• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

لما یلحقوبھم

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سورہ جمعہ کی آیت نمبر 3 سے قادیانی یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے ۔
آیئے دیکھتے ہیں مفسرین کرام اس کا کیا مطلب بیان کرتے ہیں ۔

تفسیری مظہری :
واخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم
’’اور (علاوہ ان موجودین کے) دوسرے لوگوں کیلئے بھی جو انہیں میں سے ہیں‘ مگر ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔
وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ : اس کا عطف یُعَلِّمُھُمْ کی ضمیر مفعول ہے یعنی ان لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی وہ تعلیم دیتے ہیں اور یہ دوسرے لوگ بھی اوّل لوگوں میں سے ہی ہیں یعنی انہی کے ہم مذہب ہیں اور انہی کی راہ پر چلنے والے ہیں۔
عکرمہ اور مقاتل نے کہا : آخرین سے مراد ہیں تابعین۔ ابن زید نے کہا : وہ تمام لوگ مراد ہیں جو قیامت تک حلقۂ اسلام میں داخل ہونے والے ہیں۔ ابن نجیع کی روایت میں مجاہد کا بھی یہی قول آیا ہے لیکن عمرو بن سعید بن جبیر اور لیث کی روایت میں مجاہد کا قول آیا ہے اور اس سے مراد عجمی لوگ ہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ سلمانؓ فارسی بھی ہمارے ساتھ تھے‘ اتنے میں سورت جمعہ نازل ہوئی۔ جب حضور ﷺ نے (آیت) : وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے دریافت کیا : یا رسول اللہ! (ﷺ) یہ کون لوگ ہیں؟حضورؐنے لوٹا کر کوئی جواب نہیں دیا۔ اس شخص نے جب دو یا تین بار سوال کیا تو سلمانؓ فارسی کے اوپر ہاتھ رکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا : اگر ایمان ثریا کے پاس (یعنی آسمان پر) ہوگا تو ان کے (یعنی ان کی قوم کے) کچھ لوگ اس کو پا لیں گے۔ (متفق علیہ) دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: اگر دین ثریا کے پاس بھی ہوگا تب بھی اہل فارس میں سے کوئی شخص (یا فرمایا کچھ لوگ) وہاں تک جا پہنچے گا اور اس کو پا لے گا۔
میں کہتا ہوں‘ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ فارس کے کچھ آدمی بھی ایسی فضیلت کے حامل ہوں گے کہ ان کا شمار ان (برگزیدہ) لوگوں میں ہوگا جو آیت : وآخرین منھم میں مراد ہیں۔ آیت کے عموم کا اقتضاء یہ نہیں ہے کہ صرف اہل فارس مراد ہوں۔
حضورؐ نے جو رجال من ھؤلآءِ ابناء فارس فرمایا‘ شاید ان سے مراد ہوں نقشبندی سلسلہ کے اکابر‘ نقشبندیہ اکابر بخارا اور سمرقند کے باشندے تھے اور طریقت میں ان کی نسبت حضرت سلمان فارسیؓ سے ہے کیونکہ ان کا انتساب حضرت جعفر صادق سے ہے اور حضرت جعفر کا تعلق قاسم بن محمد سے اور قاسم کی نسبت حضرت سلمانؓ سے ہے اور حضرت سلمان کا طریق تعلق حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اور حضرت ابوبکر کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے ہے۔
لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ : یعنی آنے والے لوگوں نے ان کو یعنی صحابہ کو ابھی نہیں پایا (ابھی وہ پیدا نہیں ہوئے لیکن صحابہؓ کے بعد ہو جائیں گے) یا یہ مطلب ہے کہ فضیلت اور ثواب میں صحابہؓ کے درجہ کو نہیں پہنچے۔ تابعینؒ اور ان کے بعد آنے والے لوگ صحابہؓ کے مرتبہ کو نہیں پا سکتے۔ حضورِ گرامی ؐ نے ارشاد فرمایا ہے میرے صحابیوں کو برا نہ کہو‘ اگر تم میں سے کوئی کوہِ اُحد کے برابر بھی سونا راہِ خدا میں خرچ کرے گا تو صحابہؓ کے ایک سیر بلکہ آدھا سیر خرچ کرنے کے برابر نہ ہوگا۔ (متفق علیہ من حدیث ابی سعید)
اس تشریح پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ لَمَّا نفی ماضی اور توقع مستقبل پر دلالت کرتا ہے‘ اگر مرتبہ کے مساوات کی نفی مقصود ہوتی تو مضارع منفی کا صیغہ استعمال کیا جاتا کیونکہ بصورتِ مذکورہ تو یہ مطلب ہوگا کہ وہ لوگ صحابہؓ کے مرتبہ کو ابھی نہیں پہنچے ‘ مگر آئندہ اس کی امید ہے اور مضارع کا صیغہ ذکر کیا جاتا تو یہ مطلب ہوتا کہ آنے والے لوگ صحابہؓ کے مرتبہ کو نہیں پہنچیں گے۔ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں نفی لحوق کا تحقق اکثریت کے لحاظ سے اور مستقبل میں توقع لحوق بعض افراد کے لحاظ سے ہے یعنی اُمید ہے کہ آنے والے بعض افراد خواہ ہزار برس کے بعد آئیں‘ اتباعِ رسول کی پابندی کی وجہ سے قرن اوّل کے درجہ تک پہنچ جائیں گے۔
گویا اس میں اشارہ ہے حضرت مجدد الف ثانی اور آپ کے خلفاءِ کاملین کی طرف جو رسول اللہ ﷺ کی انتہائی متابعت کی وجہ سے کمالاتِ رسالت تک پہنچ گئے اور وہ تمام مراتب ان کو حاصل ہو گئے جو اولو العزم اصحاب خُلّت و ملّت اور فائزین بدرجۂ محبوبیت کے فضائل کا مجموعہ تھے۔ صحابہؓ کے بعد حضرت مجددؒ اور آپ کے خلفاء کے سوا صدرِ اوّل کے مرتبہ کو اور کوئی نہیں پہنچا اور یہ حضرات پہنچ گئے۔ تو گویا صحابہؓ کے مشابہ ہو گئے۔ پس ان کی وجہ سے امت اسلامیہ مرحومہ کی مثال اس بارش جیسی ہو گئی جس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کس اوّل حصہ (افادیت میں) بہتر ہے یا آخری حصہ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے کہ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا اوّل حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ‘ یا اس باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کے پھل ایک حصہ میں آئے اور ایک سال دوسرا حصہ پھلا۔ تو شاید آخری سال پھلنے والا ٹکڑا زیادہ لمبا چوڑا اور حسین ہو۔ (رواہ رزین)

تفسیر عثمانی :
۷ یعنی یہ ہی رسول دوسرے آنے والے لوگوں کے واسطے بھی ہے جن کو مبدأ و معاد اور شرائع سماویہ کا پورا اور صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پڑھ ہی کہنا چاہیے۔ مثلاً فارس، روم، چین اور ہندوستان وغیرہ کی قومیں جو بعد کو امیین کے دین اور اسلامی برادری میں شامل ہو کر ان ہی میں سے ہوگئیں ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کیے اس دین کے تھامنے والے، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے۔" حدیث میں ہے کہ جب آپ ﷺ سے (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 63۔ الجمعہ:3) کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یادین ثریا پر جا پہنچے گا تو (اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا) شیخ جلال الدین سیوطی وغیرہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفتہ النعمان ہیں ۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔

تفسیر ضیا،القرآن :
پہلے ذرا اس کے اعراب ملاحظہ فر مالیجیے ۔ اگر اس کا معطوف علیہ امیین بنایا جائے تو اس صورت میں یہ فی کا مجرور ہوگا اور اگر اس کا معطوف علیہ یعلھم میں ضمیر مفعول ہو تو اس صورت میں منصوب ہوگا ۔ یعنی یعلمھم ویعلم الاخرین الکتاب والحکمۃ یعنی حضور ﷺ ان امیین کو بھی کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے دلوں کو پاک کرتے ہیں نیز جو لوگ قیامت تک حضور کے دینِ حنیف کو قبول کریں گے وہ بھی فیوضِ نبوت سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ عوام بالواسطہ اور خواص بالواسطہ بھی اور براہ راست اور بلاواسطہ بھی۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں۔ اشارۃ الی عدم انقطاع فیضہ ﷺ عن امتہ الی یوم القیامۃ وقد قالوا بعدم انقطاع افیض الولی ایضا بعد انتقالہ من دار الکثافۃ والفناء الی دار التجرد والبقاء ۔ یعنی اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ حضور ﷺ کا فیض اپنی امت سے تاقیامت منقطع نہیں ہوگا اور صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ ولی کا فیض بھی دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف انتقال کرنے کے بعد بھی منقطع نہیں ہوتا۔
آخر میں پھر بتادیا کہ جس رب کریم نے ذاتِ مصطفوی کو قیامت تک آنے والوں کے لیے منبعِ فیض اور مصدرِ رشد وہدایت بنایا ہے۔ جس نے اپنے محبوب کی ردائے رحمت کو اتنا وسیع کیا ہے کہ عالمین اس کے زیرِ سایہ ہیں۔ وہ العزیز اور الحکیم ہے۔ ہے کوئی جو اس العزیز کے سامنے دم مارسکے؟ ہے کوئی جو اس الحکیم کے فیصلہ میں عیب نکال سکے۔

تیسیر القرآن از عبدالرحمٰن کیلانی :
آپ تمام لوگوں کے لئے تاقیام قیامت رسول ہیں:۔ نبی آخرالزمان صرف ان امی اہل عرب ہی کی طرف مبعوث نہیں کیے گئے تھے بلکہ بعد میں قیامت تک آنے والے لوگوں کے بھی نبی ہیں گویا آپ کی نبوت اور رسالت صرف اہل عرب کے لیے اور صرف اس دور کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ اس دور کے اور بعد میں تاقیامت آنے والے سب انسانوں کے لیے یکساں ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ: جب سورہ جمعہ نازل ہوئی تو ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ( وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ الجمعة:3) سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ:''اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو ان لوگوں (فارس والوں) سے کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے'' (بخاری۔ کتاب التفسیر)
اہل فارس کی خدمت اسلام:۔ آپ نے پہلے دو بار اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ اس سے مراد کوئی خاص لوگ نہیں تھے۔ بلکہ اس سے مراد عامۃالناس تھے۔ پھر جب سیدنا ابوہریرہ ؓ نے تیسری بار بھی یہی سوال کیا تو آپ نے اہل فارس کا نام لیا کہ یہ لوگ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر دین اسلام کی خدمت کریں گے۔ چنانچہ عملاً ہوا بھی ایسا ہی، صحابہ کرام کے دور کے بعد اسلام کی نشرواشاعت کا جتنا کام اہل فارس نے سرانجام دیا۔ دوسروں کے حصہ میں یہ سعادت نہ آسکی۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔

تفسیر معارف القرآن از مولانا محمد شفیع :
وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيم، آخرین کے لفظی معنی ” دوسرے لوگ “ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ کے معنی جو ابھی تک ان لوگوں یعنی امیین کے ساتھ نہیں ملے ، مراد ان سے وہ تمام مسلمان ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے (کماروی عن ابن زید و مجاہد و غیر ہما) اس میں اشارہ ہے کہ قیامت تک آنے والے مسلمان سب کے سب مومنین اولین یعنی صحابہ کرام ہی کے ساتھ ملحق سمجھے جائیں گے ، یہ بعد کے مسلمانوں کیلئے بڑی بشارت ہے (روح)
لفظ آخرین کے عطف میں دو قول ہیں ، بعض حضرات نے اس کو امیین پر عطف قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھیجا اللہ نے اپنا رسول امیین میں اور ان لوگوں میں جو ابھی ان سے نہیں ملے ، اس پر جو یہ شبہ ہوتا ہے کہ امیین یعنی موجودین میں رسول بھیجنا تو ظاہر ہے ، جو لوگ ابھی آئے ہی نہیں ان میں بھیجنے کا کیا مطلب ہوگا ، اس کا جواب بیان القرآن میں یہ دیا ہے کہ ان میں بھیجنے سے مراد ان کیلئے بھیجنا ہے کیونکہ لفظ فی عربی زبان میں اس معنے کے لئے بھی آتا ہے ۔
اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اخرین کا عطف یعلمہم کی ضمیر منصوب پر ہے ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ تعلیم دیتے ہیں امیین کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی ان کے ساتھ ملے نہیں (اختارہ فی المظہری )
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورہ جمعہ آپ پر نازل ہوئی (اور آپ نے ہمیں سنائی) جب آپ نے یہ آیت پڑھی وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ، تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر آخرین کے لفظ سے کیا گیا ہے ، آپ نے اس وقت سکوت فرمایا، مکرر سکرر سوال کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی پر رکھ دیا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی پر بھی ہوگا تو ان کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی ایمان کو لے آئیں گے (مظہری )
اس روایت میں بھی اہل فارس کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ اتنا ثابت ہوا کہ یہ بھی آخرین کے مجموعہ میں داخل ہیں، اس حدیث میں اہل عجم کی بڑی فضیلت ہے (مظہری)

بیضاوی شریف :
’’ وآخرین منھم عطف علی الامیین اوالمنصوب فی یعلمہم وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین فان دعوتہ وتعلیمہ یعم الجمیع‘‘ {آخرین کا عطف امیین یا یعلمہم کی ضمیر پر ہے۔اور اس لفظ کا زیادہ کرنے سے آنحضرت ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر کیا گیا۔ کہ آپ ﷺ کی تعلیم ودعوت صحابہ ؓاور ان کے بعد قیامت کی صبح تک کے لئے عام ہے۔}
خود آنحضرت ﷺ بھی فرماتے ہیں :’’انا نبی من ادرک حیا ومن یولد بعدی‘‘صرف موجودین کے لئے نہیں بلکہ ساری انسانیت اور ہمیشہ کے لئے ھادی ﷺ برحق ہوں۔

تفسیر کبیر از امام رازی :
حضرت ابن عباس ؓ اور ایک جماعت مفسرین کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں۔ (یعنی آپ ﷺ عرب وعجم کے لئے معلم ومربی ہیں) اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں۔ اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضور ﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے وہ سب مراد ہیں۔

تفسیر ابو سعود و کشاف :
آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔

بخاری شریف ص ۷۲۷ج ۲ مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲ ترمذی شریف ص ۲۳۲ج ۲ مشکوٰۃ شریف ص۵۷۶ پر ہے:
’’عن ابی ھریرۃ ؓقال کنا جلو ساعندالنبی فانزلت علیہ سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتیٰ سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲ ﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الا یمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھو لائ‘‘{حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر باش تھے کہ آپ ﷺ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم تو میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون ہیں ۔ آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ ﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓپرہاتھ رکھ دیااور فرمایا اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے۔ (رجال یارجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا)}
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم وفارس میں بڑے بڑے محدثین ‘ علمائ‘ مشائخ‘ فقہائ‘ مفسرین مقتدائ‘ مجددین وصوفیا‘ اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوا بھم سے وہ مراد ہیں ۔ابن عباس ؓ وابوہریرہ ؓ سے لے کر ابو حنیفہ ؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمی ﷺ کے در اقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر وغائب‘ امیین وآخرین سب ہی کے لئے آپ ﷺ کا در اقدس ﷺ وا ہے آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ وتامہ وکافہ ہے۔ موجود وغائب عرب وعجم سب ہی کے لئے آپ ﷺ معلم ومز کی ہیں۔ اب فرمائیے کہ آپ ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟۔ ایسا خیال کرنا باطل وبے دلیل دعویٰ ہے۔

یاد رہے رسولاً پر عطف کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو قید معطوف علیہ میں مقدم ہوتی ہے اس کی رعایت معطوف میں بھی ضروری ہے۔ چونکہ رسولاً معطوف علیہ ہے فی الامیین مقدم ہے۔ اس لئے فی الامیین کی رعایت وآخرین منھم میں بھی کرنی پڑے گی۔ پھر اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ امیین میں اور رسول بھی آئیں گے۔ کیونکہ امیین سے مراد عرب ہیں۔ جیسا کہ صاحب بیضاوی نے لکھا ہے :’’فی الامیین ای فی العرب لان اکثرھم لایکتبون ولا یقرون‘‘ اور لفظ منھم کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ جب کہ مرزا عرب نہیں تو مرزائیوں کے لئے سوائے دجل وکذب میں اضافہ کے استدلال باطل سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
قرآن مجید کی اس آیت میں بعث کا لفظ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر رسولاً پر عطف کریں تو پھر بعث مضارع کے معنوں میں لینا پڑے گا۔ ایک ہی وقت میں ماضی اور مضارع دونوں کا ارادہ کرنا ممتنع ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی بھی اس کی تفسیر کم و بیش وہی کرتا ہے جو دیگر مفسرین نے کی ہے ۔
’’خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آئتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ۔ ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوجاویں گے۔۔۔۔۔۔‘‘
گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے :’’ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویعلم آخرین منھم۔۔۔۔۔۔‘‘یعنی ہمارے خالص اور قابل بندے بجز صحابہ ؓ کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا۔ اور جیسی نبی کریم ﷺ نے صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی۔ ایسا ہی آنحضرت ﷺ اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 209،208)
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تفسیر نسفی
امام نسفی رحمہ الله تعالٰی
"ھو الذی بعث فی الامیین رسولا الخ..... اس آیت مبارکہ سے کی یہ تفسیر فرماتے ہیں کہ" ھو الذی بعث ای ارسل "یعنی الله رب العزت نے امی شخص یعنی حضور خاتم النبيين صلی الله علیه و آله وسلم کو امی قوم کی طرف بھیجا اور ایک قول کے مطابق ان قوم میں سے بھیجا....... اور امی منسوب ہے عرب کی طرف اس لیے کہ عرب کے لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے......
(2).اور صاحب نسفی نے" و آخرین منھم لما یلحقوا بھم "کی یہ تفسیر کی ہے کہ و آخرین منھم لما یلحقوا بھم میں و آخرین منھم مجرور معطوف ہے کیونکہ آیت مبارکہ میں و آخرین منھم سے پہلے" فی الامیین "آیا ہے اور" فی"حروف جار میں سے ہے تو پوری آیت "ھو الذی بعث فی الامیین و آخرین منھم کا کچھ یوں ترجمہ بنے گا الله تعالى نے حضور خاتم النبيين صلی الله علیه و آله وسلم کو نہ صرف عرب قوم کی طرف نہیں بھیجا بلکہ جمیع انسانیت اور کائنات کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے جس کی دلیل قرآن مجید کی سورہ اعراف کی آیت مبارکہ "يا ايها الناس انى رسول الله اليكم جميعا" (اعراف:158)ہے. اور حضور خاتم النبيين صلی الله علیه و آله وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ "ارسلت الی الخلق کافة" مجھے تمام جہانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے تو لہذا مرزا قادیانی قادیان کا دجال اور اس کے چیلوں کا اس آیت کریمہ سے حضور اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی دو بعثتیں قرار دینا سراسر دجل و فریب اور دھوکے پر مبنی ہے. پس اس آیت کریمہ سے مبعوث واحد ہے اور مبعوث "الیکم" موجود اور غائب سب کے لیے بعثت عامہ ہے..... (3).اور لما یلحقوا بھم کی تفسیر صاحب نسفی رحمہ الله تعالى یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضور خاتم النبيين صلی الله علیه و آله وسلم کی اتباع حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کی اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع تابعین رحمھم الله نے کی اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی اس آیت کریمہ سے حضور خاتم النبيين صلی الله علیه و آله وسلم کی بعثت عامہ ثابت ہورہی ہے....
 
Top