مرزائی پاکٹ بک کے مصنف کا ایک اور دھوکہ اور اس کا پوسٹ مارٹم
۔دوستو ! امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " صحیح مسلم " میں دو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کی ہیں جن میں وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم جن کی ملاقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات ہوئی تھی اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کا بتایا کہ وہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہ بتایا اور پھر ایک دوسری حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے قتل کے لیے جن عیسیٰ علیہ السلام نے آنا ہے ان کا حلیہ بھی بتایا کہ وہ انہی صحابی رسول عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سے مشابے ہیں ، آئیں وہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھیں ۔
پہلی حدیث جس میں اس واقعہ کا بیان ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس تشریف لائے اور قریش کو آپ کی بات کا یقین نہیں آیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کی غرض سے بیت المقدس کے بارے میں کچھ سوالات کرنے شروع کیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے میری نظروں کے سامنے منظر کر دیا وہ جو جو پوچھتے تھے میں بتاتا جاتا تھا اسی حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
" وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ، جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، " ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب زکر المسیح بن مریم والمسیح الدجال )
میں نے اپنے آپ کو انبیاء کی جماعت کے درمیان دیکھا ، پس ( دیکھا کہ ) موسیٰ علیہ اسلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں وہ میانہ تن وتوش کے اور کٹھے ہوئے جسم والے تھے جیسے شنوءہ قبیلہ کے لوگے ہوتے ہیں ، اور میں نے عیسیٰ علیہ اسلام کو بھی دیکھا وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ، میں انکے سب زیادہ مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی کو پاتا ہوں ۔
اس روایت کی سند یہ ہے " وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
غور فرمائیں ! اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عیسیٰ علیہ اسلام کو جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھا تھا اپنے ایک صحابی عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہ بتایا ۔
دوسری حدیث،حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ۔
" يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ - لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا فَيَبْعَثُ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، " ( صحیح مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ ، باب خروج الدجال ومكثه في الأرض۔۔ )
دجال میری امت سے خروج کرے گا پس وہ چالیس تک رہے گا ( میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ) ، پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ اسلام کو بیجھیں گے گویا کہ آپ عروہ بن مسعود ہیں ( یعنی ان کے مشابہ ہوں گے ) پس آپ دجال کو ڈھونڈھ کر ہلاک کر دیں گے ۔
اس روایت کی سند یہ ہے " حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو "
اس حدیث شریف میں ان عیسیٰ علیہ اسلام کا زکر ہے جن کے ہاتھوں دجال قتل ہوگا اور یہاں بھی انہیں حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہ بتایا ہے ، ثابت ہوا کہ وہی عیسیٰ علیہ اسلام نازل ہوں گے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھا تھا ۔
اب چلتے ہیں مرزائی پاکٹ بک کے مصنف کے دھوکے کی طرف اور اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں ۔
صحیح مسلم کی ان دونوں روایات کے اوپر بھی مرزائی پاکٹ بک کے مصنف ملک عبدالرحمن گجراتی نے حسب عادت اپنا دجل و فریب دکھایا ہے ،چنانچہ پہلی روایت کے بارے میں لکھتا ہے کہ :۔
" اس کا ایک روای ابوالزبیرمحمد بن مسلم مکی ہے جو ضعیف ہے " ( پاکٹ بک صفحہ 236 )
دوستو! پہلی روایت سند کے ساتھ آپ کے سامنے ہے اگرچہ ہماری پیش کردہ روایت میں اس نام کا کوئی روای نہیں اس لئے محمد بن مسلم مکی پر بات کرنا ہم پر لازمی نہیں لیکن پھر بھی چونکہ ہم نے پاکٹ بک مصنف کے دجل سے نقاب اٹھانا ہے تو اس لیے ہم چند باتیں لکھ کر آگے چلیں گے ۔
دوستو! یہاں بھی ملک عبدالرحمن گجراتی نے ان تمام آئمہ کے الفاظ نقل نہیں کیے جنہوں نے محمد بن مسلم مکی کی توثیق کی ہے اور انہیں سچا بتلایا ہے جیسا کہ " یعلیٰ بن عطاء ، امام احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین ، یعقوب بن شیبۃ ، ابو زرعۃ ، نسائی ، ابن عدی ، ابن حبان ، ابن المدینی ، ابن سعد ، اور امام ساجی وغیرھم ۔ " بلکہ ابن عدی نے یہاں تک لکھا ہے کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے ابوالزبیر سے روایات نقل کی ہیں اور ابوالزبیر کے سچے ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ ان سے امام مالک نے روایت لی ہے کیونکہ امام مالک صرف ثقہ روای ہی لیتے ہیں ۔
مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے " تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال " سے کچھ الفاظ نقل کیے ہیں اور ایک جگہ ترجمہ میں ایسی تحریف کی ہے کہ یہودی بھی شرما جائیں ۔ اس نے عربی کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ :۔
" قلت لشعبة مالك تركت حديث أبي الزبير قال رأيته يزن ويسترجح في الميزان "
(ورقا) کہتے ہیں کہ میں نے شعبۃ (بن الحجاج ) سے کہا کہ آپ نے ابوالزبیر کی حدیث کیوں ترک کر دی ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے ان کو وزن کرتے دیکھا ( یعنی کوئی چیز تولتے دیکھا ) اور وہ ترازو کو کھینچ رہے تھے ، ( یعنی شعبۃ کے خیال سے وہ صحیح وزن نہیں کر رہے تھے ) ۔ عربی میں " وَزَنَ یَزِنُ" کا معنی ہوتا ہے وزن کرنا تولنا ۔ لیکن مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے ان الفاظ کا یوں ترجمہ کیا کہ :۔
" انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسے زنا کرتے دیکھا ہے " ( پاکٹ بک صفحہ 236 )
کیا اس سے بڑا کوئی دجل ہوسکتا ہے ؟ کہاں وزن کرنا اور کہاں زنا کرنا ۔ جبکہ اگلے الفاظ " ويسترجح في الميزان " واضح طور پر بتا بھی رہے ہیں کہ یہاں وزن کرنے کا ذکر ہو رہا ہے نہ کے زنا کرنے کا ، عربی میں زنا کے لئے " زنیٰ یزنی " آتا ہے ۔ واضح رہے کہ اسی تہذیب التہذیب میں امام ابن حبان کا قول موجود ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جس نے ابوالزبیر پر صرف اس وجہ سے جرح کی ہے کہ وہ تولتے ہوئے ترازو کھینچ رہے تھے اس نے انصاف نہیں کیا ۔ ( تہذیب التہذیب ، جلد 3 صفحہ 694 تا 695 )
مرزائی پاکٹ بک نے ایک اور جھوٹ بولا ہے ، تہذیب التہذیب اور میزا ن الاعتدال کے حوالے سے لکھا ہے " اس روایت کا دوسرا راوی " قتبیۃ بن سعید التیمی " ہے یہ بھی ضیعف ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ " یعنی عقیلی نے کہا اس راوی کی روایت بلکل غیر محفوظ ہوتی ہے ، یہ اپنے نسب اور روایات کرنے اور سند دینے میں مجہول تھا ، اور اس کی حدیث نہ مستند ہوتی ہے نہ ہی درست " ( پاکٹ بک صفحہ 237 )
دوستو ! ہماری پیش کردہ روایت میں اس نام کا بھی کوئی راوی موجود نہیں ہے اس لئے اس کا جواب بھی ہمارے زمے نہیں ہے لیکن چونکہ پاکٹ بک کے مصنف نے دجل و فریب کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اس لئے اس کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر آگے نہیں چل سکتے ۔
جس روایت کا ذکر پاکٹ بک کا مصنف کر رہا ہے اس میں جو راوی ہے اس کا نام " قتیبیۃ بن سعید بن جمیل بن ظریف بن عبداللہ الثقفی " لیکن مرزائی مربی نے نہایت چالاکی کے ساتھ اسے " قتبیۃ بن سعید التیمی " بنا دیا ، اور ایسے دھوکے آپ کو پاکٹ بک میں کئی جگہ ملیں گے ۔ اور " قتیبیۃ بن سعید الثقفی " نہایت ثقہ ہیں ، امام احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین ، نسائی ، فرھیانی ، حاکم ، احمد بن سیار المروزی ، ابن حبان اور مسلمہ بن قاسم خراسانی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور قابل قبول کہا ہے ۔امام بخاری نے ان سے 308 اور امام مسلم نے ان سے 668 احادیث روایت کی ہیں ۔ جو الفاظ پاکٹ بک میں نقل کیے گئے ہیں وہ ہمیں " قتیبیۃ سیعد الثقفی " کے بارے کہیں نہیں ملتے ۔ ( تفصیل کے لئے دیکھیں ، تہذیب التہذیب ، جلد 3 صفحہ 431 تا 432 )
اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کی جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام دجال کا قتل کریں گے اور ان کی صورت بھی اپنے صحابی عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہ بتائی ، اس کے دو راویوں " شُعْبَةُ بن الحجاج " اور " عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ " کے بارے میں بھی پاکٹ بک کے مصنف نے لکھا ہے کہ یہ ضعیف ہیں ۔ اور حسب عادت وہ اقوال نہ ذکر کیے گئے آئمہ کے جن میں ان کی توثیق کی گئی ۔ شعبۃ بن الحجاج جیسے امام کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ ناقابل اعتبار بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ ان کے بارے میں امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ شعبہ کے زمانے میں ان سے بڑھ کر بلکہ ان جیسا بھی کوئی حدیث کا عالم نہ تھا اور فرمایا کہ شعبہ تو علم " اسماء الرجال " میں اکیلے ایک جماعت کی مانند تھے ، امام ایوب نے انہیں احادیث کا شاہسوار فرمایا ، ابوالولید طیالسی کہتے ہیں کہ مجھے حماد بن سلمہ نے کہا کہ اگر تجھے حدیث چاہیئے تو شعبہ کے ساتھ لگ جاؤ ، حماد بن زید نے کہا کہ اگر شعبہ میرے موافق ہوں تو مجھے کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں ، ابن مہدی کہتے ہیں کہ (سفیان ) ثوری فرماتے تھے شعبہ حدیث میں امیر المؤمنین تھے ، امام ابو حنیفہ نے ان کی تحسین کی ، امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں کوئی حدیث کو نہ جانتا ، یزید بن زریع کہتے ہیں کہ شعبہ حدیث میں سب سے زیادہ سچے تھے ، یحییٰ قطان کہتے ہیں کہ میں نے حدیث میں شعبہ سے زیادہ اچھا کوئی نہیں دیکھا ، یحییٰ ( بن معین ) کہتے ہیں کہ شعبہ اسماء الرجال کے سب سے بڑے عالم تھے ، ابوداود کہتے ہیں کہ جب شعبہ کی وفات ہوئی تو سفیان ( ثوری ) نے کہا حدیث کی موت ہوگئی ، ابو داود نے کہا پوری دنیا میں شعبہ سے زیادہ اچھی حدیث والا کوئی نہیں تھا ، ابن سعد نے کہا وہ ثقہ ثبت اور حجت ہیں ، عجلی نے کہا وہ ثقہ ہیں لیکن وہ اسماء الرجال میں تھوڑی غلطی کرتے تھے ، ابن حبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ وہ علم و فضل اور حفظ و اتقان میں اپنے زمانے کے سردار تھے ۔ اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اس بات کا جواب دیتے ہیں جو کچھ لوگوں نے کہی کہ شعبہ اسماء الرجال ( یعنی فن اسماء الرجال جس میں راویوں کے حالات بیان کیے جاتے ہیں )میں کبھی غلطی کرتے تھے ، لکھا ہے کہ دارقطنی نے علل میں کہا ہے کہ چونکہ شعبہ حدیث کے متن کو یاد کرنے پر زیادہ توجہ دیتے تھے اس لئے اسماء الرجال یا راویوں کے حالات بیان کرنے میں کبھی غلطی کرتے تھے ۔ ( تفصیل کے لئے دیکھیں ، تہذیب التہذیب جلد 2 صفحات 166 تا 170 )
صحیح بخاری میں امامبخاری نے 800 کے قریب روایات شعبہ بن الحجاج کے واسطے سے روایت کی ہیں ، اسی طرح امام مسلم نے بھی ان سے اتنی ہی روایات کی ہیں۔
اسی طرح ایک اور راوی " عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ " کے بارے میں پاکٹ بک کے مصنف نے ابن معین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ " وہ علم حدیث نہ جانتے تھے اور نہ یہ راوی کسی حیثیت کے ہیں " ( پاکٹ بک صفحہ 237 )
لیکن اسے وہاں یہ نظر نہیں آیا کہ امام ابو حاتم نے ان کے بارے کہا ہے کہ وہ ثقہ ہیں ، ابن حبان نے انہیں ثقہ لوگو ں میں شمار کیا ہے ، معاذ بن المثنیٰ نے انہیں ثقہ کہا ہے ، امام بخاری نے ان کے واسطے سے سات حدیث ذکر کی ہیں ، اور امام مسلم نے ان کے واسطے سے 167 احادیث روایت کی ہیں ، رہی بات ابن معین کے قول کی تو وہ ابراہیم بن جنید نے بیان کیا ہے جس کی ان آئمہ کی توثیق کے بعد کوئی حیثیت نہیں ۔
تو دوستو! ثابت ہوا صحیح مسلم کی یہ دونوں روایات بلکل صحیح ہیں ، اور ان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انہی عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے دجال کے قتل کے لئے آنا ہے جن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی رات ملاقات ہوئی ، اور جن کی شکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہ بتائی تھی ۔