یہ بالکل غلط اور جھوٹا اعتراض ہے ۔
افسوس ہے کہ بارہا جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ نامکمل حوالہ دیکر اعتراض کر دیا جاتا ہے ۔ یہ اعتراض بھی ایسا ہی نامکمل حوالے کا شاخسانہ ہے۔
یہ ایسی ہی طرز کا اعتراض ہے کہ جس طرح کوئی قرآن کریم کی آیت’’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ‘‘(النساء ) کا حوالہ دیکر کہدے کہ نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے، جبکہ اس کے بعد ’’وَاَنْتُمْ سُکٰرٰ ی ‘‘(جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو)کے الفاظ نہ پڑھے۔اس اعتراض میں کس طر ح تحریف اور بہتان سے کام لیا گیا ہے اس کا اندازہ ان کی پیش کردہ معترضہ عبارت سے لگا یا جاسکتا ہے۔مندرجہ بالا مراسلے میں جو حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے :۔
“حضرت مسیح موعودؑولی اللہ تھے۔اور ولیا ء اللہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔”
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مؤ رخہ31اگست1938ء)
الفضل کا نا مکمل حوالہ دے کر یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔نعوذباللہ من ذالک ۔
حقیقت حال یہ ہے کہ معترضہ عبارت دراصل ایک منافق کی ہے جس نے جماعت احمدیہ کےدوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بہت سے گمنام خطوط لکھے جن میں اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات کیے۔اسی کے ایک خط کو حضرت صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں پیش کیا ۔آپ نے فرما یا کہ ایک طرف یہ شخص اپنے اخلاص کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف سلسلہ سے دشمنی کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ اور آپؓ پر اس قسم کے بے ہودہ الزام لگا کر کرتا ہے۔خطبہ کےمکمل اصل الفاظ یہ ہیں:۔
“اس قدر اعتراضات کرنے کے با وجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہوا ہوتا ہے۔اور لکھا ہوتا ہے ۔ہم سلسلہ کے خادم ہیں۔مگر اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہوا ہے۔اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ(یہاں سے اس شخص کے الفاظ شروع ہوتے ہیں ۔ناقل) حضرت مسیح موعودولی اللہ تھے۔اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔(یہاں اس کے الفاظ ختم ہوئے۔ناقل)اس اعتراض سے پتہ لگتا ہے۔کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے۔اس لئے کہ ہما را حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے ۔مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں۔تو جب کو ئی شخص ایک سچائی پر اعترا ض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچا ئیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے۔”
(الفضل مؤ رخہ31اگست1938ءص6)
اور اگر غور سے پڑھا جائے تو مندرجہ بالا حوالہ سے بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ یہ عبارت اس منافق کی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی عبارت کی کیا حیثیت ہو سکتی ہےکیونکہ منافقین ہمیشہ انبیاء و رسولوں کے مشن کو نقصان پہنچا نے کے لئے ہر حد پار کر جاتے ہیں ۔اور حوالہ دینے والے کی دیانت یہ ہے کہ انہوں نے حوالہ میں "پھر لکھا ہے "کے الفاظ کلیتا ختم کر دئیے ہیں۔