہ کی موجودگی میں مسلمانوں کو اس بات کا قائل نہیں کیا جا سکتا کہ جہاد منسوخ ہو سکتا ہے یا وہ ’’اولیٰ الامرمنکم‘‘ میں سے ’’منکم‘‘کو نکال کر ہر کافر اور بے دین حکومت کے وہ غلام رہ سکتے ہیں۔
اس کے بعد جناب والا! اب آخری بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو معروضات پیش کی ہیں۔ ان سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ سامراج کی خدمت کے لئے سامراج نے یہ پودا خود کاشت کیا تاکہ امت مسلمہ میں تفریق پید اکی جائے اور امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کو ختم کیا جائے۔ اسلام کی یکجہتی کو ضرب کاری لگائی جائے۔
اب آخر میں جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی تجویز پیش کرنی چاہئے تو تجویز جناب!یہ ہے کہ جب تک ان قادیانیوں کے دونوں گروہ، 2721ربوہ والے اور لاہور والے، ان کو غیر مسلم اقلیت اگر قرار نہ دیا گیا تو مسئلہ حل نہ ہوگا۔ بلکہ خدانخواستہ، خدا نخواستہ، خدا نخواستہ اس ملک کے اندر ایسا بحران پیدا ہوسکتا ہے کہ اس کو قابو میں لانا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ ہم پہلے ہی بہت سے بحرانوں سے دوچار ہیں اور اب ہمیں کسی نئے بحران کو دعوت نہیں دینی چاہئے ورنہ ہم خود پھر اپنے ساتھ دشمنی کریں گے۔ اس میں مذہبی طور پر تو جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ جو امت کا اتحاد ہے۔ وہ قائم رہے گا۔ تفریق و انتشار ختم ہو جائے گا اور سیاسی طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے اب یہ قادیانی مسلمانوں کے نام پر جو کلیدی اسامیوں پر قابض ہیں اور جو قبضہ جمائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان سے ان کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ان سے یہ محروم ہوں گے اور اب یہ جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اس ملک کی سلامتی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ان کو خدا نخواستہ توڑنا چاہتے ہیں۔ تو پھر وہاں قادیان کو لوٹنا چاہتے ہیں تو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے یہ دونوں مقاصد حل ہو سکتے ہیں اور یہی میری تجویز ہے اور میں یہ التجا کرتا ہوں تمام ہاؤس سے جناب چیئرمین! آپ کے ذریعے کہ ان کو ضرور غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اسی میں ملک و ملت کا فائدہ ہے۔ پاکستان کا فائدہ ہے۔ تمام امت مسلمہ کا فائدہ ہے اور ہم ایک مزید بحران سے بچ جائیں گے۔
جناب چیئرمین: ڈاکٹر محمود عباس بخاری۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونستعینہ وصلی اﷲ علی اشرف الانبیاء و خاتم النّبیین ابوالقاسم محمدبہ آلہ الطاہرین و اصحابہ المخلصین ۔
جناب سپیکر! آج کا عنوان بڑا ہی نازک عنوان ہے اور میں پوری کوشش کروں گا کہ کہیں پر بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کروں۔ لیکن دل خون ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ضرب کاری لگانے والوں نے اور جنون کا تیشہ چلانے والوں نے جو نخل چناہے، جس درخت پر یہ…
2722Mr.Chairman: I would request the honourable speaker that, instead of words it should be matter, because we are concerned with the matter, the substance.
(جناب چیئرمین: میری معزز مقرر سے گزارش ہے کہ الفاظ کے بجائے مواد پیش کریں۔ اس لئے کہ ہمیں مواد کو مدنظر رکھناہے) یہ جو الفاظ ہیں ناں خوبصورت الفاظ، یہ کل بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ پرسوں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ Today it should be matterآج صرف مواد ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: سر! میں آر ہاہوں۔ گندے الفاظ کہاں سے لاؤں؟ میرے الفاظ تو شاید آپ کو پسند نہیں۔ لیکن کیا کروں زبان کی خامی سمجھ لیجئے میری۔
Mr.Chairman: Everybody can understand.
(جناب چیئرمین: ہر شخص سمجھ سکتا ہے)
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: May I be permitted to continue?
(ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: میں اپنی بات جاری رکھ سکتاہوں؟)
Mr.Chairman: You are permitted to continue. Come with proposals.
(جناب چیئرمین: آپ کو اپنی بات جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ تجاویز پیش کریں)
[At this stage Mr.Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf khatoo Abbasi)]
(اس مرحلہ پر جناب چیئرمین نے کرسی چھوڑ دی۔ جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Madam Deputy Speaker, with your permission.
(ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: محترمہ ڈپٹی سپیکر صاحبہ! آپ کی اجازت سے)
Madam Acting Chairman: Yes, you can continue.
(محترمہ قائم مقام چیئرمین صاحبہ: ہاں، آپ جاری رکھ سکتے ہیں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری: تومیں عرض یہ کر رہا تھا کہ تیشہ چلانے والوں نے، کلہاڑی چلانے والوں نے جس چیز پر کلہاڑی چلائی، جس چیز پر اپنی منافقت کاتیشہ چلایا۔ وہ بذات خود نخل رسول ﷺ تھا۔ جس کے بارے میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے:’’اے میرے محبوب! اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو یہ کائنات پیدا نہ کرتا۔‘‘ جس دریدہ دہنی سے اور جس ڈھٹائی سے ناموس رسالت ﷺ پر حملے کئے گئے ہیں۔ میڈم سپیکر! میں تھوڑی سی 2723اجمالاً اس پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے شاید میرا نقطہ نظر غلط ہو۔ جس پہلو سے آئمہ قرآنی اور معرفت ربانی میں جس پہلو سے اس کو نمایاں کرنا چاہئے تھا، شاید ابھی تک اسمبلی کی بحث میں مقام رسالت ﷺ کو اور ناموس رسالت ﷺ کو نمایاں نہیں کیاگیا۔ جب تک یہ بتایا نہ جائے کہ مقام ختم المرسلین ﷺ کیا ہے۔ مقام نبوت کیا ہے۔ مقام رسالت کیا ہے۔ جناب سپیکر! یہ ناممکن ہے کہ تعین کیا جا سکے کہ جھوٹا نبی کیا ہے اور اس کا مقام کیا ہے؟
مولانا غلام غوث ہزاروی: پوائنٹ آف آرڈر۔ جناب والا! یہ محترم عباسی صاحب بڑی اچھی تقریر فرما رہے ہیں۔ لیکن اس ایک جملے میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ’’ اے پیغمبر! تم کو میں پیدا نہ کرتا تو میں یہ ساری کائنات پیدا نہ کرتا۔‘‘ یہ قرآن میں نہیں۔ ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ روایت میں بھی ضعف ہے۔ لیکن مفہوم صحیح ہے۔ قرآن میں نہیں ہے۔ یہ میں نے اس لئے عرض کر دی کہ کوئی اعتراض نہ کرے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری:
قلندرجز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گوہر سے
جناب سپیکر! میں آگے بڑھتا ہوں۔ اس پوائنٹ آف آرڈر کی دلدل سے نکل کر۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: لیکن انہوں نے تو آپ کی تصحیح کی ہے۔ وہ تو آپ مان لیں ناں۔
ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری: اچھا جی، میں آگے بڑھتاہوں۔ تو بات مقام رسالت ﷺ کی میں کر رہا تھا۔ میرا یہ مقام نہیں کہ میں مقام رسالت ﷺ کا تعیّن کروں۔ نہ میرے پاس اتنا علم ہے۔
نہ میں عارف، نہ مجدد، نہ محدث، نہ فقیہ ہوں
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کامقام
2724لیکن اپنی ادنیٰ سمجھ سے جو آیات قرآنی کے آئینے میں جناب سپیکر! میں نے مقام رسالت ﷺ دیکھا ہے۔ میں اس ایوان میں وہ پیش کروں گا۔ ضمناً یہ عرض کردوں کہ انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا مسلمانوں کی میراث پر ضرب کاری لگانا چاہتا تھا، دو جہت سے۔ ایک جہت تھی جہاد، جسے قرآن میں قتال کا نام دیاگیا ہے اور جس سے انگریز بہادر ہمیشہ خائف رہا اور دوسری جہت تھی حب رسول ﷺ ۔ انگریز جانتا تھا کہ حب رسول ﷺ ایک ایسا پیمانہ ہے، ایک ایسا مرکز ہے، ایک ایسا مرکز ثقل ہے کہ اگر یہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے تو مسلمان ہمیشہ ایک مضبوط اور قائم امت کی صورت میں اس صفحہ ہستی پر برقرار رہیں گے۔ اس نے چاہا کہ اپنی اس مملکت کی حفاظت کے لئے جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مشرق سے مغرب تک تھی۔ انگریز کا یہ ارادہ ہوا۔ اس نے یہ پالیسی بنائی اور اس وقت کی جو Condition (صورت حال) تھی، جو حالات تھے۔ اس وقت جو سیاسی حالات تھے۔ ان کے مطابق انگریز نے اپنی سوچ میں صحیح سوچا۔
اس کے علاوہ جناب سپیکر! ایک اور بات آئی۔ مہدی سوڈانی، حضور مقبول ﷺ کا نام لے کر اٹھے اور انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ اسی صدی میں چودھویں صدی کے آخر میں انگریز کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ سواد اعظم کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی موعود آئیں گے۔ لہٰذا شاید اصلی مہدی بھی آ جائے۔ اس نے پیش گوئی کے طور پر اپنا ایک نقلی مہدی تیار کیا۔ جیسا کہ میں ابھی اپنی بحث سے ثابت کروں گا کہ یہ مہدی کیونکر نقلی تھا۔ جس طریقے سے شان رسالت مآب ﷺ پر ان لوگوں نے حملے کئے ہیں۔ وہ ناقابل برداشت ہیں۔ کوئی بھی مسلمان جس میں حمیّت ہے۔ جس میں غیرت ہے۔ جس میں اخلاص کے ایک لہو کا ایک بھی جائز قطرہ باقی ہے۔ وہ ان کے اس لاف و گزاف کو برداشت نہیں کر سکتا۔
2725خیال زاغ کو بلبل سے برتری کا ہے
غلام زادے کو دعویٰ پیغمبری کا ہے
بت کریں آرزو خدائی کی
شان ہے تیری کبریائی کی
ان جعلی نبیوں نے کیا فرمایا ہے؟ اور یہ فرمانے سے پہلے یہ اپنے مقام کو بھی جانتے تھے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ ہمارا سیاق و سباق کیا ہے۔ لہٰذا فلسفہ یہ تراشا گیا کہ شان رسالت کو گھٹایا جائے تاکہ جعلی نبوت کی شان جو ہے وہ بڑھ جائے۔ حتیٰ کہ یہ برابر آ جائے،معجزات سے ارتقاء کریں۔ شان عیسیٰ علیہ السلام کو کم کیا گیا۔ یہاں تک کہ افتراء پردازوں نے ان پر افتراء پردازی کی۔ نعوذ باﷲ زبان اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کی نانیاں اور دادیاں ایسی تھیں اور ایسا بھی یہ کیوں کیاگیا؟ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں مجہول النسب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی؟
جناب سپیکر!قرآن کریم اﷲ کا ایک قانون ہے جو یونیورسل لاء ہے۔ جو کہ آفاقی اور ابدی قانون ہے۔ ازلی قانون ہے۔ جس کو کبھی موت نہیں آسکتی۔ وہ قانون ہے کہ نبی کبھی مجہول النسب نہیں ہوتا۔ نبی کا جو سلسلہ نسب ہے وہ ہمیشہ واضح ہوتا ہے اور دنیا میں جو بھی نسلیں انسان کی بستی ہیں۔ نبی ان میں ارفع ترین خون، ارفع ترین روایت، پاکیزہ ترین خون، پاکیزہ ترین خاندان کا فرد ہوتا ہے تو اسے یہ انعام ملتا ہے۔ اسے اس قابل سمجھا جاتا ہے۔ سلسلہ نسب کی بلندی۔ جناب سپیکر! یہ بھی دلیل ہے اور یہ بھی ایک انعام ہے۔ مجہول النسب لوگوں پر یہ انعام آہی نہیں سکتا۔
جیسا کہ میں ابھی قرآن کریم کی آیت سے ثابت کروں گا۔ ان لوگوں نے اپنے جعلی نبی کو سہارا دینے کے لئے تیشہ چلایا۔ وہ نسب پرچلا۔ اس لئے کہ ان کے پاس اپنا نسب نہیں تھا۔ دیکھئے براہین احمدیہ (کتاب البریہ حاشیہ ص۱۴۵، خزائن ج۱۳ص۱۶۳، اربعین نمبر۲ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)میں لکھتے ہیں:’’مجھے الہام ہوا ہے کہ میں پارسی النسب ہوں۔‘‘ یعنی ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ پارسی النسب ہیں یا نہیں؟ حتیٰ کہ پارسی سے اپنے 2726خون کا رشتہ جوڑنے کے لئے انہوں نے الہام کا سہارا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مینگول نسل تھی۔ یہ تاتار کی نسل تھی۔ یہ صحرائے گوبی کے لوٹ مار کرنے والوں کی نسل تھی۔ یہ آوارہ ترکوں کی نسل تھی۔ یہ بالکل نہ پارسی النسب تھے، نہ یہ عربی النسل تھے۔ یہ جانتے تھے کہ میں خاندان سادات میں سے نہیں ہوں۔ میں خون بنو فاطمہ نہیںہوں۔ اس لئے انہوں نے بڑے الہامات کا سہارا لیا۔
اب ذرا ان کے خرافات سنئے جن پر میں اپنی تمام بحث کا دارومدار کر رہا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں بہت ترقی ہوئی اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ پر تھی۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ حضور پاک ﷺ سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔‘‘ یہ ہے (ڈائری خلیفہ قادیان، الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ئ) اور اس کے بعد فرماتے ہیں ’’ظلی نبوت کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا۔ بلکہ آگے بڑھایا کہ نبی کریم ﷺ کے پہلو بہ پہلو کھڑا کیا۔‘‘ بلکہ بعض حسنات میں اور بھی آگے بڑھادیا۔
(کلمۃ الفصل ص۱۱۳، مصنف بشیر احمد ایم۔اے)
جناب سپیکر! میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ بروزی نبی کیا ہے اور ظلی نبی کیا ہے اور اس کا سایہ کیا چیز ہے؟ میں تو ایک بات بتانا چاہتاہوں۔ انہوں نے اپنی نبوت کا دارومدار تمام تر اس بات پر رکھا کہ ہر انسان، ہر خاطی او ر ہر ناقص اور ہر مجہول العقل انسان جب چاہے، جس وقت چاہے، اپنے زہد، اپنے علم، جو کہ بڑا محدود ہے، اس کی بناء پر ترقی کر سکتا ہے۔ترقی کرتا کرتا مجدد بن سکتاہے۔ محدث بن سکتا ہے۔ مولوی تو خیر ہر کوئی بن سکتا ہے۔ وہ محدث جو حدیث نہیں بلکہ کلمات الٰہیہ سے سرفراز ہوتا ہے، وہ بھی بن سکتا ہے۔ قطب بن سکتا ہے، غوث بن سکتا ہے، ابدال بن سکتا ہے۔ یہ خود ان کی اپنی 2727کوشش تھی۔ ٹھیک۔
جناب! اس کے بعد فرماتے ہیں’’بڑھتے بڑھتے ترقی کرتے کرتے وہ انبیاء علیہم السلام میں قدم بھی رکھ سکتا ہے۔مسیح موعود بھی بن سکتا ہے اور اس کے بعد آگے بڑھ کر وہ انبیاء سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ شان رسالت ﷺ خاتم النّبیین سے دوچار، دس قدم بہت آگے جا سکتا ہے۔ حضور والا! قرآن کی رو سے یہ ایک فاتر العقل انسان کا عقیدہ ہے۔ قرآن اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لئے قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کا میں ترجمہ کروں گا اور مولانا ہزاروی صاحب مجھے معافی دیں گے اگر کہیں میں لغزش کر جاؤں۔ میں مفہوم بتاتا ہوں کہ ہم نے میثاق ازل لیا انبیاء کی ارواح سے اور اے پیغمبر ﷺ ! ہم نے آپ ﷺ کو ان پر شاہد مقرر کیا، ان پر گواہ مقرر کیا۔ اس کے لئے جو قرآن میں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وہ میثاق غیظ ہے۔ ہم نے بڑا زبردست عہد لیا۔
حضور مرزا صاحب! آپ کی روح پر فتن سے پوری معافی مانگتے ہوئے یہ کہوں گا کہ آپ اس میثاق میں شریک تھے۔ کیا خداوند کریم کے عہد ایسے ہوتے ہیں کہ مجہول ہو جاتا ہے؟ وعدہ لیا خداوند کریم نے وعدہ لینے والا۔ جناب اسپیکر! خداوند کریم کو وعدہ دینے والی ارواح مقدسہ سے پیمان ازل ہوا جب مخلوقات کی بھی پیدائش نہ ہوئی۔ ابھی آدم آب و طین کی کیفیت میں ہے۔ مٹی اور پانی کی کیفیت میں ہے۔ اس وقت وعدہ لیا جا رہا ہے ۔ کون لے رہا ہے قسام ازل، معیشت کو پیدا کرنے والا پروردگار، سبوح و قدوس، خدائے حمید و لایزال، معیشت کو پیدا کرنے والا، وہ دینے والا، روحیں گواہ حضور رسالت مآب ﷺ ۔ یہ مجہول کہاں سے ٹپک پڑے؟ کہ جن کو چالیس ، پینتالیس اور پچاس برس تک یہ بھی خبر نہیں کہ ان کا مقام کیا ہے۔ یہ مقام انسانیت میں بھی ہیں یا نہیں۔ ان کو یہ بھی خبر نہیں تھی۔ کہاں تھے یہ میثاق کے وقت یا کہہ دیجئے کہ قرآن غلط؟ کہہ دیجئے یہ لوگ مفتری۔ ہم آگے بڑھتے ہیں کہ انبیاء کے تعیّن میں اور انبیاء کی بعثت میں اﷲ کریم کا طریقہ کیا ہے اور بالکل یہ بھی قرآن کا فرمان ہے کہ اﷲ کریم اپنی سنت کو تبدیل نہیں 2728کرتا۔ جناب سپیکر! اﷲ کریم کی سنت میں تغیر وتبدل نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس لئے ’’ ان اﷲ لا یخلف المیعاد ‘‘ اﷲاپنے وعدوں کی بھی مخالفت نہیں کرتا۔ خلاف وعدہ کبھی نہیں کرتے۔ آئیے! ہم کتاب ربانی اور اس کے آئینہ کمالات میں اسی کا جائزہ لیں۔ سورئہ مریم میں ہم دیکھیں کیسے پیغمبر آتے ہیں۔ پیغمبروں کا ذہن کیا ہوتا ہے۔ پیغمبروں کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ پیغمبر دعا کیسے مانگتے ہیں۔ پیغمبروں کے وعدے کیسے ہوتے ہیں۔ پیغمبر مبعوث کیسے ہوتے ہیں۔ کیوں نہیں ہم قرآن کو دیکھتے ہیں۔ کتاب موجود ہے۔ سنئے سورئہ مریم۔ میں صرف ترجمہ پڑھوں گا۔ ’’جناب زکریا نے دعا مانگی کہ پروردگار! مجھے اپنے پاس سے وارث دے جو میرا بھی وارث بنے اور اولاد یعقوب کا وارث بنے۔‘‘ جناب محترمہ ! یہ ہے پیغمبر مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں۔ آنے والی نسلوں پر ان کی نظر ہوتی ہے اور وہ واضح ہوتے ہیں نہ وہ مجہول العقل ہوتے ہیں۔ نہ مبہم ہوتے ہیں۔ نہ ان کا ذہن دھندلایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ تو خداوند کریم کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل، یہ کیفیات پیغمبروں کے سامنے ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور اس طرح جس طرح درہم ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اﷲ کریم فرماتے ہیں اے زکریا! ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں ایک لڑکے کی، جس کا نام یحییٰ ہوگا اور ہم نے اس سے قبل کسی کو اس کا ہم نام نہیں بتایا۔
ذرا التزام نبوت دیکھئے۔ نام حافظۂ آدم سے، آدمی کی نسل سے نام کو قدرت نے چھپا لیا کہ ایک اپنے نبی کو میں نے یہ نام دینا ہے۔ یہ قرآن فرما رہا ہے۔ اے پروردگار! جناب زکریا فرماتے ہیں کہ میرے لڑکا کیسے ہوگا درآں حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہاء پر ہوں۔ فرمایا اس طرح کہ تمہارے پروردگار کے لئے یہ آسان ہے۔ اے یحییٰ! کتاب کو مضبوط پکڑو اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی سمجھ دے رکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر بچپن میں ہی سمجھ لے کر آتا ہے۔ پچاس برس تک مجہول نہیں رہتا۔ پچاس برس تک اپنے مقام سے غافل نہیں رہتا اور خاص آگے فرماتے ہیں 2729کتاب خدا خاص اپنے پاس سے رقت قلب اور پاکیزگی عطاء کی اور جناب یحییٰ بڑے پرہیز گار تھے اور نیکی کرنے والے تھے اپنے والدین کے ساتھ ، اور سرکش اور نافرمان نہ تھے۔
آگے سنئے، جناب سپیکر! قرآن کی زبان میں پیغمبر کا کیامقام ہے۔ ابھی یحییٰ پیدا نہیں ہوئے اور کلام ربانی کیا آرہا ہے۔ انہیں سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوں اور جس دن کہ وہ وفات پا ئیں گے اور جس دن کہ وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔کائنات، خلق کائنات بعثت پیغمبر کو سلام دیتی ہے۔ اس کے مولود پر بھی اور اس کے دنیا سے رخصت ہونے پر بھی۔ اب ذرا جناب اسپیکر! اندازہ کیجئے کہ جناب زکریا علیہ السلام مانگ کر بڑھاپے میں بچہ لیتے ہیں۔ ایک خارق عادت طریقے سے بچہ آتا ہے۔ کیوں آتا ہے خارق عادت طریقہ سے؟ کیا دنیا میں کوئی اور نہیں تھا جو پہلے مولوی بنتا، محدث بنتا، مجدد بنتا، فقیہہ بنتا،ترقی کرتا، نبوت پاتا۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا روئے ارض پر باقی نہ تھا؟ جناب سپیکر! میری اس بحث کو تقویت پہنچتی ہے۔ فطرت نسب کی حفاظت کرتی ہے۔ پیغمبر بغیر نسب کے التزام کے آہی نہیں سکتا۔
اب ذرا التزام قدرت ملاحظہ فرمائیے۔ جناب مریم کے تقدس کے بارے میں عرض کرنا چاہتاہوں۔ قرآن حکیم میں سورئہ مریم میں ارشاد ہے کہ فرشتہ مریم مقدس کے سامنے ظاہر ہوا اور کہا میں پروردگار کا ایلچی ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ وہ بولی میرے لڑکا کیسے ہو گا درآں حالیکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ میں بدچلن ہوں۔ فرشتہ کہتا ہے جناب اسپیکر! کہا یونہی ہوگا، تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ یہ میرے لئے آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشان بنادیں اوراپنی طرف سے سبب رحمت، اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔
جناب سپیکر! آگے کتاب خدا تعالیٰ ارشاد فرماتی ہے، یہ قرآن کریم کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا ہے ’’اور پھر وہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں اور وہ لوگ بولے 2730اے مریم! تو نے بڑے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن! نہ تمہارے والد ہی برے آدمی تھے اور نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھی۔ اس پر مریم نے اس بچہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ جناب سپیکر! اب وہ بچہ بولتا ہے۔ میں اپنی بحث کو اس نکتہ کی طرف لانا چاہتاتھا کہ ماں کی گود یا پنگھوڑے میں بچہ کیسے بولتا ہے۔ بچہ کی طرف اشارہ کیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام بولے اپنے پنگھوڑے سے۔ نہیں، پہلے وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اس بچے سے کیسے بات چیت کریں جو ابھی گہوارہ میں پڑا ہوا نومولود بچہ ہے۔ اس پر جناب عیسیٰ علیہ السلام بولے میں اﷲ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور اس نے مجھے نبی بنایا اور اس نے مجھے بابرکت بنایا جہاں کہیں بھی ہوں، اور اسی نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا۔ جب تک میں زندہ رہوں، مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا اور میرے اوپر سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں مروںگا اورجس روز میں زندہ کرکے اٹھایاجاؤں گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب کا بقیہ حصہ )
جناب سپیکر! یہ آیات غور و فکر کے لئے ہیں۔ قرآن کریم دعوت فکر دیتا ہے۔ دعوت تفکر دیتا ہے قرآن کریم ہر قدم پر بتائیے کہ قدرت کو کیا ضرورت تھی خالق فطرت کو کہ پنگھوڑے میں بچے کی گفتگو کاانتطام کرے؟ ماں جواب نہ دے اور بچہ جواب دے۔ حضور والا! ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے، فرما رہے ہیں کہ کتاب لے کر آیاہوں۔ رسالت لے کر آیا ہوں۔ معلوم ہوانبی جب پیداہوتا ہے رسالت سے سرفراز ہوتا ہے۔ وہ جہالت کی ٹھوکریں کھانے کے لئے نہیں ہوتا۔ قسام ازل، تقدیر ازلی، قاضی تقدیر اس کو ماں کے پیٹ سے بلکہ روز ازل سے اس کو نبوت سے سرفراز کرکے بھیجتے ہیں۔ یہ روحیں ہی اور ہیں،یہ اجناس ہی اور ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو مدرسوں سے تعلیم پاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو پندرہ روپے کی کلرکی سے ڈسمس ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو قیصرائے ہند کو لکھتے ہیں ’’اے میرے جان و مال کی مالک۔‘‘ یہ وہ لوگ نہیں جو غیروں کے وظیفوں پر پلتے ہیں۔ پیغمبر کو پالنے والا خدا وند کریم ہے۔ اس کی حفاظت مشیت خود کرتی ہے۔
2731متعدد اراکین: بہت اچھے، بہت اچھے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب سپیکر! اس ضمن میں میں آگے عرض کروں گا کہ یہ سنت الٰہی ہے کہ نبی کتاب لے کر آتا ہے۔ نبی پیدائشی نبی ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوال پوچھتا ہوں ان دوستوں سے جو کہتے ہیں، نعوذباﷲ،جو کہتے ہیں رسالت مآب ﷺ چالیس برس تک، نعوذ باﷲ، نعوذ باﷲ، نبی نہیں تھے۔ حالانکہ حدیث شریف میں انا اول العابدین میں سب سے پہلا عبادت گزار ہوں۔ یہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا۔ کیسے عبادت گزار ہوں۔ جناب اسپیکر! قرآن کی طرف آئیے۔ پہاڑ عبادت کر تے ہیں۔ درخت عبادت کرتے ہیں۔ کائنات عبادت کرتی ہے تو اول العابدین کا مطلب یہ ہوا کہ رسالت مآب نے اس وقت بھی عبادت کی جب کوئی موجودات، موجود نہ تھی۔ نبی اس وقت نبی ہوتا ہے جب موجودات نہیں ہوتی۔ ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
[At this stage Dr.Mrs.Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr.Chairman(Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی۔ جسے جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: اجازت ہے جناب!
جناب اسپیکر! جناب ابراہیم علیہ السلام کے ذکرمیں ارشاد خداوندی سنئے:’’تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور ہم نے ہر ایک کو نبی بنایا اور ان سب کو اپنی رحمت عطاء کی۔‘‘ جناب موسیٰ علیہ السلام سے ایک ہی قانون قدرت چلا آرہا ہے۔ قانون خداوندی ایک ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :’’اور ہم نے اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی کی حیثیت عطا کی۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام عطا کئے اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا اور لوط علیہ السلام کو ہم نے علم اور حکمت دی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں کو تابع کر دیا اورپرندے ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ اسماعیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام اور ذوالکفل کوہم نے اپنی رحمت میں داخل کر لیا تھا۔ بیشک وہ بڑے صالح لوگوں میں سے تھے۔‘‘
2732جناب اسپیکر! اسی طرح سورئہ احزاب میں یہ بات نوشتہ الٰہی میں لکھی جا چکی تھی:’’ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے تمام پیغمبروں یعنی نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے بھی، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ میثیاق غلیظ (پختہ) لیا تاکہ ان سچوں سے ان کے سچ کی بابت سوال کیا جائے۔ جناب سپیکر! قرآن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی روز ازل سے پیدا ہوتے ہیں۔ نبی روز ازل بنائے جاتے ہیں۔ نبی عالم ارواح میں بنائے جاتے ہیں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: پوائنٹ آف آرڈر، جناب! یہ بار بار ’’جناب اسپیکر، جناب اسپیکر!، جناب اسپیکر!‘‘فرمار ہے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت ’’جناب چیئرمین زیادہ مناسب ہوگا۔
متعدد اراکین: سنا نہیں گیا۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: میں کہہ رہا ہوں کہ بار بار،ہمارے بخاری صاحب ’’جناب اسپیکر، جناب اسپیکر‘‘ فرمارہے ہیں۔ ان کو یہ فرمانا چاہئے کہ ’’جناب چیئرمین۔‘‘ یہ مناسب ہے۔ ویسے یہ اسپیکر ہیں لیکن اس وقت ’’چیئرمین‘‘ ہیں اور ویسے بھی ’’جناب چیئرمین‘‘ کہنا مناسب ہے۔
ڈاکٹر ایس محمودعباس بخاری: مہربانی۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ سورئہ شوریٰ میں ارشاد خداوندی ہے:’’اﷲ نے تمہارے لئے وہی دن مقرر کیا جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیاتھا،اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کیا ہے۔ جس کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام کو بھی حکم دیاتھا۔ یعنی کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔‘‘ اور اس کے بعد سورئہ آل عمران میں ہے:’’ہم نے فضیلت دی آل ابراہیم اورآل عمران کو جہانوں پر۔‘‘
حضور والا! یہ قاعدہ ہے۔یہ وہ طریقہ ہے، یہ سنت الٰہی ہے۔ خاندان کبھی مجہول نہیں ہوتا پیغمبرکا۔ نسب کبھی پیغمبرکا مجہول نہیں ہوتا۔ جن مجہول النسب لوگوں نے اس 2733کے بعد جھوٹی نبوت کے دعوے کئے۔ یہ دلیل ہے ان کے جھوٹے ہونے کی۔ میں ایک بات یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں، جناب! اگر ہم یہ تسلیم کریں ایک لمحہ کے لئے بھی، جہالت کسی لمحے پر وارد ہوتی ہے، تو جناب! جہالت ظلم ہے، اور کوئی نبی ظلم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اﷲ کریم فرماتے ہیں کہ میرا عہد ظالمین کو نہیں پہنچا۔ بالکل نہیں پہنچ سکتا۔ یہ تو دو انعام ہیں۔ عہد اور انعام ایک ہی چیز ہے۔ انعام کاعہد ہے۔ یہ ظالمین کو پہنچ نہیں سکتا۔ نبی نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ ہی مجہول ہو سکتا ہے، نہ نبی فاتر العقل ہو سکتا ہے۔ نہ نبی اپنے مقام سے گم کردہ راہ ہو سکتا ہے۔ نہ نبی کوئی گناہ کر سکتا بڑا یا چھوٹا۔ اس لئے جناب! کیونکہ اگر نبی یہ کرے گا توکسی کو ہدایت کیوں کر دے گا۔
خضر کیوں کر بتائے راہ اگر
ماہی کہے دریا کہاں ہے
اگر نبی کہے ہدایت کہاں ہے۔ فلاں وقت ہدایت کے بغیر تھا۔ فلاں وقت میری ہدایت سمیت ہے۔یہ بڑا مشکل ہو جاتاہے۔
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے
نبی کبھی اپنی کرن سے بیزار نہیں ہوتا۔ وہ نور خداوندی کا امین ہوتاہے۔ وہ آئینہ کمالات خداوندی ہوتا ہے۔ حضور والا! اب ہم بات کرتے ہیں اپنے آقائے کائنات جناب سرور رسالت مآب ﷺ کی۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، یدبیضاداری
آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہاداری
جناب والا! نبوت کسبی شے نہیںہے، یہ وہبی چیز ہے۔ یہ عنایت ہوتی ہے۔ یہ میدان گھوڑ دوڑ کی دوڑ میں جیتی نہیں جاتی۔ خدانخواستہ، نعوذ باﷲ، خاکم بدہن، یہ ریس کا کپ نہیں ہے جسے مرزا قادیانی کی طرح جیت لیں۔ یہ جیتی نہیںجا سکتی، یہ عطا ہوتی ہے۔
2734جناب والا!اسی ضمن میں ایک میں عرض کرنا چاہتاہوں کہ کیا واضح کیاگیا۔ مہدی کا جھگڑا ہے۔ میں اپنی بات کو اجمالاً ختم کرنا چاہتا ہوں۔ بحث بڑی طویل ہو جاے گی۔ اتنا کچھ آثار مہدی میں او ر کتابوں میں، جو کتابیں آج بھی ہمیں روشنی دے رہی ہیں۔ سواد اعظم کی متفقہ کتابیں، ان میںحضور والا! بالکل واضح طور پر مہدی کے خواص لکھے ہیں اور ان میں ان کی صرف ایک خاصیت بیان کرنا چاہتا ہوں اور اس پر میں اپنی بحث کا انجام کرنا چاہتاہوں۔ ابوداؤد، ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ مہدی اولاد فاطمہ ؓ سے ہوگا اور حضور پاک ﷺ کی عترت میں سے ہوگا۔ ایک بڑی مستند کتاب جس کا میں نے نام لیا ہے، عبداﷲ ابن مسعودؓ، دریائے علم۔ ترمذی میں اور ابوداؤد میں روایت ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ فرماتے ہیں کہ مہدی میرا ہم نام ہو گا اور تحقیق وہ میری عترت میں سے ہوگا۔ وہ میری آل میں سے ہوگا۔ جب وہ آئے گا، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اس کے بعد پھر ابی اسحاق کی روایت ہے:’’تحقیق مہدی اولاد فاطمہؓ میں سے ہو گا اور اخلاق و عادات اور صورت میں حضورپاک ﷺ کے مشابہ ہوگا۔‘‘
جناب والا! اس قسم کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہدی بھی مجہول النسب نہیں ہوگا۔ چہ جائیکہ ایک آدمی آج تک اپنا خاندان نہیں ثابت کرسکا کہ وہ فارسی ہے،ایرانی ہے، ترک ہے یا منگول ہے۔ کہاں سے ٹپکے، کہاں سے آئے۔ کس سیارے سے ان کو کس راکٹ میںبٹھا کر یہاں پرلے آئے۔ ان کو اپناعلم نہیں ہے۔ دوسروں کو ان کا علم کیا بتائیں گے؟
جناب والا! یہاں پر میں ایک حدیث پیش کرنا چاہتاہوں۔ جو تمام جھگڑوںکو بڑی واضح کر دیتی ہے۔ میں اس حدیث کے حوالہ جات بھی لے آیا ہوں۔ اگر علماء کرام ان حوالہ جات کو دیکھنا چاہتے ہیں تو میں انشاء اﷲ ان کوبھی دے دوں گا۔ اسمبلی کو پیش کردوں گا۔ حوالے بڑے لمبے ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ میں ان سب کو یہاں دہرا سکوں۔
2735حدیث ثقلین یہ ہے، اس کے بے شمار راوی ہیں۔ اس کو تقریباً چار سو صحابہؓ نے روایت کیا ہے۔ سواد اعظم کی تقریباً ساڑھے سات سو ایسی کتابوں میں اس حدیث کا ذکر ہے۔ یہ تواتر کے دور سے بھی نکل چکی ہے۔ غالباً اتنی مستند اور اتنی ثقہ حدیث بہت کم نظروں سے گزری ہوگی۔ ان تمام لوگوں نے جنہوں نے اس کو مروی کیا ہے۔ جناب علیؓ، دو، تین، چار سن ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں حدیث کا ترجمہ کرتاہوں:
’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ یعنی کتاب اﷲ اور اپنی آل۔ عترت اور اپنے اہل بیت۔ اگر ان سے تمسک کرو گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ بیشک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے۔ حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس اکٹھے وارد ہوں۔‘‘حضور والا! جیسا کہ میں نے پہلے حوالوں سے پڑھا ہے کہ مہدی عترت رسول میں سے ہوگا۔ یہ حدیث ثقلین عترت رسول ﷺ کو واضح کرتی ہے۔
میں بات مختصر کرتے ہوے دو چار حوالے پیش کرنا چاہتاہوں۔ اس کے بعد میں یہ عرض کروں گا اور یہ سوال پوچھوں گا کہ اگر عترت رسول ﷺ میں سے (مرزاصاحب) نہیں تھے؟ اگر مجہول النسب تھے؟ تو ان کی نبوت کی وہ بنیاد ہی…
Mr. Chairman: Short Break for fifteen minutes for tea. We will reassemble at 12:15 p.m.
(مسٹر چیئرمین: چائے کے لئے پندرہ منٹ کا مختصر وقفہ۔ ہم سوا بارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع کریں گے)
The special Committee adjourned for tea break to reassemble at 12:15 p.m.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے دوپہر سوا بارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
The special Committee ressembled after tea break. Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کررہے ہیں)
جناب چیئرمین: ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری!
2736ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب چیئرمین! میں حدیث ثقلین کی بات کر رہا تھا۔ جس میں میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا کہ کوئی نبی یا مہدی نہیں آسکتا جب تک کہ وہ عترت رسول ﷺ نہ ہو اور حدیث ثقلین اس پروارد نہ ہوتی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ بہت سے حوالہ جات بھی لایا تاکہ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرسکوں اور جناب والا! میں قدرے فخر سے یہ حوالہ جات پیش کروں گا کہ غالباً اتنے حوالہ جات کسی ایک حدیث کے لئے بہت کم اکٹھے ہوئے ہوںگے۔چار، پانچ حوالے پڑھنے کے بعد یہ حوالہ جات کا دفتر میں آپ کی خدمت میں جمع کرا دوں گا تاکہ یہ بھی یہاں پرریکارڈ رہے اور وہ دوست جو حدیث ثقلین کی سند دیکھنا چاہیں۔ وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں اور میری بات پایۂ ثبوت تک پہنچ سکے۔
مخرجین حدیث ثقلین۔ سید بن مسروق السعی سن وفات ۱۲۶ھ۔ جو راوی صحابی ہیں۔ وہ زید بن ارقم ہیں۔ حوالہ جات صحیح مسلم رکن بن زبیع بن العمیلہ، سن وفات ۱۳۱ھ، صحابی زید بن ثابت۔ حوالہ مسلم، احمد حنبل، ابوھیان یحییٰ بن سعید بن ہیان۔ سن وفات ۱۴۵ھ۔ حوالہ مسلم، احمد حنبل۔ صحیح مسلم عبدالملک بن ابی سلطان سن۱۴۵ھ، صحابی راوی ابوسعید الخدری، مسلم، احمد، حنبل۔ محمد بن اسحاق بن لساالمدنی۔ اسرائیل بن یونس ابو یوسف الکونی۔ عبدالرحمن بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود الکفی۔ محمد بن طلحہٰ بن معارف العانی الکونی۔ ابوغبانہ و ذاہب بن عبداﷲ و العشری۔ شریک بن عبداﷲ والقاض۔علی ہذا القیاس!
جناب چیئرمین! بے شمار حوالہ جات ہیں۔ اس میں کم سے کم چار سو صحابہ کرامؓ کے نام درج ہیں۔ پانچ سو، چھ سو کتابوں کے حوالہ جات ہیں۔ جناب والا! اس سے میرے کہنے کامقصد یہ ہے کہ میں اپنی تمام بحث کو سمیٹتا ہوں، Conclude کرتاہوں۔بحوالہ آیات قرآنی ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں جناب والا! کہ:
۱… نبی نجیب الطرفین ہوتاہے۔
۲… 2737نبی کا سلسلہ نسب واضح ہوتا ہے۔
۳… نبی پر کبھی بھی جہالت وارد نہیں ہوتی۔
۴… یہ لازمی ہے کہ نبی کی حفاظت اور اطاعت فطرت خود کرے۔
۵… بطن مادر میں اور صلب پدر میں نبی ہوتاہے۔
۶… نبوت وہبی ہوتی ہے، کبھی بھی کسبی نہیں ہوتی۔
۷… ایک اوربات کی حضور والا! یہاں صراحت کرتا جاؤں، قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’ وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحیی یوحی ‘‘{نہیں بولتے نبی کریم اپنی خواہش سے ، سوائے وحی الٰہی کے۔}
حضور!نطق اور کلام میں فرق ہے۔ کلام وہ چیز ہوتی ہے جس میں زبان الفاظ کو کسی مفہوم یا کسی تواتر کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ لیکن حضور والا! نطق اسے کہتے ہیں جو بے معنی بھی ہو۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ روٹی ووٹی، پانی وانی، جانا وانا، تو اس میں جو مہملات ہیں۔ وہ بھی ینطق میں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ جناب والا! سوتے ہوئے خراٹے لینا بھی ینطق ہے۔ نبی کا بروئے قرآن ینطق بھی جو ہے حضور والا! قرآن حکیم نے اس کو وحی الٰہی قرار دیا ہے۔ اس سیاق و سباق کو اگر ہم اس نبی کے سیاق و سباق سے لگائیں جس نے اس دور میں آکر مسلمانوں میں انتشار و افتراق پیدا کیا اورجھوٹے الہامات اور رویائے کاذبہ کو رویائے صادقہ کے روپ میں پیش کر کے جو مس گائیڈنس یا گمراہی پھیلائی۔ اسی پیمانے سے ہم ا س کو ماپ سکتے ہیں۔ تو حضور والا! پتہ چلتا ہے کہ حق کہا ں ہے اورباطل کہا ں ہے۔ یعنی حق آ گیا اورباطل چلا گیا۔ یقینا باطل ہے بھی جانے والی شے۔
اس کے بعد جناب والا! آٹھویں نشانی! نبوت کی یہ ہے کہ نبی مجہول و مبہم کبھی نہیں ہوتے۔ نویں نشانی! اس کی یہ ہے کہ پیدائش اور موت نبی کریم کی، یا کوئی بھی نبی ہو، 2738ہمیشہ مسعود و مبارک ہوتی ہے۔ دسویں! اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کا سلسلہ نسب عارفین و انعام یافتگان سے ہوتا ہے۔ اگر باپ نبی ہے، یا دادا نبی ہے، یا نانا نبی ہے، یا ماں صدیقہ ہے، یا دادی صدیقہ ہے، یعنی طاہرین کا، معصومین کا اورانعام یافتگان کا ایک سلسلہ ہوتا ہے حضور والا! جو کہ چلتا ہے۔
اس کے بنا نبی نہیں آتا۔ یہ قانون قرآن کے خلاف ہے، یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔ ایک اور دلچسپ بات میں عرض کرتا جاؤں ضمناً وہ بھی نبی کی پہچان ہے کہ اگر کسی بھی نبی کے جسم کی ہڈی آسمان کے نیچے ننگی ہو جائے تو اس وقت بادل آ جاتے ہیں، بارش برستی ہے۔ اس کے لئے بھی میں ۲،۳ سو حوالے پیش کروں گا۔ جب کسی نبی کی ہڈی ننگی ہوئی اورہڈی اس کی باہر برآمد ہو گئی۔ بارش آئی، طوفان آیا، حتیٰ کہ وہ ہڈی پھر کوّر ہو گئی۔ قدرت کاملہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے پاک وجود کی ہڈی کی بے حرمتی ہو۔ اس کو ہمیشہ باران رحمت چھپا لیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کاذب نبی کی ہڈی نکالی جائے اورباران رحمت کاتماشہ دیکھا جائے۔ لیکن میں ثبوت میں پیش کر سکتا ہوں۔
اس کے بعد نبوت کے سلسلے میں، میں عرض کروں گا کہ یہ بھی قرآنی تصریح ہے کہ نبی کی بشارت بہت پہلے مل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں ہزاروں برس پہلے جناب ناموس موسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی گئی۔ جناب عیسیٰ عمران کی بشارت دی گئی اور حضور رسالت مآب ﷺ کی بشارت دی گئی۔
جناب والا! ایک اوربات جو ازروئے قرآن ہم سے ثابت ہوتی ہے کہ نبی کو اس کی موت کے بعدکاذب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ یا نبی کو اس کی اتمام حجت کے بعد کاذب نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر کاذب ٹھہرائیں گے اور وہ فی الحقیقت نبی ہے تو عذاب آکر رہے گا۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا آیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کا آیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کا آیا۔ حضرت ہود علیہ السلام کا آیا۔ یا اسے ماننا پڑے گا یا عذاب آئے گا۔ اگر یہ سچے 2739نبی تھے۔ جو کہتے تھے کسی زمانے میں کہ ’’چھوڑو، مردہ علی کی بات نہ کرو، چھوڑو، مردہ حسین کی بات نہ کرو۔‘‘ کیا ہم یہ تصریح نہ لائیں، یہ دلیل نہ لائیں کہ ’’چھوڑو، مردہ مرزا صاحب کی بات نہ کرو۔ وہ بھی پرانے مردے ہو گئے۔ ان کا کیا ذکر کرنا۔‘‘ نہ عذاب آیا، نہ ہدایت آئی، یہ کیسے نبی ہیں؟
جناب والا! بہر حال یہاں پر ایک اوربات قرآنی لحاظ سے عرض کرنا چاہتا ہوں اور بات ضمناً عرض کردوں کہ مشکوٰۃ شریف اور ابوداؤد اور ترمذی کا ایک اورحوالہ میرے ہاتھ آیا ہے کہ بتحقیق رسالت مآب علیہ السلام نے فرمایا کہ مہدی ہر حال میں آل رسول اور بنو فاطمہ میں سے ہوں گے اور اس کے بعد اگلی روایت ہے، حدیث سے کہ عیسیٰ بہ نصرت مہدی آئیں گے۔ مہدی سات برس حکمرانی،عالمی حکمرانی کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔ کوئی حاجت مند اور مظلوم نہیں رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس برس رہیں گے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں نبوت کے ان دعویداروں سے کہ زمین پر کوئی حاجت مند نہیں رہا؟ کیا انسانی مسائل ختم ہوئے ہیں؟ کیا عدل ہو رہا ہے؟ کیا لڑائیاں نہیں ہو رہی ہیں؟ کیا ان کی بعثت کے وقت کے بعد سے عالمی جنگیں نہیں لڑی گئیں؟ یہ کہتے تھے کہ جہاد بند کر دو۔ مجھے بتائیں کہ کیا فلسطین نہیں لٹا؟ کیا بیت المقدس نہیں برباد ہوا؟ کیا کیا کچھ نہیں ہوا ہے۔ عالم اسلام پر کیا کیا چرکے نہ چل گئے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد ضروری نہیں ہے تو جہاد کب کریں گے؟ کیا قبروں میں جانے کے بعد کریں گے؟ عدل کہاںآیا ہے؟ عالمی حکمرانی کہاں آئی ہے؟ کہاں زمین انصاف سے بھر گئی ہے؟ حضور والا! یہ بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ اس چیز سے بھی ثابت ہوا ہے حدیث کی رو سے بھی کہ یہ نبی جو تھے چاہے بروزی اور ظلی تھے، جو بھی چیز تھے۔ کاذب نبی تھے۔
2740اس کے بعد حضور والا! علامہ محمود الصارم، مصر کا ایک حوالہ عرض کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بروزی اورظلی نبوت کوئی شے نہیں۔ نہ کبھی کوئی بروزی نبی آیا ہے اور نہ کبھی کوئی بروزی نبی آئے گا۔ نہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا کوئی بروز آیا اور نہ آل ابراہیم کا کوئی بروز آیا۔ نہ کوئی بروز علیؓ کا آیا نہ کوئی بروز حسینؓ کا آیا۔ نہ کوئی بروز جناب صدیقؓ کا پیدا ہوا اور نہ کوئی بروز جناب عمر فاروقؓ کا پیدا ہوا اور بروز کون سا آئے گا۔ یہ زرتشتی کا عقیدہ ہے، یہ ہندوآنہ طریقہ ہے۔ آواگواون کا یہ مسئلہ ہے، تناسخ کا مسئلہ ہے، اور یہ وہی آدمی پیش کر سکتا ہے جو مجہول الذہن ہو، مجہول الفہم ہو۔
اور ایک بات عرض کروں گا یہاں پر جس کو ابھی تک بحث میں نہیں لیاگیا۔ اس نبی، اس بیسویں صدی کے نبی نے فرمایا کہ مہدی اور عیسیٰ دونوں اس (کی) شخصیت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ حضور! تواتر سے ثابت ہے۔ متواترات سے ثابت ہے کہ مہدی کی اور شخصیت ہے ، جناب عیسیٰ علیہ السلام کی اور شخصیت ہے۔ یہ دو الگ شخصیتیں ہوں گی۔ ان کے نشانات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو آسمان سے نازل ہوں گے۔ دمشق میں اتریں گے۔ فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ ہوں گے۔ دو زرد چادریں اوڑھے ہوئے ہوںگے۔ سرخ و سفید رنگ کے ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ نمازصبح کی اقامت کریں گے۔ یہودیوں کو شکست دیں گے۔جزیہ بند کریں گے۔ حج کریں گے۔ آدمی کی گھاٹی سے لبیک کریں گے۔ شادی کریں گے۔ مسلمان ان کے جنازہ میں شرکت کریں گے۔ روضہ نبی ﷺ میں مدفون ہوں گے۔ عیسیٰ ابن مریم روح اﷲ اور کلمۃ اﷲ ہوں گے۔ صلیب کو توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ کیا خنزیر قتل ہو گیا؟ کیا صلیب ٹوٹ گئی ہے۔ کیا یہ کلمۃ اﷲ تھے؟ کیا یہ روضہ نبی ﷺ میں مدفون ہوگئے؟
حضور والا! یہ بگڑی ہوئی نفسیات ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیات ہے جس نفسیات کو اﷲ ہی سنبھالے۔ یہ ایک بہت بڑا انتشار تھا۔ یہ ایک بہت بڑی عالم اسلام کے ساتھ سازش تھی۔ ناموس پیغمبر کے ساتھ یہ 2741بہت بڑا گھناؤنا کھیل تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں سے مباہلہ کا چیلنج)
میں یقین سے کہتا ہوں،انشاء اﷲ، میں اس ایوان میں کہتا ہوں کہ میں اس ایوان میں مباہلے کے لئے بھی تیار ہوں۔ تمام مرزائیوں سے کہ آؤ، ہم ایک دوسرے پر لعنت کریں۔لے آؤ تم اپنے بیٹوں کو، لے آتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو۔ لے آؤ تم اپنے نفسوں کو، لے آتے ہیں ہم اپنے نفسوں کو۔ لے آؤ تم اپنی عورتوں کو، لے آتے ہیں ہم اپنی عورتوں کو اور ایک دوسرے پر لعنت کریں۔ میں اس مباہلے کے لئے تیار ہوں۔ (ڈیسک بجائے گئے)
Mr. Chairman: This is not within the jurisdiction of the Assembly.
(جناب چیئرمین: یہ اسمبلی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: حضور والا! میں اپنی بات کو کنکلوڈ کرتے ہوئے…
Mr. Chairman: The honourable members may clap their desks. but this is not right to have Mubahala.
(جناب چیئرمین: معزز ممبران اپنے ڈیسک بجا سکتے ہیں۔ لیکن مباہلہ کرنا ٹھیک نہیں ہے)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: میں ایک حدیث کا حوالہ دوں گا۔
Mr. Chairman: I think, now you should conclude.
(جناب چیئرمین: میرا خیال ہے، آپ کو اپنی بات مکمل کر دینی چاہئے)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: ختم نبوت کامل میں سے…
Mr.Chairman: You need not go into this because the Assembly is unanimous that the Holy Prophet was last of the Prophets, because almost House has given its verdict on that. We are here to determine the status of Qadianis. That is all. What ever you have said, there was no need of saying that.
(جناب چیئرمین: آپ کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ حضرت محمد ﷺ آخری پیغمبرتھے۔ اسمبلی اس معاملہ پر اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ ہم قادیانیوں کی حیثیت کا تعیّن کرنے کے لئے موجود ہیں۔ جو کچھ آپ نے کہا اس کی کوئی ضرورت نہ تھی)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب چیئرمین! میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ آخر میں شاید میرا موضوع تلخ ہو گیا ہے۔ اس تلخی کو کم کرنے کے لئے حضور! آپ کو ایک فرضی نبی کا قصہ سناتا جاؤں۔
2742بابر کے دربار میں ایک نبی آیا۔ انہوں نے کہا میں نبی اﷲ ہوں۔ مجھ پر ایمان لاؤ۔ بابر نے کہا کہ اچھا بھائی! ایمان لے آتے ہیں۔ بتاؤ تمہارا معجزہ کون سا ہے؟ کہنے لگا ابھی بتاتا ہوں۔ بابر نے کہا کہ ابراہیم خلیل اﷲ والا معجزہ دکھاؤ۔ تمہیں ہم آتش نمرود میں ڈالتے ہیں۔ آگ کے تنور میں ڈالتے ہیں۔ بچ گئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حضور! وہ پرانے وقتوں کے نبی تھے۔ کیا آپ دقیا نوسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ معجزہ پرانا ہو گیا ہے۔ کوئی تازہ معجزہ طلب کیجئے۔ بابر نے کہا اچھا بھائی! ٹھیک ہے۔ عصائے موسوی لاؤ۔ ید بیضا لاؤ۔ انہوں نے کہا جناب! یہ باتیں بڑی پرانی ہو گئی ہیں۔ چھوڑئیے، کوئی نیا معجزہ طلب کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ چلو، جناب عیسیٰ علیہ السلام والا معجزہ دکھاتا ہوں۔ جی ابھی دکھاتا ہوں۔ ابھی وزیراعظم کی گردن اتارتا ہوں اور ابھی جوڑ دیتا ہوں۔ وزیراعظم بابر سے بولے کہ حضور! میں اس نبی پر بغیر گردن اتروائے ایمان لے آیا۔‘‘
جناب والا! یہ نبوت بڑی آسان ہے۔ حضور والا! ان لوگوں کی نبوت یہ ہے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ شان رسالت مآب ﷺ گھٹادو۔ وہ ایک لطیفہ سنتے آئے ہیں…
Mr. Chairman: That is all.
(جناب چیئرمین: یہ بہت ہے آپ بس کریں)
ہم لطیفوں کے لئے نہیں بیٹھے ہیں۔ آپ چسکے لیتے ہیں۔ میاں محمد عطاء اﷲ! آپ بھی تقریر کرنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب والا! میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتا تھا۔ اپنی تجویز پیش کرکے ختم کرتا ہوں۔
جناب چیئرمین: کہیں، کہیں۔ جو کچھ کہنا ہے۔
جناب ایس محمود عباس بخاری: جناب چیئرمین! میں تجویز پیش کرتاہوں کہ ان تمام دلائل و براہین کے پیش نظر، اگرچہ میں نے یہ باتیں اجمالاً کی ہیں۔ میں یہ تجویز پیش کرتا 2743ہوں کہ اس فرقے کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ ان کا لٹریچر ضبط کیا جائے۔ان کی تبلیغ جو کہ انتشار و ضلالت پھیلا رہی ہے،اس کو بند کیا جائے۔ جو قرآن و سنت کے منافی ہے۔ ہر طرح سے اس فرقے کے گمراہ کن افتراق و انتشار کو روکا جائے اور رسالت مآب ﷺ کی دعائیں لی جائیں۔
بمصطفیٰ برسید خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بااونہ رسیدی تمام بولہبی است
جناب! بہت بولہبی ہو جائے گی۔ اگر ہم نے ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت نہ کی۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: میاں محمد عطاء اﷲ۔
میاں محمد عطاء اﷲ: جناب چیئرمین صاحب۔
Mr. Chairman: Correct, proposals, that will be appreciated.
(جناب چیئرمین: بالکل درست، تجاویز کا خیر مقدم کیاجائے گا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب میاں محمد عطاء اﷲ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

میاں محمد عطاء اﷲ: اس وقت جو مسئلہ اسپیشل کمیٹی کے سامنے زیر بحث ہے۔ وہ تقریباً دو ماہ سے زیر غور ہے۔ مختلف proposals اورتحریکیں بھی پیش کی گئی ہیں کہ ربوہ کا قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ مرزا غلام احمد کو چاہے وہ نبی کی حیثیت سے مانے یا مسیح موعود کی حیثیت سے مانے یا محدث کی حیثیت سے مانے، اس سلسلے میں ان پر تفصیلی جرح بھی ہوئی۔ انہوں نے اسپیشل کمیٹی کے سامنے محضر نامے پڑھ کر سنائے اور ممبران صاحبان نے تقریباً تین چار سو سے زائد سوال ان سے پوچھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں تک ان کے عقائد کا سوال ہے اور جہاں تک ان کے دوسرے مسلمانوں کے متعلق عقیدے کا سوال ہے۔ جہاں تک ان کے سیاسی عزائم کاسوال ہے اور جہاں تک مرزا غلام احمد کے اس دعویٰ کا سوال ہے کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیوں کیا۔ میں سمجھتاہوں 2744کہ تمام ممبر صاحبان کو واضح طور پر اب تک معلوم ہو جانا چاہئے او ر معلوم ہے۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ پاکستان میںبسنے والے تمام لوگ اور تمام مسلمان متفقہ طور پر اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جماعت جو ہم سب کو یقینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے اور جس جماعت کا یہ مؤقف ہے کہ جو شخص مرزا غلام احمدقادیانی پر نبی کی حیثیت سے یا مسیح موعود کی حیثیت سے یا مجدد کی حیثیت سے یا محدث کی حیثیت سے اس پر ایمان نہیں لاتا۔ وہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کا منکر ہے۔ وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ اس جماعت کو کافر قرار دیا جائے۔ ان کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ ایک ابتدائی چیز ہے اور تمام پیچیدگیوں کو چھوڑتے ہوئے آپ کسی پیچیدگی میں نہ جائیں۔ صرف ایک چیز، ایک دلیل ان کو کافر قرار دینے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہمیں کافر سمجھتے ہیں اور وہ ۷۰ کروڑ مسلمانوں کو جو امت رسول اﷲ ﷺ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چاہے وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواہ دیوبندی ہوں، بریلوی ہوں، اہل حدیث ہوں، شیعہ ہوں یا کسی اور فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ متفقہ طور پر ان کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ طے شدہ ہے۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ یہ ممبران کمیٹی بھی جانتے ہیں کہ ایک جماعت انہیں کافر قرار دیتی ہے اور یہ اپنی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ اپنا اپنا فیصلہ کرنے کا علیحدہ طریقہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا موجودہ صورت میں کیا حل ہے اور موجودہ صورت سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اس جماعت کے سیاسی عزائم کا سوال ہے۔ تمام ممبران کو واضح طور پر معلوم ہے کہ یہ جماعت انگریزوں نے بنائی اور اس واسطے بنائی کہ انگریزوں نے یہاں آنے کے بعد یہ دیکھا کہ جب تک مسلمانوں کے اندر سے 2745جذبہ جہاد نہیں نکلتا، انگریز یہاں چین سے حکومت نہیں کر سکتے۔ اس واسطے انہوں نے مسلمانوں کو اس مسئلے سے نکالنے کا ایک طریقہ سوچا کہ ایک جھوٹا نبی بنایا جائے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کو یہ کہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ حکم آیا ہے کہ آپ جہاد بند کر دیں۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا ایک واضح حکم حدیث میں اور قرآن کریم میں واضح طور پر موجود تھا اورنبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ اگر مسلمانوں کی خود مختاری پر کوئی حملہ کرے تو جہاد واجب اور فرض ہے اور چونکہ انگریزوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی خود مختاری پر حملہ کیا تھا اور وہ یہاں پرقابض ہوئے۔ اس واسطے تمام علماء کا، تمام مسلمانان ہند کا یہ متفقہ طور پر یہ فیصلہ تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کیا جائے اورانہیں ہندوستان سے نکالا جائے۔ تو اس مسئلے کو ختم کرنے کے لئے ایک سیاسی طرز کی جماعت بنائی جسے دینی رنگ دیا۔
اس کے بعد پاکستان بننے کاسوال آیا تو وہ عقائد تمام ممبران کے سامنے پیش ہو چکے ہیں کہ ہم اکھنڈبھارت کے حامی ہیں۔ اگر پاکستان بنا بھی تو عارضی ہو گا اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ہم پاکستان کودوبارہ ہندوستان میں ملائیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ جس جماعت کو ہندوستان کی مضبوط Base مل جائے تو اسے دنیا میں قابض ہونے کے لئے کوئی چیز نہیں روک سکتی اور پھر ان کے دوسرے جو عقائد ہیں۔ مجھے اس وقت علم نہیں تھا کہ مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا جائے گا۔ ورنہ میں وہ کتابیں لے کرآتا اور آپ کے سامنے پیش کر دیتا۔
جناب چیئرمین: میں نے آپ کو اس وقت ٹائم دیا ہے جب آپ تجاویز پیش کریں، تقریر نہ کریں۔
میاں محمد عطاء اﷲ: میں تجویزیں پیش کردیتا ہوں۔ ان عقائد سے واضح ہے کہ مرزا محمود احمد نے یہ کہا کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی یا ہمارے پاس حکومت ہوتی تو ہم ہٹلر اور 2746مسولینی سے زیادہ سختی کر کے تمام لوگوں کو اپنے عقائد پر لے آتے۔ یہ واضح طور پر انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور وہ اس پر کاربند ہیں۔ اب آپ یہ سوچ لیں کہ ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں یہ کہا ہے کہ کوئی مسلمان ہو یا کافر ہو، ہندو ہو، سکھ ہو،عیسائی ہو یاکسی مذہب سے بھی تعلق رکھتا ہو، اس پر جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی قرآن و سنت ہمیں جبر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ تبلیغ کی اجازت ہے کہ تبلیغ کرو اور لوگوں کو سمجھاؤ۔ اگر وہ ان عقائد پرآ جائیں تو صحیح ہے۔ مگر اس جماعت کا جس کاایمان اس چیز پر ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو لوگوں کو جبراً اپنے عقائد پر لائیں گے۔ وہ اسمبلی میں آتے ہیں اور اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ ہم سیاسی جماعت نہیں، ہم تو ایک دینی فرقہ ہیں۔ ہمارا تومذہب سے تعلق ہے۔ سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
میں سمجھتاہوں کہ موجودہ صورت میں اس فتنے کو روکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس جماعت کو سیاسی جماعت قرار دیا جائے۔ اس کو بین کیا جائے اور اس کا لٹریچر ضبط کیا جائے۔ کیونکہ ایک سیاسی جماعت جو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے دین کو استعمال کر رہی ہے اور دین میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہے اور مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ ان کو خالی کافر قرار دینے سے کچھ حاصل نہیںہوگا۔ کیونکہ وہ پھر اسی طرح اپنے مقاصد حاصل کرنے کی پوری کوششیں کرتے رہیں گے۔
ایک چیز جو میں سمجھتا ہوں وہ واضح طور پر ہماری اسپیشل کمیٹی کے سامنے آئی ہے کہ اس وقت وہ باہر جاکر بڑا غلط قسم کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں او ر میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین صاحب جن چیزوں کا فیصلہ کریں وہ فوری طور پر فیصلہ کرنے کے بعد پبلش کی جائیں تاکہ انہوں نے یہاں جو جواب دیئے ہیں اور جن چیزوں میں وہ واضح طور پر جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ وہ ساری قوم کے سامنے آئیں اور ساری دنیا کو ان چیزوں کا علم ہو۔ ان کو لوگوںکے سامنے پیش کرنا چاہئے۔
2747آخر میں صرف اتنی عرض کروں گا کہ میری رائے میں ہماری کمیٹی کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو شخص نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی نہ مانے وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس شخص کا نام لے کر کہنا چاہئے کہ جس شخص نے ہندوستان میں ۱۸۹۱ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک نبوت کا دعویٰ کیا۔ وہ کافر ہے اور اس کو کسی لحاظ سے ماننے والے کافر ہیں اور جو جماعت اس نے بنائی ہے۔ اس جماعت کو سیاسی جماعت Declare (قرار دینا) کیا جائے۔ ان کا لٹریچر ضبط کیا جائے۔ انہوں نے جو جائیدادیں یہاں بنائی ہیں۔ اس کو اوقاف کا محکمہ لے اور وہ حکومت کی تحویل میں جانی چاہئیں۔
جناب چیئرمین: چوہدری جہانگیر علی۔
Ch. Jahangir Ali: Mr. Chiarman, Sir, I will like to speak tomorrow.
(چوہدری جہانگیر علی: جناب چیئرمین!جناب عالی! میں آئندہ کل بات کرنا چاہوں گا)
جناب چیئرمین: In the evening یہ تو آپ شب برأت سے زیادہ خدمت کر رہے ہیں۔ اگر دو تین گھنٹے شام کو دے دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا۔ کیونکہ ایک دن ہم شاید Meet (مکمل) نہ کر سکیں۔ 4th (چار تاریخ) کو گیارہ بجے سیلون کی پرائم منسٹر آ رہی ہیں۔ اس لئے شام کو ممبر صاحبان انہیں Receive (استقبال) کرنے کے لئے ایئرپورٹ جائیں گے۔ پھر پانچ تاریخ کو وہ جوائنٹ سیشن میں ایڈریس کر رہی ہیں۔ کل شام کو پریذیڈنٹ صاحب کے لڑکے کا ولیمہ ہے۔ وہاں بھی کافی ممبر صاحبان نے جانا ہے۔ چار کو پھر اسٹیرنگ کمیٹی ہے۔
Attorney- General will address on the 5th morning. Every thing should be completed. That is why I have made a request.
(اٹارنی جنرل پانچ تاریخ کی صبح خطاب کریں گے۔ سب کچھ مکمل ہونا چاہئے۔ اس لئے میں نے درخواست کی ہے)
چوہدری جہانگیر علی: سر!میں بہت مختصر سا وقت لوں گا۔
Mr. Chairman: I request for the evening.
(جناب چیئرمین: میں شام کے لئے گذارش کرتا ہوں)
مجھے دو تین اور صاحبان نے بھی کہا ہے ۔
Mr.Abbas Hussain Gardezi will be addressing in the evening. (جناب عباس حسین گردیزی شام کو خطاب کر رہے ہیں)
2748چوہدری جہانگیر علی: سر!میں کل تقریر کر لوں گا۔
Mr. Chairman: Dr. Muhammad Shafi, Mr. Ali Ahmed Talpur, nothing to add?
(مسٹر چیئرمین: ڈاکٹر محمدشفیع ، جناب علی احمد تالپور،مزید کوئی بات نہیں؟)
آپ نے دستخط کر دیئے ہیں۔ رندھاوا صاحب شام کو،چوہدری برکت اﷲ صاحب! ملک سلیمان صاحب! شام کوٹھیک ہے۔ غلام فاروق،
Nothing. Sardar Aleem is the which, he will speak last of all. (کچھ نہیں، سردار علیم سب سے آخر میں گفتگو کریں گے)
Yes, Begum Nasim jahan.
جی، بیگم نسیم جہاں۔ جناب والا! میرے صبر کی داد دیں۔
Mr. Chairman: Dr. Bokhari wanted to prove that Masih, when he will come, will be a Syed. You should try to prove that he will be a woman.
(مسٹر چیئرمین: ڈاکٹر بخاری نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو وہ سیّد ہوں گے۔ آپ کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)عورت ہوںگے)
Begum Nasim jahan: Yes I know.
 
Top