• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (گیارھواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قومی اسمبلی میں گیارھواں دن

Saturday, the 24th August. 1974.
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۲۴؍اگست ۱۹۷۴ئ، بروز ہفتہ)
----------

The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at half past ten of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد صبح ساڑھے دس بجے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
----------
(Recition from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------

1346Mr. Chairman: Should we call them?
(جناب چیئرمین: کیا انہیں بلالیں؟)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney-General of Pakistan): Yes, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): جی ہاں جنابِ والا)
جناب چیئرمین: (سیکرٹری سے) ان کو بلالیں جی (وفد سے) آئیں جی، آئیں!
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی مسٹر اٹارنی جنرل)
----------

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
CROSS-EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)
(سوالات کے جوابات کی طرف توجہ)

جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ نے کافی سے زیادہ جواب دینے ہیں۔
مرزا ناصر احمد (گواہ، سربراہ جماعت احمدیہ، ربوہ): جی، وہ تیار ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اب ایک گزارش یہ کرنا تھی کہ وہ کچھ ’’الفضل‘‘ کے حوالے، میں نے ذِکر کیا تھا پرسوں، ان کی ہمیں ریکارڈ میں ضرورت ہوگی۔ اگر آپ کے پاس ان کی اوریجنل کاپی نہیں تو ان میں سے Extract ہمیں دے دیں۔ وہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے بارے میں اپریل، مئی اور جون ۱۹۴۷ء کے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس جو باقی جگہ سے نوٹ کئے ہیں یا فوٹواسٹیٹ ہیں، وہ ٹھیک نہیں ہیں۔
مرزا ناصر احمد: یہ ایک دفعہ تاریخ پڑھ دیں تاکہ میں تسلی سے۔۔۔۔۔۔ وہ میں دیکھ لاؤں گا۔ اگر Spare (فالتو) ہوئے تو اخبار دے دیں گے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اگر نہیں ہوئے تو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ فوٹواسٹیٹ کاپی دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ فوٹواسٹیٹ دے دیں۔ ریکارڈ میں ایسی چیز۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں ، جی ٹھیک ہے۔
1347جناب یحییٰ بختیار: وہ ہم آپ کو دے دیتے ہیں جی تاریخیں تمام۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں ٹھیک ہے۔ یہ ’’محضرنامہ‘‘ واپس کر رہے ہیں جو ہمیں ملا تھا۔

(محضرنامہ واپس)
جناب یحییٰ بختیار: ’’جی، جی یہ دے دیں۔
مرزا ناصر احمد: ایک فارسی، دو فارسی کے شعر پڑھے گئے تھے کل، کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ معاف کریں، عینک میری ذرا خراب ہوگئی، صاف کرلوں اسے۔

(اشعار کا مطلب)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں دراصل آپ کو یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ Different Stage (مختلف مرحلے) معلوم ہو رہی ہیں، تو وہ آپ Clarify (واضح) کردیں۔ باقی وہ شعر بھی پہلے پڑھے جاچکے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: شعر میں نے صرف تین پڑھنے ہیں اور ان کا مطلب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، بے شک۔ میں ایسے ہی کہہ رہا ہوں کہ جو میرا مطلب تھا اس میں، یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے Opinion Change (نظریہ تبدیل) کیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ یا بعد میں انہوں نے نبی کہا۔ پھر وہ کہتے ہیں، نہیں ہے۔ تو اس واسطے وہ چیزیں جو ہیں، ان کی Clarification (وضاحت) کی ضرورت ہے۔ باقی ہر ایک Extract (اِقتباس) کی وہ Detail (تفصیل) -مطلب تو وہ پہلے بھی آپ سناچکے ہیں- ضرورت نہیں۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔ میں یہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! فرمائیے آپ۔
مرزا ناصر احمد: آپ کام میں مشغول تھے، میں نے کہا میں Interfere (مداخلت) نہ کروں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ انصاری صاحب مجھے کچھ حوالے دے رہے تھے۔
مرزا ناصر احمد: کل دو شعر پڑھے گئے تھے اور میں اس سے اگلا تیسرا ایک شعر پڑھ دُوں گا 1348اور مطلب واضح ہوجائے گا۔ کل جو پڑھے گئے ان میں سے پہلا ’’درثمین‘‘ کی نظم میں اپنے یعنی پہلے آیا ہے:
’’

آں چہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بہ تمام‘‘
دُوسرا یہ پڑھا گیا تھا:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے
‘‘
(نزول المسیح ص:۹۹، خزائن ج:۸۱ ص:۷۷۴)
اور جواب میں شعر میں یہ پڑھ رہا ہوں:
’’

لیک آئینہ ام بہ ربّ غنی
از پئے صورت مہ مدنی
‘‘
میں ترجمہ کردیتا ہوں، واضح ہوجائے گا۔ صرف ترجمہ کافی ہے جواب میں: ’’جو جام اللہ نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور پر مجھے بھی دیا۔‘‘
’’اگرچہ انبیاء بہت ہوئے ہیں، مگر میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
یہ وہ جو شعر کل پڑھے گئے تھے، ان کا ترجمہ ہے اور جو اس کا جواب آگے اسی جگہ ہے، وہ یہ ہے: لیکن۔۔۔۔۔۔۔ وہ سارا لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’لیکن میں ربّ غنی کی طرف سے بطور آئینہ کے ہوں اس مدینہ کے چاند کی صورت دُنیا کو دِکھانے کے لئے… محمدﷺ۔‘‘
ایک کل پوچھا گیا تھا عدالت میں کوئی معاہدہ کیا ۔۔۔۔۔۔ عدالت میں کوئی معاہدہ کیا گیا اور وہ معاہدہ عدالت نے پابند کیا کہ کوئی اپنا اِلہام کسی کے متعلق شائع نہ کریں، اور اس پر دستخط کردئیے اور یہ تو نبی کی شان کے نہیں ہے موافق۔ کوئی اس قسم کا تھا، مجھے صحیح یاد نہیں رہا۔ بہرحال اس 1349کے اُوپر یہ اِعتراض کیا گیا تھا۔ یہ بتاریخ، بتاریخ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء یعنی ایک کم سو، ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا۔ وہ سارا مضمون آیا ہے۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(عدالت میں کوئی معاہدہ ہوا کہ کوئی اپنا الہام شائع نہ کرے؟)
جناب یحییٰ بختیار: یہ گورداسپور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کورٹ تھا۔
مرزا ناصر احمد: …بتاریخ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء بروز جمعہ، اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ: ’’فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ، دِل آزار مضمون کی پیش گوئی نہ کرے، شائع نہ کرے۔‘‘
یہ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے چھ سال قبل ہی اعلان خود اپنے طور پر بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کرچکے تھے۔ ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کو یہ اعلان ہوا ہے، ۲۰؍فروری۱۸۸۶ئ: ’’اس عاجز نے اِشتہار ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء میں اندرمن مرادآبادی اور لیکھ رام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضاوقدر کی نسبت بعض پیش گوئیاں شائع کی جائیں۔ سو اس اِشتہار کے بعد اندرمن نے تو اِعتراض کیا (اس واسطے اس کے متعلق پیش گوئی شائع نہیں کی گئی۔ یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں۔ الفاظ یہ ہیں کہ) اس اِشتہار کے بعد اندرمن نے تو اِعتراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگیا۔ لیکن لیکھ رام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیش گوئی چاہو شائع کردو، میری طرف سے اِجازت ہے۔‘‘
اسی طرح اس فیصلے سے قبل آپ نے ایک اِشتہار میں یہ اِعلان کیا، اس فیصلے سے قبل: ’’میرا اِبتدا سے ہی یہ طریق ہے کہ میں نے کبھی کوئی اِنذاری پیش گوئی بغیر رضامندی مصداق پیش گوئی کے شائع نہیں کی۔‘‘
1350تو عدالت اس کی Bound (پابند) نہیں ہے، بلکہ جو پہلے اپنے آپ کو جس چیز میں باندھا ہوا تھا، عدالت کا چونکہ وہی فیصلہ تھا آپ نے اس پر دستخط کردئیے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر مرزا صاحب! ایک سوال آتا ہے کہ یہ جو انہوں نے پہلے اِشتہار دیا تھا کہ: ’’میں نے اپنے آپ کو پابند کیا تھا ۱۸۸۶ء میں‘‘ ___ ۱۸۸۶ء میں تو انہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں تھا کیا۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: ۱۸۸۶ء میں تو مرزا صاحب نے نبوّت کا دعویٰ نہیں تھا کیا۔
مرزا ناصر احمد: ۱۸۸۶ء میں نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا، ملہم ہونے کا دعویٰ کیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا قادیانی نے مسیح موعود کا دعویٰ کب کیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں، کیونکہ آپ نے Date Fix کی ناں ۱۸۹۱ء کہ انہوں نے اس وقت مسیحِ موعود کا دعویٰ کیا۔
مرزا ناصر احمد: نہیں جی۔ (اپنے وفد کے ایک رُکن سے) نکالوجی۔ (اٹارنی جنرل سے) ذرا ٹھہر جائیں جی، اس کو دیکھیں کتابوں میں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس میں Confusion (خلط ملط) ہوگئی ناں۔
مرزا ناصر احمد: ٹھیک ہے، ۲۰؍فروری۱۸۸۶ئ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں،ہاں۔
مرزا ناصر احمد: اس وقت بھی آپ کے عیسائیوں، ہندوؤں وغیرہ سے مناظرے ہوئے تھے، اور اِلہام ہونے کے مدعی تھے، اور اس میں اِنذاری پیش گوئیاں بھی تھیں۔ تو یہ ۱۶سال پہلے کا ہے اور دُوسرا پھر جو اِشتہار دِیا ہے وہ دعوے کے بعد کا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کیا نبی کی وحی عدالت کے حکم کی پابند ہوتی ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! میں یہ عرض کر رہا تھا، آپ نے کہا، اس واسطے میں زیادہ ٹائم نہیں لینا چاہتا۔ سوال یہ ہے کہ ایک نبی کو جب ایک وحی آتی ہے تو کسی عدالت کے حکم کے تحت یہ نہیں کہتا کہ: ’’اچھا، اب عدالت نے حکم دے دیا ہے، میں اللہ کی جو مجھے وحی آئے، 1351میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ یہ جو ہے ناں سوال۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، تو اس کا جواب جو میں نے دِیا وہ یہ ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے کہا کہ انہوں نے خود یہ پابندیاں اپنے اُوپر آپ لگائی تھیں۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ کہ عدالت کے پابند نہیں، بلکہ پہلے اعلان کیا تھا اور عدالت کے فیصلے سے کچھ عرصہ پہلے یہ کہا تھا کہ: ’’میرا اِبتدا سے ہی یہ طریق ہے کہ جو اِنذاری پیش گوئیاں ہیں ان کو مشتہر نہیں کرتا۔‘‘ یہ نہیں کہا کہ ’’میں بتاتا نہیں‘‘ یعنی ’’اپنے دوستوں میں، اپنے حلقے میں بتاتا ہوں، لیکن ان کو اِشتہار اور اَخبار کے ذریعے میں مشتہر نہیں کرتا جب تک ان کی رضامندی نہ ہو۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: تو اس وجہ سے انہوں نے عدالت کے اس فیصلے کو منظور کیا؟
مرزا ناصر احمد: چونکہ انہی کے اپنے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، مطلب یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ اپنے طریق کار کے مطابق تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو عدالت میں بات ہوئی ہے، دُرست ہے، مگر یہ کہ آپ اس کی وجہ یہ بتارہے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: جناب مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق پیش گوئی، آپ نے فرمایا تھا کہ اس کے متعلق وہ ایک یہ پوری نہیں ہوتی۔ جو بھی آپ نے حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق اعلان کیا، یہ جو ہے ناں مباہلہ یا مقابلہ، اس میں دو طرفین ضروری ہیں، جس طرح یہ محاورہ ہے کہ ہاتھ سے تالی نہیں بجتی، تو آپ نے کہا کہ ’’آؤ، مباہلہ کرتے ہیں۔‘‘ اس کا جواب مولوی ثناء اللہ صاحب نے دیا، یہ دیا ہے ’’اہلِ حدیث‘‘ کے پرچہ ۱۹۰۷ء ___ اور اس کی فوٹواسٹیٹ کاپی ہم ساتھ یہ ابھی داخل کروادیں گے ___ جواب مولوی ثناء اللہ نے اس چیلنج کا دعوت مقابلہ کا یہ دیا کہ: 1352’’یہ تحریر تمہاری (کہ کون پہلے مرے کون بعد میں) یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کرسکتا ہے۔‘‘
اس واسطے اس کو یہ کہنا کہ کوئی مقابلہ ہوگیا تھا، جس کی شکل وہ نہیں نکلی جو سچے ہوتے تو نکلتی، اس کا سوال ہی نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’کوئی عقل مند آدمی آپ کے مقابلے کو، چیلنج کو قبول ہی نہیں کرسکتا۔‘‘
یہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے پرچے کی فوٹواسٹیٹ کاپی جو ہے…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس کے ساتھ ہی اگر آپ وہ جو اِشتہار مرزا صاحب کا ہے، اس کی بھی اگر کاپی آپ کے پاس ہو ___ میرے پاس بھی ہے ___ تاکہ…
مرزا ناصر احمد: وہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے اسی پرچے میں ہے۔ یہ جو فوٹواسٹیٹ کاپی دے رہے ہیں ناں مولوی ثناء اللہ صاحب کے پرچہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کی، اس میں…
جناب یحییٰ بختیار: اس میں تو انہوں نے دُعا کی ہے، مرزا صاحب نے…
مرزا ناصر احمد: وہ دُعا مباہلے کی ہے کہ ’’تم اس دُعا سے Agree (اِتفاق) کرو، تو پھر یہ ہمارے درمیان مقابلہ اور مباہلہ ہوجائے گا۔‘‘ انہوں نے اس دُعا کو قبول کرنے سے اِنکار کردیا، بڑے زور سے، کہ کوئی عقل مند آدمی اسے قبول ہی نہیں کرسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: اور اس میں یہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور اس میں ’’اہلِ حدیث‘‘ کے پرچے میں وہ سارا شامل ہے بیچ میں، جس کا انہوں نے اِنکار کیا ہے، وہ اس دُعا کا ہے، مولوی ثناء اللہ صاحب اس کو چیلنج، مقابلہ اور مباہلہ سمجھے ہیں اور اس کے مطابق انہوں نے جواب دیا ہے، ورنہ وہ اس دُعا کو اپنے پرچے میں شامل نہ کرتے اور یہ میں نے شامل کروائے ہیں یہاں کی Proceedings (کارروائی) میں ریکارڈ کے لئے۔
جناب یحییٰ بختیار: ان کا اِشتہار بھی کہ جس میں وہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
1353مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، اس کے اندر ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جو جھوٹا ہوگا خدا اس کو طاعون یا ہیضہ…!)
جناب یحییٰ بختیار: ’’جو جھوٹا ہوگا اس۔۔۔۔۔۔‘‘
مرزا ناصر احمد: مولوی ثناء اللہ صاحب نے دُعا کے اِشتہار کو نقل کرنے کے بعد یہ جواب دیا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ دُرست ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں انہوں نے یہ کہا تھا اس میں کہ: ’’جو جھوٹا ہوگا۔۔۔۔۔۔‘‘
مرزا ناصر احمد: ہاں،ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’۔۔۔۔۔۔ خدا اس کو طاعون۔۔۔۔۔۔‘‘
مرزا ناصر احمد: ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’۔۔۔۔۔۔ خدا اس کو طاعون یا ہیضہ سے۔۔۔۔۔۔‘‘
مرزا ناصر احمد: وہ مباہلہ کے چیلنج کی دُعا پہلے لکھ دی ہے آپ نے۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا۔
مرزا ناصر احمد: ثناء اللہ صاحب نے کہا ’’میں اسے قبول نہیں کرتا‘‘ ختم ہوگیا معاملہ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا قادیانی کی وفات ہیضہ سے ہوئی؟)
جناب یحییٰ بختیار: اور پھر اس کے بعد یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب کی وفات ہیضے سے ہوئی۔
مرزا ناصر احمد: میں، ہاں، جی نہیں، ٹھیک ہے، ہاںجی، ٹھیک ہے سوال پوچھنا چاہئے۔ 1354مرزا صاحب کی وفات ہیضے سے نہیں ہوئی، اور اس وقت ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ اس واسطے لینا پڑا غالباً کہ وہ جنازہ لے کے جانا تھا لاہور سے قادیان۔ جس بیماری سے ہوئی، اس کا وہ سارے Symptoms (علاماتِ مرض) وغیرہ دیکھ کے ڈاکٹروں نے جو اندازہ لگایا ہے، جو ڈاکٹر بعد میں آئے ہیں وہ انہوں نے ۔۔۔۔۔۔ اندازہ ہی لگاسکتے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ ہے Gastro-Entritis (انتڑیوں کی تکلیف) یہ آج کل بڑی عام ہوگئی ہے بیماری۔ اس کا نام آتا ہے، اور وہ ہیضہ نہیں ہے، چونکہ ان کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: Dysentry (پیچش) اور۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ اس کے Symptoms (علاماتِ مرض) ہیضے سے بنیادی طور پر بڑے مختلف ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب!۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، کچھ ملتے ہیں، لیکن بالکل مختلف بھی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، Dysentry (پیچش) بھی ہیضے کا ایک۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جس کو Dysentry (پیچش) ہوجائے، وہ سڑا ہوا پھل بازار سے لے کے کھاجائے، اُلٹیاں آجاتیں تو وہ ہیضہ تو نہیں، پر ایک ہوتا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ہیضہ تو بعض دفعہ ہوتا ہے، بعض دفعہ نہیں ہوتا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہی میرا مطلب ہے۔ تو اس وقت ڈاکٹروں نے یہ سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ یہ ہیضہ نہیں اور بعد کے ڈاکٹروں نے Gastro-Entritis (انتڑیوں کی تکلیف) کی تشخیص کی ہے، لیکن وہ بعد کی ہے۔ اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے Symptoms (علاماتِ مرض) سے اپنے اندازے لگائے ہیں۱؎۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مرزاقادیانی کے خسر، مرزامحمود کے نانا، مرزاناصر کے پڑنانا، نواب میرناصر نے اپنی سوانح چھاپی، اس کا نام ’’حیات ناصر‘‘ ہے، اس میں وہ ص۱۴ پر کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے مرض وفات کے آخری دن یہ آخری بات کہی کہ: ’’میرصاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے!‘‘ مرزاقادیانی کا آخری قول اپنے خسر اور ’’صحابی‘‘ کی روایت سے، یہ ہے۔۔۔!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مباہلہ کے تیس چالیس سال بعد تک مولوی ثنائؒ اﷲ زندہ رہے)
جناب یحییٰ بختیار: اور اس مباہ۔۔۔۔۔۔ مباہ۔۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں جی آپ اس کو؟
مرزا ناصر احمد: مباہلہ۔ مباہلہ۔
جناب یحییٰ بختیار: بس یہ اس کے تیس چالیس سال بعد تک بھی مولوی ثناء اللہ زندہ رہے؟
1355مرزا ناصر احمد: مباہلہ ہوا ہی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں ایسے ہی کہہ رہا ہوں۔ مولانا یہ جو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جو مباہلہ نہیں ہوا، اس کے تیس چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس اِشتہار کے بعد، میرا مطلب۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، اور اس تیس چالیس سال میں دُنیا نے ایک اِنقلاب یہ دیکھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب، جو جماعت کو ناکام کرنے کی کوشش پہلے بھی کرتے رہے اور بعد میں بھی کی، وہ کامیاب نہیں ہوئی، اور بانیٔ سلسلۂ عالیہ احمدیہ کا مشن روزبروز ترقی کرتا چلاگیا۔
جناب یحییٰ بختیار: خیر، وہ تو اور ایشو آپ لارہے ہیں اُس پر کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں نہیں لاتا، میں نے ویسے چالیس سال کے ضمن میں سمجھا شاید وہ بھی آجائے بیچ میں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مباہلہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے کرسکتا ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: یہ مباہلہ جو ہوتا ہے مرزا صاحب! کیا ایک مسلمان دُوسرے مسلمان کے ساتھ کرسکتا ہے، جائز ہے؟
مرزا ناصر احمد: شروع میں علماء نے بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کو یہ چیلنج دیا کہ: ’’ہمارے ساتھ مباہلہ کرو۔‘‘ اور آپ ان کو یہ جواب دیتے رہے ایک عرصہ کہ میرے نزدیک مباہلہ مسلمان سے جائز نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میں یہی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، نہیں، میں آگے بتاتا ہوں ناں، یہاں ختم نہیں ہوتی بات۔ لیکن جواب آپ کو علماء کی طرف سے یہ دیا گیا کہ: ’’آپ کا یہ عذر ہمیں قبول نہیں کہ چونکہ مسلمان سے مباہلہ جائز نہیں اس لئے آپ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم تو آپ کو کافر سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ ہم سے مباہلہ کریں۔‘‘ اس کا حوالہ موجود ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا قادیانی نے ان کو کافر سمجھا اور مباہلے کا چیلنج دیا؟)
1356جناب یحییٰ بختیار: تو پھر اس کے بعد، اس کے بعد مرزاصاحب نے ان کو کافر سمجھا اور مباہلے کا چیلنج دیا؟
مرزا ناصر احمد: مرزاصاحب نے پھر یہ ۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ انہوں نے اِصرار کرکے کفر کا فتویٰ لگایا تو بانیٔ سلسلہ نے کہا کہ نبی کریمa کی حدیث ہے کہ جو کسی کو کافر کہتا ہے، کفر عود کر اس کے اُوپر پلٹتا ہے۔ پھر یہ ہوا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ٹھیک ہے وہ۔
مرزا ناصر احمد: یہ آتھم، ایک پیش گوئی آتھم کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔
 
Top