• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ماہنامہ مجلہ الخاتم جولائی 2020

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ماہنامہ مجلہ الخاتم جولائی 2020

ماہنامہ مجلہ الخاتم جولائی 2020 کی پی ڈی ایف درج ذیل لنکس سے ڈاونلوڈ فرمائیں اور اس کو خوب شئیر کریں
لنک نمبر 1
لنک نمبر 2
یہ مجلہ چھپائی کے لیے پریس میں چلا گیا ہے چند دنوں میں چھپ کر آپ کے ہاتھوں میں ہوگا ان شاء اللہ ۔ یاد رہے کہ جس جس ساتھی کو پی ڈی ایف مل جائے وہ اس مجلہ کی ہارڈ کاپی نہ منگوائیں کوشش کریں کہ جو لوگ انٹرنٹ کا استعمال نہیں کرتے یا جن کے پاس پی ڈی ایف کی رسائی نہیں ہے ان احباب تک اس کی ہارڈ کاپی پہنچائیں اور جن علاقوں میں قادیانی رہتے ہیں ان علاقوں میں اس کو تقسیم کیا جائے
یہ مجلہ بالکل فری ہے اگر کوئی دوست اس کی چھپوائی اور ڈاک خرچ میں مالی معاونت کرنے کی سعادت حاصل کرنے چاہتے ہیں تو وہ بھی مدیر اعلیٰ مجلہ کے وٹس ایپ پر جلد رابطہ فرمائیں

03247448814
 
آخری تدوین :

احمد رضا رضوی

رکن ختم نبوت فورم
کیا امام ابن کثیر نے مختار ثقفی کی تعریف کی؟


انجینئر محمد علی مرزا اپنے ایک بیان میں امام ابن کثیر پر بہتان لگاتے ہوے کہتا ھے کہ

"ابن کثیر نے بھی تعریف کی ہے قاتلین حسین کو قتل کرنے پر مختار ثقفی کی اور کہا کہ اس نے مسلمانوں کے دل ٹھنڈے کیے ہیں " (1)

تمام حمد و ثناء تعریف و توصیف اس خالق کائنات کیلئے ہے کہ کل جہان جسکے لفظ کن کی تخلیق ھے۔درود و سلام ہو اس نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جو باعث تخلیق عالم ہے اور آپ کی آل و اصحاب پر کہ جنکی اقتداء فلاح و کامیابی کا ذریعہ ھے۔

جسطرح زمانہ جدید ٹیکنالوجی کی طرف جارہا ھے اسی طرح اسلام کو جدید قسم کے فتنوں کا سامنا کرنا پڑرہا ھے۔فی زمانہ دین اسلام کو انجینئر محمد علی مرزا کی صورت میں جدید فتنے کا سامنا ہے جوکہ یوٹیوب پر بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہؓ اکرام، اولیاء عظام اور اکابرین امت کی جانب غلط باتیں منسوب کرکے اپنے اسلام مخالف منگھڑت عقائد کی تشہیر کرتے ہوئے نظر آتا ھے۔اور افسوس کے ساتھ انجینئر محمد علی مرزا کے فتنے کی زد میں ہماری نواجوان نسل آرہی ہے جوکہ آنے والے وقت میں ہمارے دین و ملک کا سرمایہ ہے۔

انجینئر محمد علی مرزا کے مذموم عزائم کی زنجیر کی کڑیوں میں سے ایک کڑی امام ابن کثیر پر الزام ھے کہ انھوں نے جھوٹے مدعی نبوت مختار ثقفی کی تعریف کی ھے۔

سب سے پہلے ہم انجینئر محمد علی مرزا کے دعوے کا حافظ ابن کثیر کی کتاب سے بطلان ثابت کریں گے۔قارئین کی مزید تسلی و تشفی کیلئے سنی و شیعہ کتب ایسے دلائل سامنے رکھیں گے کہ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مختار ثقفی بہت بڑا کذاب ملعون اور مدعی نبوت تھا۔

انجینئر محمد علی مرزا کے اس الزام کا جواب دینے سے قبل میں سوال کروں گا اور اسکا جواب قارئین پر چھوڑ دوں گا کہ یہ وہی مرزا جہلمی ھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ان پر ہرزہ سرائی کرتا ھے لیکن جب مختار ثقفی جوکہ ایک متنازع شخصیت ھے اور اکثر کے نزدیک کذاب ھے اسکے لئے اتنا نرم گوشہ کیوں ھے؟

انجینئر محمد علی مرزا کی ایک متنازع شخصیت سے محبت اسکی اصل کی جانب اشارہ کررہی ہے۔

انجینیئر محمد علی مرزا نے امام ابن کثیر پر الزام لگایا کہ انھوں نے مختار ثقفی کی تعریف کی ھے جبکہ البدایہ والنہایہ اٹھا کر دیکھیں تو معاملہ اسکے برعکس نظر آتا ھے۔

(1) مختار ثقفی ناصبی تھا

حافظ ابن کثیر مختار بن ابی عبید ثقفی کے حالات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
شروع شروع میں یہ ( مختار ثقفی) ناصبی تھا اور حضرت علی سے شدید بغض رکھتا تھا۔ (2)
سوال یہ ھے کہ حضرت علیؓ سے شدید بغض رکھنے والا ناصبی اچانک سے اہل بیت کا محب کیسے بن گیا. ان شاءالله اگلے حوالے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مختار ثقفی کے یوٹرن کی اصلی وجہ کیا تھی.

(2) مختار ثقفی کی امام حسن کو قید کروانے کی سازش

قاتلین حسین کا بدلہ لینا ایک بہانہ تھا اصل میں مختار ثقفی دولت شہرت کا بھوکا انسان تھا اور حالات کے اتراؤ چرھاؤ کو خوب جانتا تھا یہاں تک کہ جسکا پلڑا بھاری ہو یا جسکی جانب اسکو اپنا نفع نظر آتا اپنا ووٹ بھی اسی جانب کردیتا تھا۔
صلح امام حسن کے بعد جب امام حسن کو اپنے لشکر سے بے وفائی کا خدشہ ہوا تو امام حسن ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ مدائن کے طرف چلے گئے ۔تو اسوقت مدائن کا نائب مختار ثقفی کا چچا تھا ۔مختار ثقفی بھی اس وقت مدائن میں ہی موجود تھا تو اس نے اپنے چچا سے کہا کہ اگر میں امام حسن کو گرفتار کرکے حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیج دوں تو حضرت امیر معاویہ کے نزدیک یہ میرا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
اور جب حضرت حسن نے انکی خیانت کو محسوس کیا تو آپ اپنے لشکر کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ مدائن کی طرف تشریف لے آئےتو مختار ثقفی نے اپنے چچا سے کہا اگر میں حضرت حسن کو پکڑ کر حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیج دوں تو ہمیشہ کیلئے اسکے نزدیک میرا ایک کارنامہ ہوگا۔اسکے چچا نے اسے کہا اے میرے بھتیجے تو نے مجھے بہت برا مشورہ دیا ۔(3)

دوستوں اس حوالے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مختار ثقفی ایک لالچی انسان تھا اور اسکے دل میں ہرگز اہل بیت کیلئے محبت نہیں تھی ۔مختار ثقفی بعد میں جب کوفہ کی مسند پر متمکن ہوا تو چونکہ بہت زیادہ عوام یزیدیوں کے فعل قبیح سے نالاں تھی تو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے قاتلین حسین کو قتل کیا ۔ورنہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جو حضرت علی و امام حسن کا اتنا سخت دشمن ہو اور پھر اچانک سے انکی اہل بیت کیلئے محبت کے جذبات پروان چڑھ جائیں۔

(3)مختار ثقفی کا صحابی رسول کو گالیاں نکالنا

مختار ثقفی حضرت علی و امام حسن کا ہی دشمن نہیں بلکہ صحابہ رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر کو بھی گالیاں نکالا کرتا تھا
چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
مختار ثقفی ظاہری طور پر حضرت ابن زبیر کی تعریف کرتا تھا جبکہ باطن میں انکو گالیاں نکالتا تھا۔(4)

(4) نزول وحی کا دعویٰ

اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ھے کہ وحی کا نزول انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ھے کوئی بھی غیر نبی اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی کا نزول ہوتا ھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
جبکہ مختار ثقفی کا دعویٰ تھا کہ معاذاللہ اس پر وحی کا نزول ہوتا ھے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
پھر مختار کی حکومت یوں ختم ہوئی کہ کبھی تھی ہی نہیں اور اسی طرح دیگر حکومتیں بھی ختم ہوگئییں اور مسلمان انکے زوال سے خوش ہوگئے اس لئے کہ وہ شخص فی نفسہ سچا نہیں تھا بلکہ جھوٹا تھا۔اور اسکا خیال تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ اس پر وحی آتی ھے۔ (5)

اگرچہ امام ابن کثیر نے مختار کذاب کے حالات میں اور بھی اسکے سیاہ کارنامے ذکر کیے ہیں ۔لیکن انجینئر محمد علی مرزا کے الزام کے رفع ہونے کیلئے مزکورہ بالا حوالہ جات ہی کافی ہیں۔
اب میرا قارئین سے سوال ھے کہ جو شخص ( ابن کثیر) مختار ثقفی کو ناصبی، امام حسن کا دشمن، صحابی رسول کو گالیاں دینے والا، نزول وحی کا دعویٰ کرنے والا لکھے وہ اس شخص کی کیسے تعریف کرسکتا ھے۔
لہذا ثابت ہوا کہ یہ انجینئر محمد علی مرزا کا حافظ ابن کثیر پر صریح بہتان تھا۔اسی طریقے کے ساتھ مرزا جہلمی اکابرین امت کی جانب غلط باتیں منسوب کرکے امت مسلمہ دجل دیتا ھے اللہ اسکے شر سے مسلمانوں کو محفوظ فرمائیں آمین۔


مختار ثقفی کےایمان و کفر کامسئلہ تاریخ سے تعلق رکھتا ہےتو محدّثین و مؤرخین اور جمہور علمائےکرام نےمختار ثقفی بن ابو عبید کےبارے کفر وارتداد کا ہی ذکر کیا ہے۔

(1) امام المحدثین امامِ ترمذی اپنی سننن میں حضرتِ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحدیثِ پاک ذکر تےہیں

عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثقيف كذاب ومبير : يقال : الكذاب المختار بن أبي عبيد ، والمبير : الحجاج بن يوسف

ترجمہ ۔رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا:ثقیف میں ایک بہت بڑا جھوٹا ہوگااور ایک ظالم ہوگا۔امامِ ترمذی نےکذاب و مبیر صفات کےناموں کی وضاحت فرما کر افراد کی تعیین بھی کردی :کذاب مختار بن ابو عبید ہےاور مبیر سےمراد حجاج بن یوسف ہے. (6)

(2).صحیح مسلم میں حدیثِ پاک کےکلمات میں "کذّاب ومُبِیر"پر حضرتِ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رائےکو شرح النووی میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے

وقولها في الكذاب فرأيناه تعني به المحتار بن أبي عبيد الثقفي كان شديد الكذب ومن أقبحه ادعى أن جبريل صلى الله عليه وسلم يأتيه واتفق العلماء على أن المراد بالكذاب هنا المختار بن أبي عبيد وبالمبير الحجاج بن يوسف


ترجمہ ۔مختار بن ابو عبید ثقفی بہت جھوٹا تھااور اس کا سب سےبڑا جھوٹ یہ تھا کہ اس نےدعویٰ کیا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آتےہیں ۔اور علمائےکرام کا اس بات پر اتفاق ہےکہ کذّاب سےمراد مختاربن ابو عبید ہیں اور مبیر سےحجاج بن یوسف مراد ہے۔ (7)

(3) فنِّ اسمائے رجال کے امام ذہبی علیہ الرحمۃ نےاپنی کتاب "میزان الاعتدال "میں مختار ثقفی کےبارےتحریر کرتےہیں کہ

المختار بن أبى عبيد الثققى الكذاب.لا ينبغى أن يروى عنه شئ،لانه ضال مضل.كان يزعم أن جبرائيل عليه السلام ينزل عليه.وهو شر من الحجاج أو مثله


ترجمہ ۔مختار بن ابی عبید ثقفی بہت بڑا کذاب شخص تھا ،اس سےکوئی بھی شےروایت کرنا مناسب نہیں ہےکیوں کہ وہ گمراہ،گمراہ گرتھا،اس کا گمان یہ تھا کہ جنابِ جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوتےتھےاور یہ شخص حجاج بن یوسف سےشر میں بڑھ کر تھا یا پھر اس جیسا تھا۔ (8)

(4) حضرتِ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب "تاریخ الخلفاء"میں تحریر فرمایا ہے کہ

وفي أيام ابن الزبير كان خروج المختار الكذاب الذي ادعى النبوة فجهز ابن الزبير لقتاله إلى أن ظفر به في سنة سبع وستين وقتله لعنه الله


یعنی حضرتِ ابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےزمانہ حیات میں ہی مختار ثقفی نےخروج کیا تھا ،جس نے نبی ہونےکا دعویٰ بھی کیا تھا تو حضرتِ ابنِ زبیر نےاسےقتل کرنےکےلیے لشکر تیار کیا جو کہ سڑسٹھ (67)ہجری اسے قتل کرنےکامیاب ہوا۔اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو۔(9)

اہل سنت کی مندرجہ بالا کتب کے حوالہ جات سے بھی ثابت ہوا کہ مختار ثقفی بہت بڑا کذاب اور جھوٹا مدعی نبوت تھا۔


جسطرح اہل سنت کے ہاں مختار ثقفی کا کفر و ارتداد ثابت ہوتا ھے اسی طریقے سے اہل تشیع کے ہاں بھی ہمیں ایسے حوالہ جات مل جاتے ہیں جس نے مختار ثقفی کا کفر و ارتداد ثابت ہوتا ھے۔

اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ اہل تشیع کے ہاں عقیدہ امامت کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ھے اور اہل تشیع کے مطابق جو بارہ اماموں میں سے کسی امام کا منکر ہو یا حقیقی امام کے مقابلے کسی اور کی امام تسلیم کرلے تو وہ شخص ایسے ہی ھے جیسا کہ اس نے تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا ۔

مختار ثقفی ناصرف تین اماموں ( امام حسن، امام حسین، امام زین العابدین) کا منکر تھا بلکہ انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کو امام تسلیم کرتا تھا ۔

سب سے پہلے ہم اہل تشیع کتب سے اس بات تو ثابت کریں گے کہ جو کسی امام کی امامت کا منکر ہو یا حقیقی امام کے مقابلے کسی دوسرے شخص کی امامت کا قائل ہو تو اہل تشیع مذھب میں اسے کیا سمجھا جاتا ھے۔اور اسکے بعد اس بات کو حوالے کے ساتھ ثابت کریں گے کہ مختار ثقفی تین اماموں کے امامت کا منکر تھا اور امام زین العابدین جوکہ اہل تشیع حضرات کے متفقہ چوتھے امام ہیں انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا۔

عقیدہ امامت کی اہمیت

(1) ابویعفور نے حضرت امام جعفر صادق سے سنا فرمایا تین آدمی ہیں کہ الله تعالیٰ بروز قیامت نہ تو ان سے گفتگو کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک فرمائے گا اور انکے لئے دردناک عذاب ھے پہلا وہ شخص جو اللہ کی طرف سے امامت کا دعویٰ کرے اور اس لائق نا ہو دوسرا وہ شخص و جو کسی امام کا انکار کرے اور تیسرا وہ جو یہ گمان کرے کہ ان دونوں ( یعنی مدعی امامت اور منکر امامت) میں کچھ اسلام ھے۔ (10)

(2) اسی طرح اعتقادات صدوق میں شیخ صدوق لکھتا ھے کہ

جو امام نہ تھا لیکن اس نے دعوی امامت کیا وہ ظالم ملعون ھے اور جس نے نا اہل کو امام بنایاوہ بھی ظالم ملعون ھے۔اور جس نے حضرت علی اور انکے بعد آنے والے آئمہ کی امامت کا انکار کیا اسکے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ھے کہ اس نے تمام پیغمبروں کی نبوت کا انکار کیا۔ اور اس شخص کے متعلق کہ جس نے حضرت علی کی امامت کو مانی لیکن بعد کے ائمہ میں سے کسی کی امامت کا انکار کیا ۔ہمارا عقیدہ یہ ھے کہ اس نے تمام پیغمبروں کو مانا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ (11)

مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ جو کسی امام کی امامت کا انکار کرے یا اسکے مقابلے کسی دوسرے شخص کو امام مانے تو ایسا شخص تمام انبیاء علیہم السلام یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا منکر ھے اور اللہ اس سے قیامت والے دن بات نہیں کرے گا اسے پاک نہیں کرے گا وہ ظالم ملعون شخص ہمیشہ دوزخ میں رھے گا۔

اب ہم دلیل کے ساتھ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مختار ثقفی نا صرف تین اماموں کی امامت کا منکر تھا بلکہ حضرت علی کے بعد محمد بن حنفیہ کو امام مانتا تھا۔

مختار ثقفی امام حسن حسین و زین العابدین کی امامت کا منکر

اہل تشیع مسلک کی دو معتبر کتابوں ( فرق الشیعہ و الشیعہ فی التاریخ) میں یہ بات ذکر ھے کہ

اہل تشیع میں سے ایک فرقہ وہ ھے جو جناب محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل و معتقد ہیں کیونکہ محمد بن حنفیہ یوم البصرہ ( جنگ جمل) کے وقت اپنے والد گرامی حضرت علیؓ کے جنھڈے کو اٹھانے والے ہیں۔انکے دونوں بھائی ( امام حسن و حسین) محروم تھے۔ اس فرقہ کا نام کیسانیہ رکھا گیا۔اسکی وجہ تسمیہ یہ ھے کہ مختار بن ابی عبید ثقفی اس فرقے کا رئیس اور بانی تھا۔اسکا لقب کیسان تھا۔یہ وہی شخص ھے کہ جس نے حضرت امام حسینؓ کے خون کا بدلہ طلب کیا۔اور قصاص مانگا۔چنانچہ امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا ۔اور اسکا اعلان تھا کہ مجھے اس کام پر محمد بن حنفیہ نے مقرر کیا ھے۔

وانہ الامام بعد ابیہ

اور اپنے والد بزرگوار کے بعد امام وہی ہیں۔(12)

اس حوالے سے ثابت ہوا کہ مختار ثقفی نا صرف تین اماموں کی امامت کا منکر تھا بلکہ امام زین العابدین کے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا اور فرقہ کیسانیہ کا بانی تھا۔

اور پچھلی روایات میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ایسا شخص جو کسی اور کی امامت کا قائل ہو یا کسی امام کا منکر ہو وہ ظالم، ملعون تمام انبیاء علیہم السلام کا منکر اور دائمی عذاب میں جلنے والا ھے۔

مختار ثقفی کے کذاب اور ملعون ہونے پر آخری خوالہ مزید پیش کرتا جاؤں

ًمختار ثقفی کا امام زین العابدین کی جانب جھوٹی باتیں منسوب کرنا

محمد بن الحسن، وعثمان بن حامد، قالا: حدثنا محمد بن يزداد الرازي، عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن عبدالله المزخرف، عن حبيب الخثعمي، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: كان المختار يكذب على علي بن الحسين عليهما السلام.


امام ابو عبداللہ (جعفر صادق) علیہ الرحمہ نے فرمایا:
مختار (بن ابی عبید ثقفی) امام علی بن حسین (زین العابدین) علیہما الرحمہ پر جھوٹ بولتا تھا۔ (23)

الحمد لله مذکورہ تمام حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ انجینیر محمد علی مرزا نےامام ابن کثیر پر بہتان باندھا تھا۔امام ابن کثیر نے کذاب مختار ثقفی کی ہرگز تعریف نہیں کی بلکہ امام ابن کثیر اور اہل سنت کی کتب کے مطابق مختار ثقفی بہت بڑا کذاب ملعون اور جھوٹا مدعی نبوت تھا۔

اور اہل تشیع کے مذھب کے مطابق ( امام حسن و حسین و زین العابدین) کی امامت کا انکار کرنے اور انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل ہونے کے سبب ظالم ملعون تمام انبیاء کی نبوت کا منکر اور دوئمی دوزخ میں رہنے کا مستحق ھے۔

قارئین سے گذارش ھے کہ ایسا شخص ( انجینیر محمد علی مرزا) جوکہ اکابرین امت پر ایسے بہتان لگائے کہ جسکا ثبوت اپنی کتب کے ساتھ ساتھ غیروں کی کتب میں بھی نا ملے تو کیا ایسا شخص اس قابل ھے کہ اسکی کسی بات پر یقین کیا جائے یا اسکو اپنا پیشوا تسلیم کیا جائے۔

اللہ امت مسلمہ کو شریروں کے شر سے محفوظ فرمائے آمین

حوالہ جات

(1)چینل انجینئر محمد علی مرزا، تاریخ23 اکتوبر 2016 مسئلہ نمبر 157 وقت 01:55 تا 02:16
(2) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 361 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی، طبع اول جنوری 1989
(3) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 361 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبع اول جنوری 1989
(4)البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 362 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبع اول جنوری 1989
(5) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 363 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی جنوری 1998
(6) سن الترمذی :رقم الحدیث 2220
(7) شرح صحیح مسلم للنووی : باب ذکر کذاب ثقیف
(8) میزان الاعتدال : ترجمہ مختار بن ابی عبید الثقفی حرف المیم جلد 6 ص 385 دار الکتب العلمیۃ بیروت
(9) تاریخ الخلفاء ،عبداللہ بن زبیر ص 252،دار صادر بیروت
(10) بخار الانوار جلد 46 باب امامت مطبوعہ تہران طبع جدید
(11) اعتقادات صدوق ترجمہ فارسی صفحہ 167 باب سی ہشتم اعتقادات در ظالماں مطبوعہ تہران طبع جدید
(12) فرق الشیعہ تصنیف حسن بن موسیٰ نوبختی شیعی صفحہ 23 مطبوعہ نجف اشرف طبع جدید
الشیعہ فی التاریخ تصنیف محمد حسن صفحہ 48 مطبوعہ قاہرہ
(13) رجال الکشی رقم 198 مطبوعہ کربلا

احمدرضا رضوی
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کے تحفظ میں امام احمد رضا کا نمایاں کردار

سید صابر حسین شاہ بخاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین
ہمارے پیارے نبی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد نبوت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہے۔اب جو کوئی بھی ظلی یا بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تووہ خبیث کافر،مرتد،زندیق اور واجب القتل ہے۔اسی پر ساری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ پھر عہد صدیقی میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کثیر تعداد نے اپنی جانوں پر کھیل کر مسیلمہ کذاب کا خاتمہ کیا ۔عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے یہ پہلا وہ عظیم جہاد ہے جس میں بارہ سو(1200)سے زائد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جام شہادت نوش کر کے دنیا پر اس کی اہمیت وافادیت ہمیشہ کے لیے واضح فرما دی تھی۔اسی طرح تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین نے ہر دور میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اپنا اولیں فرض سمجھا۔ برصغیر میں جب قادیان سے مرزا غلام احمد آنجہانی مسیلمہ پنجاب بن کر سامنے آیا تو اہل ایمان نے اس خبیث کا خوب خوب تعاقب کرکے ختم نبوت کے تحفظ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ان محافظین ختم نبوت میں مجدد دین و ملت الشاہ الحافظ القاری اعلیٰ حضرت محمد امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1340ھ/1921ء) کا کردار نہایت روشن اور نمایاں رہا۔بلکہ آپ کے سارے خانوادے کو ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے ہی سے شہرت ملی۔ مولانا احسن نانوتوی (م1312ھ/1894ء) نے جب حدیث اثر ابن عباس کی بنیاد پر اپنے اس عقیدے کا اعلان کیا کہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ بھی ہر طبقہ زمین میں ایک ایک "خاتم النبیین" موجود ہے تو اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ/1880ء) نے ان کی بروقت گرفت فرمائی اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو گمراہ اور خارج اہل سنت قرار دیا۔ نہ صرف بریلی بلکہ بدایوں اور رام پور کے مشاہیر علمائے کرام نے بھی آپ کے مؤقف کی حمایت میں اپنے فتاویٰ صادر فرمائے۔یوں برصغیر میں فتنۂ انکار ختم نبوت کا باضابطہ پہلا رد سرزمین بریلی شریف کے حصے میں آیا۔1315ھ/1898ءمیں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر حجتہ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ/1942) نے کتاب"الصارم الربانی علی اسراف القادیانی" لکھ کر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دنیائے ارضی پر دوبارہ تشریف آوری قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کرکےمرزاآنجہانی کےمکروفریب کاپردہ فرمایا۔
1317ھ/1899ھ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے"جزاء اللہ عدوہ باباہ ختم النبوۃ"لکھ کر ختم نبوت کے مطلب ایمانی ایک سو بیس اور منکرین ختم نبوت پر تیس نصوص کے تازیانے برسائے اس پر عرب وعجم کے علمائے کرام نے تصدیقات بھی فرمائیں۔1320ھ/1902ء میں آپ نے"السؤ والعقاب علی المسیح الکذاب" لکھ کر دس وجوہ سے قادیانی آنجہانی کا کفر ظاہر و باہر کرکے فرمایا کہ یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہ مرتدین کے احکام ہیں(اعلحضرت علیہ الرحمۃ کی اس کتاب کی تسہیل و تخریج و اضافہ کے ساتھ بنام کتاب قادیانی کذاب مولف مفتی سید مبشر رضا قادری چھپ چکی ہے،ایڈیٹر )۔
1320ھ/1902ء میں سیف اللہ المسلول مولانا فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ (م1289ھ/1872ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی بلند پایہ کتاب"المعتقد المنتقد" پر نہایت ہی عالمانہ اندازمیں"المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد"کے نام سے عربی میں حواشی لکھے جن کا اردو زبان میں ترجمہ تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خان الازہری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1439ھ/2018ء)کے قلم سے شائع ہو چکا ہے۔ان حواشی میں بھی آپ نے گمراہ فرقوں اور ان کے سرغنوں کا ذکر کرتے ہوئے مرزا قادیانی آنجہانی کے بارے میں صاف صاف فرمایا:" یہ مرزا ان جھوٹے دجالوں میں سے ہے جن کے خروج کی خبر صادق ومصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی،یہ دجال مرزا قادیانی اس زمانے میں موضع قادیان واقع پنجاب میں نکلا"۔1323ھ/1905ءمیں برادر اعلیٰ حضرت شہنشاہ سخن مولانا محمد حسن رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1326ھ/1908ء) نے بریلی شریف سےختم نبوت کے تحفظ کے لئے رد قادیانیت پر پہلا باضابطہ ماہ وار رسالہ جاری کیا،اس کا تاریخی نام"قہرالدیان علی مرتد القادیانی" رکھا اس کے اجراء میں آپ کو کثیر احباب کا تعاون حاصل تھا ان میں سے پچاسی (85) معاونین کے اسمائے گرامی رسالے کے اندرون سرورق پر شائع ہوئے تھے اس کے پہلے شمارے میں قادیانیت کے رد میں آپ کا مقالہ"ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری"کا پہلا حصہ بھی شائع ہوا تھا۔اللہ اللہ ،برادراعلی حضرت،رد قادیانیت میں کتنے متحرک تھے!۔1324ھ/1906ءمیں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک اہم قدم یہ اٹھایا کہ برصغیر کے چند گستاخوں کی کفریہ عبارات پر علمائے حرمین شریفین کی اکثریت سے تصدیقات و فتاویٰ حاصل کئے اور پھر اسے" حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین"کا تاریخی نام دیا۔اس میں مرزا آنجہانی کی کفریات وارتداد پر فتویٰ کفر نمایاں اور سر فہرست ہے۔1326ھ/1908ءمیں آپ کی مشہور کتاب"المبین ختم النبیین" سامنے آئی جس میں آپ نے ثابت فرمایا کہ مشہور آیت ختم نبوت میں"الف لام"استغراقی ہے،عہد خارجی کا لام نہیں،یعنی ہر قسم کے خاتم ہمارے آقا و مولاخاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،آپ کے بعد کسی طرح کی نبوت کا امکان نہیں۔1335ھ/1916ءمیں آپ کے قلم فیض اثر سے"باب العقائد والکلام "المعروف"گمراہی کے جھوٹے خدا"نامی رسالہ سامنے آیا اس میں آپ نے مختلف فرقوں کے"تصور توحید" کو طشت از بام فرمایا اور قادیانی آنجہانی کے"جھوٹے خدا"کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ قادیانی ایسے کو خدا کہتا ہے العیاذ باللہ۔ 1337ھ/1918ء میں مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک مرید کے خواب وبیداری میں کلمۂ طیبہ کی جگہ اور درود شریف میں بھی ان کا نام لینے پر زبر دست گرفت فرمائی اور "الجبل الثانوی علی کلیۃ التھانوی" میں ان کی خبر لی۔ 1339ھ/1920ء میں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کل ہند جماعت رضائے مصطفی" کا قیام عمل میں لایا۔اس کے اغراض و مقاصد میں،پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و عظمت کا تحفظ سر فہرست تھا ،جماعت نے اسلامی تشخص کے امتیاز وتحفظ اور فتنۂ ارتداد کے رد میں نہایت موثر کام کیا۔۔ مرزائیوں کی فتنہ سامانی کا جماعت رضائے مصطفے کے مناظرین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ،قادیانیوں کو جماعت کے مقابلے میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ جماعت رضائے مصطفے نے نشر واشاعت کے محاذ پر قادیانیت کے رد میں قلمی معرکۂ آرائیاں بھی جاری رکھیں۔ اسی جماعت کے زیر اہتمام رد قادیانیت میں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی ان کے صاحبزادگان،خلفاء وتلامذہ اور متعلقین کی کتابیں بھی شائع ہو کر عالم ہوئیں۔ 3محرم الحرام 1340ھ کو پیلی بھیت سے شاہ میر خاں قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی خدمت میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر مرزائیوں کے چند اعترضات استفتاء کی صورت میں بھیجے آپ نے علالت کے باوجود" الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی"(1340ھ) جیسے تاریخی نام سے یہ رسالہ سپرد قلم فرمایا۔جس کے نام کا اردو میں ترجمہ "قادیانی مرتد پر خدائی تلوار" ہے۔یہ رضا کے نیزے کی مار ہے۔ 25صفرالمظفر1340ھ کو عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ محافظ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔اللہ اللہ،آپ کا آخری قلمی جہاد بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے تھا۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ آپ کے فرزند اصغر مفتی اعظم علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں ایک یادگار رسالہ"تصحیح یقین بر ختم نبیین" رقم فرمایا۔ آپ کے خلفاء وتلامذہ نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔صدرالشریعہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب"بہار شریعت" کے آغاز ہی میں فتنۂ قادیانیت کی خوب نقاب کشائی فرما کر امت مسلمہ کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔اسی طرح آپ نے ہمارے ضلع اٹک کے معروف سنی عالم دین علامہ مولانا قاضی غلام گیلانی شمس آبادی رحمۃ اللہ علیہ (م1348ھ/1930ء) کی کتاب"تیغ غلام گیلانی برگردن قادیانی" اپنے اہتمام سے بریلی شریف سے شائع فرما کر عام کی تھی۔اسی طرح آپ کے خلیفہ مولانا قاضی عبد الغفور شاہ پوری رحمۃ اللہ علیہ نے"عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان" ،مبلغ اسلام علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ (م1373ھ/1954ء) نے مرزائیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور کتاب"مرزائی حقیقت کا اظہار" بھی لکھی۔۔ علامہ مفتی غلام جان ہزاروی رحمتہ اللہ علیہ (م1379ھ/1959ء) نے سیف رحمانی علی راس القادیانی" لکھی۔ علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ (م1380ھ/1961ء) نے "اکرام الحق کی کھلی چھٹی کا جواب"کرشن قادیانی کے بیانات ہزیانی"قادیانی مسیح کی نادانی اس کے خلیفہ کی زبانی" لکھی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ نعت"حدائق بخشش" میں بھی کئی ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے عقیدہ ختم نبوت مترشح ہے مثلاً:
سب سے اول سب سے آخر
ابتداء ہو،انتہاء ہو
سب تمہاری ہی خبر تھے
تم مؤخر مبتدا ہو
آتے رہے انبیاء کمال قیل لھم
والخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم
بزم آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اول کا جلوہ ہمارا نبی
فتح باب نبوت پہ ہے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام
آپ کے فرزند اکبر حجتہ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کےمجموعہ کلام"تحائف بخشش"سےدوشعرملاحظہ ہوں:
ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شئ علیم لوح محفوظ خدا تم ہو
نہ ہو سکتے ہیں دو اول نہ ہو سکتے ہیں دو آخر
تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو
اسی طرح آپ کے فرزند اصغر مفتی اعظم علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ کلام" سامان بخشش" میں بھی عقیدہ ختم کے تحفظ کے لئے سامان موجود ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
تم ہو فتح باب نبوت
تم سے ختم دور رسالت
ان کی پچھلی فضیلت والے
صلی اللہ علیک وسلم،صلی اللہ،صلی اللہ۔
‌‌ تمہیں سے فتح فرمائی تمہیں پر ختم فرمائی!
رسل کی ابتدا تم ہو نبی کی انتہا تم ہو
تمہارے بعد پیدا ہو نبی کوئی نہیں ممکن
نبوت ختم ہے تم پر کہ ختم الانبیاء تم ہو
مملکت خداداد پاکستان میں تحریک ختم نبوت 1953ء اور تحریک ختم نبوت 1974ء میں بھی نمایاں کردار اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء وتلامذہ کی اولاد امجاد کا رہا۔بلکہ ان دونوں تحریکوں کی فعال قیادت بھی علمائے اہل سنت ہی تھی۔ ان میں مجاہد ملت علامہ محمد عبد السّتار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ،مولاناابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید خلیل احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ حافظ قاری شاہ احمد نورانی صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار تو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ان کی ان تھک کاوشوں سے ہی مملکت خداداد پاکستان نے 7/ستمبر 1974ء کو سرکاری طور پر بھی قادیانیوں اور ان کے گماشتوں کو کافر قرار دیا تھا۔ اسی 2017ءمیں بھی جب ختم نبوت کی شق کو چھیڑا گیا تو اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے عقیدت مند علماء میدان عمل میں سامنے آئے اور کلمۂ حق بلند فرمایا۔ان میں علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا قائدانہ کردار پوری دنیا نے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور ہماری موجودہ قیادت کو بیداری عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ و اولیاء امتہ وعلما ملتہ اجمعین۔۔نوٹ: رضا اکیڈمی ممبئی کے روح رواں اسیر مفتی اعظم الحاج محمد سعید نوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی اس تحریک وتشویق پر یہ مقالہ قلم بند کیا ہے کہ اس بار دس شوال المکرم یوم ولادت اعلیٰ حضرت کو"یوم تحفظ ناموس رسالت کے طور پر منایا جائے اور اسی حوالے سے اہل قلم اپنی تحریریں قلم بند فرمائیں۔
دعا گو ودعا جو،گدائے کوئے مدینہ شریف،احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ"خلیفۂ مجاز بریلی شریف"۔ مدیر اعلیٰ الحقیقہ،ادارہ فروغ افکار رضا و ختم نبوت اکیڈمی برھان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان پوسٹ کوڈ نمبر 43710(٣١/مئی ٢٠٢٠ء بروز اتوار بوقت ٤:٢٦ظہر)
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اداریہ۔۔۔۔۔۔۔"رونمائی"

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین
‌ سیدنا و مولانا صاحب الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم
فتح باب نبوت پہ ہے حد درود::: ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں مبعوث فرماکر ،آپ کے سر تاج ختم نبوت سجا کر سلسلہ نبوت ورسالت کا ہمیشہ کے لیے اختتام فرما دیا۔اللہ تعالیٰ نے آپ پر آخری کتاب قرآن کریم نازل فرما کر سلسلہ وحی بھی بند فرما دیا۔ آپ آخری نبی ہیں،آپ پر نازل ہونے والی کتاب رشد و ہدایت"قرآن کریم"آخری آسمانی الہامی کتاب ہے۔یہ امت بھی آخری ہے۔دین اسلام ہرلحاظ سے کامل اور اکمل ہے۔ آپ قصر نبوت کی آخری اینٹ ہیں۔ آپ خاتم الانبیاء ہیں،آپ آخر الانبیاء ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت ایک ایسی بنیاد اور اساس ہے جس پر ہمارے ایمان وعقیدہ کی ساری عمارت کھڑی ہے۔ اگر اس بنیاد کو کسی نے ذرا سا بھی چھیڑنے کی کوشش کی تو اس کے ایمان وعقیدہ کی ساری عمارت اک دھڑام سے ڈھیر ہوجائے گی۔ اب اگر وہ شخص نماز ،روزہ، زکوٰۃ ادا کرے،اللہ کی توحید کا بھی قائل ہو لیکن عقیدہ ختم نبوت پر اس کا ایمان نہیں تو وہ بدبخت کافر،مرتداور زندیق ہے۔ اس کی حمایت میں بولنے والا،لکھنے والابھی اسی طرح کا کافر ہے۔ یہ وہ عقیدہ ختم نبوت ہے جس کی حفاظت کرتے ہوئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس پر عہد صدیقی میں یمامہ کے مقام پر سیف اللہ حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی معرکۂ آرائیاں اور سر فروشیاں شاھد و ناطق ہیں۔اسی طرح تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین نے ہر دور میں ختم نبوت کے منکرین کے خلاف ہرقسم کا جہادجاری رکھا۔ برصغیر میں 1900ءمیں قادیان (گورداسپور)سے مرزا قادیانی آنجہانی مسیلمہ پنجاب بن کر نمایاں طور پر سامنے آیا۔اس نے نہ صرف ظلی او بروزی نبوت کا ڈھونگ رچایا بلکہ اس نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام علیہم الرضوان،اہل بیت اطہار اور اولیائے کرام کی شان میں کتابیں لکھ لکھ کر ہرزہ سرائی کی۔آہ افسوس! یہ خبیث کسی غازی کے ہتھے نہ چڑھ سکا اور پھر یہ"فتنۂ عظیمہ" بن کر سامنے آیا۔اس کے تعاقب میں علماء ومشائخ نے ہرقسم کا تعاقب فرمایا۔اس کے خلاف قلمی جہاد فرمایا، اسے مناظرے کے لئے بلایا،لیکن یہ سامنے نہ آیا۔عدالتوں میں اس پر مقدمات قائم کیے یہاں یہ خوب ذلیل ورسوا ہوا۔یوں تو تمام علماء ومشائخ کا کردار نہایت نمایاں رہا لیکن قبلہ عالم حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ (1356ھ/1937ء) اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ( 1340ھ/1921ء) کا کردار آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ان دونوں کی یاد میں ختم نبوت فورم کے روح رواں مولانا مفتی سید محمد مبشر رضا قادری صاحب زید مجدہ نے ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"کا قیام عمل میں لایا۔2016ء میں اس کے چند شمارے شائع ہو ئے اور پھر یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہوگیا۔الحمدللہ علی احسانہ۔۔۔۔ذیقعد1441ھ/جولائی 2020ءسے اس کی اشاعت ثانیہ کا آغاز کیا جارہا ہے۔اس مجلہ کا مقصد وحید صرف ختم نبوت اور ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کرنا ہے اور امت مسلمہ کو قادیانی ذریت کی ریشہ دوانیوں سے باخبر رکھنا ہے۔منکرین رسالت کے مختلف گروہوں کی گوشمالی بھی اس مجلہ کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے۔ماشاءاللہ ،اس کی اشاعت ثانیہ کا دائرہ کار اس بار بڑھا دیا ہے۔اور اس کی مجلسِ ادارت اور مجلس مشاورت کے لیے پاک و ہند اور امریکہ و برطانیہ،اور دیگر ممالک سے بھی اہل علم و قلم کی خدمات حاصل کی ہیں۔ پیش نظر شمارہ میں مختلف نوعیت کے آٹھ مقالات ومضامین شامل ہیں۔ضیاء رسول نے مرزا کی ہجو لکھ کر حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی پیروی فرمائی ہے۔راقم نے"ختم نبوت کے تحفظ میں امام احمد رضا کا نمایاں کردار"پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر فیصل نے لبادہ احباب میں اغیار"کی خبر لی ہے۔ڈاکٹر سید تصدق حسین شاہ نے دیسی ملحدین کے ولائتی حربے" لکھے ہیں مولانا احمد رضا رضوی اور نعمان شاہ نے مرزا ثانی جہلمی کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دیا ہے۔ مبارک علی رضوی نے"خاتم النبیین کا درست ترجمہ ومفہوم"پیش فرما کر موضوع کا حق ادا فرما دیا ہے۔ ضیاء رسول امینی نے"قادیانیوں سے مسلمانوں کا اصل اختلاف؟ ترتیب دیا ہے۔ یہ ہے اس شمارے کے مشمولات پر ایک طائرانہ نظر۔اب فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ "الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"کے اس شمارے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔تمام قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ قادیانی ذریت اور اس کے گماشتوں سے اپنے عقیدے وایمان کو محفوظ رکھیں۔آج پھر قادیانی ذریت پر پرزے نکال رہی ہے۔لہذا خدا را اٹھو اور بیداری کا ثبوت دو۔قادیانی اٹھا ہے مسلمانو! اٹھو۔خواب سے بیدار ہو للہ دیوانو!اٹھو۔ حرمت دین محمد کے نگہبان!اٹھو۔شعلہ سامانی دکھاؤ شعلہ سامانو!اٹھو۔ وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ ومظھر لطفہ نور عرشہ و زینتہ فرشہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ و اولیاء امتہ وعلما ملتہ اجمعین۔
دعا گو ودعا جو: احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ
مدیر اعزازی،ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"......١٢/جون ٢٠٢٠ء بروز ہفتہ بوقت ٦:٤٠عصر
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
تاریخ ِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتﷺ(اقتباس کتاب حصہ اول)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مَاکَانَ مُحَمّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ولٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ()

’’ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں
ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے‘‘
(پارہ نمبر ۲۲ سورۃالاحزاب آیت نمبر ۴۰)
تاریخِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتﷺ
با جازت و فیضانِ نظر : پیر سخی سلطان فیاض الحسن سروری قادری
مؤلف : مقصود احمد اصلاحی
عہدِ نبوی ﷺسے لے کر دورِ حاضر تک کے حالات پر
لکھی جانے والی عالم اسلام کی ایک عظیم کتاب

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
جملہ حقوق بحق مٔولف محفوظ ہیں
نام کتاب: تاریخ ِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتﷺ
مؤلف: مقصود احمد اصلاحی ( سلطانی) ایم۔ اے پنجاب یونیورسٹی
تحصیل جنرل سیکرٹری حضرت سلطان باہو ٹرسٹ پاکستان
باجازت و فیضان نظر: چیئرمین ملی تحریک و قائد تحریک تحفظِ ناموس رسالت ﷺ
حضرت صاحبزادہ پیر سخی سلطان فیاض الحسن سروری قادری
نظرِ ثانی : صاحبزادہ حافظ علامہ محمد شاہد عارف نوری
منظور احمد عارف (سابق پروف ریڈر ’’روزنامہ خبریں لاہور‘‘
محمد بدیع الزمان بھٹی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور
قانونی نظر ثانی و مشیران : زاہد سرور قادری ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اسلام آباد
طاہر محمود سندھو ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور
کمپوزنگ: سید راشد حسین گیلانی اکبری قادری ظفر آرکیڈ مریدکے
تعداد: 1000 قیمت:
اشاعت اول : یکم فروری 2020؁ء
زیر اہتمام: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ ٹرسٹ پاکستان۔

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
درودِابراہیمی
حضرت عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے کعب بن عجرہ ملے تو میں نے کہا! میں تمہیں ایسا تحفۂ نہ دوں جو میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے؟ کہنے لگے! ضرور مجھے ایسا تحفۂ دیجئے: فرمایا ہم نے رسول اللہﷺ سے عرض کی یا رسول اللہﷺ ! آپ پر اہلِ بیت سمیت ہم کیسے درُود بھیجا کریں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںسلام کرنے کا طریقہ تو بتا دیا ہے۔ فرمایا تم یوں کہا کرو!

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ() اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیۡدٌ()

’’اے ا للہ! حضرت محمد(ﷺ ) پر اورحضرت محمد (ﷺ ) کی آل پر رحمت خاص بھیج جس طرح تو نے (حضرت )ابراہیم پر اور آلِ ابراھیم پر رحمت بھیجی۔ بے شک تو تعریف والابزُرگی والا ہے اے اللہ برکت نازل فرما حضرت محمد (ﷺ ) پر اور حضرت محمدﷺ کی آل پر جیسی برکت نازل فرمائی ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر یقیناً توتعریف والا ،بزرگی والا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری جلد دوئم حدیث <۳۳۷۰ باب کتاب الحدیث الانبیاءص۳۰۱ مترجم، صحیح مسلم حدیث ۹۰۷ تا ۹۰۹، سنن ابودائود حدیث ۹۷۶، ۹۷۷،۹۶۸، ترمذی شریف حدیث ۴۸۳، سنن نسائی شریف حدیث ?۱۲۶۹ جلد اول ص ۴۶۴ باب التمجید و الَصَّلَاۃِ النَّبِیِّﷺ فِیالَصَّلَاۃِ ، ابن ماجہ حدیث ۹۰۳)
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نُقْص جہاں نہیں
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نُقْص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دُھواں نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیٔ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک ’’نہیں‘‘ کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یُوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
کرے مصطفےٰ ؐ کی اِہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں مُحَمَّدِی! ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
تِرے آگے یُوں ہیں دَبے لَچے فُصَحَا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے مُنہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہدو یاس و اُمید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں
ہے اُنہیں کے نور سے سب عیاں ہے اُنہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں
وہی نورِ حق وہی ظلِّ ربّ ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فِدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تِرا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مِثل ہو تو مِثال دے
نہیں گُل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سَر وِ چَماں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں
کروں مدحِ اہلِ دُوَلْ رضاؔ پڑے اِس بَلا میں مِری بَلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دِین پارۂ ناں نہیں
(حدائق بخش ص ۱۰۷۔ازمام احمد رضا خان بریلو ی رحمت اللہ علیہ)
مؤلف کا پیغام ............ قارئین کے نام
معزز قارئین کرام! اس کتاب میں مسئلہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتﷺ ۔ غازیانِ اسلام اور جانثارانِ اسلام کی تاریخ رقم کی گئی ہے تاکہ مسئلہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ﷺ کی ہر خاص و عام کو سمجھ آسکے۔ اس کتاب کے ذریعے پیغام ہے کہ جب کسی فرد کے بارے میں علم ہو کہ اس نے حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے اور وہ شاتم رسول بن گیا ہے تو اس کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن میں قانون ناموس رسالتﷺ295(C) کے تحت مقدمہ درج کروائے/ FIRکی درخواست دے تاکہ اس کو عدالت کے ذریعے عبرتناک سزا مل سکے۔

مقصود احمد اصلاحی
مؤلف کتاب ہذا


یہ کتاب کیوں لکھی گئی؟

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیۡکَ یَا رَسُوۡلَ اللہِ
وَ عَلٰٓی آلِکَ وَاَصۡحَابِکَ یَا حَبِیۡبَ اللہِ

معزز قارئین کرام ! یہ کتاب کیوں لکھی گئی؟ اس کتاب کے لکھنے کی کیا وجوہات ہیں؟ دور حاضر میں اس کتاب کے مطالعہ کی اقوام عالم کو کیوں ضرورت ہے؟مسئلہ تحفظ ختم نبوت، ناموسِ رسالت اور حرمت رسول ﷺ کیاہے؟ جانثارانِ مصطفیٰ ، مجاہدین تحریک ختم نبوت، ناموسِ رسالت و حرمت رسولﷺ پیدا کرنا کیوں ضروری ہیں؟گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے لعین، حرمت رسول اور ناموس رسالت پر ناپاک حملے کرنے والےگیرٹ ولڈرز، مُرتدسلمان رُشدی، تسلیمہ نسرین جیسی بد بخت اور لعنتی انسانوں کو تعظیم و آداب ِرسولﷺ ،مسئلہ ختم نبوت سکھانا اور پڑھانا کیوں ضروری ہے؟ جانثارانِ مصطفیٰﷺ اپنی جانوں کا نذرانہ اپنے آقا و مولاﷺ کے قدموں پر نچھاورکرنے کے لئے، اپنے نام جانثارانِ مصطفیٰ کی تاریخ میں کیوں رقم کروانا چاہتے ہیں؟فتنہ قادیانی اور کذابوں کا سدِباب کرنا کیوں ضروری ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب درج ذیل ہے اور تاریخِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتﷺ تحریر کرنے کا سبب بھی یہی سوالات ہیں۔
قارئین کرام! جب میں نے لائبریریوںاور دوسری اقوام کے رسائل، اخبارات،کتب کے مندرجہ ذیل حوالے دیکھےجن میں آقا دو عالم ﷺ کی شان میں گُستاخیاں کی گئیں، ناموس رسالت اور حُرمت رسول پرسوشل میڈیا کے ذریعے ناپاک حملے کیے گئے۔ جب آزادی کے نام پر یورپ اور مغربی ممالک نے گُستاخانِ رسول کو پناہ دے کر ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی۔
٭ جب قادیانیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کیلئے سوشل میڈیا اور بعض کم علم سیاستدانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی چال چلی تو میرا دل زخموں سے چُورچُور ہو گیا ۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے ، روح پر بجلیاں گر گئیں، جس کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔
٭ 1935؁ میں’’"Story Of Muhammad‘‘" کے عنوان پرگُستاخانہ انداز میں ایک انگریز ملعونہ مصنفہ نے کتاب لکھی۔
٭ مارٹف کرو نے ’’Muhammad‘‘کے عنوان سے ایک دل آزار کتاب لکھی۔
٭ مول شنکر ایک ہندو نے ’’کتاب ستیارتھ پرکاش‘‘ 1874؁ء میں لکھ کر، امہات المومنین ، ازواجِ مطہرات مصطفےٰ ﷺ پر گُستاخانہ قلم اُٹھایا اور ایمان داروں کے ایمان پر ناپاک حملے کئے
٭ جب Life Of Muhammad"کے عنوان پر ایک انگریز مصنف سرویلم میور گُستاخِ رُسول نے گُستاخانہ کتاب لکھی۔
٭ جب جھوٹے نبیوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کرنا شروع کر دیئے۔
٭ جب راج پال ہندو نا شر نے رنگیلا....... کے عنوان سے ایک گستاخانہ کتاب ہندوستان میں شائع کروائی۔ جس کا پورا نام لکھنا میرے نزدیک بےادبی ہے۔
٭ سلمان رُشدی بدنام زمانہ شخص نے اپنی کتاب شیطانی آیات لکھ کر 1988؁ء میں شائع کرواکر اپنی زندگی کو چند ٹکوں میں فروخت کر کے ابدی جہنم خرید لی۔
٭ فرانس کے میگزین’’چارلی ایبڈو‘‘ نے 15جنوری2015کو گُستاخانہ خاکوں کی 30لاکھ کاپیاں یورپ میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔
٭ 6مئی2015 امریکہ کے شہر ٹیکساس میں گُستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا اور آقا ئے دو عالم ﷺ کے گُستاخانہ خاکے شائع کرنے والے گُستاخوں میں 10ہزار اور اڑھائی ہزار ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ۔
٭ جب26اگست2015ء کو سابقہ پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے پر حکومت پاکستان کے فیصلے کو غلط قرار دیا اور ان کو مذہبی آزادی دینے کی حمایت کی تب مجھ سمیت سرکار دو عالم ﷺ کے تمام جانثاروں ، عاشقانِ رسول ﷺ کی روح تڑپ اُٹھی۔
٭ 2010ء میں ضلع شیخو پو ر ہ کی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت میں یورپ سے آوازیں آنے لگیں۔
٭ مارچ 2017ء میں پاکستان کے اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ سوشل میڈیا پر آقائے دو عالم ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق گُستاخیاں کی جا رہی ہیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کی عدالت میںان گُستاخیوں کو روکنے کے لیے کیس دائر کیا گیا تو اس کیس کی سماعت کے دوران جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں ان کا ایمان اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا ان کی روح تڑپ گئی اور دوران سماعت مذکورہ جج صاحب نے کہا کہ اگر سوشل میڈیا مقدس ہستیوں کی توہین کو نہیںروک سکتا تو پھر پاکستان میں ایسے میڈیا کی ضرورت نہیں۔
(روزنامہ خبریں جلد 26 جمعرات 23 مارچ 2017ء لوکل ایڈیشن شمارہ 241)
٭ 2017ء میں تحریک ختم نبوت کے ترمیمی بل کے حوالہ سےپاکستان کے علمائے کرام نے سخت احتجاج کرکے پاکستان کے نظام ٹریفک کو بلاک کر دیا۔
٭ جب 2018ء میں سوشل میڈیا ، دنیا بھر کے اخبارات اور پاکستانی بگ چینل 7کے اینکر حسان ہاشمی اور دنیا بھر کی سوشل میڈیا نے ہالینڈ کی ملعون اسلام دشمن تنظیم اور سیاسی فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرٹ ولڈرز کے اس اعلان سے مطلع کیا کہ یہ ملعون ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گُستاخانہ خاکوں کی نمائش کرے گا اور اس ملعون نے دنیا بھر سےبذریعہ نیٹ، ای میل گُستاخانہ خاکوں کے نمونے وصول کرنے کا اعلان کیا اور اس گُستاخانہ خاکوں کی نمائش بذریعہ آن لائن بھی کرنے اور اس کے ملعون جج بوس فاسٹن جس نے ٹکساس امریکہ میں 2015ء میں امریکی ڈیفنس انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ہونے والے گُستاخانہ خاکوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کو جج مقرر کرنے کا اعلان کیا۔
15 مارچ 2019ء کو جب نیوزی لینڈ کے شہر مسجد نور اور مسجد لٹن میں آسٹریلوی باشندے برپٹن ٹیرینٹ 1:45 بجے مشین گن کے ساتھ داخل ہوا اور نماز جمعہ پڑھنے والے نمازیوں پر مشین گن کے ساتھ فائر کھول دیا۔ پھر 3منٹ تک مسجد میں فائرنگ کی اور ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے واردات کی ویڈیو لائیو (Live) اسٹریمنگ کرتا رہا۔ جس کے نتیجے میں تقریباً50نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ یہ بلاشبہ اسلام پر دہشت گردی کی گئی تھی اور بعد میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور مسلمانوں سے خراج تحسین پائی۔
چنانچہ ہر عاشق رسول کے دل کی آواز اور ملّت اسلامیہ کاپیغام بن کرراقم الحروف نے بھی اپنے مرشد چیئرمین ملی کونسل، قائد تحریک تحفظ ناموس رسالت صاحبزادہ پیر سلطان فیاض الحسن سروری قادری زیب سجادہ نشین دربار حضرت سُلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت و فیضان نظر سے تحفظ ناموس رسالت کی آواز بن کر کھڑا ہو گیا۔ گُستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں، ناموس رسالت اور حرمت رسول پر گُستاخانہ حملے کرنے والوں کوسابقہ گُستاخ ِ رسول کا عبرت ناک انجام پڑھانے، عظمت تاریخ اسلام سمجھانے اور مشرک و کفار کے ساتھ باہمی رشتہ داری سے بچانے کے لیے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی سے ان کوآگاہ کرنے کیلئے راقم نے قلم اُٹھایا تاکہ جب بھی کوئی ملعون گُستاخی رسول کا سوچے، گُستاخانہ کتاب لکھنے، گُستاخانہ فلم دکھانے، گُستاخانہ خاکے شائع کرنے کا ارادہ کرے تو فوراً اس کے دل و دماغ میں ابو لہب سے لے کر دور حاضر تک کے گُستاخانِ رسول کا عبرت ناک انجام تصویر بن کر ان کی بند آنکھوںکو کھول دیں اور ان کے بند کانوں کی کھڑکیاں کھل جائیں۔چنانچہ ان مقاصد کے حصول کے لئے اور ملّت اسلامیہ کے نوجوانوں کو بیدار کرنے کے لئے راقم الحروف نے تاریخ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺکے عنوان پر یہ کتاب لکھنے پرمجبور ہو گیا۔جو قیامت تک انشاءاللہ رہنمائی کرے گی۔یہ بھی عرض ہے کہ یہ کتاب ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ خادم حسین رضوی کی اسیری کے دوران لکھی گئی اور اس وقت کے ملکی حالات و واقعات کا اثر بھی مؤلف کے دل و دماغ میں رہا۔
’’اے گُستاخ رسول اور قیامت تک آنے والے کذّاب اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے بدبخت اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت، قرآن پاک پر ، اسلام پر، ناموسِ رسالت پر ناپاک حملہ کرنے والے بے ادب انسان تو ہمارے آقا حضور نبی کریم ﷺ کی عزت کم نہ کر سکے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرما دیا ہے کہ
وَرَ فَعْنَا لَکَ ذِکْرَ کَ ’’اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ‘‘
(سُوْرَۃُ اَلَمْ نَشْرَحْ پارہ ۳۰آیت ۴)
معزز قارئین ! اس کتاب جس کی تحریر کے لئے تین مرتبہ غازی علم الدین شہید رحمۃاللہ علیہ کے دربار قبرستان میانی صاحب نزد مزنگ لاہور اور دو بار غازی عامر عبدالرحمان چیمہ شہید کے دربار ساروکی شریف دربار حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ راقم نے بار بار حاضری دی اور غازی عامر چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے والد پروفیسرمحمد نذیر چیمہ سے انٹرویو بھی لیاتاکہ غازیوں اور جانثارانِ مصطفیٰﷺکے ہاتھوں گُستا خانِ رسولؐ کے انجام کی صحیح آگاہی قارئین کوملے اور ان کے پیغام کو پوری دنیا میں پہنچا یا جا سکے۔ کتاب ہذا کے ابتدائی حصہ میں مسئلہ ختم نبوت سابقہ انبیاء کی پیش گوئی، مسئلہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ﷺ عہد نبوی میں، صحابہ کرام کے دور میں، صحابہ کرام کے بعد کے دور میں، ۱۹۵۲ء؁ کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۳ء؁ کے آئین کے مطابق امتناع قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء؁کا تفصیلاً ہر خاص و عام انسان کو آگاہ کرنے کے لئے اور اس مسئلہ کی حساسیت کو سمجھانے کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے۔ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ﷺ پر اور توہین رسالت قانون 295-Cپر سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلوں سے اس کتاب کو مکمل کیا گیا ہے جو ہر قانونی ماہرین کے لئے بھی مدد کا باعث ہے۔ اس طرح اس کتاب کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ یہ غازیوں کے دربار پر بیٹھ کر لکھی گئی ہے۔ اس کے ہر باب کا آغاز درود و سلام کی فضیلت اور اہمیت سے کیا گیا ہے تاکہ دوران مطالعہ قارئین کرام پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے اور حضور نبی کریمﷺکا نام سُن کر درُود پاک نہ پڑھنے والابھی اپنا انجام دیکھ سکے۔ ؎
اُمتِ مسلم جاگ ذرا
ملعون نے پھر سے سر اُٹھایا ہے
میں شکرگزار ہوں،بزم اویسہ مریدکے،حضرت مولاناعلامہ محمد منشاء تابش قصوری ، قاری شاہد محمود چشتی خطیب اعظم لاہور، صاحبزادہ علامہ حافظ شاہد عارف نوری (فاضل بھیرہ شریف، ایم اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی، ایم فل)خلیل احمد ضیاء آف جھنگ، جناب زاہد سرور قادری ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اسلام آباد، سفیر ختم نبوت جناب محمد بدیع الزمان بھٹی ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ، حضرت صاحبزادہ پیر سخی سلطان فیاض الحسن محمد سروری قادری چیئرمین حضرت سلطان باہوٹرسٹ پاکستان جن کی رہنمائی و حوصلہ افزائی، اجازت اور فیضان نظر سے یہ کتاب لکھنے میں کامیاب ہوا جس کی ہر گھر ادارے اور ہر فرد کو ضرورت ہے ۔ ہر مسلمان سے اپیل ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ فرما کر تحریک ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت و حرمت رسول ﷺ کے لشکر کے مجاہد بنیں اور سرکار دوعالم ﷺکی حُرمت اور ناموس کے تحفظ کے لیے سر بکف ہو جائیں۔ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ وہ اس کتاب کو بازار سے حاصل کرکے اپنے دوستوں ، علمائے کرام اور مجاہدین تحریک ختم نبوت کو بطور تحفہ دیں۔
شکوۂ ظلمت شب سے یہ کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کا چراغ تم جلاتے جائو
نوٹ: صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید تمام غلطیوں سے پاک ہے اگر اس کتاب میں نا دانستہ کوئی غلطی رہ گئی ہو تو مہربانی فرما کر مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں یہ غلطی شائع نہ ہو سکے۔
حضور ﷺ میری تو ساری بہار آپ سے ہے
میں بے قرار تھا میرا قرار آپ ﷺ سے ہے
طالبِ دُعا
)مقصود احمد اصلاحی سُلطانی)
05اکتوبر 2019ء؁
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
لبادہِ اَحباب میں اغیار

ڈاکٹر فیصل

اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں ۔ایک وحدانیت اور دوسرا رسالت۔ وحدانیت میں اللہ تعالیٰ کی یکتائی ذات و صفا ت کے اعتبا ر سے مسلمہ ہے ۔اسی طرح رسالت بھی مسلمہ اصول ہے ۔اور ان دونوں اصولوں کی پختگی کی وجہ سے اسلام کائنات میں پھیلا۔ ان دونوں اصولوں کے اندر لچک قبول نہیں ۔ اسلام کی روز افزوں ترقی سے مخالفین اسلام واقف تھے۔ انھوں نے ان دونوں اصولوں کوہدف ِتنقید بنایا ۔ تو حید کے بارے میں لوگوں کے قلوب و اذھان کی پختگی کی وجہ سے مخالفین اسلام کو کوئی خاطر خواہ نتائج نہ ملےاور وہ ناکام ہوئے۔ پھر انھوں نے اسلام کے دوسرے اصول رسالت کو ہدفِ تنقید بنایا لوگوں کے قلوب و اذھان سے مقام ِرسالت اور خاص طور پر مقام ِمصطفیٰ ﷺکو مشکوک کر کے ذات مصطفی ٰ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تا کہ حضور ﷺ کی ذات گرامی کو ایک عام سے انسان کے رُوپ میں پیش کر کے اپنے مسلمانوں کے ذہنوں سے انفرادیت رسالت کا نظریہ محو کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کی جا سکے چونکہ تو حید کا پیغام آپﷺ کی زبان سے سنوایا گیا ہے لہذا رسالت مشکوک ہوگی تو توحید خود بخود مشکوک ہو جائے گی۔اس طرح اسلام کی عظمت کو داغ دار کیا جا سکے گا ۔لیکن اللہ تعا ٰلیٰ نے ان کے ان ناپاک مقاصد کو خاک میں ملا دیا ۔شروع اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی استقامت اور بعد کے ہر دور میں نبی ﷺ کے غلاموں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اس فرض کو نبھایا ۔برصغیر پاک و ہند میں برٹش گورنمنٹ کی سر پرستی و ایماء پر پنجاب کے ضلع گورداس پُور کے گائوں قادیان کے ایک ناہنجار مرزا غلام احمد قادیانی نے مخالفین اسلام کے ان مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذمہ لیا اور مثل مسیح سے مسیح موعود اور ۱۹۰۱؁ء میں نبوت کا دعویٰ کیا جس کے شر سے آج تک ملت اسلامیہ کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے اور نبی کے غلام ہر دور کی طرح آج بھی اس کی سرکوبی کے لئے میدان عمل میں موجود ہیں۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مَاکَانَ مُحَمَّد‘ُُابَااحَدِِمِنْ رِجاَلِکُمْ ولَکِنْ رسُولَِ اللہ ِ وَخاَتَم النَّبِیِّین‘‘(سورہ احزاب آیت نمبر ۴۰) جبکہ آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’انَا خَاتَم النَّبیِّین لانَبِیَّ بعدِیْ(ابی عاصم جلد اول صفحہ نمبر ۱۸۷) ( میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں )۔
مرزا غلام احمد قادیا نی نے اسلام کو مٹانے کا قصد کیا مگر خدائے وحدہ لاشریک نے اسے اس میں ناکام کیا۔جو مرزا غلام احمد قادیانی کذاب اور اس کو ماننے والوں کو اس کے عقائد باطلہ پر مطلع ہونے کے بعد اس کو ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان تصور کریں سمجھیں وہ کافر و مرتد ہیں ۔تمام مرزائی چاہے وہ پیغامی ہوں یا لاہوری یا قدنی ہوں یا میا نی یا اروپی ہوں یا ظہیر الدین کی اتباع میں ہوں یا گناچوری ہوںیا تیما چوری سب کے سب اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہیں۔ اس تحریر کو رقم کرتے ہوئے اس کے اور اس کے ماننے والوں کے کفریات نقل کرتے ہوئے قلم کانپتا ہے۔
قارئین گرامی قدر !اب مرزا کے صرف چند کفریا ت بمعہ حوالہ ملاحظہ کریں۔(نقلِ کفر ۔کفر نباشد)

کفریاتِ غلام احمد قادیانی و متبعین مرزا قادیانی
نمبر1:۔ ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتاہے حتیٰ کہ محمد ﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے‘‘۔(اخبارالفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۲؁ء قادیان)۔
نمبر2:۔ مرزا کہتا ہے کہ ’’قرآن شریف خداکی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں ‘‘۔(حقیقت وحی ص ۸۴)۔
نمبر3:۔ ’’اللہ نے میرا نام مریم رکھا‘‘ ۔(حقیقت وحی ص ۷۲،ص ۳۳۹)۔
نمبر4:۔’’ نبی ﷺ سے کئی غلطیاں ہوئیں کئی الہام سمجھ نہ آئے‘‘۔ (ازالہ الاوھام مطبوعہ لاہوری جلد ۲ ص ۳۶۳ مصنف مرزا قادیانی)۔
نمبر 5:۔ ’’نبی ﷺ سے دین کی مکمل اشاعت نہ ہو سکی میں نے پوری کی ہے‘‘۔( حاشیہ گولڑویہ ص ۱۶۵ مصنف مرزا قادیانی)۔
نمبر6:۔ ’’خدا نے میرا نام آج سے بیس سال پہلے براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے حضور ﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے‘‘۔ ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۱۰) ،( ضمیمہ حقیقۃ النبوت جلد نمبر ایک صفحہ نمبر ۲۶۲)
نمبر7:۔’’ آنحضرت ﷺ عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ یہ مشہور تھا کہ اس میں سور کی چربی پڑتی ہے‘‘ ۔(مکتوبات مرزاقادیانی ۔اخبار الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۴؁ء )
نمبر 8:۔’’روضہ اطہر مصطفیٰ (ﷺ) نہایت متعفن اور حشرات الارض کی جگہ ہے‘‘۔( حاشیہ گولڑویہ ص ۱۱۲ مصنف مرزا قادیانی )
نمبر9:۔’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو اور ایک زندہ علی(مرزا قادیانی) تم میں ہے اس کو تم چھوڑتے ہواور ایک مردہ علی (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو تلاش کرتے ہو‘‘۔(ملفوظات احمدیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۱)
نمبر 10:۔’’جو حدیث میرے خلاف ہو اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دو‘‘۔(اعجاز احمدی ص ۳۰ مصنف مرزا قادیانی)
نمبر11:۔ ’’جو میری جماعت میں داخل ہو وہ دراصل صحابہ کی جماعت میں شامل ہوا ‘‘۔(خطبہ الہامیہ ص ۱۷۱ مصنف مرزاقادیانی)
نمبر 12:۔’’بعض نادان صحابہ کہ جن کا درایت سے کچھ حصہ نہ تھا‘‘۔(ضمیمہ نصرت الحق ص ۱۲۰)
نمبر 13:۔ ’’دین کے لئے تلوار اٹھانانا جائز نہیں‘‘۔( حقیقت الوحی ص ۱۵۵)
نمبر 14:۔’’سچا خدا وہی ہے کہ جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ‘‘۔( دافع البلاء جلد ۷ ص ۱۱)
نمبر 15:۔’’ سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور برگزیدوں کو دی گئی‘‘ ۔(حقیقت الوحی جلد ۷ ص ۶۲)
نمبر 16:۔ ’’اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آئو میری(مرزا قادیانی) کی پیروی کرو‘‘۔( حقیقت الوحی جلد ۶ ص ۷۹)
نمبر 17:۔’’ایک نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے مگر خدا کی وحی میں غلطی نہیں ہوتی ہاں اس اس کو سمجھنے میں اگر احکام شریعت کے متعلق نہ ہو کسی نبی سے غلطی ہو سکتی ہے ‘‘۔ (تتمہ حقیقت الوحی جلد ۱۰ ص ۱۳۵)
نمبر 18:۔ ’’اوردانیال نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام (مرزاقادیانی)میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں میکائیل کے معنیٰ ہیں خدا کی مانند ‘‘۔(اربعین نمبر ۳ حاشیہ ۶ ص ۲۵)
نمبر19:۔ ’’میری وحی کے مقابلے میں حدیث مصطفی(ﷺ)کو ئی شے نہیں‘‘۔ ( اعجاز احمدی ص ۵۶ از مرزا قادیانی)
نمبر20:۔ ’’قرآن میں گندی گالیاں بھری ہوئی ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کرتا ہے‘‘۔(ازالہ اوھام ص ۲۸،ص۲۹از مرزا قادیانی)
نمبر 21:۔ ’’ابو بکر و عمر کیا تھے وہ حضرت مرزا قادیانی کی جو تیوں کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیںتھے‘‘۔( ماہنامہ المہدی بابت ماہ جنوری فروری 3/2/1915ص۵۷ انجمن احمدیہ اشاعت لاہور )
نمبر 22:۔ ’’کربلا میری روز کی سیر گاہ ہے حسین جیسے سینکڑوں میرے گریبان میں ہیں ‘‘(نزول المسیح ص ۹۹)
نمبر 23:۔ ’’ابوہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے‘‘۔( ضمیمہ براہین احمدیہ جلد ۵ ص ۲۳۵)
نمبر 24:۔مرزا جی کہتے ہیں کہ ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں‘‘۔(اخبار بدر مندرجہ حقیقۃ النبوۃ مئولفہ بشیر الدین محمود جلد ۱ ص ۲۷۲ ضمیمہ ۳)
نمبر 25:۔ ’’انبیاء گر چہ بو دندے ۔۔۔۔۔من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے‘‘۔(نزول مسیح ص ۹۷ مطبع اول قادیان)۔
( یعنی ’’انبیا ء اگرچہ بہت سے ہوئے ہیں مگر میں معرفت میں کسی سے کم نہیں‘‘
نمبر26:۔ مرزا بشیر الدین قادیانی کہتے ہیں کہ’’کل جو مسلمان حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہ ہوئے خواہ انہوں نے مسیح موعود کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘ ۔( آئینہ صداقت ص۳۵)،( تشحیذالاذھان ص ۱۴۰)
نمبر 27:۔ ’’ جو شخص میری جماعت میں شامل ہوا وہ در حقیقت سردار ، خیر المرسلین (ﷺ) کے صحابہ میں شامل ہوا ‘‘۔( خطبہ الہامیہ ص ۲۵۸)
نمبر 28:۔’’ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ۔۔۔۔۔اس سے بہتر غلام احمد ہے ‘‘۔( در ثمین ص۵۸)،( القول الفصیح ص۱۴ مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان)
نمبر 29:۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم میں ہے کہ ’’ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور پر میں ابن مریم ٹھہرا ‘‘۔ ( کشتی نوح ص ۴۷ مندرجہ روحانی خزائین جلد ۱۹ ص ۵۰ از مرزا قادیانی)
نمبر30:۔’’قرآن کریم میںانبیاء کے منکروں کو کافر کہا گیا ہم آپ کو(مرزا قادیانی) نبی مانتے ہیں جو آ پ کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے‘‘۔ ( تشخیذالاذھان جلد ۶ ص۱۲۱)
نمبر 31:۔ ’’اللہ نے میرا نام (مرزاقادیانی) نبی رکھا ہے اور مسیح موعود سے پکارا ہے‘‘ ۔( تتمہ حقیقۃ الوحی ص7، ص28)۔
نمبر 32:۔ ’’ایک نبی کیا میں تو کہتا ہوں کہ ہزاروں نبی اور ہوں گے ‘‘ (انوار خلافت ص ۶۲)
نمبر 33:۔ ’’جو غیر قادیانی ہے اس کا جنازہ نہیں ‘‘ (اخبار الفضل جلد ۲ ص۲ ،ص۱۳۶،مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۳۶؁ء)
نمبر34:۔’’ جو مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے‘‘ ۔( عقائد محمودی جلد ۸ ص۲۱ اخبار الفضل قادیان جلد ۳ ص۷)
نمبر35:۔قادیانیوں کا کلمہ ’’لا الہ الااللہ احمد جری اللہ ‘‘ ۔( رہنمائے محمود حاشیہ ص۱،ص۲)
گرامی قدر قارئین!آپ نے مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کے مذکورہ بالاچند عقائد و نظریات ملاحظہ فرمائے ۔مرزا قادیانی نے جو حضرت سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں جو کہا اس کو قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔ قادیانی تو پاکستان کے بھی خیر خواہ نہیں انہوں نے کہا کہ’’ ہم پاکستان میں یقین نہیں رکھتے ‘‘۔( سربراہ تحریک احمدیہ ص ۲۶)۔
المختصر قادیانیوں کے بے شمار کفریہ عبارات اور کفریہ عقائد ہیں ۔احمدی( قادیانی) بلاشبہ کافر ہیں اور یاد رکھیں کہ اگر کافر کو کافر نہ کہا جائے تو یہ بھی کفر ہے ۔ اس میں احتیاط نہیں کیونکہ احتیاط شک کی جگہ ہوتی ہے ۔جس نے قطعا یقینا دین کا انکار کیا جس نے انبیاء کرام ﷺکو گالیاں دیں ۔جس نے نبوت کا دعوی ٰ کیا جس نے قرآن کی اللہ کے حضور ﷺ کی ، سیدہ طیبہ فاطمۃ الزہرہ کی، صحابہ کرام کی، خلفائے راشدینن کی اور مسلمانوں کی تو ہین کی اور ضروریات دین کا انکار کر لے وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے اور وہ خود کافر ہو جاتا ہے ۔ اس پر تمام مفتیان عظام اور علمائے کرام کا اتفاق ہے ۔
قادیانی کون ہے؟ ۔
جس کا عقیدہ ہو کہ مرزا اللہ کا نبی اور رسول ہے، نبی قادیانی کی شکل میں آئے ہیں، مرزا کا قول قولِ فیصل ہے ، قرآن قادیان کے قریب نازل کیا گیا ، کلمہ میں جہاں محمد ہے اس سے محمد عجمی(مرزاقادیانی) مراد ہے، مرزا قادیا نی رحمۃ اللعالمین ہیں، مرزا کی بیٹی سارے نبیوں کی بیٹی ہے، مرزا کی اولاد شعائراللہ ہے ، مرزا کی بیوی ام المومنین ہے ، مرزا کے گھر والے اہل بیت ہیں، مرزا کی باتیں احادیث ہیں ، مرزا کے جانشین خلفائے راشدین ہیں، قادیان اور بوہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح ہیں ، پاکستان ختم ہو جائے گا ، اور اکھنڈ بھارت بنے گا عنقریب پاکستان میں قادیانیوں کی حکمرانی ہو گی، مرزا کو نبی نہ ماننے والاکافر ہے، غیر احمدی کا جنازہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
علمائے اہلسنت نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے
مجدد دین و ملت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ:۔
اعلٰحضرت مجدد دین و ملت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’اللہ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا مسلمان پر جس طرح لاالہ الااللہ ماننا ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو احد، الصمد ،لا شریک جاننا، فرض اولیٰ اور مناط ایمان ہے۔یوں ہی حضرت محمد ﷺ کو خاتم ُالنبیین ماننا ،ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا قطعا محال و باطل جاننا فرض ہے۔ ولکن الرسول اللہ و خاتم النبیین نص قطعی قرآن ہے اس کا منکر ،نہ حرف منکر بلکہ شبہ کرنے والا ،معمولی سا وہم رکھنے والا قطعا اجماعا کافر ہے ۔نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کو عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جا نے وہ بھی بین الکافر جلی الکفران ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)
تاجدار گولڑہ قاطع قادیانیت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمۃ ُاللہ علیہ:۔
تاجدار گولڑہ شریف پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے احمد قادیانی سے تحریری مناظرہ کیا اور آپ کی شہرہ آفا ق کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘ منظر عام پر آئی ۔
آپ نے تقریری مناظرہ کے لئے مرزا قادیانی کو بلایا مگر وہ نہ آیا ۔آپ نے فرمایا تھا کہ’’مرزا مناظرہ کے لئے آیا تو ایسی شکست سے دو چار ہوگا کہ زندہ نہیں جائے گا ‘‘۔پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’مرزا نہیں آئے گا ‘‘اور کہاکہ’’مرزا ۲۴ گھنٹے میں مر جائے گا ‘‘ اور اسی طرح ہوا ۔ پیر مہر علی شاہ صاحب نے ختم نبوت کے لئے زندگی میں شب و روز کام کیا
مجاہد ختم نبوت مولانا امام الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ:۔
حق وصداقت کی نشانی مولاناامام الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے ۳۰ جون ۱۹۷۴ ؁ء کو قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جس پر ان کے علاوہ ۲۶ ممبران نے دستخط کیے ۔ جس پر ایک کمیٹی بنائی گئی اور شب و روز کام کیا ۔ آپ کو نہ ڈرایا جا سکا اور نہ ہی خریدا جا سکا۔ ۷ ستمبر ۱۹۷۴؁ء کو اسمبلی میں قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا ۔
حافظ الحدیث پیر سید جلال الدین شاہ صاحب مشہدی رحمۃُ اللہ علیہ بِھکھی شریف :۔
حافظ الحدیث والقرآن استاذالعلماء پیر سید جلال الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے طلباء تحریک ختم نبوت میں پیش پیش رہے ۔کئی گرفتاریاں دیں ۔آپ کے صاحبزادوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مگر آپ موقف سے نہ ہٹے ۔ آپ تحریک میں ہر طرح کی رہنمائی فرماتے رہے۔(انوار حافظ الحدیث)
فتوی علمائے برصغیر پاک و ہند
رجب المرجب ۱۳۳۶؁ھ میں ایک استفتاء برصغیر کے تمام مکاتب فکر سے کیا گیا جو تکفیر قادیان کے نام سے شائع ہوا اس میں بریلی شریف ، بیلی بھیت ،شاہجہانپور ، سہارنپور ،دہلی، کلکتہ ، بنارس، لکھنو، آگرہ، مراد آباد، لاہور، لدھیانہ ، پشاور ، راولپنڈی، ملتان ، گورداس پور ، ہوشیار پور ، جہلم،
سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، گجرات، حیدرآباد، بھوپال اوررامپور کے تمام مکاتب فکر اور تمام دینی مراکز کے علماء نےبالاتفاق قادیانیوں ،مرزائیوں،احمدیوںکوکافراوراسلام سے خارج قراردیا۔ (فتویٰ تکفیر قادیان شائع کردہ کتب خانہ اعزازیہ دیو بند ضلع سہارنپور )
فتویٰ علمائے حجاز و شام
ایک فتویٰ مئوسسۃ مکۃ المکرمہ للطباعۃوالاسلام کی طرف سے حرمین شریفین میں شائع ہوا تھا اس میں بلاد حجاز ،دمشق اور شام کے چاروں مذاہب کے علماء کا فیصلہ درج ہے اس کے چند جملے یہ ہیں
’’ لاشک ان اذنابہ من القادیانیۃ ولا ہوریۃ کلھا کافرون ‘‘ (القادیانیۃ فی نظر العلماء الامۃ الاسلامیۃ ص ۱۱ طبع مکۃ المکرمہ )
’’اس میں شک نہیں کہ مرزا غلام احمد کے تمام متبعین خوا قادیانی ہوں یا لاہوری سب کافر ہیں ‘‘
اے مسلمانانِ پاکستان !
جب کوئی ہماری ماں یا باپ کو گالی دے تو ہمارے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ہم غصے میں آجاتے ہیں ہم بھی کشت و خون کے لئے تیار ہو جاتے ہیں آئو مسلمانو سوچتے ہیں اور خوب سوچتے ہیں عقل و فکر کے چراغ روشن کر کے سوچتے ہیں دل و دماغ کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں ،ہمارے نبی محترمﷺ پر نہیں اترا ،کیا فاطمہ خاتونانِ جنت کی سردار نہیں، ابو بکر وعمر اور علی المرتضی ٰ اور ابو ہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اللہ کے پیارے محبوب ﷺ کے صحابہ اور جگری یار اور ہمارے بزرگ نہیں؟
قادیانیوں کے ساتھ محبت بھرے جذبات رکھنے والوں ،قادیانیوں کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والو!کیا جب تم قادیانیوں سے ملتے ہو تو گنبد خضریٰ میں آقاکریم ﷺ کا دل دکھتا نہیں ہو گا ؟ میرے مسلمان بھائیوں اپنے ایمان کو ضائع نہ کرو۔ان کی تقریبات ان کے ساتھ تعلقات کا بائیکاٹ کریں تا کہ بروز قیامت ہم سرخرو ہو سکیں تا کہ ہم آقاکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ تا کہ ہم جہنم کے حقدار نہ بنیں ۔
ادنیٰ گذارش:۔
مقررین حضرات اپنی شعلہ نوائیاں ،اپنی فصاحت و بلاغت ،اپنا علم و عرفان اور اہل قلم حضرات فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے قلم سے تلوار کا کام لیں۔ اساتذہ و پروفیسرز حضرات کو چاہیے کہ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں ختم نبوت کے ذیشان موضوع پر لیکچرز کا اہتمام کریں تا کہ ہماری نئی جنریشن (نئی نسل) زیور تعلیم ختم نبوت سے آراستہ ہو سکے۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی تو فیق دے یااللہ اس مملکت خداداد کو تا صبح قیامت قائم ودائم رکھنا یااللہ اس کو استحکام نصیب فرما ۔یااللہ اس کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا۔یااللہ اس کو اندرونی وبیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ ۔یااللہ اسے فتنوں سے آفات و بلیات سے بچا۔ آمین ثم آمین
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
دیسی ملحدین کے ولائتی حربے

ڈاکٹرسید تصدق حسین شاہ
ملحد ، دہریہ یاAtheistسے مراد ایسا شخص ہے جو کسی دین کا پیروکار نہ ہو ۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ کائنات خود سے معرضِ وجود میں آئی اور خود بخود نظام ِ کائنات چل رہا ہے ۔اگر ملحدین کی سوچ کو پڑھا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ملحدین بھی لاشعوری طور پر اپنے من چاہے خدا پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ جس طرح مذہبی لو گ خدا کو بن دیکھے یقین کامل رکھتے ہیںاور خدا کے کلام کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ملحدین بھی اپنے خداؤوں پر بن دیکھے یقین رکھتے ہیںظاہر سی بات ہے کہBig Bang Theoryہو یا Evolution Theoryکسی بھی ملحد نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ یہ جن کی تقلیدکرتے ہیں انہوں نے بھی یہ سب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا ایک وقت تھا جب ان کا خداCharles Darwinتھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا خدا تبدیل ہوا اور آج کل اکثر ملحدین کے خدا Stephen Hawkingاور Richard Dawkinsہیں جس کی ہر وہ بات ملحدین آنکھیں بند کر کے مانتے ہیںجس سے مذہب اور خدا پر اعتراض قائم ہوتا ہو لیکن ڈاکنز کے اس بات کو یکسر پسِ پشت ڈال چکے ہیں جو اس نے اپنے ایک انٹر ویو کے دوران کہی کہ اس کائنات کو کسی ذہین ڈیزائنر نے ڈیزائن کیا ہے اور اسکے نزدیک وہ کوئی ایلین ہوسکتے ہیں ۔ اسکی تفصیل ہمارے چینل پر موجود ویڈیو ’’ملحدین کے خدا کی کائنات ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
بہرحال دنیامیں الحاد یت دو طرح کی پائی جاتی ہے ایک علمی اور دوسری تنقیدی ۔علمی کا وجود تو دیسی ملحدین میں مفقوداور رہی تنقیدی الحادیت تو اس کو اگر آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو اسے ہم دیسی الحاد کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اسکی وجہ وہی دیسی ملحدین کے ولائتی حربے اور بے تکے اعتراضات ہیںجن کو دیکھ کر بندہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ علم ان بیچاروںکے قریب سے بھی نہیں گزرا اور ان کا نشانہ ہدف فقط مذہب اور خدا کا انکار کرنا ہے ۔ مثلا اگر خدا ہے تو لوگ قحط اور غربت کی وجہ سے کیوں مر رہے ہیں ؟ خدا خود کو ظاہر کیوں نہیں کرتا۔خدا گنہگاروں کو عذاب کیو ں دے گا، اسلام میں عورت کو آزادی کیوں نہیں دی؟اسلام نے غلامی کیوں نہ ختم کی وغیرہابے ڈھنگے سوالات کی آڑھ میں نوجوان نسل کے اذھان کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔علم دین سے دوری کے سبب کچھ نوجوان ان کا شکار بھی ہو جاتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو قرآن کے اس اصول کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ خدا کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا۔
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاکَ وَأَنَّ للَّہَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلعَبِیدِ ( سورۃ حج آیت نمبر10)
یہ اسکا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
آج دنیا میں جہاں بھی ناانصافی ہے اسکا سبب بعض خود غرض اور لالچی انسان ہیں جن کامقصد صرف اپنا الوسیدھا کرنا ہوتا ہے ۔ اگر کسی انجینئر کی غلط منصوبہ بندی کے سبب کوئی عمارت گر جائے یا کوئی پل منہدم ہو جائے تو اسکا الزا م اللہ پر لگانا کس قاعدے قانون کا حصہ ہے؟1945ء دوسری جنگِ عظیم میں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم انسانو ں کی ہوس بے جا کی وجہ سے گرایاگیا اب کیااس کا الزام بھی خدا پر لگانا عقلمندی ہو گی ؟Hitlerکے ہاتھوں چھے ملین (ساٹھ لاکھ) لوگ قتل ہوئے بچے یتیم ہوئے عورتیں بیوہ ہوئیں تو کیا ان سب کا الزام بھی خدا پر لگایا جائے گا ؟بے شمار واقعات سے دنیا بھری پڑی ہے جو یہ چیخ چیخ کر پکارتے ہیں کہ ظلم و ستم اورجبرو ناانصافی خدائی تسلط نہیں ہے بلکہ انسانی بے جا خواہشات کا نتیجہ ہیں ۔
دراصل یہ تمام اعتراضات اس غلط مفروضے پر قائم ہیں کہ اللہ کو ان ظالموں کی پکڑ کرنی چاہیے اور انکو فوری سزا دینی چاہیے ۔لیکن اللہ کریم نے انسانوں کے لیے ایک نظام مقرر کیا ہے ۔
وَلَوْ یُؤَاخِذُ للَّہُ لنَّاسَ بِمَا کَسَبُواْ مَا تَرَکَ عَلَیٰ ظَہْرِہَا مِن دَآبَّۃٍ وَلَـٰکِن یُؤَخِّرُہُمْ إِلَیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کئے پر پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر چلنے والا کوئی نہ چھوڑتا لیکن ایک مقررہ میعاد تک انہیں ڈھیل دیتا ہے ۔(سورۃ فاطرآیت نمبر45)
رہی بات یہ کہ خدا اگر چاہے تو یہ تمام ظلم و وستم اور بربریت و ناانصافی ختم کر دے لیکن وہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔لہذا خدا نہیں ہے ۔تو اس فرسودہ اعتراض کے جواب میں یہی کہوں گا کہ ملحدین مشیت الہیٰ اور رضائِ الہیٰ میں فرق کرنے سے قاصر ہیں کیوںکہ یہ ٹھہرے بیچارے دیسی !
اللہ کریم کی رضا تو یہی ہے کہ انسان تمام اخلاقی و مذہبی قوانین پر عمل پیرا ہوں لیکن اس نے انسان کو مثل پتھر مجبورِ محض پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کر سکے بلکہ ان اخلاقی و مذہبی قوانین کے خلاف عمل کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ۔اسکو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص راستے سے گزر رہا ہو اورکیچڑ راستے میں پڑا ہو اب اس شخص کو اختیار ہے کہ کیچڑ سے بچ کر اپنی منزل کی طرف بڑھے یا کیچڑ میں نہانا شروع کر دے ، اب اگر یہ شخص کیچڑ میں لیٹ جائے اور اس میں نہانا شروع کر دے پھر اٹھ کر شور و غوغا مچانا شروع کر دے کہ اگر خدا ہوتا تو مجھے کیچڑ میں گرنے سے بچالیتا اور ایسے شخص کی عقل پر سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں بچتا۔ سورۃ کہف آیت نمبر29 میں ارشاد ہے
وَقُلِ لْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآء َ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَآء َ فَلْیَکْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِینَ نَاراً
اور فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ بے شک ہم نے ظالموںکے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔
ایمان کفر دونوں کا انسان کو اختیار دیا گیایہ مشیت ہے لیکن سورہ مائدہ میں اسلام کو پسندیدہ کہا جو کہ رضا ہے ۔
وَرَضِیتُ لَکُمُ لأِسْلاَمَ دِیناً سورہ مائدہ آیت نمبر3
اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
اسی طرح اللہ کے کلام قرآن مجید پر ایمان لانا اللہ کی رضا ہے جبکہ کفر کا اختیار دینا اس کی مشیت ہے لیکن کفر کی صورت کو دنیا و آخرت کا خسارہ قرار دے کر اپنی رضا کا بھی اعلان کر دیا۔سورہ بقرہ آیت نمبر 121میں فرمایا۔
وَمن یَکْفُرْ بِہِ فَأُوْلَـٰئِکَ ہُمُ لْخَاسِرُونَ بقرہ آیت نمبر121
اور جو اسکا انکار کرے تو وہی لوگ خسارے میں ہیں ۔
آخر میں تمام دیسی ملحدین کے لیےGlynn Patrick کے الفاظ میں دعوتِ فکر دوں گا یاد رہے کہ Patrickبذات خود ایک ملحد ہے لیکن ہمارے ہاں پائے جانے والے تنقیدی ملحدین میں سے اسکا شمار نہیں ہوتا بلکہ علمی ملحدین میں اسکا شمار ہوتا ہے اپنی کتا ب
God: The Evidence (The Reconcilitation of Faith and Reason in Postseculat World)
کے صفحہ نمبر,20 19پر لکھتا ہے کہ
The past two decades of research have overturned nearly all the important assumptions and predictions of an earlier generation of modern secular and atheist thinkers relating to the issue of God. Modern thinkers assumed that science would reveal the universe to be ever more random and mechanical; instead it has discovered unexpected new layers of intricate order that bespeak an almost unimaginably vast master design. Modern psychologists predicted that religion would be exposed as a neurosis and outgrown; instead, religious commitment has been shown empirically to be a vital component of basic mental health
پچھلے دو عشروں کی ریسرچ نے جدید سیکولر اور ملحد مفکرین کی پچھلی نسل کے تمام مفروضات اور پیش گوئیوں کو گرا کر رکھ دیا ہے جو انہوں نے خدا کے وجود کے بارے میں قائم کئے تھے۔ جدیدمفکرین نے یہ فرض کر رکھا تھا کہ سائنس پر مزید تحقیقات اس کائنات کو بے ترتیب
( (Random اور میکانکی ثابت کردیں گی؛ لیکن اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو غیر متوقع طور پر ایسا منظم نظام ثابت کیا ہے جو کہ ایک ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ ماڈرن (ملحد) ماہرین نفسیات یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مذہب محض ایک دماغی خلل یا نفسیاتی بیماری ثابت ہو جائے گا لیکن انسان کا مذہب کے ساتھ تعلق مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں دماغی صحت کا اعلیٰ ترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔
اسی طرح صفحہ 53 پر لکھتا ہے کہ
Few people seem to realize this, but by now it should be clear:Over the course of a century in the great debate between science and faith, the tables have completely turned. In the wake of Darwin, atheists and agnostics like Huxley and Russell could point to what appeared to be a solid body of testable theory purportedly showing life to be accidental and the universe radically contingent. Many scientists and intellectuals continue to cleave to this worldview. But they are increasingly pressed to almost absurd lengths to defend it. Today the concrete data point strongly in the direction of the God hypothesis. It is the simplest and most obvious solution to the anthropic puzzle.
اس حقیقت کو ابھی صرف چند لوگ ہی تسلیم کر رہے ہیں لیکن یہ بات اب واضح ہو جانی چاہئے کہ مذہب اور سائنس میں ایک صدی کی بحث کے بعد اب پانسہ مذہب کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ڈارون کے نظریے کے فروغ کے دور میں ، ملحدین اور متشککین جیسے ہکسلے اور رسل یہ کہہ سکتے تھے کہ زندگی اتفاقی طور پر وجود میں آئی اور کائنات محض ایک اتفاق ہی سے بنی۔ اب بھی بہت سے سائنس دان اور دانشور اسی نقطہ نظر کو مانتے ہیں لیکن وہ اس کے دفاع میں اب بے تکی باتیں کرنے پر ہی مجبور ہیں۔ آج حقائق کے مضبوط اعداد وشمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے موجود ہونے کا نظریہ ہی درست ہے۔یہ انسانی پہیلی کا سب سے آسان اور واضح حل ہے ۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
خاتم النبیینﷺ کا درست ترجمہ و مفہوم

از قلم:
مبارک علی رضوی​


دوستو! ہم بار بار قرآن مجید سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ خاتم النبیینﷺ کا ترجمہ یہ ہے کہ آقاﷺ نبوت کی ایسی مہر ہیںکہ آپ نے سلسلہ نبوت پر مہر ثبت کر کے اس سلسلہ کو بند کر دیا۔یعنی آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نیا نبی یا رسول دائرہ نبوت و رسالت میں داخل نہیں ہوگا۔کہ اب قصر نبوت مکمل ہوگیا ہے۔( جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ:
’’میری اور دیگر انبیا کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر ایک کونے میں اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی لوگ اس کے گرد گھومتے اور اسکی تعریف کرتے مگر ساتھ یہ بھی کہتے کہ یہاں اینٹ کیوں نہ لگائی گئی۔فانا موضع اللبنۃ، جئت فختمت الانبیاء پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں (سلسلہ)انبیاء ختم کرنے والا ہوں۔(وللفظ مسلم)

حوالہ جات:
{۱}صحیح بخاری(عربی) ص ۶۷۹،کتاب المناقب ،باب خاتم النبیین۔حدیث نمبر ۳۵۳۴،۳۵۳۵، طبع دار افکار،بیروت،سن ۱۹۹۸ء
{۲}صحیح مسلم (عربی)ص۱۱۴۶،کتاب الفضائل باب ذکر کونہ خاتم النبیینﷺ۔حدیث نمبر۵۸۵۳تا۵۸۵۸۔طبع دارالفکر ،بیروت،سن۲۰۰۳ء
{۳}السنن الکبری للبیہقی مع الجوھر النقی جلد ۹ ص ۵ ،کتاب السیر،باب مبتدا الخلق،طبع ادارہ تالیفات اشریفہ،ملتان۔
{۴}مشکوۃ شریف(مترجم ) جلد ۳ ص ۱۲۰،الفتن ،باب فضائل سید المرسلینﷺ،حدیث نمبر ۵۴۹۸،طبع فرید بک سٹال لاہور۔سن۱۹۸۵ء
{۵}کنز العمال جلد ۶ حصہ ۱۱ص ۲۰۴،حدیث نمبر ۳۱۹۸۱،طبع دار الاشاعت کراچی،پاکستان،سن ۲۰۰۹ء
{۶}مسند امام احمد بن حنبل،جلد ۴ ص ۹۷،مسند ابی ھریرۃؓ،حدیث نمبر ۷۴۷۹،اور ص ۲۶۷، مسند ابی ھریرۃؓ۔حدیث نمبر ۸۱۰۱، اور ص ۵۲۶،مسند ابی ھریرۃؓ،حدیث نمبر۹۱۵۶،، اور ص ۵۶۸،مسند ابی ھریرۃؓ،حدیث نمبر ۹۳۲۶،طبع مکتبہ رحمانیہ۔
اور نہ ہی انبیاء سابقین میں سے کوئی نکالا جائے گا ۔یہی معنی ہے انبیاء کی مہر ہونے کا۔
قرآن پاک نے بھی مہر کا یہی معنی بتایا ہے۔
دلائل ملاحظہ ہوں:
۱۔ القرآن-سورہ نمبر ۲ البقرہ آیت نمبر۷

ختم اﷲ علی قلوبھم و علی سمعھم و علی ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم۔
ترجمہ:اللہ نے (ان کے اپنے انتخاب کے سبب ) ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور انکی آنکھوں پر پردہ، اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
قادیانی حضرات کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو اس سے اللہ عزوجل کا ظالم ہونا لازم آتا ہے۔(معاذ اللہ)
الجواب: آئیں دیکھتے ہیں کہ مفسرین کیا فرماتے ہیں اس زمن میں۔
۱} امام عماد الدین ابن کثیر:
’’سعدی فرماتے ہیں کہ ختم کا معنی طبع(مہر لگانا)ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ شیطان ان پر غالب آگیا اور وہ اسکی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی گئی دلوں اور کانوں پر،اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں(نوٹ:حضرت قتادہ کایہ قول تفسیر در منثور جلد اول ص۸۷ طبع ضیا ء القرآن پبلی کیشنز)۔حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ بند کر کے دیکھایا اور کہا کہ دل ہتھیلی کی مانند ہوتا ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہوجاتا ہے۔اس طرح ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہوگئی پھر دوسرا گناہ اور دوسری انگلی بند یہاں تک کہ مٹھی بلکل بند ہوگئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔’’قرطبی فرماتے ہیں امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالی کی ایک صفت مہر لگانا بھی ہے ، جو کفار کے کفر کے بدلے میں ہے۔( بل طبع اللّٰہ علیھا بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلا(النساء:۱۵۵) ترجمہ: اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگا دی‘‘۔(تفسیر قرطبی جلد اول ص ۲۰۴-۲۰۳ ،زیر آیت البقرہ:۷۔ طبع ضیا ء القرآن پبلی کیشنز)
حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا فتنے دلوں پر پیش کیے جاتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک تنکا۔جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہوجاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنہ اثر نہیں کرتا وہاں سفید نکتہ ہوجاتا ہے۔ جس کی سفیدی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ بلکل سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتا ہے۔پھر کبھی اسے کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی ہے اور سارے دل کو سیاہ کر دیتی ہے اور وہ دل الٹے کوزے کی طرح کا ہوجاتا ہے۔نہ اچھی بات اچھی لگتی ہے نہ بری بات بری۔اگر وہ باز آجائے توبہ کرلے تو نکتہ مٹ جاتا ہے اور اسکا دل صاف ہوجاتا ہے۔اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو سیاہی بھی بڑھتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے،یہی وہ ’’ران‘‘ ہے جسکا اس آیت میں ذکر ہے( کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون:المطففین:۱۴ ) ترجمہ:ہزگز نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ران ہے ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے{ترمذی اور نسائی})امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پرغلاف ڈال دیتی ہے اور اسکے بعد مہر الہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع یعنی مہر کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔اسی مہر کا ذکر آیت بالا میں بھی ہے۔اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی برتن پر مہر لگادی جائے تو بغیر مہر توڑے نہ تو اس میں کوئی چیز جا سکتی ہے نہ نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جب کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگ جائے تو اس کے ہٹے بغیر نہ ایمان دل کے اندر آئے نہ کفر باہر جائے، سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت(علی ابصارھم غشاوۃ) الگ پورا جملہ ہے۔ختم اور طبع دلوںاور کانوں پر جبکہ پردہ آنکھوں پر۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر جلد اول ص ۹۳-۹۲ طبع اسلامی کتب خانہ لاہور)
اسی سے ملتی جلتی باتیں باقی ماندہ تفاسیر میں بھی ہیں۔
یہ تو ہمارے گھر کا حوالہ تھا ، اگر چہ قادیانیوں پر بقول مرزا قادیانی مجدد کی بات ماننا فرض ہے(رخ جلد ۶ ص ۳۴۴، طبع چناب نگر پاکستان،۲۰۰۸) مگر پھر بھی ہم انکی کتب کے حوالے بھی دیتے ہیں۔
۱} ’’ اسی رات میں ایک الہام ہوا ، ۳ نج کر ۲ منٹ اوپر اور وہ یہ ہے:
من أعرض عن ذکری نبتلیہ بذریعۃ فاسقۃ ملحدۃ یمیلون الی الدنیا و لا یعبد و ننی شیئا
جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اسکو خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کردینگے جن کی زندگی ملحدانہ ہوگی اور وہ دنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے انکو کچھ حصہ نہ ہوگا۔یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور توبہ و تقوی نصیب نہیں ہوگا،(رخ جلد ۱۹ ص ۲۱۳)
کیا کسی کو خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کردینا اور تقوی و توبہ کہ توفیق نہ دینا ظلم نہیں؟؟؟ اگر نہیں تو باعث گناہ اور انتخاب کفر کے کسی کے دل پر مہر لگا دینا ظلم کیونکر ٹھہرا؟؟؟
۲} تفسیر کبیر از ابن مرزا قادیانی: ’’گویا اس کے دل پر اب مہر لگ گئی ہے کہ حق کا اثر نہیں ہوتا اور نہ اسکا دل حق کی طرف رجوع کرتا ہے۔۔۔لفظ ختم اور طبع لغت مین ہم معنی ہیں اور ان کے معنی یہ ہیں کہ کدی چیز پر پردہ ڈال دینا اور اس کے اور دوسری اشیاء کے درمیان روک بنا دینا اس طور پر کہ کوئی چیز اس تک نہ پہنچ جائے(تاج)‘‘(جلد اول ص۱۵۳)
لیں جی!وہی بات کر گئے یہ حجرت صاب بھی کہ جب مہر لگتی ہے تو اندر والی شے باہر نہیں جاسکتی اور باہر والی اندر نہیں آ سکتی۔
۲} القرآن- سورہ نمبر ۶الانعام، آیت نمبر ۴۶

’’ قل ارء یتم اب اخذ اللّٰہ سمعکم و ابصارکم و ختم علی قلوبکم من الہ غیر اللّٰہ یا تیکم بہ، انظر کیف نصرف الایت ثم ھم یصدفون ‘‘

ترجمہ: (اے نبی مکرمﷺ!)آپ فرمایا دیجئے کہ تم یہ تو بتاؤ اگر اللہ تمہاری سماعت اور تمہاری آنکھیںلے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ کے سوا کون ہے جو یہ سب تمہیں واپس لوٹا دے؟دیکھو تو ہم کیسے گوناگوں آیتیں بیان کرتے ہیں۔پھر (بھی) وہ روگردانی کرتے ہیں۔
۳} القرآن-سورہ نمبر ۳۶ یسین آیت نمبر ۶۵

’’الیوم نختم علی افواھھم و تکلمنا ایدھم و تشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون‘‘

ترجمہ: آج ہم انکے مونہوں پر مہر لگا دینگے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کرینگے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔
لیں جی! دیکھیں کتنے واضح انداز میں بیان ہوا!۔ کیا قادیانی گروہ یہ ترجمہ کرے گا کہ آج ہم ان کے منہ افضل کردینگے،یا یہ کہ ان کے منہ کی اتباع سے دوسرے منہ بنیں گے؟ کتنا عمدہ بیان فرمایا مہر کا معنی !کہ جب مہر لگ جائے تو اندر والی چیز باہر نہیں نکل سکتی اور باہر والی اندر نہیں آ سکتی۔
۴} القرآن-سورہ نمبر ۴۲ الشوری آیت نمبر ۲۴

’’ ام یقولون افتری علی اللّٰہ کذبا، فان یشا اللّٰہ یختم علی قلبک، و یمح اللّٰہ الباطل و یحق الحق بکلمتہ، انہ علیم بذات الصدور‘‘
ترجمہ: کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس( برگزیدہ رسول عربیﷺ) نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے،سو اگر اللہ تعالی چاہے تو آپ کے قلب اطہر پر(صبر و استقامت کی) مہر ثبت فرما دے (تا کہ آپ کو ان کی بیہودہ گوئی کا رنج نہ پہنچے)اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور اپنے کلمات سے حق کو ثابت رکھتا ہے۔
بیشک وہ سینوں کے بھید وں کا بھی جاننے والا ہے ۔
۵}القرآن-سورہ نمبر ۴۵ الجاثیہ آیت نمبر ۲۳

’’ افرء یت من اتخذ الھہ ھو ہ و اضلہ اللّٰہ علی علم و ختم علی سمعہ وقلبہ و جعل علی بصرہ غشوۃ، فمن یھدیہ من بعد اللّٰہ ، افلا تذکرون‘‘
ترجمہ:کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیاہے اور اسکے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر اسے اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے؟
۶}القرآن-سورہ نمبر۸۳،آیت نمبر ۲۵

’’رحیق مختوم‘‘
ترجمہ: مہر لگی شراب
۷}القرآن-سورہ نمبر۸۳،آیت نمبر ۲۶

’’ختامہ مسک‘‘
ترجمہ: اس کی مہر مشک پر ہے
اب’’ مہر‘‘ کا معنی بھی معلوم ہو گیا۔الحمدللہ
اب حدیث بھی دیکھ لیتے ہیں کہ فرمان ربی پر عمل ہو:

’’یا ایھاالذین امنوا اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم فان تنازعتم فی شی ء فردوہ الی اللّٰہ و الرسول ان کنتم یومنون با اللّٰہ و الیوم الاخر، ذلک خیر و احسن تا ویلا‘‘
ترجمہ: اے ایمان والوں! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے (اہل حق)صاحبان امر کی،پھر اگر کسی مسئلہ میں تم میں اختلاف ہوجائے تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول کی طرف لاٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی بہتر او رانجام کے لحاظ سے بہتر ہے
حدیث النبوی:
روز محشر جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور تمام ابن آدم باری باری سب انبیاء و رسل کے پاس حساب شروع کروانے کے لیے سفارش کا کہیں گے تو سبھی یکے بعد دیگرے انکار کرتے چلے جائیں گے جب وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس جائیںگے:

’’فیقولون یا عیسی! اشفع لناالی ربک فلیقض بیننا فیقول انی لست ھناکم۔انی اتخذت الھا من دون اللّٰہ،و انہ لا یھمنی الیوم الا نفسی و لکن أرأیتم لو کان متاع فی وعاء مختوم علیہ اکان یقدر علی ما فی جوفہ حتی یفض الخاتم قال فیقولون لا، قال فیقول ان محمداﷺ خاتم النبیین‘‘
ترجمہ: تمام لوگ حضرت عیسی علیہ السلام سے کہیں گے کہ آپ اپنے پروردگار سے سفارش کریں تا کہ ہمارا حساب شروع ہو،وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں۔لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر مجھے معبود بنا لیا تھا،اس لیے آج تو مجھے اپنی فکر ہے،البتہ تم یہ بتاؤ کہ اگر کوئی چیز کسی ایسے برتن میں ہو جس پر مہر لگی ہو توکیا مہر توڑے بغیر اس برتن کے اندر موجود چیز کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟ لوگ کہیں گے نہیں۔اس پر حضرت عیسی علیہ السلام فرمائیں گے پھر حضرت محمدﷺ نبیوںکی مہر ہیں۔
۱}مسند امام احمد بن حنبل جلد ۲ ص ۲۱۴ حدیث نمبر ۲۵۴۶ طبع مکتبہ رحمانیہ
۲}مسند امام احمد بن حنبل جلد ۲ ص ۲۵۷ حدیث نمبر ۲۶۹۲طبع مکتبہ رحمانیہ
۳}مسند ابی یعلی جلد ۲ص ۴۰۶ حدیث نمبر ۲۳۲۴ طبع پروگیسو بکس لاہور۔
لغات عرب:
۱} لساب العرب:’’ وختام القوم و خاتَمھم و خاتِمھم:آخرھم۔و الخاتم والخاتِم من اسماء النبیﷺ، و فی التنزیل العزیز: ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین:أی آخرھم
(لسان العرب جلد ۱۲ ص ۱۶۴ زیر مادہ ختم۔طبع دار صادر بیروت)
۲}تاج العروس: الخاتَم: آخرالقوم کالخاتِم۔ و منہ قولہ تعالی:{خاتم النبیین} أی آخرھم
(تاج العروس جلد ۳۲ ص ۱۵ زیر مادہ ختم،طبع التراث العربی)
۳}الصحاح: الخاتَم و الخاتِم بکسر التاء و فتحھا،والخیتام و الخاتام کلہ بمعنی والجمع الخواتیم، و خاتمہ الشئی: آخرہ و محمدﷺ خاتم الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام
(الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیہ،جلد اول ص ۱۹۰۸،طبع دار العلم للمیین)
۴} المفرادات: وخاتم النبیین لأنہ ختم النبوۃ أی تممھا بمجیئہ
(المفردات امام راغب اصفہانی،جلد اول ص ۱۹۰،طبع مکتبہ نزار مصطفی)
۵}کلیات ابی البقاء: ووالخاتِم،بکسر التاء:فاعل الختم و ھو الاتمام البلوغ و یفتحھا: بمعنی الطابع، تسمیۃ نبینا خاتِم الانبیاء لان الخاتِم اخر القوم،قال اﷲتعالی:ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین۔
(الکلیات معجم فی المصطلحات والفروق اللغویۃ ،ص ۴۳۱ طبع موسسۃ الرسالۃ۔)
ایک نظر ادھر بھی:
ابھی تک ہم نے خاتم النبیین کا ترجمہ ’’نبیوں کی مہر یعنی آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ قرآن پاک،حدیث اور لغت سے ثابت کیا۔ اب قادیانیوں کو ان کے گھر کے حوالے دیے جاتے ہیں:
۱} خاتم النبییین: ختم کرنے والا نبیوں کا
(ازالہ اوہام ص ۶۱۴،رخ جلد ۳ ص ۴۳۱،چناب نگر پاکستان،۲۰۰۸)
۲}بعث اﷲ رسولہ عیسی ابن مریم فیھم و جعلہ خاتم انبیاء ھم
خداتعالی نے حضرت عیسی بن مریم کو بنی اسرائیل میں مبعوث فرمایا اوران کو بنی اسرائیل کا ’’خاتم الانبیاء‘‘ بنایا۔
(خطبہ الھامیہ ص ۴۳ ،رخ جلد ۱۶ ص ۷۹)
۳}و ما جعل اﷲالمسیح خاتم السلسلۃ الموسویۃ
اور خداتعالی نے حضرت مسیح علیہ السلام کو موسوی سلسلہ کا ’’خاتم‘‘ بنایا۔
۴}خدا تعالی نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ہر ایک حضرت موسی(علیہ السلام)کی قوم سے تھا اور تیرھواں خلیفہ حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسی کی قوم کا ’’خاتم الانبیاء ‘‘تھا مگر در حقیقت موسی (علیہ السلام)کی قوم سے نہ تھا۔
(تحفہ گولڑویہ ص ۲۳،جلد ۱۷ ص ۱۲۳)
۵}اس جگہ مولوی محمد احسن امروہی کو ہمارے مقابلے میں خوب موقع مل گیا ہے۔ہم نے سنا ہے وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدے کی حمایت میں ہے تا کسی طرح حضرت عیسی ابن مریم(علیہ السلام) کو موت سے بچا لیں اور دوبارہ اتار کر ’’خاتم الانبیاء‘‘ بنا دیں۔
(دافع البلاء ص ۱۵،رخ جلد ۱۸ ص ۲۳۵)
اب خاتم کا معنی و مطلب واضح ہوا اور جھگڑا ختم ہوا۔


 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صوفیاءِ کرام سے منسوب متنازعہ عبارات پر انجینئر مرزا کے موقف کاتحقیقی جواب

نعمان شاہ(انگلینڈ)

مرزاجونئیر کا موقف
صوفیاءِ کرام کی کتب میں ایسے کلمات موجود ہیں جو صریح کفر ہیں لہذا اہلسنت بریلوی علماء ان عبارات پر کفر کا فتوی لگائیں اور اپنے ان بزرگوں سے اعلانِ براءت کریں۔ ان تمام کتب کی پرنٹنگ بھی بند کروائیں۔
ذمہ داری کاتعین اس مسئلہ پر بحث کرنے سے پہلے ہم نفسِ مسئلہ پر غور کریں گے تاکہ پڑھنے والوں کو بات سمجھ آ جائے۔ مرزا کے اس پورے موقف میں دو علیحدہ علیحدہ مسئلے ہیں۔ ایک ہے شرعی مسئلہ جو ان عبارات سے متعلق ہے اور دوسرا ہے کتب کی پرنٹنگ کا مسئلہ جس کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ ہم ان دونوں مسئلوں پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں گے۔ مرزا انجینئراور اس کے فالورز دونوں کو ملا کر بحث کرتے ہیں اس لئے بحث کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر آپ عبارات کے جوابی دلائل دے دیں گے تو وہ پرنٹنگ کا مسئلہ اٹھا لیں گے لہذا دونوں مسئلوں میں ذمہ داری کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ متنازعہ یا کفریہ عبارات کسی بھی کلمہ یا عبارت پر کفر کا فتوی دینا یا کوئی بھی کلام کرنا خالصتاً علماء کرام کا منصب ہے اور علماء بھی وہ جو شرعی علوم کے اعتبار سے تعلیم یافتہ ہونگے۔سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ کسی بھی عبارت پر کفر کا فتوی لگانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ عبارت کس سے منسوب ہے۔ صوفیاءِ کرام سے منسوب عبارات کا کیس ایک عام مسلمان کے کلام کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ صوفیاءِ کرام اپنے زمانہ میں اپنے اعلی کردار اور مکمل شریعت کا پیکر ہونے کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی حضور ص کے اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ ہوتی ہے اس لئے ان کی عبارات پر گرفت کرتے وقت شرعی رخصت (شطحات، الہام، خواب، کرامت، مجذوب) کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔یہ وہ اصطلاحات ہیں جن پر فقہا و محدثین کے احکام موجود ہیں۔ایسے علماء جو ان کو شرعی رخصت نہیں دیتے اور کفر کا فتوی لگاتے ہیں تب بھی فتوی ان بزرگوں پر نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کسی بھی مسلمان پر نام کے ساتھ فتوی لگانے کے لئے اس کلمہ کفر یا عبارت کا اس شخص یا بزرگ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہونا ضروری ہے۔ کوئی عبارت بھی بغیر سند کے کسی سے منسوب ہونے پر اس بزرگ کے لئے قابل گرفت نہئں ہوتی۔اصول حدیث کی طرح سند کا صحیح ثابت ہونا ضروری ہے۔اس مسئلہ میں ضعیف سند بھی قابل قبول نہیں۔
صوفیاءِ کرام کی کتب ہمیشہ ان کی زندگیوں کے بعد لکھی جاتی ہیں اور وہ اپنی زندگی میں اس کا خاص اہتمام بھی نہیں کرتے کیونکہ ان کا مقصد کلام کرنا نہیں بلکہ کام کرنا یعنی امت کی کردار سازی اور تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ لہذا ان کی تمام کتب کسی بھی صحیح سند سے ان تک نہیں پہنچتیں۔ ان کتب میں بعد میں آنے والے اپنی طرف سے بھی کچھ باتیں داخل کر دیتے ہیں اپنے ذوق، عقیدت یا کم علمی کی وجہ سے کچھ باتیں بڑھا چڑھا کر بھی لکھ دی جاتی ہیں۔ ایسے علماء جو ان بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں وہ ان عبارات پر شرعی رخصت دیتے ہوئے اس کی شرعی تاویل کرتے ہیں چونکہ وہ کفر کا فتوی نہیں دیتے اس لئے سند کی اہمیت ان کے لئے ضروری نہیں ہوتی جبکہ ان عبارات پر کفر کا فتوی وہی لگاتے ہیں جو صوفیاءِ کرام کے مخالف نکتہ نظر کے ہوتے ہیں۔ کفر کا فتوی لگانے والوں اور نہ لگانے والوں میں فرق یہ ہے کہ نہ لگانے والے مکمل شرعی اصول یعنی رخصت پر عمل کرتے ہیں جبکہ لگانے والے شرعی رخصت کے اصول کو بھی توڑتے ہیں اور بغیر سند کے فتوی لگاتے ہیں اب آپ خود فیصلہ کریں کہ شرعی فتوی کونسا صحیح ہوگا۔ مرزا انجینیر فقہا و محدثین کے بنائے ہوئے شرعی اصولوں کو توڑ کر غیر شرعی فتوی لگا رہا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رح کے حوالہ سے ایک اہم نکتہ قابل غور ہے ۔ اسلامی تیرہ سو سالہ تاریخ میں خلفاء اور بادشاہوں کے دربار میں ہمیشہ بڑے بڑے علماء مشاورت کا کام کرتے تھے اور ان کے ہاں ایسے علماء و صوفیاء کا عدالتی ٹرائل ہوتا رہتا تھا جن کے فتوے متنازعہ ہوتے تھے ایک مناظرہ کی صورت میں دونوں فریقین کو اپنا موقف ثابت کرنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ مامون الرشید اور ھارون الرشید کا وہ دور جس میں بڑے بڑے فقہا اور محدثین کی گرفت کی گئی منصور حلاج جیسے صوفی عباسیوں کی شریعت پسندی سے نہ بچ سکے تو ایسے میں حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ پر کسی قسم کا ٹرائل نہ ہونا دو ہی باتیں ثابت کرتا ہے یا تو یہ عبارات آپ کی نہیںاوریااس وقت کے علماء کے نزدیک ان عبارات سے کفر ثابت نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ حضرت بایزیدرحمۃ اللہ علیہ لادینوں سے مناظرے کرنے میں مشہور تھے۔آپ کا چرچہ خلیفہ کے دربار تک تھا۔کُتب کی پرنٹنگ علماء کرام کا کام شرعی فتوی دینا ہے اور علماء کرام اپنے اپنے مسلک یا مکتبہ فکر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ کتابوں کی اشاعت کا کام علماء کے دائرہ کاریا ذمہ داری میں نہیں آتا اور نہ ہی کسی مسلک کا کوئی آفیشل پرنٹنگ پریس ہوتا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد یا جماعتیں اپنی ذمہ داری پر اشاعت کاکام کرتے ہیں اور کسی کی غلطی کا الزام سارے مکتبہ فکر کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی غلط چھپنے والی بات سارے مسلک کا نکتہ نظر ہوتا ہے۔ علماء کرام محض نشاندہی کر سکتےہیں۔
خلاصہ عبارات پر فتوی کےجوابی دلائل دینا علماء کا کام ہے انجینئر مرزا ان دلائل پر تو بات کر سکتا ہے مگر چونکہ اس کے پاس کفر ثابت کرنے کے لئے اصولی دلائل موجود نہیں اس لئے وہ اپنی روح راضی کرنے کے لئے چھلانگ لگا کر پرنٹنگ پریس والے مسئلہ پر آ جاتا ہے تو علماء کی ڈومین میں ہی نہیں آتا بالکل اسی طرح جیسے مزارات پر خرافات کا نہ ہی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق ہے اور نہ ہی بریلوی علماء ذمہ دار ہیں۔ صوفیا کرام کی کتب نہ صرف تما م مکاتب فکر کے اشاعتی ادارے چھاپتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں چھاپی جاتی ہیں۔ صوفیاء و اولیاء کرام سے محبت و عقیدت کی پاداش میں بریلوی مکتبہ فکرکے علما کو نشانہ بنانا مرزا کی زیادتی ہے۔ جہاں تک کُتب سے خرافات نکالنے کا تعلق ہے اس میں تمام مکتبہ فکر کے علماء مرزا کے ساتھ ہونگے۔اس کا ایک متفقہ لائحہ عمل بنا کر تمام علماء متنازعہ عبارات پر غور و فکر کر کے ان کی اشاعت پر پابندی کا فتوی دے سکتے ہیں۔ اس کارِ خیر کا آغاز ان کتب سے کیا جائے جو ماخذ دین (فقہا و محدثین کی کتب) میں سے ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں سے مسلمانوں کا اصل اختلاف ؟

ضیاء رسول امینی​

قادیانی مبلغین آخر کار عالم اسلام کے ساتھ اپنے اصل اختلاف کو دنیا کے سامنے اور خصوصی طور پہ اپنی ہی جماعت کے لوگوں کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟کیا یہ نہیں چاہتے کہ عالم اسلام کے ساتھ ان کے اختلافات ختم ہوں؟یا پھر اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ان کو معلوم ہے اصل اختلاف ایسا ہے جس کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی بھی راستہ کوئی بھی دلیل نہیں ہے؟آج کی میری یہ تحریر خصوصی طور پر قادیانی احمدی حضرات کے لیے ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک بار ضرور سوچیے گا کہ اصل وجہ اختلاف کیا بنتی ہے اور اس پر بات کرنا کیوں آپ کی جماعت کے مبلغین اور مربیان کو گوارہ نہیں ہے۔
سب سے پہلے جماعت قادیانیہ احمدیہ کے مبلغین مسلمانوں کے ساتھ جس مسئلے کو چھیڑتے ہیں وہ ہے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ۔ کیا کبھی کسی قادیانی احمدی نے یہ سوچا ہے کہ کوئی شخص اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا قائل ہوجائے تو اس کے بعد اس کو اس بات پر کیسے قائل کیا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ہے؟ یعنی وہ مسیح جس کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے؟ کیا آج تک اس نقطے پر جماعت کے مربیان نے اتنا زور دیا جتنا کے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے مسئلے پر دیا جاتا ہے؟ کیونکہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے ایک ثانوی معاملہ ہے اس پر بحث کا نتیجہ اگر ان کے حق میں بھی نکل آئے تب بھی یہ جماعت کا اصل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اس مقام پر کیسے فائز ہوئے یہ معاملہ پھر بھی حل طلب رہتا ہے۔ لیکن اگر جماعت کے مربیان یہ ثابت کردیتے ہیں کہ جس مسیح کے آنے کی پیش گوئی تھی وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے تو پھر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ چاہے حل طلب ہی کیوں نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی جب یہ ثابت ہوگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کی پیش گوئی تھی تو لامحالہ متلاشی حق یا تو یہ ماننے پہ مجبور ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور جس نے آنا تھا وہ ان کی بجائے کوئی اور شخصیت ہےیا پھر یہ تسلیم کرے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھایا تو گیا مگر ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ کیونکہ جس مسیح ابن مریم کے آنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ تو پہلے ہی کسی اور شخصیت کے لیے ثابت ہوچکا ہوگا۔یا پھر تیسری طرز سے یہ سمجھا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے کیونکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ بات لکھی ہے کہ ایک جلالی مسیح نے بھی آنا ہے مرزا صاحب یہ بیان کرنے کے بعد کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد بہت زیادہ پھیل چکا ہوگا لکھتے ہیں:
"تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں ان کا نزول ہوکر اس زمانہ کا خاتمہ ہوجائے گا تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لیے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔" (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ346)
دوسری جگہ لکھا کہ:
"اور میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ۔ہاں اس زمانے کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہوسکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشا پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک قریب تیس کے دجال پیدا ہوں گےاب ظاہر ہے جب تیس دجال کا آنا ضروری ہے تو بحکم لکل دجال عیسیٰ تیس مسیح بھی آنے چاہیں پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ197)
اس تمام بحث سے ایک بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلے پر بحث کے بعد چاہے بحث کا نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ نکلے مرزا صاحب کے مسیح ہونے کا ثبوت پھر بھی نہیں ملتا اس کو مسیح ثابت کرنے کے لیے حیات عیسیٰ علیہ السلام سے اگلے مرحلے پر جاکر یہ ثابت کرنا لازم ہوگا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ تو اس صورت حال میں جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس بات پہ غور کیوں نہیں کرتے کہ جہاں آکر مرزا صاحب کے دعوے کی سچائی یا بطلان ثابت ہونا ہے اس نقطے پر جماعت کے مربیان بحث کریں۔اب اگر ایک شخص وفات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل ہو جیسا کہ منکرین حدیث و غامدین وغیرہ تو ان کے سامنے مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کے کون سے دلائل پیش کریں گے؟ ہمیں بھی ان دلائل کا انتظار رہے گا اور جماعت کے افراد بھی ان دلائل کا تقاضا اپنے مربیان سے کریں۔
دوسرا مسئلہ ختم نبوت کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملے گی یا نبوت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا؟ یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہر طرح کی نبوت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت کسی بھی شخص کو کسی بھی طرح کی نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ قادیانی احمدی جماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب تا قیامت کسی کو بھی کسی بھی طرح کی نبوت نہ ملے گی۔ جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور سابقہ انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسا کسی نے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس میں وہی اینٹ ہوں (مفہوم )۔ اب قادیانی کہتے ہیں کہ یہاں سے مراد شرعی نبوت ہے کہ شریعت والی نبوت کی عمارت مکمل ہوگئی ۔ اب یہی بات لیں تو شریعت والی نبوت انکے بقول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور مرزا صاحب یہ دعوی خود کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"اس عمارت میں (یعنی انبیاء کی عمارت میں۔راقم) ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی یعنی منعم علیہم ،پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے پس میں وہی اینٹ ہوں۔
(روحانی خزائن جلد16 صفحہ177،178)
اس کے علاوہ بھی بہت مقامات پر مرزا غلام احمد قادیانی نے صریح الفاظ میں لکھا ہے کہ میں سب سے آخری نبی ہوں میرے بعد کسی نے نہیں آنا۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ شریعت والی نبوت قادیانی حضرات نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہونا تسلیم کیا اور بعد از جو ایک نئی قسم کی نبوت جماعت احمدیہ قادیانیہ نے گھڑی یعنی ظلی بروزی نبوت ، اس کو مرزا صاحب کے اس حوالے نے مرزا غلام احمد قادیانی پر بند کردیا ۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کے مطابق شرعی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور باقی ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب اس کے بعد نہ کوئی شرعی نبی پیدا ہوگا نہ کوئی غیر شرعی نہ کوئی ظلی نہ بروزی نہ حقیقی نہ غیر حقیقی نہ مستقل نہ غیر مستقل۔(یہ سب اصطلاحات آپ کی جماعت احمدیہ کی وضح کردہ ہیں۔ ) اب مرزا صاحب کو جھٹلا کر کوئی قادیانی یا مربی یہ کہتا پھرے کہ نہیں نبوت بند نہیں ہوئی اب بھی نبی پیدا ہوسکتے ہیں یا آسکتے ہیں تو وہ مرزا صاحب کے مذہب سے ہٹ کر اپنا الگ دعوی پیش کررہا ہے اس کا جماعت قادیانیہ احمدیہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور فی الوقت ہماری بحث مرزا غلام قادیانی کی بنائی ہوئی جماعت اور اس کے عقائد پر ہے۔اب مسلمانوں کے ذمے یہ رہا کہ ہر طرح کی نبوت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ثابت کریں اور جماعت قادیانیہ احمدیہ کے ذمے یہ رہا کہ پہلے مرزا صاحب کو نبی اور اس کے بعد آخری نبی ثابت کریں ۔ ثابت کریں قرآن و حدیث سے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی نبی ہے مزید یہ کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی۔ تو جماعت کے افراد اس پر ضرور غور کریں اور سوچیں کہ جب اصل اختلاف بنتا ہی یہی ہے تو پھر کیوں جماعت کے مربیان اور مبلغین اجرائے نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور یہ کہتے ہیں کہ نبوت بند نہیں ہوئی؟ کیا اس جماعت کے افراد مرزا صاحب پر ایمان لائے ہیں یا اپنی جماعت کے مربیان اور مبلغین پر؟ مرزا صاحب تو کہیں کہ نبوت مجھ پر ختم ہوچکی اور مربیان کہیں کہ نہیں اور بھی نبی آسکتے ہیں تو جماعت کے افراد کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے۔
اس مسئلے کا ایک تیسرا پہلو بھی بنتا ہے کہ جماعت قادیانیہ اور احمدیہ اجرائے نبوت کے مسئلے کو جو کہ اصل اختلاف بنتا ہی نہیں چھوڑ کر اس نقطے پر مسلمانوں کے ساتھ متفق ہوجائیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ایک نبی نے دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور قادیانی جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی نے آنا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک جس نبی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے وہ پہلے سے ہی مرتبہ نبوت پر فائز ہیں اس لیے ان کو بعد از نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کا سوال ہی ختم ہوجاتا ہے جبکہ قادیانی حضرات کے نزدیک ایک شخص کو بعد از پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنی ہے۔ تو اب جماعت احمدیہ کے مبلغین یہ ثابت کرنے میں اپنا وقت لگائیں کہ جس ایک نبی کے آنے کی امت مسلمہ قائل ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے اور یہ کہ اس کو بعد میں کامل اطاعت کے نتیجہ میں نبوت دی جانی تھی جبکہ مسلمانوں کے ذمہ یہ ہوگا کہ وہ ثابت کریں کہ جس نبی علیہ السلام نے بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آنا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کی آمد دوبارہ آمد ہے نیز یہ کہ ان کو نبوت دوبارہ نزول کے بعد نہیں دی جائے گی بلکہ پہلے ہی عطا کردی گئی تھی۔
حاصل کلام یہ کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں تو بہت سے ایسے اختلافات جن کو جماعت کے مربیان نے ذبردستی اختلاف بنا کر مسلمانوں پہ تھوپ رکھا ہے وہ ختم ہوجائیں گے اور جن معاملات سے اختلافات ختم ہونا ممکن ہے اور مرزا صاحب کی سچائی یا بطلان کا ثبوت ممکن ہے ان معاملات کو حل کرنے یا سمجھنے کے لیے اپنی توانائیاںصرف کریں ۔ وگرنہ جو طرز آپ کی جماعت کے مربیان اور مبلغین نے اپنا رکھا ہے اس سے نہ تو کبھی اختلافات ختم ہوسکتے ہیں نہ آپ یہ جان پائیں گے کہ مرزا صاحب اپنے دعووں میں سچے تھے یا جھوٹے۔ اور حق کی اس تلاش کے لیے اور دائمی اخروی نجات کے لیے آپ کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے یعنی آپ کی موت تک کا۔ سانس ختم تو چانس ختم


 
Top