• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزاقادیانی اپنے کردار کے آئینے میں

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
تحریر:عبیداللہ لطیف فیصل آباد
Email # ubaidullahlatif@gmail.com cell#0313-6265209,0304-6265209

عنوان :۔ مرزاقادیانی اپنے کردار کے آئینے میں

مفتی صادق نامی شخص مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید خاص تھا۔ اس کے مرزا کے ساتھ تعلقات اور قربت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا قادیانی نے اصحاب بدر کے مقابل اپنی جماعت کے 313لوگوں کی ایک فہرست مرتب کی جس میں چونسٹھویں نمبر پر مفتی صادق کا نام موجود ہے اور اس مفتی صادق کو مرزا قادیانی نے قادیانی مذہب کا مفتی مقرر کیا ہوا تھا۔ مفتی صادق قادیانی نے مرزا قادیانی کے حالات پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام اس نے ’’ذکر حبیب‘‘ رکھا۔ اس میں مفتی صادق اپنے اور مرزا قادیانی کے تھیٹر یعنی سینما جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امرتسر جانے کی خبر سے بعض احباب بھی مختلف شہروں سے وہاں آ گئے۔ چنانچہ کپورتھلہ محمد خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب بہت دنوں وہاں ٹھہرے رہے ۔ گرمی کا موسم تھا۔ منشی صاحب اور میں ہر دو نحیف البدن اور چھوٹے قد کے آدمی ہونے کے سبب ایک ہی چار پائی پر دونوں لیٹ جاتے تھے ۔ ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا، جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا۔ صبح منشی ظفر صاحب نے میری عدم موجودگی کی حضرت صاحب (مرزا قادیانی) کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات کو تھیٹر چلے گئے تھے۔ حضرت صاحب نے فرمایا: ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے۔ ‘‘
(بحوالہ ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 18)
محترم قارئین ! کیا کوئی شریف آدمی یہ پسند کرے گا کہ اس کے کمرے میں اور اس کی موجودگی میں کوئی غیر عورت کپڑے اتار کر غسل کرنا شروع کر دے اور وہ نہ تو اسے اس قبیح حرکت پر روکے اور نہ ہی خود وہاں سے ہٹے۔ بلکہ اس کمرے میں ہی بیٹھا رہے اور اس وقت کوئی تیسرا فرد بھی وہاں موجود نہ ہو۔ یقیناًایسی بات کو کوئی شریف آدمی پسند نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نبی کریم علیہ السلام نے غیر محرم عورت اور مرد کو ایک چارپائی پر اکٹھے بیٹھنے سے بھی منع فرما دیا اور کسی بھی غیر محرم مرد اور عورت کو خلوت میں اکیلے رہنے سے بھی منع فرمایا ہے، بلکہ فرمایا کہ اگر دو غیر محرم مرد وعورت اکٹھے ہوں تو تیسرا وہاں ان میں شیطان ہوتا ہے۔ آئیے ذرا مفتی صادق صاحب ہی کی زبانی مرزا قادیانی کے کردار کو ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ ایسا شخص شریف انسان کہلانے کابھی حق دار ہے:
’’حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی سی عورت بطور خادمہ رہا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے کیا حرکت کی کہ جس کمرے میں حضرت صاحب (مرزا قادیانی) بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے وہاں ایک کونے میں کھرا تھا جس کے پاس پانی کے گھڑے رکھے تھے۔ وہاں اپنے کپڑے اتار کر اور ننگی بیٹھ کر نہانے لگی۔ حضرت صاحب اپنے کام تحریر میں مصروف رہے اور کچھ خیال نہ کیا کہ وہ کیا کرتی ہے ۔ جب وہ نہا چکی تو ایک اور خادمہ اتفاقاً آ نکلی اس نے اس نیم دیوانی کو ملامت کی کہ حضرت صاحب کے کمرے میں اور موجودگی کے وقت تو نے یہ کیا حرکت کی تواس نے ہنس کر جواب دیا: ’’انھوں کچھ دیدا ہے‘‘ یعنی اسے کیا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(بحوالہ ذکرحبیب از مفتی صادق صفحہ 38)
محترم قارئین ! نبی کریم علیہ السلام جب عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے تو وہ بھی پردے کے پیچھے سے لیکن نبی آخر الزمان کا ظل وبروز ہونے کا دعوے دار اس کے برعکس غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوایا کرتا تھا۔ جس کا تذکرہ مرزا قادیانی کے فرزند مرزا بشیر احمد نے اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں جواس نے مرزا کے حالات زندگی پر حدیث کی طرز میں لکھی ہے، میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ مرزا بشیراحمد اپنے باپ کے حالات زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ مجھ سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔ بسااوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی۔ مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی، بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔ دو دفعہ ایسا موقعہ ہاتھ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقعہ ملا۔ پھر بھی اسی حالت میں مجھ کو نہ نیند ، نہ غنودگی اور نہ تھکان و تکلیف محسوس ہوئی، بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا۔ (موقعہ جو ایسا تھا) اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لیے بھی اسی طرح گزارنی پڑیں۔ تو حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے (آخر کیوں) اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے ۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 789روایت نمبر910طبع چہارم)
’’ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی۔ ایک رات جب کہ خوب سردی پڑ رہی تھی حضور کو دبانے بیٹھی۔ چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی اس لیے اسے یہ پتا نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی:’’ہاں جی تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں ایں۔‘‘ یعنی جی ہاں جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تواس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمھاری حس کمزور ہو رہی ہے اور تمھیں پتا نہیں لگا کہ کس چیز کو دبار ہی ہوں۔ مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھانو مذکورہ قادیان کے ایک قریب کے گانوں میں بسرا کی رہنے والی تھی اور اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھی مخلصہ اور دیندار تھی۔‘‘
(سیرۃ المہدی از مرزا بشیر احمد جلد اول صفحہ 722روایت نمبر780طبع چہارم)
’’برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ایک دن آپ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی۔ کئی طرح کے پھل لیچیاں، کیلے، انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دیے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ، ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضور نے امان جان کر فرمایا کہ برکت کی دوائی برنم دے دو۔ اس کے رحم میں درد ہے۔ (ایکسٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی۔ حضور نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روزصبح پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔ ‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول ص 214 روایت نمبر1350طبع چہارم )
’’ برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریربیان کیا ہے کہ ’’میں تیسری بار قادیان میںآئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ برکت بی بی ! لو یہ درثمین پڑھا کرو۔‘‘
دواپینے کے بعد مجھے حمل ہو گیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا ہے ۔ میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا ، میں نفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی : یااﷲ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی۔ حضور کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی: حضور مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضور کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسوس کرتی ہوں حالانکہ نہیںآنی چاہیے، کیونکہ حضور تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آپ سے عرض نہ کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔‘‘پھر میں نے حضور کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔ حضور نے فرمایا: ’’کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔‘‘ میں لے آئی ،آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’وہ جوعورت ایسا خواب دیکھے تو اگر حاملہ ہے تو لڑکا پیدا ہوگا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘میں نے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دو اور دعا سے حمل ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء اﷲ لڑکا پیدا ہوگا۔ ‘‘
(سیرۃ المہدی جلد دوم ، صفحہ 214 روایت نمبر51طبع چہارم)
’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحب نے کہ ایک دفعہ جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمھارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیںآئے اور چونکہ تمھارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں ۔ اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنری کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرمایاتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین ادھر ادھر پھراتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلے پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیامگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے رہے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء 1868 کا واقعہ ہے۔
(سیرۃ المہدی روایت نمبر49جلد اول صفحہ 38طبع چہارم)
’’ بیان کیا حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے ، سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی کے ساتھ ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اورپھر غیر، ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تونہیں کہتا، آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں، بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا: جاؤ جی، میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم سر نیچے ڈالے میری طرف آئے، میں نے کہا: مولوی صاحب ! جواب لے آئے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 56 روایت نمبر77طبع چہارم)
محترم قارئین ! آپ نے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کے کردار کی جھلکیاں قادیانیوں کی اصل کتب کے حوالے سے ملاحظہ کر لیں کہ کس طرح ساری ساری رات غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوانا اور تبر ک دینا، لوگوں کو بلیک میل کرکے ان کی بچیوں سے نکاح کی ناکام کوشش کرنا اور کمرے میں غیر محرم عورت کے برہنہ ہو کر غسل کرتے وقت اسے اس بے غیرتی سے منع کرنے کی بجائے خود وہیں بیٹھے رہنا، کس چیز کی عکاسی کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی بیوی کو ریلوے اسٹیشن پر لے کر بے پردہ ٹہلتے رہنا اور بیوی بھی وہ جسے قادیانی ذریت ام المومنین کہتی ہے، کے ساتھ دیوثیت کا بھرپور مظاہرہ کرنے والا بے غیرت شخص بنی یا ولی تو دور کی بات ہے شریف انسان کہلانے کا بھی حق دار ہو سکتا ہے؟ محترم قارئین ! قادیانی کذاب پرلے درجے کابے غیرت ہی نہیں بلکہ شرابی بھی تھا اور شراب بھی اعلیٰ درجے کی ولایتی پیا کرتا تھا، جسے ٹانک وائن کہتے ہیں۔ لہٰذا مرزا قادیانی کا مرید خاص حکیم محمد حسین قریشی اپنی کتاب ’’خطوط بنام غلام‘‘ میں مرزا قادیانی کا ایک خط تحریر کرتا ہے جو درج ذیل ہے:
’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔ میں اس وقت میاں یا رمحمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلوجہ کی دکان سے خرید دیں۔ گھر ٹانک وائن چاہیے۔ اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
(خطوط امام بنام غلام ص 5مجموعہ مکتوبات مرزا غلام احمد قادیانی صاحب
بنام حکیم محمد حسین قریشی صاحب قادیانی مالک دواخانہ رفیق الصحت لاہور)
 
Top