مرزائی تاویلات کی حقیقت
نسخ جہاد کے بارے میں ان واضح عبارات کے باوجود مرزائیوں کی دونوں جماعتیں آج کہتی ہیں کہ چونکہ ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی سلطنت قائم ہوگئی اور وسائل جہاد مفقود تھے۔ اس لئے وقتی طور پر جہاد کو موقوف کیا گیا۔ آئیے ہم اس تاویل اور مرزا کی غلط وکالت کا جائزہ لیں۔
الف… پچھلی چند عبارات سے ایک منصف مزاج شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مرزاصاحب کے ہاں جہاد کی ممانعت ایک وقتی حکم نہیں۔ نہ وہ کچھ وقت کے لئے موقوف بلکہ وہ مکمل طور پر جہاد کے خاتمہ اس کی انتظار تک کی نفی اور ظاہری اور پوشیدہ کسی قسم کی تعلیم کو بھی ناجائز اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دین کے لئے لڑنا ممنوع اور منسوخ قرار دیتے ہیں۔
ب… اگر مرزاصاحب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی سلطنت کے قدم جمانے کی وجہ سے مجبوراً جہاد 2029کی مخالفت کرتے ہیں تو ۱۸۵۷ء اور اس سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے فوراً بعد مجاہدین سید احمد شہیدؒ کے جہاد میں مرزاصاحب اور ان کا پورا خاندان سکھوں اور انگریزی استعمار کے لئے میدان ہموار کرنے کے لئے جانی اور مالی قربانیاں دیتے رہے۔ جس کا مرزاصاحب نے انگریزی حکام کے نام خطوط اور چٹھیوں میں بڑے فخر سے اعتراف کیا ہے اور ان مساعی کی نہ صرف تائید کی بلکہ تحسین بھی کی ہے۔ ان کے خاندانی بزرگوں نے سکھوں سے مسلمانوںکے جہاد میں سکھوں کی حمایت کی۔ مرزا کے والد نے ۱۸۵۷ء میں پچاس سوار سرکار انگریزی کی امداد کے لئے فراہم کئے۔ مرزاغلام احمد نے ۱۸۵۷ء میں جہاد آزادی کے غیور اور جان نثار مجاہدین کو ’’جہلاء اور بدچلن کہا۔‘‘
(براہین احمدیہ ج۱ ص الف، خزائن ج۱ ص۱۳۸، اشتہار اسلامی انجمنوں سے التماس، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۵)
انگریز کے ہاتھوں ہندوستان میں مسلمانوں کی مظلومیت پر ہند کا ذرہ ذرہ اشکبار تھا۔ اسلامیان ہند کی عظمیتں لٹ رہی تھیں۔ ہزار سالہ عظمت رفتہ پاش پاش ہورہی تھی۔ علماء اور شرفاء ہند کو سور کے چمڑوں میں سی کر اور زندہ جلا کر دہلی کے چوکوں میں پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا اور انگریزوں کا شقی القلب نمائندہ جنرل نکلسن، ایڈورڈ سے ایسے آئینی اختیارات مانگ رہا تھا کہ مجاہدین آزادی کے زندہ حالت میں چمڑے ادھیڑے جاسکیں اور انہیں زندہ جلایا جاسکے۔ مگر وہ شقی اور ظالم نکلسن اور مرزاغلام احمد اور اس کے خاندان کو ہندوستان میں اپنے مفادات کا نگران اور وفادار ٹھہرارہا تھا۔ جنرل نکلسن نے مرزاغلام قادر کو سند دی جس میں لکھا کہ: ’’۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔‘‘
(سیرت مسیح موعود ص۵،۶، از مرزابشیرالدین محمود، طبع قادیان)
اور وہی مرزاصاحب جو ابھی تک اپنے تشریعی نبی ہونے کی حیثیت میں سامنے نہیں آئے تھے خود براہین احمدیہ اور دیگر تحریروں میں جہاد کے فرض واجب اور غیر منقطع ہونے کا اعتراف کر چکے تھے۔ دعویٰ نبوت کے بعد ایک 2030قطعی حکم کو حرام قرار دیتے ہوئے عملاً بھی قرآن کریم کی تمام آیات جہاد خمس وفئی کو منسوخ قرار دے کر تشریعی نبی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن جس دور میں وہ جہاد کو فرض کہتے ہیں کیا مرزاصاحب خود عملی طور پر بھی اس پر عمل پیرا رہے۔ اس کا جواب ہمیں انگریز لیفٹیننٹ گورنر کے نام چٹھی سے مل جاتا ہے، وہ اس درخواست میں اپنی اصل حقیقت کو اس طرح واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک (گویا ۱۸۳۹ء سے لے کر جو ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے کا زمانہ ہے) جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں۔ اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں۔ تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کو دور کروں جو ان کی دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
۳… تیسری بات یہ ہے کہ بالفرض ہم تسلیم کئے دیتے ہیں کہ مرزاصاحب نے برصغیر میں انگریزی سلطنت کی وجہ سے بعض مجبوریوں کی بناء پر اتنی شدومد سے جہاد کی مخالفت کی۔ لیکن اگر حقیقت یہی ہوتی تو مرزاصاحب کی ممانعت جہاد اور اطاعت انگریز کی تبلیغ صرف برٹش انڈیا تک محدود ہوتی۔ مگر یہاں تو ایسے کھلے شواہد اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ مرزاصاحب کی تحریک وتبلیغ کا اصل محرک نہ صرف انڈیا بلکہ پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ جہاد نکالنا اور انگریزوں کے لئے یا کسی 2031بھی کافر سلطنت کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا۔ تاکہ اس طرح ایک نئی امت اور نئے نبی کے نام سے پوری ملت مسلمہ اور امت محمدیہ کا سارا نظام درہم برہم کیا جائے اور پورے عالم اسلام کو انگریز یا ان کے حلیفوں کے قدموں میں لاگرایا جائے۔ اس لئے مرزاصاحب نے مخالفت جہاد کی تبلیغ صرف برٹش انڈیا تک محدودنہ رکھی اور نہ صرف اردو لٹریچر پر اکتفا کیا بلکہ فارسی، عربی، انگریزی میں لٹریچر لکھ لکھ کر بلاد روم، شام، مصر، ایران، افغانستان، بخارایہاں تک کہ مکہ اور مدینہ تک پھیلاتا رہا۔ تاکہ بخارا میں اگر زار روس کے لشکر آئیں تو کوئی مسلمان ہاتھ مزاحمت کے لئے نہ اٹھے۔ فرانس، تیونس، الجزائر اور مراکش پر لشکر کشی ہو تو مسلمان جہاد کو حرام سمجھیں۔ عرب اور مصری دل وجان سے انگریزکے مطیع بن جائیں اور ترک وافغان کی غیرت ایمانی ہمیشہ کے لئے جذبہ جہاد سے خالی ہوکر سرد پڑ جائے۔
اس سلسلہ میں مرزاصاحب کے اعترافات دیکھئے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں نے نہ صرف اس قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلینڈ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطیع کیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، بنام لیفٹیننٹ گورنر، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
اسی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’ان نادان مسلمانوں کے پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل وجان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکر گزاری کے لئے ہزارہا اشتہارات شائع کئے گئے اور ایسی کتابیں بلاد عرب وشام وغیرہ تک پہنچا دی گئیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۵)
’’اس کے بعد میں نے عربی اور فارسی میں بعض رسائل تالیف کر کے بلاد شام وروم اور مصر اور بخارا وغیرہ کے اطراف روانہ کئے اور ان میں اس گورنمنٹ کے اوصاف حمیدہ درج کئے اور بخوبی ظاہر کیا کہ اس محسن گورنمنٹ کے ساتھ جہاد حرام ہے اور بعض شریف عربوں کو وہ 2032کتابیں دے دے کر بلاد شام وروم کی طرف روانہ کیا۔ بعض عربوں کو مکہ اور مدینہ کی طرف بھیجا گیا۔ بعض بلاد فارس کی طرف بھیجے گئے اور اسی طرح مصر میں بھی کتابیں بھیجی گئیں اور یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ تھا جو محض نیک نیتی سے کیاگیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۶۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۷)
اور یہ سب کچھ مرزاصاحب نے اس لئے کیا کہ: ’’تاکہ کج طبیعتیں ان نصیحتوں سے راہ راست پر آجائیں اور وہ طبیعتیں اس گورنمنٹ کا شکر کرنے اور اس کی فرمانبرداری کے لئے صلاحیت پیدا کریں اور مفسدوں کی بلائیں کم ہو جائیں۔‘‘
(نور الحق حصہ اوّل ص۳۰، خزائن ج۸ ص۴۱)
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷) میں اس ساری جدوجہد کا حاصل مرزاصاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
گورنمنٹ انگریزی اور جہاد (ضمیمہ ص۷) میں لکھتے ہیں: ’’ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعی حرام ہے۔ کیونکہ مسیح آچکا خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیرخواہ اس کو بننا پڑتا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۷)
یہ حقیقت کہ مرزائی تبلیغ وتلقین اور تمام کوششوں کے محرکات اور مقاصد کیا تھے۔ مرزائی مذہب کے بانی کے مذکورہ اقوال سے خود ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس پر بھی اگر تاویل کے پردوں میں اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے لئے حسب ذیل واقعات اور اعترافات کافی ہیں: ’’کہ مرزاصاحب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ آزاد اسلامی ممالک میں بھی 2033کسی قسم کے جہاد کے روادار نہ تھے۔ افغانستان کے امیر امان اﷲ خان کے عہد حکومت میں نعمت اﷲ خان مرزائی اور عبداللطیف مرزائی کو علماء افغانستان کے متفقہ فتویٰ سے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے محرکات یہی تھے کہ یہ لوگ مبلغین کے پردہ میں جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور یہ محض اس لئے کہ انگریزوں کا اقتدار چھا جائے۔ حالانکہ افغانستان میں جہاد اسلامی کی شرائط مکمل موجود تھیں۔‘‘
اس سلسلہ میں مرزابشیرالدین محمود احمد کا خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل مورخہ ۶؍اگست ۱۹۳۵ء ملاحظہ کیجئے: ’’عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہوگئی تھی۔ اس کتاب کا مصنف ایک اطالوی انجینئر جو افغانستان میں ذمہ دار عہدہ پر فائز تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف (قادیانی) کو اس لئے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے تو حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہو جائے گا اور ان پر انگریزوں کا اقتدار چھا جائے گا۔ ایسے معتبر راوی کی روایت سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر صاحبزادہ عبداللطیف خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔‘‘
اخبار الفضل بحوالہ امان افغان مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۲۵ء نے افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ کے حوالہ سے مندرجہ ذیل بیان نقل کیا: ’’کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحلیم وملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے 2034پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔‘‘
خلیفہ قادیان اپنے ایک خطبہ جمعہ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ یکم؍نومبر ۱۹۳۴ء میں اعتراف کرتا ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ غیرمسلم ممالک اور اقوام بھی مرزائیوں کو آلہ کار سمجھتے تھے۔ دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ جب قبرص میں احمدیہ عمارت کی افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن انگریز نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے۔