ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یہ ہے خود مرزائی صاحبان کے الفاظ میں اس ظلی اور بروزی نبوت کی پوری حقیقت، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت میں رخنہ انداز نہیں ہے۔ جس شخص کو بھی عقل وفہم اور دیانت وانصاف کا کوئی ادنیٰ حصہ ملا ہے۔ وہ مذکورہ بالا تحریریں پڑھنے کے بعد اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کے عقیدے سے زیادہ کوئی عقیدہ بھی ختم نبوت کے منافی اور اس سے متضاد نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کے بعد 1903کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور ظلی بروزی نبوت کا عقیدہ یہ کہتا ہے کہ نہ صرف آپﷺ کے بعد نبی آسکتا ہے بلکہ ایسا نبی آسکتا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء سے افضل اور اعلیٰ نبوت کا حامل ہو جو افضل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ’’تمام کمالات‘‘اپنے اندر رکھتا ہو اور جو تمام انبیاء کے مراتب کمال کو پیچھے چھوڑتا ہوا سرکار دوعالمﷺ کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو سکے۔
بلکہ اس عقیدے میں اس بات کی بھی پوری گنجائش موجود ہے کہ کوئی شخص مرزاصاحب کو معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ سرکار دوعالمﷺ سے بھی افضل قرار دیدے۔ کیونکہ جب مرزاصاحب آپﷺ ہی کا ظہور ثانی قرار پائے تو آپﷺ کا ظہور ثانی پہلے ظہور سے اعلیٰ بھی ہوسکتا ہے اور یہ محض ایک قیاس ہی نہیں ہے۔ بلکہ مرزائی رسالے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے سابق ایڈیٹر قاضی ظہور الدین اکمل کی ایک نظم ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء کے اخبار بدر میں شائع ہوئی تھی۔ جس کے دو شعر یہ ہیں:
امام اپنا عزیزو اس جہاں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکبر
مکان اس کا ہے گویا لامکاں میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ج۲ نمبر۴۳ ص۱۴)
یہ محض ’’مریداں می پرانند‘‘ والی شاعری نہیں ہے۔ بلکہ یہ اشعار شاعر نے خود مرزاغلام احمد صاحب کو سنائے اور انہیں لکھ کر پیش کئے اور مرزاصاحب نے ان پر جزاک اﷲ کہہ کر داد دی ہے۔ چنانچہ قاضی اکمل صاحب ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء کے ’’الفضل‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وہ اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں پڑھی گئی اور خوش خط لکھے ہوئے قطعے کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ 1904اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب (امیر جماعت لاہور) اور اعوانہم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جاسکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم ’’بدر‘‘ میں چھپی اور شائع ہوئی۔ اس وقت ’’بدر‘‘ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ’’الفضل‘‘ کی ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلّفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ناراضی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاک اﷲ تعالیٰ کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔‘‘ (الفضل ج۳۲ نمبر۱۹۶، مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء ص۶ کالم۱)
آگے لکھتے ہیں: ’’یہ شعر خطبہ الہامیہ کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کہاگیا اور ان کو سنا بھی دیا گیا اور چھاپا بھی گیا۔‘‘ (ایضاً ص۶ کالم۲،۳)
اس سے واضح ہے کہ یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی نہ تھی۔ بلکہ ایک مذہبی عقیدہ تھا اور ظلی بروزی نبوت کے اعتقاد کا وہ لازمی نتیجہ تھا جو مرزاصاحب کے خطبہ الہامیہ سے ماخوذ تھا اور مرزاصاحب نے بذات خود اس کی نہ صرف تصدیق بلکہ تحسین کی تھی۔ خطبہ الہامیہ کی جس عبارت سے شاعر نے یہ شعر اخذ کئے ہیں وہ یہ ہے، مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی۔ پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں، یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقوی اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے اور اس لئے ہم تلوار اور لڑنے والے گروہ کے محتاج نہیں اور اس لئے خداتعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لئے صدیوں 1905کے شمار کو رسول کریمﷺ کی ہجرت کے بدر کی راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرمایا تاکہ وہ شمار اس مرتبہ پر جو ترقیات کے تمام مرتبوں سے کمال تمام رکھتا ہے۔ دلالت کرے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۸۱، ۱۸۲، خزائن ج۱۶ ص۲۷۱تا۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ مرزاصاحب کا بروزی طور پر آنحضرتﷺ سے بڑھ جانا خود مرزاصاحب کا عقیدہ تھا جسے انہوں نے خطبہ الہامیہ کی مذکورہ بالا عبارت میں بیان کیا اسی کی تشریح کرتے ہوئے قاضی اکمل نے وہ اشعار کہے اور مرزاصاحب نے ان کی تصدیق وتحسین کی۔
پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ مرزائی صاحبان کا عقیدہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہے کہ صرف مرزاصاحب ہی نہیں، بلکہ ہر شخص اپنے روحانی مراتب میں ترقی کرتا ہوا (معاذ اﷲ) آنحضرتﷺ سے بڑھ سکتا ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے خلیفہ دوم مرزابشیرالدین محمود کہتے ہیں:
’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمدﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۱۰ نمبر۵، مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء ص۹، عنوان ’’خلیفہ المسیح کی ڈائری‘‘)
یہیں سے یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ مرزائی صاحبان کی طرف سے بعض اوقات مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے جو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین مانتے ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے؟ خود مرزاصاحب اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اﷲ جل شانہ نے آنحضرتﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افافہ کمال کے لئے مہردی، جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپﷺ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرا۔ یعنی آپﷺ 1906کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
ظل وبروز کے مذکورہ بالا اعتقادات کے ساتھ مرزاصاحب کے نزدیک خاتم النّبیین کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کے پاس افاضہ کمال کی ایسی مہر تھی جو بالکل اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی افضل واعلیٰ نبی تراشتی تھی۱؎۔ قرآن وحدیث، لغت عرب اور عقل انسانی کے ساتھ اس کھلے مذاق کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ اﷲتعالیٰ کے ’’معبود واحد‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات عالم میں وہ تنہا ذات ہے، جس کی قوت قدسیہ خداتراش ہے اور اپنے جیسے خدا پیدا کر سکتی ہے۔ اگر قرآن کریم کی آیات اور امت کے بنیادی عقائد کے ساتھ ایسی گستاخانہ دل لگی کرنے کے بعد بھی کوئی شخص دائرہ اسلام میں رہ سکتا ہے تو پھر روئے زمین کا کوئی انسان کافر نہیں ہوسکتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حاشیہ اگلی پوسٹ میں دیکھیں
مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت پچھلے صفحات میں روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے اور 1907قرآن، حدیث، اجماع اور تاریخ اسلام کی روشنی میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ جو شخص آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے۔ وہ اور اس کے متبعین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ اور بات ہے کہ خود مرزاقادیانی کے اعتراف کے مطابق اس عظیم الشان مہر سے صرف ایک ہی نبی تراشا گیا اور وہ مرزاقادیانی تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ: ’’اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال واقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیاگیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) یہ لکھتے وقت مرزاصاحب کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ خاتم النّبیین جمع کا صیغہ ہے۔ لہٰذا اس مہر سے کم از کم تین نبی تو تراشے جانے چاہئے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ صرف اسلام ہی کا نہیں، عقل عام کا بھی فیصلہ ہے۔ مذاہب عالم کی تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا ہر شخص اس بات کو تسلیم کرے گا کہ جب کبھی کوئی شخض نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو، حق وباطل کی بحث سے قطع نظر، جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں وہ فوراً دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہوتا ہے جو اس شخص کی تصدیق کرتا اور اسے سچا مانتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہوتا ہے جو اس کی تصدیق اور پیروی نہیں کرتا۔ ان دونوں گروہوں کو دنیا میں کبھی بھی ہم مذہب قرار نہیں دیاگیا۔ بلکہ ہمیشہ دونوں کو الگ الگ مذہبوں کا پیرو سمجھا گیا ہے۔ خود مرزاغلام احمد قادیانی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’ہر نبی اور مامور کے وقت دو فرقے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کا نام سعید رکھا ہے اور دوسرا وہ جو شقی کہلاتا ہے۱؎۔‘‘ (الحکم جلد۱، مورخہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۰۰ء منقول از ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۱۴۳ مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر قادیان ۱۹۲۵ئ)
مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت پوری طرح واشگاف ہو جاتی ہے کہ دعوائے نبوت کے بانٹے ہوئے یہ دو فریق کبھی ہم مذہب نہیں کہلائے، بلکہ ہمیشہ حریف مذہبوں کی طرح رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے پہلے سارے بنی اسرائیل ہم مذہب تھے۔ لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو فوراً دو بڑے بڑے حریف مذہب پیدا ہوگئے۔ ایک مذہب آپ کے ماننے والوں کا تھا جو بعد میں عیسائیت یا مسیحیت کہلایا اور دوسرا مذہب آپ کی تکذیب کرنے والوں کا تھا جو یہودی مذہب کہلایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے متبعین اگرچہ پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن یہودیوں نے کبھی ان 1908کو اپنا ہم مذہب نہیں سمجھا اور نہ عیسائیوں نے کبھی اس بات پر اصرار کیا کہ انہیں یہودیوں میں شامل سمجھا جائے۔ اس طرح جب سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ تشریف لائے تو آپﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کی اور تورات، زبور اور انجیل تینوں پر ایمان لائے۔ اس کے باوجود نہ عیسائیوں نے آپﷺ اور آپﷺ کے متبعین کو اپنا ہم مذہب سمجھا، اور نہ مسلمانوں نے کبھی یہ کوشش کی کہ انہیں عیسائی کہا اور سمجھا جائے، پھر آپ کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے متبعین مسلمانوں کے حریف کی حیثیت سے مقابلے پر آئے اور مسلمانوں نے بھی انہیں امت اسلامیہ سے الگ ایک مستقل مذہب کا حامل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ جس میں انسانوں کی دو قسمیں قراردی ہیں۔ ایک شقی یعنی کافر اور دوسری سعید یعنی مسلمان پھر پہلی قسم کو جہنمی اور دوسری کو جنتی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے فمنہم شقی وسعید۰ (ہود:۱۰۵)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کیا۔ حالانکہ مسیلمہ کذاب آنحضرتﷺ کی نبوت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اس کے یہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں اشہد ان محمدا رسول اﷲ کا کلمہ شامل تھا۔ تاریخ طبری میں ہے کہ: وکان یوذن للنبیﷺ ویشہد فی الاذان ان محمداً رسول اﷲ وکان الذی یؤذن لہ عبداﷲ بن النواحۃ وکان الذی یقیم لہ حجیر بن عمیر۰ (تاریخ طبری ج۲ ص۲۷۶ سن۱۱ھجری)
’’مسیلمہ، نبی کریمﷺ کے نام پر اذان دیتا تھا اور اذان میں اس بات کی شہادت دیتا تھا کہ حضرت محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور اس کا مؤذن عبداﷲ بن نواحہ تھا اور اقامت کہنے والا حجیر بن عمیر تھا۔‘‘
مذاہب عالم کی یہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی مدعی نبوت کو ماننے والے اور اس کی تکذیب کرنے والے کبھی ایک مذہب کے سائے میں جمع نہیں ہوئے۔ لہٰذا مرزاغلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کا یہ سوفیصد منطقی نتیجہ ہے کہ جو فریق ان کو سچا اور مامور من اﷲ سمجھتا ہے وہ ان لوگوں کے مذہب میں شامل نہیں رہ سکتا جو ان کے دعوؤں کی تکذیب کرتا ہے۔ ان دونوں 1909فریقوں کو ایک دین کے پرچم تلے جمع کرنا صرف قرآن وسنت اور اجماع امت ہی سے نہیں بلکہ مذہب کی پوری تاریخ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
مرزائی صاحبان کی جماعت لاہور کے امیر محمد علی لاہوری صاحب نے ۱۹۰۶ء کے ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"The Ahmadiyya movement stands in the same relation to Islam in which Christianity stood to Judaism." (منقول از مباحثہ راولپنڈی۱؎ ص۲۴۰، مطبوعہ دارالفضل قادیان وتبدیلی عقائد مؤلفہ محمد اسماعیل قادیانی ص۱۰۲، مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر کراچی)
یعنی ’’احمدیت کی تحریک اسلام کے ساتھ وہی نسبت رکھتی ہے جو عیسائیت کو یہودیت کے ساتھ تھی۔‘‘ کیا عیسائیت اور یہودیت کو کوئی انسان ایک مذہب قرار دے سکتا ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ مرزائی صاحبان کی دونوں جماعتوںکا باہمی تحریری مباحثہ ہے جو دونوں کے مشترک خرچ پر شائع کیاگیا تھا۔ لہٰذا اس میں جو عبارتیں منقول ہیں وہ دونوں جماعتوں کے نزدیک مستند ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزائی صاحبان کو اپنی یہ پوزیشن خود تسلیم ہے کہ ان کا اور سترکروڑ مسلمانوں کا مذہب ایک نہیں ہے۔ وہ اپنی بے شمار تقریروں اور تحریروں میں اپنے اس عقیدے کا برملا اعلان کر چکے ہیں کہ جن مسلمانوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کے دعوؤں میں ان کی تکذیب کی ہے۔ وہ سب دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی مذہبی کتابوں کی تصریحات درج ذیل ہیں: (مزیدیہاں سے پڑھیں)
مرزاغلام احمد قادیانی صاحب اپنے خطبہ الہامیہ میں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے کا پورا بذریعہ الہام نازل ہوا تھا۔ کہتے ہیں: 1910 ’’واتخذت روحانیۃ نبینا خیر الرسل مظہراً من امتہ لتبلغ کمال ظہورہا وغلبۃ نورہا کما کان وعداﷲ فی الکتاب المبین فانا ذلک المظہر الموعود والنور المعہود فامن ولا تکن من الکافرین وان شئت فاقرأ قولہ تعالیٰ ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۸، خزائن ج۱۶ ص۲۶۷)
اور خیرالرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خداتعالیٰ نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس میں وہی مظہر ہوں۔ پس ایمان لا اور کافروں سے مت ہو اور اگر چاہتا ہے تو اس خداتعالیٰ کے قول کو پڑھ
ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ۰ الخ!
اور حقیقت الوحی میں مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’کافر کا لفظ مومن کے مقابلے پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل)ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکارکرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔ کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا۔ وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹،۱۸۰، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵،۱۸۶)
1911اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے۔کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیش گوئی موجود ہے۔‘‘
مزیدلکھتے ہیں:
’’خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خداتعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مؤمن کیونکر ہوسکتا ہے اور اگر وہ مؤمن ہے تو میں بوجہ افتراء کرنے کے کافر ٹھہرا۔‘‘ (حوالہ بالا ص۱۶۳،۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷،۱۶۸)
ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے نام اپنے خط میں مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۰۷، طبع سوم)
نیز ’’معیار الاخیار‘‘ میں مرزاصاحب اپنا ایک الہام اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور صرف تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘ (اشتہار معیار الاخیار ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
1912نزول المسیح میں لکھتے ہیں: ’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔‘‘ (نزول المسیح حاشیہ ص۴، خزائن ج۱۸ ص۳۸۲)
اور اپنی کتاب الہدیٰ میں اپنے انکار کو سرکار دوعالمﷺ کے انکار کے مساوی قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس وجن میں ان سا کوئی بھی بدطالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا، دوسرا جو خاتم الخلفائ۔ (یعنی بزعم خود مرزاصاحب) پر ایمان نہ لایا۔‘‘ (الہدیٰ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۵۰)
اور انجام آتھم میں لکھتے ہیں:
’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کاامین اور خدا کی طرف سے آیا ہے، جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
نیز اخبار بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء میں لکھا ہے کہ:
’’بحضرت مسیح موعود سے ایک شخص نے سوال کیاکہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
اس کا طویل جواب دیتے ہوئے آخر میں مرزاصاحب فرماتے ہیں:
’’اور ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا۔ بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جائے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں، ورنہ اﷲ1913تعالیٰ فرماتا ہے ان المنافقین فی الدرک الا سفل من النار یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ئ، منقول از مجموعہ فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۰۷)
مرزائی صاحبان کے پہلے خلیفہ جن کی خلافت پر دونوں مرزائی گروپ متفق تھے، فرماتے ہیں: ’’ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مؤمن مسلمان نہیں ہوسکتا اور اس ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں، عام ہے، خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے، ہندوستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں کسی مامور من اﷲ کا انکار کفر ہو جاتا ہے۔ ہمارے مخالف حضرت مرزاصاحب کی ماموریت کے منکر ہیں۔ بتاؤ کہ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۲۷۵، بحوالہ اخبار الحکم ج۱۵ ص۸، مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۱۱ئ)
نیز ایک اور موقعہ پر کہتے ہیں: ’’محمد رسول اﷲﷺ کے منکر یہود نصاریٰ، اﷲ کو مانتے ہیں، اﷲتعالیٰ کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں کو مانتے ہیں کیا اس انکار پر کافر ہیں یا نہیں؟ کافر ہیں، اگر اسرائیلی مسیح رسول کا منکر کافر ہے تو محمدی مسیح رسول کا منکر کیوں کافر نہیں؟ اگر اسرائیلی مسیح موسیٰ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع ایسا ہے کہ اس کا منکر کافر ہے تو محمدﷺ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع کیوں ایسا نہیں کہ اس کا منکر بھی کافر ہو۔ اگر وہ مسیح ایسا تھا کہ اس کا منکر کافر ہے تو یہ مسیح بھی کسی طرح کم نہیں۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۸۵، بحوالہ الحکم نمبر۱۹ ج۱۸، ۲۸؍مئی ۱۹۱۴ئ)
اور مرزائی صاحبان کے خلیفہ دوم مرزابشیرالدین محمود صاحب کہتے ہیں:
’’جو شخص غیراحمدی کو رشتہ دیتا ہے وہ یقینا حضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ کیا کوئی غیراحمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی 1914لڑکی دے دے، ان لوگوں کو تم کافر کہتے ہو۔ مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہوکر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے۔ مگر تم احمدی کہلا کر کافر کو دیتے ہو؟ کیا اس لئے دیتے ہو کہ وہ تمہاری قوم کا ہوتا ہے؟ مگر جس دن سے کہ تم احمدی ہوئے تمہاری قوم تو احمدیت ہو گئی۔ شناخت اور امتیاز کے لئے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتاسکتے ہو۔ ورنہ اب تو تمہاری قوم، گوت، تمہاری ذات احمدی ہی ہے۔ پھر احمدیوں کو چھوڑ کر غیراحمدیوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو۔ مؤمن کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جب حق آجائے تو باطل کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (ملائکتہ اﷲ از مرزابشیرالدین محمود ص۴۶،۴۷)
نیز انوار خلافت میں فرماتے ہیں:
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں، یہ دین کامعاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰، مطبوعہ امرتسر ۱۹۱۶ئ)
اور آئینہ صداقت میں تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کا نام تک نہیں سنا وہ بھی کافر ہیں، فرماتے ہیں:
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہ سنا ہو، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
اور مرزاغلام احمد قادیانی صاحب کے منجھلے بیٹے مرزابشیراحمد، ایم۔اے لکھتے ہیں: 1915
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمدﷺ کو نہیں مانتا اور یا محمدﷺ کو مانتا ہے، پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر، بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۰، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ج۱۴نمبر۳،۴، مارچ واپریل ۱۹۱۵ئ)
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مسیح موعود کا یہ دعویٰ کہ وہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے ایک مامور ہے اور یہ کہ اﷲتعالیٰ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے۔ دو حالتوں سے خالی نہیں یا تو وہ نعوذ باﷲ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور محض افتراء علیٰ اﷲ کے طور پر دعویٰ کرتا ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف وہ کافر بلکہ بڑا کافر ہے اور یا مسیح موعود اپنے دعویٰ الہام میں سچا ہے اور خدا سچ مچ اس سے ہم کلام ہوتا تھا تو اس صورت میں بلاشبہ یہ کفر انکار کرنے والے پر پڑے گا۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمایا ہے۔ پس اب تم کو اختیار ہے کہ یا مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان کہہ کر مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگاؤ اور یا مسیح موعود کو سچا مان کر اس کے منکروں کو کافر جانو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تم دونوں کو مسلمان سمجھو۔ کیونکہ آیت کریمہ صاف بتارہی ہے کہ اگر مدعی کافر نہیں ہے تو مکذب ضرور کافر ہے۔ پس خدارا اپنا نفاق چھوڑو اور دل میں کوئی فیصلہ کرو۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۲۳، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ج۱۴، ماہ مارچ، اپریل ۱۹۱۵ئ)
----------
At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)
(اس موقعہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود:
محمد علی لاہوری صاحب (امیر جماعت لاہور) انگریزی ریویو آف ریلیجنز میں لکھتے ہیں:
1916"The Ahmadiyya movement stands in the same relation to Islam in which Christianity stood to Judism.
یعنی احمدی تحریک اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا۔ (منقول از مباحثہ راولپنڈی مطبوعہ قادیان ص۲۴۰، تبدیلی عقائد مؤلفہ محمد اسماعیل قادیانی ص۱۲)
اس میں محمد علی لاہوری صاحب نے ’’احمدیت‘‘ کو ’’اسلام‘‘ سے اسی طرح الگ مذہب قرار دیا ہے جس طرح عیسایت یہودیت سے بالکل الگ مذہب ہے۔
نیز (ریویو آف ریلیجنز ج۵ ص۳۱۸) میں لکھتے ہیں: ’’افسوس ان مسلمانوں پر جو حضرت مرزاصاحب کی مخالفت میں اندھے ہوکر انہی اعتراضات کو دہرارہے ہیں جو عیسائی آنحضرتﷺ پر کرتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح عیسائی آنحضرتﷺ کی مخالفت میں اندھے ہوکر ان اعتراضوں کو مضبوط کر رہے ہیں اور دہرارہے ہیں جو یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کرتے تھے۔ سچے نبی کا یہی ایک بڑا بھاری امتیازی نشان ہے کہ جو اعتراض اس پر کیا جائے گا وہ سارے نبیوں پر پڑے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص ایسے مامور من اﷲ کو رد کرتا ہے وہ گویا کل سلسلہ نبوت کو رد کرتا ہے۔‘‘ (منقول از تبدیلی عقائد مؤلفہ محمد اسماعیل صاحب قادیانی ص۴۲)
یہاں یہ واضح رہے کہ مرزاغلام احمد صاحب یا ان کے متبعین کی عبارتوں میں کہیں کہیں ضمناً اپنے مخالفین کے لئے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ استعمال ہوگیا ہے۔ اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ملک محمد عبداﷲ صاحب قادیانی ریویو آف ریلیجنز کے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’آپ (مرزاصاحب) نے اپنے منکروں کو ان کے ظاہری نام کی وجہ سے مسلمان لکھا ہے، کیونکہ عرف عام کی وجہ سے جب ایک نام مشہور ہو جائے تو پھر خواہ حقیقت اس میں موجود نہ بھی رہے اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
1917(احمدیت کے امتیازی مسائل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز دسمبر ۱۹۴۱ء ج۴۰ نمبر۱۲ ص۳۸)