• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مرزاقادیانی کو اختیار ہے، مگر قومی اسمبلی کو نہیں؟)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کو اختیار ہے، مگر قومی اسمبلی کو نہیں؟)

محضرنامے میں دونوں طرف سے اس طرح کے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو یہ اختیار ہے یا نہیں ہے۔ یہ نہایت اہانت آمیز اور اشتعال انگیز سوال ہے، خصوصاً ایسے لوگوں کی طرف سے کہ جن کے نزدیک… میں یہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا… لیکن انگریزوں کا ایک خود کاشتہ پودا جو خود اقبالی طور پر انگریزوں کی مخبری کرتا رہا۔ ایک کچہری کا اہلمد، 2875اس کو تو یہ اختیار ہے کہ وہ ۷۵کروڑ آدمیوں کو کافر قرار دے دے، اس کے بیٹے کو یہ اختیار ہے کہ وہ دنیا کے ۷۵کروڑ مسلمانوں کو کافر قرار دے دے، اور یہ چھ کروڑ مسلمانان پاکستان کی نمائندہ اسمبلی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اپنے رائے دہندگان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے قانونی شکل دے دے۔ میرے پاس، شاید اور ممبران کے پاس بھی بہت سے خطوط ایسے آئے ہوں گے۔ جن میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ آپ اسمبلی کو دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں کہ کون مسلمان ہے، کون مسلمان نہیں ہے؟ کل وہ کہیں گے سود جائز ہے، نہیں ہے جائز۔ حالانکہ میرے نزدیک مسئلے کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ میں بھی اسمبلی کو دارالافتاء کی حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں اور نہ یہ اسمبلی ایسے ارکان پر مشتمل ہے کہ جنہیں فتویٰ دینے کا مجاز ٹھہرایا جائے۔ لیکن یہاں فتویٰ دینے کی بات نہیں ہے۔ ہمارے فتویٰ دینے نہ دینے سے اس مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر آج ہم کہہ دیں ہم آج کہہ رہے ہیں کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج تک وہ غیرمسلم نہیں تھے، مسلمان تھے۔ پاکستان کے سارے مسلمان انہیں غیرمسلم سمجھتے رہے۔ وہ ہم کو غیرمسلم سمجھتے رہے اور عالم اسلام جیسے جیسے باخبر ہوتا جارہا ہے وہ ان کو غیرمسلم سمجھ رہا ہے، اور یہ تو پہلے ہی دن سے سب کو غیرمسلم سمجھ رہے تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ عوام جس چیز کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔ حالات نے اس کو اتنی اہمیت دے دی کہ وہ اپنے نمائندوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کو دستوری اور قانونی شکل دے دی جائے۔ صرف اتنی بات ہے۔ اپنے دستور میں، قرارداد مقاصد میں ہم نے یہ کہا کہ دنیا کی حاکمیت صرف اﷲ وحدہ، کے لئے ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم نے وہ حاکمیت دی ہے۔ نعوذ باﷲ! وہ تو تھی ہی، لیکن ہم نے ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اسے مناسب سمجھا، ضروری سمجھا کہ ہم اس کو اپنے دستور میں بہت ہی نمایاں طور پر جگہ دیں۔ تو ہم یہاں کوئی فتویٰ 2876دے رہے ہیں۔ بلکہ ایک مسلمہ اور ثابت شدہ حیثیت جو مسلمانان پاکستان اور مسلمانان عالم کے نزدیک بالکل معین ہے۔ قطعی ہے اور اس کا اس لئے قانونی اور دستوری طور پر اعتراف کرنا ہے اور وہ حالات نے اس لئے ناگزیر کر دیا ہے کہ رفتہ رفتہ پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ خود ملک کی سالمیت کو اور اس کے مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اس مسئلے کا جو حل عام طور پر اس ہاؤس میں تمام لوگوں نے اور اس ریزولیوشن میں جس میں میرے بھی دستخط ہیں۔ ہم نے تجویز کیا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے… جیسے یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس طرح کا مسئلہ اس ماحول میں کبھی عالم اسلام میں پیش نہیں آیا۔ یہ نہیں ہے کہ کذاب نہیں اٹھے۔ وہ تو شروع ہی سے آتے رہے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی اس طرح کا کوئی فتنہ نمودار ہوا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ صورت ہوئی کہ مسلمانوں کی عین بیچارگی اور محکومی کے زمانے میں انگریزوں نے یہ خود کاشتہ پودا لگایا۔ مسلمان اس پر قادر نہیں تھے کہ اس فتنے کو اسی وقت ختم کرسکتے۔ وہ اس کی آبیاری کرتے رہے اور یہ پودا بڑھتا رہا۔ پھلتا رہا، پھولتا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی مسلسل کوشش رہیں، لیکن چونکہ انگریزوں کے زمانے میں وہ اس حد تک قابو یافتہ ہوچکے تھے اور پاکستان بننے کے بعد اس مملکت کو شاید ایک دن بھی چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا۔ مسائل پہ مسائل آتے رہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے متعدد بار اس کی کوشش کی۔ اب یہ فتنہ اس طرح نمایاں ہوکر ابھرا ہے کہ بہرحال حل کرنا ہے۔ اس کا منفرد ہونا اس اعتبار سے کہ ویسے تو مسیلمہ کذاب کے وقت سے لے کر اور بڑے بڑے کذابین جو تھے ان میں پچھلے دور میں بھی پچھلی صدی میں انہی کے تقریباً ہم عصروں میں علی محمد باب اور بہاء اﷲ بھی ابھرے۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انہوں نے اتنی دیانتداری کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے سارے خدائی کے، پیغمبری کے، سارے دعوے کرنے کے بعد انہوںنے یہ کہہ دیا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ ان سے ایک طرح کا جھگڑا ختم ہوگیا۔ 2877ہمارے یہاں یہ مصیبت ہے کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے قلعے میں نقب زنی کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ مسلسل ہوتی جارہی ہے۔
تو اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے اور اس مسئلہ کا حل بھی جو ہم نے تجویز کیا ہے اور ہاؤس کا سنس (Sense) بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو وہ فیاضی کی جانب غلطی ہے، رواداری کی جانب غلطی ہوسکتی ہے۔ کوئی ملت، کوئی قوم، کوئی امت اس کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے نبی کا، اس کے پیشوا کا اس طرح استخفاف کیا جائے اور اس طرح کی تذلیل کی جائے، نعوذ باﷲ! توہین کی جائے اور ایک ایسی مملکت جو کروڑوں انسانوں کی قربانی کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ اس میں وہ سرنگ لگاتے رہے، اس کو نیست ونابود کرنے کی فکر کرتے رہے اور ہم صرف یہ تجویز کریں کہ انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ جس کا مطالبہ یہ خود کرتے رہے اور اپنے طرز عمل سے، جیسے ابھی میرے پہلے فاضل مقرر نے فرمایا ہے۔ وہ خود اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرتے رہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ لیکن پھر کیوں یہ سیاسی حیثیت سے ایک یونٹ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک توضیح علامہ اقبال نے اپنے معرکتہ الاراء مضمون میں یہ کی تھی کہ ابھی ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ یہ اپنے عزائم کو پورا کر سکیں۔ یہ ۱۹۳۴ء کی بات ہے۔ ابھی ان کی اتنی تعداد نہیں کہ یہ اسمبلی میں ایک سیٹ حاصل کر سکیں۔ اس لئے یہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اس دوران میں رفتہ رفتہ… انگریز کا مفاد تو تھا ہی کہ عالم اسلام کو پارہ پارہ کیا جائے۔ جیسے جیسے ہندوستان کی آزادی کی تحریک آگے بڑھتی گئی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی آویزش سامنے آتی گئی، ہندوؤں کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہو گیا کہ مسلمانوں کا ذہن اس مرکزیت کی طرف سے ہٹا دیا جائے اور یہاں جو ایک نیا کعبہ بن رہا ہے۔ نیا مکہ مدینہ بن رہا ہے۔ اس پر مرکوز کر دی جائے مسلمانوںکی نظر، تاکہ عرب سے، عالم اسلام سے، مکہ مدینہ سے، پوری 2878برادری سے ان کا سلسلہ منقطع ہو جائے۔ چنانچہ جیسا کہ اس متفقہ جواب میں ڈاکٹر شنکر داس کا مضمون شائع ہوا ہے اور اس کو میں دھرانا نہیں چاہتا۔ لیکن اس کا ماحصل یہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کے دور میں وہ لکھاگیا تھا کہ یہاں مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کی ایک ہی شکل ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرزائیت کو فروغ دیا جائے۔ جیسے جیسے اسے فروغ حاصل ہوگا۔ مسلمانوں کے اندر وہ بین الاسلامی اور بین الملّی ذہنیت ختم ہوتی جائے گی اور وہ یہ تصور کرنے لگیں گے کہ ہمارا مکہ مدینہ، ہمارا کعبہ سب کچھ یہیں ہے، اور اسی رخ پر کام ہوتا رہا۔
اب صورتحال یہ ہے اور اس کا انہوں نے خود اعتراف کیا ہے، مرزاغلام احمد صاحب نے، اور یہ اقتباسات چونکہ آگئے ہیں اس لئے میں ان کو دھرانا نہیں چاہتا کہ: ’’ہمارے اور غیراحمدیوں کے درمیان‘‘ اور غیراحمدیوں سے مراد غیرمسلم ہوتے ہیں ان کے ہاں، کوئی فروعی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا خدا، ہمارا رسول، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہر چیز جدا ہے۔ شادی، غمی، کسی چیز میں ہمیں شرکت نہیں کرنی ہے۔ یہ اقتباسات چونکہ بہت سے دوستوں کی تقریروں اور بیانات میں بھی آگئے ہیں اور سوال وجواب کے دوران میں بھی آگئے ہیں۔ اس لئے میں ان اقتباسات کو نہیں پڑھتا۔ تو یہ صورت چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کے بارے میں اﷲ کا تصور تو بہرحال ہمارے ہاں جو ہے اس کے ہوتے ہوئے نہ کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں عین خدا ہوگیا اور میں نے قضا وقدر کے احکام پر دستخط کردئیے۔ یا یہ کہ خدا مجھ سے ہے۔ میں خدا سے ہوں، میں خدا کا بیٹا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سی چیزیں ہیں۔ رسول کا جہاں تک تعلق ہے یہ اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہوا۔ وحی منقطع ہوگئی۔ جبرائیل کا آنا ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ لیکن انکے نزدیک جو رسول کا تصور ہے وہ ان تمام سوال وجواب کے دوران آچکا ہے اور اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تصور نبی اور تصور رسول سے۔ جہاں تک خدا کا تصور ہے سارے مذاہب اس میں مشترک ہیں۔ لیکن امت کی تشکیل ہوتی ہے نبی 2879کے گرد۔ جتنے نبی ہیں اتنی امتیں ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی الگ امت ہے۔ مرزاغلام احمد کی ایک الگ امت ہے اور ایک عرصہ تک وہ اسے چھپاتے رہے۔ لیکن پھر انہوں نے اس کا اپنی تحریروں میں اظہار بھی شروع کر دیا کہ جو شخص اپنی امت کو کچھ قوانین دے، اوامر ونواہی دے، تو کئی اقتباسات ایسے ہیں جو اس میں شامل ہوچکے ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک الگ امت قرار دیا۔
اس طرح مسلک اور مکتب فکرکا اختلاف تو مسلمان امت میں ہے۔ لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے دین سب کے نزدیک ایک ہے اور وہ اسلام ہے اور قرآن کریم کی آیت کی رو سے ’’ان الدین عند اﷲ الاسلام‘‘ اﷲتعالیٰ کی طرف سے دین جو ہے وہ اسلام ہے۔ لیکن مرزاغلام احمد صاحب کا دعویٰ ہے کہ جو وہ دین لے کر آئے ہیں۔ ’’دین‘‘ کا لفظ استعمال کیا… جو دین وہ لے کر آئے ہیں، اﷲ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو فروغ دے گا۔ اس طرح قرآن کریم کے متعلق، دین کے متعلق، ان کا اقتباس یہ ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے اس آخری صداقت کو قادیان کے ویرانے میں نمودار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو فارسی النسل ہیں اس اہم کام کے لئے منتخب فرمایا۔ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ زور آور حملہ اوروں سے تیری تائید کراؤں گا اور جو دین تو لے کر آیا ہے اسے تمام دیگر ادیان پر بذریعہ دلائل غالب کروں گا اور اس کا غلبہ دنیا کے آخر تک قائم رکھوں گا۔‘‘ یہ تو دین ہے۔، پھر آگے فرماتے ہیں۔ ’’پہلا مسیح صرف مسیح تھا۔ اس لئے اس کی امت گمراہ ہوگئی اور موسوی سلسلے کا خاتمہ ہوا۔ اگر میں بھی صرف مسیح ہوتا تو ایسا ہی ہوتا۔ لیکن میں مہدی اور محمد ﷺ کا بروز بھی ہوں۔ اس لئے میری امت کے دو حصے ہوں گے۔ ایک وہ جو مسیحیت کا رنگ اختیار کریں گے وہ تباہ ہو جائیں گے اور دوسرے وہ جو مہدوی رنگ اختیار کریں گے۔‘‘ تو گویا اس طرح کئی جگہ اپنے آپ کو ایک الگ امت قرار دیا ہے۔ ایک الگ دین، 2880ایک الگ امت، خدا کا الگ تصور، رسول کا الگ تصور۔ قرآن کے بارے میں ان کے صاحبزادے جانشین میاں بشیر محمود صاحب فرماتے ہیں کہ ’’نبی شرعی ہو یا غیرشرعی ایک ہی مقام پر ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو غیرشرعی کہتے ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لایا۔ ورنہ کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا جو شریعت نہ لائے۔ ہاں بعض نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض پہلی شریعت کو ہی دوبارہ لاتے ہیں اور شرعی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے کلام لائے اور رسول اﷲ ﷺ تشریعی نبی ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ قرآن پہلے لائے اور حضرت مسیح موعود غیرتشریعی نبی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے… اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ پہلے قرآن نہیں لائے۔ ورنہ قرآن تو آپ بھی لائے۔ اگر نہ لائے تھے تو خداتعالیٰ نے کیوں کہا کہ اسے قرآن دے کر کھڑا کیا۔‘‘
اس کے بعد ان پر جو وحی آتی تھی اسے ان کے پیروؤں نے ’’کتاب المبین‘‘ کے نام سے مدون کیا۔ جیسے کہ قرآنی آیات جو رسول اﷲ ﷺ پر نازل ہوتی تھی اس کے مجموعے کا نام قرآن ہوا، اسی طرح سے جو آیات مرزاغلام احمد صاحب کے اوپر نازل ہوتی تھی ان کے مجموعے کا نام کتاب المبین ہوا۱؎۔ اب قرآن کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ حدیث کا درجہ ہمارے تمام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ قادیانیوں نے اپنے خانہ زاد نبی مرزاقادیانی کی وحی کے مجموعہ کو ’’تذکرہ‘‘ کے نام سے شائع کیا اور اب بھی اسی نام سے متواتر شائع کر رہے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلمانوں کے نزدیک یہ ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سب سے زیادہ قوی حجت، سب سے زیادہ معتبر چیز حدیث ہے۔ مرزاغلام احمد کے نزدیک حدیث کا تصور یہ ہے۔ ’’جو حدیث ان کی وحی سے نہ ٹکراتی ہو اس کو چاہیں تو وہ لے لیں اور اس کو صحیح قرار دے دیں اور جو ان کو نہ پسند ہو تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔‘‘ یہ ان کے الفاظ ہیں۔ یہ اقتباس میرے خیال میں آچکا ہے۔ اس لئے میں اسے طوالت نہیں دینا چاہتا۔ وحی کے متعلق یہ صورت ہے دونوں جماعتیں قادیانیوں کی برابر مرزاصاحب پر جو کچھ بھی نازل ہوتا رہا اسے وحی کہتی رہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے 2881کہ وحی رسول اﷲ ﷺ پر ختم ہوگئی ہے۔ وحی ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ جس کے انگریزی ڈکشنریوں میں بھی معنی مل جاتے ہیں، عربی میں بھی مل جاتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ اﷲ کا وہ کلام جو وہ اپنے نبیوں پر نازل کرتا ہے تو وحی کا تصور بھی ہمارا اور ان کا مختلف ہے۔ صحابہؓ کی تعریف ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جن لوگوں نے حالت ایمان میں رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ لوگ اور وہ لوگ جنہوں نے مرزاغلام احمد کو دیکھا۔ ہم ام المؤمنین صرف آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو کہتے ہیں۔ وہ مرزاغلام احمد کی بیویوں کو بھی ام المؤمنین کہتے ہیں۔ جو ایک دل آزار قسم کی اہانت ہے مسلمانوں کے لئے جس کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ اس کے بعد ہمارے عام مسلمانوں میں مسیح کا تصور اور ہے، مہدی کا تصور اور ہے۔ یہ دونوں الگ شخصیتیں ہیں۔ حضرت مسیح کے نزول کے وقت امام مہدی جو امت محمدی میں سے ہوں گے وہ پہلے نماز کی امامت کریں گے۔ لیکن یہاں انہوں نے دونوں حیثیتوں کو یکجا کر لیا ہے اور یہ ان کے ڈانڈے بابیوں سے مل جاتے ہیں۔ علی محمد باب نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ مجھ سے پہلے آنحضرت ﷺ اور حضرت علی کرم اﷲ وجہ الگ شخصیتیں تھیں۔ میں ان دونوں کا جامع ہوں، تو اسی طرح سے یہ ہے۔ خیر، یہ تو سارے پیغمبروں کی حیثیات کا جامع ہیں اور رفتہ رفتہ پھر خود رسول اﷲ ﷺ کے بروز بن کر کے اٹھے اس طرح اصحاب صفہ ہمارے ہاں مستقل اصطلاح ہے اور رسول اﷲ ﷺ کے وہ جان نثار ساتھی جو شب وروز دین کی تبلیغ کے لئے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اور بھوکے پیاسے رہ کر دین کی خدمت کے لئے آپ کے پاس حاضر رہتے تھے۔ ان کے ہاں اصحاب صفہ وہ ہیں جو اس وقت قادیان میں مقیم ہیں۔ حج کے متعلق کافی کچھ آچکا ہے کہ اب اﷲتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔ وہاں ظلی حج ہوتارہے گا۔ درود کے متعلق سوال جواب کے دوران میں نے رسالے کی فوٹوسٹیٹ کاپی شامل کی۔اس پر انہوں نے انکار کیا۔ بہرحال یہ وہی درود 2882نہیں ہے۔ بلکہ ابھی مرزاغلام احمد کی ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے جو شائع ہوئی ہے اس میں بھی اور دوسرے بیانوں میں بھی وہ درود اس طرح ہے:
’’ اللہم محمد واحمد …‘‘ بہرحال یہ انکار درود ہے۔
 
Top