مختلف دعاوی اور ناموں پر اعتراض
اشد علی اور اس کے پیر نے ایک خبیثانہ استہزاء کرتے ہوئے زیر عنوان ’’تھالی کے بینگن ‘‘لکھا ہے۔
’’غرضیکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود کاشتہ پودا پروان چڑھتا رہا۔ مرزا صاحب ایک کے بعد دوسری قلابازیاں کھاتے رہے۔ مجدّد بنے ، مسیح موعود بنے ، لارڈ کرشنا اور جے سنگھ بہادر بنے ۔کبھی خدا تو کبھی خدا کا بیٹا ہونے کے الہام ہونے لگے ، الغرض کبھی بنتے کبھی بگڑتے رہے۔ کبھی مغل کبھی فارسی النسل ، کبھی اسرائیلی تو کبھی چینی۔ جدھر جھکاؤ دیکھا تھالی کے بینگن کی طرح ادھر ہی لڑھک پڑے۔‘‘( بے لگام کتاب)
دراصل یہ ایک استہزاء ہے جو راشد علی نے اپنے ذہن کی خبیثانہ تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے ۔ ورنہ یہ باتیں محلِّ اعتراض نہیں ہو سکتیں۔راشد علی توبظاہرپڑہا لکھا، ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ایک اَن پڑھ اور جاہلِ مطلق شخص بھی جانتا ہے کہ ایک انسان اپنی ذاتی حیثیت اور حسب ونسب اور رشتوں کے اعتبار سے کئی حیثیتوں اور کئی صفات کا حامل ہوتا ہے ۔اگر یہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے اور MRCP بننے کے بعد اپنی ذات پر ہی غور کر لیتا تو ذہن پر کافی زور دینے سے اسے شاید یہ علم ہو ہی جاتا کہ وہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی ہے اور MRCP کا مقام بھی اسے حاصل ہے۔ وہ غالباًسیّد بھی ہے اور پنجابی بھی اور ساتھ ہی پاکستانی اور ایشین بھی اور فجیرہ میں رہنے کی وجہ سے فجیروی یا فجوری بھی، وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جب وہ اچھی طرح اپنی ذاتی حیثیت پر غور کر لیتا تو پھر اسے یقین ہو جاتا کہ درحقیقت تھالی کا اصل بینگن تو وہ خود ہے۔ مامور من اللہ ، خدا تعالیٰ کے پاک مسیح اور مہدی علیہ السلام کو تو اس نے محض اپنے نفس کے آئینہ میں دیکھا ہے جو اسے اپنی ہی شکل نظر آئی ہے۔کیونکہ وہ کبھی ڈاکٹر ہے تو کبھی سیّد، کبھی پاکستانی اور کبھی..... وغیرہ وغیرہ
راشد علی اور اس کے پیر کی حالت پر ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک مرتبہ سرورِ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک بچے سے بڑے پیار سے پوچھا کہ تمہاری والدہ کا بھائی کون ہے ؟ بچہ سوچ میں پڑ گیا تو آپ ؐ نے اس کی سوچ سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر فرمایا کہ کیا وہ تمہارا ماموں نہ ہوا۔
اگر خدانخواستہ یہ پیر اور مرید وہاں ہوتے تو نجانے کیا کیا تبصرے اس شخص کے بارہ میں کر جاتے جو ایک پہلو سے اس بچے کا ماموں تھا اور ایک پہلو سے اس کی ماں کا بھائی تھا۔ وہ عرب بھی تھا اور حجازی بھی ۔۔۔۔۔۔۔
ان پیرو مرید کے نزدیک کسی کے بکثرت دعاوی اور اس کے مراتب ومناصب اور صفاتی نام اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں۔ ان کے حضرت مرزا صاحب پر اس نوع کے حملہ سے یہ تو قطعی طور پر واضح ہے کہ ان پر صرف عقل کی مار ہی نہیں پڑی ، بلکہ ان کے دل میں ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بھی ذرّہ بھر محبت نہیں اور نہ ہی آپؐ کے مقامِ بلند ، آپ کے دعاوی ، آپ کے منصب اور صفاتی ناموں کا کوئی پاس ہے۔ ورنہ حضرت مرزا صاحب کی دشمنی میں آپ پر حملہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتے کہ اس کی زد دراصل مظہرِ ذاتِ خد ا ، محبوبِ کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات پر پڑتی ہے۔
قبل اس کے کہ اس کی تفصیل بیان کریں، ہم قارئین کی خدمت میں چند بزرگانِ امّت کے دعاوی پیش کرتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دعاوی اور ناموں کی کثرت سے ان کے مقام ومرتبہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ، ان کے منصب ومقام میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
اگر یہ دعوے ایسے ہی قابلِ اعتراض ہیں اور مدّعی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں جس طرح راشد علی اور اس کا پیر بیان کرتے ہیں اور ان پر وہی نام صادق آتا ہے جو انہوں نے اس اعتراض کو دیا ہے تو ہم تو اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس پیر اور اس کے مرید سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ حضرت شمس الدین تبریز ؒ کو کیا کہیں گے جو فرماتے ہیں
ہم نوح وہم آدم توئی ہم عیسیٰ مریم توئی
ہمراز وہم محرم توئی چیزے بدہ درویش را
(دیوان حضرت شمس تبریز صفحہ ۶ مطبع نامی منشی نو لکشور لکھنو)
کہ تو ہی نوح ہے ، تو ہی آدم ؑ ہے اور تو ہی عیسیٰ مریمی ہے۔
اور پھر حضرت ابن عزلی ؒ پر کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے۔ جنہوں نے فرمایا
انا القرآن و السبع المثانی
وروح الروح لاروح الاوانی(فتوحاتِ مکّیہ۔ جلد ۱ صفحہ ۹ ۔مطبوعہ دار صادر بیروت)
کہ میں قرآن کریم ہوں اور میں سبع المثانی ہوں ۔
نیز کیا عنوان لگائیں گے حضرت بایزید بسطامی ؒ کے ان فرمودات پر کہ ان سے جب :
پوچھا عرش کیا ہے ؟ کہا میں ہوں !
پوچھا کرسی کیا ہے ؟ کہا میں ہوں !
پوچھا لوح وقلم کیا ہے ؟کہا میں ہوں!
پوچھا خدا عزّوجلّ کے بندے ہیں ابراہیم وموسیٰ محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام؟ کہا وہ سب میں ہوں !
پوچھا کہتے ہیں خدا عزّوجلّ کے بندے ہیں جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل ، عزرائیل علیہ السلام ؟کہا وہ سب میں ہوں!
(تذکرۃ الاولیاء اردو۔ باب ۱۴ ص ۔ ۱۲۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز)
اور پھر یہ پیر اور مرید کیا نام دیں گے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ محدّث دہلوی کو جنہوں نے دعوے کئے کہ
’’ تعلیم اسماء مردم رامن بودم وآنچہ برنوح طوفان شد وسبب نصرۃ اوشد من بودم آنچہ ابراہیم را گلزار گشت من بودم توریت موسی من بودم احیاء عیسیٰ میت رامن بودم قرآن مصطفی من بودم والحمد للہ رب العالمین ۔ ‘‘(التفہیمات الالٰہیہ۔ جلد نمبر ۱صفحہ ۱۸ ۔ مطبوعہ مدنیہ برقی پریس بجنور)
ترجمہ ۔ میں،اسماء کی تعلیم تھا اور طوفانِ نوح کے وقت جو نصرت آئی وہ میں تھا ، ابراہیم ؑ پر جب آگ گلزار ہوئی تو وہ میں تھا ، موسیٰ ؑ کی توریت میں تھا ، عیسیؑ کا احیائے موتیٰ میں تھا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا قرآن میں تھا۔
قارئین کرام ! راشد علی اور اس کے پیر کی الٹی منطق کا آپ نے ایک حدّ تک اندازہ تو لگا لیا ہو گا۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ
کثرۃُ الاسمائِ تدلّ علٰی شرفِ المسمّٰی وفضلِہٖ
(تفسیر الخازن ۔ جزو اول صفحہ۱۱ تفسیر سورہ فاتحہ)
کہ ناموں کی کثرت مسمّٰی کے بلند مقام ، بزرگی اور اس کی فضیلت کا ثبوت ہے۔اسی وجہ سے سرتاجِ انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سب سے زیادہ اسمائے مبارکہ سے نوازا گیا جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السّلام فرماتے ہیں :
اشد علی اور اس کے پیر نے ایک خبیثانہ استہزاء کرتے ہوئے زیر عنوان ’’تھالی کے بینگن ‘‘لکھا ہے۔
’’غرضیکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود کاشتہ پودا پروان چڑھتا رہا۔ مرزا صاحب ایک کے بعد دوسری قلابازیاں کھاتے رہے۔ مجدّد بنے ، مسیح موعود بنے ، لارڈ کرشنا اور جے سنگھ بہادر بنے ۔کبھی خدا تو کبھی خدا کا بیٹا ہونے کے الہام ہونے لگے ، الغرض کبھی بنتے کبھی بگڑتے رہے۔ کبھی مغل کبھی فارسی النسل ، کبھی اسرائیلی تو کبھی چینی۔ جدھر جھکاؤ دیکھا تھالی کے بینگن کی طرح ادھر ہی لڑھک پڑے۔‘‘( بے لگام کتاب)
دراصل یہ ایک استہزاء ہے جو راشد علی نے اپنے ذہن کی خبیثانہ تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے ۔ ورنہ یہ باتیں محلِّ اعتراض نہیں ہو سکتیں۔راشد علی توبظاہرپڑہا لکھا، ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ایک اَن پڑھ اور جاہلِ مطلق شخص بھی جانتا ہے کہ ایک انسان اپنی ذاتی حیثیت اور حسب ونسب اور رشتوں کے اعتبار سے کئی حیثیتوں اور کئی صفات کا حامل ہوتا ہے ۔اگر یہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے اور MRCP بننے کے بعد اپنی ذات پر ہی غور کر لیتا تو ذہن پر کافی زور دینے سے اسے شاید یہ علم ہو ہی جاتا کہ وہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی ہے اور MRCP کا مقام بھی اسے حاصل ہے۔ وہ غالباًسیّد بھی ہے اور پنجابی بھی اور ساتھ ہی پاکستانی اور ایشین بھی اور فجیرہ میں رہنے کی وجہ سے فجیروی یا فجوری بھی، وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جب وہ اچھی طرح اپنی ذاتی حیثیت پر غور کر لیتا تو پھر اسے یقین ہو جاتا کہ درحقیقت تھالی کا اصل بینگن تو وہ خود ہے۔ مامور من اللہ ، خدا تعالیٰ کے پاک مسیح اور مہدی علیہ السلام کو تو اس نے محض اپنے نفس کے آئینہ میں دیکھا ہے جو اسے اپنی ہی شکل نظر آئی ہے۔کیونکہ وہ کبھی ڈاکٹر ہے تو کبھی سیّد، کبھی پاکستانی اور کبھی..... وغیرہ وغیرہ
راشد علی اور اس کے پیر کی حالت پر ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک مرتبہ سرورِ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک بچے سے بڑے پیار سے پوچھا کہ تمہاری والدہ کا بھائی کون ہے ؟ بچہ سوچ میں پڑ گیا تو آپ ؐ نے اس کی سوچ سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر فرمایا کہ کیا وہ تمہارا ماموں نہ ہوا۔
اگر خدانخواستہ یہ پیر اور مرید وہاں ہوتے تو نجانے کیا کیا تبصرے اس شخص کے بارہ میں کر جاتے جو ایک پہلو سے اس بچے کا ماموں تھا اور ایک پہلو سے اس کی ماں کا بھائی تھا۔ وہ عرب بھی تھا اور حجازی بھی ۔۔۔۔۔۔۔
ان پیرو مرید کے نزدیک کسی کے بکثرت دعاوی اور اس کے مراتب ومناصب اور صفاتی نام اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں۔ ان کے حضرت مرزا صاحب پر اس نوع کے حملہ سے یہ تو قطعی طور پر واضح ہے کہ ان پر صرف عقل کی مار ہی نہیں پڑی ، بلکہ ان کے دل میں ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بھی ذرّہ بھر محبت نہیں اور نہ ہی آپؐ کے مقامِ بلند ، آپ کے دعاوی ، آپ کے منصب اور صفاتی ناموں کا کوئی پاس ہے۔ ورنہ حضرت مرزا صاحب کی دشمنی میں آپ پر حملہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتے کہ اس کی زد دراصل مظہرِ ذاتِ خد ا ، محبوبِ کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات پر پڑتی ہے۔
قبل اس کے کہ اس کی تفصیل بیان کریں، ہم قارئین کی خدمت میں چند بزرگانِ امّت کے دعاوی پیش کرتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دعاوی اور ناموں کی کثرت سے ان کے مقام ومرتبہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ، ان کے منصب ومقام میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
اگر یہ دعوے ایسے ہی قابلِ اعتراض ہیں اور مدّعی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں جس طرح راشد علی اور اس کا پیر بیان کرتے ہیں اور ان پر وہی نام صادق آتا ہے جو انہوں نے اس اعتراض کو دیا ہے تو ہم تو اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس پیر اور اس کے مرید سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ حضرت شمس الدین تبریز ؒ کو کیا کہیں گے جو فرماتے ہیں
ہم نوح وہم آدم توئی ہم عیسیٰ مریم توئی
ہمراز وہم محرم توئی چیزے بدہ درویش را
(دیوان حضرت شمس تبریز صفحہ ۶ مطبع نامی منشی نو لکشور لکھنو)
کہ تو ہی نوح ہے ، تو ہی آدم ؑ ہے اور تو ہی عیسیٰ مریمی ہے۔
اور پھر حضرت ابن عزلی ؒ پر کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے۔ جنہوں نے فرمایا
انا القرآن و السبع المثانی
وروح الروح لاروح الاوانی(فتوحاتِ مکّیہ۔ جلد ۱ صفحہ ۹ ۔مطبوعہ دار صادر بیروت)
کہ میں قرآن کریم ہوں اور میں سبع المثانی ہوں ۔
نیز کیا عنوان لگائیں گے حضرت بایزید بسطامی ؒ کے ان فرمودات پر کہ ان سے جب :
پوچھا عرش کیا ہے ؟ کہا میں ہوں !
پوچھا کرسی کیا ہے ؟ کہا میں ہوں !
پوچھا لوح وقلم کیا ہے ؟کہا میں ہوں!
پوچھا خدا عزّوجلّ کے بندے ہیں ابراہیم وموسیٰ محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام؟ کہا وہ سب میں ہوں !
پوچھا کہتے ہیں خدا عزّوجلّ کے بندے ہیں جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل ، عزرائیل علیہ السلام ؟کہا وہ سب میں ہوں!
(تذکرۃ الاولیاء اردو۔ باب ۱۴ ص ۔ ۱۲۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز)
اور پھر یہ پیر اور مرید کیا نام دیں گے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ محدّث دہلوی کو جنہوں نے دعوے کئے کہ
’’ تعلیم اسماء مردم رامن بودم وآنچہ برنوح طوفان شد وسبب نصرۃ اوشد من بودم آنچہ ابراہیم را گلزار گشت من بودم توریت موسی من بودم احیاء عیسیٰ میت رامن بودم قرآن مصطفی من بودم والحمد للہ رب العالمین ۔ ‘‘(التفہیمات الالٰہیہ۔ جلد نمبر ۱صفحہ ۱۸ ۔ مطبوعہ مدنیہ برقی پریس بجنور)
ترجمہ ۔ میں،اسماء کی تعلیم تھا اور طوفانِ نوح کے وقت جو نصرت آئی وہ میں تھا ، ابراہیم ؑ پر جب آگ گلزار ہوئی تو وہ میں تھا ، موسیٰ ؑ کی توریت میں تھا ، عیسیؑ کا احیائے موتیٰ میں تھا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا قرآن میں تھا۔
قارئین کرام ! راشد علی اور اس کے پیر کی الٹی منطق کا آپ نے ایک حدّ تک اندازہ تو لگا لیا ہو گا۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ
کثرۃُ الاسمائِ تدلّ علٰی شرفِ المسمّٰی وفضلِہٖ
(تفسیر الخازن ۔ جزو اول صفحہ۱۱ تفسیر سورہ فاتحہ)
کہ ناموں کی کثرت مسمّٰی کے بلند مقام ، بزرگی اور اس کی فضیلت کا ثبوت ہے۔اسی وجہ سے سرتاجِ انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سب سے زیادہ اسمائے مبارکہ سے نوازا گیا جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السّلام فرماتے ہیں :
’’ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں، جس کا اتمّ اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد ومولیٰ سیّد الانبیاء سیّد الاحیاء محمّدمصطفی ﷺ ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسبِ مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتمّ طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امیّ صادق مصدوق محمّد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی ‘‘۔(روحانی خزائن جلد ۵ ۔ آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۶۰ ،۱۶۱ )
چنانچہ قرآن کریم میں آپؐ کے جو نام اور منصب بیان فرمائے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
۱۔ آپؐ احمد ؐ ہیں وَمُبَشِّرًا بِّرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ ( الصف:۷)
۲۔ آپ ؐمحمّدؐ ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ( الفتح :۳۰)
۳۔ آپ ؐ یس ہیں۔ یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الحَکِیْمٍ اِنَّکَ لَمِن المُرسَلِینَ ( یٰس: ۲تا ۴)
۴ ۔ آپ طہٰ ہیں ۔ طٰہٰ مَااَنْزَلْنَا عَلَیْکَ القُرْاٰنَ لِتَشْقٰی ( طہٰ : ۲ ، ۳)
۵۔ آپ مزّمل ہیں ۔ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ( المزّمّل :۲)
۶۔ آپ مدّثّر ہیں ۔ یٰآَیُّھَا الْمُدََّثِّرُ ( المدّثّر :۲)
۷ ۔ آپؐ نبی امی ہیں۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرََّسُوْلَ النََّبِیََّ الاُمِّیَّ( الاعراف : ۱۵۸)
۸۔ آپ داعی الی اللہ ہیں۔ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہ بِاِذْنِہ (الاحزاب: ۴۷)
۹۔ آپ ؐ سراج منیرہیں ۔ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا (الاحزاب :۴۷)
۱۰۔۱۱ آپ ؐ منذراورہادی ہیں۔ اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد:۸)
۱۲۔ ۱۳۔ ۱۴آپ ؐ شاہدہیں، مبشرہیں اورنذیرہیں۔اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاْھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔ (الاحزاب:۴)
۱۵۔ آپ ؐ مزکیّ ہیں یُزَکِّیْھِمْ (الجمعہ :۳)
۱۶۔ آپ ؐ معلّمِ کتاب وحکمت ہیں یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (الجمعہ:۳)
۱۷۔ آپ ؐ نورہیں قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نّوْرٌ (المائدہ:۱۶)
۱۸۔ آپ ؐ برہان ہیں۔ قَدْ جَائَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ (النسائ:۱۷۰)
۱۹، ۲۰۔آپ ؐ سراپا ہدایت ہیں اوررحمۃٌ للمومنین ہیں۔وَاِنَّہٗ لَھُدًی وَّرَحْمَۃٌلِّلْمُؤْمِنِیْنَ (النمل:۷۸)
۲۱۔ آپ ؐ رحمۃٌ للعالمین ہیں ۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّارَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء:۱۰۷)
۲۱،۲۳،۲۴۔ آپ ؐ امّت کے لئے حریص ہیں،رؤوف ہیں اوررحیم ہیں۔حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ:۱۲۹)
۲۵۔ آپ ؐ گواہ /نگران ہیں۔ لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُم شَھِیْدًا (الحج:۷۸)
۲۶۔ آپ ؐ صاحب خلق عظیم ہیں۔اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۵)
۲۷۔ آپ ؐ اوّل المسلمین ہیں۔وَاَنَا اَوَّلُ المُسْلِمِیْنَ (الانعام:۱۶۴)
۲۸،۲۹۔ آپ ؐ رسول اللہ ہیں اورخاتم النبین ہیں ۔ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّنَ ۔ (الاحزاب:۴۰)
۳۰۔ آپ ؐ عبداللہ ہیں۔ وَاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہِ (الجنّ:۲۰)
۳۱۔ آپ ؐ صاحبِ کوثر ہیں۔ اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الکَوْثَرَ (الکوثر:۲)
۳۲۔ آپ ؐمحی ہیں۔ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْییِْکُمْ (الانفال:۲۵)
۳۳۔آپ ؐ صاحبِ اسراء ہیں۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ (بنی اسرائیل:۲)
۳۴ ۔ آپ ؐ صاحبِ مقام قاب قوسین ہیں۔فَکَانَ قَاْبَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ(النجم:۱۰)
قرآن کریم میں بیان شدہ اسمائے مبارکہ کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بہت سے نام بھی بیان فرمائے جو کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ان کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے۔ البتّہ یہ ذکر ضروری ہے کہ
’’للنّبیّ ﷺ الف اسم‘‘
(زاد المعاد۔ الجزء الاوّل صفحہ ۲۱۔ دار الکتاب العربی بیروت)
کہ آنحضرت ﷺ کے ایک ہزار نام ہیں۔
حضرت امام ابنِ قیّم ؒ نے ان اسماء کے بارہ میں ساتھ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ
’’وکلّھا نعوت لیست اعلاماً محضۃ لمجرّدالتعریف بل اسماء مشتقّۃ من صفات قائمۃ بہ توجب المدح والکمال۔ ‘‘(ایضاً)
کہ یہ( اسماء النّبیؐ) محض نام ہی نہیں بلکہ درحقیقت سب کے سب ہی صفات ہیں اور ایسی صفات سے مشتق ہیں کہ جن کی بناء پر آپ ؐ کی مدح اورکمال کا ثبوت ملتا ہے۔
ہم نے یہاں نموتہً چند اسمائے مبارکہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے ہیں جبکہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمّد مصطفی ﷺ جامعِ جمیع صفاتِ الٰہیہ ہیں۔ آپؐ کے یہ اسماء آپ کے دعاوی کی صداقت اور عظمت اور رفعتِ شان کے آئینہ دار ہیں۔ پس ہم راشد علی اور اس کے پیر کی منطق کو انہیں پر الٹا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کے مطابق کیا ان کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بکثرت نام یا دعاوی آپ ؐ کو (نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ ) جھوٹا ثابت کرتے ہیں ؟ ۔۔۔ ہمارا جواب تو یہ ہے کہ، نہیں ہرگز نہیں۔ خدا کی قسم ہرگز نہیں ۔ بلکہ آپ ؐ کا ایک ایک نام اور ایک ایک دعویٰ آپؐ کی بلند شان کی عکاسی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ البتہ راشد علی اور اس کے پیر نے یقیناًایک ایسی اختراع کی ہے جو خود انہیں ایک مرتبہ نہیں ،ہزار ہزار مرتبہ جھوٹا ثابت کرتی ہے ۔
اس شخص سے بڑا احمق کون ہو سکتا ہے جو اسی شاخ کو کاٹے جس پر وہ خود بیٹھا ہو یا جو عناد اور دشمنی میں اندھا ہو کر دوسرے پر حملہ کرتے ہوئے اپنے پیاروں ہی کا خون کر دے ۔ ان پیر ومرید کے دل میں اگرّ حبِّ پیغمبر ﷺ کا ایک ذرّہ بھی ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے سے پہلے یہ سوچتے کہ کہیں ان کے حملہ کی زد ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر تو نہیں پڑتی؟
ان کے حملوں کی جو طرز ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو ’نعوذ باللہ ‘ خدا تعالیٰ کی ذات ان سے بچ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی اور ہستی ۔
(شیطان کے چیلے)
چنانچہ قرآن کریم میں آپؐ کے جو نام اور منصب بیان فرمائے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
۱۔ آپؐ احمد ؐ ہیں وَمُبَشِّرًا بِّرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ ( الصف:۷)
۲۔ آپ ؐمحمّدؐ ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ( الفتح :۳۰)
۳۔ آپ ؐ یس ہیں۔ یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الحَکِیْمٍ اِنَّکَ لَمِن المُرسَلِینَ ( یٰس: ۲تا ۴)
۴ ۔ آپ طہٰ ہیں ۔ طٰہٰ مَااَنْزَلْنَا عَلَیْکَ القُرْاٰنَ لِتَشْقٰی ( طہٰ : ۲ ، ۳)
۵۔ آپ مزّمل ہیں ۔ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ( المزّمّل :۲)
۶۔ آپ مدّثّر ہیں ۔ یٰآَیُّھَا الْمُدََّثِّرُ ( المدّثّر :۲)
۷ ۔ آپؐ نبی امی ہیں۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرََّسُوْلَ النََّبِیََّ الاُمِّیَّ( الاعراف : ۱۵۸)
۸۔ آپ داعی الی اللہ ہیں۔ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہ بِاِذْنِہ (الاحزاب: ۴۷)
۹۔ آپ ؐ سراج منیرہیں ۔ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا (الاحزاب :۴۷)
۱۰۔۱۱ آپ ؐ منذراورہادی ہیں۔ اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد:۸)
۱۲۔ ۱۳۔ ۱۴آپ ؐ شاہدہیں، مبشرہیں اورنذیرہیں۔اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاْھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔ (الاحزاب:۴)
۱۵۔ آپ ؐ مزکیّ ہیں یُزَکِّیْھِمْ (الجمعہ :۳)
۱۶۔ آپ ؐ معلّمِ کتاب وحکمت ہیں یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (الجمعہ:۳)
۱۷۔ آپ ؐ نورہیں قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نّوْرٌ (المائدہ:۱۶)
۱۸۔ آپ ؐ برہان ہیں۔ قَدْ جَائَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ (النسائ:۱۷۰)
۱۹، ۲۰۔آپ ؐ سراپا ہدایت ہیں اوررحمۃٌ للمومنین ہیں۔وَاِنَّہٗ لَھُدًی وَّرَحْمَۃٌلِّلْمُؤْمِنِیْنَ (النمل:۷۸)
۲۱۔ آپ ؐ رحمۃٌ للعالمین ہیں ۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّارَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء:۱۰۷)
۲۱،۲۳،۲۴۔ آپ ؐ امّت کے لئے حریص ہیں،رؤوف ہیں اوررحیم ہیں۔حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ:۱۲۹)
۲۵۔ آپ ؐ گواہ /نگران ہیں۔ لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُم شَھِیْدًا (الحج:۷۸)
۲۶۔ آپ ؐ صاحب خلق عظیم ہیں۔اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۵)
۲۷۔ آپ ؐ اوّل المسلمین ہیں۔وَاَنَا اَوَّلُ المُسْلِمِیْنَ (الانعام:۱۶۴)
۲۸،۲۹۔ آپ ؐ رسول اللہ ہیں اورخاتم النبین ہیں ۔ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّنَ ۔ (الاحزاب:۴۰)
۳۰۔ آپ ؐ عبداللہ ہیں۔ وَاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہِ (الجنّ:۲۰)
۳۱۔ آپ ؐ صاحبِ کوثر ہیں۔ اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الکَوْثَرَ (الکوثر:۲)
۳۲۔ آپ ؐمحی ہیں۔ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْییِْکُمْ (الانفال:۲۵)
۳۳۔آپ ؐ صاحبِ اسراء ہیں۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ (بنی اسرائیل:۲)
۳۴ ۔ آپ ؐ صاحبِ مقام قاب قوسین ہیں۔فَکَانَ قَاْبَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ(النجم:۱۰)
قرآن کریم میں بیان شدہ اسمائے مبارکہ کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بہت سے نام بھی بیان فرمائے جو کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ان کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے۔ البتّہ یہ ذکر ضروری ہے کہ
’’للنّبیّ ﷺ الف اسم‘‘
(زاد المعاد۔ الجزء الاوّل صفحہ ۲۱۔ دار الکتاب العربی بیروت)
کہ آنحضرت ﷺ کے ایک ہزار نام ہیں۔
حضرت امام ابنِ قیّم ؒ نے ان اسماء کے بارہ میں ساتھ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ
’’وکلّھا نعوت لیست اعلاماً محضۃ لمجرّدالتعریف بل اسماء مشتقّۃ من صفات قائمۃ بہ توجب المدح والکمال۔ ‘‘(ایضاً)
کہ یہ( اسماء النّبیؐ) محض نام ہی نہیں بلکہ درحقیقت سب کے سب ہی صفات ہیں اور ایسی صفات سے مشتق ہیں کہ جن کی بناء پر آپ ؐ کی مدح اورکمال کا ثبوت ملتا ہے۔
ہم نے یہاں نموتہً چند اسمائے مبارکہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے ہیں جبکہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمّد مصطفی ﷺ جامعِ جمیع صفاتِ الٰہیہ ہیں۔ آپؐ کے یہ اسماء آپ کے دعاوی کی صداقت اور عظمت اور رفعتِ شان کے آئینہ دار ہیں۔ پس ہم راشد علی اور اس کے پیر کی منطق کو انہیں پر الٹا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کے مطابق کیا ان کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بکثرت نام یا دعاوی آپ ؐ کو (نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ ) جھوٹا ثابت کرتے ہیں ؟ ۔۔۔ ہمارا جواب تو یہ ہے کہ، نہیں ہرگز نہیں۔ خدا کی قسم ہرگز نہیں ۔ بلکہ آپ ؐ کا ایک ایک نام اور ایک ایک دعویٰ آپؐ کی بلند شان کی عکاسی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ البتہ راشد علی اور اس کے پیر نے یقیناًایک ایسی اختراع کی ہے جو خود انہیں ایک مرتبہ نہیں ،ہزار ہزار مرتبہ جھوٹا ثابت کرتی ہے ۔
اس شخص سے بڑا احمق کون ہو سکتا ہے جو اسی شاخ کو کاٹے جس پر وہ خود بیٹھا ہو یا جو عناد اور دشمنی میں اندھا ہو کر دوسرے پر حملہ کرتے ہوئے اپنے پیاروں ہی کا خون کر دے ۔ ان پیر ومرید کے دل میں اگرّ حبِّ پیغمبر ﷺ کا ایک ذرّہ بھی ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے سے پہلے یہ سوچتے کہ کہیں ان کے حملہ کی زد ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر تو نہیں پڑتی؟
ان کے حملوں کی جو طرز ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو ’نعوذ باللہ ‘ خدا تعالیٰ کی ذات ان سے بچ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی اور ہستی ۔
(شیطان کے چیلے)