ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ علیجاہ ہے۔ تو مرزا صاحب نے ان کو چیلنج کیا۔ تو اگر آپ دیکھیں تو جس طرح مرزا صاحب نے مولانا ثناء اللہ کو چیلنج کیا ہے، اسی طرح سے یہ ہے۔ ہوبہو معاملہ یہ بھی ہے اور۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور جس طرح مولوی ثناء اللہ صاحب کا رَدِّعمل تھا، وہی ڈوئی کا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مولوی صاحب نے تو پھر بھی کہا کہ: ’’اگر یہ بات ہے تو میں تیار ہوں‘‘ اس نے تو Ignore (نظرانداز) کردیا، اس نے تو کہا: ’’میں جواب نہیں دیتا، میں نہیں مانتا۔‘‘ یہ میں پوائنٹ آؤٹ کرنا چاہتا تھا آپ کو۔
1421مرزا ناصر احمد: اس کا یعنی سوال یہ ہے کہ ہم موازنہ کرکے تو اس کی رپورٹ دے دیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ دو Parallel Cases (متوازی کیسز) ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: بالکل۔ اسی لئے آپ کی توجہ Page.179 یہ جو "True Islam" (سچا اسلام) ہے۔۔۔۔۔۔
Mirza Nasir Ahmad: "Ahmadiyyat or True Islam"? (مرزا ناصر احمد: احمدیت یا سچا اسلام؟)
جناب یحییٰ بختیار: Page. 179، یہ جو میرا ایڈیشن ہے ناں، 1937ء کا، اُس سے ہے یہ۔
مرزا ناصر احمد: 37ء کا؟
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو ڈوئی کی اسٹوری جب آتی ہے ناں، اس میں وہ بیان کرتے ہی ناں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں سمجھ گیا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں کوئی Parallel (متوازی) ہے، کوئی اِختلاف ہے، کیا چیز ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں Parallel Cases (متوازی کیسز) ہیں۔
مرزا ناصر احمد: وہ تو چیک کرکے Written Statement (تحریری دستاویز) دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پوائنٹ آف ویو سے دیکھیں کہ یہاں بھی وہ کہتا ہے کہ…
They are parallel cases:
"This challenge was first given in 1902 and was repeated in 1903 but Doui paid no attention to it and some of the 1422American papers began to inquire as to why he has not given reply".
(یہ دو متوازی معاملات ہیں۔ یہ چیلنج پہلے ۱۹۰۲ء میں دیا گیا، پھر ۱۹۰۳ء میں دُہرایا گیا، مگر ڈوئی نے کوئی توجہ نہ دی اور کچھ اخباروں نے دریافت کرنا شروع کردیا کہ اس نے کیوں جواب نہیں دیا)
مرزا ناصر احمد: اس کی پوری تفصیل ہے ہمارے پاس، وہ نقل کرکے دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ یہاں ساری تفصیل دی ہوئی ہے اس کتاب میں۔
مرزا ناصر احمد: اس میں اتنی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اخبار ’’امریکن ایکسپریس‘‘ کو Quote کیا گیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، بہت کچھ دیا ہوا ہے اس میں۔ تو اسی طرح اُس نے اِنکار کردیا۔ پھر اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ وہ دُعا جو تھی وہ قبول ہوگئی اور وہ ذلیل ہوگئے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، ایک نے Ignore (نظرانداز) کیا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی:
Then he was asked. He said, "I refuse to take notice......."
(تب اس سے پوچھا گیا، اس نے جواب دیا کہ: اس نے اس پر توجہ نہیں دی)
وہ میں نے آگے نہیں پڑھا۔
Mirza Nasir Ahmad: "I refuse to take notice and I refuse to accept."
Ther is a lot of difference between the two.
(مرزا ناصر احمد: میں اس کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتا، اور نہ میں اس کو قبول نہیں کرتا۔ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Exactly, Sir, he refused. Maulana after all said that "I am willing to accept."
(جناب یحییٰ بختیار: بالکل جنابِ والا! اس نے مولانا کو اِنکار کیا ہے، آخرکار اس نے کہا کہ میں اسے قبول کرنے کو تیار ہوں)
مرزا ناصر احمد: بہرحال، یہ موازنہ کرکے آپ کو لکھ دیں گے، Submit (پیش) کردیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہاں لکھا تھا اس نے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، میں سوال سمجھ گیا ہوں، وہ سارے حوالے نکال کے۔۔۔۔۔۔
1423Mr. Yahya Bakhtiar: "Dr. Doui paid no attention to it and some of the American papers began to inquire as to why he has not given a reply. He himself says in his own paper of December 1903: "There is a Muhammadan Messaih in India who has repeatedly written to me that Jesus Christ lies buried in Kashmir and people ask me why I don't answer him. Do you imagine that I should reply to such wags and lies. If I were to put down my foot on them, I would crush out their lives. I give them a chance to fly away and live."
(جنا ب یحییٰ بختیار: ڈاکٹر ڈوئی نے کوئی توجہ نہ دی۔ چند امریکی اخباروں نے دریافت کرنا شروع کردیا کہ اس نے کیوں جواب نہیں دیا؟ وہ خود اپنے اخبار دسمبر ۱۹۰۳ء میں کہتا ہے: ’’ہندوستان میں ایک محمڈن مسیحا ہے جس نے کئی بار مجھے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کشمیر میں دفن ہیں اور لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اس کو جواب کیوں نہیں دیتا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے ایسے مکروہ جھوٹ کا جواب دینا چاہئے؟ اگر میں نے اپنا قدم ان پر رکھا تو میں انہیں ملیامیٹ کردوں گا۔ میں انہیں ایک موقع دیتا ہوں کہ بھاگ جائیں اور اپنی جان بچائیں۔‘‘)
تو بڑی بات کی اس نے۔ تو میں یہ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں نے یہی کہا تھا ناں کہ بڑا فرق ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ فرق تو جو بھی ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اس نے بھی چیلنج کو Ignore (نظرانداز) کیا، بلکہ حقارت سے اُس نے کہا کہ: ’’میں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: اور حقارت کی سزا مل گئی اُس کو اور انہوں نے کہا: ’’کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، انہوں نے کہا: ’’اگر آپ یہ کریں گے، یہ شرط پوری کریں تو میں تیار ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ: ’’میں تیار ہوں۔ مگر آپ اگر۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کوئی اپنی طرف سے شرط لگائی۔ تو بہرحال یہاں بھی اس نے اِنکار کردیا، اور یہاں بھی بددُعا کی اور وہاں بھی بددُعا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کے اِنکار کے بعد ایک پیش گوئی اس کے لئے شائع کی گئی۔
جناب یحییٰ بختیار: سب کچھ اس میں ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، سب کچھ تو نہیں ہے۔ یہ تو ایک رپورٹ ہے ناں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور میں کہتا ہوں کہ جس وقت انہوں نے بددُعا کی ہے، اُس وقت کہا کہ: 1424’’تم بھی بددُعا کرو اور میں بھی بددُعا کرتا ہوں۔ جو جھوٹا وہ مرے گا۔‘‘
وہ مرگیا۔ پھر مولوی ثناء اللہ سے کہا: ’’تم بھی بددُعا کرو، میں بھی کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے بددُعا کی کہ: ’’مجھے تنگ کر رہا ہے اور یہ ہیضہ اور طاعون سے مرے، جو بھی جھوٹا ہو۔‘‘ یہ میں Parallel (متوازی) کر رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: یہ میں سمجھ گیا کہ آپ یہ Parallel (متوازی) کر رہے ہیں۔ تو میں یہ عرض کردیتا ہوں کہ میں اپنا Parallel (متوازی) کرکے تو پھر Submit (پیش) کردوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں نے Attention آپ کی Draw کرنی تھی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے، وہ نوٹ کرلیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس لائن پر۔
Thank you very much, Sir. (جنابِ والا! آپ کا بہت بہت شکریہ)۔ اب یہ مولانا آپ سے کچھ تحریف پر کچھ پوچھیں گے۔
مرزا ناصر احمد: اس میں ایک کتاب دینے کا ہم نے وعدہ کیا تھا، وہ ایک ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: ’’ایک غلطی کا اِزالہ۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: وہ بھی ریکارڈ پر آگیا۔ اس کی طرف۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور وہ آپ نے ’’الفضل‘‘ کے متعلق کہا تھا اس کی فوٹواسٹیٹ کاپی…
Mr. Yahya Bakhtiar: Yes. Thank you very much.
(جناب یحییٰ بختیار: جی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ)
1425میرے پاس جو تھی ناں، وہ چھوٹی کاپی تھی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ وہ ساری ہم نے یہ کرادی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو میں نے اس لئے کہا کہ یہ ساری Misunderstanding (غلط فہمی) نہ ہو۔ اب Last Page (آخری صفحہ) یہ ہے، جو اس کا ہے، وہ ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: آپ نے ۔۔۔۔۔۔ جی؟
جناب یحییٰ بختیار: میں نے وہ نوٹ بھیج دیا تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ مل گیا مجھے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Thank you, Sir. Nothing more. (جناب یحییٰ بختیار: آپ کا شکریہ جنابِ والا، اس کے علاوہ کچھ نہیں)
مرزا ناصر احمد: یہ آپ نے فرمایا تھا حضرت انصاری صاحب یہ سوال کریں گے تحریفِ معنوی کے متعلق یا تحریفِ قرآن کے متعلق۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے کہا: تحریف کے متعلق، کیونکہ وہی اس Subject (موضوع) کو Deal (ڈیل) کر رہے تھے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کچھ اُصولی باتیں ہیں، وہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں شروع میں اور اس کے بعد پھر۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو آپ کی مرضی ہے۔ وہ تو آپ کے ڈیلی گیشن کی طرف سے آپ سب کے۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک اسپیکر صاحب، چیئرمین صاحب کا یہ رول ہے کہ اگر خود لیڈر بول سکے تو وہ بولیں گے۔ اگر وہ محسوس کریں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، جیسا کہ مولانا صدرالدین صاحب بوڑھے آدمی ہیں، He cannot answer, he cannot hear (وہ جواب نہیں دے سکتے، وہ سن نہیں سکتے) تو انہوں نے کہا کہ جو Alternate ہو وہی کرے۔ آپ ماشاء اللہ اچھی طرح بول بھی سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ میں سن بھی سکتا ہوں۔ میں نے تو یہ۔۔۔۔۔۔
1426جناب یحییٰ بختیار: باقی یہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے Prepare کیا ہے، یہ Deal کریں گے، میرا خیال ہے کہ وہ تو ایسی بات نہیں ہے۔ آپ حافظ بھی ہیں اور۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہی کرلیں گے۔
Mr. Chairman: I think, my observation is that it would be better if the reply is by the witness himself.
(جناب چیئرمین: میرا خیال ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ گواہ خود جواب دے)
Mr. Yahya Bakhtiar: There is another complication also, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! اس میں ایک اُلجھن اور بھی ہے)
Mr Chairman: My observation is based on the ground that the Committee has authorised the Attorney-General to put the question only and, as far as Tehreef-i-Qur'an is concerned, since we had ourselves acknowledged that the knowledge of the Attorney-General in Arabic text is not as good as an in others, so, for the Arabic text, the help of Maulana Zafar Ahmad Ansari has been obtaind.
(جناب چیئرمین: یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ کمیٹی نے صرف اٹارنی جنرل کو سوال پوچھنے کی اجازت دی ہے، البتہ جہاں تک تحریفِ قرآن کا تعلق ہے، چونکہ ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ چونکہ اٹارنی جنرل عربی زبان میں دُوسرے علوم کی طرح ماہر نہیں، اس لئے مولانا ظفراحمد انصاری کی مدد حاصل کی جائے)
Mr. Yahya Bakhtiar: That is what I submitted to Mirza Sahib ......
(جناب یحییٰ بختیار: میں نے مرزا صاحب سے گزارش کی تھی)
Mr. Chairman: That is the reason.
(جناب چیئرمین: بس یہی وجہ ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... that I am not competent to deal with this question and Mirza Sahib is fully competent to answer. And if he asks any other member of the Delegation, the difficulty is that he will have to be given oath and he will have to second his evidence. So, to avoid that,......
(جناب یحییٰ بختیار: کہ میں اس سوال کو نپٹانے کے لئے پوری طرح مجاز نہیں ہوں اور مرزا صاحب جواب دینے کے پوری طرح مجاز ہیں۔ اگر وفد کے کسی دُوسرے ممبر کو جواب دینے کے لئے کہا جائے گا، تو پھر اس ممبر کو حلف دینا ہوگا اور انہیں اس کی گواہی کی تائید کرنا ہوگی۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لئے۔۔۔۔)
مرزا ناصر احمد: نہیں، Oath میں تو پانچ سیکنڈ شاید لگتے ہیں۔
Mr. Chairman: No, we are getting the help of Maulana Zafar Ahmad Ansari only because Maulana Ansari can speak fluently Arabic. That is the reason. If the Attorney-General had been fully conversant with the Arabic language, the question would have been put by the Attorney-General. Now it is up to 1427the witness. The weight attached and the responsibility ...... The witness himself has been replying ......
(جناب چیئرمین: ہم مولانا ظفراحمد انصاری کی مدد محض اس لئے لے رہے ہیں کہ وہ عربی روانی سے بول سکتے ہیں، وجہ یہی ہے، اگر اٹارنی جنرل صاحب عربی زبان کے پورے ماہر ہوتے تو سوال یقینا وہی کرتے۔ اب یہ گواہ پر منحصر ہے، جواب کو کس قدر وزن دیا جاسکے گا، اور کس قدر ذمہ داری، اب تک تو گواہ خود ہی جواب دے رہا ہے)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ذمہ داری میری ہوگی۔
جناب چیئرمین: ایک منٹ میری بات سن لیں۔ If the answer is by the Chairman, it would be better.
مرزا ناصر احمد: لیکن۔ آپ اجازت دیتے ہیں کہ وہ بھی بول لے؟
جناب چیئرمین: وہ بول سکتے ہیں، لیکن میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ خود جواب دیں گے تو اس میں اتھارٹی بھی Better (بہتر) ہوگی، اس میں Weight (وزن) بھی زیادہ ہوگا، اس پر Responsibility (ذمہ داری) بھی زیادہ ہوگی۔
مرزا ناصر احمد: جب میں ذمہ داری لے رہا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بجائے وہ بولیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے جی، ہمیں کوئی اِعتراض نہیں ہے۔ میں نے پوزیشن Explain (واضح) کردی ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، اصل فیصلہ تو Chair (صدر) نے کرنا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: چیئرمین صاحب نے تو کہہ دیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: That will carry more weight because, in ten days, all the answers have come from the witness himself. The members of the Delegation are there to help the witness. So, it would be better. We cannot force the witness to reply to any question. So, on the same pretext, it would be better if the witness himself replies because witness is more conversant than the members of the Delegation, it is presumed, It would be better.
(جناب چیئرمین: اس کا وزن اور اہمیت زیادہ ہوگی، کیونکہ گزشتہ دس دنوں میں تمام جوابات گواہ نے خود دئیے ہیں، وفد کے اراکین گواہ کی امداد کو موجود ہیں۔ چنانچہ یہی صورت بہتر ہوگی۔ ہم گواہ کو جواب دینے پر مجبور نہیں کرسکتے، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ گواہ خود جواب دے، وہ وفد کے اراکین کی نسبت زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ یہ بہتر رہے گا)
Mr. Yahyah Bakhtiar: It is left to your discretion.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کی صوابدید کی بات ہے)
Mr. Chairman: It is up to the witness.
(جناب چیئرمین: اس کا اِنحصار گواہ پر ہے)
1428Mr. Yahya Bakhtiar: It is left to your discretion.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کی صوابدید کی بات ہے)
مرزا ناصر احمد: بس ٹھیک ہے پھر۱؎۔
Mr. Chairman: Yes, Maualan Zafar Ahmad Ansari. (جناب چیئرمین: جی، مولانا ظفر احمد انصاری صاحب)
مولانا ظفر احمد انصاری: آپ کچھ اُصولی باتیں کہنا چاہتے تھے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ پہلے اِنکار، اب تیار، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!اصل میں جب اٹارنی صاحب نے کہا کہ مولانا انصاری سوال کریں گے تو جواب آںغزل میں مرزا ناصر نے کہا کہ میرا بھی نمائندہ جواب دے گا، اس رعونت کو جب قبول نہ کیا گیا تو اسی تنخواہ پر خود راضی ہوگئے۔۔۔!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(تفسیر اصولی باتوں کے نام پر مرزا ناصرکی طویل گفتگو)
مرزا ناصر احمد: ہاں، اُصولی باتیں میں کہہ دیتا ہوں۔ میں یہ اُصولی باتیں تحریفِ معنوی کا جو ہے مضمون اس کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ ’’تحریف‘‘ کا مطلب ہے رَدّوبدل کرنا اور تحریفِ معنوی کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی یا تو تفسیر ساری تعیّن کردی جائے تبھی رَدّ وبدل ہوسکتا ہے ناں۔ اگر تعیّن ہی نہ ہو تفسیر کی تو رَدّوبدل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یا یہ کہ اُصول تفسیر قرآنی ہمارے سامنے ہوں اور پھر ہم دیکھیں کہ کن اُصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بہرحال میں اپنی رائے بتاؤں گا، باقی تو آپ نے کرنا ہے فیصلہ۔
میرے نزدیک تفسیر صحیح قرآن عظیم کی، اس کے لئے سات معیار ہیں۔
پہلا معیار! ہے خود قرآن کریم۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ Universe ہے، عالمین عربی میں کہتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی خلق ہے، اس کا فعل ہے اور سورۃملک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فعل میں تمہیں تضاد کہیں نظر نہیں آئے گا۔ خداتعالیٰ کے کلام میں بھی کہیں تضاد ممکن نہیں۔ یعنی ایک ہی منج سے ہو اور ایک قرآن کریم کی آیت کچھ کہہ رہی ہو اور دُوسری کچھ کہہ رہی ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے پہلا معیار قرآن کریم کی صحیح تفسیر کا یہ ہے کہ جو تفسیر ہو اس کو Contradict (تردید) کوئی اور تفسیر نہ کررہی ہو۔ الف، اور دُوسرے یہ کہ اس کے لئے شواہد، خود اس تفسیر کے، قرآن کریم کی دُوسری آیات میں پائے جائیں نمبرایک۔ میں بڑا مختصر کروں گا تاکہ وقت نہ لگے۔
دُوسرا معیار! ہے حضرت خاتم الانبیاء محمدﷺ کی وہ تفسیر جو اس رنگ میں پہنچی ہمارے پاس کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دُرست ہے۔ یہ میں اس لئے فقرے کہہ رہا ہوں کہ وہ راویوں 1429کے راستے سے ہمارے تک پہنچی ہے۔ قرآن کریم کے اپنے شواہد کے بعد یہ روایتیں ہیں جو تفسیر قرآنی کو آنحضرتﷺ تک لے جاتی ہیں۔ تو وہ تفسیرجو آنحضرتﷺ کی ہم تک پہنچتی ہے روایتوں کے ذریعے، ہر مسلمان اس کو قبول کرے گا اور اس کو صحیح سمجھے گا۔ یہ معیار نمبر۲ ہے۔
تیسرا معیار! ہے صحابہ کی تفسیر۔ ہمارے لٹریچر میں قرآن کریم کی وہ تفسیر بھی ہے جو صحابہ کرامؓ کی طرف سے ہمیں پہنچی ہے، اور اس کو Preference (ترجیح) اس وجہ سے ہمیں دینا پڑتی ہے کہ آپ میں سے بہتوں نے کافی بڑا زمانہ، لمبا زمانہ آنحضرتﷺ کی صحبت میں رہا اور قرآن کریم سیکھنے میں رہا۔ بعضوں کو کم رہا، بعضوں کی اپنی ذہانت اور سیرت اور سارا کچھ تھا۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی باتیں انہوں نے سنیں، آپ کی تربیت انہوں حاصل کی، اس لئے وہ تفسیر قرآنی جو صحیح روایتوں کے ذریعے ہم سے صحابہ کرام کی پہنچتی ہے، وہ تیسرا معیار ہے قرآن کریم کی صحیح تفسیر کا۔
چوتھا معیار! ہے اولیاء اور صلحائے اُمت کی تفسیر کا۔ قرآن کریم نے، جیسا کہ میں نے ایک موقع پر آیاتِ قرآنی کی مختصر تفسیر یہاں بیان کی تھی: (عربی)
شروع دن سے اُمتِ محمدیہ میں اولیاء اور صلحاء پیدا ہوتے رہے ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرکے قرآن کریم کا، اور تفسیر اپنے اپنے زمانے کے مسائل کو سلجھانے کے لئے بیان کی۔ تو ایک یہ ہے معیار۔ جو پائے کے صلحاء ہمارے گزرے ہیں ان کی تفسیر کو بھی ہم قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ یہ ہے ہمارا چوتھا معیار۔
پانچواں معیار! ہے، وہ ٹیکنیکل ہے۔ قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر دُرست نہیں ہوسکتی جس کی تفسیر میں قرآن کریم کے کسی لفظ کے ایسے معنی کئے جائیں جو عربی لغت وہ معنی نہیں کررہی۔ عربی لغت میں بڑی وسعت ہے، اس میں شک نہیں، اور بعض دفعہ ایک لفظ کے پانچ معنی ہوتے ہیں، بعض دفعہ دس معنی ہوتے ہیں، چودہ تک بھی کئے ہیں، شاید اس سے زیادہ بھی ہوں۔ اس وقت 1430میرے ذہن میں چودہ ہی آئے ہیں۔ تو کوئی ایسی تفسیر کرنا جو لفظی معنی وہ ہوں جو لغت اس کو قبول ہی نہیں کرتی کہ عربی کا لفظ اس معنی میں کبھی اِستعمال بھی ہوا ہے، وہ رَدّ کرنے کے قابل ہے۔ تو یہ ٹیکنیکل ہے اور جس کو عربی لغت قبول کرلیتی ہے، یہ نہیں کہ ضرور اس کو قبول کرلینا ہے، بلکہ دُوسرے جو ہیں ہمارے معیار، اس کے مطابق ان کو پرکھا جائے گا۔ اگر پوری اُترے تو پھر قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن اگر لغت نہیں اجازت دیتی تو ہمیں اس کو رَدّ کرنا پڑے گا۔
چھٹا معیار! ہے اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل کا مقابلہ، یعنی جو سائنس والی سائیڈ ہے ناں کہلاتی۔ یہ اِعتراض ہوا تھا کہ مذہب سائنس کے خلاف ہے یا سائنس مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارا یہ اِیمان نہیں۔ ہمارا یہ اِیمان ہے مسلمان کا، سب کا، کہ یہ Universe ہے، یہ خلق عالمین اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ تو کوئی ایسی تفسیر قرآنی نہیں کی جاسکتی جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے اس کے فعل کے متضاد ہو۔ مثلاً: قرآن کریم سے اگر کوئی شخص یہ نکالے کہ ۔۔۔۔۔۔ ویسے میں مثال دے رہا ہوں، مثال میں نے ایسی لی ہے جو ظاہراً غلط ہے، تاکہ سمجھ آجائے بات۔۔۔۔۔۔ اور اگر کوئی یہ تفسیر قرآن کی آیت سے کرے کہ چاند زمین سے دس ارب میل دُور ہے، قرآن کریم کی آیت سے کرے، Theoretical Side (اُصولی طور پر) اور سائنس کہہ رہی ہے کہ نہیں اس کا یہ فاصلہ ہے۔ تو جو خداتعالیٰ کا فعل ثابت ہوگیا، اس کے خلاف اگر کوئی قرآن کریم کی تفسیر کرتا ہے تو وہ رَدّ کرنے کے قابل ہے۔ فعل اور قول میں مطابقت ضروری ہے تفسیر قرآنی کرنے کے لئے۔
یہ سات۱؎ میں نے کئے ہیں۔ یہ ویسے میں نے آخر میں لکھا ہوا تھا، وہ میں نے شروع میں کرلیا، یعنی معنوی کا۔ یعنی جب ہم تحریفِ معنوی کی بات کریں تو معنی کا تعین ضروری ہے اور وہ تعین ویسے ہو نہیں سکتی اس لئے کہ قیامت تک نئے سے نئے مضامین انسان کے سامنے آئیں گے، بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے مسائل پیدا ہوں گے، اور اس وقت قرآن کریم جو ہے، وہ انسان کی مدد کے لئے… ہمارا بڑا پکا عقیدہ ہے…وہ آتا ہے اور ان مسائل کو حل کرتا ہے۔ تو اس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ ۶ کو ۷ کردیا، جیسے پانچ کو پچاس۔۔۔!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واسطے کہیں محدود کردینا کسی زمانہ میں کہ بس جو قرآن کریم کے تفسیری معنی تھے وہ آ1431گئے انسان کے سامنے، یہ دُرست نہیں ہے، عقلاً تو قرآن کریم کی آیت کے مطابق ہی۔ تو، لیکن یہ حدود ہیں کچھ، اور معیار ہیں کچھ، کہ جن کو مدنظر رکھنا پڑے گا تحریفِ معنوی کے مسئلہ کے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہوئے۔ میں نے یہ کہنا تھا اور اَب یہ مولوی صاحب، ان سے حلف لے لیں۔
Mr. Chairman: The question may be put, then we will see who replies, whether it is the witness who replies or it is delegated to any member of the Delegation.
(جناب چیئرمین: سوال پوچھا جائے، اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ کون جواب دے گا، کیا اس کا جواب گواہ دے گا، وہ اس کا اِختیار وفد کے کسی رکن کو دیں گے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب! تحریفِ معنوی سے پہلے میں صرف ایک مثال تحریفِ لفظی کی پیش کروں گا۔ جو قرآن کریم کی ہے: (عربی)
سورۂ حج کی، یہ اس میں سے لفظ ’’من قبلک‘‘ نکال دیا گیا ہے اور ’’رُوحانی خزائن‘‘، ’’اِزالہ اوہام‘‘ شائع کردہ الشرکۃ اسلامیہ، ربوہ، ۱۹۵۸ء میں بھی اسی طرح ہے اور ’’اِزالہ اوہام‘‘ قدیم نسخہ، مصنف مرزا غلام احمد صاحب، میں بھی اسی طرح ہے، یعنی بہت سی غلطیاں ایسی ہیں جنہیں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Only the question may be put, not the argument.
(جناب چیئرمین: صرف سوال، صرف سوال پوچھیں، دلائل نہیں)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اچھا، تو میں اسے Explain (واضح) تو کروں، جناب! Explain (واضح) تو کرسکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: Explain (واضح) کرسکتے ہیں آپ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اچھا۔ تو میں ان تمام چیزوں کو چھوڑ رہا ہوں جن میں اس کا اِمکان ہے کہ کوئی خاص نیت پیش نظر نہیں ہے، بلکہ اِتفاقاً غلطی ہوگئی۔ یہاں چونکہ ایک ایسا لفظ نکال دیا گیا ہے جو بنیاد ہے اِختلافِ عقائد کی مسلمانوں کے اور احمدی صاحبان کے، اور وہ یہ ہے 1432کہ رسول آپa سے پہلے ہی آتے رہے ہیں، بعد میں نہیں آئیں گے۔ تو ’’قبلک‘‘ کا لفظ نکال دیا جائے تو گنجائش پیدا ہوسکتی ہے کہ بعد میں بھی آسکتے ہیں۔ تو یہ ایک بنیادی عقیدے کی بات ہے، اس لئے میں نے صرف ایک لفظی تحریف کا اِنتخاب کیا ہے۔ کیونکہ وقت بہت کم ہے اور لفظی تحریف کی حد تک اسی پر میں اِکتفا کرتا ہوں۔
Mr. Chairman: That is all.
(جناب چیئرمین: ٹھیک ہے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میرا خیال یہ ہے کہ میں سب چیزیں پڑھ دُوں۔
جناب چیئرمین: نہیں، Turn by turn (باری باری) پوچھ لیں، ایک ایک۔ Is the witness not prepared to answer this question and wants some member of the Delegation to answer it?
(اگر گواہ کسی سوال کا جواب دینے کو تیار نہ ہوں اور وفد کا کوئی دُوسرا رُکن جواب دینا چاہے)
جناب ابوالعطا (رُکن وفد): اب میری عرض ہے۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: نہیں، پہلے I am putting it to the witness. Is the witness not prepared to answer this question?
(یہ میں گواہ سے پوچھ رہا ہوں: کیا گواہ اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں؟)
مرزا ناصر احمد: جی، میں چاہتا ہوں کہ اس کا جواب ابوالعطاء صاحب دے دیں۔
Mr. Chairman: Then you will have to state as to why you do not want to answer this question. Then I will ask the member of th Delegation to reply. وجہ بتانی پڑے گی۔
(جناب چیئرمین: پھر آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ خود جواب کیوں نہیں دینا چاہتے؟ تب میں وفد کے رُکن کو جواب دینے کے لئے کہوں گا)
مرزا ناصر احمد: یہ اگر مجھے صحیح یاد ہے تو جب ہم یہاں سے گئے ہیں تو اس وقت چیئر کی طرف سے اِجازت مل گئی تھی کہ وہ جواب دے دیں۔
Mr. Chairman: I had not given it. Only when the question has been put and the answer is to be given by the other member of the Delegation, then the witness has to give some reasons also.
(جناب چیئرمین: میں نے اجازت نہیں دی، جب سوال پوچھا جائے اور جواب کسی دُوسرے رُکن (وفد) نے دینا ہو، تو گواہ کو اس کی وجہ بتانا ہوگی)
1433مرزا ناصر احمد: یعنی ہر سوال پر مجھے Explain (واضح) کرنا پڑے گا؟
جناب چیئرمین: نہیں، اگر تحریفِ قرآن کے سارے سوال جو ہیں، ان سب کا ایک ہی جواب آجائے گا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ تو تحریفِ لفظی کا ہے۔
جناب چیئرمین: اگر آپ جواب دے سکتے ہیں تو آپ دے دیں، ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: میں، اس کے متعلق تو اتنا سادہ ہے۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: جواب دے دیں، ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ میں ویسے دے دُوں گا۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: میں، اگر ابوالعطا صاحب جواب دے دیں تو کوئی حرج نہیں سمجھتا۔
جناب چیئرمین: نہ، آپ Reasons (وجوہات) دیں۔
مرزا ناصر احمد: اگر آپ اِجازت دیں۔
Mr. Chairman: There must be reasons.
(مسٹر چیئرمین: اس کی وجوہات!)
مرزا ناصر احمد: تحریف جو بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کی طرف منسوب کی گئی؟ وہ سارے آپ کے کلام کے اندر آپ کے زمانے میں، اس جماعت کے خلیفہ کے زمانے میں جو قرآن کریم شائع ہوئے ہیں، جو قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے ہیں، اس میں یہ تحریف جو یہ کہتے ہیں کہ نکال دیا جان بوجھ کر، وہ ہونا چاہئے۔ لیکن ایک کتاب کی مثال دے کر اور ان بیسیوں ایڈیشن جو قرآن کریم، اس کے تراجم، جماعت احمدیہ نے شائع کئے، اور وہ ایڈیشن جو حضرت بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کی کتب کے شائع ہوئے، ان میں جو غلطی تھی کتابت کی دُور ہوگئی۔ ان کو نظرانداز کرکے صرف ایک واقعے سے یہ اِستدلال کرنا میرے نزدیک دُرست نہیں ہے۔ آخر یہی کتاب جہاں سے انہوں 1434نے لیا ہے، باربار چھپیں، دوبارہ، اور انہوں نے صرف ایک جگہ سے لے لیا۔
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! Answer (جواب) آگیا ہے، Answer has come (جواب آگیا ہے)۔ مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں نے تو دو حوالے دئیے تھے، بلکہ تین حوالے ہیں، ایک تو اس میں سن نہیں لکھا۔ لیکن ’’اِزالہ اوہام‘‘ قدیم نسخہ۔ دُوسرا ہے ’’رُوحانی خزائن‘‘ شائع کردہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ، ۱۹۵۸ء اس کے بعد ہے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ مرزا غلام احمد۔ شائع کردہ ہے صدر انجمن احمدیہ ربوہ، ۱۹۷۰ئ۔
Mr. Chairman: There is a definite reply by the witness that in all Qur'an Majids published by Jamaat-i-Ahmadiyya, there is no omission of this word. There is a difinite reply be the witness. So, if it is not there, the question must be coupled with a book.
(جناب چیئرمین: جماعت احمدیہ کے شائع کردہ قرآن مجید کے بارے میں گواہ نے قطعی جواب دیا ہے کہ اس میں کوئی فروگزاشت نہیں ہے۔ سوال متعلقہ کتاب کے ساتھ پوچھا جانا چاہئے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں نے یہ عرض نہیں کیا کہ قرآن شریف کے کسی نسخے میں ہے، بلکہ قرآن شریف کی جو آیت اس کتاب میں Quote (حوالہ) کی گئی ہے اور کوئی Argument (دلیل) اس کے ساتھ دیا جارہا ہے، اس میں تینوں ایڈیشن میں یہ ہے۔
جناب چیئرمین: ہے آپ کے پاس کتاب؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: فوٹواسٹیٹ کاپی ہے۔
جناب چیئرمین: جی، جواب دیں۔
مرزا ناصر احمد: تو ہم نے قرآن شریف کے لاکھوں تراجم،لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے اور تقسیم کئے۔ ہمارے بچے پڑھتے ہیں۔ ہمارا وہ حمائل ہے بغیر ترجمہ کے، وہ بچوں کے لئے ہے، کسی جگہ یہ نہیں ہوئی غلطی۔ جہاں اگر کہیں غلطی ہوئی ہے تو یہ اتنے ’’الفضل‘‘ شائع کرچکا ہے۔ وہاں اگر کہیں تو میں وہاں کرواتو دیتا ہوں۔ تو یہ غلطیاں ساری کتابت کی جو ہیں یہ تو ہوتی رہتی ہیں۔
Mr. Chairman: Next question.
(جناب چیئرمین: اگلا سوال)
1435Now we break for Maghrib. We will re-assmble at 7:30
----------
(The delegation is permitted to leave)
----------
The honourable members may keep sitting.
----------
(اب ہم مغرب کی نماز کے لئے وقفہ کرتے ہیں اور ۳۰:۷ بجے اِجلاس ہوگا۔ وفد کو جانے کی اجازت ہے۔ معزز اراکین تشریف رکھیں)
----------
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
----------
جناب چیئرمین: مولانا مفتی صاحب ذرا تشریف رکھیں، ذرا صلاح مشورہ کرنا ہے۔ مولانا عبدالحکیم صاحب! آج آپ تشریف لائے ہیں، ذرا بیٹھیں ناں۔ انصاری صاحب! کتنے سوالات ہیں آپ کے اندازاً۔۔۔۔۔۔ ایک سیکنڈ جی ۔۔۔۔۔۔ تحریفِ قرآن پاک کے؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میرا خیال تو یہ ہے کہ اب اگر چونکہ یہ ہاؤس نے طے کیا ہے کہ آج ہی ختم کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ، نہیں، آپ مجھے بتائیں اندازاً، کتنے ہیں اندازاً؟
Mr. Yahya Bakhtiar: Today, there is nothing left now. I will request the House that ......
(جناب یحییٰ بختیار: آج کچھ باقی نہیں ہے۔ میں ایوان سے گزارش کروں گا…)
جناب چیئرمین: نہیں، میں ان سے پوچھ رہا ہوں کہ اندازاً کتنے Questions (سوالات) ہیں؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں یہ کروں گا کہ معنوی تحریف جو ہے اس کی ایک مثال لے لوں گا۔
جناب چیئرمین: ہاں، جی ہاں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جو قرآن کی آیات جو انہوں نے اپنے اُوپر چسپاں کرلی ہیں، اس کی دوچار مثالیں پڑھ دُوں گا۔
Mr. Chairman: That would be better.
(یہ بہتر رہے گا) اس کے بعد اس طرح کریں گے کہ ساڑھے سات، پونے آٹھ سے لے کر پونے نو بجے تک کریں گے ناں جی، ایک سیشن جی۔
Then, after fifteen minutes break, we will finalize it.
(تب ۱۵منٹ کے وقفے کے بعد ہم اس کو ختم کرلیں گے)
1436Mr. Yahya Bakhtiar: نہیں جی, there is no need of it. I think we will finish in on hour's time.
(جناب یحییٰ بختیار: اس کی کوئی ضرورت نہیں، میرا خیال ہے ہم ایک گھنٹے میں ختم کرلیں گے)
جناب چیئرمین: ہاں، ٹھیک ہے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Let us continue no further.
(جناب یحییٰ بختیار: اس کے بعد کارروائی جاری رکھنے کی ضرورت نہیں)
Mr. Chairman: نہیں لیکن, for finalizing it, then all the members must make up their mind for anything whatever, if any omissions are left out.
(جناب چیئرمین: اختتام کے بارے میں، تمام اراکین سوچ لیں تاکہ کوئی چیز باقی نہ رہ جائے)
Mr. Yahya Bakhtiar: That we will think now, and let me know if they want to ask any question.
(جناب یحییٰ بختیار: معلوم ہونا چاہئے کہ اراکین کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں)
Mr. Chairman: Yes. So, this break will be utilised for that purpose.
Thank you very much.
And we meet at 7:30.
(جناب چیئرمین: جی ہاں، تو اس وقفے کو ہم اسی مقصد کے لئے استعمال کریں گے، آپ کا بہت بہت شکریہ اور ۳۰:۷بجے ہم اِجلاس کریں گے)
----------
[The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to meet at 7:30 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس مغرب کی نماز کے لئے ملتوی ہوا، اِجلاس ساڑھے سات بجے ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghrib prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا، چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
جناب چیئرمین: ذرا اُن کو ادھر بھیج دیں، قصوری صاحب کو۔ مولانا عبدالحق! ذرا خاموشی سے سب حضرات سنیں۔
مولانا عبدالحق: گزارش یہ ہے کہ مولانا انصاری صاحب نے یہ کہا تھا: (عربی)
1437یہ ’’
من قبلک
‘‘ نہیں ہے تین کتابوں میں۔ پھر دوبارہ، سہ بارہ ایڈیشن ان کتابوں کے چھپے ہیں۔ اس میں بھی ’’
من قبلک
‘‘ نہیں ہے۔ تو انہوں نے اپنی کتابوں میں گویا کہ تحریفِ لفظی کردی ہے۔ اب وہ یہ کہیں کہ غلطی ہے، تو ایک جگہ غلطی ہو، دو جگہ غلطی ہو۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: میں عرض کروں، انہوں نے دو باتوں کا جواب دیا ہے۔ ایک انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے قرآن مجید میں نہیں ہے۔ دُوسرا انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ واقعی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابت کی غلطی ہے۔ اس واسطے جو چیز آپ ثابت کرنا چاہتے تھے وہ ثابت ہوگئی ہے۔ آپ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے ایک لفظ قرآن مجید کا حذف کیا اپنی کتابوں میں، جو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ باقی بات ہے بحث کی کہ: ’’آپ نے کیوں کیا ہے، یا کس واسطے کیا ہے؟‘‘ اس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ایک چیز تو آپ نے تسلیم کروالی ہے کہ واقعی یہ کتاب…
مولوی مفتی محمود: عرض یہ ہے کہ یہ جو کتاب ہے، اس کا ان کو علم تھا۔ اس کے باوجود پھر دوبارہ دُوسرے ایڈیشن کی تصحیح نہیں کی۔ اس کے بعد پھر ۱۹۷۰ء میں جو نیا ایڈیشن تھا اس کی پھر تصحیح نہیں کی، اس کو ایسے غلط رہنے دیا۔ اِعتراض صرف یہ ہے کہ غلط کیوں رہنے دیا ہے؟
جناب چیئرمین: آپ نے Question (سوال) کیا، انہوں نے کہا: کتابت کی غلطی ہے۔ انہوں نے یہ جواب نہیں دیا، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے غلطی محسوس کی۔ اس کا مطلب ہے کہ غلطی کو دوبارہ کیا، سہ بارہ کیا، وہ غلطی نہیں ہے، وہ انہوں نے عمداً کیا ہے۔ یہ بحث کی بات ہے، یہ آپ نے اپنا پوائنٹ منوالیا ہے کہ یہ لفظ وہاں نہیں ہے کتابوں میں۔
جناب محمد حنیف خاں: یہ صاف نہیں ہوگا۔ بات تو ہوگی، یہ بات تو ہوگی۔ تین کتابوں میں اگر آئی تو ان کے علم میں وہ غلطی ہے۔
جناب چیئرمین: یہ سوال پوچھ سکتے ہیں، آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔ جی، ایک سیکنڈ جی، ایک سیکنڈ۔ ہاں، مولانا ظفر احمد انصاری صاحب! مولانا صاحب! آپ کچھ کہنا چاہتے 1438تھے۔ بلوالیں یا آپ کچھ کہیں گے؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، وہ ایسا ہے کہ ابھی نماز کے وقت بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ یہ قرآنی تحریف جو ہے اس پر پوری گفتگو ہونی چاہئے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: تو میں نے کہا کہ کل چیئرمین صاحب نے کہا کہ پورے ہاؤس میں چار آدمی مجرم ہیں اس کے کہ یہ جو سیشن کو لمبا کرنا چاہتے ہیں۔ باقی پورا ہاؤس یہ چاہتا ہے کہ سیشن ختم ہو۔ تو دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ آج سیشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو مجھے مجبوراً ایک ایک مثال، دودو مثال دے کر ختم کردینا پڑے گا، کیونکہ ابھی اٹارنی جنرل صاحب نے بھی کچھ اور سوال کرنے ہیں، کچھ مجھے بھی کرنے ہیں۔ اب آپ نے فرمادیا ہے کہ صرف عربی والی عبارت کے سوال کروں تو باقی سوال پھر مجھے آپ (اٹارنی جنرل) کے حوالے کرنا ہوں گے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، آپ پوچھ لیں جی، آپ اپنی تسلی کرلیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: دو چیزیں ساتھ نہیں چل سکتیں… یہ کہ ہر مسئلے پر سوال بھی ہو اور سیشن بھی ختم ہوجائے۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ مولانا آپ بالکل بے فکر رہیں۔ آپ کے جو سوالات ہیں، جن میں آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنا مقصد حاصل کرلیں گے، چاہے پانچ ہیں، چاہے دس ہیں، چاہے پندرہ ہیں، چاہے بیس ہیں، آپ بالکل آرام سے پوچھیں، کوئی قید نہیں ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: بہت شکریہ جی۔
جناب چیئرمین: بالکل۔ اس میں یہ ہے کہ اگر آج ختم نہ ہوا تو پھر کل پرجائے گا۔
اراکین: ٹھیک ہے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے جی۔
1439Mr. Mohammad Haneef Khan: We are ready for tomorrow. (جناب محمد حنیف خان: ہم کل کے لئے تیار ہیں)
Mr. Chairman: Day after tomorrow can't be.
(جناب چیئرمین: پرسوں کے لئے نہیں)
ٹھیک ہے، ایک دن آپ کچھ بات کرتے ہیں اور دُوسرے۔۔۔۔۔۔
سیّد عباس حسین گردیزی: کیا ہم اپنے سوال کرسکتے ہیں؟
جناب چیئرمین: اپنے سوال بذریعہ اٹارنی جنرل، خود نہیں کرسکتے، کہ جو رہ گیا۔۔۔۔۔۔
جناب محمد حنیف خان: جناب چیئرمین! میں ممبران کی طرف سے یہ آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ ممبران بیٹھنے کے لئے تیار ہیں، اگر کوئی اہم ۔۔۔۔۔۔۔ میں ممبران کی طرف سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: میں ممبران سے رات دس بجے پوچھوں گا۔
جناب محمد حنیف خان: … اگر کوئی اہم بات پوچھنا چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے کوئی اِعتراض نہیں ہے۔
جناب چیئرمین: ابھی، ابھی خان صاحب! ابھی نہیں۔ جب یہ دو گھنٹے ختم ہوجائیں گے تو اس کے بعد پوچھوں گا۔ That is the proper time۔
ان کو بلوائیں۔
نہیں جی، کہتے ہیں کہ بس ختم۔ صبح کے اور بیان ہوتے ہیں، دوپہر کے اور۔
بلوائیں جی، بلوائیں۔
نارمل ٹائم جی نارمل۔
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Attorney-General through Maulana Zafar Ahmad Ansari.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب بذریعہ مولانا ظفر احمد انصاری)
1440مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جنابِ والا! ابھی جو سوال میں نے کیا تھا، اس کی تھوڑی سی وضاحت میں نے کردی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے ہاں سے جو قرآن کریم چھپا ہوا چل رہا ہے، اس میں کیا ہے۔ وہ میں نے نہیں دیکھا۔ ہے یا نہیں، میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ جو کتاب چل رہی ہے ’’اِزالہ اوہام‘‘ بہت عرصے سے، اور اس کے باربار ایڈیشن ہو رہے ہیں، مرزا صاحب نے تو یہ فرمایا تھا ۔۔۔۔۔۔مرزا غلام احمد صاحب نے۔۔۔۔۔۔ کہ ’’اللہ تعالیٰ مجھے غلطی پر قائم نہیں رہنے دے گا‘‘ تو قرآن کریم کی آیات میں اس طرح اُلٹ پھیر ہوجائے اور ان کی زندگی میں ان کو تنبیہ نہ ہو، یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ آئے، وہ بھی مأمور من اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مأمور ہیں، ان کو بھی کوئی تنبیہ نہیں ہوئی، اور اِتفاق سے لفظ بھی وہ نکلا جو بنیاد بنتا ہے ہمارے اِختلاف کا، یعنی سب سے بڑا اِختلاف یہی ہے کہ حضور (ﷺ) کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ غلطی برابر چل رہی ہے۔ ۱۹۷۰ء تک کے ایڈیشن میں، میں نے دِکھایا، کہ یہ غلطی چل رہی ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ جو قرآن کریم کے نسخے چل رہے ہیں، بچوں کو آپ پڑھا رہے ہیں، وہ میں نے دیکھا ہی نہیں۔ اب۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جناب چیئرمین! سر! میں جواب دے سکتا ہوں اس کا؟
جناب چیئرمین: ہاںجی، دے دیں۔
مرزا ناصر احمد: نمبر ایک یہ کہ جس کا آپ حوالہ چلا رہے ہیں، اس کے انڈیکس میں یہ صحیح آیت لکھی ہوئی ہے، ایک کتاب ہے۔ نمبر۲ یہ کہ ہمارے کسی لٹریچر میں، جو آپ دلیل بنا رہے ہیں کہ ان الفاظ کو چھوڑ کر پھر یہ دلیل نکالی جائے، وہ نہیں آئی کسی لٹریچر میں۔ تو جو وجہ آپ بتارہے ہیں کہ ہماری بنیاد ایک اِختلاف، اگر یہ فقرہ نکال دیا جائے تو اس کو دلیل بنالیا جائے گا، آیت کو، اور وہ دلیل سارے لٹریچر میں کبھی بھی اِستعمال نہیں ہوئی، نہ اُس جگہ جس جگہ یہ ’’اِزالہ اوہام‘‘ کا حوالہ دے رہے ہیں، اس جگہ بھی اس دلیل کو اِستعمال نہیں کیا گیا۔
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی)
1441مولانا محمد ظفر احمد انصاری: مرزا صاحب نے جو وضاحت کی ہے، وہ بہرحال ان کا جواب ہے۔ میں اب اُسی کی طرف آرہا تھا۔ یہ ’’من قبلک‘‘ کا لفظ جو ہے، اس کو نکال کے یا اس کے معنی بدل کے اس سے سارا قصہ چلا ہے۔
اب میں مختصراً معنوی تحریف کی طرف آتا ہوں۔ سورۃالبقرۃ کی اِبتدائی ہی آیتوں میں :عربی)
یہاں اس قصے سے، اب یہاں قرآن کریم میں بڑی صراحت سے ہے، مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ حضور (ﷺ) پر اِیمان لائیں اور آپ کے پہلے جتنے انبیاء ہیں، ان پر اِیمان لائیں اور اس طرح کی آیتیں کم وبیش چوبیس، پچّیس جگہ قرآن کریم میں آئی ہیں، جہاں یہ کہا گیا ہے:
’’آپ (ﷺ) سے پہلے آنے والی کتابوں پر، آپ (ﷺ) سے پہلے آنے والے نبیوں پر۔‘‘
حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی، اس لئے کہ اَحکام تو ہمارے سب قرآن کریم میں موجود ہیں۔ آپ (ﷺ) جامع ہیں سارے انبیاء کی صفات کے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نظام رسالت کا قائم ہے جو آپ (ﷺ) پر ختم ہو ا ہے، اس لئے ہر جگہ ’’
من قبلک
‘‘ آیا۔ کہیں ’’
مِنْ بَعْدِکَ
‘‘ نہیں آیا۔ حالانکہ ضرورت تو یہ تھی کہ بعد میں آنے والے اَحکام ماننے ہیں اگر اور فلاح اس پر منحصر ہے تو ’’
مِنْ بَعْدِکَ
‘‘ آتا۔ لیکن وہ نہیں آیا۔ اب یہاں، یعنی جو کچھ میں سمجھا ہوں، اب وہ لفظ کہیں نہیں آیا۔ لہٰذا ایک دُوسرے لفظ سے وہ گنجائش نکالی گئی :عربی)
جس کا یہ ابھی میں نے اُردو ترجمہ دیکھا، ورنہ میرے پاس انگریزی کے ترجمے چوہدری ظفراللہ صاحب کے اور مرزا بشیرالدین محمود صاحب کے ہیں۔ اسی کے ساتھ کوئی دس بارہ تراجم انگریزی کے اور ہیں میرے پاس، جو مسلمانوں کے بھی ہیں، عیسائیوں کے بھی ہیں، یہودیوں کے بھی۔ سب نے ’’آخرت‘‘ کے لفظ کا ترجمہ:"Hereafter" (آخرت) یا "Hereinafter" (آخرت) کیا 1442ہے۔ لیکن اس ترجمے سے چونکہ آگے نبی آنے کی گنجائش ہی نہیں ملتی، یعنی یہ بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ چوہدری ظفراللہ صاحب کے ترجمے میں ’’آخرت‘‘ کا ترجمہ یہ آتا ہے:
"And our firm faith in that which has been foretold and is yet to come."
(اور ہمارا پکا اِیمان ہے کہ جو پہلے بتایا جاچکا ہے وہ ابھی آنا ہے)
’’آخرت‘‘ کا ترجمہ:
"In that which has been foretold and is yet to come."
اسی طرح سے مرزا بشیرالدین محمود صاحب میں آیا ہے:
"And they have firm faith in what is yet to come."
مرزا ناصر احمد: یہ ترجمہ کس کا ہے؟
جناب چیئرمین: یہ دُوسرا جو پڑھا ہے آپ نے؟
مرزا ناصر احمد: آخر میں جو سنایا ہے، آخر میں، آخر میں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ مرزا بشیرالدین محمود صاحب کا ہے، جو کمنٹری کے ساتھ ہے۔
مرزا ناصر احمد: انہوں نے کوئی ترجمہ نہیں کیا۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی؟
مرزا ناصر احمد: وہ خود انہوں نے انگلش میں کوئی ترجمہ نہیں کیا۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: انہوں نے کیا ہے:
"And they have firm faith in what is yet to come."
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ انگریزی کے جو تراجم ہیں، وہ انہوں نے 1443نہیں کئے ہوئے، کسی اور نے کئے ہوئے ہیں۔ لیکن صرف لفظی تصحیح میں کروا رہا ہوں۔ باقی تو جواب دُوں گا۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اب میں تھوڑے سے ترجمے ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت انگریزی مترجمین میں آربری کا ترجمہ بڑا مقبول ہے۔ یہ لکھتے ہیں:
"And have faith in the hereafter."
چوہدری محمد اکبر صاحب کا ایک ترجمہ ہے:
"And firmly belive in the hereafter." عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمہ ہے
:
"Have the assurance of the hereinafter." مارماڈیوک پکتھال کا ترجمہ ہے
:
"And are certain of the hereafter." بل کا ترجمہ ہے
:
"And of the hereafter ...... who believe in the unseen and are convinced of the hereafter." جارج سیل کا ترجمہ ہے
…
Mr. Chairman: Yes, the question is complete. The question is that a different translation and a different interpretation has been put by the Jamaat. Yes.
(جناب چیئرمین: جی ہاں سوال مکمل ہے، سوال یہ ہے کہ جماعت کی طرف سے مختلف ترجمے یا معنی کئے گئے ہیں)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی ہاں، اور اس کے نتیجے میں مرزا بشیرالدین محمود صاحب نے 1444جو تشریحی نوٹ لکھا ہے، وہ بہت لمبا چوڑا ہے اور اس سے نتیجہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے پڑھ دُوں؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہاں ہے۔ پڑھ دیں ضرور۔
Maulana Mohammad Zafar Ahmad Ansari: Here, Mirza Bashir-ud-Din gives the following footnote:
"’’الآخرۃ‘‘ ___ what is yet to come ___ is derived from ’آخر‘. They say ’آخرۃ‘, that is, he put it ’آخرہ، آخرہ‘. He put it back, he put it behind, he postponed it. The word ـ’الاخرہ‘ which is the feminine of ’الاخر‘ , that is, the last one or the latter one, is used as an epithet or an adjective opposed to ’الاوّل‘, that is, the first one. ’الاخر‘, with a different vowel point in the central letter, means the other or another, ’اقرب‘. The object which the adjective ’الاخرہ‘, in the verse qualifies, is understood; most commentators taking it to be ’الدار‘, that is, the full expression being ’الدار الاخرہ‘, the last abode. The context, however, shows that here the word understood is ’الرسالۃالآخرہ‘, the message or revelation which is to come."
(مولانا ظفر احمد انصاری: یہاں مرزا بشیرالدین نے مندرجہ ذیل حاشیہ دیا ہے: الآخرہ جس نے ابھی آنا ہے، الآخرہ کا مأخذ آخر ہے، وہ کہتے ہیں آخرہ…)
اور کافی لمبا ہے یہ۔ گویا یہاں سے یہ گنجائش نکالی گئی ہے کہ ابھی کچھ چیز باقی ہے آنے کو۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ کوئی آسمانی کتاب آئے گی، نہ کوئی وحی آئے گی، نہ جبرائیل آئیں گے۔ یہاں لفظ ’’آخرت‘‘ کا ترجمہ اس طرح کرکے یہیں سے اس کی یہ گنجائش پیدا کی گئی ہے کہ کوئی نیا پیغمبر بھی آئے گا، کوئی نئی کتاب بھی آئے گی، کوئی نئی وحی بھی آتی رہے گی۔ تو یہ گویا ایک ایسی تحریف ہے، یعنی میرے نقطئہ نظر اور عام مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے، کہ جو مسلمانوں کے پورے بنیادی عقیدے کو بدل دیتی ہے۔
1445مرزا ناصر احمد: تو سوال کیا ہے مجھ سے؟
Mr. Chairman: The question is simple, very simple, that in the light of the other translations by the different people, who have been mentioned by the witness, a different interpretation has been put by Ch. Mohmmad Zarfarullah Khan and it has been tried that, for one word, it is proved that Nabis will come even after the Holy Prophet (peace be upon him). This is the question in a nutshell.
(جناب چیئرمین: سوال بالکل سیدھا ہے، دُوسرے تراجم کی روشنی میں جن کا ذِکر گواہ نے کیا ہے، چوہدری ظفراللہ نے مختلف معنی پہنائے ہیں، اور ایک لفظ کے مختلف ترجمے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخری نبیﷺ کے بعد اور نبی بھی آئیں گے، مختصر طور پر یہی سوال ہے)
Maulana Muhammad Zafar Ahmad Ansari: Nabis and divine message.
(مولانا ظفر احمد انصاری: انبیاء اور اَحکاماتِ اِلٰہیہ)
Mr. Chairman: Yes. That is all. Now the witness will reply.
(جناب چیئرمین: جی ہاں، بس یہی سوال ہے، اب گواہ اس سوال کا جواب دے)
مرزا ناصر احمد: ایک تو میرا خیال ہے کہ جو انگریزی کے تراجم آپ نے بہت سارے مترجمین کے سنائے ہیں، ان میں سے بہت سے عیسائی ہیں۔۔۔۔۔۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں نے کہا ہے یہ مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں۔ دُوسرا سوال یہ ہے۔۔۔۔۔۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۔۔۔۔۔۔ یہودی کا بھی ہے، اس کا بھی ترجمہ: "Hereafter" (آخرت) ہے۔
جناب چیئرمین: ایک سیکنڈ۔ انصاری صاحب! ذرا ٹھہرجائیں۔
مرزا ناصر احمد: تو دُوسرا سوال یہ ہے، ہاں، سوال یہ ہے، دُوسری یہ بات ہے کہ جو ترجمہ کیا گیا ہے عربی لغت کے خلاف ہے یا عربی لغت یہ معنی بھی کرتی ہے؟ اگر عربی لغت یہ معنی کرتی ہے تو جو میں نے تفسیر صحیح کا معیار ایک بتایا تھا اس میں صرف یہ معنی جو ہیں، وہ ان معنوں کا کیا جانا صرف اس بات کو رَدّ نہیں کرتا۔ اسے رَدّ کرنے کے لئے کوئی اور وجہ ہونی چاہئے اور تیسری بات یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے ’’آخر‘‘ اور ’’آخرت‘‘ کے لفظ کو صرف "Hereafter" (آخرت) کے لئے 1446اِستعمال کیا ہے یا کسی اور معنی میں بھی اِستعمال کیا ہے؟ اگر کسی اور معنی میں بھی اِستعمال کیا ہے، بالکل واضح طور پر، یعنی لفظ ہے یہ اور واضح ہے کہ یہاں "The life hereafter" (آخرت کی زندگی) نہیں، تو پھر ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ یہاں بھی وہ معنی لگ سکتے ہیں، اگر کوئی اور چیز روک نہ ہو رستے میں، اور: (عربی)
یہاں ’’الاخرۃ‘‘ کے معنی تفاسیر میں ’’کلمۂ آخرہ‘‘ اور ’’کلمہ اولیٰ‘‘ لکھا گیا ہے۔ تو یہاں ایک معنی ’’آخرۃ‘‘ کے جو لغت کے لحاظ سے دُرست ہیں، ’’آخرۃ‘‘ کے وہ معنی جو خود قرآنی محاورے کے مطابق دُرست ہیں، جیسا کہ ابھی میں نے بتایا کہ فرعون کے متعلق یہ لفظ بولا گیا، اور تفسیروں نے، ہم سے پہلی تفسیروں نے اس کے معنی ’’دُوسرے کلمہ‘‘ کا کہا ہے ’’کلمۃالآخرۃ۔‘‘ اور جو یہ تفسیر ہے، اس کے اندر پہلی تفسیر سے صرف اِختلاف ہے اور میں نے تفسیر صحیح میں بتایا تھا کہ قرآن کریم میں اِختلاف کا دروازہ۱؎ اور نئے معنی کا دروازہ خود قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کھلا رکھنا پڑے گا، اور پچھلوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ: (عربی)
یہ تفسیر ’’ہدایت البیان‘‘ ہے، از اِمام ابو محمد شیرازی، جو ۶۰۶ہجری میں فوت ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اقتراب المسع میں ہے۔ تو اور بھی ہیں بہت سے حوالے، لیکن اس وقت یہ ایک کافی ہے۔
Mr. Chairman: Next.(جناب چیئرمین: آگے چلئے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ہاں، نہیں، ذرا اسی میں کچھ عرض کرنا ہے۔
جناب چیئرمین: ہاں، پوچھیں، اسی کا اگر Further Explanation (مزید وضاحت) ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: مرزا صاحب! بات یہ ہے کہ لفظ کے لغوی معنے پر اگر ہم جائیں تو پھر بہت سے ایسے الفاظ ملیں گے جو آج کسی معنی میں مستعمل نہیں، کئی جگہ استعمال 1447ہوتے ہیں۔ اب ’’حدیث‘‘ جب ہم کہیں گے اِصطلاحی معنوں میں تو کوئی اور چیز ہوگی، آج کل کے بول چال کی زبان میں کچھ اور ہوگی۔ یہ سوال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اُصول جو بتایا ہے، وہ اپنی جگہ صحیح ہے۔ لیکن اس تیرہ، چودہ سو سال میں کسی اور مفسر نے، کسی بڑے عربی دان نے یہ معنے ’’آخرۃ‘‘ کے یہاں لئے ہیں، جن کو لوگ تسلیم کرتے ہیں؟ یا یہ کہ ہمارے اَئمہ مفسرین اور جو علمائے کرام گزرے ہیں یا یہ کہ یہ بالکل ایک نئی چیز ہے؟ اور نئی چیز بھی ایسی جس میں اُمت کے لئے یعنی اُمت کے اندر ایک اتنا بڑا اِفتراق پیدا ہوتا ہے کہ دو اُمتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کوئی فرقے کا اِختلاف نہیں بنتا، بلکہ دو الگ الگ اُمتیں بن جاتی ہیں نبوّت کا دروازہ کھلنے سے اور اس سے وہ جب نبی آتا ہے تو اُمت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ تو یہ وہ بنیاد ہے کہ جہاں سے مسلمانوں کی اُمت الگ ہوجاتی ہے اور مرزا صاحب کی اُمت الگ ہوجاتی ہے۔ تو اتنی بڑی بنیادی بات ہے۔ اس کی سند میں قدیم مفسرین میں آپ کچھ لوگوں کو اگر بتائیں تو پھر اسے دیکھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ ’’قرآن میں اِختلاف کا دروازہ‘‘ کیا معنی۔۔۔؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جائے کہ کس حد تک اس پر اِعتبار کیا جاسکتا ہے؟ محض لفظ ’’آخرۃ‘‘ کا کسی اور معنیٰ میں استعمال ہونا تو آپ تو مجھ سے بہت بہتر جانتے ہیں کہ عربی میں ایک ایک لفظ ہے جو پچاس پچاس معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ کہ وہ محل اور موقع کے اِعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Let this be answered, then you can put the next question. The question is: whether this interpretation has been put previously in 1300 years? If so, by whom? Or this interpretation has been put for the first time? This is your question.
(جناب چیئرمین: اس کا جواب آنے دیں، پھر آپ اگلا سوال کریں۔ سوال یہ ہے کہ: آیا یہ معنی گزشتہ تیرہ سو سال میں پہلے بھی کبھی کئے گئے؟ اگر ایسا ہے تو کتنوں نے یہ معنی کئے؟)
مرزا ناصر احمد: اگر آپ کے اس بیان کا یہ مفہوم ہے کہ مفسرین جو پہلے گزچکے ان کے علاوہ قرآن کریم کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی تو ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے۔ نمبرایک۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: It solves the problem, it solves the problem. Let ...... You can explain, the witness can explain further.
(جناب چیئرمین: اس سے تو مسئلہ ہی حل ہوگیا، گواہ مزید وضاحت کرے)
1448مرزا ناصر احمد: دُوسرے یہ کہ اگر ہمیں وقت دیا جائے تو پہلے مفسرین کی تفسیروں میں سے ہم یہ اسی معنٰی کے جو ہم نے کئے ہیں، اس کی مثال ہم پیش کردیں گے۔
Mr. Chairman: Yes, the witness will be allowed to produce it.
Yes, Next question.
(جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، گواہ کو پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اسی کے متعلق یہ ذرا سا عرض کرنا ہے کہ چودہ سو سال میں اگر عام طور پر اَسلاف نے، ہمارے بزرگوں نے، مفسرین نے یہ معنے نہیں کئے اور یہ معنے کوئی چھوٹے موٹے فرق پیدا نہیں کرتے، جو میں عرض کر رہا ہوں، بنیادی چیز یہ ہے اور یعنی اس طرح کی اگر کوئی معمولی بات ہوتی تو شاید اتنی اہم نہ ہوتی کہ کوئی نکتہ نکال لیا۔ فرق ایسا پیدا ہوتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے لوگ دو ٹکڑوں میں منقسم ہوجاتے ہیں۔ یا یہ کافر ہوجاتے ہیں، یا وہ کافر ہوجاتے ہیں۔ بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔
Mr. Chiarman: That is argument.
(جناب چیئرمین: یہ تو بحث کی بات ہے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں مفسرین کی ایک اچھی تعداد جن پر اُمت اِعتماد کرتی آئی ہے۔۔۔۔۔۔
Mr Chairman: That is, that is, Ansari Sahib, a question of argument, because it is admitted that they have put his interpretation. So, to support it, they will produce some authority.
Nex question.
(جناب چیئرمین: انصاری صاحب! یہ تو بحث (دلیل) والی بات ہے، کیونکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ مفہوم اور تعبیر کا مسئلہ ہے (اپنی تعبیر) کی تائید میں وہ (مرزا صاحب) ثبوت کریں گے۔ اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ٹھیک ہے، جناب!
مرزا ناصر احمد: جو نئے معنی کی Support (تائید) کا تو حوالہ ہمارے پاس ہے ’’الفوزالکبیر‘‘ 1449کا یہاں بھی موجود:
’’مگر فقید ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ متقدمین نے کلام اللہ کے خواص میں دو طرح پر کلام کیا ہے۔ ایک تو دُعا کے مشابہ اور سحر کے مشابہ۔ استغفراللہ من ذالک۔ مگر فقید پر خواص منقول کے علاوہ ایک جدید دروازہ کھولا گیا ہے۔ حضرت حق جل شانہ‘ نے ایک مرتبہ اسمائے حسنیٰ اور آیاتِ عظمیٰ اور ادعیہ متبرکہ کو میری گود میں رکھ کر فرمایا کہ تصرفِ عام کے لئے… تصرفِ عام کے لئے… یہ ہمارا عطیہ ہے۔‘‘
تو جہاں تک نئے معانی کا تعلق ہے، ہزاروں حوالے ہم دے سکتے ہیں اور جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے، اس آیت میں تو نبوّت کا کوئی ذِکر نہیں ہے۔ اس آیت کے جو معنٰی اور تفسیر آپ نے یہ پڑھی، اس میں کسی نبوّت کے دروازے کے کھلنے کا اس آیت میں ذِکر نہیں کیا گیا۔ باقی رہا وحی واِلہام اور مخاطبہ ومکالمہ، تو آپ کہتے ہیں کہ اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مکالمہ ومخاطبہ اِلٰہیہ کا دروازہ بند ہوگیا اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ … آپ سے مختلف … کہ اُمتِ مسلمہ کے صلحاء کی اکثریت کا یہ عقیدہ ہے شروع سے آخر تک کہ نبی اکرمﷺ کے فیضان کے نتیجہ میں مکالمہ ومخاطبہ اِلٰہیہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور یہی یہ فرقان اور اِمتیاز ہے جو اُمتِ مسلمہ کو دیگر اُمم سے ہے، دُوسرے انبیاء کی اُمتوں سے، یہ میں نے اپنا عقیدہ بتادیا ہے۔
Mr. Chairman: Next question.
(جناب چیئرمین: اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، یہ ذرا ایک بات آپ نے فرمائی ہے۔ جہاں تک ان الفاظ کا تعلق ہے، شاید کوئی اِختلاف نہیں ہے۔ اِختلاف وہاں ہوتا ہے کہ جہاں لفظ ’’وحی‘‘ اِستعمال کرتے ہیں ہم۔ یعنی بہت سے بزرگوں کے ساتھ مخاطبہ ومکالمہ، صوفیا کے ساتھ، وہ ایک الگ بات ہے۔ بات اِختلاف کی ہوتی ہے ’’وحی‘‘ کے لفظ سے، اور ’’وحی‘‘ اب اسلامی شریعت کی اِصطلاح ہے، اِصطلاحی معنی بن گیا ہے۔ تو انگریزی میں بھی اگر آپ ڈکشنریز میں دیکھیں تو 1450’’وحی‘‘ کے ایک اِصطلاحی معنٰی ملیں گے کہ: ’’وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو اپنے بندوں پر۔‘‘ تو گفتگو وہاں ہے۔ یہاں یہ دروازہ جو کھلا ہے، وہ یہ کہ جو کچھ بعد میں آنے والا ہے پیغام، یعنی پیغامِ اِلٰہی، اس پر اِیمان لانا ہے۔ اب دُوسروں، مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی ایسا پیغام نہیں آنا ہے کہ جو مسلمانوں کے لئے واجب الاطاعت ہو جبراً۔ اگر کسی بزرگ پر کوئی اِلہام ہوتا ہے، تو وہ ہوتا ہے ان کے لئے، لیکن اُمتِ مسلمہ پابند نہیں ہے کہ وہ اس کو لازماً مانے۔ بس یہ فرق ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور اگر کسی پر۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: نہ، نہ،۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اِلہام ہو نازل کہ ’’قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑو‘‘ تو آپ کے نزدیک یہ واجب العمل نہیں ہوگا اُمت پر؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اُس کے کہنے کی وجہ سے نہیں ہوگا۔
Mr. Chairman: No, I don't want to enter in this. The qeustion was that the Ayat was read out, the translation was read out and the answer has come. Next question, yes. This sort of debat will not be allowed. Yes, next.
(جناب چیئرمین: میں اس بات میں نہیں آنا چاہتا۔ سوال یہ تھا کہ آیت پڑھی گئی، ترجمہ پڑھا گیا اور جواب آچکا ہے۔ اگلا سوال کریں۔ اس قسم کی بحث کی اجازت نہیں دی جاسکتی)
(Pause)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ایک چیز ہے، وہ اصل میں جناب! وقت کی تنگی کا قصہ ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ پوچھیں آپ، بالکل۔ وقت کی تنگی ہم ریگولیٹ کرلیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں ایک ایسا سوال آپ سے وضاحت کے لئے پوچھنا چاہتا ہوں جس میں ۔۔۔۔۔۔ یہ تو بے شمار آیتیں ہیں قرآن کی جن کے متعلق مرزا صاحب نے کہا ہے کہ یہ میرے اُوپر نازل ہوئیں، وہ میں چند ایک پیش کردُوں ا، یعنی رسول اللہﷺپر نہیں، ان پر 1451نازل ہوئی ہیں۔ لیکن بعض کے معنٰی اس طرح کئے گئے ہیں کہ اس میں نبی کریمﷺ کی سخت ترین توہین ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: The first question would be .......
(جناب چیئرمین: پہلا سوال یہ ہوگا)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی؟
Mr. Chairman: ...... first question would be: whether it was said by Mirza Ghulam Ahmad that certain Ayaat were revealed on him? This would be the first question. Then we will go into the second.
(کیا مرزا غلام احمدنے کہا کہ کچھ آیات مجھ پر نازل ہوئیں؟)
(جناب چیئرمین: پہلا سوال یہ ہوگا: کیا مرزا غلام احمد نے یہ کہا تھا کہ کچھ آیات اس پر نازل ہوئی ہیں؟ یہ پہلا سوال ہے، اس کے بعد دُوسرے سوال کا نمبر آئے گا)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ابھی میں، ابھی میں۔۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی ہاں!)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ابھی میں ایک آیت کا۔۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: ہاںجی، ہاں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۔۔۔۔۔۔ ترجمہ بتا رہا ہوں۔ جنابِ والا! آیت یہ ہے:
(عربی)
اب اس میں بشیرالدین صاحب کا ترجمہ سنا تا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: یہ اپنا Page (صفحہ)؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ان کے ترجمے کا Page.54,55 (صفحہ) ہے…
(Pause)
جناب چیئرمین: سورۃ؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: آل عمران۔
1452جناب چیئرمین: آل عمران۔ 54۔ آیت؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: 82, 83, 84۔
Mr. Chairman: On page.54 or from 51 to 67?
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: Yes ، ان کا ترجمہ ناں، ان کا انگریزی ترجمہ ہے آپ کے پاس؟
جناب چیئرمین: جی، میرے پاس وہی ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں اُردو ترجمے سے پڑھ رہا ہوں۔
جناب چیئرمین: اچھا، ٹھیک ہے۔ Eighty? (۸۰)
Mirza Nasir Ahmad: Eighty-two?
(مرزا ناصر احمد: ۸۲؟)
Mr. Chairman: Eighty-two.
(مسٹر چیئرمین: ۸۲)
Maulana Mohammad Zafar Ahmad Ansari: Eighty-two, eighty......
(مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۸۲…)
Mr. Chairman: "And remember the time when Allah took......" یہی ہے ناں؟ ہاںجی، پڑھیں جی۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ آیت پھر پڑھ دُوں۔
جناب چیئرمین: جی، ٹھیک ہے، پڑھی گئی ہے، آگے پوچھیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ ترجمہ پڑھ دُوں؟
جناب چیئرمین: ہاںجی۔
1453مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب اللہ نے اہلِ کتاب سے سب نبیوں والا پختہ عہد لیا تھا کہ جو بھی کتاب اور حکمت میں تمہیں دُوں، پھر تمہارے پاس کوئی ایسا رسول آئے جو اس کلام کو پورا کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور ہی اس پر اِیمان لانا پھر اس کی مدد کرنا اور فرمایا تھا کہ کیا تم اِقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے ذمہ داری قبول کرتے ہو؟ اور انہوں نے کہا تھا: ہاں، ہم اِقرار کرتے ہیں۔ فرمایا: تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں اور جو شخص اس عہد کے بعد پھرجائے تو ایسے لوگ فاسق ہوں گے۔‘‘
اب اس ترجمے میں مختصر سی بات میں عرض کروں کہ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوںعربی)
اس کا ترجمہ کیا گیا ہے: ’’تمہارے پاس کوئی ایسا رسول آئے جو اس کلام کو پورا کرنے والا ہو۔‘‘
میرے خیال میں یہ ترجمہ اور جگہ بھی ہے کہ: ’’اس کی تصدیق کرنے والا ہو۔‘‘ یعنی کوئی چیز ادھوری نہیں رہ گئی کہ اس کو پورا کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کی تصدیق کر رہا ہے۔ بہرحال یہاں:
(عربی)
(الفضل میں اس آیت کا منظوم ترجمہ)
کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے ۔ اس ترجمے کو ’’الفضل‘‘ میں ’’عہدمنظوم‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے اور وہ تقریباً ٹھیک ہی ہے:
خدا نے لیا عہد سب انبیاء سے
کہ جب تم کو دُوں میں کتاب اور حکمت
پھر آئے تمہارا مصدق پیغمبر
تم اِیمان لاؤ کرو اس کی نصرت
کہا کیا یہ اِقرار کرتے ہو محکم؟
وہ بولے مقر ہے ہماری جماعت
کہا حق تعالیٰ نے شاہد رہو تم
یہی میں بھی دیتا رہوں گا شہادت
جو اس عہد کے بعد کوئی پھرے گا
بنے گا وہ فاسق اُٹھائے گا ذِلت
1454اب اگلا شعر ہے کہ:
لیا تم نے جو میثاق سب انبیاء سے
وہی عہد حق نے لیا مصطفی سے
وہ نوح وخلیل وکلیم وہ مسیحا
سبھی سے یہ پیمانِ محکم لیا تھا
مبارک وہ اُمت کا موعود آیا
وہ میثاقِ ملت کا مقصود آیا
کریں اہلِ اسلام اب عہد پورا
بنے آج ہر ایک عبداً شکوراً
یہ ’’الفضل‘‘ جلد گیارہ نمبر۶۷، مؤرخہ ۲۶؍فروری ۱۹۲۴ء
مرزا ناصر احمد: ۴۲۹۱ئ؟
Maulana Mohammad Zafar Ahmad Ansari: Ninteen twenty-four. جی ہاں.(مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ۱۹۲۴ئ)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں 1924ئ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اب۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ نظم کس کی ہے؟