• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراض کا جواب

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کے سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یکْنِ الَّذِیْنَ کَفُروْا والی سورت پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیَفِیتَّہُ الْمُسْلِمَۃَ ولَا یَھُوَدِیَّۃَ اب اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الدین عند اللّٰہ الی الاخر کو قرآن مجید لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا والی سورت کی آیات قرار دیا ہے۔ ذرا کوئی مولوی لَمْ یَکُنَ الَّذِیْنَ والی سورت تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ نکال کر دکھا دیں۔( احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۱ و ۴۶۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۸۷، ۸۸۸ طبعہ ۱۹۴۵ء)
الجواب:
قرآن پاک عربی مبین میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عربی نژاد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو ان پر آیات پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی کیا وجہ! کیا وہ خود ان آیات کا لفظی ترجمہ نہیں جان سکتے تھے؟ یقینا پھر بات کیا ہے؟ قرآن پاک شاہد ہے کہ گروہ صحابہ میں سے ایک طائفہ تبلیغ و تفہیم قرآن کے لیے بالخصوص مخصوص تھا جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بحکم خدا ان پر آیات کی تلاوت کرنا تعلیم الفاظ و کیفیت آداب و مواضع الوقوف کی تفہیم و مطالب قرآنیہ کی تشریح کے لیے تھا۔ لہٰذا صاف عیاں ہے کہ الفاظ وَاِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَیِنْفِیَّۃُ بطور تفسیر ہیں۔
خود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سورہ لَمْ یکن الذین پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا۔ صاف دال ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو قرآن نہیں بلکہ تفسیر سمجھتے تھے۔
مرزائی صاحب چونکہ دل سے جانتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے اس لیے بموجب ضرب المثل ''چور کی داڑھی میں تنکا'' آگے چل کر بطور خود جواب بھی دیتے ہیں کہ:
'' یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکورہ بالا میں لفظ قَرَأَ فِیْھَا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورت کی تفسیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ورنہ قال فِیْھَاکہنا چاہیے تھا۔( ایضاً ص۴۶۲)
گویا معترض ان الفاظ کو تفسیر ماننے کو تیار ہے اگر قَالَ فِیْھَا ہوتا۔ بہت خوب:

راہ پر آگیا ہے وہ خود باتوں میں!
اور کھل جائے گا دو چار ملاقاتوں میں

قَرَأَ کا لفظ قرآن کے لیے مخصوص نہیں۔ دیگر گفتگو پر بھی آتا ہے۔(صحیح بخاری ص۱۴، ج۱) بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث کو غور سے پڑھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مفہوم قرآن پر بھی قرأۃ کا لفظ اہل عرب (بالخصوص جملہ محدثین) کے نزدیک مستعمل ہے چنانچہ امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ الباری مفہوم اور معانی قرآن پر قرأت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضمام بن ثعلبۃ انہ قال للنبی ﷺ اللّٰہُ اَمَرَکَ ان نصلی الصلوٰۃ قَالَ نَعَمَ قَالَ فَھٰذہ القراء ۃ علی النبی ﷺ (بخاری کتاب العلم باب مذکورہ)( ایضاً نوٹ: یہ قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے شیوخ سے اسے نقل کیا ہے امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ واحتج بعضھم فی القراۃ علی العالم بحدیث ضمام بن ثعلبۃ ، صحیح بخاری ص۱۴، ج۱ اور قائل اس قول کے ابو سعید الحداد ہیں جیسا کہ امام بیہقی کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے، فتح الباری ص۱۲۱، ج۱ میں اور محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۳، ج۲ میں صراحت کی ہے۔) ضمام بن ثعلبہ کا واقعہ ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اللّٰہُ اَمَرَکَ کیا خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں فرمایا ہاں! امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قرأت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فرمایا اللّٰہ اَمَرَکَ قرآن کے لفظ ہیں؟ نہیں۔ پھر دیکھئے اس پر امام المحدثین قرأۃ کا لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنیے قرآں پاک سے مثال دیتا ہوں قیامت کے دن جب دشمنان دین معاندین رسول، دست و پا بستہ دربارِ خداوندی میں حاضر کئے جائیں گے تو انہیں فرمان ہوگا۔ اِقَرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ (پ۱۵ بنی اسرائیل آیت : ۱۵) بدبخت آج تو خود ہی اپنے نامہ اعمال کو پڑھ لے۔
فریب خوردہ انسان ! کیا اس دن خدا پر بھی اعتراض کرے گا کہ قَرَأَ کا لفظ تو صرف قرآن پر مخصوص ہے۔ الٰہی تو میرے سیاہ نامے پر اسے کیوں استعمال کر رہا ہے؟ غالباً نہیں، یقینا جواب یہی ملے گا کہ :
تو آشنائے حقیقت نۂٖ خطا اینجاست

ایک اور طرز سے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں عہد نبوی میں جمع قرآن کی خدمت سپرد ہوئی تھی عَنْ اَنَسٍ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ عَلٰی عَھْدِ النَّبی ﷺ اَرَبَعَۃٌ کُلُّھْمَ مِنْ اَنْصَارٍ اُبَیٌّ وَ مُعَاذ بن جبل وابو زید وزید بن ثابتٍ (بخاری باب مناقب ابی بن کعب)(صحیح بخاری ص۵۳۷، ج۱ فی المناقب باب مناقب ابی بن کعب) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار بزرگوار انسان انصاری، جمع قرآن کی خدمت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خذوا القران من اَرْبَعَۃٍ مِنَ عبداللّٰہ بْنِ مَسَعُوْدٍ وَسَالِمٍ مَوْلٰی اَبْی حُذَیْفَۃَ وَمُعَاذ بن جَبَلٍ وَابی بن کعب (حوالہ مذکورہ) قرآن چار شخصوں سے سیکھو جن میں ایک ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اندریں حالات اگر زیر بحث الفاظ قرآن کے ہوتے یا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن میں شمار کرتے تو پھر کم از کم ان کے جمع کردہ قرآن میں تو ان الفاظ کو موجود و مرقوم ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں۔ اس لیے مہر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو قرآن ظاہر کیا اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن سمجھا۔ پس مرزائی اعتراض سراسر کور چشمی بلکہ سیاہ قلبی پر مبنی ہے۔
------------------------------------------------------------------------------
 
Top