• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محاسبہ قادیانت میں پیر مہر علی شاہ کا تاریخی کردار

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
1-10-2016 1-26-08 PM.png

23 اگست کے نوائے وقت میں اگر میری نظر سے 25 اگست 2012ءکو گولڑہ شریف اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کا اشتہار نہ گزرتا تو میں یقیناً پیر سید مہر علی شاہؒ کی ردِقادیانیت کے حوالے سے تاریخی خدمات پر کچھ لکھنے کی سعادت سے محروم رہتا۔
پیر مہر علی شاہؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خواب میں مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی تردید کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ شخص (بدبخت اور ملعون مرزا قادیانی) میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے کتر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو“۔ چنانچہ پیر مہر علی شاہؒ نے اپنے اکمل و احسن آقا و مولا حضرت محمدﷺ کی طرف سے حکم ملنے پر سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ تھا کہ 1899ءمیں ”شمس الہدایت“ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں انتہائی علمی اور مدلل انداز میں حیات مسیح اور قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ اس رسالے میں پیر مہر علی شاہؒ نے ملت اسلامیہ کے اس اجتماعی اور متفقہ عقیدے کی بڑے ہی موثر انداز میں ترجمانی فرمائی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ غلط، باطل اور جھوٹا ہے۔ حیات مسیح کا مسئلہ قادیانیت کی موت ہے۔ غلام احمد قادیانی ”شمس الہدایت“ کا تو کوئی جواب تحریر نہ کر سکا لیکن پیر مہر علی شاہؒ کو یہ چیلنج کر دیا کہ مجھ سے عربی میں تفسیر نویسی کا مقابلہ کر لو۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے چیلنج کیلئے جو خط لکھا اس کی زبان انتہائی گھٹیا، قابل شرم اور بے ہودہ تھی۔ بہرحال پیر مہر علی شاہؒ نے جواباً مرزا قادیانی کو کہا مجھے یہ چیلنج قبول ہے لیکن اس سے پہلے مرزا قادیانی اپنے دعویٰ مسیحیت و رسالت پر مجھ سے تقریری بحث کر لیں۔ غلام احمد قادیانی کو تقریری مباحثے میں شکست کے خوف نے اس شرط پر آمادہ ہونے سے روک دیا اور تقریری مباحثے کی شرط کو نامنظور کرنے کی اطلاع اس نے گولڑہ شریف بھجوا دی لیکن پیر مہر علی شاہؒ اپنے اعلان کے مطابق 25 اگست 1900ءبادشاہی مسجد لاہور میں پہنچ گئے۔ مرزا غلام احمد قادیانی خود تو پیر صاحب کے مقابلے میں راہ فرار اختیار کر چکا تھا لیکن دجال و کذاب مرزا قادیانی کی عیاری دیکھئے کہ لاہور میں دیواروں پر یہ اشتہارات چسپاں کروا دیئے گئے کہ مہر علی شاہ مقابلہ سے بھاگ گئے۔ لیکن جھوٹ آخر جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ مقابلے سے تو مرزا قادیانی ہی بھاگا تھا جس سے قادیانی حلقوں میں سخت مایوسی پھیل گئی اور بعض نے قادیانیت سے تائب ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔
قادیانیت کے مقابلے میں پیر مہر علی شاہؒ کو فتح مبین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی، اس کی خوشی میں بادشاہی مسجد لاہور میں 27 اگست 1900ءکو مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسہ کی صدارت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ نے کی۔ اس جلسہ میں انتہائی ایمان افروز تقریریں ہوئی اور ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس قرارداد پر تقریباً 60 علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ قرارداد کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بزرگان دین اور مشاہیر اسلام کو علمی مناظرے کا چیلنج دینا محض جھوٹی شہرت حاصل کرنے کا اظہار ہے۔ پیر مہر علی شاہؒ کو جو چیلنج مرزا کذاب کی طرف سے دیا گیا وہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ صرف مرزا قادیانی کی لاف زنی اور اپنے علم پر جھوٹا گھمنڈ تھا۔ اگر اسے اپنے جھوٹے دعووں پر اعتماد تھا تو اسے پیر صاحب گولڑہ شریف سے تقریری مباحثے سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد قرآن کریم، احادیث رسول اور صحابہ کرامؓ کے اجماع کے بالکل خلاف اور باطل ہیں۔ مرزا قادیانی نبوت کے غلط، بے بنیاد اور لغوی دعویٰ کی بنیاد پر خارج از اسلام ہے۔ مرزا قادیانی کا قادیان کو مکہ سے نسبت دینا، مسجد قادیان کو مسجد اقصیٰ قرار دینا، آنحضرتﷺ کی معراج کا منکر ہونا، اللہ کے ایک برگزیدہ اور محبوب پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی سخت توہین کرنا انتہائی شرمناک اور سرتا سر کفر ہے۔ مرزا قادیانی کی تحریریں اور اشتہارات بھی شرمناک جھوٹ اور بدزبانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس لئے آئندہ اس کی تحریروں کا کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن اور اٹل بات ہے کہ غلام احمد قادیانی کے عقائد یکسر خلاف اسلام ہیں۔ مرزا قادیانی لاہور میں اپنے راہ فرار کے بعد بھی اپنی عادت سے مجبور و کر پیر مہر علی شاہؒ کے خلاف بے ہودہ تحریریں شائع کرتا رہا لیکن پیر صاحب نے اسے جواب کے قابل ہی نہ سمجھا۔ 1907ءمیں قادیانیوں نے اپنے حلقوں میں یہ بات مشہور کر دی کہ پیر مہر علی شاہ کا آنے والے سال میں جیٹھ کے مہینے سے پہلے انتقال ہو جائے گا۔ قادیانیوں کی یہ حسرت تو پوری نہ ہوئی 1908ءمیں جیٹھ سے پہلے پیر صاحب وفات پا جائیں گے البتہ 1908ءمیں مرزا غلام احمد قادیانی کی عبرتناک موت نے خود اس کے جھوٹے دعووں پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے مولانا ثناءاللہ امرتسری کو چیلنج دیتے ہوئے 5 اپریل 1907ءکو ایک اشتہار شائع کیا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو گا وہ سچے کی زندگی میں مر جائے گا۔ مرزا قادیانی نے تحریری طور پر اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کی کہ اگر میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور میرا دعویٰ مسیح محض میرے نفس کی اختراع ہے تو مولوی ثناءاللہ اور مجھ میں سے جو جھوٹا ہے اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھا لے۔ اللہ تعالیٰ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ دعا قبول کر لی اور ساتھ ہی اسے جھوٹا بھی ثابت کر دیا کہ وہ مولانا ثناءاللہ کی زندگی ہی میں واصل جہنم ہو گیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی موت بھی ہیضے کے مرض میں مبتلا ہونے سے ہوئی۔ مرزا قادیانی ہیضہ کو قہرِ الٰہی کا نشان قرار دیتا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے جھوٹے دعوی¿ نبوت کے باعث قہرِ الٰہی کا ہی نشانہ بنا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے اپنے سسر میر ناصر کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ اسے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ آخر میں اپنے قارئین کی معلومات کیلئے یہ عرض کر دوں کہ مرزا قادیانی نے جس مولانا ثناءاللہ امرتسری کو چیلنج کر کے اشتہار شا ئع کیا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو مفسد اور کذاب ہے وہ سچے کی زندگی میں انتقال کر جائے گا، وہ مولانا ثناءاللہ مرزا قادیانی کی موت سے 40 سال بعد تک زندہ رہے۔
 
Top