قیادت باسعادت
’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کو یہ سعادت ہمیشہ حاصل رہی ہے کہ اکابر اولیاء اﷲ کی قیادت و سرپرستی اور دعائیں اسے حاصل رہی ہیں۔ حضرت اقدس رائے پوریؒ آخری دم تک اس تحریک کے قائد و سرپرست رہے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ‘ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ‘ حضرت مولانا عبداﷲ درخواستیؒ اور حضرت مولانا خان محمدصاحبؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں۔ اس کے سرپرست ہیں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے بانی اور امیر اول امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔ امیر شریعتؒ کی وفات ۱۹۶۱ء میں ہوئی۔ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو امارت سپرد کی گئی۔ ان کے وصال کے بعد مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ امیر مجلس ہوئے۔ مولانا لال حسین اخترؒ کے بعد عارضی طور پر فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو مسند امارت تفویض ہوئی۔ مگر اپنے ضعف و عوارض کی بناء پر انہوں نے اس گراں باری سے معذرت کا اظہار فرمایا۔ یہ ایک ایسا بحران تھا کہ جس سے اس عظیم الشان تحریک کی پیش قدمی رک جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ کا وعدہ حفاظت دین یکایک ایک ایسی ہستی کو اس منصب عالی کے لئے کھینچ لایا جو اپنے اسلاف کے علوم و روایات کی امین تھی اور جس پر ملت اسلامیہ کو بجاطور پر فخر حاصل تھا۔ میری مراد شیخ الاسلام حضرت العلامہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے ہے۔
تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت‘ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کی وراثت وامانت تھی اور اس کا اہل علوم انوری کے وارث حضرت شیخ بنوری سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضرت امیر شریعت قدس سرہ کی امارت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی خطابت‘ مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری نوراﷲ مرقدہ کی ذہانت‘ مناظراسلام مولانا لال حسین اختر ؒ کی رفاقت‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی بلندئ عزم نے نہ صرف مجلس تحفظ ختم نبوت کی عزت و شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ بلکہ ان حضرات کی قیادت نے قصر قادیانی پر اتنی ضرب کاری لگائی کہ قادیانی تحریک کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر کذب وافتراء کی آئینی مہر لگ گئی۔