در صدف ایمان
رکن ختم نبوت فورم
تحریر: در صدف ایمان
✒ ماہ صفر المظفر اور دورِ حاضر کی خرافات
اسلامی مہینوں میں ماہ صفر المظفر ماہ ثانی ہے احادیث و تاریخ کی رو سے اس ماہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ملتی اور غالباً اسی وجہ سے عوام عامہ میں اس ماہ کو نزولِ بلائوں، منحوس اور غیر برکت تصور کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت اس ماہ کو منحوس سمجھنا اس میں کوئی بھی خوشی نہیں کرنا، یہ جہالت ہے زمانہ قدیم جہل کی پیروی ہے کیونکہ قرآ ن و احادیث اس کے بر عکس بیان کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا، سمجھنا خوشی نہ کرنا، شادیاں نہ کرنا سب غلط ہے اور فرسودہ ہے ماہ صفر کو غیر محفوظ تصور کرنا بلکل غلط ہے۔ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ اس ماہ میںجسمانی بیماری و مالی نقصان و نفع یا کسی اور تکلیف کو بد شگونی، نحوست خیال کرنا ا ور ماہ صفر کو فتنوں اور مصبتوں کا مہینہ کہتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ سب بے اصل ہیں اور اگر ہم اچھے اور سچے مسلمان ہو کر قرآن کو بغو ر مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کسی شخص یا چیز کو یا فال لینے کو کفار کا طریقہ کہا گیا ہے۔ عرب میں اسلام کو نور پھیلنے سے قبل دور جہالت میںفال وغیرہ کے طریقہ رائج تھے اور مختلف جانوں کی چیزوں کی حرکات سے شگون یعنی کام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ لیتے تھے بعض لوگ الو کو منحوس سمجھتے ہیں کسی کام کو کرنے سے پہلے پرندے اڑاتے ہیںاگر وہ دائیں طرف اڑتے تو وہ کام کرتے بائیں طرف اڑتے تو نہ کرتے اور اس کام کو کرنا منحوس اور بے برکت سمجھتے ۔ یہ سب غیرمسلموں اور جاہلوںکا طریقہ ہے دور جاہلیت کا رواج ہے نہ کہ ظہور اسلام کے بعد اور یہ بات احادیث کریمہ ثابت کرتی ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے"ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے اذیت دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں ہر کام ہے میں رات اور دن کو الٹ پلٹ کرتا ہوں( بخاری شریف)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دن رات ہفتوں کو یا مہینوں کو برا کہنا بھی غلط ہے اور خواتین اس معاملے میں زیادہ احتیاط کریں کیونکہ حالات کی خرابی کی بنا پر یا عادتاً کہتی ہیں کہ کیا برا عذاب آگیا۔ کونسی بری گھڑی تھی۔ یہ منحوس دن دیکھنا بھی نصیب میں تھا ان معاملات میں احتیاط کرنا چاہیے اور کلمہ شکر ادا کرنا چاہیے، فی کل حال
اسی طرح قرآن پاس سے ثبوت ملتا ہے کہ
اسلامی ( قمری) کلینڈر چاند کی بدلتی ہوئی حالتوں کی وجہ سے معرض ِ وجود میںآتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، لوگ آپ سے چاند کے ( گھٹنے بڑھنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لیے۔( سورة البقرہ189)
قمری کیلنڈر حقیقت میں ایک عالمی کیلنڈر ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے آسانی فرمائی ہے کہ وہ آسانی سے تاریخوںکا تعین کرسکے ۔چاند اللہ کے مقر کردہ ضابطہ کا پابند ہے اس لیے اس کے گھٹنے بڑھنے سے نہ تو کسی کی قسمت پر اثر پڑسکتا اور نہ ہی کسی خاص مہینے کا چاند نظر آنے سے نحو ست کی ابتدا ء ہوتی ہے اور نہ کسی خوش قسمتی کا آغاز ہوتا ہے اور بد قسمتی کا انحصار ، سورج ، چاند اور ستاروں کی گردش پر نہیں بلکہ انسان کے اپنے عمل پر ہے، حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے ،( مفہوم) رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ( اللہ کے حکم کے بغیر) کوئی مرض نہیں لگتا نہ ہی صفر ( کے ماہ میں) نحوست نہ ہی غول میں ۔ اسی طرح ایک اور حدیث پاک میںارشاد فرمایا کہ "کوئی بیماری متعدی نہیں،نہ الو کا نکلنا ،کچھ نہیں کسی ستارے کی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔( سنین ابو دائود، ماخذ ماہ صفر اور بدشگونی کا علاج)
بات صر ف یہ ہے کہ ماہ صفر المظفرمیں ایسا کچھ نہیں کہ اسے منحوس سمجھا جائے۔ تمام دن اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیںاور اللہ عزوجل شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اور ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اور اسی رب نے کائنات تخلیق کی ۔وہ اپنے بندوں کے لیے نعمتوں کا نزول فرماتا ہے نہ کہ فتنوں کا۔
ماہ صفر میں ہونے والے خصوصی کام اور عوام کی غلط فہمی
ماہ صفر میں اول تو کوئی بھی خوشی کی تقریب نہیں کی جاتی اور سمجھا جاتا ہے کہ ایسے کرنے سے کچھ غلط ہوجائے گا یا اس کام میں رخنہ پڑ جائے گا ۔ یا وہ کام مکمل نہیں ہوگا۔تو اسکا جواب یہ ہے جب ہم کسی کو تسلی دیتے ہیںتو کہتے ہیںاچھی امید رکھنا چاہیے: اور ہم کسی کام کے متعلق جب اچھی نیت رکھتے ہیں، اچھا گمان رکھتے ہیں تو رب کے فضل سے وہ کام اچھا ہو جاتا ہے اور اگر کسی کے بارے میں غلط گمان غلط نیت رکھی جاتی ہے تو وہم سامنے آتا ہے بہر حال اس ماہ میں بھی تمام خوشی کی تقریب کرسکتے ہیں کوئی حرج نہیں اور جیسا کہ بتایا گیا کہ تمام دن اللہ کے بنائے ہوئے ہیں کہ تو وہ کو ئی ماہ منحوس ہو بھی کیسے سکتا ہے ؟
پھر اس کے بعد ثانی یہ کہ ماہ صفر میں خواتین سو اپائو یا سو اکلو چنے ابال کر گھروں میں بھیجتی ہیں اور مردوں کا صدقہ کہتی ہیں۔
اب اس میں تین قابل ذکر بات ہیں ۔ ایک یہ کہ چنے گھروں میں بھیجے جاتے ہیں جو کہ صدقہ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ الحمد اللہ ہر گھر صدقہ کا محتاج نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ صدقہ ضروری نہیں ماہ صفر میں ہی نکالا جائے بلکہ ہر ماہ صدقہ دینا چاہئیے جتنی استطاعت ہو کہ یہ بیماری کو ٹال دیتا ہے اور صرف مردوں کا ہی نہیں تمام گھروں والوں کا دیا جائے ۔ تیسری بات سب سے اہم بات یہ کہ چنوں کے علاوہ یہی رقم کسی محتاج کو دے دی جائے تو صدقہ بھی ہوجائے گا اور اس محتاج کی کچھ مدد بھی ہوجائیگی۔ جسکا اجر بھی ملے گا اور محتاج کی دعابھی ملے گی۔
ماہ صفر میں خصوصا ً سورہ ملک، سورہ مزمل پڑھوائی جاتی ہے۔ تو یہاں پڑھوانے میں ،پرھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن قرآن پاک جب بھی پڑھا جائے گا اس کی برکتوں کے نزول کا عالم وہی ہوگا اور ثواب بھی جو ماہ صفر میںہے ۔ یہ وہ کام ہے جو ماہ صفر میں کیے جاتے ہیں
✒اس کے علاوہ ماہ صفر سے ہٹ کر میں ایک بات سے عوام الناس کو مطلع کرنا چاہوں گی جو کہ بہت عام ہوتی جارہی ہے اور وہ یہ کہ آج کل موبائل کے ذریعے حضور اکرمؐ کی طرف غلط بات منسوب کی جارہی ہے ایس ایم ایس یہ ہوتا ہے کہ"ربیع النور یارجب یا شعبان کا کا مہینہ ہوتا ہے"اور کہا جاتا ہے کہ
"مبارک ہو رجب کا چاند نظر آگیا ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ جس نے سب سے پہلے رجب کی مبارک باد دی اُس پر جنت واجب ہوجاتی ہے"
یہ بالکل غلط ہے، جنت اعمال سے ملے گی نہ کہ میسج کرنے سے بلکہ ایسے ایس ایم ایس آگے بڑھانے سے ہم گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ایک جھوٹ بات حضور اکر م ۖ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہم سب کو ایسے میسج آگے بڑھانے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے بہتر یہ ہے کہ قرآنی آیا ت و احادیث آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ اور دیگر ایس ایم ایس بھی بغیر حوالے کے آگے نہ بڑھائیں۔ اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنمہا کے نام سے پیغامات آگے بڑھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دس لوگوں کو آگے بھیجیں تو آج رات خوشی ملے گی انکار کرو گے تو یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا۔
نادان عوام:
عقیدت و آداب ہونا چاہیے ، ہم اممہات المومنین ،حضرت فاطمہ الزہرہ ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہما کے پیروں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ وہ ہماے سردار ہیں ان کے لیے ہمارے دلوں میں، عمل میں محبت و عقیدت و آداب ہو نا چاہیے۔ ہم ان کے لیے ادب رکھیں محبت رکھیں صرف ان کے نام کو وسیلہ بنا کر بارگاہ خداوندی میں دعا کریں گے تو انشا اللہ ہر کام بن جائے گا اور اس ڈر سے میسج آگے نہ بڑھانے سے خدا نخواستہ کچھ ہونہ جائے یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے ۔ خوشی ، غمی، عزت و دولت ، شہرت ، ذلت یہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے ہے۔ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے میں نے آج تک کبھی ایسا میسج آگے نہیں بڑھایا بلکہ پورا پڑھا بھی نہیں اورDeletکردیتی ہوں لیکن الحمد اللہ جیسا میسج میں بیان ہوتا ہے ویسا کچھ نہیں ہوا صرف ان کے نام سے الٰہی عزوجل کی بارگاہ میں دعا کریں سب کچھ ملے گا۔ نہ ایسے پیغامات خود کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں۔
الحاصل الکام یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے ہفتہ کے دنوں میں سے ہر دن کوئی نہ کوئی مصیبت اورآفت نازل ہوئی اور ہردن میں کوئی نہ کوئی نعمت ملی تمام دن اللہ کے پیدا ہوئے ہیںاور کوئی دن نامبارک اورمنحوس نہیں ہیں ۔ حوادث، آفات اور بلائوں اور مصائب کے نازل ہونے میں کسی چیز کا دخل نہیں ۔بیماریوں ، آفتوں اور مصیتوں کے نازل ہونے کا تعلق تکوین اور تقدیر سے ہے ۔ دن اور کسی شئے کا کسی آفت کے نزول میں کوئی دخل نہیں ہے اس لیے کسی بھی جائز و صحیح کام کو کسی دن تاریخ یا کسی بھی چیز کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں۔ رب کائنا ت حق پر قائم رہنے کی تو فیق مرحمت فرمائے اور حق پر قائم و دائم رکھے آمین)
✒ ماہ صفر المظفر اور دورِ حاضر کی خرافات
اسلامی مہینوں میں ماہ صفر المظفر ماہ ثانی ہے احادیث و تاریخ کی رو سے اس ماہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ملتی اور غالباً اسی وجہ سے عوام عامہ میں اس ماہ کو نزولِ بلائوں، منحوس اور غیر برکت تصور کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت اس ماہ کو منحوس سمجھنا اس میں کوئی بھی خوشی نہیں کرنا، یہ جہالت ہے زمانہ قدیم جہل کی پیروی ہے کیونکہ قرآ ن و احادیث اس کے بر عکس بیان کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا، سمجھنا خوشی نہ کرنا، شادیاں نہ کرنا سب غلط ہے اور فرسودہ ہے ماہ صفر کو غیر محفوظ تصور کرنا بلکل غلط ہے۔ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ اس ماہ میںجسمانی بیماری و مالی نقصان و نفع یا کسی اور تکلیف کو بد شگونی، نحوست خیال کرنا ا ور ماہ صفر کو فتنوں اور مصبتوں کا مہینہ کہتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ سب بے اصل ہیں اور اگر ہم اچھے اور سچے مسلمان ہو کر قرآن کو بغو ر مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کسی شخص یا چیز کو یا فال لینے کو کفار کا طریقہ کہا گیا ہے۔ عرب میں اسلام کو نور پھیلنے سے قبل دور جہالت میںفال وغیرہ کے طریقہ رائج تھے اور مختلف جانوں کی چیزوں کی حرکات سے شگون یعنی کام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ لیتے تھے بعض لوگ الو کو منحوس سمجھتے ہیں کسی کام کو کرنے سے پہلے پرندے اڑاتے ہیںاگر وہ دائیں طرف اڑتے تو وہ کام کرتے بائیں طرف اڑتے تو نہ کرتے اور اس کام کو کرنا منحوس اور بے برکت سمجھتے ۔ یہ سب غیرمسلموں اور جاہلوںکا طریقہ ہے دور جاہلیت کا رواج ہے نہ کہ ظہور اسلام کے بعد اور یہ بات احادیث کریمہ ثابت کرتی ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے"ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے اذیت دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں ہر کام ہے میں رات اور دن کو الٹ پلٹ کرتا ہوں( بخاری شریف)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دن رات ہفتوں کو یا مہینوں کو برا کہنا بھی غلط ہے اور خواتین اس معاملے میں زیادہ احتیاط کریں کیونکہ حالات کی خرابی کی بنا پر یا عادتاً کہتی ہیں کہ کیا برا عذاب آگیا۔ کونسی بری گھڑی تھی۔ یہ منحوس دن دیکھنا بھی نصیب میں تھا ان معاملات میں احتیاط کرنا چاہیے اور کلمہ شکر ادا کرنا چاہیے، فی کل حال
اسی طرح قرآن پاس سے ثبوت ملتا ہے کہ
اسلامی ( قمری) کلینڈر چاند کی بدلتی ہوئی حالتوں کی وجہ سے معرض ِ وجود میںآتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، لوگ آپ سے چاند کے ( گھٹنے بڑھنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لیے۔( سورة البقرہ189)
قمری کیلنڈر حقیقت میں ایک عالمی کیلنڈر ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے آسانی فرمائی ہے کہ وہ آسانی سے تاریخوںکا تعین کرسکے ۔چاند اللہ کے مقر کردہ ضابطہ کا پابند ہے اس لیے اس کے گھٹنے بڑھنے سے نہ تو کسی کی قسمت پر اثر پڑسکتا اور نہ ہی کسی خاص مہینے کا چاند نظر آنے سے نحو ست کی ابتدا ء ہوتی ہے اور نہ کسی خوش قسمتی کا آغاز ہوتا ہے اور بد قسمتی کا انحصار ، سورج ، چاند اور ستاروں کی گردش پر نہیں بلکہ انسان کے اپنے عمل پر ہے، حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے ،( مفہوم) رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ( اللہ کے حکم کے بغیر) کوئی مرض نہیں لگتا نہ ہی صفر ( کے ماہ میں) نحوست نہ ہی غول میں ۔ اسی طرح ایک اور حدیث پاک میںارشاد فرمایا کہ "کوئی بیماری متعدی نہیں،نہ الو کا نکلنا ،کچھ نہیں کسی ستارے کی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔( سنین ابو دائود، ماخذ ماہ صفر اور بدشگونی کا علاج)
بات صر ف یہ ہے کہ ماہ صفر المظفرمیں ایسا کچھ نہیں کہ اسے منحوس سمجھا جائے۔ تمام دن اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیںاور اللہ عزوجل شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اور ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اور اسی رب نے کائنات تخلیق کی ۔وہ اپنے بندوں کے لیے نعمتوں کا نزول فرماتا ہے نہ کہ فتنوں کا۔
ماہ صفر میں ہونے والے خصوصی کام اور عوام کی غلط فہمی
ماہ صفر میں اول تو کوئی بھی خوشی کی تقریب نہیں کی جاتی اور سمجھا جاتا ہے کہ ایسے کرنے سے کچھ غلط ہوجائے گا یا اس کام میں رخنہ پڑ جائے گا ۔ یا وہ کام مکمل نہیں ہوگا۔تو اسکا جواب یہ ہے جب ہم کسی کو تسلی دیتے ہیںتو کہتے ہیںاچھی امید رکھنا چاہیے: اور ہم کسی کام کے متعلق جب اچھی نیت رکھتے ہیں، اچھا گمان رکھتے ہیں تو رب کے فضل سے وہ کام اچھا ہو جاتا ہے اور اگر کسی کے بارے میں غلط گمان غلط نیت رکھی جاتی ہے تو وہم سامنے آتا ہے بہر حال اس ماہ میں بھی تمام خوشی کی تقریب کرسکتے ہیں کوئی حرج نہیں اور جیسا کہ بتایا گیا کہ تمام دن اللہ کے بنائے ہوئے ہیں کہ تو وہ کو ئی ماہ منحوس ہو بھی کیسے سکتا ہے ؟
پھر اس کے بعد ثانی یہ کہ ماہ صفر میں خواتین سو اپائو یا سو اکلو چنے ابال کر گھروں میں بھیجتی ہیں اور مردوں کا صدقہ کہتی ہیں۔
اب اس میں تین قابل ذکر بات ہیں ۔ ایک یہ کہ چنے گھروں میں بھیجے جاتے ہیں جو کہ صدقہ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ الحمد اللہ ہر گھر صدقہ کا محتاج نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ صدقہ ضروری نہیں ماہ صفر میں ہی نکالا جائے بلکہ ہر ماہ صدقہ دینا چاہئیے جتنی استطاعت ہو کہ یہ بیماری کو ٹال دیتا ہے اور صرف مردوں کا ہی نہیں تمام گھروں والوں کا دیا جائے ۔ تیسری بات سب سے اہم بات یہ کہ چنوں کے علاوہ یہی رقم کسی محتاج کو دے دی جائے تو صدقہ بھی ہوجائے گا اور اس محتاج کی کچھ مدد بھی ہوجائیگی۔ جسکا اجر بھی ملے گا اور محتاج کی دعابھی ملے گی۔
ماہ صفر میں خصوصا ً سورہ ملک، سورہ مزمل پڑھوائی جاتی ہے۔ تو یہاں پڑھوانے میں ،پرھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن قرآن پاک جب بھی پڑھا جائے گا اس کی برکتوں کے نزول کا عالم وہی ہوگا اور ثواب بھی جو ماہ صفر میںہے ۔ یہ وہ کام ہے جو ماہ صفر میں کیے جاتے ہیں
✒اس کے علاوہ ماہ صفر سے ہٹ کر میں ایک بات سے عوام الناس کو مطلع کرنا چاہوں گی جو کہ بہت عام ہوتی جارہی ہے اور وہ یہ کہ آج کل موبائل کے ذریعے حضور اکرمؐ کی طرف غلط بات منسوب کی جارہی ہے ایس ایم ایس یہ ہوتا ہے کہ"ربیع النور یارجب یا شعبان کا کا مہینہ ہوتا ہے"اور کہا جاتا ہے کہ
"مبارک ہو رجب کا چاند نظر آگیا ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ جس نے سب سے پہلے رجب کی مبارک باد دی اُس پر جنت واجب ہوجاتی ہے"
یہ بالکل غلط ہے، جنت اعمال سے ملے گی نہ کہ میسج کرنے سے بلکہ ایسے ایس ایم ایس آگے بڑھانے سے ہم گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ایک جھوٹ بات حضور اکر م ۖ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہم سب کو ایسے میسج آگے بڑھانے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے بہتر یہ ہے کہ قرآنی آیا ت و احادیث آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ اور دیگر ایس ایم ایس بھی بغیر حوالے کے آگے نہ بڑھائیں۔ اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنمہا کے نام سے پیغامات آگے بڑھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دس لوگوں کو آگے بھیجیں تو آج رات خوشی ملے گی انکار کرو گے تو یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا۔
نادان عوام:
عقیدت و آداب ہونا چاہیے ، ہم اممہات المومنین ،حضرت فاطمہ الزہرہ ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہما کے پیروں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ وہ ہماے سردار ہیں ان کے لیے ہمارے دلوں میں، عمل میں محبت و عقیدت و آداب ہو نا چاہیے۔ ہم ان کے لیے ادب رکھیں محبت رکھیں صرف ان کے نام کو وسیلہ بنا کر بارگاہ خداوندی میں دعا کریں گے تو انشا اللہ ہر کام بن جائے گا اور اس ڈر سے میسج آگے نہ بڑھانے سے خدا نخواستہ کچھ ہونہ جائے یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے ۔ خوشی ، غمی، عزت و دولت ، شہرت ، ذلت یہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے ہے۔ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے میں نے آج تک کبھی ایسا میسج آگے نہیں بڑھایا بلکہ پورا پڑھا بھی نہیں اورDeletکردیتی ہوں لیکن الحمد اللہ جیسا میسج میں بیان ہوتا ہے ویسا کچھ نہیں ہوا صرف ان کے نام سے الٰہی عزوجل کی بارگاہ میں دعا کریں سب کچھ ملے گا۔ نہ ایسے پیغامات خود کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں۔
الحاصل الکام یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے ہفتہ کے دنوں میں سے ہر دن کوئی نہ کوئی مصیبت اورآفت نازل ہوئی اور ہردن میں کوئی نہ کوئی نعمت ملی تمام دن اللہ کے پیدا ہوئے ہیںاور کوئی دن نامبارک اورمنحوس نہیں ہیں ۔ حوادث، آفات اور بلائوں اور مصائب کے نازل ہونے میں کسی چیز کا دخل نہیں ۔بیماریوں ، آفتوں اور مصیتوں کے نازل ہونے کا تعلق تکوین اور تقدیر سے ہے ۔ دن اور کسی شئے کا کسی آفت کے نزول میں کوئی دخل نہیں ہے اس لیے کسی بھی جائز و صحیح کام کو کسی دن تاریخ یا کسی بھی چیز کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں۔ رب کائنا ت حق پر قائم رہنے کی تو فیق مرحمت فرمائے اور حق پر قائم و دائم رکھے آمین)