میں نے قادیانیوں کو درج ذیل تھا جس پر محمد سلطان قادیانی سے کچھ بحث ہوئی جو احباب کے لئے پیش خدمت ہے ۔
نوٹ : جہاںمیں نے کامنٹ کرتے ہوئے بریکٹ کا استعمال کیا ہے وہاں محمد سلطان کا کامنٹ کوٹ کیا گیا ہے ۔
"
تمام قادیانیوں کو چیلنج
رفع کا لفظ بل ابطالیہ کے بعد ہو اور اسی شخص کے متعلق ہو جس کا ذکر بل سے ماقبل نفی قتل کے ساتھ ہو تو سوائے رفع جسمانی کے کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہے تو کلام عرب سے کوئی ایک مثال پیش فرما دیں۔"
Muhammad Sultan,
اس پوسٹ پر میں اس کے موضوع کے مطابق بات کر رہا ہوں
بلکل صحیح کہا ساحل کاہلوں صاحب نے یعنی عربی کا ایسا اصول جس کا تعلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات سے ہو اور پورے قرآن یا احادیث میں اس کی (زیر بحث آیت کے علاوہ) کوئی ایک بھی مثال نہ ہو وہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکتا اسی لیے آپ سے کہا کہ قرآن و حدیث سے کوئی ایک مثال دکھا دیں تاکہ میں بھی سمجھ سکوں کہ کس انسان کا جسمانی رفع اللّٰه تعالیٰ کی طرف ممکن ہے ۔
Salman Ahmad
سلطان ! جب آپ خود مان رہے ہیں کہ ایک آیت تو موجود ہے ۔ تو جب وہ آیت موجود ہے تو کسی اور آیت کی ضرورت ہی نہیں ۔
Salman Ahmad
اور کوشش کریں کہ میری پوسٹ کا جواب دیں
Muhammad Sultan,
میں نے کہاں کہا ہے کہ ایک آیت ایسی موجود ہے؟ میں نے تو آپ سے زیر بحث آیت کے علاوہ مثال مانگی ہے کیوں کہ جس آیت کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں اس کو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا
پھر میں نے تو آپ سے سیدھی سی بات کہی ہے کہ "اگر انسان کا رفع اللّٰه تعالیٰ کی طرف ہو" (چاہے اس میں بل ابطالیہ ہو یا نہ ہو) تو اس سے مراد رفع روحانی ہوتا ہے اور اس کی مثالیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں آپ کوئی ایک ایسی مثال جسمانی رفع کی قرآن و حدیث سے پیش کریں ۔
Salman Ahmad
جناب من میرا تو چیلنج ہی بل ابطالیہ کے ساتھ ہے ۔ آپ میرے چیلنج پر غور فرمائیں
Muhammad Sultan,
آپ سے تین مرتبہ آپ کے چیلنج کے حق میں مثال قرآن و حدیث سے مانگی گئی مگر آپ ایسی مثال دینے سے قاصر ہیں اس لیے آپ کا چیلنج تو ہؤا ہو چکا اب میں آپ کے اس استدلال کے خلاف مثالیں دیے دیتا ہوں
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ کہ زیرِ بحث آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل ہونے یا مصلوب ہونے کی نفی کی گئی ہے اور پھر بل کا لفظ استعمال ہؤا ہے جس سے آپ کی مراد ابطال جملہ اولیٰ ہے, ایسی صورت میں تو یہ صاف ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قتل یا صلیب کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ طبعی طریق پر ہوئی کیوں کہ نفی موت کی نہیں بلکہ قتل اور مصلوب ہونے کی کی گئی ہے
(دوسری بات بعد میں)
Salman Ahmad,
جناب مثال کا مطالبہ تو میرا ہے کہ کسی مثال سے میرے چیلنج کو توڑ دیں آپ الٹا مجھ سے مثال طلب کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ جب کسی کے قتل نہ ہونے کی بات ہوتی ہے تو اس سے نفی موت ہی ہوتی ۔ قتل موت ہی ہوتی ہے اور قتل نہ ہونا نفی موت
Salman Ahmad
اب آتے ہیں آپ کے دوسرے نکتے کی طرف یعنی بل ابطالیہ کی طرف ۔۔۔۔۔۔ تو یاد رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
Salman Ahmad
بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر رفعہ اللہ الیہ میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔
Salman Ahmad
بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
Muhammad Sultan,
چیلنج اگر عربی کے اصول پر دیا جائے تو پہلے اپنے چیلنج کی بنیاد دی جاتی ہے اور ہمارے درمیان وہ سب سے بہتر بنیاد قرآن ہے جس سے آپ اپنے خود ساختہ اصول کی مثال دینے سے قاصر ہیں, پھر بھی آپ کے عقلی دلائل کا میں قرآن سے ہی جواب دوں گا
پھر آپ نے کہا کہ قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے تو پھر یہاں "مات" کا لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا "قتل" کا نہیں مثلاً اگر کہا جائے کہ "زید قتل نہیں ہؤا تھا" تو کوئی بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ "زید مرا نہیں بلکہ زندہ ہے"
تیسری بات یہ کہ یہاں بل ابطالیہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس سے آپ کی دلیل کو تقویت ملتی ہو یا میری دلیل غلط ثابت ہوتی ہو مگر آپ نے یہاں جو عقلی دلیل دی ہے وہ خلاف قرآن ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بل سے پہلے اور ماًبعد والے مضمون میں مخالفت نہیں
ایک مثال نیچے کاپی کر رہا ہوں( یہاں سلطان نے سورہ نمل کی آیت 67 لگائی ہے)
Muhammad Sultan
پھر آپ نے بل ابطالیہ (جس کو اوپر غلط ثابت کیا جا چکا ہے) سے ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رفع پہلے ہؤا اور قتل کی کوشش بعد میں, پھر اس کا مطلب تو یہ ہؤا کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں الفاظ کی ترتیب بے معنی نہیں اور بل اس ترتیب کو بدل سکتا ہے لیکن اگر بل نہ ہو تو ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے ایسی صورت میں تو آپ کو یہ بھی ماننا ہو گا کہ اٰلِ عمران55 کے مطابق توفی پہلے اور رفع بعد میں ہوا
آپ کی آخری دلیل تو سب سے زیادہ احمقانہ ہے جہاں آپ کے مطابق "زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا"
جناب ذرا یہ تو بتا دیں کہ اگر قتل میں ضمیر روح کی طرف بھی ہے تو پھر کیا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی؟
Salman Ahmad !
(پھر آپ نے کہا کہ قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے تو پھر یہاں "مات" کا لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا "قتل" کا نہیں مثلاً اگر کہا جائے کہ "زید قتل نہیں ہؤا تھا" تو کوئی بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ "زید مرا نہیں بلکہ زندہ ہے")
۔۔ جواب : قتل کا لفظ اسی لئے استعمال ہوا کہ یہود کا دعوی ہی قول قتل کے ساتھ تھا اور یہود کا مطلب اس سے حضرت عیسی کو موت دینا ہی تھا جس کی نفی کر دی گئی۔
Salman Ahmad
(تیسری بات یہ کہ یہاں بل ابطالیہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس سے آپ کی دلیل کو تقویت ملتی ہو یا میری دلیل غلط ثابت ہوتی ہو مگر آپ نے یہاں جو عقلی دلیل دی ہے وہ خلاف قرآن ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بل سے پہلے اور ماًبعد والے مضمون میں مخالفت نہیں)
بل ابطالیہ کیوں ایسی چیز نہیں ؟ یہ محض عقلی دلیل نہیں جناب یہ بل کا جو قانون ہے وہ یہاں پیش کیا ہے اور یہ کیسے خلاف قرآن ہو سکتی ہے ؟ میں بل ابطالیہ پیش کر رہا ہوں اور آپ بل انتقالیہ کی مثال پیش کر رہے ہیں ۔ کچھ تو خیال فرمائیں ۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے بل ابطالیہ (جس کو اوپر غلط ثابت کیا جا چکا ہے) سے ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رفع پہلے ہؤا اور قتل کی کوشش بعد میں, پھر اس کا مطلب تو یہ ہؤا کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں الفاظ کی ترتیب بے معنی نہیں اور بل اس ترتیب کو بدل سکتا ہے لیکن اگر بل نہ ہو تو ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے ایسی صورت میں تو آپ کو یہ بھی ماننا ہو گا کہ اٰلِ عمران55 کے مطابق توفی پہلے اور رفع بعد میں ہوا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : بل ابطالیہ کیسے غلط ہو گیا ۔ بل ابطالیہ بل انتقالیہ سے غلط ثابت نہیں ہوا کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ مجھ سے کیا منسوب کر رہے ہیں کہ رفع پہلے ہوا اور قتل کی کوشش بعد میں ۔۔ میں نے کہا تھا ، بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اور ہوا بھی ایسے ہی حضرت عیسی کو تو اللہ نے یہود کے پہنچنے سے قبل ہی اٹھا لیا تھا اور ان کی جگہ کوئی اور پکڑا گیا جس کے ساتھ یہ سارا معاملہ کیا گیا ۔۔۔ انجیل برنباس بھی اسی کی تائید کرتی ہے ۔
Salman Ahmad
(آپ کی آخری دلیل تو سب سے زیادہ احمقانہ ہے جہاں آپ کے مطابق "زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا"
جناب ذرا یہ تو بتا دیں کہ اگر قتل میں ضمیر روح کی طرف بھی ہے تو پھر کیا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی؟)
۔۔۔۔۔۔ جواب : کہہ مجھے رہے ہیں لیکن بات خود احمقانہ کر رہے ہیں ۔ یہ آپ جیسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے بات کرنا پڑتی ہے ۔ ۔کیونکہ آپ لوگ رفع سے مراد صرف روح عیسی لیتے ہیں لیکن قتل سے انکار جسم و روح کے مجموعہ کا کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دوبارہ میرا کامنٹ پڑھ لیں میں اس میں ذرا سی ترمیم کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
Muhammad Sultan,
آپ نے خود لیکھ دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود موت دینا چاہتے تھے تھے اور ایسی موت جو کوئی دوسرا انسان جان بوجھ کر دے اسے قتل کہتے ہیں اور اس آیت میں صرف ایسی موت کی ہی نفی کی گئی ہے اُس موت کی نہیں جو طبعی طور پر ہو
پھر آپ نے لیکھا کہ
"بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔"
اور میں نے اسے قرآن سے غلط ثابت کر دیا ہے اور اب آپ نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں صرف بل ابطالیہ نہیں بلکہ بل انتقالیہ بھی موجود ہے اور اس سے آپ کا چیلنج ایک بار پھر پاش پاش ہو گیا,اس لیے اب آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ زیرِ بحث آیت میں بل انتقالیہ نہیں بل ابطالیہ ہے.
اگلی بات پر میری دلیل قائم رہے گی جب تک کہ آپ بل ابطالیہ ثابت نہ کر دیں
اگر انجیل اور اس کے اختلاف پر بحث کا شوق ہے تو زرا یہ بتا دیجیے کہ عیسائیوں میں بنیادی عقیدہ یعنی کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد کیا ہے, وہ سب تو انجیل کی ہی رو سے یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اور پھر زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لیا گیا
چناچہ مرقس 15/24 میں ہے کہ مسیح بہت تھوڑے وقت (تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ) کے لیے صلیب پر لٹکایا گیا۔
Muhammad Sultan
اگر کہا جائے کہ "پورا لاہور میچ دیکھنا پہنچا ہؤا تھا" تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھے گا کہ لاہور کی سڑکیں اور گلیاں گراؤنڈ میں گئے تھے بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ لاہور کے لوگ گراؤنڈ میں گئے تھے
لیکن اگر کہا جائے کہ "گورنمنٹ نے پل بنانے کے لیے پورا لاہور ہی کھودا ڈالا تھا" تو کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ مطلب لے کہ لاہور کے لوگوں کو کھود ڈالا بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ لاہور کی سڑکوں کو کھود ڈالا.
اسی طرح جب کہا جائے کہ زید کو اللّٰه تعالیٰ نے موت دے دی تو مراد ہو گی کہ زید کے جسم پر موت وارد ہوئی کیوں کہ روح پر موت وارد نہیں ہوتی
اور جب کہا جائے کہ زید کا اللّٰه تعالیٰ نے رفع کیا تو مراد ہو گی کہ روح کا رفع ہؤا کیوں کہ قرآن و حدیث سے جب اللّٰه تعالیٰ کی طرف کسی انسان کا رفع ہوتا ہے تو وہ صرف روحانی ہوتا ہے جسمانی رفع الی اللّٰه کی کوئی مثال نہیں ہے۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے لیکھا کہ
"بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔"
اور میں نے اسے قرآن سے غلط ثابت کر دیا ہے)
۔۔۔۔ جواب : میں نے اوپر بھی پوچھا تھا کہ کیسے غلط ثابت کر دیا ؟؟؟؟؟
Salman Ahmad
(اور اب آپ نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں صرف بل ابطالیہ نہیں بلکہ بل انتقالیہ بھی موجود ہے اور اس سے آپ کا چیلنج ایک بار پھر پاش پاش ہو گیا,اس لیے اب آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ زیرِ بحث آیت میں بل انتقالیہ نہیں بل ابطالیہ ہے.)
۔۔۔ جواب : جناب میں نے انکار کب کیا تھا بل انتقالیہ کا جو اب میں نے تسلیم کر لیا ہے ۔ عجیب بات کرتے ہیں ۔ یوں کہہ لیں کہ شاید آپ کو پہلی بار پتہ چلا ہے کہ بل انتقالیہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن میں بل ابطالیہ کفار کے کسی قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے اور اس آیت میں بھی کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے ہی بل آیا ہے ۔
Salman Ahmad
{ بل رفعه الله إليه } هذا إبطال لما ادعوه من قتله وصلبه ،تفسیر البحرالمحیط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ { بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وإنكار لقتله وإثبات لرفعه .تفسیر بیضاوی
{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } ردّ عليهم وإثبات لما هو الصحيح ،تفسیر فتح القدیر
Salman Ahmad
(اگر انجیل اور اس کے اختلاف پر بحث کا شوق ہے تو زرا یہ بتا دیجیے کہ عیسائیوں میں بنیادی عقیدہ یعنی کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد کیا ہے, وہ سب تو انجیل کی ہی رو سے یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اور پھر زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لیا گیا
چناچہ مرقس 15/24 میں ہے کہ مسیح بہت تھوڑے وقت (تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ) کے لیے صلیب پر لٹکایا گیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : میں نے انجیل برنباس کی بات کی تھی ۔
Muhammad Sultan,
جناب پہلی بات تو یہ کہ آپ میری دلیل کہ
"زیرِ بحث آیت میں قتل کی نفی ہے طبعی موت کی نہیں"
کا کوئی جواب نہیں دے سکے بلکہ آگے اپنے حوالے میں "و إنكار لقتله..." لیکھ کر (نہ کہ "و إنكار لماته..." ) میری اس بات کو مزید تقویت بخش دی ہے
Muhammad Sultan
پھر آپ نے بہت اچھی بات لیکھ دی کہ مجھے بل انتقالیہ بلکہ ابطالیہ کا بھی پہلی بار پتہ چلا ہے, جناب اسی لیے تو آپ سے قرآن کی مثالیں مانگیں تھیں تاکہ ہمیں بھی سمجھ آئے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مگر شاید آپ کے پاس قرآن سے کوئی ایک بھی مثال اپنی بات کی تائید میں نہیں ہے
بحرحال "بل ابطالیہ" کی جو تعریف (کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے) لیکھی ہے اس کے مطابق ضروری تھا کہ یہاں پہلے کفار کے اُس قول کو نقل کیا جاتا اور پھر اُسے رد کیا جاتا جبکہ بل سے پہلے کا قول "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے
پس آپ کا اس آیت میں بل کو بل ابطالیہ کہنا اُس کی تعریف کے مطابق نہیں بنتا
Muhammad Sultan
پھر آپ نے کہا کہ آپ نے "انجیل برنباس" کی بات کی تھی, جناب کیا قرآن نے کہیں موجودہ "انجیل برنباس" کی تصدیق کی ہے جو اس انجیل کی بات ہمارے لئے حجت ہو, آپ تو یقیناً موجودہ انجیل کے اختلافات سے واقف ہوں گے جس کی ایک مثال میں اوپر دے چکا ہوں, موجودہ انجیل کی صحت کی حیثیت تو احادیث کے برابر بھی نہیں اور اس کے صرف انہیں حصوں پر یقین کیا جا سکتا ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہوں
اس لئے اگر آپ قرآن ہی پر بات کریں تو بہتر ہے, ورنہ انجیل کے حوالے میرے پاس بھی موجود ہیں مگر وہ آپ کے لئے نہیں بلکہ عیسائیوں کے لئے ہیں۔
Muhammad Sultan
پھر آپ نے ضمائر کی بات نہیں کی, لگتا ہے "لاہور" والی مثال آپ کو سمجھ آ گئی ہے ۔
Salman Ahmad
(جناب پہلی بات تو یہ کہ آپ میری دلیل کہ
"زیرِ بحث آیت میں قتل کی نفی ہے طبعی موت کی نہیں"
کا کوئی جواب نہیں دے سکے بلکہ آگے اپنے حوالے میں "و إنكار لقتله..." لیکھ کر (نہ کہ "و إنكار لماته..." ) میری اس بات کو مزید تقویت بخش دی ہے)
جواب : قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے یعنی جس موقع پر قتل کی نفی کی جارہی اس موقع پر موت ہی کی نفی کی جارہی ہے اور اس قتل یا موت کی نفی کے بعد اس آیت میں اصل واقعہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسی ؑ کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ حضرت عیسیؑ کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا ۔ ۔۔۔۔۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ کسی نفی قتل سے اس کی طبعی موت خود بخود ثابت نہیں ہو جاتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مثلا آپ کے قتل کی نفی کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ طبعی موت بھی فوت ہو گئے ہیں ۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے بہت اچھی بات لیکھ دی کہ مجھے بل انتقالیہ بلکہ ابطالیہ کا بھی پہلی بار پتہ چلا ہے, جناب اسی لیے تو آپ سے قرآن کی مثالیں مانگیں تھیں )
۔۔۔۔۔۔۔ جواب : اس کی ایک مثال تو میں اپنے شروع کے کامنٹس میں دے دی تھی ۔۔۔۔۔ وہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی مثال یوں سمجھئے ۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
Salman Ahmad
(بحرحال "بل ابطالیہ" کی جو تعریف (کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے) لیکھی ہے اس کے مطابق ضروری تھا کہ یہاں پہلے کفار کے اُس قول کو نقل کیا جاتا اور پھر اُسے رد کیا جاتا جبکہ بل سے پہلے کا قول "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : جناب کفار کا قول اللہ پاک شروع میں ہی بیان کر چکا ہے ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ الخ اور اسی قول کو اللہ رد کر رہا ہے وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ
Salman Ahmad
اور رہی بات انجیل برنباس کی تو مرزا صاحب اس کی تائید کر چکے ہیں ۔۔۔۔ ’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۸۷تا۲۹۲ حاشیہ ملخص، خزائن ج۲ ص۲۳۹تا۲۴۱ ملخص)
اناجیل اربعہ کے مقابل انجیل برنباس کو ترجیع دی جائے گی ۔ اور خاص طور پر وہاں جہاں اس کے بیانات قرآن کے موافق ہیں ۔
Muhammad Sultan,
نفیِ قتل:
سلمان صاحب میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہاں مات کا نہیں بلکہ قتل کا لفظ ہے, آپ کے پاس اس بات کا تو کوئی جواب نہیں اور ایک ہی بات کو بار بار دہرائے جا رہے ہیں, ایسا کرنے سے کوئی دلیل نہیں بن جاتی, اگر کوئی دلیل ہے تو بتائیں ورنہ جو بات قرآن نے لیکھی ہے اسے تسلیم کر لیں, میں نے تو کہیں نہیں کہا کہ اس آیت سے طبعی وفات ثابت ہوتی ہے, میں نے کہا تھا کہ اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی مرے ہی نہیں بلکہ اگر کسی دوسری آیت سے اُن کی طبعی موت ثابت ہو تو یہ آیت اُس کے خلاف نہیں ہے مگر آپ تو اس آیت سے اُن کی زندگی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں, آپ ہی کی مثال میں اگر کہیں میرے قتل کی نفی کی جائے تو اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں طبعی موت نہیں مر سکتا بلکہ آسمان پر چلا گیا ہوں
قتل کی نفی کے بعد جو بات بیان ہوئی ہے اُس سے کہیں بھی جسم کا آسمان پر جانا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی آسمان پر جانا قتل ہونے کی ضد ہے
اس آیت سے پچھلی آیت میں یہودیوں کےحضرت عیسیٰ علیه السلام کی پیدائش کےنعوذ باللّٰه ناجائز ہونے کے الزام کا ذکر ہے, پھر یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق صلیب پر مرنا لعنتی موت تھی جو اُنھوں نے حضرت عیسیٰ علیه السلام کو دینے کی کوشش کی-
پس یہودیوں نے یہ مکر کرنے کی کوشش کی کہ جس انسان کی پیدائش بھی نعوذ باللّٰه ناجائز اور موت بھی نعوذ باللّٰه لعنتی ثابت ہو وہ ہرگز اللّٰه کا پیارا اور نبی نہیں ہو سکتا
مگر اللّٰه تعالیٰ نے نہ صرف اُن کو اس موت سے مخفی تدبیر کے ذریعہ بچایہ بلکہ بلند درجات کا بھی وعدہ فرمایا
Muhammad Sultan
پھر بل ابطالیہ کی بحث میں بل سے قبل "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے, اگر آپ کے خیال میں آیت کے شروع میں موجود کفار کے قول کی نفی کی گئی ہے تو میرے مطابق حضرت عیسیٰ علیه السلام کے مصلوب (لعنتی موت کے) ہونے اور اس سے پچھلی آیت میں ان کی ناجائز پیدائش کے الزام کی بھی نفی کی گئی ہے جس کی وجہ میں اوپر لیکھ چکا ہوں
بحرحال آپ کا اس آیت میں بل کو بل ابطالیہ کہنا اُس کی تعریف کے مطابق نہیں بنتا
ان دونوں باتوں کا اگر کوئی جواب ہے تو بتائیں ورنہ آپ کے تمام دلائل رد ہو چکے ہے
Muhammad Sultan
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے برنباس کی انجیل میں حضرت محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کے نام موجود ہونے کی وجہ سے اس کی تائید کی ہے مگر جو بات اُس کی قرآن کے مخالف ہو اس کی نہیں اور یہی بات میں نے بھی اوپر لیکھی تھی,
بحرحال کیا آپ کے پاس قرآن کے دلائل ختم ہو گئے ہیں یا آپ نے عیسائیت قبول کر لی ہے جو آپ انجیل برنباس پر بات کرنے پر بضد ہیں
Salman Ahmad
اب آپ کج بحثی پر اتر آئے ہیں اور صرف بحث برائے بحث کر رہے ہیں ۔ میں نے بل ابطالیہ بھی ثابت کر دیا ہے ۔ اور ترتیب سے نکات بیان کئے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفار کا قول اللہ پاک شروع میں ہی بیان کر چکا ہے ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ الخ اور اسی قول کو اللہ رد کر رہا ہے وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ
اب بالکل صاف واضح ہے وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ میں جو تردید بیان ہو رہی ہے وہ اسی بات کی ہے کہ ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ ۔ بہرحال بات کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔ حق آپ تک پہنچا دیا گیا ہے اب آپ مانیں یا مانیں آپ کی مرضی ۔
Salman Ahmad
آپ شوق سے محرف اناجیل اربعہ سے حضرت عیسیؑ کے حوالے سے جو ان کے ساتھ کیا گیا ہے مانتے رہیں ۔ ہم تو اس حوالے سے انجیل برنباس کو ترجیع دیتے ہیں اور قرآن بھی اسی کی ہی تائید کرتا ہے ۔ وما علینا الا البلغ
Muhammad Sultan,
کیا خاک ثابت کیا ہے
"آپ کا چیلنج تھا کہ رفع کا لفظ بل ابطالیہ کے بعد ..."
1. آپ سے اس کی مثال مانگی مگر پورے قرآن اور سینکڑوں احادیث میں سے کوئی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکے
2. پھر زیرِ بحث آیت میں کسی بھی طرح موت کی نفی ثابت نہیں کر سکے اور قتل کی نفی کو ہی موت کی نفی کہتے رہے
3. پھر بل ابطالیہ کی تعریف کے مطابق بل سے قبل کفار کا قول ہونا ضروری تھا جس کی نفی کی جاتی مگر وہاں اللّٰه تعالیٰ کا قول "ما قتلوہ یقینا" ہے جو ثابت کرتا ہے کہ یہاں بل ابطالیہ نہیں ہے بلکہ یہاں اللّٰه تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیه السلام کی بل سے قبل ("و ما قتلوہ یقینا" فرما کر) صلیبی (لعنتی) موت کی نفی فرما رہا ہے اور بل کے بعد بلندیِ درجات کا وعدہ فرما رہا ہے جو بل انتقالیہ کا طریق ہے نہ کہ بل ابطالیہ کا-
4. پھر زیرِ بحث آیت میں کہیں بھی حضرت عیسیٰ علیه السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر جانے کے الفاظ موجود نہیں اور اس سلسلے میں ضمائر کی بحث میں بھی آپ کے پاس میری دی گئی مثال کا کوئی جواب نہ تھا
5. انجیل کی طرف آپ اس لئے بھاگے تھے کیوں کہ قرآن سے آپ کے دلائل کو رد کر دیا گیا تھا اور جو بات قرآن سے غلط ثابت کر دی جائے اس کے حق میں ایک تو کیا آپ ان پانچوں انجیلوں سے بھی حوالے لے آئیں تو ہمارے لئے ان کی کوئی حیثت نہیں اور وہ ردی میں پھینکنے کے لائق ہیں
بحرحال ہر پڑھنے والا اس تمام بحث کو پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ قرآن کس کے ساتھ ہے
Muhammad Sultan,
آپ کا ایک حوالہ جس کا جواب دینا رہ گیا تھا وہ آپ کی طرف سے بل ابطالیہ کی ایک مثال تھی جو سورۃ الانبیاء-26 کا ہے-
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس آیت کا جو ترجمہ لیکھا ہے اُس میں ایک لفظ "سبحانه" کا ترجمہ شاید آپ نے جان بوجھ کر نہیں کیا تاکہ آپ اس آیت کو اپنی دلیل کے حق میں پیش کر سکیں
حلانکہ اس آیت میں بھی بل سے پہلے اللّٰه تعالیٰ کا قول "سبحانه" ہے نہ کہ کفار کا قول, جو بتا رہا ہے کہ یہاں بھی بل, بل ابطالیہ نہیں ہے- پھر فرشتوں کو بیٹا بنانے کی نفی کرنا اُن کے نیک بندے ہونے کی ضد نہیں ہے یعنی فرشتوں کو بیٹا بنانے کی نفی کرنا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ ضرور وہ نیک بندے ہوں اس لئے آپ کی یہ مثال بھی بل ابطالیہ میں غلط ثابت ہوتی ہے
آپ کا ترجمہ ساتھ ہی نیچے کاپی کر رہا ہوں تاکہ پڑہنے والوں کو آسانی ہو جائےو قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
Muhammad Sultan
حقیقت یہ ہے کہ نحویوں کے مطابق قرآنِ کریم میں بل ابطالیہ آہی نہیں سکتا اور اس بات کی تفصیل نیچے حوالوں کے ساتھ کاپی کر رہا ہوں اسے غور سے پڑھ لیں, اس کے بعد آپ کے چیلنج کی رہی سہی جان بھی ختم ہو جاتی ہے۔
نوٹ : جہاںمیں نے کامنٹ کرتے ہوئے بریکٹ کا استعمال کیا ہے وہاں محمد سلطان کا کامنٹ کوٹ کیا گیا ہے ۔
"
تمام قادیانیوں کو چیلنج
رفع کا لفظ بل ابطالیہ کے بعد ہو اور اسی شخص کے متعلق ہو جس کا ذکر بل سے ماقبل نفی قتل کے ساتھ ہو تو سوائے رفع جسمانی کے کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہے تو کلام عرب سے کوئی ایک مثال پیش فرما دیں۔"
Muhammad Sultan,
اس پوسٹ پر میں اس کے موضوع کے مطابق بات کر رہا ہوں
بلکل صحیح کہا ساحل کاہلوں صاحب نے یعنی عربی کا ایسا اصول جس کا تعلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات سے ہو اور پورے قرآن یا احادیث میں اس کی (زیر بحث آیت کے علاوہ) کوئی ایک بھی مثال نہ ہو وہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکتا اسی لیے آپ سے کہا کہ قرآن و حدیث سے کوئی ایک مثال دکھا دیں تاکہ میں بھی سمجھ سکوں کہ کس انسان کا جسمانی رفع اللّٰه تعالیٰ کی طرف ممکن ہے ۔
Salman Ahmad
سلطان ! جب آپ خود مان رہے ہیں کہ ایک آیت تو موجود ہے ۔ تو جب وہ آیت موجود ہے تو کسی اور آیت کی ضرورت ہی نہیں ۔
Salman Ahmad
اور کوشش کریں کہ میری پوسٹ کا جواب دیں
Muhammad Sultan,
میں نے کہاں کہا ہے کہ ایک آیت ایسی موجود ہے؟ میں نے تو آپ سے زیر بحث آیت کے علاوہ مثال مانگی ہے کیوں کہ جس آیت کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں اس کو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا
پھر میں نے تو آپ سے سیدھی سی بات کہی ہے کہ "اگر انسان کا رفع اللّٰه تعالیٰ کی طرف ہو" (چاہے اس میں بل ابطالیہ ہو یا نہ ہو) تو اس سے مراد رفع روحانی ہوتا ہے اور اس کی مثالیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں آپ کوئی ایک ایسی مثال جسمانی رفع کی قرآن و حدیث سے پیش کریں ۔
Salman Ahmad
جناب من میرا تو چیلنج ہی بل ابطالیہ کے ساتھ ہے ۔ آپ میرے چیلنج پر غور فرمائیں
Muhammad Sultan,
آپ سے تین مرتبہ آپ کے چیلنج کے حق میں مثال قرآن و حدیث سے مانگی گئی مگر آپ ایسی مثال دینے سے قاصر ہیں اس لیے آپ کا چیلنج تو ہؤا ہو چکا اب میں آپ کے اس استدلال کے خلاف مثالیں دیے دیتا ہوں
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ کہ زیرِ بحث آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل ہونے یا مصلوب ہونے کی نفی کی گئی ہے اور پھر بل کا لفظ استعمال ہؤا ہے جس سے آپ کی مراد ابطال جملہ اولیٰ ہے, ایسی صورت میں تو یہ صاف ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قتل یا صلیب کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ طبعی طریق پر ہوئی کیوں کہ نفی موت کی نہیں بلکہ قتل اور مصلوب ہونے کی کی گئی ہے
(دوسری بات بعد میں)
Salman Ahmad,
جناب مثال کا مطالبہ تو میرا ہے کہ کسی مثال سے میرے چیلنج کو توڑ دیں آپ الٹا مجھ سے مثال طلب کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ جب کسی کے قتل نہ ہونے کی بات ہوتی ہے تو اس سے نفی موت ہی ہوتی ۔ قتل موت ہی ہوتی ہے اور قتل نہ ہونا نفی موت
Salman Ahmad
اب آتے ہیں آپ کے دوسرے نکتے کی طرف یعنی بل ابطالیہ کی طرف ۔۔۔۔۔۔ تو یاد رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
Salman Ahmad
بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر رفعہ اللہ الیہ میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔
Salman Ahmad
بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
Muhammad Sultan,
چیلنج اگر عربی کے اصول پر دیا جائے تو پہلے اپنے چیلنج کی بنیاد دی جاتی ہے اور ہمارے درمیان وہ سب سے بہتر بنیاد قرآن ہے جس سے آپ اپنے خود ساختہ اصول کی مثال دینے سے قاصر ہیں, پھر بھی آپ کے عقلی دلائل کا میں قرآن سے ہی جواب دوں گا
پھر آپ نے کہا کہ قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے تو پھر یہاں "مات" کا لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا "قتل" کا نہیں مثلاً اگر کہا جائے کہ "زید قتل نہیں ہؤا تھا" تو کوئی بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ "زید مرا نہیں بلکہ زندہ ہے"
تیسری بات یہ کہ یہاں بل ابطالیہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس سے آپ کی دلیل کو تقویت ملتی ہو یا میری دلیل غلط ثابت ہوتی ہو مگر آپ نے یہاں جو عقلی دلیل دی ہے وہ خلاف قرآن ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بل سے پہلے اور ماًبعد والے مضمون میں مخالفت نہیں
ایک مثال نیچے کاپی کر رہا ہوں( یہاں سلطان نے سورہ نمل کی آیت 67 لگائی ہے)
Muhammad Sultan
پھر آپ نے بل ابطالیہ (جس کو اوپر غلط ثابت کیا جا چکا ہے) سے ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رفع پہلے ہؤا اور قتل کی کوشش بعد میں, پھر اس کا مطلب تو یہ ہؤا کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں الفاظ کی ترتیب بے معنی نہیں اور بل اس ترتیب کو بدل سکتا ہے لیکن اگر بل نہ ہو تو ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے ایسی صورت میں تو آپ کو یہ بھی ماننا ہو گا کہ اٰلِ عمران55 کے مطابق توفی پہلے اور رفع بعد میں ہوا
آپ کی آخری دلیل تو سب سے زیادہ احمقانہ ہے جہاں آپ کے مطابق "زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا"
جناب ذرا یہ تو بتا دیں کہ اگر قتل میں ضمیر روح کی طرف بھی ہے تو پھر کیا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی؟
Salman Ahmad !
(پھر آپ نے کہا کہ قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے تو پھر یہاں "مات" کا لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا "قتل" کا نہیں مثلاً اگر کہا جائے کہ "زید قتل نہیں ہؤا تھا" تو کوئی بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ "زید مرا نہیں بلکہ زندہ ہے")
۔۔ جواب : قتل کا لفظ اسی لئے استعمال ہوا کہ یہود کا دعوی ہی قول قتل کے ساتھ تھا اور یہود کا مطلب اس سے حضرت عیسی کو موت دینا ہی تھا جس کی نفی کر دی گئی۔
Salman Ahmad
(تیسری بات یہ کہ یہاں بل ابطالیہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس سے آپ کی دلیل کو تقویت ملتی ہو یا میری دلیل غلط ثابت ہوتی ہو مگر آپ نے یہاں جو عقلی دلیل دی ہے وہ خلاف قرآن ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بل سے پہلے اور ماًبعد والے مضمون میں مخالفت نہیں)
بل ابطالیہ کیوں ایسی چیز نہیں ؟ یہ محض عقلی دلیل نہیں جناب یہ بل کا جو قانون ہے وہ یہاں پیش کیا ہے اور یہ کیسے خلاف قرآن ہو سکتی ہے ؟ میں بل ابطالیہ پیش کر رہا ہوں اور آپ بل انتقالیہ کی مثال پیش کر رہے ہیں ۔ کچھ تو خیال فرمائیں ۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے بل ابطالیہ (جس کو اوپر غلط ثابت کیا جا چکا ہے) سے ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رفع پہلے ہؤا اور قتل کی کوشش بعد میں, پھر اس کا مطلب تو یہ ہؤا کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں الفاظ کی ترتیب بے معنی نہیں اور بل اس ترتیب کو بدل سکتا ہے لیکن اگر بل نہ ہو تو ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے ایسی صورت میں تو آپ کو یہ بھی ماننا ہو گا کہ اٰلِ عمران55 کے مطابق توفی پہلے اور رفع بعد میں ہوا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : بل ابطالیہ کیسے غلط ہو گیا ۔ بل ابطالیہ بل انتقالیہ سے غلط ثابت نہیں ہوا کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ مجھ سے کیا منسوب کر رہے ہیں کہ رفع پہلے ہوا اور قتل کی کوشش بعد میں ۔۔ میں نے کہا تھا ، بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اور ہوا بھی ایسے ہی حضرت عیسی کو تو اللہ نے یہود کے پہنچنے سے قبل ہی اٹھا لیا تھا اور ان کی جگہ کوئی اور پکڑا گیا جس کے ساتھ یہ سارا معاملہ کیا گیا ۔۔۔ انجیل برنباس بھی اسی کی تائید کرتی ہے ۔
Salman Ahmad
(آپ کی آخری دلیل تو سب سے زیادہ احمقانہ ہے جہاں آپ کے مطابق "زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا"
جناب ذرا یہ تو بتا دیں کہ اگر قتل میں ضمیر روح کی طرف بھی ہے تو پھر کیا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی؟)
۔۔۔۔۔۔ جواب : کہہ مجھے رہے ہیں لیکن بات خود احمقانہ کر رہے ہیں ۔ یہ آپ جیسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے بات کرنا پڑتی ہے ۔ ۔کیونکہ آپ لوگ رفع سے مراد صرف روح عیسی لیتے ہیں لیکن قتل سے انکار جسم و روح کے مجموعہ کا کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دوبارہ میرا کامنٹ پڑھ لیں میں اس میں ذرا سی ترمیم کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
Muhammad Sultan,
آپ نے خود لیکھ دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود موت دینا چاہتے تھے تھے اور ایسی موت جو کوئی دوسرا انسان جان بوجھ کر دے اسے قتل کہتے ہیں اور اس آیت میں صرف ایسی موت کی ہی نفی کی گئی ہے اُس موت کی نہیں جو طبعی طور پر ہو
پھر آپ نے لیکھا کہ
"بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔"
اور میں نے اسے قرآن سے غلط ثابت کر دیا ہے اور اب آپ نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں صرف بل ابطالیہ نہیں بلکہ بل انتقالیہ بھی موجود ہے اور اس سے آپ کا چیلنج ایک بار پھر پاش پاش ہو گیا,اس لیے اب آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ زیرِ بحث آیت میں بل انتقالیہ نہیں بل ابطالیہ ہے.
اگلی بات پر میری دلیل قائم رہے گی جب تک کہ آپ بل ابطالیہ ثابت نہ کر دیں
اگر انجیل اور اس کے اختلاف پر بحث کا شوق ہے تو زرا یہ بتا دیجیے کہ عیسائیوں میں بنیادی عقیدہ یعنی کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد کیا ہے, وہ سب تو انجیل کی ہی رو سے یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اور پھر زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لیا گیا
چناچہ مرقس 15/24 میں ہے کہ مسیح بہت تھوڑے وقت (تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ) کے لیے صلیب پر لٹکایا گیا۔
Muhammad Sultan
اگر کہا جائے کہ "پورا لاہور میچ دیکھنا پہنچا ہؤا تھا" تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھے گا کہ لاہور کی سڑکیں اور گلیاں گراؤنڈ میں گئے تھے بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ لاہور کے لوگ گراؤنڈ میں گئے تھے
لیکن اگر کہا جائے کہ "گورنمنٹ نے پل بنانے کے لیے پورا لاہور ہی کھودا ڈالا تھا" تو کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ مطلب لے کہ لاہور کے لوگوں کو کھود ڈالا بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ لاہور کی سڑکوں کو کھود ڈالا.
اسی طرح جب کہا جائے کہ زید کو اللّٰه تعالیٰ نے موت دے دی تو مراد ہو گی کہ زید کے جسم پر موت وارد ہوئی کیوں کہ روح پر موت وارد نہیں ہوتی
اور جب کہا جائے کہ زید کا اللّٰه تعالیٰ نے رفع کیا تو مراد ہو گی کہ روح کا رفع ہؤا کیوں کہ قرآن و حدیث سے جب اللّٰه تعالیٰ کی طرف کسی انسان کا رفع ہوتا ہے تو وہ صرف روحانی ہوتا ہے جسمانی رفع الی اللّٰه کی کوئی مثال نہیں ہے۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے لیکھا کہ
"بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔"
اور میں نے اسے قرآن سے غلط ثابت کر دیا ہے)
۔۔۔۔ جواب : میں نے اوپر بھی پوچھا تھا کہ کیسے غلط ثابت کر دیا ؟؟؟؟؟
Salman Ahmad
(اور اب آپ نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں صرف بل ابطالیہ نہیں بلکہ بل انتقالیہ بھی موجود ہے اور اس سے آپ کا چیلنج ایک بار پھر پاش پاش ہو گیا,اس لیے اب آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ زیرِ بحث آیت میں بل انتقالیہ نہیں بل ابطالیہ ہے.)
۔۔۔ جواب : جناب میں نے انکار کب کیا تھا بل انتقالیہ کا جو اب میں نے تسلیم کر لیا ہے ۔ عجیب بات کرتے ہیں ۔ یوں کہہ لیں کہ شاید آپ کو پہلی بار پتہ چلا ہے کہ بل انتقالیہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن میں بل ابطالیہ کفار کے کسی قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے اور اس آیت میں بھی کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے ہی بل آیا ہے ۔
Salman Ahmad
{ بل رفعه الله إليه } هذا إبطال لما ادعوه من قتله وصلبه ،تفسیر البحرالمحیط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ { بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وإنكار لقتله وإثبات لرفعه .تفسیر بیضاوی
{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } ردّ عليهم وإثبات لما هو الصحيح ،تفسیر فتح القدیر
Salman Ahmad
(اگر انجیل اور اس کے اختلاف پر بحث کا شوق ہے تو زرا یہ بتا دیجیے کہ عیسائیوں میں بنیادی عقیدہ یعنی کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد کیا ہے, وہ سب تو انجیل کی ہی رو سے یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اور پھر زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لیا گیا
چناچہ مرقس 15/24 میں ہے کہ مسیح بہت تھوڑے وقت (تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ) کے لیے صلیب پر لٹکایا گیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : میں نے انجیل برنباس کی بات کی تھی ۔
Muhammad Sultan,
جناب پہلی بات تو یہ کہ آپ میری دلیل کہ
"زیرِ بحث آیت میں قتل کی نفی ہے طبعی موت کی نہیں"
کا کوئی جواب نہیں دے سکے بلکہ آگے اپنے حوالے میں "و إنكار لقتله..." لیکھ کر (نہ کہ "و إنكار لماته..." ) میری اس بات کو مزید تقویت بخش دی ہے
Muhammad Sultan
پھر آپ نے بہت اچھی بات لیکھ دی کہ مجھے بل انتقالیہ بلکہ ابطالیہ کا بھی پہلی بار پتہ چلا ہے, جناب اسی لیے تو آپ سے قرآن کی مثالیں مانگیں تھیں تاکہ ہمیں بھی سمجھ آئے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مگر شاید آپ کے پاس قرآن سے کوئی ایک بھی مثال اپنی بات کی تائید میں نہیں ہے
بحرحال "بل ابطالیہ" کی جو تعریف (کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے) لیکھی ہے اس کے مطابق ضروری تھا کہ یہاں پہلے کفار کے اُس قول کو نقل کیا جاتا اور پھر اُسے رد کیا جاتا جبکہ بل سے پہلے کا قول "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے
پس آپ کا اس آیت میں بل کو بل ابطالیہ کہنا اُس کی تعریف کے مطابق نہیں بنتا
Muhammad Sultan
پھر آپ نے کہا کہ آپ نے "انجیل برنباس" کی بات کی تھی, جناب کیا قرآن نے کہیں موجودہ "انجیل برنباس" کی تصدیق کی ہے جو اس انجیل کی بات ہمارے لئے حجت ہو, آپ تو یقیناً موجودہ انجیل کے اختلافات سے واقف ہوں گے جس کی ایک مثال میں اوپر دے چکا ہوں, موجودہ انجیل کی صحت کی حیثیت تو احادیث کے برابر بھی نہیں اور اس کے صرف انہیں حصوں پر یقین کیا جا سکتا ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہوں
اس لئے اگر آپ قرآن ہی پر بات کریں تو بہتر ہے, ورنہ انجیل کے حوالے میرے پاس بھی موجود ہیں مگر وہ آپ کے لئے نہیں بلکہ عیسائیوں کے لئے ہیں۔
Muhammad Sultan
پھر آپ نے ضمائر کی بات نہیں کی, لگتا ہے "لاہور" والی مثال آپ کو سمجھ آ گئی ہے ۔
Salman Ahmad
(جناب پہلی بات تو یہ کہ آپ میری دلیل کہ
"زیرِ بحث آیت میں قتل کی نفی ہے طبعی موت کی نہیں"
کا کوئی جواب نہیں دے سکے بلکہ آگے اپنے حوالے میں "و إنكار لقتله..." لیکھ کر (نہ کہ "و إنكار لماته..." ) میری اس بات کو مزید تقویت بخش دی ہے)
جواب : قتل کی نفی موت کی ہی نفی ہے یعنی جس موقع پر قتل کی نفی کی جارہی اس موقع پر موت ہی کی نفی کی جارہی ہے اور اس قتل یا موت کی نفی کے بعد اس آیت میں اصل واقعہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسی ؑ کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ حضرت عیسیؑ کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا ۔ ۔۔۔۔۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ کسی نفی قتل سے اس کی طبعی موت خود بخود ثابت نہیں ہو جاتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مثلا آپ کے قتل کی نفی کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ طبعی موت بھی فوت ہو گئے ہیں ۔
Salman Ahmad
(پھر آپ نے بہت اچھی بات لیکھ دی کہ مجھے بل انتقالیہ بلکہ ابطالیہ کا بھی پہلی بار پتہ چلا ہے, جناب اسی لیے تو آپ سے قرآن کی مثالیں مانگیں تھیں )
۔۔۔۔۔۔۔ جواب : اس کی ایک مثال تو میں اپنے شروع کے کامنٹس میں دے دی تھی ۔۔۔۔۔ وہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی مثال یوں سمجھئے ۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
Salman Ahmad
(بحرحال "بل ابطالیہ" کی جو تعریف (کفار کے قول کو رد کرنے کے لئے آتا ہے) لیکھی ہے اس کے مطابق ضروری تھا کہ یہاں پہلے کفار کے اُس قول کو نقل کیا جاتا اور پھر اُسے رد کیا جاتا جبکہ بل سے پہلے کا قول "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : جناب کفار کا قول اللہ پاک شروع میں ہی بیان کر چکا ہے ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ الخ اور اسی قول کو اللہ رد کر رہا ہے وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ
Salman Ahmad
اور رہی بات انجیل برنباس کی تو مرزا صاحب اس کی تائید کر چکے ہیں ۔۔۔۔ ’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۸۷تا۲۹۲ حاشیہ ملخص، خزائن ج۲ ص۲۳۹تا۲۴۱ ملخص)
اناجیل اربعہ کے مقابل انجیل برنباس کو ترجیع دی جائے گی ۔ اور خاص طور پر وہاں جہاں اس کے بیانات قرآن کے موافق ہیں ۔
Muhammad Sultan,
نفیِ قتل:
سلمان صاحب میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہاں مات کا نہیں بلکہ قتل کا لفظ ہے, آپ کے پاس اس بات کا تو کوئی جواب نہیں اور ایک ہی بات کو بار بار دہرائے جا رہے ہیں, ایسا کرنے سے کوئی دلیل نہیں بن جاتی, اگر کوئی دلیل ہے تو بتائیں ورنہ جو بات قرآن نے لیکھی ہے اسے تسلیم کر لیں, میں نے تو کہیں نہیں کہا کہ اس آیت سے طبعی وفات ثابت ہوتی ہے, میں نے کہا تھا کہ اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی مرے ہی نہیں بلکہ اگر کسی دوسری آیت سے اُن کی طبعی موت ثابت ہو تو یہ آیت اُس کے خلاف نہیں ہے مگر آپ تو اس آیت سے اُن کی زندگی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں, آپ ہی کی مثال میں اگر کہیں میرے قتل کی نفی کی جائے تو اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں طبعی موت نہیں مر سکتا بلکہ آسمان پر چلا گیا ہوں
قتل کی نفی کے بعد جو بات بیان ہوئی ہے اُس سے کہیں بھی جسم کا آسمان پر جانا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی آسمان پر جانا قتل ہونے کی ضد ہے
اس آیت سے پچھلی آیت میں یہودیوں کےحضرت عیسیٰ علیه السلام کی پیدائش کےنعوذ باللّٰه ناجائز ہونے کے الزام کا ذکر ہے, پھر یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق صلیب پر مرنا لعنتی موت تھی جو اُنھوں نے حضرت عیسیٰ علیه السلام کو دینے کی کوشش کی-
پس یہودیوں نے یہ مکر کرنے کی کوشش کی کہ جس انسان کی پیدائش بھی نعوذ باللّٰه ناجائز اور موت بھی نعوذ باللّٰه لعنتی ثابت ہو وہ ہرگز اللّٰه کا پیارا اور نبی نہیں ہو سکتا
مگر اللّٰه تعالیٰ نے نہ صرف اُن کو اس موت سے مخفی تدبیر کے ذریعہ بچایہ بلکہ بلند درجات کا بھی وعدہ فرمایا
Muhammad Sultan
پھر بل ابطالیہ کی بحث میں بل سے قبل "ما قتلوہ یقیناً" کفار کا قول نقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا قول ہے, اگر آپ کے خیال میں آیت کے شروع میں موجود کفار کے قول کی نفی کی گئی ہے تو میرے مطابق حضرت عیسیٰ علیه السلام کے مصلوب (لعنتی موت کے) ہونے اور اس سے پچھلی آیت میں ان کی ناجائز پیدائش کے الزام کی بھی نفی کی گئی ہے جس کی وجہ میں اوپر لیکھ چکا ہوں
بحرحال آپ کا اس آیت میں بل کو بل ابطالیہ کہنا اُس کی تعریف کے مطابق نہیں بنتا
ان دونوں باتوں کا اگر کوئی جواب ہے تو بتائیں ورنہ آپ کے تمام دلائل رد ہو چکے ہے
Muhammad Sultan
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے برنباس کی انجیل میں حضرت محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کے نام موجود ہونے کی وجہ سے اس کی تائید کی ہے مگر جو بات اُس کی قرآن کے مخالف ہو اس کی نہیں اور یہی بات میں نے بھی اوپر لیکھی تھی,
بحرحال کیا آپ کے پاس قرآن کے دلائل ختم ہو گئے ہیں یا آپ نے عیسائیت قبول کر لی ہے جو آپ انجیل برنباس پر بات کرنے پر بضد ہیں
Salman Ahmad
اب آپ کج بحثی پر اتر آئے ہیں اور صرف بحث برائے بحث کر رہے ہیں ۔ میں نے بل ابطالیہ بھی ثابت کر دیا ہے ۔ اور ترتیب سے نکات بیان کئے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفار کا قول اللہ پاک شروع میں ہی بیان کر چکا ہے ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ الخ اور اسی قول کو اللہ رد کر رہا ہے وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ
اب بالکل صاف واضح ہے وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ میں جو تردید بیان ہو رہی ہے وہ اسی بات کی ہے کہ ان قتلنا المسیح عیسی بن مریم ۔۔۔۔۔ ۔ بہرحال بات کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔ حق آپ تک پہنچا دیا گیا ہے اب آپ مانیں یا مانیں آپ کی مرضی ۔
Salman Ahmad
آپ شوق سے محرف اناجیل اربعہ سے حضرت عیسیؑ کے حوالے سے جو ان کے ساتھ کیا گیا ہے مانتے رہیں ۔ ہم تو اس حوالے سے انجیل برنباس کو ترجیع دیتے ہیں اور قرآن بھی اسی کی ہی تائید کرتا ہے ۔ وما علینا الا البلغ
Muhammad Sultan,
کیا خاک ثابت کیا ہے
"آپ کا چیلنج تھا کہ رفع کا لفظ بل ابطالیہ کے بعد ..."
1. آپ سے اس کی مثال مانگی مگر پورے قرآن اور سینکڑوں احادیث میں سے کوئی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکے
2. پھر زیرِ بحث آیت میں کسی بھی طرح موت کی نفی ثابت نہیں کر سکے اور قتل کی نفی کو ہی موت کی نفی کہتے رہے
3. پھر بل ابطالیہ کی تعریف کے مطابق بل سے قبل کفار کا قول ہونا ضروری تھا جس کی نفی کی جاتی مگر وہاں اللّٰه تعالیٰ کا قول "ما قتلوہ یقینا" ہے جو ثابت کرتا ہے کہ یہاں بل ابطالیہ نہیں ہے بلکہ یہاں اللّٰه تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیه السلام کی بل سے قبل ("و ما قتلوہ یقینا" فرما کر) صلیبی (لعنتی) موت کی نفی فرما رہا ہے اور بل کے بعد بلندیِ درجات کا وعدہ فرما رہا ہے جو بل انتقالیہ کا طریق ہے نہ کہ بل ابطالیہ کا-
4. پھر زیرِ بحث آیت میں کہیں بھی حضرت عیسیٰ علیه السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر جانے کے الفاظ موجود نہیں اور اس سلسلے میں ضمائر کی بحث میں بھی آپ کے پاس میری دی گئی مثال کا کوئی جواب نہ تھا
5. انجیل کی طرف آپ اس لئے بھاگے تھے کیوں کہ قرآن سے آپ کے دلائل کو رد کر دیا گیا تھا اور جو بات قرآن سے غلط ثابت کر دی جائے اس کے حق میں ایک تو کیا آپ ان پانچوں انجیلوں سے بھی حوالے لے آئیں تو ہمارے لئے ان کی کوئی حیثت نہیں اور وہ ردی میں پھینکنے کے لائق ہیں
بحرحال ہر پڑھنے والا اس تمام بحث کو پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ قرآن کس کے ساتھ ہے
Muhammad Sultan,
آپ کا ایک حوالہ جس کا جواب دینا رہ گیا تھا وہ آپ کی طرف سے بل ابطالیہ کی ایک مثال تھی جو سورۃ الانبیاء-26 کا ہے-
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس آیت کا جو ترجمہ لیکھا ہے اُس میں ایک لفظ "سبحانه" کا ترجمہ شاید آپ نے جان بوجھ کر نہیں کیا تاکہ آپ اس آیت کو اپنی دلیل کے حق میں پیش کر سکیں
حلانکہ اس آیت میں بھی بل سے پہلے اللّٰه تعالیٰ کا قول "سبحانه" ہے نہ کہ کفار کا قول, جو بتا رہا ہے کہ یہاں بھی بل, بل ابطالیہ نہیں ہے- پھر فرشتوں کو بیٹا بنانے کی نفی کرنا اُن کے نیک بندے ہونے کی ضد نہیں ہے یعنی فرشتوں کو بیٹا بنانے کی نفی کرنا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ ضرور وہ نیک بندے ہوں اس لئے آپ کی یہ مثال بھی بل ابطالیہ میں غلط ثابت ہوتی ہے
آپ کا ترجمہ ساتھ ہی نیچے کاپی کر رہا ہوں تاکہ پڑہنے والوں کو آسانی ہو جائےو قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
Muhammad Sultan
حقیقت یہ ہے کہ نحویوں کے مطابق قرآنِ کریم میں بل ابطالیہ آہی نہیں سکتا اور اس بات کی تفصیل نیچے حوالوں کے ساتھ کاپی کر رہا ہوں اسے غور سے پڑھ لیں, اس کے بعد آپ کے چیلنج کی رہی سہی جان بھی ختم ہو جاتی ہے۔