• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مرزاقادیانی کی بدزبانی)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کی بدزبانی)
یہاں اس (مرزاناصر احمد) نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں کہا گیا۔ بلکہ عیسائیوں کے متعلق ہے۔ میں پورے احترام کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ایک نبی کی زبان ہوسکتی ہے؟ خواہ وہ عیسائیوں یا ہندوؤں کا کسی اور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ میں مزید کچھ اور عرض نہیں کرنا چاہتا۔ ایسی زبان استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بالکل نہیں۔ اسی طرح وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔‘‘
یہ حوالہ بھی ’’روحانی خزائن‘‘ ج۹ ص۳۱ سے ہے۔ درحقیقت یہی زیادہ نازیب، اشتعال انگیز اور فتنہ اٹھانے والی بات تھی کہ ایک ایسا شخص جو اپنے آپ کو عین محمد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویدار ہو۔ وہ اپنے مخالفین خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی کے لئے ایسی زبان استعمال کرے۔ (مرزاغلام احمد کے دعوے کے مطابق) اﷲتعالیٰ نے نبیوں کے تمام کمالات کا مظہر اس کی ذات کو بنایا تھا اور یہ ہیں وہ کمالات جن کا مظاہرہ مرزاغلام احمد نے کیا۔ مجھے اس موضوع پر مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔
جناب والا! یہی دور تھا کہ مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلم کھلا توہین شروع کر دی۔ پہلے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا:
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے‘‘
(دافع البلاء ص۲۰،خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
مرزاناصر احمد نے اس کے جواز میں یہ وضاحت کی کہ یہ بات مرزاغلام احمد نے اپنے بارے میں نہیں کی۔ بلکہ غلام احمد (یعنی حضرت محمد ﷺ کے غلام) کے بارے میں کی تھی۔ ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمام انبیاء واجب الاحترام ہیں۔ اس ضمن میں تمام انبیاء برابر ہیں۔ کیونکہ وہ سب ہی اﷲ کے رسول ہیں۔ لیکن ایک یہ شخص مرزاغلام احمد ہے۔ جو کہتا ہے کہ وہ (نعوذ باﷲ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہے اور جواز یہ دیتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا ہر غلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہے۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے عقیدے کا کوئی جواز ہوسکتا ہے۔ لیکن مرزاغلام احمد آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے:
’’خدا نے اس امت میں مسیح بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘
یہ حوالہ (ریویو آف ریلجس) ص۴۷۸، نیز حقیقت الوحی ص۱۵۲ اور اب ’’روحانی خزائن ‘‘ ج۲۲ ص۱۵۳ سے ہے۔ جہاں پر اور کہتا ہے: ’’مجھے قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ میں ظاہر ہورہے ہیں ہرگز نہ دکھلا سکتا۔‘‘
چلئے! وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کا دعویدار ہے۔ یہ بھی بہت بری بات ہے۔ لیکن اس نے (ادبی لحاظ سے) ایک عمدہ شو بھی کیا ہے۔ مجھے امید ہے میں غلط نہیں کہہ رہا۔
’’اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابنہد پابمنبرم‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
اب یہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کی ان بلندیوں کو پہنچا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ باﷲ) اس کے ممبر کے پائے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ حالت یہ ہے کہ اس کے بعد وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں پر تنقید کرتا ہے۔ مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ا س کا جواز یہ دیاگیا کہ اس زمانے میں چونکہ عیسائی حضرت محمد ﷺ پر حملے کرتے تھے تو اس کے مقابلے یہ جواب مرزاغلام احمد اور اس وقت کے دیگر مسلم علماء نے دیا۔ لیکن یہ کوئی جواز نہیں ہے۔ اس زمانے میں بھی ایسی باتیں کرنے پر مرزاغلام احمد پر تنقید کی گئی تھی۔مرزاغلام احمد کہتا ہے:
’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
وہ مزید کہتا ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانیاں اور دادیاں کنجریاں تھیں۔ اس لئے جدی مناسبت ہے۔ وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) فاحشہ عورتوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ (نعوذ باﷲ من ذالک) جناب والا! یہ ہے وہ کچھ جو کہ مرزاغلام احمد کہتا ہے۔ جب میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ وہ اس تحریر کو کس طرح درگزر کر سکتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تحریر اس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ بلکہ یہ تحریر اس یسوع مسیح کے بارے میں ہے جو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ جب سب نے مرزاناصر احمد سے کہا کہ یہ دو الگ الگ ہستیاں نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ہی ہستی ہے جو نبی ہے اور اس سے پوچھا کہ کیا یسوع مسیح کی دادیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں سے مختلف تھیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں نانیوں کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرزاناصر احمد نے اس سوال کا کوئی اور جواب نہیں دیا۔
پھر مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’اور آپ کے ہاتھ میں سوائے مکروفریب کے کچھ نہیں تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
’’ہاں گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی… اور یہ بھی یاد رہے کہ کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
قدرتی طور پر یہ بیانات نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث تھے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے سچے پیغمبر تھے۔ انہیں مرزاغلام احمد کی تنقید بالکل ناپسند تھی۔ میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ یہ کہنا شاید آسان ہے کہ یسوع مسیح اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو مختلف ہستیاں تھیں ۔ ایک کا ذکر بائبل میں ہے اور دوسری کا قرآن میں۔ لیکن آپ کے پاس شیعوں پر تنقید کا کیا جواز ہے؟ مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’مردہ علی کو چھوڑو۔ یہاں تمہارے درمیان زندہ علی موجود ہے۔‘‘
(ملفوظات ج۲ ص۱۴۲)
پھر حضرت امام حسینؓ کے متعلق وہ (مرزاغلام احمد) کیا کہتا ہے۔ مرزاغلام احمد کے پاس یہ کہنے کا کیا جواز تھا کہ توحید معطر ہے اور (نعوذ باﷲ) ذکر امام حسینؓ گندگی کا ڈھیر۔ (اعجاز احمدی ص۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۴) اس (مرزاناصر احمد) نے جواباً کہا کہ مرزاغلام احمد کا مطلب شیعہ تصور کے علی اور شیعہ تصور کے حسین سے تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں میں حضرت علیؓ اور امام حسینؓ کے تصور کے متعلق کوئی اختلاف ہے۔ سب مسلمان ان کے لئے محبت اور احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔ مرزاغلام احمد کے یہی خیالات تھے۔ جن کی وجہ سے تمام مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوچکا تھا۔ یہی جذبات تھے جن کے باعث مرزاغلام احمد پولیس حفاظت کے بغیر کسی جلسہ کو بھی خطاب نہیں کر سکتا تھا۔
 
Top