مرزا غلام احمد قادیانی نے 20 فروری 1893 کو لیکھرام کے حوالے سے ایک پیشگوئی کی جس کے الفاظ درج ذیل تھے ۔
" سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔ عِجْلٌ جَسَدٌ لَہ‘ خُوَار۔ لَہ‘ نَصَبٌ وَ عَذَاب یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے۔ اور اس کیلئے انؔ گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا۔ اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی گئی تو خداوندکریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس۰۲ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ۶ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا*عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہریک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں "(روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 650-651)
1893 کی پیشگوئی میں تین باتیں تھیں کہ آج کی تاریخ سے جو 20 فروری 1893 ہے چھہ برس کے عرصہ میں
1: آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا
2: اور خارق عادت
3: اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو
اور خارق عادت کی تعریف تو مرزا قادیانی خود فرما چکے ہیں
جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی کہتے ہیں ۔ (خ ص 67 ج 2)
خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے ۔ خ 22 ص 204
ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بینظیر نہیں کہلا سکتا ۔ خ 17 ص 203
جبکہ ہوا کیا لیکھرام چھری سے قتل ہو گیا ۔
کیا چھری سے قتل ہونا وہ تینوں شرطیں پوری کرتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہیں ؟؟؟؟
ہر گز نہیں
چھری سے قتل ہر گز خارق عادت نہیں ہے اور باقی دو شرطیں بھی اس میں نہیں ۔
اصل میں تو اس پیشگوئی میں لیکھرام کے مرنے کی کوئی بات ہی نہیں اسے مرنا نہیں تھا بلکہ اس پر کوئی عذاب شدید آنا تھا فقط
اس عذاب شدید کی تشریح بھی مرزا جی کر چکے ہیں جس میں چھری کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔ ملاحظہ کریں ۔
روحانی خزائن جلد 12 ص 15،14
میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخرکار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا۔ کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں۔ ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں میں بلاشبہ اس سزاکے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے۔ لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔
" سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔ عِجْلٌ جَسَدٌ لَہ‘ خُوَار۔ لَہ‘ نَصَبٌ وَ عَذَاب یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے۔ اور اس کیلئے انؔ گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا۔ اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی گئی تو خداوندکریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس۰۲ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ۶ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا*عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہریک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں "(روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 650-651)
1893 کی پیشگوئی میں تین باتیں تھیں کہ آج کی تاریخ سے جو 20 فروری 1893 ہے چھہ برس کے عرصہ میں
1: آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا
2: اور خارق عادت
3: اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو
اور خارق عادت کی تعریف تو مرزا قادیانی خود فرما چکے ہیں
جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی کہتے ہیں ۔ (خ ص 67 ج 2)
خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے ۔ خ 22 ص 204
ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بینظیر نہیں کہلا سکتا ۔ خ 17 ص 203
جبکہ ہوا کیا لیکھرام چھری سے قتل ہو گیا ۔
کیا چھری سے قتل ہونا وہ تینوں شرطیں پوری کرتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہیں ؟؟؟؟
ہر گز نہیں
چھری سے قتل ہر گز خارق عادت نہیں ہے اور باقی دو شرطیں بھی اس میں نہیں ۔
اصل میں تو اس پیشگوئی میں لیکھرام کے مرنے کی کوئی بات ہی نہیں اسے مرنا نہیں تھا بلکہ اس پر کوئی عذاب شدید آنا تھا فقط
اس عذاب شدید کی تشریح بھی مرزا جی کر چکے ہیں جس میں چھری کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔ ملاحظہ کریں ۔
روحانی خزائن جلد 12 ص 15،14
میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخرکار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا۔ کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں۔ ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں میں بلاشبہ اس سزاکے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے۔ لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔