" یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی "
سے پہلی آیات میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
" وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ "
اور انہوں نے (یعنی مسیح کے منکروں نے بھی) تدبیر کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں بہترین ہے۔
اب یہاں دیکھنا ہے کہ یہود کی تدبیر کیا تھی وہ یہی تھی جو اللہ نے تعالیٰ نے قرآن میں فرمائی کہ
" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ "
کہ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے المسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا "
تو معلوم ہوا کہ یہودیوں کی تدبیر حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی موت دے دینے کی تھی وہ موت کوئی بھی ہو لعنتی یا کوئی بھی تو تردید اللہ تعالیٰ پہلے یوں کرتا ہے کہ
يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا
کہ اے عیسیٰ میں تجھے اس لعنتی موت سے بچاؤں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں کی تہمتوں سے پاک کر دوں گا ۔
( مرزا غلام قادیانی نے " توفی " کا معنی کیا ہے " لعنتی موت سے بچانا " ) ۔
یہاں واضح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی تدبیر کی نفی کی یعنی موت کی اور اثبات کیا بچانے کا کس سے ؟ یہود جو آپ کو مارنا چاہتے تھے اللہ نے کہاں نہیں میں تجھے بچاؤں گا ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس واقعہ کا بھی ذکر کرتا ہے جب یہودی مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے آرہے ہوتے ہیں سورہ المائدہ میں
" " واذکففت بنی اسرائیل عنک " ( المائدہ 110 )
کے لفظ بول کر صاف بتادیا کہ یہود کو آپ تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا تھا ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ سورہ النساء میں کچھ ایسے فرماتا ہے کہ
" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ ۚ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ۔ بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا "
اور ان کے کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا جو اللہ کا رسول تھا ، حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں انکے پاس اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے مخض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے یقیناََ قتل نہیں کیا ۔ بلکہ انہیں اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔ ( سورہ النساء آیات 157 تا 158 )
بغیر کسی تفصیل میں جائے اگر ان آیات کے صرف ظاہری معنی پر ہی غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کے اس دعوے کی تردید فرما رہے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے نہ قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا ، اور قتل سے بچانے کا انتظام یہ فرمایا کہ " رفعہ اللہ الیہ " کہ اللہ نے انہیں اٹھا لیا اپنی طرف جیسا کہ سورہ ال عمران میں وعدہ بھی دیا تھا کہ " یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی " کہ عیسیٰ میں تجھے لعنتی موت سے بچاوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔
اس کے بعد روزقیامت جب اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ
" أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ "
کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟
تو اس کے جواب میں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کہیں گے کہ ۔
" مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ "
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ۔
اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام وضاحتی طور پر کہتے ہیں۔
"وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ "
جب تک میں ان موجود تھا تو ان پر نگران تھا اور جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے ۔
اب اس آیت میں جو ہے کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا اس کی وضاحت پہلے اوپر کی آیت میں ہوچکی کہ " انی موفیک و رافعک الی " اور " رفعہ اللہ الیہ " جس سے ثابت ہوا کہ اس آیت میں عیسیٰ اللہ کے نبی کا بتانا یہ مقصود تھا کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا کر اپنی طرف اٹھا لیا تھا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا ۔
سے پہلی آیات میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
" وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ "
اور انہوں نے (یعنی مسیح کے منکروں نے بھی) تدبیر کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں بہترین ہے۔
اب یہاں دیکھنا ہے کہ یہود کی تدبیر کیا تھی وہ یہی تھی جو اللہ نے تعالیٰ نے قرآن میں فرمائی کہ
" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ "
کہ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے المسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا "
تو معلوم ہوا کہ یہودیوں کی تدبیر حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی موت دے دینے کی تھی وہ موت کوئی بھی ہو لعنتی یا کوئی بھی تو تردید اللہ تعالیٰ پہلے یوں کرتا ہے کہ
يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا
کہ اے عیسیٰ میں تجھے اس لعنتی موت سے بچاؤں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں کی تہمتوں سے پاک کر دوں گا ۔
( مرزا غلام قادیانی نے " توفی " کا معنی کیا ہے " لعنتی موت سے بچانا " ) ۔
یہاں واضح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی تدبیر کی نفی کی یعنی موت کی اور اثبات کیا بچانے کا کس سے ؟ یہود جو آپ کو مارنا چاہتے تھے اللہ نے کہاں نہیں میں تجھے بچاؤں گا ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس واقعہ کا بھی ذکر کرتا ہے جب یہودی مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے آرہے ہوتے ہیں سورہ المائدہ میں
" " واذکففت بنی اسرائیل عنک " ( المائدہ 110 )
کے لفظ بول کر صاف بتادیا کہ یہود کو آپ تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا تھا ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ سورہ النساء میں کچھ ایسے فرماتا ہے کہ
" وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ ۚ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ۔ بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا "
اور ان کے کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا جو اللہ کا رسول تھا ، حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں انکے پاس اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے مخض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے یقیناََ قتل نہیں کیا ۔ بلکہ انہیں اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔ ( سورہ النساء آیات 157 تا 158 )
بغیر کسی تفصیل میں جائے اگر ان آیات کے صرف ظاہری معنی پر ہی غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کے اس دعوے کی تردید فرما رہے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے نہ قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا ، اور قتل سے بچانے کا انتظام یہ فرمایا کہ " رفعہ اللہ الیہ " کہ اللہ نے انہیں اٹھا لیا اپنی طرف جیسا کہ سورہ ال عمران میں وعدہ بھی دیا تھا کہ " یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی " کہ عیسیٰ میں تجھے لعنتی موت سے بچاوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔
اس کے بعد روزقیامت جب اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ
" أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ "
کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟
تو اس کے جواب میں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کہیں گے کہ ۔
" مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ "
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ۔
اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام وضاحتی طور پر کہتے ہیں۔
"وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ "
جب تک میں ان موجود تھا تو ان پر نگران تھا اور جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے ۔
اب اس آیت میں جو ہے کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا لیا تھا اس کی وضاحت پہلے اوپر کی آیت میں ہوچکی کہ " انی موفیک و رافعک الی " اور " رفعہ اللہ الیہ " جس سے ثابت ہوا کہ اس آیت میں عیسیٰ اللہ کے نبی کا بتانا یہ مقصود تھا کہ جب تم نے مجھے لعنتی موت سے بچا کر اپنی طرف اٹھا لیا تھا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا ۔