• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
شراب اورمرزا
معلوم ہوتا ہے کہ مرزا ایک ٹانک استعمال کرتا تھا۔ جس کا نام پلومر کی شراب تھا۔ ایک موقعہ پر اس نے اپنے مریدوں میں سے ایک کو لکھا کہ پلومر کی شراب لاہور سے خرید کے مجھے بھیجو۔ پھر دوسرے خطوط میں یاقوتی کاتذکرہ ہے۔ مرزا محمود نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس کے باپ نے ایک دفعہ پلومر کی شراب دواً استعمال کی۔ چنانچہ میرے نزدیک یہ حصہ بھی قابل اعتراض نہیں۔ چوتھے حصہ میں مرزا غلام احمد کے امتحان میں ناکام ہونے کا تذکرہ ہے۔ چھٹے حصہ میں مرزا پر لابہ گوئی اورکاسہ لیسی کا الزام لگایاگیا ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ چاپلوسی اور لابہ گوئی پیغمبر کی شان کے خلاف ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عدالت کا تبصرہ
میری رائے میں تیسرے اورساتویں حصہ کے سوا اورکوئی حصہ تقریر کا قابل گرفت نہیں۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ مرافعہ گزار کی تمام تقریر میںصرف وہ حصے قابل اعتراض ہیں۔ تقریر کے 2346انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مرافعہ گزار مرزائیوں کے افعال شنیعہ کی دھجیاں بکھیرنا چاہتا تھا۔ وہاں وہ مسلمانوں کے دلوں میںان کے خلاف نفرت بھی پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہ امر کہ سامعین اس کی تقریر سے متاثر ہوکر امن شکنی پرکیوں نہ اتر آئے۔ اس کے جرم کو ہلکا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے۔
مجھے اس میںکلام نہیں کہ اپیلانٹ مرزائیوں پر تنقید کرنے میں حق بجانب تھا۔ لیکن وہ اس حق کو استعمال کرنے میںجائز حدود سے تجاوز کرگیا اورتقریر کے قانونی نتائج بھگتنے کا سزاوار بن گیا۔ مرافعہ گزار کے اس فعل کی مدح وثناء کرنا آسان ہے۔ لیکن ایسے حالات میں جہاں جذبات میں پہلے ہی سے ہیجان و اشتعال ہو۔ اس قسم کی تقریر کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے اور اگرچہ مرافعہ گزار نے صرف ایک اصطلاحی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن قانون کی ہمہ گیری کا احترام از قبیل لوازم ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فیصلہ
مقدمہ کے تمام پہلوؤں پر نظر غائر ڈالنے اورسامعین پرمرافعہ نگار کی تقریر کے اثرات کااندازہ کرنے سے میںاس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ مرافعہ گزار تعزیرات کی دفعہ ۱۵۳ کے ماتحت جرم کا مرتکب ہواہے اور اس کی سزا قائم رہنی چاہئے۔ مگر سزا کی سختی اورنرمی کا اندازہ کرتے وقت ان واقعات کو پیش نظررکھنا بھی ضروری ہے جو قادیان میں رونما ہوئے۔ نیز یہ بات نظرانداز کئے جانے کے قابل نہیں کہ مرزا نے خود مسلمانوں کو کافر سور اوران کی عورتوں کو کتیوں کاخطاب دے کر ان کے جذبات کوبھڑکایا۔میراخیال یہی ہے کہ اپیلانٹ کا جرم محض اصطلاحی تھا۔ چنانچہ میں اس کی سزا کو کم کرکے اسے اختتام عدالت قید محض کی سزا دیتاہوں۔
گورداسپور دستخط
۶؍جون۱۹۳۵ئ جی۔ ڈی۔ کھوسلہ
سیشن جج
2347جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ۔ مولاناعبدالحق صاحب!
مولوی مفتی محمود: جناب والا!ایک بات عرض کرنا ہے کہ یہ بیان قومی اسمبلی کے ۳۷ ارکان کی طرف سے ہے اوراس وقت تک ہمارے پاس ۳۹ اراکین کے دستخط ہیں۔ یہ دستخط ہمارے پاس موجود ہیں اوریہ تمام پارٹیوں سے بالاتر ہوکر کیا ہے۔
جناب چیئرمین: ہم ساری پارٹیوں سے بالاتر ہوکر کریں گے۔
مولوی مفتی محمود: اگر کوئی رکن اس قرارداد پر دستخط کرنا چاہیں،تو کردیں؟
جناب چیئرمین: اگر ان کو دینا چاہیں تو دے دیں۔مولاناعبدالحکیم صاحب! آپ شروع کریں۔
مولانا عبدالحکیم: دستخط ہو جانے دیں۔
جناب چیئرمین: آپ شروع کریں۔
مولانا عبدالحکیم: باتیں ہورہی ہیں۔
جناب چیئرمین: ملک اختر !باتیں نہ کریں۔ مولانا!شروع کریں۔
7th is comming to close.
سات تاریخ بہت قریب آرہی ہے۔
آپ ۲۵۰صفحات کی کتابیں لکھ کر لائے ہیں۔
If you read it,you have to sit.
اگر آ پ یہ پڑھیں گے تو آپ کو بیٹھنا پڑے گا۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب والا!
جناب چیئرمین: مولانا!پہلے وہ ختم کرلیں،پھر اس کے بعد۔
2348مولانا عبدالحکیم:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی قطعی کافر اورغیر مسلم اقلیت ہیں قومی اسمبلی کوفیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے
قادیانیوں کے خلیفہ ناصر احمد صاحب آف ربوہ نے بتاریخ ۲۲؍جولائی ۱۹۷۴ء اپنی پارٹی سمیت پاکستان کی قومی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے (جو تمام ممبران قومی اسمبلی پرمشتمل ہے) زیر جواب، بیان دیا۔ یہ بیان انہوں نے دو دن میں مکمل کیا۔
اس بیان کے چند عنوان ہیں:
پہلا عنوان ایوان کی حالیہ قراردادوں پرایک نظر ہے۔ اس کے ذیل میں خلیفہ قادیانی نے ایک غلطی یہ کی ہے کہ صرف دو قرارداروں کاذکر کیا ہے۔ ممکن ہے ان کو اطلاع ہی ایسی دی گئی ہو۔ مگر رہبر کمیٹی میں میں نے حضرت مولانا عبدالحکیم صاحب ایم۔این ۔اے اورمولانا عبدالحق صاحب ایم۔این۔اے بلوچستانی نے بھی ایک بل۱؎پیش کیا ہے۔ خلیفہ ربوہ نے ایک اصولی سوال اٹھایا ہے کہ آیا کسی اسمبلی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو، یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرد کاکیا مذہب ہے؟
ربوہ جماعت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم ان دونوں باتوں کو نہیں مانتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اقوام متحدہ کے دستور، انجمنوں اوراسی طرح پاکستانی دستور دفعہ نمبر۲۰ کی آڑ لی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2349مرزائیوں کو جواب
۱… یہی پہلا اوربنیادی فرق ہے جو مرزائیوں اورمسلمانوں میں ہے۔مسلمان اپنے فیصلے صرف قرآن وشریعت کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں اور اسی کو قانون زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ مگر مرزائی اقوام متحدہ کو دیکھتے ہیں۔ کبھی عالمی انجمنوں کو اور کبھی انسان کے بنائے ہوئے دستور اور قانون کو، ہم تو تمام امور میں صرف دین اور اس کے فیصلے کو دیکھتے ہیں:
نہ شبم نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم
چوں غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم

میں نہ رات ہوں نہ رات کا پجاری کہ خواب کی باتیں کروں۔ میں جب آفتاب (آفتاب رسالت) کا غلام ہوں تو میری باتوں کا ماخذ وہی آفتاب ہوگا۔
تعجب ہے کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت جھوٹا ہے۔ مگر جھوٹے دعوے کی لاج بھی وہ اور اس کے جانشین نہیں رکھتے۔ پیغمبر تو دنیا بھر کے قوانین کو بدلنے آتے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے پیچھے چلانا چاہتے ہیں۔
’’وماارسلنامن رسول الا لیطاع باذن اﷲ ‘‘
{اور ہم نے جو بھی پیغمبر بھیجے اسی لئے کہ لوگ خدا کے حکم سے اسی کی پیروی کریں۔}
تو ہم کو تو قرآن و حدیث کی رو سے دیکھناہے کہ مرزائی غیر مسلم ہیں یا نہیں اور اس مسئلے میں کسی بھی مسلمان کو شک نہیں ہے۔ صرف قانونی شکل دینے کی بات ہے۔
۲… آپ کی نظر ہمیشہ صحابہؓ سے دور رہی ہے۔ ورنہ آپ دنیا کی اسمبلیوں کو دیکھنے کی بجائے مسلمانوں کی سب سے پہلی اسمبلی انصار و مہاجرین کو دیکھتے۔کیا انصار و مہاجرین کے مشورے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ بل آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلامی روشنی میں نہ ہوتے تھے؟ مگر آپ سے یہ توقع ہی نہیںکہ آپ صحابہ کرامؓ کے راستے پر چلیں۔ ورنہ انصار و مہاجرین کی اسمبلی نے 2350منکرین زکوٰۃ اور منکرین ختم نبوت سے مسلمان کہلانے کا حق چھین کر ان سے جہاد کیاتھا۔
۳… مرزائی خلیفہ نے یہ کہہ کر کہ مسلمان ممبران اسمبلی کو مذہبی فیصلے کرنے کی اہلیت ہے یا نہیں۔ ممبران اسمبلی کی سخت توہین کی ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کروڑوں مسلمانوں کے نمائندے ہیں اور مسلمان بھی وہ جن کا کھلا دعویٰ ہے کہ ہمارا ’’دین اسلام ہے۔‘‘ کیا یہ ممبرصاحبان اتنا بھی نہیں جانتے کہ مسلمان کون ہیں اورغیر مسلم کون؟
مرزائیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کافر وہی ہوتا ہے جو ضروریات دین اور قطعیات دین کا انکار کرے۔ مسلمان کی تعریف کی بحث آگے آتی ہے۔ کیا کوئی ممبر اسمبلی یہ نہیں جانتا کہ پانچ ارکان اسلام فرض ہیں؟ کیا کوئی مسلمان نہیں جانتا کہ توحید ورسالت پر ایمان لانے کے سوا تمام پیغمبروں، آسمانی کتابوں، فرشتوں، قیامت، تقدیر اور دوبارہ زندگی کو دل سے قبول کرنا بھی جزو ایمان ہے؟ کیا کوئی مسلمان اس میںبھی شک کر سکتا ہے کہ حضورسرور کونین ﷺ کے بعد وحی نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے؟ اب نہ براہ راست کسی کو نبی بنایا جا سکتا ہے نہ کسی کی متابعت سے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام کے تقریباً۱۴ سو سال میں جس کسی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیاتو اس کو اہل اسلام نے ہرگز معاف نہیں کیا۔ مرزائی کہتے ہیں کہ مرزا جی، حضور ﷺ میں فنا ہوچکے تھے۔ اس لئے وہ عین محمد بن کر نبی ہوئے’’اناﷲ وانا الیہ راجعون‘‘بہرحال اسلام کے بدیہی مسائل کو اسمبلی کے تمام ممبران سمجھتے ہیں اورتجربہ رکھتے ہیں۔ بلکہ مرزا ناصراحمدصاحب سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں۔
۴… پاکستان اسمبلی نے پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام قرار دیا ہے۔ کیا ناصر احمد صاحب ہم کو امریکہ اورلنڈن کا مقتدی بنانا چاہتے ہیں؟
2351۵… پاکستان اسمبلی نے فیصلہ کردیا ہے کہ پاکستان کا صدر او ر وزیراعظم مسلمان ہوگا اور اس کو ختم نبوت اورقرآن و حدیث کے مقتضیات کو ماننے کا حلف اٹھانا پڑے گا۔(شایدمرزائیوں کو اس سے بھی تکلیف ہوئی ہو)
۶… بھلا جس اسمبلی کو دستور و آئین بنانے کاحق ہے۔ اس کو اس میں ترمیم کا حق کیوں نہ ہو؟ کیا یہ بات دستور میں نہیں ہے؟
۷… تعجب ہے کہ اقل قلیل اقلیت کو اجازت ہو کہ وہ کروڑوں کی اکثریت کو کافر کہے اور اکثریت کو قطعاً حق نہ ہو کہ وہ ان مٹھی بھر تازہ پیداوار اورمخصوص اغراض کے لئے کھڑے ہونے والوں کو غیر مسلم کہے۔ ہم کو حق ہے کہ اسمبلی کے اندر اپنے حق کا مطالبہ کریں یا اسمبلی سے باہر۔ پاکستانی حکومت اسمبلی کا نام ہے اور اسمبلی عوام کی نمائندہ ہے۔ ان کا فرض ہے کہ ملک کے نفع و نقصان پر سوچیں۔
۸… ہم نے کب کہا کہ آپ کو کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے کا حق نہیں۔ آپ بیشک اپنے کونصرانی، عیسائی، قادیانی، احمدی، مرزائی وغیرہ مذاہب کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ مگر جب آپ کو یہ حق ہے تو ۹۹ فیصد اکثریت کوکیوں یہ حق نہیں کہ وہ اس پاک مذہب کی طرف منسوب ہو جس میں سرورکائنات ﷺ کے بعد کسی کو نبی بنانا کفر ہو اور ایسا سمجھنے والے کو اپنے سے خارج سمجھیں۔ جس کامطلب یہ ہے کہ اقل قلیل جو چاہے کہے او ر کرے، اور غالب اکثریت صم بکم بنی رہے۔ اس کو بات کرنے کی اجازت نہ ہو۔
۹… آپ جس مذہب کی طرف چاہیں منسوب ہوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ستر کروڑ مسلمانوں کو کافر بھی کہیں۔ پھر انہی مسلمانوں کے نام سے عہدوں، منصبوں اور مختلف ملازمتوں پرقبضہ بھی کریں۔ آپ جب کروڑوں مسلمانوں کو مرزا قادیانی کو نہ ماننے کی وجہ سے مسلمان نہیں سمجھتے اور اسی طرح آپ کے غیر اسلامی عقیدوں 2352کی وجہ سے مسلما ن بھی آپ کو مسلمان نہ سمجھیں تو اب رونے کی کیا ضرورت ہے؟ ا ب تو آپ کی بات پوری ہو رہی ہے نہ تم ہم میںسے اور نہ ہم تم میں سے۔
۱۰… آپ نے اسمبلی کے اختیارات پر بڑی تنقید کی ہے۔ مگر آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ اسمبلی قوم کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس کو قوم کی نمائندگی کرنی ہے۔جب قوم کا ایک متفقہ مطالبہ ہے تو وہ خود اسمبلی کا مطالبہ ہو جاتا ہے اور اس کے فرائض میں داخل ہو جاتا ہے۔
۱۱… آپ کو یہ خیال تو چٹکیاں لے رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی منشور پر اسمبلی میں آئی ہیں۔ مگر آپ پاکستان کی بنیاد بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کا معنی کیاہے۔ کیا پاکستان مسلم قومیت کے نام سے نہیں بنا۔ کیا مسلم قومیت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہے اورکیا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور علامہ اقبالؒ کا نزاع لفظی ہوکر ختم نہیں ہو گیا تھا؟ اورکوئی مسلمان اس سے انکار کر سکتا ہے کہ دین اسلام، اعتقادات، معاملات، عبادات اور سیاسیات سب پرحاوی ہے؟ اور اب توحکومت ہی عوامی ہے اور عوامی خیالات اور معتقدات کی ترجمان۔ پھر اس کو کیوں عوامی مطالبات پر خاص کر جو مذہبی ہوں، غور کرنے کا حق نہیں ہے۔ جبکہ سرکاری مذہب ہی اسلام ہے۔
۱۳… مرزائی جماعت کا مسئلہ فسادات کی وجہ سے زیر بحث نہیں۔بلکہ یہ چالیس سال سے زیادہ سے مسلمانوں کا متفقہ مسئلہ چلا آرہا ہے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت سب کو معلوم ہے۔ہاں فسادات اور فسادی مرزائیوں کی خرمستی نے اس کو قوت دے دی۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ مرزائیوں نے یہ فساد اور مسلمانوںکے پرامن جلوسوں پر گولیاں ہی دشمنان ملک کے ایماء پرچلائی ہوں۔ تاکہ پاکستان دو طرفہ مشکلات میں بھی گھرا ہو، اور اندر فسادات ہوں اوردشمن اپنا الو سیدھا کرسکے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2353مرزا ناصر احمد صاحب کا اقرار
دوران جرح میں جب مرزا ناصر احمد صاحب نے یہ کہا کہ جو شخص اپنے کو مسلمان کہتا ہے۔ کسی دوسرے شخص یا اسمبلی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس کو غیر مسلم قرار دے۔ جب اسی سلسلہ میں محترم اٹارنی جنرل نے ان پر سوال کیا کہ ایک شخص ہیپی اورعیسائی ہے۔ لیکن وہ غلط طور پر مفاد کی خاطر اپنے کو مسلمان کہتا ہے اور اس کی یہ فریب دہی اور بے ایمانی دیکھ کر اس کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا جاتا ہے۔ تو کیا عدالت کو یہ حق نہیں کہ قطعی ثبوت ملنے کے بعد اس کے فریب کا پردہ چاک کرکے اس کو غیر مسلم، ہیپی یا عیسائی قرار دے دیں۔
مرزا ناصر احمد نے بڑی ٹال مٹول کے بعد عدالت کے اس حق کو تسلیم کیا۔ گویا اس طرح مرزا ناصر احمد نے اقرار کرلیا کہ کسی بااختیار ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ نبوت کے بعد وہ کسی شخص کے دعوے کو غلط قرار دے دے۔
اب اس اقرار کے بعد قومی اسمبلی کو جس کاکام قانون سازی ہے، یہ حق کیوں حاصل نہیں کہ وہ مرزائیوں کے غلط دعویٔ اسلام کا بھانڈا پھوڑ کر عوام کو ان کے فریب سے بچائے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فرضی باتیں
آپ (مرزا ناصراحمد)نے صفحہ چار پر’’انسان کے بنیادی حق اور دستور‘‘ کے عنوان سے فرضی باتیں لکھ کر اپنا دل خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر آپ یقین کریں کہ دنیا کی کسی حکومت نے اب تک اس قسم کے سوالات نہ اٹھائے، نہ امکان ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو بھارت کا خطرہ ہے۔ مگر وہاں بھی مسلمان ان کے مقابلہ میں ایک ہیں اور ایک ہی بات کہتے ہیں۔
کہتے ہیں چوہے کی نظر ایک بالشت تک ہوتی ہے۔ اس سے آگے نہیں دیکھ سکتا۔ مرزائیوں کو معلوم نہیں کہ خانہ کعبہ میں اہل اسلام کس طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ پھر بھارت میں کس طرح تمام مسلم جماعتیں اکٹھی ہوکر بھارتی گورنمنٹ کے سامنے اپنی بات رکھتی ہیں؟ پھر لاہور 2354میںماضی قریب میں کس طرح دنیا بھر کے سربراہان اسلام نے جمع ہو کر مرزائیوں اور دیگر دشمنان اسلام کے سینے پر مونگ دلے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مسلمانوں کو ڈراوا
مرزا ناصر احمد صاحب نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بہت سے نقصانات صفحہ ۴ پر گنوائے ہیں اور یہ صرف رونے کے مترادف ہے، ورنہ ہمیں قرآن و حدیث اسلام و شریعت کو دیکھنا ہے۔ نہ یہ کہ دوسرے کیا کرتے ہیں اور اگر خود مسلمانوں کی مذہبی صلابت اور مضبوطی دوسرے دیکھیں تو ان کو بھی ہمارا لوہاماننا پڑے۔ جیسے کہ خیر القرون میں تھا۔
مرزا ناصر احمدصاحب نے عیسائی حکومتوں کی عددی اکثریت کا ذکر کرکے وہاں مسلمانوں کو شہری حقوق سے محروم کرنے کا ڈراوابھی سنایا ہے۔دراصل تحریک (رد) مرزائیت اور قوم کی مشترکہ آواز کے مقابلے میں اب ان کو سوچنے او ر سمجھنے کا ہوش بھی نہیںرہا۔مرزا جی یہ کس نے کہا کہ ہم مرزائیوں کو ہندوؤں،سکھوں او ر عیسائیوں کی طرح غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کے شہری حقوق بھی غصب کر لیں گے۔ کیا اسلام نے کافر رعایا کی جان و مال اورعزت وآبرو بلکہ ان کے معاہد کی آزادی کی ضمانت نہیں دی۔ نہ ہم یہ معاملہ عیسائیوں سے کر رہے ہیں اورنہ مرزائیوں سے کریں گے۔ ہمارے ہاں پرانے مسیحی اورنئے مسیحی دونوں کے جان و مال کی حفاظت حکومت کے ذمے ہے۔ بشرطیکہ وہ ذمی بنے رہیں۔ اگر بغاوت کریں گے تو پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک خطرناک دھوکہ
ایک خطرناک دھوکہ (ص۶)پریہ دیاگیا ہے کہ ’’اگریہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو دنیا کے تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں کے متعلق ان کے عہد کی اکثریت کے فیصلے قبول کرنے پڑیں گے۔‘‘ یہ کھلا دھوکہ ہے۔ مرزا ناصر احمدکو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام جامع مذہب ہے۔ اس میں مغلوب یا اقلیت میں ہونے کے وقت کے لئے بھی رہنمائی موجود ہے اور غلبہ اکثریت 2355میں ہونے کے وقت کے لئے بھی احکام موجود ہیں۔ لیکن پیغمبروں کا ذکر اپنی روایتی گستاخی کی طرح خواہ مخواہ درمیان میں لاکر اپنا شوق پورا کیا ہے۔ اب اوپر کی عبارت دوبارہ پڑھیں کہ:
’’آیا ان کے زمانے کی اکثریت یعنی غیر مسلم اکثریت کے فیصلے انبیاء علیہم السلام نے مانے۔‘‘ اگر مرزا ناصر احمد صاحب یہ لکھ دیتے تو اپنے اوپر فتویٰ کفر کی ایک دفعہ کااضافہ کرا دیتے۔ مگر انہوں نے بڑی ہوشیاری سے لکھا کہ اکثریت کے فیصلے قبول کرنے پڑیں گے۔مرزا صاحب! یہ فیصلے آپ قبول کریں ورنہ دنیا کا کوئی مسلمان،کافر اکثریت کے فیصلے پیغمبروں کے خلاف قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اورآپ کومعلوم ہوناچاہئے کہ دارالندوہ(مکہ معظمہ میں قریش کی اسمبلی) نے حضور ﷺ کے خلاف فیصلے کئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کی کافر حکومتوں نے جو اس وقت کے رواج کے مطابق عوام کی نمائندہ تھیں۔ پیغمبروں کے خلاف فیصلے کئے۔ جن کو انہوں نے تسلیم نہیں کیا اورآج ہم اکثریت میں ہوکر اقلیت کے غیر شرعی مسائل کو نہ ٹھکرائیں؟ نہ غیر مسلم حکومتوں کے فیصلے بغیر قوت حاصل کرنے کے روکے جا سکتے ہیں۔ نہ اسلام ہم کو اس کے لئے مجبور کرتاہے اور نہ ہم دوسروں کے کاموں کے خدا تعالیٰ کے ہاں ذمہ دار ہیں۔ ہم کو اپنے ہاں اور اپنے حدود اختیار و اقتدار میں شریعت کی روشنی میں فیصلے کرنے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
لااکراہ فی الدین کے قرآنی ارشاد سے دھوکہ
مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے سارے بیان میں یہی ایک بات صحیح کی کہ کسی کا مذہب جبراً تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آیت کا مفہوم بھی یہی ہے۔ مگر اپنے روایتی فریب کو یہاں بھی کام میں لائے کہ زبردستی کسی مسلمان کو غیر مسلم قرار دینا بھی جبکہ وہ اسلام پرشرح صدر رکھتا ہو۔ اس آیت کی نافرمانی میں داخل ہے۔ یہاں آیت کریمہ بھی قطعی ہے اور اس کا مطلب بھی واضح ہے۔ بھلا جس شخص نے دل سے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ اس کو مسلمان بناکر کیا کریں گے اور وہ مسلمان کیسے ہوگا؟ یہ درست ہے۔ مگر ہم نے کب کہا کہ مرزائیوں کو جبراً مسلمان کرو۔ آپ اپنی مرزائیت پر رہ کر 2356اپنا شوق پورا کرتے رہیں۔ ہم آپ کو قطعاً تبدیل مذہب کے لئے مجبور نہ کریں گے۔
لیکن آپ کو مسلمان نہ سمجھنا یہ ہمارا اعتقاد اورمذہب ہے۔ کیا آپ اکثریت کو اس کے اپنے اعتقاد پر رہنے اورقانونی طور پر اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے؟ یہ سوچنا قومی اسمبلی کا کام ہے۔ جس کے سامنے سب سے پہلا اور بڑا کام قانون شریعت ہے کہ آیا آپ جیسی اقلیت کو مسلمان کے نام سے اکثریت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے یا آپ کو اسلام کی روشنی میں آپ کے ہی اقوال اوراعتقادات کے پیش نظر غیر مسلم اقلیت قراردے کر ۹۹ فیصد کے حقوق غصب کرنے سے روک دے اور اس دھوکہ سے کہ نکاح،جنازہ وغیرہ کے احکام میں کھلم کھلا اسلامی اصول کی خلاف ورزی ہو۔ قوم کو نکال دے۔ اگر آپ اپنے کافرانہ مذہب پر قائم رہیں ہم آپ پرجبر نہ کریں گے۔ مگر ہمیں اپنے اصول کے تحت نبوت کے مدعیوں اور ان کے پیروکاروں اور اس کو مجدد ماننے والوں کو غیر مسلم تصور کرنے دیں۔ کیا دنیا بھر کے مسلمان، مرزائیوں کو اسلام سے خارج نہیں کہتے؟
اورکیا آپ کے مرزا جی کو تکفیر عمومی کا یہ شوق نہیں چرایا، پھر بات تو ختم ہے۔ اب صرف بات اس قدر ہے آپ چاہتے ہیں کہ اسی طرح دو قومیں ہوتے ہوئے ہم مسلمان کے نام سے ان کے حقوق پر ڈاکے ڈالتے رہیں اور ملک میں نفاق اورفساد جاری رہے۔ پھر کیوں نہ اس کو قانونی جامہ پہنا کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے؟ پھر آپ اپنے لئے آزادی چاہتے ہیں اور ہمارے لئے پابندی۔ ہم سرور کائنات ﷺ کی معراج جسمانی، حیات عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت کے منکر کو مسلمان کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیا آپ ہم کو اپنا عقیدہ بدلنے کے لئے مجبور کرکے قرآن پاک کی مذکورہ آیت کے خلاف نہیں کررہے؟
 
Top