• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرتد کی سزا قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرتد کی سزا قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں

مرتد کی سزا قرآن وسنت اور اجماع کی روشنی میں

الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
خیرالقرون یعنی اسلام کے صدر اوّل میں جہاں دوسرے اسلامی قوانین کی بالا دستی تھی‘ وہاں سزائے ارتداد کا قانون بھی نافذ رہا۔ اس کے بعد بھی جب تک دنیا میں اسلامی آئین و دستور کی بالادستی رہی‘ تمام اسلامی حکومتوں میں یہ قانون نافذ العمل رہا۔ اسی کی برکت تھی کہ کوئی طالع آزما‘ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے‘ دین و مذہب کو بازیچہٴ اطفال بنانے‘ آئے دن مذاہب بدلنے اور اسلام سے بغاوت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
بلکہ اگر کسی شقی ازلی نے اس قسم کی جرأت کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اسود عنسی‘ مسیلمہ کذاب‘ وغیرہ جیسے بدقماشوں کا انجام اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ملی غیرت کے کارناموں سے اسلامی تاریخ مزین ہے۔
لیکن جوں جوں اس معمورئہ ارضی پر اسلامی اقتدار‘ خلافت اسلامیہ اور مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی گئی‘ لادین حکمرانوں کا تسلط بڑھتا گیا اور جبر و استبداد کے پنجے مضبوط اور گہرے ہوتے گئے‘ تو اس کی نحوست سے جہاں دوسرے اسلامی اصول و قوانین پامال کئے جانے لگے‘ وہاں سزائے ارتداد کے بے مثال قانون کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹادیا گیا۔
یہ اسی کی ”سبز قدمی“ تھی کہ انگریزی اقتدار کے دور میں‘ ہندوستان میں جہاں دوسرے بے شمار فتنوں نے سر اٹھایا‘ وہاں اسلام اور پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کرکے نہ صرف ارتداد کا ارتکاب کیا‘ بلکہ اس نے بھولے بھالے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی باقاعدہ تحریک شروع کردی۔ چونکہ اس وقت ہندوستان میں انگریزی اقتدار تھا اور غلام احمد قادیانی انگریزی اقتدار کی چھتری کے نیچے یہ سب کچھ کررہا تھا‘ اس لئے مسلمان اُسے ارتداد کی سزا کا مزہ نہ چکھا سکے‘ لیکن جوں ہی مسلمانانِ ہندوستان کی قربانیوں اور مطالبہ پر مملکتِ خداداد پاکستان وجود میں آئی تو مسلمانوں کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس مملکت میں اسلامی آئین و قوانین نافذ کئے جائیں۔
شومی ٴ قسمت کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ پر توجہ نہیں دی گئی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں بھی اسلام دشمنوں اور خصوصاً قادیانیوں کا اثرو نفوذ بڑھنے لگا‘ تب مسلمانوں نے اربابِ اقتدار سے مطالبہ کیا کہ کم از کم ان کو ملت اسلامیہ سے الگ کاسٹ تصور کیا جائے ‘ چنانچہ قریب قریب نوے سال کی محنت و جدوجہد کے بعد مسلمانوں کی یہ کوشش بار آور ہوئی اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے والے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ مگر بایں ہمہ پھر بھی قادیانی ارتداد کا منہ زور گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا‘ اور قادیانی اپنی ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے‘ تو اس کے سدِّباب کے لئے ایک بار پھر تحریک چلی اور ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس جاری ہوا۔
لیکن قادیانی اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے‘ تو مسلمانوں نے استدعا کی کہ پاکستان میں ارتداد کی شرعی سزا کا قانون نافذ کیا جائے۔ بلاشبہ اگر روزِ اوّل سے یہ قانون نافذ کردیا جاتا تو اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنے کی قطعاً جرأت نہ ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوتی۔
گویا مسلمانوں کا روزِ اول سے یہ مطالبہ رہا کہ پاکستان جب اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے‘ اور یہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے تو اس میں قانون بھی قرآن و سنت کا ہی ہونا چاہئے‘ لیکن چونکہ اس قانون کے نفاذ سے اسلام دشمنوں کی تمام تر سازشیں دم توڑ جاتیں‘ اور ان کے منصوبوں پر اوس پڑ جاتی‘ اس لئے انہوں نے اپنے اثر و نفوذ سے اس کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ایسے روڑے اٹکائے کہ مسلمان حکمران اس کے نفاذ کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ یوں تو مسلمانوں کا یہ قدیم ترین مطالبہ تھا اور ہے‘ مگر گزشتہ دنوں افغانستان میں مرتد ہوکر عیسائیت قبول کرنے والے عبدالرحمن کے معاملہ نے مرتد کی سزا کے اس قانون کی اہمیت و ضرورت کو مزید دو چند کردیا ہے‘ کیونکہ بین الاقوامی سازش کے تحت اس معمولی واقعہ کو اخبارات اور میڈیا پر لاکر جہاں مسلمانوں کو تنگ نظر‘ تشدد پسند کہہ کر اسلامی آئین‘ خصوصاً سزائے ارتداد کے قانون کو بُری طرح نشانہ بنایا گیا‘ اور اس کو ظالمانہ قانون کے رنگ میں پیش کیا گیا‘ ضرورت تھی کہ اس سلسلہ کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے قارئین کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کردیئے جائیں۔
افغانستان اور افغان قوم کا شروع سے ہی اسلام سے گہرا رشتہ رہا ہے‘ اور افغانستان نے کبھی بھی کسی جبر و تشدد اور بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کیا‘ اسی طرح افغانستان میں کبھی کسی اسلام دشمن تحریک یا نظر یہ کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا‘ حتی کہ امیر حبیب اللہ کے دور میں جب غلام احمد قادیانی نے افغانستان میں اپنے دو نمائندے بھیجے تو امیر مرحوم نے بالفعل ان پر سزائے ارتداد جاری فرماکر ارتدادی تحریک کا راستہ روک دیا۔
لیکن افغانستان میں جوں جوں دین و مذہب سے دوری ہوتی گئی‘ سازشی قوتوں اور اربابِ کفر نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعہ افغانستان کو اندرونی سازشوں اور طوائف الملوکی سے دوچار کیا‘ تو سب سے پہلے روس نے اس کو ہڑپ کرنے کی خواہش و کوشش کی‘ مگر اسے منہ کی کھانا پڑی‘ جب روس جیسی سپر طاقت شکست و ریخت سے دوچار ہوگئی‘ تو امریکا بہادر کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے افغانستان پر قبضہ کرکے اس پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا منصوبہ بنا لیا۔ افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد بے شمار عیسائی این جی اوز متحرک ہوگئیں‘ افغانستان بلاشبہ بدترین مالی بدحالی کا شکار تھا اور ہے‘ مگر بایں ہمہ امریکا اور اس کی عیسائی این جی اوز اپنے مذموم مقاصد میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہوسکیں‘ کیونکہ مسلمانانِ افغانستان جانتے تھے کہ ارتداد کی سزا موت ہے اور مرتد ہونا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ اس لئے آج سے پندرہ سال پہلے مرتد ہوکر جرمنی چلے جانے والے عبدالرحمن کو دوبارہ افغانستان لاکر اس سے مرتد ہونے اور عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کرایا گیا‘ جس کے پس پردہ درج ذیل مقاصد کارفرما تھے‘ مثلاً:
الف:… یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان میں عیسائی این جی اوز کی تحریک اور کوششوں کے خاطر خواہ نتائج نکل رہے ہیں۔
ب:… مسلمانوں کو ذ ہنی اور اعصابی تناؤ میں مبتلا کرکے عیسائیت کی بالادستی کا احساس اجاگر کیا جائے۔
ج:…اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کو ترجیح دینے اور مسلمانوں میں قبولِ عیسائیت کے رجحان کا تصور پیش کیا جائے۔
د:… قانونِ ارتداد اور مرتد کی اسلامی سزا کے نفاذ کو اپنے اثر و نفوذ اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعہ معطل کرایا جائے۔
ھ :… مرتد کو تحفظ دے کر دوسرے بے دینوں کو ذہناً اس پر آمادہ کیا جائے کہ تبدیلی ٴ مذہب کی صورت میں ان کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جائے گا‘ بلکہ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ جرمنی ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ڈنمارک‘ ہالینڈ وغیرہ پوری عیسائی دنیا تمہاری پشت پر ہے اور تبدیلی ٴ مذہب کی صورت میں تمہیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا جائے گا‘ بلکہ ہر طرح کے ساز و سامان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ ملک کی شہریت بھی دی جائے گی۔
و:… یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان میں بالفعل امریکا اور عیسائیت کی بالادستی اور حکمرانی قائم ہے‘ جس کی علامت یہ ہے کہ مسلمان ملک کا مسلمان حکمران اور اس کی مسلمان عدلیہ بھی ایک اسلامی سزا کے نفاذ میں بے بس ہے‘ چنانچہ مرتد عبدالرحمن کے اس اعتراف کے باوجود کہ: ”میں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور میں اس کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں“ افغان عدالت کے جج انصار اللہ مولوی زادہ کا یہ کہنا کہ :”ناکافی ثبوت کی بنا پر اسے رہا کیا جاتا ہے۔“ افغان عدالت اور افغان حکومت کی بے بسی کی واضح دلیل ہے۔
ز:… سزائے ارتداد کے اسلامی قانون اور فطرت پر مبنی دستور کو متنازعہ بنایا جائے‘ دنیائے عیسائیت‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کے خلاف بولنے کا موقع دے کر غیر متعصب دنیا کے علاوہ خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں‘ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس کے نفاذ کو انسانیت کی توہین باور کرایا جائے۔
چنانچہ اس واقعہ کے اخبارات میں شائع ہونے پر جہاں ملحدین و بے دینوں کو اس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ہوئی‘ وہاں نام نہاد مسلمان اسکالروں کو بھی اس قانون میں کیڑے نکالنے کا موقع میسر آگیا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ قرآن و سنت‘ اجماع امت‘ قیاس‘ فقہ و فتویٰ اور عقل و شعور کی روشنی میں اس سلسلہ کی تصریحات نقل کردی جائیں۔ مگر سب سے پہلے اس کی وضاحت ہونی چاہئے کہ مرتد کس کو کہتے ہیں؟ اور سزائے ارتداد کی کیا کیا شرائط ہیں؟بلاشبہ دنیا میں بسنے والے انسان دین و مذہب کے اعتبار سے دو قسم ہیں: ایک مسلمان اور دوسرے غیرمسلم۔
مسلم:… وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ‘ اس کے ملائکہ‘ اس کی کتابوں‘ اس کے رسولوں‘ آخرت‘ بعث بعدالموت اور اس بات پر ایمان رکھتے ہوں کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ ہی کی جانب سے ہے اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور آخری نبی اور آپ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو حضرات صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور اسلافِ امت کی تشریحات کی روشنی میں مانتے ہوں۔
غیر مسلم:… وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت‘ دین و شریعت‘ مذکورہ بالا تمام عقائد یا ان میں سے کسی ایک کے منکرہوں‘ یا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار کرتے ہوں‘ خواہ وہ اپنے آپ کو ہندو‘ سکھ‘ پارسی‘ زرتشتی‘ یہودی‘ عیسائی‘ بدھ‘ قادیانی‘ مرزائی (جو اپنے آپ کو احمدی بھی کہتے ہیں)‘ ذکری اور آغا خانی کہتے ہوں‘ یا اس کے علاوہ اپنے آپ کو کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں‘ وہ سب کے سب غیر مسلم ہیں۔ پھر غیر مسلموں کی متعدد اقسام ہیں‘ چونکہ غیر مسلم اپنے بعض مخصوص عقائد و نظریات اور رہائش و سکونت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے احکام بھی جدا جدا ہیں‘ اس لئے ان کی اقسام‘ تعریف اور حکم بھی معلوم ہونا چاہئے۔
اوّل:… غیر مسلم باعتبار عقائد و نظریات کے سات قسم ہیں:
۱:…کھلا کافر‘ ۲:…مشرک‘ ۳:…دہریہ‘ ۴:…معطل‘ ۵:…منافق‘
۶:…زندیق‘ جو ملحد اور باطنی بھی کہلاتے ہیں‘ ۷:… مرتد۔
دوم:… پھر ان سب کا باعتبار جنگ و امن اور رہائش و سکونت کے جُدا جُدا حکم ہے‘ اس لئے غیر مسلموں کی اقسام‘ تعریف اور حکم ملاحظہ ہو:
کھ لا کافر:… جسے کافر مطلق بھی کہا جاتا ہے‘ وہ ہے جو علی الاعلان اسلامی اعتقادات کا منکر ہو اور اپنے آپ کو مسلمان برادری سے الگ تصور کرتا ہو‘ جیسے ہندو‘ سکھ‘ یہودی اور عیسائی وغیرہ۔
مشرک:… مشرک وہ ہے‘ جو چند معبودوں کا قائل ہو‘ یا اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی حجر و شجر یا مورتی وغیرہ کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہو۔
دہریہ:… دہریہ وہ ہے جو حوادثِ عالم کو زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہو اور زمانہ کو قدیم مانتا ہو‘ یعنی زمانہ کو ہی خالقِ عالم اور ازلی و ابدی مانتا ہو۔
معطل:… معطل وہ ہے جو خالقِ عالم کا سرے سے منکر ہو۔
منافق:… منافق وہ ہے جو ظاہراً‘ زبانی کلامی اور جھوٹ موٹ اپنے آپ کو مسلمان باور کرائے‘ مگر اندر سے کافر ہو۔
زندیق:… زندیق وہ ہے جو اپنے کفریہ عقائد پر اسلام کا ملمع کرے اور اپنے فاسد و کفریہ عقائد کو ایسی صورت میں پیش کرے کہ سرسری نظر میں وہ صحیح معلوم ہوتے ہوں‘ ایسے شخص کو عربی میں ملحد اور باطنی بھی کہتے ہیں۔
مرتد:… مرتد وہ ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے دین کو اختیار کرلے۔
ان تفصیلات کے بعد مذکورہ بالا غیر مسلموں میں سے ہر ایک کا حکم ملاحظہ ہو:
کھ لا کافر:… اگر ایسا شخص کسی غیر مسلم ملک میں رہتا ہو‘ اور وہ ملک اسلامی مملکت سے برسرپیکار ہو‘ تو یہ شخص حربی کافر کہلائے گا اور مسلمانوں پر ایسے شخص کی جان و مال‘ عزت و آبرو کی کسی قسم کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘ لیکن اگر ایسا شخص (کھلا کافر) کسی ایسے غیر مسلم ملک میں رہتا ہو‘ جس کا اسلامی مملکت سے دوستی کا معاہدہ ہو تو یہ شخص مسلمانوں کا حلیف کہلائے گا‘ اگر یہ شخص کسی دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس کی جان و مال سے تعرض نہیں کریں گے‘ چنانچہ ایسا شخص اگر مسلمان ملک میں ویزہ لے کر آئے تو یہ مستأمن کہلائے گا‘ اور مسلمانوں پر اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر ایسا کھلا کافر کسی مسلمان ملک کا پرامن شہری ہو اور شہری واجبات یعنی جزیہ وغیرہ ادا کرتا ہو اور کسی ملک و ملت دشمنی کا مرتکب نہ ہو‘ تو یہ ذمی کہلائے گا اور اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت و صیانت اسلامی مملکت اور مسلمانوں پر واجب ہوگی۔
مشرک:… مشرک کا حکم بھی کھلے کافر کی طرح ہے۔
اس کے علاوہ دہریہ‘ معطل‘ منافق‘ زندیق اور مرتد بھی اگر کسی ایسی غیر مسلم مملکت میں رہتے ہوں جن سے مسلمانوں کا کسی دوستی کا کوئی معاہدہ نہ ہو‘ تو وہ بھی کھلے کافر کی طرح ہیں اور ان پر کسی قسم کے کوئی احکام جاری نہیں ہوں گے‘ لیکن اگر کسی علاقہ اور قبیلہ کے لوگ اجتماعی طور پر مرتد ہوکر قوت پکڑنے لگیں تو مسلمان حکمران کو حربی کافروں سے بھی پہلے ان کے خلاف کارروائی کرکے ان کا قلع قمع کرنا ہوگا۔
منافق:… اگر کوئی منافق‘ مسلمان ملک میں رہتا ہو اور کسی قسم کی ملک و ملت دشمنی میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس سے بھی تعرض نہیں کریں گے‘ لیکن اگر کوئی زندیق‘ دہریہ‘ معطل اور مرتد اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے اس جرم کا ارتکاب کرے‘ تو چاہے وہ بظاہر کتنا ہی امن پسند کیوں نہ ہو‘ مسلمان حکمران‘ اسلامی قانون کی روشنی میں اس کو‘ اس کے اس بدترین کردار اور گھناؤنے جرم کی سزا دے گا‘ کیونکہ کسی مملکت کے سربراہ پر اپنے شہریوں کے دین و ایمان کی حفاظت لازم ہے‘ اور جو لوگ مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنا چاہیں‘ ان کا مواخذہ کرنا مسلمان حکمران کا فرض اور بنیادی حق ہے‘ اس لئے کہ ارشاد نبوی:
”کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔“ (مشکوٰة ص:۳۲۰)
(تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارہ میں پوچھا جائے گا) کے مصداق مسلمان حکمران کو اپنے شہریوں کی اصلاح کا مکمل اختیار ہے‘ لہٰذا مسلمان حکمران کو چاہئے کہ وہ ایسے لادین افراد کی ملت دشمن سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ان کی خفیہ شرارتوں‘ سازشوں اور شر و فساد سے اپنی رعایا کے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔
زندیق:… چنانچہ اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری زندقہ اختیار کرلے اور گرفتاری سے قبل از خود اس جرم سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی‘ لیکن اگر گرفتاری کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی‘ چنانچہ حضرت امام مالک وغیرہ ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں کرتے‘ حضرت امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے‘ علامہ شامی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔
مرتد:… اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری خدانخواستہ مرتد ہوجائے تو اس کے احکام ان سب سے جدا ہیں‘ مثلاً:
اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے‘ اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں‘ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ اسے زندگی بھر کے لئے جیل میں قید رکھا جائے تاآنکہ وہ مر جائے یا توبہ کرلے۔
اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے‘ اور اگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
اگر کوئی عاقل‘ بالغ مرد‘ ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں گے‘ اگر مسلمان ہوجائے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قرآن و سنت‘ اجماع امت اور فقہائے امت کا یہی فیصلہ ہے اور عقل و دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
”انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً ان یقتلوا اویصلبوا اوتقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض‘ ذلک لہم خزی فی الدنیا ولہم فی الآخرة عذاب عظیم‘ الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیہم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم۔“ (المائدہ: ۳۳‘۳۴)
ترجمہ:… ”یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو‘ کہ ان کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے یا دور کردیئے جائیں اس جگہ سے ‘ یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘ مگر جنہوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اس آیت کے ذیل میں تمام مفسرین و محدثین نے عکل و عرینہ کے ان لوگوں کا واقعہ لکھا ہے جو اسلام لائے تھے‘ مگر مدینہ منورہ کی آب و ہوا ان کوراس نہ آئی تو ان کی شکایت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا‘ جہاں وہ ان کا دودھ وغیرہ پیتے رہے‘ جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگا لے گئے‘ جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سیدھے ہاتھ اور اُلٹے پاؤں کاٹ دیئے اور وہ حرہ میں ڈال دیئے گئے‘ پانی مانگتے رہے‘ مگر ان کو پانی تک نہ دیا‘ یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔
اسی لئے امام بخاری نے اس آیت کے تحت عنوان بھی اسی انداز کا قائم فرمایا ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ چونکہ مرتد اور محارب تھے‘ اس لئے ان کو قتل کیا گیا‘ چنانچہ امام بخاری کے الفاظ ہیں:
”باب لم یسق المرتدون المحاربون حتی ماتوا۔“ (ص:۱۰۰۵‘ ج:۲)
اگرچہ امام بخاری کے علاوہ دوسرے ائمہ کرام اس کے قائل ہیں کہ محارب جیسے کفار ہوسکتے ہیں‘ ویسے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اس آیت کی روشنی میں ایسے لوگ جو مرتد ہوجائیں‘ اور اللہ ورسول سے محاربہ کریں‘ وہ واجب القتل ہیں۔
سزائے مرتد کے سلسلہ میں صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اور حضرات صحابہ کرام کا عمل بھی منقول ہے‘ ذیل میں اس سلسلہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں:
۱:… ”عن عکرمة قال: اتی علی رضی اللّٰہ عنہ بزنادقة فاحرقہم‘ فبلغ ذالک ابن عباس‘ فقال: لو کنت انا لم احرقہم لنہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ قال: لا تعذبوا بعذاب اللّٰہ‘ ولقتلتہم لقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“
(بخاری‘ ص ۱۰۲۳‘ ج۲‘ ص:۴۲۳‘ ج:۱‘ ابوداؤد ص:۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ ترمذی ص:۱۷۶‘ ج:۱‘ مسند احمد ص:۲۱۷‘ ج:۱‘ ص:۲۸۲‘۲۸۳‘ ج:۱‘ سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۵‘ج:۸‘ مستدرک حاکم ص:۵۳۸ ج:۳‘ مشکوٰة ص:۳۰۷)
ترجمہ:… ”حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چند زندیق لائے گئے تو انہوں نے ان کو آگ میں جلادیا‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو فرمایا: میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا‘ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا عذاب نہ دو جو اللہ تعالیٰ (جہنم میں) دیں گے‘ میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”جو شخص دین تبدیل کرے‘ اس کو قتل کردو“ کے تحت قتل کردیتا۔“
۲:… ”عن عکرمة قال قال ابن عباس  قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (نسائی ص:۱۴۹‘ ج:۲‘ سنن ابن ماجہ ص:۱۸۲)
ترجمہ:… ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین تبدیل کرکے مرتد ہوجائے‘ اس کو قتل کردو۔“
۳:… ”عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: کان عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سرح یکتب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ فازلہ الشیطن‘ فلحق بالکفار فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقتل یوم الفتح‘ فاستجارلہ عثمان بن عفان فاجارہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…“ (ابوداؤد ص۲۵۱‘ ج:۲‘ نسائی ۱۶۹‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا‘ اسے شیطان نے بہکایا تو وہ مرتد ہوکر کفار سے مل گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم فرمایا‘ (جس سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا قتل ہے‘ ناقل) مگر حضرت عثمان نے اس کے لئے پناہ طلب کی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پناہ دے دی (چنانچہ وہ بعد میں دوبارہ مسلمان ہوگیا)۔“
۴:… ”عن انس ان علیا اتی بناس من الزط یعبدون وثناً فاحرقہم‘ قال ابن عباس انما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (سنن نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ مسند احمد ص:۳۲۳‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس زط (سوڈان) کے کچھ لوگ لائے گئے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے‘ آپ نے ان کو آگ میں جلا دیا‘ اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جو شخص اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے‘ اس کو قتل کردو۔“
۵:… ”عن ابی موسیٰ  قال اقبلت الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… فقال:… و لکن اذہب انت یا ابا موسیٰ او یا عبداللّٰہ بن قیس الی الیمن‘ ثم اتبعہ معاذ بن جبل‘ فلما قدم علیہ القی لہ وسادة قال: انزل و اذا رجل عندہ موثق قال: ما ہذا؟ قال: کان یہودیاً فاسلم ثم تہود‘ قال: اجلس! قال: لا اجلس حتی یقتل‘ قضاء اللّٰہ و رسولہ ثلٰث مرات فامر بہ فقتل…الخ“ (بخاری ص:۱۰۲۳‘ ج:۲‘ مسلم ص:۱۲۱‘ ج:۲‘ ابوداؤد ص:۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۵ ج:۸)
ترجمہ:… ”حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ نے فرمایا: ابو موسیٰ یا عبداللہ بن قیس! یمن جاؤ‘ اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل کو بھی میرے پیچھے یمن بھیج دیا‘ حضرت معاذ یمن پہنچے اور ان کے بیٹھنے کے لئے مسند لگائی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ (حضرت ابو موسیٰ  کے پاس) ایک آدمی بندھا ہوا ہے‘ حضرت معاذ نے پوچھا: اس کا کیا قصہ ہے؟ فرمایا: یہ شخص پہلے یہودی تھا‘ پھر اسلام لایا اور اب مرتد ہوگیا ہے‘ آپ نے فرمایا: جب تک اس کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مطابق قتل نہیں کردیا جاتا‘ میں نہیں بیٹھوں گا‘ انہوں نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا‘ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اس کے قتل کا حکم دیا‘ جب وہ قتل ہوگیا تو حضرت معاذ  تشریف فرما ہوئے۔ “
۶:… ”عن عبداللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم… لایحل دم رجل مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ و انی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: الثیب الزانی‘ والنفس بالنفس‘ والتارک لدینہ المفارق للجماعة۔“
(ابوداؤد ص: ۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ۱۶۵‘ ج:۲‘ ابن ماجہ ص:۱۸۲‘ سنن کبریٰ بیہقی ۱۹۴‘ ج:۸‘ ترمذی ص:۲۵۹‘ ج:۱‘ مسلم ص:۵۹ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دے‘ اس کا خون بہانا جائز نہیں‘ سوائے ان تین آدمیوں کے: ایک وہ جو شادی شدہ ہوکر زنا کرے‘ دوسرا وہ جو کسی کو ناحق قتل کردے اور تیسرا وہ جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔“
۷:… ”عن حارثة بن مضرب انہ اتی عبداللّٰہ فقال: ما بینی و بین احد من العرب حنة‘ وانی مررت بمسجد لبنی حنیفة‘ فاذا ہم یومنون بمسیلمة‘ فارسل الیہم عبداللّٰہ فجیٴ بہم فاستتابہم‘ غیر ابن النواحة‘ قال لہ: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول : لو لا انک رسول لضربت عنقک‘ فانت الیوم لست برسول‘ فامر قرظة بن کعب۔ فضرب عنقہ فی السوق‘ ثم قال: من اراد ان ینظر الی ابن النواحة قتیلا بالسوق۔“ (ابوداؤد ص:۲۴‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حارثہ بن مضرب سے مروی ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا‘ (اور آپ نے فرمایا کہ) میرے اور عرب کے درمیان کوئی عداوت نہیں ہے‘ پھر فرمایا: میں مسجد بنوحنیفہ کے پاس سے گزرا‘ وہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ماننے والے تھے‘ حضرت عبداللہ نے ان کی طرف قاصد بھیجا‘ تاکہ ان سے توبہ کا مطالبہ کرے‘ پس سب سے توبہ کا مطالبہ کیا گیا‘ سوائے ابن نواحہ کے‘ آپ نے اس سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا‘ (اس لئے کہ وہ مرتد ہونے کے علاوہ مرتد مسیلمہ کا قاصد تھا‘ ناقل) پس آج تم قاصد نہیں ہو‘ اس کے بعد آپ نے (حاکمِ کوفہ) قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیا جائے‘ چنانچہ بازار ہی میں اس کو قتل کردیا گیا‘ اور فرمایا: جو ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے‘ وہ بازار میں قتل شدہ موجود ہے۔“
۸:… ”عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ معاویة بن حیدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘ ان اللہ لا یقبل توبة عبدکفر بعد اسلامہ۔“ (مجمع الزوائد: ص:۲۶۱‘ج:۶)
ترجمہ: …”حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین تبدیل کرے‘ اس کو قتل کردو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے‘ جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے۔“
۹:… ”عن معاذ بن جبل ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ حین بعثہ الی الیمن: ایما رجل ارتد عن الاسلام فادعہ‘ فان تاب‘ فاقبل منہ‘ وان لم یتب‘ فاضرب عنقہ‘ وایما امرأة ارتدت عن الاسلام فادعہا‘ فان تابت‘ فاقبل منہا‘ وان ابت فاستتبہا۔“ (مجمع الزوائد: ۲۶۳‘ ج:۶)
ترجمہ:… ”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے‘ اسے اسلام کی دعوت دو‘ اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو‘ اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑا دو‘ اور جونسی عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے‘ اسے بھی دعوت دو‘ اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو‘ اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کا مطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)۔“
۱۰:… ”عن جریر قال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: اذا ابق العبد الی الشرک فقد حل دمہ۔“ (ابوداؤد‘ ص: ۲۴۳‘ ج:۲‘ مشکوٰة‘ ص:۳۰۷)
ترجمہ:… ”حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ اسلام سے کفر کی طرف واپس لوٹ جائے‘ اس کا قتل کرنا حلال ہوجاتا ہے۔“
۱۱:… ”عن الحسن رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے‘ اس کو قتل کردو۔“
۱۲:… ”عن زید بن اسلم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من غیَّر دینہ فاضربوا عنقہ۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰‘ جامع الاصول ص:۴۷۹‘ ج:۳)
ترجمہ:… ”حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے‘ اس کی گردن کاٹ دو۔“
امام مالک اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
”قال مالک و معنی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما نری واللّٰہ اعلم من غیّر دینہ فاضربوا عنقہ‘ وانہ من خرج من الاسلام الی غیرہ‘ مثل الزنادقة واشباہہم‘ فان اولئک اذا ظہر علیہم قتلوا‘ ولم یستتابوا‘ لانہ لا یعرف توبتہم‘وانہم کانوایسرون الکفر ویعلنون الاسلام فلااری یستتاب ہؤلاء ولایقبل منہم قولہم‘ واما من خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فانہ یستتاب‘ فان تاب، والا قتل ، ذلک لو ان قوما کانوا علی ذلک رایت ان یدعوا الی الاسلام ویستتابوا‘ فان تابوا قبل ذلک منہم‘ وان لم یتوبوا قتلوا‘ ولم یعن بذلک فیما نری‘ واللّٰہ اعلم‘ من خرج من الیہودیة الی النصرانیة ولا من النصرانیة الی الیہودیة‘ ولا من یغیّر دینہ من اہل الادیان کلہا الا الاسلام فمن خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فذلک الذی عنی بہ۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰میر محمد کتب خانہ‘ کراچی)
یعنی امام مالک سے ارتداد کی تعریف میں منقول ہے کہ کوئی شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوجائے تو اس کی گردن کاٹ دی جائے‘ جیسے کوئی زندیق ہوجائے‘ ایسے لوگوں کے بارہ میں اصول یہ ہے کہ جب زندیق پر غلبہ و تسلط حاصل ہوجائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے‘ کیونکہ ان لوگوں کی سچی توبہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا‘ اس لئے کہ یہ لوگ کفر کو چھپاتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں‘ پس میرا (امام مالک) خیال یہ ہے کہ ان کے کفر کی بنا پر ان کو قتل کردیا جائے‘ ہاں اگر کوئی اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے تو اس سے توبہ کرائی جائے‘ توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلے وہ مرتد ہے‘ لہٰذا وہ شخص مرتد نہیں کہلائے گا جو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین پر تھا‘ اور اس نے اپنا وہ مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلیا‘ لہٰذا نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا‘ مثلاً: اگر کوئی یہودی‘ نصرانی بن جائے یا کوئی نصرانی‘ مجوسی بن جائے‘ خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو‘ نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا۔
۱۳:… ”عن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللّٰہ بن عبدالقاری رحمہ اللّٰہ‘ عن ابیہ انہ قال: قدم علی عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ‘ رجل من قبل ابی موسی الاشعری‘ فسالہ عن الناس فاخبرہ؟ ثم قال لہ عمر بن الخطاب : ہل کان فیکم من مُغربة خبر؟ فقال نعم‘ رجل کفر بعد اسلامہ‘ قال: فما فعلتم بہ؟ قال: قربناہ فضربنا عنقہ‘ فقال عمر: افلا حبستموہ ثلاثا‘ واطعمتموہ کل یوم رغیفا‘ واستبتتموہ لعلہ یتوب و یراجع امر اللّٰہ؟ ثم قال عمر اللّٰہم انی لم احضر‘ ولم آمر‘ ولم ارض اذ بلغنی۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰‘ میر محمد کتب خانہ ‘ جامع الاصول ص:۴۷۹‘ ج:۳)
ترجمہ:… ”حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں حضرت ابو موسیٰ کی جانب سے یمن کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا‘ آپ نے پہلے تو وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کئے‘ پھر اس سے پوچھا کہ وہاں کی کوئی نئی یا انوکھی خبر؟ اس نے کہا: جی ہاں! ایک آدمی اسلام لایا تھا‘ مگر بعد میں وہ مرتد ہوگیا‘ آپ نے فرمایا: پھر تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا: ہم نے اس کو پکڑ کر اس کی گردن اڑا دی‘ آپ نے فرمایا: تم نے پہلے اسے تین دن تک قید کرکے اس سے توبہ کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ ممکن ہے وہ توبہ کرلیتا؟ پھر فرمایا: اے اللہ! نہ میں وہاں حاضر تھا‘ نہ میں نے اس کے قتل کا حکم دیا اور جب مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں ان کے اس فعل پر راضی بھی نہیں ہوں۔“
گویا مرتد کے قتل سے پہلے استحباباً اس کو توبہ کا ایک موقع ملنا چاہئے تھا‘ چونکہ مرتد کو وہ موقع نہیں د یا گیا‘ تو حضرت عمر نے ترک مستحب کی اس بے احتیاطی کو بھی برداشت نہیں کیا اور اس سے برأت کا اظہار فرمایا۔
امام ترمذی مرتد کی سزا کے بارہ میں فقہائے امت کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”و العمل علی ہذا عند اہل العلم فی المرتد‘ واختلفوا فی المرأة اذا ارتدت عن الاسلام‘ فقالت طائفة من اہل العلم تقتل‘ وھو قول الاوزاعی واحمد و اسحق‘ و قالت طائفة منہم تحبس ولا تقتل‘ و ھو قول سفیان الثوری وغیرہ من اہل الکوفة۔“ (ترمذی ابواب الحدود باب ما جاء فی المرتد ص: ۱۷۰‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”مرتد مرد کے بارہ میں اہل علم کا یہی موقف ہے کہ اسے قتل کردیا جائے‘ ہاں اگر کوئی خاتون مرتد ہوجائے تو امام اوزاعی‘ احمد اور اسحق کا موقف یہ ہے کہ اسے بھی قتل کیا جائے‘ لیکن ایک جماعت کا خیال ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے‘ بلکہ قید کردیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ زندگی بھر اسے جیل میں رکھا جائے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔“
چنانچہ ائمہ اربعہ: امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بالاتفاق اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں‘ اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے‘ اگر اسلام لے آئے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے‘ ملاحظہ ہو ائمہ اربعہ کی تصریحات:
فقہ حنفی:… چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ۔ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل۔“
(ہدایة اولین ص:۵۸۰‘ ج:۱)
ترجمہ: … ”اور جب کوئی مسلمان نعوذباللہ! اسلام سے پھر جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے‘ اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے‘ اس کو تین دن تک قید رکھا جائے‘ اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“
فقہ شافعی:… فقہ شافعی کی شہرئہ آفاق کتاب المجموع شرح المہذب میں ہے:
”اذا ارتد الرجل وجب قتلہ‘ سواء کان حرا اوعبدا… وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد۔“ (المجموع شرح المہذب: ص:۲۲۸‘ج:۱۹)
ترجمہ:… ”اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ اور قتلِ مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔“
فقہ حنبلی:… فقہ حنبلی کی معرکة الآرأ کتاب المغنی اور الشرح الکبیر میں ہے:
”واجمع اہل العلم علی وجوب قتل المرتد‘ وروی ذلک عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی و معاذ وابی موسیٰ وابن عباس وخالد (رضی اللہ عنہم) وغیرہم‘ ولم ینکر ذلک فکان اجماعا۔“ (المغنی مع الشرح الکبیر ص:۷۴‘ ج:۱۰)
ترجمہ:… ”قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے‘ یہ حکم حضرت ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی‘ معاذ‘ ابو موسیٰ‘ ابن عباس‘ خالد اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا‘ اس لئے یہ اجماع ہے۔“
فقہ مالکی:… فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی  کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:
”والمرتد اذا ظفر بہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰة والسلام: ”من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (بدایة المجتہد ص:۳۴۳‘ ج:۲)
ترجمہ:…”اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا‘ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے ‘ اس کو قتل کردو۔“
ع
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
عام طور پر اسلام دشمن عناصر‘ ملاحدہ اور زنادقہ سیدھے سادے مسلمانوں اور سادہ لوح انسانوں کو ذہنی تشویش اور شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک انسان اپنا آبائی مذہب تبدیل کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ یقینا اس کو اپنے دین و مذہب میں کوئی کمی کوتاہی یا نقص نظر آیا ہوگا‘ جب ہی تو وہ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوا ہے؟ لہٰذا جب کوئی شخص غور و فکر کے بعد اسلام کو اپناسکتا ہے تو دلائل و براہین کی روشنی میں وہ اس کو چھوڑنے کا حق بھی رکھتا ہے‘ پس اس کی تبدیلی ٴ مذہب پر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے؟
بظاہر یہ سوال معقول نظر آتا ہے‘ جبکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں‘ چنانچہ اگر اس پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ارتداد کی وجہ اسلام میں کسی قسم کا نقص یا کمی کوتاہی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے اسلام دشمنوں کی ایک منظم سازش ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلام دشمنوں کی روزِ اوّل سے یہ سعی و کوشش رہی ہے کہ کسی طرح حق کے متلاشیوں کو جادئہ مستقیم سے بچلاکر ضلال و گمراہی کے گہرے غاروں میں دھکیل دیا جائے‘ چنانچہ شروع میں تو انہوں نے کھل کر اپنے اس مشن کو نبھانے کی کوشش کی‘ مگر جب ماہتابِ نبوت‘ آفتاب نصف النہار بن کر چمکنے لگا اور اس کی چکاچوند روشنی کے سامنے باطل نہ ٹھہر سکا تو ائمہ کفر و ضلال نے ردائے نفاق اوڑھ کر اس کے خلاف زیرِ زمین سازشوں کاجال بننا شروع کردیا۔
چنانچہ صبح کو وہ اپنے آپ کو مسلمان باور کراتے تو شام کواسلام سے بیزاری کا سوانگ رچاکر مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش کرتے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”وقالت طائفة من اہل الکتاب آمنوا بالذی انزل علی الذین آمنوا وجہ النہار واکفروا آخرہ لعلہم یرجعون۔“ (آل عمران:۷۲)
ترجمہ:… ”اور اہل کتاب کے ایک گروہ نے (حق سے پھیرنے کی یہ سازش تیار کی اور آپس میں) کہا کہ تم (ظاہری طور پر) ایمان لے آؤ اس (دین و کتاب) پر جو اتارا گیا ایمان والوں پر دن کے شروع میں اور اس کا انکار کردو اس کے آخری حصہ میں‘ تاکہ اس طرح یہ لوگ پھر جائیں (دین و ایمان سے)۔“
گویا وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر اسلام میں کوئی کشش یا صداقت ہوتی تو سوچ سمجھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس سے باہر کیوں آتے؟ یقینا جو لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے خیر باد کہہ رہے ہیں‘ انہوں نے ضرور اس میں کوئی کمی‘ کجی یا کمزوری دیکھی ہوگی؟
حالانکہ جن لوگوں نے اسلامی احکام و آداب کا مطالعہ اور غورو فکر کرکے اسے قبول کیا اور نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا‘ تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے کبھی کسی نے اس سے بیزاری تو کیا اس پر سوچا بھی نہیں‘ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ھرقل میں حضرت ابو سفیان اور ھرقل کے مکالمہ میں اس کی وضاحت و صراحت موجود ہے‘ چنانچہ جب ھرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا والا نامہ ملنے پر ابو سفیان سے‘ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حریف تھے‘ یہ پوچھا کہ:
”…ہل یرتد احد منہم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطةً لہ؟ قال: لا…“
ترجمہ:… ”ھرقل نے ابو سفیان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی اس کو ناپسند کرکے یا اس سے ناراض ہوکر مرتد بھی ہوا ہے؟ابو سفیان نے کہا : نہیں۔“
پھر اسی حدیث کے آخر میں ھرقل نے اپنے ایک ایک سوال اور ابو سفیان کے جوابات کی روشنی میں اس کی وضاحت کی کہ میں اپنے سوالوں اور تیرے جوابات کی روشنی میں‘ جن نتائج پر پہنچا ہوں‘ وہ یہ ہیں کہ:
”…وسائلتک ہل یرتد احد منہم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطة‘ فزعمت ان لا‘ وکذالک الایمان اذا خالط بشاشة القلوب۔“ (بخاری ص:۶۵۳‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”اور میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی شخص اسلام سے ناراض ہوکر یا اس سے متنفر ہوکر کبھی مرتد بھی ہوا ہے؟ تو آپ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہوا‘ تو سنو! یوں ہی ہے کہ شرح صدر کے ساتھ جب ایمان کسی کے دل میں اتر جاتا ہے تو نکلا نہیں کرتا۔“
چونکہ اسلام جبرو تشدد کا مذہب نہیں اور نہ ہی کسی کو جبراً و قہراً اسلام میں داخل کیا جاتا ہے‘ بلکہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ جو شخص دل و جان سے اسلام قبول نہ کرے‘ نہ صرف یہ کہ اس کا اسلام معتبر نہیں‘ بلکہ ایسا شخص قرآنی اصطلاح میں منافق ہے اور منافق جہنم کے نچلے درجے کی بدترین سزا کا مستحق ہے‘ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
”ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار۔“ (النساء:۱۴۵)
ترجمہ:… ”بے شک منافق ہیں سب سے نیچے درجہ میں دوزخ کے۔“
اسی لئے جبراً و قہراً اسلام میں داخل کرنے کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا گیا:
”لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی۔“ (البقرہ:۲۵۶)
ترجمہ:… ”دین اسلام میں داخل کرنے کے لئے کسی جبرو اکراہ سے کام نہیں لیا جاتا‘ اس لئے کہ ہدایت‘ گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔“
لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ جو شخص برضا و رغبت اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلام قبول کرلے‘ اسے مرتد ہونے کی بھی اجازت دے دی جائے‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ابتداء ً فوج میں بھرتی ہونے کے لئے کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاتی‘ لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے فوج میں بھرتی ہوجائے تو اب اسے اپنی مرضی سے فوج سے نکلنے یا فوجی نوکری چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر فوج کا یہ قانون جائز ہے تو اسلام کا یہ دستور کیونکر جائز نہیں؟
اس کے علاوہ عقل و شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہوجائے اسے اسلام سے برگشتگی اور مرتد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے‘ کیونکہ بالفرض اگر نعوذباللہ! کسی کو اسلام یا اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ تھا تو اس نے اسلام قبول ہی کیوں کیا تھا؟ لہٰذا ایسا شخص جو اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہوچکا ہے‘ اب اسے مرتد ہونے کی اس لئے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اسلام چھوڑ کر نہ صرف اپنے دین و مذہب کو بدلتا ہے‘ بلکہ اس قبیح اور بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین وشریعت‘ اسلامی تعلیمات‘ اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے‘ اسلامی تعلیمات کو مطعون و بدنام کرنے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کا مرتکب ہوا ہے‘ اس لئے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کی مثال کھلے کافر کی تھی‘ لیکن اب اس کی حیثیت اسلام کے باغی کی ہے‘ اور دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی ملک کا شہری نہ ہو اور وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘ لیکن جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اپنالے تو اسے اس ملک کے شہری قوانین کا پابند کیا جائے گا‘ چنانچہ اگر کوئی خود سر کسی ملک کی شہریت کا دعویدار بھی ہو اور اس کے احکام و قوانین اور اصول و ضوابط کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی کرے تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں‘ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی ملک‘ اس کے قوانین و ضوابط یا کسی ملک کے سربراہ سے بغاوت کی پاداش میں سزائے موت کا مستحق ہے‘ تو کیا وجہ ہے کہ اسلام‘ اسلامی قوانین اور پیغمبر اسلام سے بغاوت کا مرتکب سزائے موت کا مستحق نہ ہو؟
اگر دیکھا جائے اور اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو سزائے ارتداد کا یہ اسلامی قانون عین ِ فطرت ہے‘ جس میں نہ صرف مسلمانوں کا‘ بلکہ اسلامی مملکت کے تمام شہریوں کا بھی فائدہ ہے۔ اس لئے کہ دینِ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اس دین و مذہب میں دنیا کی فوز و فلاح اور نجاتِ آخرت کا مدار ہے‘ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“
۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“
لہٰذا جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد ارتداد کا مرتکب ہوا ہے‘ اس کی مثال اس باؤلے کتے یا ہلکے انسان کی ہے جسے اپنا ہوش ہے اور نہ دوسروں کا‘ اگر کوئی ”عقل مند“ اس کی جان پر ترس کھاکر اسے چھوڑ دے تو بتلایا جائے کہ وہ انسانیت کا دوست ہے یا دشمن؟ ٹھیک اسی طرح مرتد کی جان بخشی کرنا بھی معاشرہ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے‘ اور اس کی ہلاکت اسلامی معاشرہ کے لئے امن و عافیت اور سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے۔
مناسب ہوگا کہ یہاں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کا سزائے ارتداد کی معقولیت کے سلسلہ کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے‘ چنانچہ حضرت لکھتے ہیں:
”تمام مہذب ملکوں‘ حکومتوں اور مہذب قوانین میں باغی کی سزا موت ہے‘ اور اسلام کا باغی وہ ہے جو اسلام سے مرتد ہوجائے‘ اس لئے اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے‘ لیکن اس میں بھی اسلام نے رعایت دی ہے‘ دوسرے لوگ باغیوں کو کوئی رعایت نہیں دیتے‘ گرفتار ہونے کے بعد اگر اس پر بغاوت کا جرم ثابت ہوجائے تو سزائے موت نافذ کردیتے ہیں‘ وہ ہزار معافی مانگے‘ توبہ کرے اور قسمیں کھائے کہ آئندہ بغاوت کا جرم نہیں کروں گا‘ اس کی ایک نہیں سنی جاتی اور اس کی معافی ناقابلِ قبول سمجھی جاتی ہے‘ اسلام میں بھی باغی یعنی مرتد کی سزا قتل ہے ‘ مگر پھر بھی اسے اتنی رعایت ہے کہ تین دن کی مہلت دی جاتی ہے‘ اس کو تلقین کی جاتی ہے کہ توبہ کرلے‘ معافی مانگ لے‘ تو سزا سے بچ جائے گا‘ افسوس ہے کہ پھر بھی اسلام میں مرتد کی سزا پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
اگر امریکا کے صدر کا باغی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے اور اس کی سازش پکڑی جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں‘ روس کی حکومت کا تختہ الٹنے والا پکڑا جائے یا جنرل ضیأ الحق کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا پکڑا جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر دنیا کے کسی مہذب قانون اور کسی مہذب عدالت کو کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن تعجب ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی پر اگر سزائے موت جاری کی جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سزا نہیں ہونی چاہئے‘ اسلام تو باغی مرتد کو پھربھی رعایت دیتا ہے کہ اسے تین دن کی مہلت دی جائے‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے‘ معافی مانگ لے تو کوئی بات نہیں‘ اس کو معاف کردیا جائے گا‘ لیکن اگر تین دن کی مہلت اور کوشش کے بعد بھی وہ اپنے ارتداد پر اڑا رہے‘ توبہ نہ کرے تو اللہ کی زمین کو اس کے وجود سے پاک کردیا جائے‘ کیونکہ یہ ناسور ہے‘ خدانخواستہ کسی کے ہاتھ میں ناسور ہوجائے تو ڈاکٹر اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں‘ اگر انگلی میں ناسور ہوجائے تو انگلی کاٹ دیتے ہیں اور سب دنیا جانتی ہے کہ یہ ظلم نہیں‘ بلکہ شفقت ہے‘ کیونکہ اگر ناسور کو نہ کاٹا گیا تو اس کا زہر پورے بدن میں سرایت کرجائے گا‘ جس سے موت یقینی ہے‘ پس جس طرح پورے بدن کو ناسور کے زہر سے بچانے کے لئے ناسور کو کاٹ دینا ضروری ہے اور یہی دانائی اور عقلمندی ہے‘ اسی طرح ارتداد بھی ملت اسلامیہ کے لئے ایک ناسور ہے‘ اگر مرتد کو توبہ کی تلقین کی گئی‘ اس کے باوجود اس نے اسلام میں دوبارہ آنے کو پسند نہیں کیا تو اس کا وجود ختم کردینا ضروری ہے‘ ورنہ اس کا زہر رفتہ رفتہ ملتِ اسلامیہ کے پورے بدن میں سرایت کرجائے گا۔ الغرض مرتد کا حکم ائمہ اربعہ کے نزدیک اور پوری امت کے علماء اور فقہاء کے نزدیک یہی ہے جو میں عرض کرچکا ہوں اور یہی عقل و دانش کا تقاضا ہے اور اسی میں امت کی سلامتی ہے۔“ (تحفہ قادیانیت‘ ج:۱‘ ص: ۶۶۵‘ ۶۶۶)
ان مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا ہوگا کہ اسلام اور اسلامی آئین‘ ہر غیرمسلم و کافر کی جان کے درپے نہیں‘ بلکہ اسلامی آئین و دستور صرف اور صرف ان فتنہ پردازوں کا راستہ روکتا ہے اور انہیں کڑی سزا کا مستحق گردانتا ہے جو معاشرہ کے امن و امان کے دشمن اور اسلام سے بغاوت کے مرتکب ہوں‘ بایں ہمہ اسلام ور اسلامی آئین ایسے لوگوں کو بھی فوراً کیفر کردار تک نہیں پہنچاتا‘ بلکہ انہیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے‘ اگر وہ سدھر جائیں تو فبہا‘ ورنہ اس بدترین سزا کے لئے تیار ہوجائیں‘ اس کے باوجود بھی اگر کوئی بدنصیب اس سے فائدہ نہ اٹھائے اور اپنی جان کا دشمن بنا رہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟
جیسا کہ ارتداد و مرتد کی تعریف کے ذیل میں پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد اسلام کو چھوڑ کر کوئی بھی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلے‘ وہ مرتد ہے‘ اور مرتد کی سزا قتل ہے۔
اس پر یہودو نصاریٰ اور قادیانیوں کے علاوہ دوسرے ملاحدہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان ہوسکتے ہیں‘ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر کسی یہودی اور عیسائی کے مسلمان ہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو ایک مسلمان کے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر اسے کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی ہندو یا قادیانی‘ مسلمان ہوسکتا ہے تو ایک مسلمان نعوذباللہ! قادیانی یا ہندو کیوں نہیں بن سکتا؟
عام طور پر اربابِ کفرو شرک اس سوال کو اس رنگ آمیزی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک سیدھا سادا مسلمان نہ صرف اس سے متاثر ہوتا ہے‘ بلکہ سزائے ارتداد کو نعوذباللہ !غیر معقول و غیر منطقی اور آزادی اظہار رائے و آزادی مذہب کے خلاف سمجھنے لگتا ہے‘ اس لئے ضرورت ہے کہ اس مغالطہ کے جواب میں بھی چند معروضات پیش کردی جائیں:
الف:… جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہودی‘ عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں تو ان پر سزا ئے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصولی طور پر ہم اس سوال کا جواب دینے کے مکلف نہیں ہیں‘ بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں‘ بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔
تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِعمل صحیح ہے یا غلط؟ اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت و یہودیت اگر اپنے مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتے؟
اس سے ذرا اور آگے بڑھیئے تو اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتلِ ناحق ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشدد پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ ورنہ بتلایا جائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ صرف یہی ناں کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلا دین و شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے ذریعے نیا دین اور نئی شریعت آئی ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات اور فوز و فلاح ہے۔
اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر فرض ہے کہ وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ  اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں قتل کیا گیا؟ ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کا پاک و پاکیزہ اور مقدس لہو بہایا گیا؟
اس کے علاوہ یہ بھی بتلایا جائے کہ حضرت عیسیٰ  روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟
مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضرات ِانبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اور پھر مسلمانوں سے بات کریں۔
ب:… یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے حضراتِ انبیائے کرام اور رسل  بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا‘ جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تو اس کی انتہا یا تکمیل و اختتام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے دین و شریعت اور کتب کی کیفیت یکساں تھی یا مختلف؟
اگر بالفرض تمام انبیائے کرام کی شریعتیں ابدی و سرمدی تھیں تو ایک نبی کے بعد دوسرے نبی اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ مثلاً اگر حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابدی و سرمدی تھی اور اس پر عمل نجاتِ آخرت کا ذریعہ تھا تو اس وقت سے لے کر آج تک تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا تابع ہونا چاہئے تھا‘ اگر ایسا ہے تو پھر یہودیت و عیسائیت کہاں سے آگئی؟
لیکن اگر بعد میں آنے والے دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کی تشریف آوری سے‘ پہلے نبی کی شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی تھی… جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے… تو دوسرے نبی کی شریعت اور کتاب کے آجانے کے بعد سابقہ شریعت اور نبی کی اتباع پر اصرار و تکرار کیوں کیا جاتا ہے؟
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرا نبی‘ شریعت اور کتاب آگئی اور پہلا دین‘ شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی‘ تو اس منسوخ شدہ دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کے احکام پر عمل کرنا یا اس پر اصرار کرنا خود بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی ملک کے قانون میں ترمیم کردی جائے یا اس کو سرے سے منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا جدید آئین و قانون نافذ کردیا جائے‘ اب اگر کوئی عقل مند اس نئے آئین و قانون کی بجائے منسوخ شدہ دستور و قانون پر عمل کرتے ہوئے نئے قانون کی مخالفت کرے‘ تو اسے قانون شکن کہا جائے گا یا قانون کا محافظ و پاسبان؟
لہٰذا اگر کسی ملک کا سربراہ ایسے عقل مند کو رائج و نافذ جدید آئین و قانون کی مخالفت اور اس سے بغاوت کی پاداش میں باغی قرار دے کر اُسے بغاوت کی سزا دے‘ تو اس کا یہ فعل ظلم و تعدی ہوگا یا عدل و انصاف؟ کیا ایسے موقع پر کسی عقل مند کو یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ اگر جدید آئین و قانون کو چھوڑنا بغاوت ہے تو منسوخ شدہ آئین و قانون کو چھوڑنا کیونکر بغاوت نہیں؟ اگر جدید آئین سے بغاوت کی سزا موت ہے تو قدیم و منسوخ شدہ آئین کی مخالفت پر سزائے موت کیونکر نہیں؟
ج:…جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادیان اور ان کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں‘ اس سلسلہ میں گزشتہ سطور میں عقلی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ سابقہ انبیأ کی شریعتوں پر عمل باعث نجات نہیں‘ ورنہ نئے دین‘ نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ تاہم سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے بعد آنے والے دین و شریعت اور نبی کی آمد سے متعلق اپنی امت کو بشارت دی ہے اور ان کی اتباع کی تلقین بھی فرمائی ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”واذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ و لتنصرنہ۔“ (آل عمران:۸۱)
ترجمہ:… ”اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے۔“
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت انجیل کے علاوہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ:
”ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد۔“ (الصف:۶)
ترجمہ:․․․ ”اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد‘ اس کا نام ہے احمد۔“
چنانچہ سابقہ انبیائے کرام  میں سے کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ میری نبوت اور دین و شریعت قیامت تک ہے اور میں قیامت تک کا نبی ہوں‘ دنیائے یہودیت و عیسائیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی نبی نے ایسا فرمایا ہے‘ تو اس کا ثبوت لاؤ:”قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔“ ہمارا دعویٰ ہے کہ صبح قیامت تک کوئی یہودی اور عیسائی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے گا‘ جب کہ اس کے مقابلہ میں آقائے دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی اور خاتم النبیین فرمایا گیا‘ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
۱:… ”قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً۔“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ:… ”تو کہہ: اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“
۲:… ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین۔“ (الانبیاء:۱۰۷)
ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکر جہان کے لوگوں پر۔“
۳:… ”ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین۔“ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:… ”محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے‘ لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم النبیین۔“
۴:… ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً و نذیراً۔“ (سبا:۲۸)
ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا:
۱:… ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔“ (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۴۵)
ترجمہ:… ”میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“
۲:… ”انا آخر الانبیاء و انتم آخر الامم۔“ (ابن ماجہ‘ ص:۲۹۷)
ترجمہ:… ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔“
۳:… ”لو کان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی۔“ (مشکوٰة‘ ص:۳۰)
ترجمہ:․․․ ”اگر موسیٰ علیہ الصلوٰة و السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“
اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے‘ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا‘ اس لئے جو شخص اس جدید و رائج قانون اور آئین کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین و شریعت یا کسی خود ساختہ مذہب‘ جیسے موجودہ دورکے متعدد باطل و بے بنیاد ادیان و مذاہب… مثلاً: ہندو‘ پارسی‘ سکھ‘ ذکری‘ زرتشتی اور قادیانی وغیرہ… کا اتباع کرے گا‘ وہ باغی کہلائے گا۔ دین و شریعت‘ قرآن و سنت اور عقل و دیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہیے‘ اور وہ قتل ہے۔
اس لئے اربابِ اقتدار سے ہماری درخواست ہے کہ وہ پاکستان میں سزائے ارتداد کا قانون جاری و نافذ کرکے ایسے باغیوں کی بغاوت کا سدِّباب کریں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و اعانت کے مستحق قرا رپائیں۔
بشکریہ http://www.banuri.edu.pk/node/357
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جزاک اللہ
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

خلفائے راشدین اور قتل مرتد

افضل الناس بعد الانبیاء خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ کا عمل
شیخ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں حضرت عمرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی اورمدینہ کے اردگرد میں بعض عرب مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت صدیق اکبرؓ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے اور عجب یہ کہ فاروق اعظمؓ جیسا اسلامی سپہ سالار اس وقت ان کے قتل میں بوجہ نزاکت وقت تأمل کرتا ہے۔ لیکن یہ خدا کی حدود تھیں جن میں مساہلت سے کام لینا صدیق اکبرؓ کی نظر میں مناسب نہ تھا۔ اس لئے فاروق اعظمؓ کے جواب میں بھی یہی فرمایا ھیھات ھیھات مضی النبیﷺ وانقطع الوحی واﷲ لا جاھد ھم ما استمسک السیف فی یدی۰
تاریخ الخلفاء ص۶۱فصل فی ما وقع فی خلافتہ۰
ہیہات ہیہات آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی۔ خدا کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار پکڑسکے گا۔
یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ کو بھی بحث کے بعد حق واضح ہوگیا اور اجماعی قوتوں سے مرتدین پر جہاد کیا گیا اور ان میں سے بہت سے تہ تیغ کردئیے گئے۔
حوالئی مدینہ سے فارغ ہوکر صدیق اکبرؓ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے باجماع صحابہؓ مرتد قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
فتح الباری‘ تاریخ الخلفاء ص۶۳فصل فی ما وقع فی خلافتہ‘ طبع اصح المطابع کراچی

اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت مرتد ہے۔ اگرچہ وہ کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے یا کوئی تاویل کرے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب جس کو صدیق اکبرؓ نے قتل کرایا ہے وہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اپنی اذان میں اشھد ان محمداً رسول اﷲ۰کا اعلان کرتا تھا۔
تاریخ طبری ج۱حصہ دوم ص۱۰۰‘ اردو نفیس اکیڈمی لاہور
پھر جس جرم میں اس کو مرتد ‘واجب القتل‘ سمجھا گیا وہ صرف یہ تھا کہ آپﷺ کی نبوت کو ماننے کے باوجود اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کرتا تھا۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کا بعینہ یہی حال ہے۔

پھر ۱۲ہجری میں بحرین میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تو آپؓ نے ان کو قتل کے لئے علاء ابن الحضرمیؒ کو روانہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)
اسی طرح عمان میں بعض لوگ مرتد ہوگئے تو ان کے قتل کے لئے عکرمہؓ ابن ابی جہل کو حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)

اہل بخیر میں سے چند لوگ اسلام سے پھرے تو صدیق اکبرؓ نے بعض مہاجرین کو ان کے قتل کے لئے بھیجا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳
اسی طرح زیاد بن لبید انصاریؓ کو ایک مرتد جماعت کے قتل کے لئے حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳

یہ تمام واقعات وہ ہیں جو اسلام کے سب سے پہلے خلیفہ اور افضل الناس بعد الانبیاء کے حکم سے ہوئے اور صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں ان کا ظہور ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت تھی جو کسی خلاف شرع حکم کو دیکھنا موت سے زیادہ ناگوار سمجھتی تھی۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ اگر معاذاﷲ صدیق اکبرؓ بھی کسی خلاف شریعت حکم کا ارادہ کرتے تو تمام صحابہ کرامؓ ان کی اطاعت کرلیتے اور خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگتے؟۔ لہذا یہ واقعات اور اسی طرح باقی تمام خلفائے راشدینؓ کے واقعات تنہا صدیق اکبرؓ وغیرہ کا عمل نہیں بلکہ تمام صحابہ کرامؓ کا اجماعی فتویٰ ہے کہ شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔

خلیفہ ثانی فاروق اعظمؓ اور قتل مرتد
آپ معلوم کرچکے ہیں کہ مذکور الصدر تمام واقعات میں فاروق اعظمؓ بھی صدیق اکبرؓ کے ساتھ اور شریک مشورہ تھے۔
فاروق اعظمؓ نے چند مرتدین کے متعلق اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کو تین روز تک اسلام کی طرف بلانا چاہئے اور روزانہ ان کو ایک ایک روٹی دی جائے۔ اگر تین روز تک نصیحت کے بعد بھی ارتداد سے توبہ نہ کریں تو قتل کردیا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۲تا۳۱۳‘
اس قسم کی متعدد روایات ہیں

خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی اور قتل مرتد
کنزالعمال میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں
من کفر بعد ایمانہ طائعا فانہ یقتل۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث ۱۴۷۰باب حکم الاسلام۰
جو شخص ایمان کے بعد اپنی خوشی سے کافر ہوجائے اس کو قتل کیا جائے۔

سلیمان ابن موسیٰ نے حضرت عثمان کا دائمی طرز عمل یہی نقل کیا ہے کہ مرتد کو تین مرتبہ توبہ کرنے کے لئے فرماتے تھے۔ اگر قبول نہ کرتا قتل کردیتے تھے۔
کنز العمال ج۱ص۳۱۳‘ حدیث ۱۴۷۱
امام الحدیث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتد حضرت ذی النورینؓ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس کو تین مرتبہ توبہ کی طرف بلایا۔ اس نے قبول نہ کیا تو قتل کردیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث۱۴۷۲
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لئے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں خط لکھا۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا
اعرض علیھم دین الحق فان قبلوھا فخل عنھم وان لم یقبلوھا فاقتلھم۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث۱۴۷۳
ان پر دین حق پیش کرو۔ اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑ دو۔ ورنہ قتل کردو۔

خلیفہ رابع حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور قتل مرتد
امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا۔
بخاری ج۲ص۱۰۲۳باب حکم المرتد والمرتدہ

حضرت ابوالطفیلؓ فرماتے ہیں کہ جب علی کرم اﷲ وجہہ نے بنی ناجیہ کے قتال کے لئے لشکر بھیجا تو اس میں‘ میں بھی شریک تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں میں تین فرقے ہیں۔ بعض پہلے نصاریٰ تھے پھر مسلمان ہوئے اور اسی پر ثابت قدم رہے۔ اور بعض نصاریٰ تھے اور ہمیشہ اسی مذہب پر رہے۔ اور بعض لوگ وہ تھے کہ پہلے نصرانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے اور پھر نصرانیت کی طرف لوٹ گئے۔ ہمارے امیر نے اس تیسرے فرقے سے کہا کہ اپنے خیال سے توبہ کرو۔ اور پھر مسلمان ہوجائو۔ انہوں نے انکار کیا تو امیر نے ہمیں حکم دیا۔ ہم سب ان پر ٹوٹ پڑے اور مردوں کو قتل اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴حدیث۱۴۷۶باب الارتداد واحکامہ

عبدالملک بن عمیرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ مستوردابن قبیصہ گرفتار کرکے لایا گیا جو اسلام سے مرتد ہوکر نصرانی ہوگیا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ٹھوکروں میں مسل کر مارڈالا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴حدیث۱۴۷۷

یہ ان خلفائے راشدین کا حکم عمل جن کے اقتداء کے لئے تمام امت اسلامیہ مامور ہے اور جن کے متعلق آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے

علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ۰
مشکوٰۃ ص۳۰باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کی اقتدأ کرو۔



 

محمد عثمان غنی

رکن ختم نبوت فورم
"ومن يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه وهو فى الآخرة من الخاسرين (آل عمران :85)

ترجمہ : "اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا ، اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہو گی اور وہ آخرت میں خسارے میں ہو گا۔"

لہذا جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد ارتداد کا مرتکب ہوا ہے، اس کی مثال اس باؤلے کتے یا ہلکے انسان کی ہے جسے اپنا ہوش ہے اور نہ دوسروں کا، اگر کوئی "عقل مند" اس کی جان پر ترس کھا کر اسے چھوڑ دے تو بتلایا جائے کہ وہ انسانیت کا دوست ہے یا دشمن ؟ ٹھیک اسی طرح مرتد کی جان بخشی کرنا بھی معاشرہ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ، اور اس کی ہلاکت اسلامی معاشرہ کے لئے امن و عافیت اور سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے ۔
 

محمد عثمان غنی

رکن ختم نبوت فورم
لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغى

ترجمہ : دین اسلام میں داخل کرنے کے لئے کسی جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا جاتا ، اس لیے کہ ہدایت ، گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے ۔ "

لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ جو شخص برضاو رغبت اسلام میں داخل ہو جائے اور اسلام قبول کر لے ، اسے مرتد ہونے کی بھی اجازت دے دی جائے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ابتداءً فوج میں بھرتی کے لیے کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاتی لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے فوج میں بھرتی ہوجائے تو اب اسے اپنی مرضی سے فوج سے نکلنے یا فوجی نوکری چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر فوج کا یہ قانون جائز ہے تو اسلام کا یہ دستور کیوں کر جائز نہیں ؟

اسکے علاوہ عقل وشعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہو چکا ہے اسے اسلام سے برگشتگی اور مرتد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ، کیوں کہ بالفرض اگر نعوذ باللہ ! کسی کو اسلام یا اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ تھا تو اس نے اسلام قبول ہی کیوں کیا تھا ؟ لہذا ایسا شخص جو اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہو چکا ہے ، اب اسے مرتد ہونے کی اس لئے اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسلام چھوڑ کر نہ صرف اپنے دین و مذہب کو بدلتا ہے ، بلکہ اس قبیح اور بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین ش شریعت ، اسلامی تعلیمات ، اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے ، اسلامی تعلیمات کو مطعون و بدنام کرنے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کا مرتکب ہوا ہے ، اس لئے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کی مثال کھلے کافر کی تھی ، لیکن اب اس کی حیثیت اسلام کے باغی کی ہے اور دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی ملک کا شہری نہ ہو اور وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اپنا لے تو اسے اس ملک کے شہری قوانین کا پابند کیا جائے گا ، چنانچہ اگر کوئی خود سر کسی ملک کی شہریت کا دعویدار بھی ہو اور اس کے احکام و قوانین اور اصول و ضوابط کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی کرے تو اسے زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ،لہذا اگر کوئی شخص کسی ملک اس کے قوانین و ضوابط یا کسی ملک کے سربراہ سے بغاوت کی پاداش میں سزائے موت کا مستحق ہے ، تو کیا وجہ ہے کہ اسلام ، اسلامی قوانین اور پیغمبر اسلام بغاوت کا مرتکب سزائے موت کا مستحق نہ ہو ؟
 

محمد عثمان غنی

رکن ختم نبوت فورم
خلفائے راشدین اور قتل مرتد

افضل الناس بعد الانبیاء خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ کا عمل
شیخ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں حضرت عمرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی اورمدینہ کے اردگرد میں بعض عرب مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت صدیق اکبرؓ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے اور عجب یہ کہ فاروق اعظمؓ جیسا اسلامی سپہ سالار اس وقت ان کے قتل میں بوجہ نزاکت وقت تأمل کرتا ہے۔ لیکن یہ خدا کی حدود تھیں جن میں مساہلت سے کام لینا صدیق اکبرؓ کی نظر میں مناسب نہ تھا۔ اس لئے فاروق اعظمؓ کے جواب میں بھی یہی فرمایا ھیھات ھیھات مضی النبیﷺ وانقطع الوحی واﷲ لا جاھد ھم ما استمسک السیف فی یدی۰
تاریخ الخلفاء ص۶۱فصل فی ما وقع فی خلافتہ۰
ہیہات ہیہات آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی۔ خدا کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار پکڑسکے گا۔
یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ کو بھی بحث کے بعد حق واضح ہوگیا اور اجماعی قوتوں سے مرتدین پر جہاد کیا گیا اور ان میں سے بہت سے تہ تیغ کردئیے گئے۔
حوالئی مدینہ سے فارغ ہوکر صدیق اکبرؓ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے باجماع صحابہؓ مرتد قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
فتح الباری‘ تاریخ الخلفاء ص۶۳فصل فی ما وقع فی خلافتہ‘ طبع اصح المطابع کراچی

اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت مرتد ہے۔ اگرچہ وہ کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے یا کوئی تاویل کرے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب جس کو صدیق اکبرؓ نے قتل کرایا ہے وہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اپنی اذان میں اشھد ان محمداً رسول اﷲ۰کا اعلان کرتا تھا۔
تاریخ طبری ج۱حصہ دوم ص۱۰۰‘ اردو نفیس اکیڈمی لاہور
پھر جس جرم میں اس کو مرتد ‘واجب القتل‘ سمجھا گیا وہ صرف یہ تھا کہ آپﷺ کی نبوت کو ماننے کے باوجود اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کرتا تھا۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کا بعینہ یہی حال ہے۔

پھر ۱۲ہجری میں بحرین میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تو آپؓ نے ان کو قتل کے لئے علاء ابن الحضرمیؒ کو روانہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)
اسی طرح عمان میں بعض لوگ مرتد ہوگئے تو ان کے قتل کے لئے عکرمہؓ ابن ابی جہل کو حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)

اہل بخیر میں سے چند لوگ اسلام سے پھرے تو صدیق اکبرؓ نے بعض مہاجرین کو ان کے قتل کے لئے بھیجا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳
اسی طرح زیاد بن لبید انصاریؓ کو ایک مرتد جماعت کے قتل کے لئے حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳

یہ تمام واقعات وہ ہیں جو اسلام کے سب سے پہلے خلیفہ اور افضل الناس بعد الانبیاء کے حکم سے ہوئے اور صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں ان کا ظہور ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت تھی جو کسی خلاف شرع حکم کو دیکھنا موت سے زیادہ ناگوار سمجھتی تھی۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ اگر معاذاﷲ صدیق اکبرؓ بھی کسی خلاف شریعت حکم کا ارادہ کرتے تو تمام صحابہ کرامؓ ان کی اطاعت کرلیتے اور خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگتے؟۔ لہذا یہ واقعات اور اسی طرح باقی تمام خلفائے راشدینؓ کے واقعات تنہا صدیق اکبرؓ وغیرہ کا عمل نہیں بلکہ تمام صحابہ کرامؓ کا اجماعی فتویٰ ہے کہ شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔

خلیفہ ثانی فاروق اعظمؓ اور قتل مرتد
آپ معلوم کرچکے ہیں کہ مذکور الصدر تمام واقعات میں فاروق اعظمؓ بھی صدیق اکبرؓ کے ساتھ اور شریک مشورہ تھے۔
فاروق اعظمؓ نے چند مرتدین کے متعلق اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کو تین روز تک اسلام کی طرف بلانا چاہئے اور روزانہ ان کو ایک ایک روٹی دی جائے۔ اگر تین روز تک نصیحت کے بعد بھی ارتداد سے توبہ نہ کریں تو قتل کردیا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۲تا۳۱۳‘
اس قسم کی متعدد روایات ہیں

خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی اور قتل مرتد
کنزالعمال میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں
من کفر بعد ایمانہ طائعا فانہ یقتل۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث ۱۴۷۰باب حکم الاسلام۰
جو شخص ایمان کے بعد اپنی خوشی سے کافر ہوجائے اس کو قتل کیا جائے۔

سلیمان ابن موسیٰ نے حضرت عثمان کا دائمی طرز عمل یہی نقل کیا ہے کہ مرتد کو تین مرتبہ توبہ کرنے کے لئے فرماتے تھے۔ اگر قبول نہ کرتا قتل کردیتے تھے۔
کنز العمال ج۱ص۳۱۳‘ حدیث ۱۴۷۱
امام الحدیث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتد حضرت ذی النورینؓ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس کو تین مرتبہ توبہ کی طرف بلایا۔ اس نے قبول نہ کیا تو قتل کردیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث۱۴۷۲
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لئے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں خط لکھا۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا
اعرض علیھم دین الحق فان قبلوھا فخل عنھم وان لم یقبلوھا فاقتلھم۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳حدیث۱۴۷۳
ان پر دین حق پیش کرو۔ اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑ دو۔ ورنہ قتل کردو۔

خلیفہ رابع حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور قتل مرتد
امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا۔
بخاری ج۲ص۱۰۲۳باب حکم المرتد والمرتدہ

حضرت ابوالطفیلؓ فرماتے ہیں کہ جب علی کرم اﷲ وجہہ نے بنی ناجیہ کے قتال کے لئے لشکر بھیجا تو اس میں‘ میں بھی شریک تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں میں تین فرقے ہیں۔ بعض پہلے نصاریٰ تھے پھر مسلمان ہوئے اور اسی پر ثابت قدم رہے۔ اور بعض نصاریٰ تھے اور ہمیشہ اسی مذہب پر رہے۔ اور بعض لوگ وہ تھے کہ پہلے نصرانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے اور پھر نصرانیت کی طرف لوٹ گئے۔ ہمارے امیر نے اس تیسرے فرقے سے کہا کہ اپنے خیال سے توبہ کرو۔ اور پھر مسلمان ہوجائو۔ انہوں نے انکار کیا تو امیر نے ہمیں حکم دیا۔ ہم سب ان پر ٹوٹ پڑے اور مردوں کو قتل اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴حدیث۱۴۷۶باب الارتداد واحکامہ

عبدالملک بن عمیرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ مستوردابن قبیصہ گرفتار کرکے لایا گیا جو اسلام سے مرتد ہوکر نصرانی ہوگیا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ٹھوکروں میں مسل کر مارڈالا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴حدیث۱۴۷۷

یہ ان خلفائے راشدین کا حکم عمل جن کے اقتداء کے لئے تمام امت اسلامیہ مامور ہے اور جن کے متعلق آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے

علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ۰
مشکوٰۃ ص۳۰باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کی اقتدأ کرو۔


ماشاء الله اللهم زد فزد
 
Top